Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نئے انتخابی شیڈول کا اعلان…………. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

الیکشن کمیشن نے 2018کے عام انتخابات کے ابتدائی شیڈول کا اعلان کردیا ہے۔ جس کے تحت موجودہ قومی و صوبائی اسمبلیاں اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرکے 5جون کو تحلیل ہوجائیں گی۔ جولائی 2018میں ملک بھر میں عام انتخابات ہوں گے جس میں دس کروڑ رائے دہندگان اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں گے۔ انتخابات کے لئے بیس کروڑ بیلٹ پیپرز چھاپے جائیں گے۔ ملک بھر میں دو لاکھ ستر ہزار پولنگ بوتھ قائم کئے جائیں گے جبکہ انتخابات کے لئے آٹھ لاکھ اہلکاروں کی تقرری کی جائے گی۔ سینٹ کے انتخابات کے لئے انتخابی اخراجات کی حد پندرہ لاکھ، صوبائی اسمبلی کے لئے بیس لاکھ اور قومی اسمبلی کے لئے چالیس لاکھ مقرر کی گئی ہے۔نیا شناختی کارڈ بنواتے وقت ووٹ کے اندراج کی جگہ بتانا لازمی ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ملک بھر میں اس وقت پچاس لاکھ افراد ایسے ہیں جن کے پاس شناختی کارڈ تو موجود ہیں مگر ان کا ووٹ کہیں درج نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے سنجیدہ امیدواروں کو سامنے لانے کے لئے کاغذات نامزدگی کی فیس بڑھانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعلان میں جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ 2017کی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیوں اور ووٹر لسٹوں کی نظر ثانی کے لئے حکومت نے 10نومبر2017تک آئینی اور قانونی امور طے نہیں کئے تو انتخابات پرانی فہرستوں اور حلقہ بندیوں کے مطابق کرائے جائیں گے۔ پرانی ووٹر لسٹوں اور حلقہ بندیوں کے مطابق انتخابات کرانے کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی آدھی آبادی حق رائے دہی سے محروم رہے گی۔ حالیہ مردم شماری کے اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ 1998میں آخری مردم شماری کے بعد انیس سالوں میں ملک کی آبادی میں 57فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو چھوڑ کر باقی ملک کی آبادی حالیہ مردم شماری کے مطابق بیس کروڑ 77لاکھ74ہزار 520ہے۔ جن میں مردوں کی تعداد دس کروڑ چونسٹھ لاکھ 43ہزار 520جبکہ خواتین کی تعداد دس کروڑ تیرہ لاکھ اکتیس ہزار ہے۔ پنجاب کی آبادی گیارہ کروڑ بارہ ہزار، سندھ کی چار کروڑ 78 ہزار، خیبر پختونخوا کی تین کروڑ پانچ لاکھ23 ہزار، بلوچستان کی ایک کروڑ 23لاکھ اور قبائلی علاقہ جات کی پچاس لاکھ بتائی گئی ہے۔اگرچہ مردم شماری کے یہ اعدادوشمار بھی کافی حد تک متنازعہ ہیں۔ اس کے باوجود انیس سالوں کے اندر ملک کی آبادی میں نصف سے زیادہ اضافہ قابل غور ہے۔اگر حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کو اپ گریڈ نہ کیا گیا۔ تویہ پوری قوم کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ عام انتخابات میں ویسے بھی ٹرن آوٹ پچاس فیصد کے ہندسے تک نہیں پہنچتا۔اگر پچاس فیصد آبادی کو ووٹ سے محروم رکھا گیا تو حقیقی ٹرن آوٹ 25فیصد سے بھی کم رہ جائے گا۔اس ٹرن آوٹ کے ساتھ اکثریت حاصل کرنے والے کو پندرہ فیصد ووٹروں کی حمایت بھی حاصل نہیں ہوگی۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اسے بھی بھاری مینڈیٹ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔حالانکہ منتخب ہونے والی حکومت 85فیصد آبادی کی نمائندگی نہیں کر رہی ہوتی۔ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس پر حکومت اور الیکشن کمیشن کو فوری توجہ دینی چاہئے۔ سیاسی حکومتیں ملک میں مردم شماری کرانے سے ہمیشہ گریزاں رہی ہیں۔ وہ سٹیٹس کو برقرار رکھنے میں اپنی بقاء سمجھتی ہیں۔ لیکن ان کا یہ طرز عمل اخلاقی اقدار اور جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔ ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن تک لانے کے لئے کوئی حکمت عملی اختیارکرنی چاہئے جس کے لئے سیاسی پارٹیوں اور کارکنوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ آئین اور قانون میں ترمیم کرکے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ پچاس فیصد سے کم ٹرن آوٹ رہنے کی صورت میں از سرنو انتخابات کرائے جائیں اور کسی امیدوار کی کامیابی کے لئے پول شدہ ووٹوں کا کم سے کم پچاس فیصد لینا لازمی قرار دیا جائے۔ آئین اور قانون سے واقفیت رکھنے والے لوگوں کو قانون ساز اسمبلیوں میں ہونا چاہئے۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ انتخابی امیدوار کی کم از کم تعلیمی قابلیت گریجویشن ہو۔ اور زندگی کے ہر طبقے کے لوگوں کی ایوان تک رسائی کے لئے بھی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔کیونکہ صنعت کاروں، جاگیر داروں، کارخانے داروں ، سرداروں، ملکوں، خوانین اور وڈیروں کو عوام کے مسائل کا علم نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے ستر برس گذرنے اور جمہوری نظام میں تسلسل آنے کے باوجود عام آدمی کی حالت نہیں بدل سکی۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
1065