Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ٓ آہ۔۔۔ حافظ سید حبیب الرحمان ……….. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

حافظ سید حبیب الرحمان کی وفات کے ساتھ خیبر پختونخوا کے آسمان صحافت کا ایک درخشندہ ستارہ غروب ہوگیا۔ استادالاساتذہ حبیب الرحمان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے۔ 58سالہ صحافتی زندگی کے دوران ان کے دامن پرکوئی داغ بھی نظر نہیں آتا۔ حبیب الرحمان ایک صحافی ہی نہیں، بہترین استاد، اعلیٰ پائے کے تجزیہ کار اور بہترین کالم نگار بھی تھے۔1940میں غیر منقسم ہندوستان کے شہر انبالہ میں پیدا ہونے والے حبیب الرحمان نے پاکستان بنتے دیکھا۔ سات سال کی عمر میں والدین کے ساتھ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور روالپنڈی میں رہائش اختیار کی۔ وہیں سے سکول، کالج اور یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کی۔ طالب علمی کے دوران ہی 1959میں روزنامہ ناقوس روالپنڈی کے ساتھ بطور سب ایڈیٹر منسلک ہوگئے۔ اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا بعد ازاں روزنامہ تاجر اور روزنامہ تعمیر سے وابستہ ہوگئے۔ 1965میں پنڈی سے پشاور منتقل ہوئے اور روزنامہ انجام سے منسلک ہوگئے۔ 1967میں روزنامہ انجام بند اور روزنامہ مشرق کا اجراء ہوا۔تو نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے مشرق سے وابستہ ہوگئے۔ وہاں چیف نیوز ایڈیٹر، اداریہ نویس، تجزیہ کار کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 1998میں فرنٹیئر پوسٹ کے اردو اخبار میدان سے چیف نیوز ایڈیٹرکی حیثیت سے منسلک ہوگئے۔ 2002میں روزنامہ آج میں جوائنٹ ایڈیٹر کا عہدہ سنبھالا۔ اور آخری سانسوں تک روزنامہ آج سے وابستہ رہے۔وہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن میں حالات حاضرہ کے پروگراموں میں بھی شرکت کرتے رہے۔ حافظ حبیب الرحمان کو اپنے دور کے نامور صحافیوں مقبول بٹ شہید، عبدالواحد یوسفی، شمشاد صدیقی، عبدالستار غزالی، محمد نعیم خان، نواز صدیقی، ذوالفقار علی، اشرف درانی،یعقوب خان، منہاج برنا اور نثار عثمانی کی رفاقت حاصل رہی۔ انہوں نے صحافتی زندگی کا بیشتر حصہ کارکن صحافیوں کے حقوق کے لئے جدوجہد میں گذاری، وہ روالپنڈی یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری، پنڈی پریس کلب اور پشاور پریس کلب کے سیکرٹری، خیبر یونین آف جرنلسٹس کے صدر، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے نائب صدر، آل پاکستان نیوز پیپر ایمپلائز کنفیڈریشن کے مرکزی چیئرمین اور پانچویں ویچ بورڈ کے ممبر بھی رہے۔ اظہار رائے کی آزادی کی جدوجہد میں انہیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔ کراچی پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتال کی۔پولیس نے بھوک ہڑتالی کیمپ پر دھاوا بول کر انہیں جیل میں ڈال دیا۔ اٹھارہ دن تک انہوں نے نمکین پانی کے سوا کچھ کھایا نہ پیا۔حالت بگڑنے پر اسپتال منتقل کردیاگیا۔صحافیوں کے لئے ویج ایوارڈ کے لئے بورڈ کی تشکیل کا ذکر کرتے ہوئے حبیب الرحمان نے ایک واقعہ بیان کیا کہ 1960میں صحافیوں کے لئے پہلا ویج بورڈ آیا۔ جس کا سہرا صدر ایوب خان کے وزیر محنت واجد علی برکی کے سر ہے۔ واجد علی لاہور میں کسی تقریب میں شریک تھے۔ جہاں ان کی نظریں ایک سینئر صحافی پر اٹک گئیں۔جس نے پھٹے پرانے کپڑے پہن رکھے تھے۔ اپنا حلیہ بہتر کرنے کے سوال پر صحافی نے واجد برکی کو بتایا کہ انہیں جو تنخواہ ملتی ہے ۔ اس میں وہ اچھے کپڑے بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ واجد علی اس جواب پر بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے صحافیوں کی تنخواہوں اور مراعات کے لئے ویج بورڈ قائم کیا۔ جسٹس ریٹائرڈ سجاد احمد جان بورڈ کے پہلے سربراہ مقرر ہوئے۔ویج بورڈ نے رپورٹرز اور سب ایڈیٹرزکی تنخواہ گریڈ اٹھارہ کے افسر جبکہ نیوز ایڈیٹر گروپ کی تنخواہ گریڈ بائیس کے سرکاری افسر کے مساوی مقرر کی ۔ اپنے انٹرویو میں حبیب الرحمان کا کہنا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کا دور صحافیوں کے لئے سب سے مشکل دور رہا۔ اظہار رائے پر قدغن تھی صحافیوں کو کوڑے مارے گئے۔ نوکریوں سے نکالا گیا اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور صحافت کی آزادی کے حوالے سے سب سے اچھا دور رہا۔مجھے حبیب الرحمان کے ساتھ دس سال تک کام کرنے کا موقع ملا۔ جو میری زندگی کا سرمایہ ہے۔ وہ نہ صرف ایک قابل استاد،بہترین منتظم اور فہم و دانش کے مالک تھے۔ بلکہ وہ انتہائی بزلہ سنج ، متاثر کن شخصیت کے مالک اور حد درجہ شفیق انسان تھے۔ 78سال کی بھر پور زندگی گذارنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اللہ تعالیٰ ان کی معفرت فرمائے ۔حبیب الرحمان کی وفات سے اردو صحافت میں پیدا ہونے والا خلاء شاید کبھی پورا نہ ہوسکے۔


شیئر کریں: