Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

تجاوزات کے خلاف بلاامتیاز آپریشن………. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

پشاور میں انسدادتجاوزات کی مہم اکثر چلائی جاتی ہے۔ لیکن زیادہ تر غریب ریڑھی بانوں، خوانچہ فروشوں اور فٹ پاتھ پر چار پانچ سو روپے کی چیزیں بیچنے والوں کو مہم کی آڑ میں تنگ کیا جاتا ہے۔ پشاور میں پہلی بار تجاوزات کے خلاف موثر آپریشن سابق گورنر افتخار حسین شاہ کے دور میں شروع کیا گیا۔ رات بارہ بجے کے بعد انتظامیہ کی ٹیم پولیس کی بھاری نفری اور ہیوی مشینری لے کرتجاوزات گراناشروع کرتی تھی گورنر خودکرسی ڈال پر پاس بیٹھ جاتے تو کسی کی جرات نہ ہوتی کہ مزاحمت کرتا۔ تاہم یہ آپریشن صرف جی ٹی روڈ تک محدود رہا۔بڑے بڑے ہوٹلوں، پلازوں اور مارکیٹوں سے تجاوزات کا خاتمہ کیا گیا۔ موجودہ حکومت نے پہلی بارپورے شہر میں تجاوزات مافیا کے خلاف کریک ڈاون شروع کیا۔ جس کے نتیجے میں غیر قانونی تعمیرات کے علاوہ چھجے، تھڑے توڑ کر راستے صاف کردیئے گئے۔ غیر قانونی بل بورڈ گرادیئے گئے۔شہر کی جن گلیوں سے بمشکل سائیکل اور موٹر سائیکل والے ہی گذر پاتے تھے۔ اب وہاں سے گاڑیاں بھی آرام سے گزرتی ہیں۔اپنے سیاسی مفادات کے لئے بعض حلقوں نے اس کی مخالفت بھی کی ۔ احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے مگر حکومت نے عوامی مفاد پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ جس کا کریڈٹ حکومت اور انتظامیہ کو نہ دینا کنجوسی کے مترادف ہے۔ لیکن تجاوزات مافیا بھی کافی ڈھیٹ واقع ہوئی ہے۔ کریک ڈاون کے اگلے ہی روز دوبارہ تجاوزات بچھائی جاتی ہیں۔ اکثر بازاروں کے داخلی مقامات پر ایجنٹ بٹھائے گئے ہیں۔ جو چھاپے کی بھنگ پڑتے ہی سارے بازار کو الرٹ کردیتے ہیں اور ساری تجاوزات منٹوں میں چھپا دی جاتی ہیں۔ پشاور صدر میں ایسے تماشے روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔کینٹ بورڈ والوں کی مائٹ از رائٹ والی گاڑی جب دور سے آتی نظر آتی ہے تو خبر پورے بازار میں جنگل کی آگ سے بھی تیزی سے پھیل جاتی ہے۔اورسڑکوں پر بچھی دکانیں چشم زدن میں سمٹ کر گوداموں اور قریبی دکانوں میں منتقل ہوجاتی ہیں۔ چھاپہ مار ٹیم کے گذرتے ہی سڑکیں پھر دکانوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور وہاں سے پیدل گذرنا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔تجاوزات کی ایک شکل ایسی بھی ہے جس پر حکومت اور انتظامیہ کی توجہ شاید اب تک نہیں گئی۔ یاپھر کسی مصلحت کے تحت اس سے چشم پوشی کی جارہی ہے۔ وہ تجاوزات کمرشل پلازوں، بڑے ہوٹلوں اور بنگلوں کے سامنے لگائی گئی زنجیریں ، لوہے کے موٹے پائپ اور کنکریٹ کے بلاک ہیں۔اندرون شہر بعض گلیوں کے داخلی مقامات پر ستون بنائے گئے ہیں تاکہ کوئی گاڑی اندر نہ آسکے۔ بعض گلیوں کو دیواریں کھڑی کرکے بند کردیاگیا ہے۔ چند افراد اپنی سیکورٹی کے نام پر پورے محلے کو یرغمال بنالیتے ہیں۔ جو تجاوزات کے زمرے میں آتے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال 1980کے عشرے میں کراچی میں ہوتی تھی۔ جہاں پوری پوری گلیاں رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردی جاتی تھیں۔لیکن کراچی کے حالات اور پشاور کی صورتحال میں آسمان زمین کا فرق ہے۔ یہاں ’’ نو گو ایریاز‘‘ کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایک گلی میں اکلوتے خاندان کو سیکورٹی کا احساس دلانے کے لئے درجنوں خاندانوں کو محصور اور محبوس رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ اسلام آباد میں سی ڈی اے نے حال ہی میں بڑے کمرشل پلازوں، تجارتی مراکز اور فائیو سٹار ہوٹلوں کے باہر بنائی گئی سیکورٹی پوسٹیں مسمار کرکے ثابت کیا ہے کہ ریاست کے اندر حکومت سے زیادہ طاقتور کوئی نہیں ہوسکتا۔ پشاور میں بھی خیبر پختونخوا حکومت اور ضلعی انتظامیہ کو اپنی رٹ قائم کرنے کے لئے نوگو ایریاز میں کریک ڈاون شروع کرنا چاہئے تاکہ برسوں سے محصور شہریوں کو غیر اعلانیہ غلامی کی زنجیروں سے آزاد کیا جاسکے۔تجاوزات کے خلاف بلاامتیاز آپریشن کے ساتھ قومی تعمیر کے محکموں کو بھی اپنا پھیلایاہوا گند خود صاف کرنے کا پابند بنانا ضروری ہے۔ حکومت لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرکے سڑک تعمیر کرتی ہے۔ کچھ عرصے بعد مختلف اداروں کوپینے کے پانی اور نکاسی آب کے پائپ بچھانے کا خیال آتا ہے ، نالیاں پختہ کرنے کا دھن سوار ہوتا ہے اور وہ بنی بنائی سڑک کو کھود کر اپنی لائن تو بچھا دیتے ہیں لیکن اپنے پھیلائے ہوئے ملبے کو اسی حالت میں چھوڑ کر رفو چکر ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تعمیر کے نام پر تخریب کا یہ سلسلہ اب بند ہوجانا چاہئے۔


شیئر کریں: