Chitral Times

Apr 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

امریکی دھمکیاں اور زمینی حقائق……….. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئیٹر پربیان کے بعد پاک امریکہ تعلقات نازک مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں۔ امریکی صدر نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ پندرہ سالوں میں پاکستان کو 33ارب ڈالر کی امداد دی گئی اور جواب میں پاکستان نے امریکہ کو جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ پاکستان ہمارے رہنماوں کو بے وقوف سمجھتا ہے ہم افغانستان میں شدت پسندوں کا تعاقب کر رہے ہیں اور پاکستان انہیں محفوظ پناہ گاہوں میں رکھتا ہے۔ صدرٹرمپ کے دھمکی آمیز بیان پر امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے ان سے احتجاج کیا گیا اور قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلا کر امریکی صدر کے بیان کی مذمت کی گئی ۔کمیٹی کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکی صدر کی دھمکیوں میں آکرکوئی جذباتی فیصلہ نہیں کرے گا۔ دوسری جانب وزیرخارجہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ امریکی صدر نے ہماری خدمات کے معاوضے کو بھی امداد میں شامل کرکے غلط بیانی کی ہے۔ ہم پائی پائی کا حساب دینے کو تیار ہیں اور دنیا کو بتادیں گے کہ حقیقت اور افسانے میں کیا فرق ہے۔عسکری قیادت کی طرف سے قومی بیانئے پر متحد ہونے اور ممکنہ خطرے کو بھرپور جواب دینے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ ڈونلڈٹرمپ کے ٹوئیٹ کومیڈیا میں اتنا اچھالا گیا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف غیر قانونی اثاثوں کے حوالے سے اہم کیس کی سماعت اور حکومت کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کی خبروں کو دانستہ طور پر دبا دیا گیا۔ بھارتی میڈیا نے بھی امریکی صدر کے بیان کو نمک، مرچیں اور مصالحے لگا کر پیش کرنا شروع کردیا ہے۔ حالانکہ امریکی صدر کے بیان میں کوئی نئی بات نہیں۔ یہی باتیں گذشتہ سترہ سالوں سے امریکہ کی طرف سے کی جاتی رہی ہیں۔جارج بش جونیئر، بل کلنٹن اور بارک اوبامہ سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ تک سب ہی پاکستان سے شاکی رہے ہیں اور ڈو مور کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ امریکی حکام نہ صرف شدت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام لگاکر پاکستان کو خبردار کرتے رہے بلکہ دوہاتھ آگے بڑھ کر امریکہ نے درجنوں مرتبہ پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈرون طیاروں سے میزائل داغے ہیں جن کی زد میں آکر ہمارے سینکڑوں شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ سلالہ پر حملے کا واقعہ زیادہ پرانا نہیں۔ جس کے ردعمل میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے پاکستان کے راستے نیٹو سپلائی بند کردی تھی اور امریکہ کو پاکستانی ہوائی اڈے استعمال کرنے سے منع کیا تھا۔اس بار بھی اگر امریکہ نے اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنایا تو زیادہ سے زیادہ پاکستان کی حدود کے اندر شدت پسندوں کے ممکنہ ٹھکانوں کو ڈرون یا جنگی طیاروں کے ذریعے نشانہ بناسکتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اس کی زیادہ فکر نہیں۔ اصل پریشانی امریکی امداد کی بندش کی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پندرہ سالوں میں امریکہ کی طرف سے فراہم کی گئی 33ارب ڈالر کی امداد کہاں گئی؟جس میں قبائلی علاقوں کی ترقی ، تعلیم کے فروغ، روزگاراور بنیادی شہری سہولیات کی فراہمی کے لئے فراہم کردہ بارہ ارب ڈالر بھی شامل ہیں۔ لیکن اس رقم سے فاٹا میں کوئی یونیورسٹی، ٹیکنیکل کالج ، اسپتال بنایا گیا نہ ہی قبائلی عوام کو روزگار فراہم کرنے کا کوئی منصوبہ شروع کیا گیا۔ ارباب اختیار کو چاہئے کہ امریکہ کو حسابات کا ریکارڈ دینے سے پہلے پاکستان کے عوام کو حساب دیں کہ قوم کی جان و مال اور عزت و آبرو کے نام پر لی گئی امداد کہاں خرچ کی گئی ۔ اگر عوام پر یہ رقم خرچ نہیں ہوئی تو پھر 33ارب ڈالر کی خطیر رقم آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ پاکستان قوم امریکہ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کے بغیر بھی زندہ رہ سکتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کو اس قوم نے کبھی اپنی جنگ تسلیم نہیں کیا۔ اس کے باوجود اسے امریکہ کے ڈرون حملوں اور شدت پسندوں کے بم اور خود کش حملوں کی صورت میں بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ امریکہ کو افغانستان میں عسکری شکست کی ذمہ داری کسی نہ کسی پر ڈالنی ہوتی ہے اس وجہ سے وہ پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب سی پیک کی صورت میں پاک چین اشتراک عمل بھی امریکیوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چھبتا ہے۔غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ سے خود کو الگ کرے اور امریکی امداد پر لعنت بھیج کر خود انحصاری کی حکمت عملی اپنائے۔ ہمارے پاس ترقی کرنے کے تمام لوازمات موجود ہیں۔ ضرورت صرف مخلص قیادت کی ہے۔ خداکرے کہ امریکی دھمکیوں کے بعد ہماری قیادت کی غیرت جاگ جائے اور وہ کشکول اور غیرملکی امداد کی بیساکھیاں توڑ کر اپنے پاوں پر خود کھڑا ہونے کا عزم کرے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
4056