Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جس کھیت سے دھقان کو میسر نہیں روزی۔۔۔کم از کم اجرت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پروفیسر رحمت کریم بیگ

Posted on
شیئر کریں:

پاکستان بھر میں افغان مہاجریں کی موجودگی اور چھوٹے بڑے کاروبار پر ان کا قبضہ اپ سب کے سامنے ہے ان کی وجہ سے مقامی لوگ بھی بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ آ چکے ہیں کھلم کھلا میدان میں اکر احتجاج بھی نہیں کرسکتے کہ یہ ایک قسم کی غیر برادرانہ طرزعمل ہوگا مگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے انہیں واپس جاکر اپنے ملک کو آباد کرنا چاہئے اور امن قائم کرنے میں دوسرے افغان بھایؤں کی مدد کرنی چاہئے اس صورت میں یہاں مقامی جوانوں کو بہتر کاروباری مواقع مل جائیں گے۔ یہاں کا بیروزگار جوان اب تنگ آچکا ہے تنگ آمد بجنگ آمد کی نوبت نہیں انا چاہئے

ہمارے تعلیم یافتہ جوان سرکاری ملازمت یا پراؤٹ نوکری کی تلاش میں پھر رہا ہے جن کو کسی پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں ٹیچر لگایا جاتا ہے اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے جب ایسے اداروں میں کسی کو ٹیچر رکھتے ہیں تو اس کے ساتھ ایک اگریمنٹ سائن کی جاتی ہے جس میں شرائط لکھے جاتے ہیں تنخواہ بھی مقرر کی جاتی ہے اور جب مہینہ پورا ہوتا ہے تو اس ماہ کے دوران جتنی تعطیلات، گزیٹڈ یا کسی اور وجہ سے سکول ایک دو دن بند رہتا ہے تو ان دنوں کی تنخواہ کاٹ کر اگریمنٹ میں مقرر کردہ سے کم رقم بیچارے کو تھمادی جاتی ہے یہ سراسر ظلم ہے جبکہ سکول کا مالک اس اگریمنٹ کو انکم ٹیکس والوں کو دیکھا کر اپنی گردان چھڑا لیتا ہے۔

ہر سال بجٹ کے موقع پر مزدور کی تنخواہ میں ایک ہزار روپے کا اضافہ کرنے کا اعلان ہوتا ہے پچھلے چند سالوں سے ہم دیکھ رہے ہیں اور اس سال بھی اسی طرح اضافے سے مزدور کی تنخواہ پندرہ ہزار ماہوار مقرر کی گئی ہے مگر کوئی بھی پرائیویٹ ادارہ اپنے کلاس فور ملازم کو پندرہ ہزار نہیں دیتی، ان پرائیویٹ سکولوں میں ڈرائیوروں کو بھی پندرہ ہزار نہیں دی جارہی ہے ان کو نو، دس ، گیارہ یا بارہ ہزار ماہوار دی جاتی ہے اور ایک بال بچوں والا ادمی دس گیارہ ہزار ماہوار پر کس طرح اپنی فیملی کو کھلا پلا سکتا ہے ان کی علاج معالجے اور تعلیم کا خرچہ تو دور کی بات ہے ۔ ان پرائیویٹ اداروں کے مالکان سے پوچھا جانا چاہئے کہ وہ سرکار کی مقرر کردہ پندرہ ہزارروپے ماہوار اجرت اپنے ملازمین کو کیوں نہیں دے رہے ؟ اور کلاس فور ملازمین کو اس سلسلے میں لیبر کورٹ یا مقامی کنزیو مر کورٹ کے جج کی عدالت میں انصاف کے حصول کے لئے جانا چاہئے۔


شیئر کریں: