Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بید اد …………. اسمبلیوں کی موت ………. ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Posted on
شیئر کریں:

کچھ لوگ موجو دہ اسمبلیوں کو توڑ کر انتخابات کر وانے کا مطالبہ کر رہے ہیں کچھ لوگ نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بند یوں کے بعد انتخابات کا مشورہ دیتے ہیں بعض سیاستدان اسمبلیوں کی مدت پوری کر کے پرانی حلقہ بند یوں کے مطابق انتخابات کی تجویز دیتے ہیں ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو انتخابات کوکم از کم 20 سالوں کے لئے موخر کر نا چاہتا ہے یہ لوگ صفر کو حذف کر کے صرف 2 سالوں کے لئے قومی حکومت کے نا م پر سابقہ جرنیلوں ،ججوں اور ریٹا ئر ڈافسروں کی حکومت لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں غر ض ہماری موجودہ سیاست پر شاعر کا وہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ ’’ کچھ نہ سمجھے خدا کر ے کوئی ‘‘ شہاب نامہ ہماری سیاسی تاریخ کی چشم دید کہانی ہے اس میں 1956 ؁ء سے 1958 ؁ء تک اور 1958 ؁ء ے 1966 ؁ء تک ہماری قومی زندگی کے شب و روز کا تماشا بلا کم و کا ست دکھا یا گیا ہے جنرل آغا محمد یحیےٰ خان کی حکومت سے بھی چید ہ چید ہ جھلکیا ں دکھا ئی گئی ہیں حمو د الرحمن کمیشن کی رپورٹ بھی قومی دستاویز ہے اس کے چید ہ چید اوراق دستیاب ہیں اس کی دستیا ویز ی شہادتیں انٹر نیٹ پر موجو د ہیں 10 سال کے بچے بھی یوٹیوب پر سقو ط ڈھا کہ کی فلمیں دیکھ لیتے ہیں اور ماں باپ کو دکھا تے ہیںیہ سارے کا سارا مواد دو باتوں کی شہادت دیتا ہے پہلی بات یہ ہے کہ سیاستدانوں کی باہمی دُشمنی ، بُغض ،رقابت اور حسد سے افسر شاہی کو فائد ہ اُٹھا نے کا موقع ملتا ہے اسٹبلشمنٹ آگ کو بھڑ کا تی ہے اور فائد ہ اُٹھا تی ہے دوسری بات یہ ہے کہ سیاستدان اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات اور اپنی معمولی خواہشات کے لئے ملک کے اندر نسلی ،مذہبی ، لسانی اور گروہی اختلافات کو ہوا دیتے ہیں 1971 ؁ء کا مشرقی پاکستان اور 2017 ؁ء کا بلوچستان ، یا کراچی اس کی مثال ہیں مشرقی پاکستان کا سانحہ ایک دم رونما نہیں ہوا مولوی اے کے فضل الحق کے خلاف سازش سے اس کا آغاز ہوا ، حسین شہید سہر وردی جیسی نابغہ روزگار شخصیت کے خلاف محاذ بنا کر ان کی حکومت توڑ دی گئی مولوی تمیز الدین خان کو غیر قانونی طور پر نکال دیا گیا شیخ مجیب الرحمن کو 1971 ؁ء سے 4 سال پہلے غدار قرار دے کر دشمن کے کیمپ میں دھکیل دیا گیا یہ کام افسر شاہی نے ججوں اور جرنیلوں کی مد د سے نہیں کیا سیاستدانوں نے اپنی نالائقی اور نااہلی کی وجہ سے ایسی حماقتوں کا ارتکاب کیا آج خیبر پختونخوا اور ملاکنڈ ڈویژن سے فوج کو واپس بلانے کی احمقانہ باتیں ہورہی ہیں فوج واپس چلی گئی تو سیاستدان ملکر دشمن کو راستہ دینگے دہشت گر دی واپس آجائیگی ہر سیاستدان اپنے مخالف کے گھر ، دفتر ،جلسہ اور جلوس پر حملہ کر نے کے لئے دشمن کو دعوت دیتا ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے جمہوریت اور سیاستدان کو بد نام کر نے والا سیاستدان ہی ہے اسمبلیوں کو بدنام کر نے والا سیاستدان ہی ہے1958 ؁ء میں ملک کے بڑے سیاستدانون کو (EBDO) کے تحت منتخب نمائیند وں کی نااہلی کا قانون لاکر نا اہل قرار دینے والے سیاسی جماعتوں کے اکا برین تھے ان اکا برین کا خیا ل تھا کہ مخالف کو نا اہل قرار دئیے بغیر مجھے وزارت نہیں ملے گی 60 سال بعد تاریخ اپنے آپ کو دہر ا رہی ہے موجودہ اسمبلیاں 5 جون 2018 ؁ء کوا پنی مدت پوری کر رہی ہیں اگر ان اسمبلیوں کو مرگ مفاجات یا غیر طبعی موت سے دو چار کیا گیا تو اگلا منظر نامہ کیا ہوگا ؟ اس کی دھندلی سی تصویر نظر آرہی ہے پاکستان تحریک انصاف کے تمام ترقیاتی منصوبے نا مکمل رہ جائینگے اگر کسی مرحلے پر انتخابات ہوئے تو سب سے زیادہ نقصان پی ٹی آئی کو ہوگا موجودہ حالات میں مسلم لیگ (ن) کے سر پر مظلو میت کی پگڑی رکھ دی گئی ہے اس پگڑی کی وجہ سے سب ے زیادہ فا ئد ہ مسلم لیگ (ن) اُٹھا ئیگی اگر جون2018 ؁ء تک اسمبلیوں کو نہ توڑا گیا تو خیبر پختونخوا میں ریپڈٹرانزٹ بس منصو بہ سمیت دیگر ترقیاتی کام مکمل ہو جائینگے انتخابات کے لئے ہو م ورک تیار ہوگی پارٹی لیڈر اور ورکر عوام کے سامنے واضح ایجنڈا لیکر جائینگے اپنی کار گردی کا ذکر فخر سے کر ینگے اور جا ر حانہ انتخابی مہم چلا ئینگے اسمبلیاں ٹوٹ گئیں تو مدا فعانہ اور معذرت خو اہانہ رویہ پی ٹی آئی کا مقدر بنے گا پنجاب ہا تھ سے نکل جائے گا سندھ اور بلوچستان پر توجہ نہیں دی گئی ، خیبر پختونخواہ میں بھی پارٹی کی ساکھ متاثر ہوگی مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی باتیں ناکام ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں بڑے لیڈروں کی ’’ بڑائی ‘‘ بڑی رکاؤٹ بنی ہوئی ہے نچلی سطح پر کارکنوں کو یہ اتحاد منظور نہیں کوئی بھی کارکن مذہبی جماعتوں کے اتحاد کو قبول کر نے پر آمادہ نہیں اس لئے میدان سیکولر طاقتوں کے لئے صاف ہے مگر سیکولر پارٹیوں میں بھی مسلم لیگ (ن) کے سوا کسی کی تیاری نظر نہیںآتی انتخابات میں جتنی جلد بازی کی گئی اس کا فائد ہ مسلم لیگ (ن) کو ہوگا یہ نو شتہ دیوار ہے اس لئے پی ٹی آئی قیادت کو اسمبلیاں توڑ نے کی ضد نہیں کرنی چاہیے’’ ہم نیک و بد حضور کو سمجھا ئے دیتے ہیں ‘‘


شیئر کریں: