
سال2017۔۔کیا کھویا اور کیاپایا؟ ………..محمد شریف شکیب
سال 2017کا سورج تلخ و شریں یادوں کے ساتھ غروب اور نئے سال کا آفتاب کچھ امیدوں اور کچھ خدشات اپنے دامن میں سمیٹے افق سے نمودار ہوا ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور کے خصوصی حوالے سے اگر ہم خیبر پختونخوا کے حالات و واقعات کا جائزہ لیں۔ تو سال گذشتہ امن و امان اور تعمیر و ترقی کے لحاظ سے کافی بہترثابت ہوا۔ستاون ارب روپے کی لاگت سے پشاور ریپڈ بس ٹرانزٹ منصوبے پر کام شروع کیا گیا۔ جو رواں سال کے وسط تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔جس سے پشاور کے باسیوں کو بہترین سفری سہولیات ملنے کی توقع ہے۔ ہزارہ ایکسپریس وے بھی پایہ تکمیل کو پہنچا۔ سوات ایکسپریس وے پر کام جاری ہے۔ لواری ٹنل کا اگرچہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے افتتاح کردیا اور وہاں سے مقررہ اوقات میں آمدورفت کا سلسلہ بھی جاری ہے تاہم اس میگامنصوبے کو مکمل ہونے میں مزید ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا حکومت کی طرف سے اعلان تو کیا گیامگر خیبر پختونخوا میں بجلی کی آنکھ مچولی بدستور جاری ہے اور اپر چترال جیسے علاقے گذشتہ دو سالوں سے تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔صوبے میں ہڑتالوں، دھرنوں اور ریلیوں کا سلسلہ بھی سارا سال جاری رہا۔ کبھی ینگ ڈاکٹرز، کبھی لیڈی ہیلتھ ورکرز ، کبھی ورکرز ویلفیئر بورڈ کے ملازمین اور کبھی اساتذہ سڑکیں ناپتے رہے۔دہشت گردی کے حوالے سے اگرچہ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کی بدولت تخریبی کاروائیوں میں خاطر خواہ کمی ریکارڈ کی گئی تاہم پانچ خود کش حملوں ، 31بم دھماکوں میں ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ہیڈ کوارٹر اشرف نور سمیت 29پولیس اہلکار اور 36عام شہری لقمہ اجل بن گئے۔زرعی انسٹی ٹیوٹ پر حملہ دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ چھوٹے جرائم کی شرح میں نمایاں کمی آئی تاہم یہ بات پولیس بھی تسلیم کرتی ہے کہ صرف پشاور میں زن، زر اور زمین کے تنازعات پر خواتین اور بچوں سمیت 436افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔کرپشن کے خاتمے، روزگار کی فراہمی، کنٹریکٹ ملازمین کی مستقلی، سرکاری شعبوں میں اصلاحات سمیت مختلف شعبوں کے لئے قانون سازی بھی ہوئی۔ صوبائی حکومت نے عوام کی سہولت کے لئے اپر چترال کو الگ ضلع قرار دینے اور تین سب تحصیلوں کے قیام کا اعلان بھی کیا ۔ جو عوام کی دیرینہ خواہش اور انتظامی ضرورت تھی۔ لیکن ملک میں انیس سال بعد ہونے والی مردم شماری میں چترال، ایبٹ آباد، دیر اور صوابی کی آبادی مقرر حد سے کم ظاہر کرکے ان اضلاع کی ایک ایک صوبائی نشستیں ختم کرنے کا عندیہ دیا گیا تو نئے ضلع کے قیام کی خوشیاں بھی کافور ہوگئیں۔ انتخابی میدان میں بھی کافی گہما گہمی رہی۔ ایم این اے گلزار خان کی وفات سے خالی ہونے والی نشست پر کانٹے کا مقابلہ ہوا۔تاہم اپنی یہ نشست پی ٹی آئی جیتنے میں کامیاب رہی۔اس سال ہونے والے انتخابات کے لئے ابھی سے تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کی بحالی سے خیبر پختونخوا کی سیاست میں کچھ مدوجذر نظر آرہا ہے۔ دینی جماعتوں سمیت تمام ہی پارٹیاں انتخابات میں اپنی کامیابی کے حوالے سے پرامید نظر آتی ہیں۔اے این پی، پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن ، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کو توقع ہے کہ 2013کے انتخابات سے انہیں زیادہ نشستیں ملیں گی۔ لیکن اب تک کسی بڑی سیاسی تبدیلی کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی یہ ظاہر کرتی ہے کہ بہت سی امیدیں بر نہ آنے کے باوجود عوام موجودہ حکومت سے مایوس نہیں ہوئے۔ تبدیلی کے کچھ آثار بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ بعض حکومتی ارکان کی بغاوت کے باوجود حکومت کو توڑنے کی اندرون خانہ کوششیں بیکار ثابت ہوئیں۔ کھیلوں کے میدان سے قوم کے لئے خوش آئند خبر یہ تھی کہ پاکستان نے چمپئن ٹرافی کے فائنل میں بھارت کوعبرتناک شکست دے کر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ دہشت گردی کی آڑ میں پاکستان کو دیوار سے لگانے کی سازشوں کے باوجود ہمارے ٹیلنٹ کو شکست دینے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں منعقد ہونا اور ورلڈ الیون کا دورہ پاکستان بھی قوم کے لئے بڑی خبریں تھیں۔ پانامہ کیس میں سابق وزیراعظم کو سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار دینے کا فیصلہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے بڑے فیصلوں میں شمار ہوتا ہے جس کے مستقبل کی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔