Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سر سلطان محمد شا ہ ۔ دی آغا خان سوئم ۔……… نزار ڈائمنڈ علی

شیئر کریں:

تاریخ میں بہت کم لوگوں کو ایسے صاحب بصیرت اور بھاری بھرکم سیاسی شخصیت ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے جس نے ایک قوم کے لیے ملک حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف پارٹی کی صدارت کی اور اسی کے ساتھ ایک ایسی مسلمان کمیونٹی کے روحانی پیشوا کے طور پر بھی خدمات انجام دیں جو تین بر اعظموں پر پھیلی ہوئی ہے۔ سر سلطان محمد شاہ ، آغا خان سوئم ایسی ہی ایک منفرد شخصیت ہیں۔ وہ ۲ نومبر،۱۸۷۷ء کو پیدا ہوئے۔ وہ محض آٹھ سال کی کم عمرمیں ہی شیعہ اسماعیلی مسلمانوں کے امام بن گئے تھے۔ اگرچہ ان کو اکثر تحریک آزادئ پاکستان کی قائد شخصیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے لیکن ان کی زیادہ اہم خدمات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔

 

اپنی پوری زندگی میں وہ مختلف مذاہب کے درمیان اتحاد کے چیمپئن رہے لیکن برطانوی ہند میں مسلمانوں کے حقوق کو تسلیم کرنے کے معاملہ میں ان کا کرداربہت اہم رہا۔ سنہ ۱۹۰۶ء میں مسلمانوں کی وائسرائے سے ملاقات کے دوران انہوں نے ہی یہ تجویز پیش کی تھی کہ انڈیا میں مسلمانوں کو جداگانہ حق انتخاب ملنا چاہیے۔یہ تجویز پاکستان کے قیام کی جدو جہد میں اہم موڑ ثابت ہوئی کیوں کہ یورپ کاجمہوری نظام مشترکہ حق انتخاب پرقائم ہے اور اس نظام کے تحت لوگ مذہب سے ہٹ ووٹ کر دیتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مسلمان ہندواکثریتی کانگریس میں محکومی کا شکار رہتے اور نہ توقانون سازی میں ان کی کوئی نمائندگی ہوتی اور نہ ہی حکومت میں کوئی کردار ہوتا۔ تاہم، برطانوی اصلاحات نے اس دیرینہ مطالبہ کو تسلیم کر لیا اور سنہ ۱۹۴۵ء میں منعقدہ انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ (AIML) نے مرکز میں مسلمانوں کے لیے مخصوص تمام نشستیں اور تقریباً تمام صوبوں میں بھی نشستیں جیت لیں۔اس غیر معمولی کامیابی نے کانگریس کے موقف کے برخلاف قیام پاکستان کے لیے راہ ہموار کر دی جو ہندوؤں کے زیر تسلط متحدہ انڈیا کی آزادی کا مطالبہ کر رہی تھی۔ ایسی بصیرت ایک عظیم شخصیت کے پاس ہو سکتی تھی جو آل انڈیا مسلم لیگ کا پہلا صدر بھی تھی۔اس کے علاوہ ،انہوں نے ملکی اور غیر ملکی فورموں پر بھی کئی عہدوں پر کام کیا اورمسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے

 

پر آشوب دور میں پاکستان کی تخلیق کی جانب رہنمائی کی۔ ان کے لیے، پاکستان محض ایک منزل نہیں تھا بلکہ ایک سفر تھا جس ابھی آغاز ہو اتھا اور جسے عالمی برادری میں اہم کردار ادا کرنا تھا۔ آزادی کے فوراً بعدانہوں نے اپنی تقاریر میں نہ صرف جناح کی ’’معجزانہ کوششوں‘‘ کو سراہا بلکہ مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں بھی بات کی۔ انہوں نے کہا:’’ہمیں لازماً اپنی توانائی، دل اور جان کو ایمانداری سے اسلام کے لیے وقف کر دینا چاہیے اور اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے پاکستان کے حال اور مستقبل کے لیے کام کرنا چاہیے اور ان بد قسمت مسلمانوں کی مدد کرنا چاہیے جو اب بھی غیر ملکی تسلط میں اذیتیں جھیل رہے ہیں۔‘‘ اس کردار کے لیے انہوں نے پاکستان کو ’’دنیا میں عظیم ترین اسلامی مملکت ‘‘ قرار دیا۔سر آغا خان اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان ایک آسمانی تحفہ ہے اور اسی کے مطابق انہوں نے نو تخلیق شدہ پاکستان کے کردار کا تعین کیا۔ انہوں نے کہا: ’’مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ پورے خطہ میں اپنے ایمان ، آزدی اور ترقی کی لازماًحفاظت کریں۔ االلہ تعالیٰ نے پاکستان اور مسلمانوں کو شاندار قیادت عطا کی ہے۔میری دعا ہے کہ ہمارانصیب ایک ہو۔‘‘ ان کے الفاظ نیمعاشرے ، ثقافت ، سماجی خدمات کی روایات، غیر منافع بخش اداروں کے قیام، صحت ، تعلیم، اور زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی اہمیت کے حوالے سے مسلمانوں کی سوچ، پر گہرا اثر ڈالا۔بہت سی دیگر مثالوں میں سے ایک مثال ان کے امام بننے کے۶۰سال پورے ہونے پرڈائمنڈ جوبلی تقریبات کے دوران جمع ہونے والے فنڈز سے ڈائمنڈ جوبلی اسکولوں کا قیام ہے۔

 

سر آغا خان کا شاہی مرتبہ، متعدد سرکاری اور حکومتی اعزازات اور پورے یورپ میں حکومتوں ، اوربالخصوص برطانیہ کے ساتھ، ان کے قریبی تعلقات انہیں فنڈز اکھٹا کرنے کے لیے ذاتی طور پرکوششیں کرنے سے نہیں روک سکے ۔یہ کوششیں بعد میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کا باعث بنیں جو تحریک آزادی کا اہم سنگ میل ہے اور جس کے ذریعے جدید تعلیم سے آراستہ قیادت میسر آئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر منکسر المزاج شخصیت کے مالک تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کی آزادی کے لیے جو کچھ ناگزیر سمجھا ،اسے حاصل کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

 

سرسلطان محمد شاہ نے اپنی پوری زندگی تمام شعبوں میں کامیابی کے ساتھ بسرکی۔ انہوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے آنے والی نسلوں کو روشنی بخشی۔ ان کا انتقال ۱۱ جولائی ۱۹۵۷ء کو ہوا اور انہیں مصر کے علاقے اسوان میں سپرد خاک کیا گیا۔ اگرایسا کوئی لفظ ہے جس میں ان سے حاصل کیے گئے اسباق کو مختصراً بیان کیا جاسکے تو وہ لفظ ’ جدوجہد‘ ہے جسے انہوں نے اپنے ایک قول میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے 150 ’’زندگی کا مطلب ہے جدوجہد؛کامیابی یا ناکامی اللہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن خود جدوجہد انسان پر فرض ہے اور اسے اس سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔‘‘


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
1092