Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

شہدائے حویلیاں کی پہلی برسی……….. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

سانحہ حویلیاں کے شہداء کے لواحقین آج اپنے پیاروں کی پہلی برسی منارہے ہیں۔ 7دسمبر2016کو پی آئی اے کا بدقسمت اے ٹی آر طیارہ چترال کے ہوائی اڈے سے اسلام آباد کے لئے اڑان بھری تھی۔ مگر اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکی۔حویلیاں کے قریب المناک فضائی حادثے میں تین غیر ملکیوں ،بین الاقوامی شہرت یافتہ فنکار اور نعت خوان جنید جمشید، ڈپٹی کمشنر چترال اسامہ احمد وڑائچ سمیت 47افراد لقمہ اجل بن گئے۔شہدائے حویلیاں عمرا خان، عابد قیصر، احسن، عائشہ، اکبر علی، اختر محمود، عامر شوکت، آمنہ احمد، ماہ رخ، عاصم وقاص، عتیق محمد، فرح ناز، فرحت عزیز، گوہر علی، گل حوران، حاجی نواز، حسن علی ، جنید نانیا، جنید جمشید، محمود عاطف، میرزاگل، فرحان علی،محمد علی، خالد محسود، محمد خان، محمد خاور، نعمان شفیق، تکبیر خان، نگارالدین، اسامہ احمد وڑائچ،رانی مہرین، سلمان زین العابدین، سمیع، ثمینہ گل، شمشاد بیگم، طیبہ عزیز، تیمور ارشد اور زاہدہ پروین کے لواحقین امر الہٰی کو صبر اور شکر کے ساتھ قبول کرچکے ہیں کہ ان کے پیاروں کو شہادت جیسا بلند مرتبہ ملا۔ لیکن انہیں حکومت کی طرف سے اب تک یہ نہیں بتایاگیا۔ کہ اس المناک سانحے کی وجہ کیا تھی، اس کے ذمہ دار کون ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ کا کیا بنا۔ اس میں کس کو مورد الزام ٹھہرایا گیا اور ملزموں کو کیا سزا ملی۔یہ وہ سوالات ہیں جنہوں نے شہدائے حویلیاں کے لواحقین کے دن کا چین اور رات کی نیندیں اڑادی ہیں۔خوفناک آواز کے ساتھ فضاء میں ہچکولے کھانے والا اے ٹی آر مسافر طیارہ جب حویلیاں کے قریب چٹان سے ٹکرا گیا تو قریبی دیہات مجاب اور پلیاں کے مردوں، خواتین اور بچوں نے سب سے پہلے حادثے کی جگہ پہنچ کر امدادی کاروائیاں کیں ۔ تحقیقاتی ٹیموں نے امدادی رضاکاروں کے بیانات بھی ریکارڈ کئے۔پی آئی اے ، سول ایوی ایشن اور دیگر متعلقہ اداروں کے لوگوں کا موقف بھی معلوم کیا گیا۔ بلیک بکس اور کاک پٹ وائس ریکارڈر میں موجود پائلٹوں کی آخری گفتگو ڈی کوڈ کرکے سننے کے بعداس حادثے کی وجوہات اور ذمہ داروں کا تعین ہوچکا ہے۔ لیکن یہ رپورٹ ایک سال گذرنے کے باوجود منظر عام پر نہیں آسکی۔ موت برحق ہے اور ہر ذی روح کو آخر کار موت کا مزہ چکھنا ہے۔ پی کے 661کے 42مسافروں اور عملے کے پانچ افراد کوسات ربیع الاول کو فضائی حادثے میں اجتماعی شہادت کی موت نصیب ہوئی۔لیکن صف ماتم پورے پاکستان میں بچھ گئی ۔اور ایسی موت صرف نصیب والوں کو ہی نصیب ہوسکتی ہے۔سانحہ حویلیاں سے جڑے چند سوالات کانہ صرف پسماندگان اور لواحقین بلکہ پاکستان کے بیس کروڑ عوام جواب چاہتے ہیں ۔حادثے میں انسانی غلطی کو پی آئی اے حکام اور ماہرین نے پہلے ہی روز خارج از امکان قرار دیا تھا۔پی آئی اے حکام کے مطابق طیارے میں کوئی فنی خرابی نہیں تھی ۔یہی طیارہ جب اسلام آباد سے چترال پہنچا تو مسافروں کے مطابق اس کی پوری باڈی گرم ہوچکی تھی۔ جب چترال سے اس نے اسلام آباد کے لئے اڑان بھری تو اس سے خوفناک قسم کی آوازیں نکل رہی تھیں۔طیارہ جس گاوں کے اوپر سے گذرا۔ وہاں کے لوگ گھروں سے باہر نکل کر اسے دیکھتے رہے۔ حویلیاں کے قریب طیارے کا ایک انجن بند ہوگیا۔ تو طیارہ ڈولتا ہوا دیہی آبادی پر گرنے والا تھا ۔ پائلٹ احمد جنجوعہ نے آبادی کو بچاتے ہوئے اسے قریبی نالے تک لے جانے کی کوشش کی۔ پھر طیارے کو پہاڑی سے ٹکرا دیا۔طیارے کا توازن خراب ہونے سے حادثہ پیش آنے تک کے لمحات میں موت کو منہ کھولے سامنے کھڑے دیکھ کر مسافروں پر کیا گذری ہوگی۔ یہ سوچ کر بھی رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔شہداء کے لواحقین حیران اور پریشان ہیں کہ خراب طیارے کو گلگت سے بمشکل اسلام آباد پہنچنے کے بعد چترال جیسے دشوار روٹ پر بھیجنے کا فیصلہ کس نے اور کیوں کیا۔سول ایوی ایشن اور عدلیہ کی طرف سے آر ٹی اے طیاروں کو پہاڑی علاقوں میں آپریٹ نہ کرنے کی واضح ہدایات کے باوجود غفلت کیوں برتی گئی۔ طیارہ بنانے والی فرانسیسی کمپنی کی طرف سے ان جہازوں کو بارہ ہزار فٹ کی بلندی سے اونچائی پر نہ لے جانے کی ہدایت کے باوجود انہیں بیس بائیس ہزار فٹ کی بلندی پر پہاڑوں اور گلیشئرز پر سے اڑان کی اجازت کس نے اور کیوں دی ۔ ان سوالوں کا جواب نہ صرف سانحہ حویلیاں کے متاثرین بلکہ پوری قوم جاننا چاہتی ہے۔اگر تحقیقاتی رپورٹ میں حادثے کی وجوہات کی نشاندہی اور ذمہ داروں کا تعین کیا گیا ہے تو انہیں اب تک سزاکیوں نہیں دی گئی اور شہداء کے لواحقین کو اعتماد میں کیوں نہیں لیاگیا۔ کیا ایسے حادثات کو امر الہٰی قرار دے کر بااثر ذمہ داروں کو بچایا جاتا رہے گا۔ آخر یہ پسماندگان اور غمزدہ لواحقین کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کریں؟؟


شیئر کریں: