Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم………میر سیما آمان چترال

شیئر کریں:

پاکستان کو بنے ۷۰سال بیت گئے ملک کے تمام سرکاری ونیم سرکاری اداروں میں قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر لگی ہوئی ہے۔مگر اس تصویر کے نیچے بیٹھنے والے کتنے ایسے آفسیرز ہیں جنہیں اس تصویر کو آفس میں لگانے کا مقصد بھی سمجھ آتا ہو؟؟اور اگر سمجھ آتا بھی ہو تو کتنے سرکاری ملاذم ایسے ہیں جو اس مقصد کو مقصدحیات بنا لیتے ہیں؟؟اگر آٹے میں نمک کے برابر بھی کہیں تو غلط نہ ہوگا۔اکتوبر۲۰۱۵ میں چترال میں تعینات ہونے والا ڈپٹی کمشنر اُسامہ احمد وڑائچ چترال کی تاریخ میں واحد ایسا آفیسر تھا جسے نہ صر ف اپنے آفس میں لگی قائد کی تصویر کا مقصد پتا تھابلکہ اُس پیغام کو اُنھوں نے اپنا مقصد حیات بھی بنالیا تھا اگر کام ،کام،اور کام کی عملی تصویر کوئی دیکھنا چاہتا تو بلا شُبہ ا سامہ احمد وڑائچ کی مختصر ذندگی اُسی پیغام کی عملی تصویر تھی۔اگر محنت،د یانتداری،اور سچائی کا کوئی دوسرا نام رکھا جائے تو اسامہ احمد وڑائچ ہی ہوتا۔وہ ایک سچا محب وطن،مخلس،ایماندار اور نہایت پر عزم نو جوان تھا۔یہی وجہ ہے کہ دوران ملاذمت جہاں بھی گئے اپنی انہی خوبیوں کی بدولت شہرت اور عزت پائی۔ورنہ ہمارے چترال میں ہی کتنے ایسے آفیسرذ آتے جاتے ر ہتے ہیں اُنکا نام تک پتہ نہیں چلتا۔خود ہمارے علاقے کے نوجوان سالانہ css,pms,pcs اور نجانے کیا کیا پاس کر آتے ہیں لیکن محض نتائج کے اعلا ن کے بعد سال پر سال گزر جاتے ہیں انکی کوئی قابل قدر کار کردگی سننے میں بھی نہیں آتی۔۔تو ا یسے معاشرے میں (ا سامہ)جیسے کر دار تو معجزہ لگتے ہیں۔۔۔اُسامہ شہید کی تعریف کے لئے تو یہی بات بھی کافی ہے کہ وہ مُحض 24 سال کی عمر میں css پاس کرتا ہے لیکن کامیابی کے نشے میں مخمور نہیں ہوتا۔24 سال کا نو جوان کا میابی کا پر وانہ لیکر دُنیا کی ر نگینی کے پیچھے نہیں بھاگا۔ملک کے ۹۹222سر کاری ملازمین کی طرح بے ا یمانی کے دلدل میں نہیں پھنسا۔یہی وجہ ہے کہ صرف ۷ سال کی ملاذمت سے اسے وہ عزت اور شہرت نصیب ہوئی جسکا تصور کوئی بے ایمان اور بے ضمیر آفیسر کر ہی نہیں سکتا۔۔اُسامہ کی فیملی ،اسکے دوست،جاننے والے اور انکے ساتھ کام کرنے والے ہر شخص کی زُبان میں اسکے لئے پہلا کلمہ یہی آتا ہے کہ وہ ایک ایماندار نو جوان تھا۔ایک سا بق چیف سیکٹری کہتے ہیں کہ پبلک سروس کے تقاضوں کے بارے میں جو بات سینکڑوں کتابوں اور لیکچرز سے نہیں سمجھائی جا سکتی تھی وہ اُسامہ نے چترال میں 14مہینوں کی سروس میں سمجھا دیا تھا یہ بات خود چترا لی عوام کے لئے بھی ایک بہت بڑا سبق ہے۔۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جب تک سول سر وس ر ہیگی اُسامہ کا نام ذندہ رہے گا۔پبلک سروس کے لئے کئے گئے اسکے ا قدامات اسکے نام کو ہمیشہ ذندہ ر کھیں گے۔مختلف اداروں اور تر بیت گا ہوں میں نہ صرف اُسامہ کا ذکر ہوگا بلکہ ا سے رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ر ہے گا۔سُنا ہے اُسامہ اپنے جا ننے والوں کو بتا یا کر تے تھے کہ انکا نام (اسامہ بن لادن) کے نام سے نہیں بلکہ (اُسامہ بن ز ید) کے نام سے لیا گیا ہے جو ایک جلیل ا لقدر صحابی اور سب سے کم عمر سپہ سا لار تھے۔یقیناٌ اسامہ کی اپنی مختصر اور با ضمیر ذندگی بھی بن زید کی ذندگی سے مختلف نہیں رہی ہو گی ۔۔صحابہ کرام کے کر داروں کو پڑ ھا جا ئے تو لوگ ما یو سی کا شکار ہو جا تے ہیں کہ یہ دور اور یہ لوگ گزر چکے ہیں مگر اسامہ کے اُ جلے کر دار نے اس ما یو سی کو بھی ختم کر دیا ہے ۔ا سامہ نے بطور ڈپٹی کمشنر اپنی ذمہ داریاں احسن طر یقے سے نبھانے کے ساتھ ساتھ چترالی عوام کے لئے ا نھوں نے اور بھی بہت سے ا ہم کام کیے ۔جن میں چترال کے ہو نہار ا سٹوڈنٹس کے لئے (اسامہ کیر یئر اکیڈمی) اور ڈسی پارک قابل ذکر ہیں ۔چترالی بچوں کے لئے تفر یحی پارک کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اپنی ذاتی کو ششوں سے فنڈذ اکھٹا کرکے پارک کی تعمیر کر نا انکا بچوں کے ساتھ وا لہانہ محبت اور شفقت کو ثابت کرتا ہے۔۔بلا شُبہ قوم ایک ا نتہا ئی مخلص،ا یماندار،با ضمیر اور انتہائی نیک فطرت آفیسر سے محروم ہو گئی ہے لیکن اس کی مختصر ذندگی قوم کو کیا سبق دیتی ہے یہ بات قا بل غور ہے۔۔شہید اُسامہ احمد وڑائچ کے کر دار کو جتنا بھی سرا ہا جائے کم ہے۔میں جب ایڈ منسٹریشن کی تعر یف کرتی ہوں تو بعض حلقے اسکی شدید مخالفت کرتے ہیں انکا یہ کہنا ہوتا ہے کہ کوئی بھی آفیسر ا چھا کام کرتا ہے تو ہم پر کوئی احسان نہیں کر تا یہ اسکی ڈیو ٹی ہے اور وہ ایک پبلک سرونٹ ہوتا ہے و غیرہ وغیرہ۔۔۔میں ان تمام ا عتراضات کے جواب میں صرف اتنا کہونگی کہ پبلک سرونٹس کی تعداد اس وقت سینکڑوں میں نہیں لا کھوں میں ہیں لیکن شہید اُسامہ جیسے پبلک سرونٹس کی تعداد اُنگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ورنہ تصویر کے دوسری جانب ہم ایسے نو جوانوں کو بھی جا نتے ہیں جو ما تھوں پر آفیسرز کا ٹیگ لگائے پھر رہے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ اُسامہ شہید ان تمام نو جوانوں کے منہ پر ایک ذبردست طمانچہ ہے جو کمیشن کا امتحان پاس کر آتے ہیں تو فخر سے انکی گردنیں تن جا تی ہیں پھر سر کاری کُرسی اور سر کاری گا ڑیوں میں بیٹھ کر پھوں پھاں تو ایسے کرتے ہیں کہ بس دیواروں پر سر ہی مار سکتے ہیں۔۔عہدہ سنبھالتے ہی بجائے ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے نبھانے کے انکی توجہ محض دولت اکھٹا کرنے کی طرف ہوتی ہے بالکل کسی کرپٹ سیاستدان کیطرح۔۔لفظ officer کو یہ لوگ محض اپنی ظا ہری شان و شوکت کا لقب سمجھتے ہیں اسی لئے انکی ساری توجہ اپنی ظاہر کو چمکا نے پر ہی مر کوذ ر ہتی ہے یہی و جہ ہے کہ سروس میں پوری عمر بتانے کے بعد بھی انکے ہاتھ زیادہ سے زیادہ رشوت خو ری میں بد نامی یا اخلاقی طور پر پستیوں میں گرنے کے علاوہ اور کوئی award یا pride of performance نہیں آتا۔یہ ایک المیہ ہے کہ پورا ملک ایسے ہی راجہ گدھ آفیسروں،سیاستدانوں، سر کا ری و نیم سر کاری ملا زمین سے بھرا ہوا ہے لہذا ایسے معاشرے میں اسامہ شہید جیسے کردار کیچڑ میں کنول کی مانند ہیں۔ان تمام لوگوں کے لئے اُسامہ کا کر دار ایک تلخ آئینہ ہے۔۔میں اپنے انتہائی تعلیم یافتہ اور با شعور عوام سے گزارش کرتی ہوں کہ اپنے بچوں کو سو شل اور الیکٹرانک میڈیا کا بیمار بنانے کے بجائے اُسامہ شہید جیسے ذندہ اور حقیقی کر داروں کا پر ستار بنا ئیں۔۔۔۔۔اور حکو متی ذمہ داروں سے میرا سوال ہے کہ کیا چترال کی تا ریخ کے اتنے بڑے سا نحے کو مُحض مردہ فائلوں کی ز ینت بنا دی گئی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟


شیئر کریں: