Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خودکشیوں کے اسباب کا ایک سرسری جائزہ ۔۔چترال کے پس منظر میں۔۔ از ڈاکٹر فرمان نظار

شیئر کریں:

خودکشیوں کے اسباب

کائناتِ خداوندی میں ظہور پزیر ہونے والا کوئی بھی واقعہ ایک لمبے عرصے پر محیط ارتقاء کے عمل کا نتیجہ ہوتا ہے لمبے عرصے تک جب مختلف عوامل ایک مخصوص جغرافیے کے اندر کارفرما رہتے ہیں تو ایک عمل کا ظہور ہوتا ہے عمل کا اس طرح ظہور پذیر ہونا کائنات میں مختلف صورتوں میں ثابت ہے جیسے اس پہاڑوں کا بننا ،سمندروں کا سوکھ جانا،دنیاء میں مختلف انواع کے جاوروں کا پیدا ہونا اور پھر فناء ہونا۔۔وغیرہ وغیرہ ۔۔کائنات کے یہ مظاہر کبھی بہت خوشنماء شکل میں اور کبھی بہت بھیانک شکل میں ظاہر ہوتے ہیں انسانی فطرت کائنات کے خوشنماء مظاہر کو نعمت سمجھ کر ان سے مستفید ہونا شروغ کرتا ہے لیکن ارتقاء کے نتیجے میں ظہور پذیر ہونے والے سارے مظاہر خوشنما ء نہیں ہوتے۔کچھ مظاہر آفت مانند ہوتے ہیںیہیں سے کھوج کا اغاز ہوتا ہے۔کھوج یا جستجو وہ عمل ہے نہ صرف انسان کو دوسرے تمام مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے بلکہ انسان کو یپنے اج کو گزرشتہ کل سے بہتر اور آنے والے کل کو آج سے بہتر بنانے کا ذریعہ بنتا ہے۔

 

اپنے دلکش قدرتی مناظر سے بھر پور علاقہ چترال اپنے کئی ایک ممتاز خصوصیات کی وجہ سے پورے ملک میں اپنا ایک الگ نام رکھتا ہے ذگر بلند و بالا پہاڑوں کا ہو یا بلندی سے گرتے آبشاروں کا ، بات لہلہاتے کھیت کھلیانوں کا ہو یا ان کو جان بخشتے والا صاف شفاف دریاوں کا ، تعریف فرحت بخش آب و ہوا کا ہو یا اس صحت بخش فضا میں بسنے والے پرامن لوگوں کا ،نظارہ اگر سکندر اعظم کے زمانے کی تہذیب کا کرنا ہو یا جدید علوم سے آراستہ اسلام کے عالمگیر اصولوں سے مزین کسی معاشرے کا ، چترال کا ذگر کیے بغیر مضمون نامکمل رہتی ہے گفتگو میں تشنگی باقی رہتی ہے،۔ چترال کا نام جہاں کئی اچھے حوالوں زبان خاص و عام ہے وہاں حالیہ چند برسوں میں بڑھتے خودکشی کے واقعات نے چترال کی نیک نامی کو ماند کرنا شروغ کر دیا ہے۔ ایک طر ف چترال جہاں سب سے کم جرائم والے علاقوں کی فہرست میں سب سے اپر ہے وہاں چترال کا نام سب سے ذیادہ خودکشی کے واقعات والے علاقوں کی فہرست میں بھی سب سے اپر ہے۔ وہ کونسے عوامل ہیں کہ جنکی وجہ سے ایک مثالی پر امن تعلیم یافتہ علاقے میں خودکشیاں بڑی تواتر کے ساتھ ہورہی ہیں ۔ذیل میں ان اسباب یا عوامل کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ممکن ہے یہ فہرست مکمل نہ ہو ۔ اس میں کمی بیشیاں ہو سکتی ہیں۔ اسباب کا احاطہ کرنے کی یہ ایک ادنئ سی انسانی کوشش ہے ۔

چترال میں خود کشیوں کے آسباب کو جاننے کی کوشش چترال کے مخصوص جغرافیائی ،معاشرتی اور سماجی پس منظر میں اگر کی جائے تو نہ صرف یہ آسان اور زود فہم ہوجائے گی بلکہ ان عوامل کے تدارک کے لئے اقدامات کرنے میں بھی کسی حد تک اسانی رہے گی۔تو آئیے پہلے ان مخصوص جغرافیائی معاشرتی اور سماجی عوامل کا مختصر ذگر کرتے ہیں

سن ۱۸۸۵ء میں برطانوی راج کی طرف سے ایک حاظرسروس فوجی افسر میجر ڈیورنڈ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ چترال کے داخلی و خارجی راستوں کا تعین کریں میجر ڈیورنڈ نے دو سال بعد اپنی رپورٹ برطانوی راج کو جمع کرا دیںَ اس رپورٹ کے مطا بق چترال میں داخلے کا واحد راستہ (سال بھر کھلا ) بذریعہ ارندو تھا۔اس کے علاوہ صرف دو درے ایسے تھے جو کہ سال کے ۶ مہینے کے لئے قابل آمدورفت تھے یعنی شندور اور لواری دررے۔ اس کے علاوہ تقریبا اٹھائیس (۲۸) چھوٹے دررے ایسے تھے جو سال میں تین مہینے یا اس سے بھی کم وقت کے لئے کھلے ہوتے تھے۔ ارندو کو چھوڑ کے باقی تمام درے سطح سمندر سے آٹھ ہزار(۸۰۰۰) فٹ سے ذیادہ بلندی پر واقع ہیں۔ذگر بالا کا مطلب یہ ہے کہ چترال صدیوں سے ایک land locked علاقہ ہے باہر کی دنیا سے عملا کٹا ہوا ۔شاید یہی وجہ تھی کہ سکندر اعظم کے زمانے کی یونانی تہذیب جو خود یونان میں بھی ختم ہوگئی آج بھی اپنی اصل شکل میں چترال کے اندر باقی رہی ہے۔ صدیاں گزر گئی لیکن چترال کے باسیوں کی تمدن ، تہذیب ،طریقہ بودوباش ،رہن سہن، سماج اور معاشرے کے اصول اور سماج میں عزت و تکریم کے معیار وغیرہ تقریبا ایک جگہ جامد و ساکت رہے۔ اس سارے عرصے کے دوران باہر کی دنیا اگے بڑھتی رہی۔ چترال کے اردگرد واقع بلندوبالا پہاڑ باہر کی دنیا میں ہونے والے مادی و ذہنی ترقی کو چترال تک پہنچنے سے روکتے رہے۔طبقات اور ذات پات کا ایک ہلکا سا نہ محسوس ہونے والا نظام ہر انسانی معاشرے کا ایک لازمی حصہ ہو تا ہے اس نظام کو ذہنی و مادی ترقی نئے جہت اور نئے معیار فراہم کرتا ہے لیکن چترال اپنے unpenetrable geography کی وجہ سے اردگرد کی دنیا میں ہونے والے ذہنی و مادی ترقی سے بہت پیچھے رہ گیا۔ نتیجے میں طبقات اور ذات پات کا ایسا نظام پنپتا گیا جو اگے جا کر کئی معاشرتی اور سماجی مسائل کا باعث بن گیا۔اس مخصوص طبقاتی نظام کی آبیاری کئی صدیوں تک کی گئی۔ قدرت کا یہ بھی ایک اتفاق تھا کہ اس نظام کی حفاظت دنیا کے کسی بھی حصے کی نسبت ذیادہ آسان تھی۔ وجہ وہی قدرتی دیوریں جو پہاڑوں کی صورت میں موجود تھیں۔

ان قدرتی دیوارں کے واحد دروازے پر پہرے کا مطلب اس نظام کی حفاظت کا قطعی انتظام تھا۔ یہ قدتی دیواریں صدیوں تک چترال کے باسیوں کو دنیا کے گرم اور سرد ہواوں سے بچاتے رہے۔لیکن اکیسویں صدی کے اغاز سے ہی INFORMATION TECHNOLOGY نے بے تحاشہ ترقی کی۔ پہاڑوں کی شکل میں موجود یہ دیواریں جنکو تیمور لنگ اور منگول جنگجو بھی عبور نہ کرسکے تھے انفارمیشن ٹکنالوجی کی ترقی کے آگے بے معنی ثابت ہوئے۔اور یوں تبدیلی کا ایک طوفان اس علاقے کے اندر داخل ہوا۔اس تبدیلی نے معاشرے کے بنائے گئے تمام اصولوں کو چیلنج کرنا شروغ کردیا۔چترال کے باسی اس تبدیلی کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔ چھتراری معاشرہ اب بھی موجود تھا لیکن قوانین بدل گئے معیار تبدیل ہوگئے۔ چترالی معاشرے میں یہی نازک وقت تھا۔ اگرغور کیا جاے تو خودکشیوں کا رجحان عین اسی وقت شروغ ہوتا ہے۔

چترال کے باسیوں کے معاشی پس منظر کا ذگر کیے بغیر ہم اگے جا کر اس مسلے کا احاطہ نہیں کر سکیں گے۔آج سے تقریبا پانج عشرہ پیچھے جا کر اگر ہم دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک ریاست تو ہے لیکن کرنسی نہیں۔ جب ملک کی کرنسی ہی نہیں تو باسیوں کی معاشی حالت کے بارے میں اندازہ لگانے میں قطعا کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے۔زیادہ کوئی کتاب پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں اگر کسی کے گھر میں دادا یا پر دادا بقید حیات ہیں تو اس بزرگ سے صرف ادھے گنٹھے کی گفتگو کرنے پر ایک واضح صورتحال سامنے نظر آےئگی ۔ اور وہ صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ ملک کی تمام تجارت جنس برائے جنسBARTER)) کی صورت میں ہوتی تھیں یعنی اگر اپکے گھر میں اخروٹ پیدا ہوتے ہیں تو آپ نے انھیں کسی دوسرے بندے کو اپنی ضرورت کی کسی اور جنس مثلا گندم کے بدلے میں دیدی ۔اس قسم کی معیشت سے شاید اپنا پیٹ بھی ٹھیک طریقے سے پالنا ممکن نہیں اسودہ حالی تو دور کی بات۔شخصی آزادی کھبی بھی معاشی آزادی سے پہلے نہیں آتی۔ چترال کی اس معاشی پس منظر کا آج کے دور میں ہونے والے خودکشیوں کے بڑھتے واقعات سے بڑا گہرا تعلق ہے۔

چترال کے اس مختصر معاشی و جغرفیائی پس منظر کی منظر کشی کے بعد ان عوامل کی طرف آتے ہیں جنکا چترال میں بڑھتے ہوئے خودکشیوں سے بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق ہے

ان ممکنہ عوامل پر اک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے ان میں سے کچھ عوامل خاندان کی سطح پر حل کرنے والے ہیں کچھ عوامل ہمارے تعلیمی اداروں (سکولوں ،کالجوں اور مدرسوں) کی سطح پر کام کرنے سے حل ہونے والے ہیں۔ لیکن کچھ عوامل ایسے ہیں جوصرف ہمارے پالیسی ساز اداروں کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ ہم اپنے پالیسی ساز اداروں کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور تو نہیں کر سکتے لیکن سوچنے کے لئے انہیں لقمہ(Food For Thought) دے سکتے ہیں۔

 

ممکنہ عوامل:
۱۔ بلوغت کے مسائل اور راہنمائی کی عدم دستیابی۔
(Adolecenc Issues and lack of Proper Guidance)

۲:۔ خواتین میں معاشی عدم تحفظ کا احساس
(Financial Insecurity Amongst Women)

۳؛۔ طبقاتی تقسیم اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے مسائل
(Cast sysytem and resulting issues)

۴؛۔ مشترک گھریلو مسائل
(Domestic Issues Common to All)

۵؛۔ بغیر نگرانی کیے عالمی میڈیاتک بچوں کی رسائی
(Unsupervised Access of Children to Mass Media/Internet)

ؐؐؐ۶؛۔ دینی و دنیاوی تعلیم کا ایک دوسرے سے الگ ہونا
(Seperate religious and materialistic education system)

۷؛۔ بنیادی ضروریات زندگی سے غیر ہم آہنگ نظام تعلیم۔

ٌ ۸؛۔ جنریشن گیپ(Generation Gape).۔۔۔دور جدید میں بچوں کے بدلتے
ضروریات کوپہچاننے میں والدین کو مشکلات اور نتیجے میں راہنمائی کی عدم دستیابی

 

 

۱ ؛۔ بلوغت کے مسائل اور راہنمائی کی عدم دستیابی

انسانی نشورنما میں بلوغت (Adolecenc)ایک نہایت اہم اور نازک سنگ میل ہے۔اس سنگ میل کو عبور کرتے ہوئے اتنی ہی یا اس سے بھی زیادہ نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے جتنی نگہداشت کی ضرورت دوسرے سنگ میل کو پہنچنے پر بچوں کو ہو تی ہے۔ ایک بچہ جب چھ مھینے کا ہوتا ہے توپہلی مرتبہ خود سے بیٹھنے کے قابل ہوجاتا ہے یہ نشورنما کا ایک سنگ میل ہے۔اس مرحلے پر والدین بچے کا خاص خیال رکھنے لگتے ہیں کہیں بچہ’’ منہ کے بل‘‘ نہ گر جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد چھ سے آٹھ مہینے میں بچہ جب CRAWL کرنے لگتا ہے تو اس سنگ میل کو عبور کرنے پر ماں باپ اس خطرے کے پیش نظر اپنے بچے کا خاص خیال کرنے لگتے ہیں کہ کہیں کوئی مضر صحت بچہ اپنے منہ میں نہ ڈال دے یا کہیں اونچائی سے گر نہ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد جب بچہ کھڑا ہونے لگتا ہے ۔۔۔پھر اپنا پہلا قدم اٹھا کر چلنے لگتا ہے۔۔۔ حتی کہ جب بولنے لگتا ہے تب بھی والدین اپنے بچے کی طرف بڑی متفکر رہتے ہیں کہ کہیں بچہ کوئی گندے الفاظ نہ سیکھ لے۔۔۔۔ ۔۔ بچے کے نشورنماء کے ان سنگ میل کو عبور کرنے کے دس بارہ سالوں کے دوران والدین اپنے بچے کے خاطر اپنا سکھ چین سب لٹا دیتے ہیں۔۔لیکن جب نشورنماء کا آخری لیکن سب سے اہم اور نازک سنگ میل(Mile stone ) بلوغت ( Puberty)کو بچہ عبور کرتا ہے والدین نہ صرف اپنے بچے سے غافل رہتے ہیں بلکہ غفلت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ والدین کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ بچے نے سنگ میل کب عبور کر لی۔۔۔حلانکہ یہ وہ سنگ میل ہوتا ہے کہ اس میں غفلت نہ صرف پچھلے تمام کاوشوں پر پانے پھر دیتا ہے بلکہ کبھی کبھی والدین کو یہ کہنے پہ مجبور کر دیتا ہے۔۔۔’’تیرا باپ بننے سے بہتر تھا کہ میں مر جاتا‘‘۔۔ یہ ’’ تاریخی‘‘ جملہ جب بھی کسی ماں/ باپ کا اپنے بیٹا /بیٹی کے بارے میں سنائی دے تو سمجھ لینا چاےئے کہ ان والدین سے اپنے بچے کی نشورنماء کے آخری سنگ میل میں غفلت ہوئی ہے ۔۔اس جملے کو کہنے کی اگر با ر بار ضرورت ائے تو موت ’’موت مانگنے ‘‘ والے کو آنے کی بجائے اس جملے کا سبب بننے والے کو اپنی آغوش میں لے جاتی ہے۔

یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ بلوغت کا یہ اہم سنگ میل کب آتا ہے اور اس میں اتنا اہم کیا ہوتا ہے کہ غفلت کی صورت میں پچھلے تمام کیے دھرے پر پانی پھر جاتا ہے ۔یہاں یہ بات قابل ذگر ہے کہ بلوغت کے مسائل کے عنوان سے آپکو بے شمار چھوٹے بڑے کئی تصانیف ملینگے۔بلوغت کے شرعی مسائل میرا موضوع ہرگز نہیں ہے۔اور نہیں میں اس پرگفتگو کرنے کے قابل خود کو سمجھتا ہوں۔یہاں ہم بلوغت ( Pubert) کو طب اور سائنس کے پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ہم یہ دیکھنے کی کوشش کرینگے کہ اس مخصوص عمر کے دوراں وہ کونسی تبدیلیاں آتی ہیں جو اس سنگ میل کو اتنا حساس اور نازک بنادیتے ہیں۔

بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر انسانی جسم کے اندر مخصوص کیمکل پیدا ہونا شروغ ہوجاتے ہیں جنہیں SEX STEROID کہتے ہیں ان میں testosteron / estrogen مشہور ہیں۔ انسان کے بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر جسم میں ظاہر ہونے والے تمام تبدیلیاں (ذہنی اور جسمانی دونوں) ان کمیکل کے نتیجے میں ہوتے ہیں۔خصوصاََ ٹسٹوسٹیرون سے انسان کی جسمانی استعداد میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔جسمانی پٹھے( ) کئی گنا مظبوط ہوجاتے ہیں۔جسمانی اور ذہنی استعداد میں اضافے کے ساتھاانسان کی ’’ضروریات‘‘تبدیل ہوجاتے ہیں او ر ’’ ترجیحات‘‘ کی reprioritization ہوجاتی ہے۔ان بڑھتے ’’ضروریات‘‘ اور تبدیل ہوتے ’’ترجیحات‘‘ کے دوران انسان ’’بچے ‘‘ سے جوان بن رہا ہوتا ہے یا جوان بن رہی ہوتی ہے۔یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ’’نگہداشت‘‘ اور راہنمائی کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ عام فہم پیرائے میں اس کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ بچہ چلتے چلتے چودہ سال کی مسافت کے بعد ایک ندی کنارے پہنج جاتا ہے۔’’ شارعِ بچپن‘‘ اس ندی کے کنارے ختم ہوجاتا ہے ۔۔۔۔ندی کے اس پا ر ’’شاہراہِ شباب ‘‘ اپنے تمام رعناےؤں کے ساتھ شروغ ہوجاتا ہے ۔۔لیکن بیج میں حائل ندی ۔۔۔۔یہ کوئی عام ندی نہیں۔۔۔ اس ندی میں پانی کی جگہ ٹسٹوسٹیرون اور ایسٹراڈایول کے انتہائی ’’زہریلے‘‘ مادے بہہ رہے ہوتے ہیں۔ ۔بچے کو اس ندی کو بحفاظت عبور کرنے کے لیے ایک’’پل‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔اس مخصوص عرصے کے دوران ماں باپ کی نگہداشت اور راہنمائی ہی دراصل وہ پل ہے جو بچے کو بحفاظت جوانی کے راستے پر گامزن کر دیتا ہے۔لیکن صد افسوس کہ ماں باپ نگہداشت کے اس اہم موڑ غفلت برتتے ہیں۔

بچپن سے جوانی میں داخل ہونے کے اس انتہائی اہم مرحلے بچوں کو خاص راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ راہنمائی رائج الوقت ملکی قوانین ،سماجی و معاشرتی اقدار اور خاندانی روایات کی روشنی میں کی جاتی ہیں۔ یہ راہنمائی صرف غلط اور صحیح کا فرق بتانے سے کا پورا نہیں ہوتا۔۔بلکہ یہاں ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ بچے کو یہ بھی بتایا جائے کہ کونسا کام ’’زیادہ غلط‘‘ ہے اور کونسا کام ’’زیادہ صحیح ‘‘ ہے۔۔۔۔۔یہی وہ کام ہوتا ہے جو مشکل بھی ہوتاہے۔ہم میں سے اکثر سے اس مرحلے پر غلطی ہوجاتی ہے۔یعنی عمر کے اس مرحلے تک بچے کو ہمیشہ ہر چیز بلیک اینڈ وائیٹ( Black and white) میں میں سمجھائی جاتی ہے۔۔۔۔یعنی افعال کے صرف دو ہی پہلو صحیح اور غلط ہی بچے کو بتائے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس مخصوص مرحلے پر نوجوان کا ذہن اس قابل ہونا شروغ ہوجاتا ہے کہ وہ دو مشکل راستوں کے درمیان کم مشکل راستے کو اپنا سکے۔اور دو اچھے راہوں میں سے بہترین کا انتخاب کرسکے۔ عمر کے اس انتہائی اہم موڑ پر راہنمائی کی عدم دستیابی کی صورت میں یہی نوخیز ذہن غلط راستے پر پڑ سکتا ہے۔۔غلط راستے کا اختتام ہمیشہ موت یا موت کے قریب تر انجام کی صورت میں نکلتا ہے۔۔ ہمارے علاقے کے نوجوان غیرشادی شدہ طبقے میں کی جانے والی اکثر خودکشیوں(خصوصا لڑکیوں کی ) کی بنیاد یہاں سے شروغ ہوتی ہیں۔
عمر کے اس مخصوص حصے میں اکثرمنشیات کا استعمال، جنسی بے راہروی،غلط صحبت،قانون شکنی کا ارتکاب، پیشہ ور گروہوں کے ہتھے چڑھ جانااور دوسرے اس قسم کے مذموم کاموں میں ملوث ہونا وہ تمام برائیاں ہیں کہ جن میں بچہ راہنمائی کی عدم موجودگی میں شامل ہوسکتا ہے۔

 

۲؛۔ خواتین میں معاشی عدم تحٖظ کا احساس
Financial Insecurity amongst women
معاشی تحفظ انسان کو حقیقی آذادی دیتی ہے۔ اپنے پیروں پہ کھڑا انسان اپنے فیصلے بھی خود کرسکتا ہے۔ لیکن جو انسان اپنے پیروں پہ کھڑا نہیں ہو سکتا نہیں ہوسکتا وہ اپنے خوابوں کی تعبیر بھی نہیں کرسکتا۔
ہمارے معاشرے میں شادی خواتین کے لیے معاشرتی تحفظ ( Social Secuirity)سے زیادہ معاشی تحفظ(Economical security ) کا دوسرا نام ہے۔ہمارے گھروں میں بچیوں کے سامنے جب بھی کسی کی شادی کا ذگر ہورہا ہوتاہے تو والدین دانستہ اور نا دانستہ طور پر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ’’کیا لڑکا ایک خاندان کو سنبھالنے کے قابل ہے‘‘ باالفاظِ دیگر والدین اپنی بیٹی کے سامنے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ بیٹی ایک معاشی بوجھ ( ) ہے اور انھیں اس بوجھ کو اٹھانے کے لیے ایک بوجھ اٹھانے کے قابل بندہ چاہیے۔جب بیٹی کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ وہ ایک معاشی بوجھ (Liability ) ہے تو یہیں سے غلطیوں کے احتمال کا خطرہ کئی گنا بڑہ جاتا ہے۔۔’’بوجھ اٹھانے کے قابل‘‘ کی تلاش میں والدین سے سنگین غلطی ہوسکتی ہے۔ اور اس سے بھی خطرناک غلطی اس وقت ہوسکتی ہے جب ’’بوجھ اٹھانے کے قابل‘‘ کی تلاش لڑکی خود کرنے لگتی ہے ۔۔۔۔تلاش کے اس عمل میں والدین سے سرزد ہوئی غلطی ان خودکشیوں کی صورت میں جو شادی شدہ خواتین کرتی ہیں۔۔اورتلاش کے اس عمل میں لڑکیوں سے سرزد ہوئی غلطیوں کا نتیجہ شادی سے ہی پہلے خودکشی کی صورت میں سامنے آجاتا ہے۔

بحثِ ھذا سے حاصل یہ ہے کہ والدیں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچیوں کو معاشی بوجھ نہ بنائے۔اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ بچیوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کی جائے۔صرف تعلیم نہیں بلکہ ایسی تعلیم کہ جس سے و اپنا معاشی وزن بھی اٹھا سکیں۔ یعنی بچیوں کو تعلیم کے ان شعبوں کی طرف بھیج دی جائے کہ جہاں وہ کل کو آسانی سے برسرِروزگار بھی ہو سکے۔ روزگار سے مراد صرف نوکری ہی نہیں بلکہ برسرِروزگار سے مراد اس قابل ہونا ہے کہ ایک بیٹی بھی اپنے ضروریاتِ زندگی بغیر کسی سہارے کے پورا کر سکیں۔

ہمارے علاقے میں روزگار کے معیار( Standard of Employment) بدل رہے ہیں آج سے چند سال پہلے تک وہ خواتین معاشی طور پر بوجھ نہیں سمجھے جاتے تھے جو کھیتی باڑی میں حصہ لے سکتی ہو،جو مویشیاں اچھے سے پال سکتے ہو،جو مویشیوں کے اون اور کھال سے اچھے پوشاک بناسکتے ہو، جو دودھ سے بننے والے اشیاء( Dairy Products) سے گھر باسیوں کے خوراک کا انتظام کر سکتے ہو، جو بیج کی بویائی سے لیکر فصل کی کٹائی ،خرمن کوبی سے لیکر غلے کی پسائی اور پھر پکائی تک ہر مرحلے کو بخوبی انجام دے سکتے ہو ،جو دستکاری کے ہنرسے بلد ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن آج کے معیار بدل گئے ہیں۔آج نہ وہ کھیت رہے نہ ان کھیتوں پر پلنے والے مویشی۔۔۔جب مویشی نہ رہے تو دودھ کیسا۔۔۔۔ وہ زمین جسکے پیمائش کی اکائی چکورم ہوتی تھی اج وہ مرلے اور فٹ کے حساب سے بھی میسر نہیں۔۔ آج روزگار کے معیار یکسر مختلف ہیں۔ آج تعلیم اور بس تعلیم ہی کل کے لیے روزگار اور معاشی تحفظ کی ضمانت ہے۔

ہمارے علاقے میں ہونے والے اکثر خودکشیوں کے پیچھے معاشی تحفظ کے لیے کی جانے والی معصومانہ کوشش کا ر فرما ہوتی ہے۔مثلا اکثر غیر شادی شدہ نوجوان لڑکیوں کی خودکشیوں میں ایک مشترک صورتحال اس طرح ہوتی ہے ۔ دیہاتی پس منظر رکھنے والی مڈل کلاس بچی ہوتی ہے جس کے ذہن کو اوپر بیان کی گئی طریقوں سے اس طرح بنایا گیا ہے کہ اپنے لیے ایک پر تعیش زندگی کے خواب کو وہ صرف ایک امیر کبیر بندے سے شادی کی صورت میں پورا ہوتا ہوا دیکھ رہی ہوتی ہے۔اپنی اس احمقانہ سوچ کے زیر اثر وہ بھی کسی ’’ظاہری شان و شوکت‘‘ سے بہت جلد مرعوب ہو جاتی ہے ’’ظاہری شان و شوکت‘‘ کئی صورتوں میں سامنے آتی ہے یہ کھبی انتہائی نفیس اور اعلی قسم کے پوشاک کی صورت میں کھبی یہ چمکتی لمبی چوڑی گاڑی کی صورت میں نظر آتی ہے اپنی انتہائی ڈھیٹ صورت میں ’’ظاہری شان و شوکت‘‘ بلند بانگ لیکن کھوکھلے دعووں اور وعدوں کی شکل میں بھی نمودار ہو سکتی ہے۔بڑے بڑے ہوٹلوں اور نامی گرامی ریستورانوں میں اکثر دکھائی دینا ا ور اگر دکھائی دینے کی سکت نہ ہو تو موقع بے موقع ان مشہور اور نامی گرامی ہوٹلوں اور ریستورانوں تذکرہ کرتے رہنا بھی اس ’’ظاہری شان و شوکت‘‘ کی ایک صورت ہے ۔معاشرے کے جانے پہچانے ناموں مثلا سیاستدانوں، بیروکریٹس،سول و فوجی اعلی عہدے داروں اور کامیاب بزنس مین حضرات کو اپنا ’’خونی‘‘ رشتے دور ظاہر کرنا اور اگر ’’خونی رشتہ داری‘‘ ثابت کرنا ممکن نہ ہو تو ان کو اپنا ’’لنگوٹیا یار‘‘ بنا کر پیش کر نا بھی اس ’’ظاہری شان و شوکت‘‘ کے زمرے میں اتے ہیں۔آج کل تو بڑے برانڈ کے قیمتی موبائل فون بھی عموما ’’ متاثر‘‘ کرنے کے آلے کے طور پر استعمال ہونے لگے ہیں۔ اوپر بیان کی گئی کسی بھی دو ’’صورتوں‘‘ کو ملا ایک سادہ لوح دیہاتی پس منظر رکھنے والی لڑکی کو متاثر بلکہ ’’ انتہائی متاثر‘‘ کیا جاسکتا ہے۔ مثلا ایک مناسب قدوقامت اور اوسط شکل و صورت والا جوان جب ہاتھ میں ’’ضرورت سے زیادہ‘‘ بڑے سائز کا موبائل پکڑ ے ہوے ۔۔۔۔RAYBAN کی ایک PIRATED سن گلاس ( جس کے اوپر Rayban کی بجائے Raydan/Raybinلکھا ہوگا) لگاے ۔۔۔ ٹیوٹا یا سوزوکی کمپنی کی ایک پر تعیش گاڑی بیٹھے جس کے پچھلے شیشے کے اوپر اکثر ذومعنی جملہ یا شعر لکھا ہوتا ہے۔۔۔ایک لڑکی کی طرف دوستی کی پینگیں بڑھا تا ہے تو لڑکی کو اس میں اپنے تابناک مستقبل کی جھلک دکھائی دیتی ہے ذہن کام کرنا چھوڑ دیتی ہے اور وہ اس کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔ اپس میں ساتھ جینے کے وعدے کیے جاتے ہیں ۔رابطے کے جدید طریقے اج کل نہایت اسانی سے میسر ہیں۔ کچھ عرصے بعد لڑکی پر یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ جو بندہ اس سے ساتھ جینے اور مرنے کے کے وعدے کر چکا ہے وہ دو بچوں کو باپ ہے۔جس گاڑی میں وہ اس کے ساتھ گھوم پھر چکی ہوتی ہے وہ بھی کسی اور کی نکل اتی ہے۔ اس مرحلے پر لڑکی کو احساس ہ جاتا ہے کہ اس نے غلطی کی ہے۔ لیکن اس مرحلے پر ’’شان و شوکت‘‘ والا اس کو یاد دلاتا ہے کہ اس کے ساتھ گزارے لمحوں کی کچھ یادگار تصاویر اب بھی اس کے پاس موجود ہیں۔لڑکی کو ڈرایا جاتا ہے کہ وہ اب بھی اس کے ساتھ شادی کر لیں اور نہ کرنے کی صورت میں اس کے تصاویر، مپیغامات اور گفتگو کی رکارڈنگ وہ اس کے گھر والوں کو بھیج دیگا۔ گھر والوں کے سامنے اپنی بے عزتی، اور معاشرے کے سامنے اپنے خاندان والوں کی بے عزتی کا سوچ کر لڑکی کے پاس خودکشی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا اور یوں ایک سادہ اور معصومیت سے سے اغاز کیا ہوا کام خودکشی پر ختم ہوجاتا ہے۔

 

 

۳؛۔ طبقاتی تقسیم اور نتیجے میں جنم لینے والے مسائل
Cast system and resulting issues
طبقاتی تقسیم معاشرے کا ایک لازمے حصہ ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی معاشرہ ہو جو اس تقسیم سے پاک ہو۔انسانی ارتقاء میں شاید ہی کوئی ایسا دور گزرا ہو جہاں طبقاتی تقسیم نہ رہی ہو۔ تہذیب(Culture ) کوئی ساکن اور جامد چیز نہیں۔ ارتقاء کے عمل سے یہ اپنے لیے معیار خود بناتا اور مٹاتا رہتاہے۔لیکن جغرافیے کی وجہ سے جب معاشرتی ارتقاء کا عمل اس قدر سست رہے کہ اس کے ساکن ہونے کا گمان ہونے لگے تو نتیجے میں مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔جس طرح طاق میں پڑی شہد سے بھی ایک خاص لمبے عرصے کے بعد تعفن آنے لگتی ہے بالکل اسی طرح مخصوص عرصے اور مخصوص مقاصد کے لیے بنائے گئے معاشرے کے کچھ’’ سنہرے معیار ‘‘بھی جب ’’آخری تاریخِ استعمال‘‘( Date of Expiry) کے بعد بھی رائج استعمال رہے تو مسائل تو ضرور جنم لینگے۔۔ خطرناک اور ٹکراو کی صورتحال اس وقت پیدا ہو جاتی ہے ’’نئے معیار‘‘ صدیوں سے رائج ’’معیار‘‘ کو چیلنج کرنے لگتے ہیں۔ یہ بڑی ہی پیچیدہ اور دلچسپ صورتحال ہوتی ہے۔ کیونکہ دونوں ہی اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوتے ہیں۔اور دونوں طرف پڑے مظبوط دلائل ملتے ہیں۔ مثلا ’’نئے معیار‘‘ صدیوں سے رائج ’’سنہرے معیار‘‘ کے کہتا ہے کہ ٹھیک ہے آ پ ’’ تھے‘‘ لیکن میں ابھی ’’ہوں‘‘۔۔ لیکن سامنے سے جواب آتا ہے کہ میرا ’’تھا‘‘ تمھارے ’’ہوں‘‘ سے بدرجا بہتر ہے تمھرا ’’ہوں‘‘ میرے ’’تھا‘‘ کے برابر کا نہیں ۔۔۔۔ یہ ’’ہوں‘‘ اور ’’تھا‘‘ کی لڑائی جب گھر کے اندر شروغ ہوجاتی ہے تو گھر کا سکون اور چین ختم ہوجاتا ہے۔۔۔۔ اس ’’تھا‘‘ اور ’’ ہوں‘‘ کے لڑائی میں جب گھر کے باقی لوگ ’’تھا‘‘ یا ’’ہوں‘‘ میان سے کسی کا بھی ساتھ دیتے ہیں تو دوسرے فریق کے لیے خودکشی کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔

’’تھا‘‘ اور ’’ہوں‘‘ کی لڑاٰئی کا میدان صرف گھر کے اندر ہی تک دحدود نہیں۔یہ لڑائی جب گھر کے اندر لڑی جاتی ہے تو اکثر ان خودکشیوں کا باعث بنتی ہے جو پچیس تیس سال کی عمر کے جوان (خصوصا خواتین )کرتے ہیں۔جب اس ’’تھا‘‘ اور ’’ہوں‘‘ کی لڑائی معاشرے میں دو خاندانوں کے درمیان لڑی جاتی ہے تو کئی ایک نوجوان اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔کئیوں کے رشتے نہیں ہو پاتے اور کئیوں کے بنے رشتے خراب ہوجاتے ہیں۔اس’’ تھا‘‘ اور’’ ہوں‘‘ کی لڑائی معاشرے کے اندر کئی ایک دوسرے خرابیوں کو بھی جنم دیتی ہے۔ جو فی الحال ہمارا موضوع نہیں ہیں۔ہمارے معاشرے میں بڑے تواتر سے ہونے والے نوجوان لڑکیوں کے خودکشیوں میں ایک بڑی تعداد اس ’’تھا‘‘اور ’’ہوں‘‘ کی لڑائی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

قارئین کے لیے اس ’’تھا‘‘ اور ’’ ہوں ‘‘ کو ہضم کرنا شاید تھوڑا مشکل ہوجائے لیکن اس سے زیادہ ثقلیل الفاظ اگر استعمال کی جائے تو کئی ایک حضرات کی دلشکنی کا احتمال رہتا ہے۔یہ ’’تھا‘‘ اور ’’ہوں‘‘ ہمارے معاشرے میں کئی ایک شکلوں میں موجود ہے۔ کہیں یہ ذات پات کا روپ دھار کے سامنے آتی ہے تو کہیں یہ قوم قبیلے اور نسلی امتیاز کی شکل میں سامنے آیے ہے۔کہیں یہ دادا پر داد ا یا پرتوں کے کسی حادثاتی واقعے کی شکل دھار لیتی ہے تو کہیں یہ ان کے پیشے کو اپنا نشانہ بنا لیتی ہے۔

یہا ں سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا طبقاتی تقسیم صرف چترال کے اندر ہی ہے کیا باقی دنیا اس مرض سے پاک ہے تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ۔۔۔نہیں ایسا نہیں
ہے۔۔ طبقاتی تقسیم دنیا کے ہر کونے ہر معاشرے میں موجود ہے لیکن فرق یہ ہے کہ دنیا تمام جگوں میں طبقات کے اراکین کی Reshufling وقتا فوقتا ہوتی رہتی ہے۔ اور یہ عمل قدرتی ہوتا ہے۔ یعنی مواقع کی موجودگی میں معاشرے کی اشرافیہ ( Elete Class) بدلتے رہتے ہیں اور یوں طبقات میں فاصلے اور دراڑیں اتنے گہرے نہیں ہو پاتے کہ مستقبل میں ان کے اوپر پل بھی نہ بن سکیں۔لیکن اپنے مخصوص جغرافیے (جسکا ذگر اوپر کیا جاچکا)کی وجہ سے علاقہ چترال میں طبقات کے درمیان فاصلے اتنے گہرے ہوگئے کہ ان میں پل بنانا اگر ناممکن نہیں تو بہت ہی مشکل ضرور ہوگیا۔اشرافیہ صدیوں تک اشرافیہ ہی رہا اور محنت کش طبقے کو اگے جانے کا موقع نہیں ملا۔یوں معاشرے کے ساتھ ساتھ ذہنوں پر بھی نقوش گہرے ہوتے گئے۔یہ اس گہری ہوتی ہوئی طبقاتی دراڑ اور ذہنوں پر کنندہ ہوئے نقوش کا اثر ہے کہ آج اگر کوئی نوجوان لڑکا یا لڑکی اس طبقاتی دراڑ کے اوپر’’ پل ‘‘باندھنے کی کوشش کریں تو خاندان اس کو قبول نہیں کرتا۔خاندان کی منظوری کے بغیر اگر کوئی لڑکا یا لڑکی اس طبقاتی دراڑ کے اوپر ’’پل ‘‘بنا کر اس کو عبور کر بھی لیں تو خاندان کے ’’بڑے‘‘ اس ’’ پل ‘‘کو ہی ختم کر دیتے ہیں اور یوں اس بچی کے لیے واپسی کا راستہ ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتا ہے ۔اپنے خونی رشتوں سے کٹنے کے بعد اس بچی کے لیے زندگی کے نشیب و فراز کو جھیلنا مشکل ہی نہیں بلکہ انتہائی کٹھن ہو جا تا ہے اور یوں خودکشی کے خدشے دوسروں کی نسبت اس بچی میں زیادہ ہوتے ہیں۔اگر غور سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ خودکشیوں کا شکار وہ بچے ہوجاتے ہیں جنہوں نے آ ج سے پچھلے دو اور تین عشروں کے دوران ہوش سنبھال چکے ہیں اور یہ وہی عرصہ ہے کہ جس میں چترال کے اندر پہلی مرتبہ اشرافیہ کی Reshufling شروغ ہوگئی۔ محنت کش طبقے کو مواقع ملنے لگے۔اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے حقیقی مواقع میسر آنے لگے ۔اور یوں اشرفیہ کی ایک نئی کھیپ( Cadre) معرضِ وجود میں ائی۔یہ اشرافیہ ماضی کے اشرافیہ کی برخلاف کاروباری حضرات، اسکالرز( )، بیروکیریٹ( )ِ، ٹیکنوکریڑز( )،بیرون ملک مقیم چترالیوں، سرکاری و نجی اداروں میں اعلی عہدوں پر فائز حضرات،سیاستدانوں اور دوسرے لوگوں پر مشتمل تھی۔لیکن اس نئی اشرافیہ اور پرانی اشرافیہ کے درمیان حائل طبقاتی دراڑ اب بھی موجود تھیں ۔اور یہی دراڑ پچھلے تین عشروں کے دوران حوش سنبھالنے والے بچوں اور بچیوں کو نظر نہیں آتی۔۔اس نہ دکھنے والی دراڑ کو عبور کرنے کے دوران کئی ایک اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔یہ بات بھی نہیں کہ اس دراڑ کو عبور کرنے کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی جاتی ہے کچھ وسیع القلب اور دور اندیش ہستیاں دراڑ کے دونوں طرف موجود ہیں جو نہ صرف پل بنانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ خود جدوجہد میں بھی شریک رہتے ہیں۔والدین کی طرف سے وسیع القلبی،تنگ نظری سے اجتناب، اپنی خامیوں کا احساس، دوسروں کو برداشت کرنے کا رواج اور درس ہی وہ راہنماء اصول ہیں کہ جن پر عمل پیراء ہو کر ہم اپنے ان چند بچیوں کو بچا سکتے ہیں جو ’’طبقاتی تقسیم‘‘ کے اس نہ دکھنے والی دراڑ نما خندق کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیںَ۔سردیوں کی رات شام کے کھانے کے بعد ’’ہم طبقہ‘‘ حضرات کی محفل سجا کرچائے کی چسکیاں لیتے ہوئے معصوم بچوں کی موجودگی میں ’’ہم‘‘ جب اپنے پشتوں کے کارناموں کو مرچ مصالے لگا کر اور دوسروں کے عیبوں کو کیچڑ لگا کر گفتگو کرینگے تو یہ دراڑ مزید گہری ہوتی جائے گی۔

 

 

۴؛۔ مشترک گھریلیو مسائل
Common demestic issues
مشترک خاندانی نظام جو کہ ہمارے علاقے میں رائج ہے کے جہاں کئی ایک مالی فائدے ہیں وہاں اس نظام سے کچھ مسائل بھی جڑے ہیں۔ انسان فطرتا ایک آزاد جانور ہے۔انسانی فطرت میں یہ شامل ہے کہ یہ اختیار( Authority) اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے۔ گھر چونکہ ایک چھوٹی سلطنت ہی ہوتی ہے اور اس سلطنت کا ایک حاکم یا فرمانروا بھی ہوتا ہے۔ جب تک اس سلطنت میں انصاف کا بول بالا ہوتا ہے معاملات اچھے چل رہے ہوتے ہیں ۔ انصاف کا ہمیشہ بول باالا کرنا بھی بزاتِ خود ایک مشکل کام ہوتا ہے۔اور کئی ایک مرتبہ ’’ مصلحتوں ‘‘کے تحت انصاف پر سمجھوتے ( Compromises)کرنے پڑتے ہیں اور ان مصلحتوں کو مشترک خاندان کا ہر رکن اس نظر سے نہیں دیکھتا جس نظر سے گھر کا فیصلہ لینے والا بڑا دیکھ رہا ہوتا ہے۔اس معمولی غلط فہمی سے ایک بڑی غلط فہمی جنم لیتی ہے اور یہ بڑی غلط فہمی کھبی کھبی ایک جان لیوا حادثے کا پیش خیمہ بن جاتی ہے

مشترک خاندانی نظام میں سمجھوتے اکثر خواتین کو کرنے پڑتے ہیں۔بیٹے کے جدید فیشن کے مطابق بنائے گئے بال اور داڑھی ماں باپ کی آنکھ میں ’’نکھار‘‘ کی صورت میں دکھتے ہیں لیکن یہی شیو اور سلیقے سے بنائے گئے بال چچا کو شکل کے ساتھ ’’کھلواڑ‘‘ کی صورت میں نظر آتا ہے۔ بیٹی کے باریک،مختصر اور چپکے ہوئے کپڑے ماں کو نظر ہی نہیں آیینگے اور باپ کی نظر میں بیٹی کو ’’حور پری‘‘ بنا ئینگے ۔۔۔۔۔۔ لیکن انہی باریک ، مختصر اور چپکے کپڑوں میں ملبوس یہ ’’حور پری‘‘ چچا چچی کو ’’چڑیل‘‘ دکھائی دے گی۔ایک اضافی جوڑے کا بیٹی کا مطالبہ باپ کو جائز مطالبہ لگے گا۔۔۔لیکن یہی مطالبہ چچا سے ’’فضول خرچی ‘‘ کے زمرے میں تصور کی جائے گی۔

مشترک خاندانی نظام میں ایک اور مسلہ خواتین کے درمیان ’’داخلی اختیارات‘‘ کے حصول کی سرد جنگ (Cold War )ہوتی ہے۔ یہ ’’اعلانِ جنگ‘‘ تو نہیں ہوتی لیکن ’’گوریلا جنگ‘‘ کی ایک خطرناک شکل ہوتی ہے۔یعنی بظاہر ایک دوسرے کے ہمدرد اور دوست نظر آنے والے ’’مناسب موقع‘‘ کی تلاش میں ہوتے ہیں اور موقع پا کر ایک دوسرے کے مفادات کو زک پہنچاتے رہتے ہیں۔۔۔ اس گوریلا جنگ کے دوران ریاست کے ’’حاکم‘‘ کی طرف سے انصاف کی فراہمی ممکن نہیں رہتی۔۔ کیونکہ کھبی کھبار اس جنگ کا ایک فریق ’’حاکم‘‘ کی عدالت کے دائرہِ اختیار سے اوپر ہوتا ہے۔ حاکم ایک فریق کو غلطی پر سزا تو دے دیتا ہے لیکن جب غلطی دوسرے فریق کی ہو تب ’’ظلم کرنے والے ‘‘ کو سرزنش کی بجائے ’’مظلوم ‘‘ کو اخلاقیات اور اسلامی اقدار کی درس دی جاتی ہے۔۔اور یہیں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوپاتے۔۔یہی نا انصافی کھبی کھبی مظلوم کو خودکشی پر مجبور کر دیتی ہے۔۔اس scenario کی خودکشی یقیناً آپ میں سے کئیو نے اپنے علاقے میں دیکھے ہونگے۔

 

 

۵؛۔ بغیر نگرانی کیے عالمی میڈیا تک بچوں کی رسائی
Unsupervised Access of Children to Mass Media/Internet
ہم میں سے کئیوں کو وہ وقت یاد ہے کہ جب ’’بعض مخصوص کتابیں‘‘ بچوں کی پہنچ سے دور رکھی جاتی تھیں۔ غلطی سے کوئی ایسی کتاب ہاتھ بھی لگ جاتی تو بڑوں کی نظر پڑنے پر کتاب ہاتھ سے چھیننے کے ساتھ ساتھ دو چار چاٹے بھی رسید دے جاتے۔ ذرا غور فرمائیں آج کی دور کے مقابلے میں ان کتابوں میں کیا ہوتا تھا۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔زیادہ سے زیادہ کچھ ’’خاکے‘‘(نوٹ ؛۔تصویرنہیں) اور ساتھ میں لکھاری کے ’’تخیلات‘‘( Imaginations) ہوتے تھے۔لیکن آج موبائل کے سکریں پر آپ کو ’’کچھ بھی ‘‘ مل جاتا ہے۔۔۔۔صرف ’’خاکے اور تخیلات‘‘ نہیں ۔۔ جب یہ سب اور ’’بہت کچھ اور بھی‘‘ بچوں کو عمر کے اس نازک ترین حصے میں بغیر نگرانی اور راہنمائی کے دکھائی جائے تو بچے اس ’’مصنوعی دنیا‘‘ کو حقیقت سمجھنے لگتے ہیں۔اور جب بچہ خود کو اس ’’مصنوعی دنیا‘‘ کا ایک حصہ سمجھنے لگے تو پھر اس مصنوعی دنیا سے حقیقی دنیا کی طرف کا سفر انتہائی کٹھن بن جاتا ہے اور واپسی کے اس سفر میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔

سمارٹ فون آج کے دور میں ’’ضرورت ‘‘سے زیادہ نمائش بن گئے ہیں۔کوشش ہونی چاہیے کہ بچہ موبائل سکرین پر جو بھی دیکھ لے وہ والدین کی موجودگی میں دیکھ لیں اور والدین بچے کو اسکرین پر موجود ہر’’ اچھے اور برے ‘‘کے بارے میں بتا دیں اور راہنمائی کریں۔یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ جب والدین اور اولاد کے درمیان کوئی دیوار حائل نہ ہو۔ کوشش کرنی چاہیے کہ بچے کی کسی بھی فرمائش کو خواہ وہ جائز ہو یا ناجائز اس کے بارے میں پہلے بچے کو سمجھا نا چاہیے۔ اس کے تمام مثبت اور منفی پہلوں کے بارے میں بچے کو اچھی طرح سمجھانا چاہیے۔ صرف یہ گمان کہ بچہ ان باتوں کو سمجھ نہیں پائے گا غلط ہے۔ نہ سمجھانے کی صورت میں بچہ خود سے کھوج لگانے کی کوشش کے گا اور اس کوشش میں وہ غلط ماحول اور غلط ’’ذرائع ‘‘ سے اپنی جستجو کو پورا کریگا۔

آج کا جدید میڈیا چترال جیسے دورافتادہ جگے میں بیٹھی ایک بچی کو یہ تو دکھاتا ہے کہ پیرس فیشن ویک میں اس بار کونسے نئے قسم کے جوڑے متعارف کراے گئے لیکن یہ نہیں دکھاتا کہ اگر تیسری دنیا( Third World) کے غریب ترین ملک پاکستان کے غریب ترین صوبے کے غریب ترین ضلعے کے ایک غریب ترین گاوں میں بیٹی اپنے باپ سے اگر ایسے جوڑے کا تقاضا کریں تو والدیں پر کیا گزرتی ہے۔ اگر اس معصوم بچی کی خواہش کو پورا نہ کیا جائے تو بچی اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ’’دھکتے انگاروں‘‘ کے اوپر ’’ننگے پیر‘‘ چل کر بھی گزر جانے کو تیار ہو جاتی ہے۔

سوشل میڈیا یعنی فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ اور اس قسم کے کئی دوسرے ذرائع اگرچہ دیکھنے میں بے ضرر اور دلچسپ معلوم ہوتے ہیں لیکن ان ہی ذرائع کا استعمال کرکے جرائم پیشہ لوگ سادہ لوہ معصوم لوگوں خصوصا لڑکیوں کو پھانستے ہیں اور پھر انھیں بلیک میل کیا جاتا ہے۔ چونکہ ذرائع ابلاغ کے ان شکلوں سے ہمارے علاقہ باسیوں کا رشتہ نیا نیا ہے اس لیے ان کے استعمال میں ہم سے کئی غلطیاں ہوجاتی ہیں۔مثلا بچیاں اپنی اور اپنے خاندان والوں کی تصاویر بغیر کسی تذبذب کے فیس بک پر ڈال دیتی ہیں یا پھر ہر آنے والی ’’دوستی کی درخواست‘‘( Friend Request) کو قبول کرتی ہیںیہ سوچے بغیر کہ دوستی کے لیے پینگیں جو بڑہارہا ہے آیا وہ آپ کا جاننے والا ہے بھی یا نہیں۔ ایک مرتبہ ’’دوستی ‘‘ کے دائرے میں داخل ہونے کے بعد وہ آپکے ہر فعل سے با خبر رہتے ہیں۔ آپ کے تصاویر ،آپکے خاندان والوں کی تصاویر تک ان کی رسائی ہوجاتی ہے۔ان ہی تصاویر کو ’’فوٹو شاپ‘‘ پروگرام کے ذریعے ’’کیا سے کیا ‘‘ بنایا جاتا ہے اور پھر ان سے لوگوں کو بلیک میل کیا جا سکتا ہے۔وہ کہتے ہیں نا کہ بد اچھا بد نام برا ۔۔۔۔ایک مرتبہ بدنام ہونے کے بعد اپنے خاندان کا نام خراب کرنے کی وجہ بننے کے بعد اکثر خودکشی کی کوشش کرتی ہیں۔ یہاں اس بات کو یقینی بناننے کی ضرورت ہے کہ فیس بک پر ہر آنے والی فرینڈ ریکوسٹ قبول کرکے ’’حلقہ احباب ‘‘ کو اتنا زیادہ نہیں کرنا نہیں کرنا چاہیے کہ پھر ان ’’رشتہ داروں‘‘ کو سنبھالنا ممکن نہ رہے۔ جب تک ذاتی حیثیت میں کسی سے وقفیت نہ ہو نہ کسی کو فرینڈریکویسٹ بھیجنا چاہیے اور نہ آنے والی ایسی درخواستوں کو قبول کرنا چاہیے۔ خصوصا خواتین کے لیے بہت ہی ضروری۔

 

 

۶؛۔ جنریشن گیپ۔Generation Gape
آج کے اس بدلتی جدید دور میں بچوں کی راہنمائی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ جنریشن گیپ ہے۔ جنریشن گیپ در اصل اس صورتحال کا نام ہے کہ جس میں ایک دوسرے کے بعد آنے والے دو نسلوں کی استعداد اور ضروریات میں ایک واضح فرق اور فاصلہ بن جاتا ہے ۔اس کی ایک نہایت سادہ مثال اس طرح ہے کہ میرے بچے کو کس قسم کے لیپ ٹاپ کمپیوٹر اور کس قسم کے فون کی ضرورت عمر کے کس حصے میں ہوگی۔۔یا۔۔ میٹرک کے طالبعلم کو آیا لیپ ٹاپ کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔۔ یہ انداذہ کرنا روایتی تعلیم سے آراستہ ہونے کے باوجود والدین کے لیے انتہائی مشکل کام ہے۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ ایسے تمام صورتوں میں مناسب ذرائع سے راہنمائی لینی چاہیے ۔بچے کی ہر فرمائش کو پورا کرنے کی مالی استطاعت رکھنا اور ہر فرمائش کو پورا کرنا بچے کو عملی زندگی میں کامیاب کرانے کی ضمانت ہرگز نہیں ہے۔

جنریشن گیپ ان ماں باپ کے لیے بھی اولاد کی مناسب تربیت کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے جو صاحب ثروت ہیں اور ان والدین کے لیے بھی مسلہ ہے جنہیں بچوں کی بنیادی اور جائز ضرورتوں کو بھی پورا کرنے کے لیے بھی اپنا پیٹ کاٹنا پڑتا ہے۔
مختصر یہ کہ ایسے تمام والدین جنہیں بچوں کی راہنمائی کے کسی بھی مرحلے پر اگر یہ محسوس ہو کہ وہ بچوں کی ضروریات اور فضول خرچیوں کے درمیان تمیز نہ کر پا رہے ہو تو بجائے خود فیصلہ کرنے کہ کسی مناسب بندے سے صلاح لی جائے۔ یہاں خود کو کسی بھی طرح چھوٹا محسوس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔اس مسلے کا شکار آپ اکیلے نہیں ہیں۔کئی ایک والدین اور بھی اس مسلے کا شکار ہیں۔ کیونکہ یہی جنریشن گیپ ہے۔

جنریشن گیپ کی وجہ سے بچوں کی جائز ضروریات اورمطالبات کو پورا نہ کرنا جبکہ وہ بچے کی مناسب تربیت کے لیے ضروری ہو بچوں میں مختلف ذہنی مسائل کا باعث بن جاتے ہیں اور پھر یہی بچے اپنے ان جائز ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے غلط راستوں کا سہارا لیتے ہیں اور غلط راستوں کا اختتام ہمیشہ بندگلی پر ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح کی صورتحال اس وقت پیدا ہو جاتی ہے جب ماں باپ اپنے بچوں کی ضرورتوں سے بڑھ کر ان کو دیتے ہیں وہ انگریزی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ’’Excess of everything is bad. ‘‘ ۔ جب ضرورت سے زیادہ کھلائی ہوئی خوراک بھی بد ہضمی کا باعث بن سکتی ہے تو ضرورت سے زیادہ مہیا کی گئی عیاشی اور اسائش بھی بچے کی تربیت میں نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔جنریشن گیپ کی وجہ سے ’’توازن‘‘ کے دونوں طرف غلطی کا احتمال رہتا ہے

 

 

۷؛۔ بنیادی ضروریات زندگی سے غیر ہم آہنگ نظام تعلیم
ہمارا نظامِ تعلیم ہماری ضروریات سے بالکل ہم آہنگ نہیں۔ روایتی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب ماسٹر کی سند بندے کے ہاتھ میں تھما دے جاتی ہے تو اس کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا کچھ کر سکتا ہے۔اصل تعلیم تو در اصل بندے کو اس وقت مل جاتی ہے جب بندہ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد جب سال دو سال بے روزگاری کی حالت میں بندہ گزار دے ۔۔۔ان سال دو سالوں میں اس بندے کو پتا چلتا ہے کہ تعلیم کس قسم کی ہونی چاہیے۔بندے کو پتہ چل جاتا ہے کہ اس کی اصل سمت ہے کیا۔۔۔۔لارڈمیکالے نے صدیوں پہلے جب ہمارے نظام تعلیم کو ترتیب دی ہوگی اس وقت اس کے ذہن میں یقیناًکچھ مقاصد ہونگے کچھ اہداف ہوتے ہو نگے اور اپنے وقت پر وہ پورے بھی ہوئے ہونگے لیکن ہم ہیں کہ آج بھی اسی لائن پر لگے ہوئے ہیں۔اس بے منزل تعلیم کی وجہ سے تعلیم یافتہ لوگ آج حکومت کا ہاتھ بٹانے کی بجائے حکومت پر بوجھ بن جاتے ہیں۔اور حکومت جب ان کا بوجھ نہیں اٹھا پاتی تب یہ خود اپنا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تھک ہار کر خودکشی کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ یہ صورتحال لڑکیوں کے انتہائی خوفناک ہوتی ہے۔

ہمارے نظامِ تعلیم کے کرتا دھرتاوں کو چاہیے کہ نظامِ تعلیم کو اس طرح ترتیب دے کہ ایک بندہ اپنے آپکو سنبھالنے کے قابل تو بن سکیں۔ہمار ے ملک میں اشرافیہ کو چھوڑ کر ’’عوام‘‘ کے لیے علم کے جتنے نظام رائج ہیں وہ یا تو ایک ’’نوکر ‘‘ بنانے کے لیے ترتیب دیا گیا نظام ہے یا پھر’’بغیر اجر ت کے‘‘ مر مٹنے والا سپاہی تیار کرنے کا نظام ہے ۔ایک اور خامی ہمارے نظامِ تعلیم میںیہ ہے کہ یہ ایک اوسط درجے کے طالب علم کو اگے جانے کا موقع نہیں دیتا۔ اس نظام تعلیم میں صرف ایک outstanding بندہ ہی اگے جا سکتا ہے جس نے پڑھنے کے لیے اپبنے طریقے اور اپنا مخصوص سٹ اپ بنایا ہو۔ خیر یہ نظامِ تعلیم کی خامیاں گنوانے کا مناسب فورم نہیں۔ اجھے خاصے ٹیلنٹڈ بچے اور بچیاں اس نظام تعلیم کی وجہ سے مین اسٹریم سے ہٹ جاتی ہیں۔ تعلیم کے بڑے دھارے سے علحیدہ ہونے کے بعد یہ بچے نہ صرف معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں بلکہ کئی ایک معاشرتی اور سماجی مسائل کا باعث بھی بن جاتے ہیں

 

 

۸؛۔دینی اور دنیاوی تعلیم ایک دوسرے سے جدا اور متوازی چلنا
seperate and parallell system of religious and material education
اس ملک میں تعلیم کے دو نظام بیک وقت چل رہے ہوتے ہیں ایک وہ نظام جو گورنمنٹ اور پرائیوٹ سکولوں اور کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے۔اور دوسرا وہ نظام جو مختلف ٹرسٹوں کے زیر انتظام مدرسوں میں رائج ہے۔ ایک متوازن معاشرے کے لیے دونوں قسم کے علوم کا ایک ہی درسگاہ کے اندر مو جود ہ ہونا بے حد ضروری ہوتا ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ وطنِ عزیز میں مختلف ’’قومی اور بین الاقوامی ‘‘ مصلحتوں کے تحت ان دونوں قسم کے علوم کو ایک دوسرے سے الگ رکھا گیا ہے ۔اول الزگر درسگاہ سے فارغ التحصیل طالب علم ایک انتہائی جدت پسند( Ultra libral) اور اخر الزگر درسگاہ سے فارغ طالب علم ایک انتہائی قدامت پسند ( foundamentalist) بن کے نکل جاتا ہے۔ نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ ان دونوں قسم کے درسگاہوں میں سے جو چیز غائب نظر آتی ہے وہ ہے میانہ روی کا فقدان۔ اور یوں معاشرہ Polarized ہوجاتا ہے۔یہ پولیرایزڈ معاشرہ عدم برداشت اور سخت گیری پر مبنی ہوتا ہے۔موقف سے اختلاف کی ایسے معاشرے میں گنجائیش بہت کم ہوتی ہے۔اور دوسرا یہ کہ مذہبی تعلیم مادہ پرستی کے دنیا میں ایک لازمی احتساب کے ایک عنصر(
Inevitable Accountability Factor) کے طور کام کرکے دنیاوی نظام میں توازن کو بگڑنے سے روکتا ہے۔درسگاہوں سے مذہبی تعلیم کا کلی یا جزوی خاتمہ انسانی معاشرے سے لازمی احتساب ( inevitable accountability)کے اس تصور کو ختم کر دیتا ہے اور معاشرہ آہستہ آہستہ مطلق العنانیت کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ مذہبی تعلیم کا ایک اور کردار سوچ اور روش میں استقامت کی صورت میں معاشرے کے اندر موجود ہوتا ہے۔ اپنے بنیادی مذہبی عقائد سے اگاہی اور عمل سے انسان کو قلبی سکون ملتا ہے اور انسان مخدوش سے مخدوش حالات میں بھی مطمئن رہتا ہے اور ذہنی بے سکونی اور بے اطمینانی سے بچا رہتا ہے۔انسان اگر مادی طور پر ترقی بھی کر لیں تو ترقی کے اس سفر میں کئی سخت مرحلے آتے ہیں جہاں انسان کو اگے کا راستہ بند دکھائی دیتا ہے لیکن مذہب سے وابستگی اور عقائد پر عمل پیرا انسان کو اس مرحلے پر بھی ذہنی بے سکونی اور پریشانی نہیں ہوتی اور امید کا دیا جلتا رہتا ہے۔ لیکن مذہب اور دین سے لاتعلق انسان جب مادی دنیا کے بند گلی کے اندر محصور ہو جاتا ہے تو اس کے پاس جینے کے لیے کوئی امید باقی نہیں رہتی اور یوں امید کی دیا کے بغیر زندگی کا چراغ بھی بجھنے لگتا ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ زندگی کے چراغ کو روشن رکھنے کے لیے امید کے دیا کا ہونا ضروری ہے ۔

 

جس طرح مذہبی و دینی تعلیم کے بغیر دنیاوی تعلیم سے ایک پرسکون زندگی ممکن نہیں بالکل اسی طرح مادی ضرورتوں کے محتاج اس بدن کو پالنے کے لیے مادی ضرورتوں کو تابع کرنے والی تعلیم بھی اتنی ہی ضرورت ہے ۔ آج ساری علم انگریزی زبان میں منتقل ہوچکی ہے۔انگریزی زبان پر دسترس کے بغیر علم کا حصول انتہائی مشکل ہے۔ یہ درست ہے کہ علم کی بیچ مسلمانوں کے ہاتھوں بوئی گئی ہے ایک لمبے عرصے تک اس نوزائدہ پودے کی آبیاری بھی مسلمانوں نے کی۔جب تک اس نوخیز پودے کی آبیاری مسلمان کرتے رہے علم کی تمام کتابیں عربی اور فارسی زبانوںمیں تھیں۔ لیکن پھر مسلمانوں پر قہرِ الہی ہلاکو خان اور چنگیز خان کی شکل میں نازل ہوا۔ مسلم سلطنتوں کو ملیامیٹ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایک دور رس نتائج والا ظلم ان منگولوں نے مسلمانوں کے ساتھ یہ کیا کہ انھوں نے مسلمانوں کی تمام درسگاہوں کو جلا دیے اور عا لموں کو مار دیے۔ منگولیا سے لیکر مصر تک علم کو تمام ذرائع ختم کیے گئے۔ اتفاق سے یہی علاقے مسلمانوں کے علاقے تھے۔ ابو الہیثم ، البیرونی اور ابنِ سینا جیسے عا لموں کے تجربات ،مشاہدات اور تحقیق پر مبنی تمام کتاب ان منگولوں نے ختم کردیے۔ اس زمانے کی جامعہ الالزہر آج کی اکسفورڈ یونیورسٹی تھیں۔ منگول آفت کے بعد عربی اور فارسی زبان میں لکھی گئی تمام علم ختم ہوگئی ۔عربی اور فارسی میں کی گئی تحقیق اور علم کے باقیات صرف وہ چند یورپی اسٹوڈنٹ رہ گئے جو یورپ سے آ کر مصر اور عراق کی الالزہر جیسی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے تھے۔ منگول آفت کے اتے ہی یہ چند طالبعلم اپنی جان بچا کر واپس یورپ چلے گئے اور وہاں جا کر اس علم کو جو انھوں نے مصر اور عراق کی یونیورسٹیوں حاصل کی تھیں اپنی یورپ کی زبان یعنی انگریزی زبان میں ترجمہ کر دیے۔ با الفاظِ دیگر مسلمان عالموں کی تصانیف کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا یا یوں کہہ لیجیے کہ مسلمانوں کے لگاے ہوے نو خیز پودے کو مصر اور عراق کے کی زمین سے نکال کر یورپ کی زرخیز زمین پر لگادیا گیا اور یہیں سے اس پودے نے اپنی اگے کی نشورنما کی اور بہت خوب کی۔

 

درج بالا تاریخ کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگوں کی ایک کثیرتعداد ساینسی علم کو مغربی علم تصور کرتی ہے اور اس کے حصول کی کوشش کو کفر قرار دیتی ہے حالانکہ سائنسی علم مسلمانوں کی ہی شروعات ہے اور ہمیشہ سے مسلمانوں کی میراث رہی ہے اپنے جہالت اور کم فہمی کی وجہ سے ہم اپنے ہی میراث کو دوسروں کی ملکیت ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک میں دو ملین سے زیادہ بچے مدرسوں میں پڑھتے ہیں ۔کیا ہی اچھا ہوتا ان درسگاہوں میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے میراث یعنی سائنس کی تعلیم بھی دیجاتی۔
یہاں اس بحث کو کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سائنسی علم سے آراستہ ایک بندے کے لیے روزگار کا حصول آسان ہوتاہے برسرِروزگار ایک بندہ بغیر کسی ذہنی دباو اور پریشانی کے اپنے اور اپنے خاندان کی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے۔ پریشانی اور ذہنی دباؤ جسطرح بیان کیا جا چکا خودکشی کی طرف پہلا قدم ہے

 

 

نوٹ؛۔ مظمون بالا حقیقی واقعات کی روشنی میں تحریر کیا گیا ہے۔ اس مظمون میں لکھے گئے مواد متاثرین سے انٹرویو ،یا متاثرین کے قریبی رشتے داروں اور دوستوں سے انٹرویو یا پھر متاثرین کے محلے داروں سے انٹرویو کے بعد جمع شدہ مواد کا ممکنہ حد تک غیرجانبدرانہ تجزیہ کرنے کے بعد لکھے گئے ہیں۔یہاں میں یہ واضح کرتا چلوں کہ حقائق تک پہنچنے کی یہ ذاتی حیثیت میں ایک انفرادی کوشش ہے حالانکہ یہ مسلہ ایک منظم حکومتی یا ادارہ جاتی توجہ طلب مسلہ ہے۔ انفرادی کوشش ہونے کے ناطے یہ کسی بھی طرح سے حتمی نہیں ہے۔ مجھے احساس ہے کہ اس سنجیدہ معاملے کے کئی پہلو میری ناقص کوشش کی پہنچ سے پوشیدہ رہے ہونگے ۔ہمارے معاشرے میں کئی ایک حضرات موجود ہیں جو اپنے قلم کی نوک سے، اپنے فصیح کلامی سے، اپنے وسائل سے ، سماج میں اپنی حیثیت اور اثر رسوخ سے، پراےؤٹ یا سرکاری اداروں میں اپنے اختیارات کا استعمال کرکے اس مسلے کے حل میں بہت مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔


شیئر کریں: