Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

صحنِ کریمی کے پھول اور خدا بخش سے مکالمہ………. کریمی

Posted on
شیئر کریں:

 

 

کبھی کبھی انسان کئی کتابیں پڑھنے کے بعد بھی کچھ حقیقتوں کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے یہی کل کی بات ہے میں نے فجر کی نماز سے واپسی پر خدا بخش انکل (ایک وفادار ملازم) کو صحنِ میں موجود پایا جو پودوں کو پانی دے رہا تھا۔ موسم ابرآلود تھا ہلکی ہلکی بوندیں بدن کو گدگدا رہی تھیں۔ ماحول میں ایک سرشاری تھی۔ ایک کِھلا کِھلا احساس تھا۔ پھولوں کی مہک سے ایک عجیب سرشاری طاری ہو رہی تھی۔ نظر کے سامنے صحنِ کریمی کے پھول اور سبزہ ایک نئی تازگی کا احساس دلا رہے تھے۔ میں خدا بخش سے بے نیاز ایک پھول کو قریب سے سونکھنے میں مصروف تھا۔ خدا بخش قریب آئے سلام کے بعد کہنے لگے۔ ’’سر! آپ کو پھول بہت پسند ہیں نا؟ کیونکہ کِھلتے ہوئے پھولوں کو دیکھ کر انسان خود پوری طرح کِھل جاتا ہے، سارے دُکھ، ساری تکلیفوں کے باوجود اپنی منزل تک پہنچنے کی اس کی تمنا دُگنی ہوجاتی ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’خدا بخش! ہاں ایک زمانہ تھا کہ پھول مجھے بہت پسند تھےاور ان کتابی باتوں پر میں بھی آپ کی طرح یقین کرتا تھا، شاید تب تک زندگی نے مجھے کچھ سکھایا ہی نہیں تھا، پر اب میں جان گیا ہوں کہ پھول جتنے بھی خوبصورت کیوں نہ ہوں، انہیں مرجھانا ہی پڑتا ہے۔‘‘ مگر سر! خدا بخش نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا ’’مرجھانے سے پہلے وہ اپنی خوشبو دوسروں کو دے جاتے ہیں۔ آپ بھی سوچئے سر! اگر مُرجھانے کے ڈر سے پھول کھلنا بند کر دے تو شاید یہ دُنیا اتنی خوبصورت نہیں ہوتی۔‘‘

 

میں حیرت میں ڈوبے خدا بخش کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ خدا بخش جو انگوٹھا چھاپ ہیں بھلا اتنی بڑی فلسفیانہ بات کیسے کہہ گئے۔ مجھے تو خود پہ ناز تھا کتابیں پڑھنے کا اور لکھنے کا۔ لیکن میں سمجھ نہیں رہا تھا آج خدا بخش کے اس ایک جملے نے گویا مجھے بہت کچھ سمجھا دیا تھا کہ اگر مُرجھانے کے ڈر سے پھول کھلنا بند کر دے تو شاید یہ دُنیا اتنی خوبصورت نہیں ہوتی۔

 

باکل زندگی کی نعمتوں کے حوالے سے ہمارا رویہ ایسا ہے جو ہمارے پاس ہے اس کا شکر نہیں کرتے جو نہیں ہے اس کے لیے روتے رہتے ہیں۔ ہمیں ڈر لگتا ہے کہ ہم سوسائٹی میں اپنا رکھ رکھاؤ کیسے برقرار رکھے۔ اس لیے ہم ٹینشن کا شکار ہوتے ہیں کچھ حاصل کرنے کے لیے ہر جائز نا جائز طریقہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ جب وہ چیز حاصل ہوتی ہے تو پھر کسی اور چیز کے لیے دوڑ دھوپ۔۔۔۔۔۔ ارے میاں! غالب نے سچ ہی کہا تھا؎

 

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے میرے ارمان پھر بھی کم نکلے

ہمیں شاید قانون نمبر ننانوے کا نہیں پتہ۔ آئیے ایک واقعہ آپ کو سناتے ہیں۔ گئے وقتوں کی بات ہے۔ کہتے ہیں بادشاہِ وقت نے اپنے وزیرِ خاص سے پوچھا ’’یہ میرے نوکر مجھ سے زیادہ کیسے خوش باش پھرتے ہیں۔ جبکہ ان کے پاس کچھ نہیں اور میرے پاس کمی کسی چیز کی نہیں۔ پھر بھی میں خوش نہیں ہوں۔‘‘ وزیر نے کہا ’’بادشاہ سلامت! اپنے کسی خادم پر قانون نمبر ننانوے کا استعمال کرکے دیکھیئے۔‘‘ بادشاہ نے پوچھا ’’اچھا، یہ قانون نمبر ننانوے کیا ہوتا ہے؟‘‘ وزیر نے کہا ’’بادشاہ سلامت، ایک صراحی میں ننانوے درہم ڈال کر، صراحی پر لکھیئے اس میں تمہارے لیے سو درہم ہدیہ ہے، رات کو کسی خادم کے گھر کے دروازے کے سامنے رکھ کر دروازہ کھٹکھٹا کر اِدھر اُدھر چُھپ جائیے اور تماشہ دیکھ لیجیئے۔‘‘ بادشاہ نے، جیسے وزیر نے سمجھایا تھا، ویسے کیا، صراحی رکھنے والے نے دروازہ کھٹکھٹایا اور چُھپ کر تماشہ دیکھنا شروع کر دیا۔ اندر سے خادم نکلا، صراحی اٹھائی اور گھر چلا گیا۔ درہم گنے تو ننانوے نکلے، جبکہ صراحی پر لکھا سو درہم تھا۔ سوچا یقیناً ایک درہم کہیں باہر گر پڑا ہوگا۔ خادم اور اس کے سارے گھر والے باہر نکلے اور درہم کی تلاش شروع کر دی۔ ان کی ساری رات اسی تلاش میں گزر گئی۔ خادم کا غصہ دیدنی تھا، کچھ رات صبر اور باقی کی رات بک بک اور جھک جھک میں گزری۔ خادم نے اپنے بیوی بچوں کو سست بھی کہا کیونکہ وہ درہم تلاش کرنے میں ناکام جو ٹھہرے تھے۔ دوسرے دن یہ ملازم محل میں کام کرنے کے لیے گیا تو اس کا مزاج مکدر، آنکھوں سے جگراتے، کام سے جھنجھلاہٹ، شکل پر افسردگی عیاں تھی۔ بادشاہ سمجھ گیا کہ ننانوے کا قانون کیا ہوا کرتا ہے۔ کیونکہ یہ ملازم ننانوے نعمتوں پر خوش ہونے کے بجائے ایک نعمت کی کمی پر پریشان تھا۔

 

لوگ ان ننانوے نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جو الله تبارک و تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہوتی ہیں اور ساری زندگی اس ایک نعمت کے حصول میں سر گرداں رہ کر گزار دیتے ہیں جو انہیں نہیں ملی ہوتی۔ اور یہ والی رہ گئی نعمت بھی الله کی کسی حکمت کی وجہ سے رُکی ہوئی ہوتی ہے جسے عطا کر دینا الله کے لیے بڑا کام نہیں ہوا کرتا۔ لوگ اپنی اسی ایک مفقود نعمت کے لیے سرگرداں رہ کر اپنے پاس موجود ننانوے نعمتوں کی لذتوں سے محروم مزاجوں کو مکدر کرکے جیتے ہیں۔ اپنی ننانوے مل چکی نعمتوں پر الله تبارک و تعالٰی کا احسان مانیئے اور ان سے مستفید ہو کر شکرگزار بندے بن کر رہیئے تو زندگی بہت خوبصورت گزرے گی۔

 

خدا بخش سے اگر مکالمہ نہ ہوتا تو شاید یہ ساری باتیں نہ ہوتیں۔ خدا بخش تمہارا شکریہ۔

Karimi


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
1052