Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو!……جی ۔ کے ۔ سریر

شیئر کریں:

(سروے رپورٹ)

جب سے اپر چترال کو نیا ضلع بنانے پر سنجیدگی سے غور شروع ہوا ہے میڈیا پر ابھی تک نام کو لے کر بہت کچھ کہا اور سنا گیا ہے. کافی بحث مباحثہ کے بعد مختلف افراد نے اپنے طور پر فیس بک سروے کا انعقاد کیا جن کا مقصد باقی مہذب قوموں کی طرح لوگوں کی درست راۓ اور نام پر اکثریت کی خواہش کا علم ہو تاکہ فیصلہ کرنے میں آسانی رہے. سروے سے متعلق چند حقائق اور نتائج آپ سب کے سامنے پیش کیے جارہے ہیں.

سروے فیس بک پر مختلف گروپ میں کرواۓ گئے.  جس کے اپر اور لوئر چترال سے تعلق رکھنے والے تقریبأ 7,500 ممبر ہیں. اس گروپ میں  سروے کرواۓ. ایک اور گروپ کے ایڈمن کے علاوہ 10,000 سے زائد ممبروں میں سے زیادہ کا تعلق اپر چترال سے ہے.

تینوں سروے میں راۓ دہندگاں سے پوچھا گیا تھا کہ ان کے خیال میں نئے بننے والے ضلعے کے لیے کونسا نام موزوں رہے گا. مجوزہ ناموں میں دیگر کے علاوہ ‘مستوج’ اور ‘چترال’ کے مرکبات شامل تھے. تینوں کے نتائج یوں رہے:

“ایک  گروپ میں 250 ووٹروں میں سے “چترال” شامل کرنے کے حق میں مجموعی طور پر 183 (73%) ووٹ آۓ, مستوج کے لیے صرف 58 (23%) ووٹ کاسٹ ہوۓ جبکہ 4% ووٹ دیگر ناموں پر ڈالے گئے.

سروے پر آخری بار تقریبأ 552 افراد نے اپنی راۓ کا اظہار کیا. ان میں سے 325 افراد نے “چترال”, 133 مستوج, 40 باقی ناموں کی حمایت میں ووٹ ڈالے جبکہ دلچسپی نہ لینے والوں کی تعداد 54 تھی.

میری ایک پوسٹ پر مجموعی طور پر کوئی 328 وٹروں نے حصہ لیا جن میں سے 194 افراد نے چترال, 101 نے مستوج, 15 افراد قشقار اور 3 کھوستان کی حمایت میں ووٹ ڈالے.

سروے کا جائزہ
1. تینوں سروے میں آخری جائزے کے مطابق مجموعی طور پر 991 ووٹوں کے ساتھ سب سے زیادہ حمایت کیے جانے والے نام “چترال” اور “مستوج” سامنے آۓ. جائزہ اور فیصد بھی انہی کے مجموعی ووٹوں کے مطابق لیا گیا ہے.

2. “چترال” کے حق میں کل 699 (یعنی 70.5%) ووٹ آۓ. جوابأ “مستوج” ضلع کے حق میں ٹوٹل 292 (یعنی 29.5%) ووٹ ڈالے گئے.

3. ایک خاص بات یہ تھی کہ میرے علاوہ دونوں حضرات نے “کلوز” کی بجاۓ “اوپن” سروے کروانے کی وجہ سے بہت سے افراد بہت سے نام خود تجویز کرکے ووٹ ڈالے. نہیں تو چترال کی حمایت مزید بہتر ہوسکتی تھی.

4. ووٹروں کی اکثریت 20 سے 45 سال عمر کے درمیاں, چترال کے ہر علاقے سے متعلق اور میڈیا پر دسترس رکھنے والے تعلم یافتہ لوگ ہیں. اس طرح یہ سروے رپورٹ عمومی رجحان اور عوامی پسند کی بہترین نمائندگی کرتی ہے.

ایک گروپ” میں ان دو ناموں پر کل 753 ووٹ ڈالے گئے جن میں سے “چترال” کی حمایت میں 519 (69%) ووٹ آۓ. ظاہر ہے مستوج کے علاقے کو چھوڑ کر باقی کے دیہات والوں میں سے اکثر نے “چترال” کی حمایت کی ہے. اس طرح یہ سروے اپر چترال کے باشندوں کی خواہشات کی بھی درست ترجمانی کرتا ہے.

6. ان اعدادو شمار میں وہ لوگ شامل نہیں جو ہزاروں کی تعداد میں “چترال” سے اپنی محبت کا اظہار سوشل میڈیا پر مختلف پیرائیوں میں یعنی پوسٹ, شیئرنگ, کمنٹ یا پھر لائک کرکے کرتے ہیں. سروے میں بھی صرف ووٹ گنے گئے ہیں.

70% سے زائد باخبر, تعلیم یافتہ اور نوجوانوں/جوانوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ نئے ضلع کے لیے کونسا نام اور کیوںکر چاہتے ہیں. انہیں اپنی شناخت کا احساس ہے, انہیں اس زمین, ان سنگلاخ پہاڑوں, دریاؤں اور وادیوں سے پیار کا لاج ہے, انہیں آپس کے بھائی چارے پر ناز ہے. چترالی کہلوانا ان کا سرمایہ افتخار ہے جسے وہ کسی بھی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے. یہ لوگ مستوج کے خلاف نہیں. لہذا آپ یہ کہہ کر گلہ نہیں کرسکتے کہ کوئی اپنی بہن کو بہن تو سمجھتا ہے, مگر ماں کا متبادل کسی کو بھی نہیں ٹھہراتا.

پی-ٹی-آئی کی حکومت جاتے جاتے نسبتأ ایک اچھا کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے. نیا ضلع بناکر پارٹی کا مقصد اگر عوامی اور خاص کر نوجوانوں کی حمایت حاصل کرنا ہے تو سروے کے نتائج کو نظر انداز کرنا مہنگا پڑسکتا ہے. جن لوگوں کے لیے ضلع بن رہا ہے انہوں نے اپنا مینڈیٹ دے دیا. مگر یاد رکھنا ہوگا کہ یہ محض مینڈیٹ نہیں بلکہ ان لوگوں کی سچی لگن, شناخت اور احساسات کا دو ٹوک اظہار ہے. انہیں ٹھیس پہنچانا نہ تو جمہوری اصولوں کی پاسداری کہلائی گی اور نہ ہی سیاسی بصیرت و دانشمندی.

مستوج کے ہمارے بہن بھائیوں کو اپنے علاقے سے محبت کے اظہار پر اگرچہ غلط نہیں ٹھہراۓ جاسکتے, تاہم انہیں مخلصانہ مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ ایک تو چترال ہم سب کے لیے یکساں علامتی اہمیت رکھتا ہے. ساتھ ہی اکثریتی راۓ کا احترام کرنا آپ کا اخلاقی اور اصولی فرض ہے. میں کہوں گا کہ ایک نئے آغاز پر اکثریت کو یوں نظرانداز کرنا کوئی سمجھداری اور مستقبل کے لیے نیک شگون نہیں ہے. اس لیے بےجا ہٹ دھرمی کی بجاۓ نئے سفر کا آغاز باقی کی آواز سے آواز ملاکر یگانگت سے کیجیئے.


شیئر کریں: