Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

’’بیٹی مجھے معاف کردو‘‘………. محمد عنصرعثمانی،کراچی

Posted on
شیئر کریں:

بہت سنبھال رکھا ہے۔بہت روک رکھا ہے۔آنکھیں ہیں کہ جھرنے روکتی ہی نہیں۔دھڑکنیں رفتار پکڑ لیتی ہیں ۔احساس و جذبات کی لہریں وہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔پھر دل سے ایک ٹھنڈی آہ نکلتی ہے ، اور میں پرنم آنکھوں کے ساتھ آسمان کی طرف دیکھتا ہوں ، تودور نیلگوں آسماں پہ وہ چلتی ہوئی ، کھیلتی ہوئی نظر آتی ہے ۔اس کا جی بھر کے دیدار کرتا ہوں ،پھر چیخ کر بولتا ہوں آہ میری زینب !
میں سوتا ہوں تو اندھیرے سے نکل کر میلوں طویل میدان میں جا نکلتا ہوں ۔چار سو انسانوں کا سمندر ہے،جو بھاگے چلے جا رہے ہیں ۔کسی کو ہوش نہیں گرمی کا ۔بھوک پیاس کا ۔اپنوؤں ،پرائیوں کا۔رشتہ داروں ،عزیزوں کا۔ایک آواز ہے جو انہیں کھینچ رہی ہے۔ایک روشنی ہے جو سب کی توجہ اپنی جانب کیے جارہی ہے۔میں ،اور مجھ جیسے کئی اس ہجوم کا حصہ بنے چلے جا رہے ہیں۔میں اپنے قریب کئی رنگ ونسل کے انسانوں کو پاتا ہوں ۔مگر میں حیران ہوتا ہوں کہ مجھے کوئی پوچھتاہی نہیں۔مجھے حیرانی سے کوئی تکتا ہی نہیں ۔مجھ سے کوئی نفرت بھی نہیں کرتا ،نہ کوئی لڑائی جھگڑا کرتا ہے۔مجھے بھی پروا نہیں کہ میرے آس پاس کیا ہورہا ہے۔پھر یکایک کئی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔لوگ قطار در قطار ادب سے کھڑے ہوجاتے ہیں ،ایسے جیسے کوئی اللہ کا برگزیدہ بندہ راہ سفر ہو۔میں کئی قطاریں پھلانگ کر آگے جا کھڑا ہوتا ہوں ۔ منظر دیکھتا ہوں تو کچھ نورانی چہروں والے سوار قریب آتے ہیں۔ان کے درمیان سے ایک چاند سا مکھڑا دیکھ کر میں ساکت ہو جاتا ہوں ۔وہ میں کیسے بھول سکتا تھا ، سبز گول آنکھیں،گلاب کی پنکھڑیوں سے ہونٹ ،گلابی گالوں پہ لال لڑیوں کی بناوٹ۔وہ پری پہلے سے کہیں زیادہ حسین لگ رہی تھی۔

zainab
وہ میرے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔سوالوں کا ایک جہاں آباد تھا۔ننھی پری نے سکونت کی زنجیریں توڑیں تو میں اسکے الفاظوں کے جال میں قید ہوتا گیا۔انکل !جواب دو کیا جرم تھا میرا ؟ میرا خون ناحق کیو ں بہایا گیا؟ میرا قاتل کیوں آزاد پھر رہا ہے؟اور میں ساکت وجامد بیٹھا اس کی معصومانہ باتوں کے فریب میں کھو سا گیا تھا۔وہ پہلی دفعہ تو میرے سامنے آئی تھی۔میں نے اسے قریب کرنا چاہا تو وہ دور ہوگئی۔اور غصے سے بولتی چلی گئی: سب مجرم ہیں ۔گلا، سڑا سسٹم مجرم ۔عدالتیں مجرم۔انصاف کا ترازو مجرم ۔سیاسی اقتدار کے گدھ مجرم ۔دھرتی کے خدا مجرم ،جنہوں نے میرے ننھے پروں کو کاٹ دیا۔قاتل ہاتھ ، اور ان ہاتھو ں کو تقویت دیتے انسان نما درندے مجرم ۔حکمراں مجرم ۔علاقے کے سرکاری افسران مجرم ۔قوم پوری مجرم ہے ، میرے پاکیزہ خیالوں کی مجرم ہے۔میرے ماضی ، حال ، مستقبل کی مجرم ہے۔سماج مجرم ہے ۔پالیسیاں اور انتظامی امور میں غفلت برتنے والے نااہل لوگ مجرم ہیں ،کہ جن کی وجہ سے مجھ سمیت کئی معصوموں سے ان کی خوشیاں اچک لی گیں۔
میری سسکی ، خاموشی ،بھی تمہاری بے حسی کو نا جگا سکی۔میری لاش بھی اجتماعی بزدلی کو ختم نا کر سکی۔میری امنگوؤں و آرزوؤں کا جنازہ کیاقوم کی اجتماعی خود کشی کے مترادف نہیں ہے۔جس عمر میں میری مسکراہٹ پہ بہن ،بھائی فدا تھے ، اس مسکان کو چیخوں میں بدل دیا گیا۔میں اپنے آنگن کی تتلی تھی،مجھے مسل دیا گیا۔امی کاچاند ،ابو کی آنکھوں کی ٹھنڈک ،بہن کا کاجل ،بھائی کی جیت کی دعا تھی میں،میرے خوابوں کے گلستاں کو اجاڑ دیا گیا۔مجھ میں ننھی پری سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں تھی۔وہ گویا ہوئی : میں اللہ جی شکایت کرو ں گی ۔اللہ جی مجھے انصاف دیں گے۔اور میں ایک ایک مجرم کو پکڑ پکڑ کر اللہ جی کے دربار میں لاکھڑا کروں گی۔میرے پاس جواب نہیں تھا۔ بس گٹھنوں کے بَل بیٹھا ،پانی کے گرما گرم قطرے گرا رہاتھا۔اور ننھی پری دیکھتے ہی دیکھتے دور کہیں روشنی کے پرنور حساروں میں گم ہو گئی۔بیدار ہوا تو منادی رب ذوالجلال کی بڑائی کی صدائیں لگا رہا تھا۔ننھی پری سے میں بس اتناکہ پایا ’’ بیٹی مجھے معاف کردو ‘‘


شیئر کریں: