Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

قومی زبان اُردو…..۔۔۔۔میر سیما امان چترال

Posted on
شیئر کریں:

ہم سب جانتے ہیں کہ چین میں چینی زبان،انگلستان میں انگریزی، عرب میں عربی،انڈونیشیا میں انڈونیشی اور روس میں روسی زبان بولی جاتی ہے۔۔اگر ان ممالک میں کوئی دوسری زباں بولی بھی جاتی ہے تو نہایت محدود پیمانے پر ۔۔انکے برعکس پاکستان میں قومی زبان کو ایک طرف رکھ کر ا نگریزی زبان کو جو تقویت دی گئی ہے اسکی مثال نہیں ملتی۔گو کہ حکومت نے مختلف ادوار میں اردو زبان کے لئے مختلف اقدامات اُٹھائے ،اسکو آئینی اور قانونی تحفظ بھی دیا۔مگر بد قسمتی سے ان قوانین کا نفاذ آج تک ممکن نہیں ہو سکا۔۱۹۷۳ء کے آئین کے شق ۱۵۲میں یہ کہا گیاتھا کہ آئین کے نفاذ کے بعد ۵۱ سال کے اندر اندر ملک کے تمام سرکاری مراسلات اردو میں کی جائیں گی مگر اج تک اس آئین کا نفاذ ممکن نہیں ہوسکا ہے۔حد تو یہ ہے کے موجودہ دور میں اردو ذباں د قیانوسیت کی علامت بن چکی ہے۔ہمارے نوجوانوں کو انگلش بولتے ہوئے جو فخرمحسوس ہوتی ہے اس سے کہیں گُنا ذیادہ شرم اردو بولتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔اردو میڈیم ایک احساس محرومی کا نام بن چکا ہے اس میں ہمارے ان معصوم نوجوانوں کا کوئی قصور بھی نہیں کیونکہ یہ کلچر تو خود ہمارے بڑوں نے فروغ دی ہے۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ قیام پاکستان کے فوری ہی بعد اردو ذباں کے متعلق مختلف تعصبات کا آغاذ ہو گیا تھامتاثرین انگریز غلام ذہنیت کے چند نام نہاد لیڈروں نے مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے اردو ذباں کی دھجیاں اُڑانے کی کوششیں کی ہیں اور ملک کی ترقی کو ہر حال میں انگریزی ذباں سے مشروط قرار دیتے رہے ہیں۔ ترقی کی راہ میں اردو کو رُکاوٹ ثابت کرنے والی ایسی ہی اعلانات اور بیانات کے نتیجے میں آج قوم ایک(ممی ڈیڈی جنیریشن)کو جنم دے چکی ہے۔جو منہ ٹیڑھا کرکے انگلش بولنے میں ہی اپنی عظمت سمجھتے ہیں۔آج الیکٹرانک میڈیا کے بڑے چینلز ہوں یا علاقائی چھوٹے چھوٹے ریڈیو سٹیشن ہر طرف اردو کی زبوں حالی عروج پر ہے۔مذکر مونث کی فرق کو چھوڑیں صرف زیر زبر کی غلطیوں پر ہی نظر ثانی کی جائے تو دل دکھ کی اتھاہ گہرایؤں میں ڈوب جاتاہے۔مثال کے طور پر روزمرہ پروگراموں میں (گُھپ اندھیرے کو گپ اندھیرا) اور تعریف کے پُل باندھنے کو پل باندھنا اور خوش امدید جیسے الفاذ کو غلط تلفظ کے ساتھ پڑھنا معمول بن چکاہے۔دوسری طرف مختلف سکولوں کے طلبہ کا جائزہ لیا جائے تو حالت اس سے بھی ذیادہ قابل رحم ہے۔اس وقت چترال میں سینکڑوں کی تعداد میں سرکاری اور غیرسرکاری تعلیمی ادارے موجود ہیں۔بشمول چترال کے اس بڑے پرایؤٹ ادارے کے جو بین الاقومی طورچترال کا بڑا تعلیمی ادارہ مانا جاتاہے ان تمام اداروں میں اگر میں یہ کہوں کہ اردو زبان اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ان سکولوں کی نوٹ بکس ان اساتذہ کے منہ پر دھبہ ہیں جو بچوں کو نقطے اور ذیر ذبر کی غلطیاں تک نہیں سکھا پاتے۔جو اساتذہ ذیر ذبر کی غلطی نہیں سکھا سکتے ہیں وہ کس بات کے ’’معلم‘‘ ہیں؟؟اور کس بات کی تنخواہ لیتے ہیں؟؟؟یاد رہے کہ ’’معلمی‘‘ نہایت بڑا پیشہ ہے یہ پیغبروں کا پیشہ ہے اسکی عزت رکھیں اور خدارا اپنی تنخواہیں حلال کرنا سیکھیں۔۔ سچ تو یہ ہے کہ انہی اُساتذہ نے اردو ذبان کو ایک معذور زبان بنا ر کھا ہے ۔آج بچوں کے لیے اردو لکھنا کسی محاذ سے کم نہیں۔۔۔۔۔ یہاں پر سکول انتظامیہ کا بھی فرض ہے کہ وہ اردو مضامین کے لیے واقعی ایسے اساتذہ رکھے جنہیں خود بھی اردو کی (ا۔ب)آتی ہو۔۔اور تمام سکولوں میں اسمبلی کے بعد یا چھٹی کے وقت آدھا گھنٹے کا بھی ایک (zero period)ایسا ضرور رکھے جسمیں بچوں میں اردو میں مضمون نگاری،بیت بازی اور تقریری مقابلے کروائی جائیں ۔اس سے نہ صرف طلبہ میں اردو کی ترویج ہوگی بلکہ اپنی قومی زبان سے محبت بھی بڑھے گی۔اردو کی تاریخ و اہمیت سے آگاہی کے ساتھ ساتھ بچوں میں کتب بینی کا شوق بھی پیدا ہوگا۔سکول انتظامیہ کو اتنا احساس ہونا چاہیے کہ لوگ بھاری فیسیں ادا کرکے اپنی بچوں کو اگر ان سکولوں میں بھیجتے ہیں تو کم از کم ان بچوں کو محض ڈگریوں سے لبریز کرنے کے بجائے واقعی ان میں علم و ہنر پیدا کی جائے۔جو انکا حق ہے۔ایک اور افسوسناک پہلو ہمارے ملک میں courses language کا ہے۔مجھے یہ سوچ کر حیرت ہوئی ہے کہ ہمارے ملک کے کونے کونے میں کورس کے نام پر بھی محض English language course ہی کر وائی جاتی ہے جو کہ نا انصافی ہے۔حالا نکہ ملک کے آدھے سے ذیادہ لوگ اردو سے نا واقفیت رکھتے ہیں۔خود پنجاب کے علاقوں میں اردو بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے کیو نکہ ذیادہ تر لوگوں کی مادری زبانیں سرایئکی،ہندکو اور پنجابی وغیرہ بولی جاتی ہیں اسی طرح دوسرے صوبوں مثلا بلوچ ۔سندھ ،بلتستان ہر جگہ مختلف ذبانیں ہی بولی اورسمجھی جاتی ہیں مجموعی طور پر صیحح اور مکمل اردو سے واقفیت رکھنے والوں کی تعداد کم ہے تو ایسے میں میرے چھوٹے سے دماغ میں اکثر یہ بات آتی ہے کہ ہمارے ملک کے تمام علاقوں میں کیا ( urdu language course )کا انعقاد نہیں ہونا چا ہییے؟؟؟؟؟تا کہ ملک کا بچہ بچہ بھی اپنی قومی زبان اردو صحیح تلفظ کیساتھ بول سکتا۔۔سچ تو یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اردو کے بعد اگر کسی زبان کو رائیج ہونا چاہییے تھا تو وہ ہے عربی۔۔جسمیں اﷲتعالی کا پاک کلام ناذل ہوا۔جسے سیکھنے اور سمجھنے میں ہی ہماری بھلائی ہے لیکن۔۔’’متاثرین انگریز‘‘ پا کستان کی اعلی حکمران اردو اور عربی کو اپنی شان کے خلاف سمجھنے سے باز ہی کہاں آسکتے ہیں۔۔۔۔میں اپنے ا نتہائی چھوٹے دماغ اور کم علمی کو سامنے رکھتے ہوئے صرف ایک سوال کر نا چاہتی ہوں کہ گزشتہ ۷۰ سالوں سے ملک کے تعلیمی اداروں میں درسی کتب انگریزی میں رکھنے کے باوجود ملک بے پناہ ترقی کیوں نہیں کر پایا؟؟؟کیوں آج بھی ہمارا ایک ماسٹر ڈگری ہولڈر نوجوان بیرون ملک تعلیمی اداروں کے سامنے محض میٹرک پاس کی حثیت رکھتا ہے؟؟ْ؟دُنیا کے تمام مُمالک میں سر کاری ذبان اور ذریعہ تعلیم قومی ذبان ہی ہوتی ہے مگر افسوس صد افسوس کہ پاکستان لاکھوں نا کا میوں کا منہ دیکھنے کے با وجودآج بھی اپنا رویہ بدلنے کے لیے تیار نہیں۔۔۔۔اگر انگریزی ذبان ہمارا ’’’قومی مرض‘‘‘ بن ہی چکا ہے تو اس بیمار انتظامیہ کو صرف یہ مشورہ ہی دیا جاسکتا ہے کہ تمام سر کاری اور نیم سر کاری تعلیمی اداروں میں انگریزی ذبان کو kg سے لیکر class 10th تک کورس کے طور پڑھائی جائے تو کو ئی شک نہیں کہ ملک کا بچہ بچہ انگریزی بولنا سیکھ جائے گا لیکن انگلش ذبان سے محبت کے آڑ میں اپنی تشخُص کومزید پامال مت کریں۔قومی ذبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے تا کہ قوم محض ڈگری یافتہ ہونے کے بجائے صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ ہو۔اور پھر جب کسی ا نٹر ویو حال میں کسی میڈیکل اسٹوڈنٹ سے جب پو چھا جائے کہ ’’’’صحاح سستہ کیا ہے؟؟تو اگے سے اسٹوڈنٹ کا یہ شرمناک جواب نہ آئے کہ ’’’’پہلے یہ بتائیں کہ یہ صحاح سستہ کھانے کی چیز ہے یا پہننے کی؟؟؟؟؟بحرحال اُردو ذبان ہمارا فخر ہماری پہچان اور ہماری عزت ہے اسکی حفاظت کی ز مہ داری صرف حکومت کی نہیں ہم سب پر فرض ہے لہذا سکی تر ویج اور بقاء کے لئے سب کو انفرادی طور پر کو ششیں کر نی چا ہیے۔۔۔۔۔۔!!!!


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
1955