Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سیاست کے بدلتے انداز …… محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

قومی اسمبلی کے حلقہ این اے فور میں ضمنی انتخاب کا معرکہ سر ہوگیا۔ صوبے میں برسراقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اپنے منتخب رکن قومی اسمبلی گلزار خان کی وفات سے خالی ہونے والی نشست دوبارہ جیت لی۔الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کے امیدوار ارباب عامر ایوب نے پنتالیس ہزار سات سو سینتیس ووٹ لے کر فتح کا تاج اپنے سر پر سجالیا۔ اے این پی کے امیدوار خوشدل خان کو چوبیس ہزار آٹھ سو چوہتر، مسلم لیگ ن، قومی وطن پارٹی اور جے یو آئی کے مشترکہ ا میدوار ناصر موسیٰ زئی کو چوبیس ہزار سات سو نوے ووٹ ملے۔ مرحوم ایم این اے گلزار خان کے صاحبزادے اسد گلزار نے پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے ان انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ انہیں تیرہ ہزار دو سو ووٹ مل سکے۔ آزاد امیدوار ڈاکٹر شفیق کو نو ہزار نو سو پنتیس، جماعت اسلامی کے وصال فاروق کو سات ہزار چھ سو اڑسٹھ اور آزاد امیدوار الحاج لیاقت علی کے حصے میں تین ہزار سات سو نواسی ووٹ آئے۔ آزاد امیدواروں محمد تنویر نے تین سو چھیاسٹھ، وحید عالم نے دو سو اسی، ضیاء الرحمن نے ایک سو ستانوے، سمیع اللہ نے ایک سو ترپن،مبشر خان نے ایک سو تریالیس ووٹ لئے تین آزاد امیدوار تین ہندسوں تک بھی نہیں پہنچ سکے۔ فرحان قدیر کو بیاسی، امان اللہ کو چون اور شوکت مہمند کو صرف تینتیس ووٹ ملے۔حلقہ این اے چار کے انتخابی نتائج نے بعض چشم کشا انکشافات کئے ہیں۔سب سے بڑا انکشاف یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ جو اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ نئی نسل روایتی سیاست سے نالاں ہے۔ وہ انتخابی اتحادوں کی سیاست کو بھی قبول کرنے کو تیار نہیں۔اس انکشاف سے سیاسی جماعتوں کو سبق حاصل کرنا چاہئے۔ اگر انہوں نے اپنا لائحہ عمل تبدیل نہیں کیا۔ اور عوامی امنگوں کے برعکس پالیسیاں جاری رکھیں تو نوجوان سیاسی بساط کا پانسہ آئندہ بھی پلٹ دیں گے۔پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی سمیت سرکردہ سیاسی جماعتوں کے پاس اپنا سیاسی منشور عوامی امنگوں سے ہم آہنگ بنانے کے لئے زیادہ وقت نہیں ہے۔ چھ سات ماہ بعد ملک میں عام انتخابات ہوں گے۔رائے عامہ کا رحجان تبدیل ہوچکا ہے۔ اسی کو دانشور طبقہ بھی تبدیلی قرار دے رہا ہے۔ الزامات، جوابی الزامات، دشنام طرازی، فتووں اور فتنوں کی سیاست اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ این اے چارمیں پولنگ کے روز اخبارات میں مختلف سیاسی رہنماوں اور انتخابی امیدواروں کے بیانات شائع ہوئے ہیں۔ایک امیدوار کا دعوی تھا کہ آج حق اور باطل کا فیصلہ ہوگا۔جب شام کو نتیجہ سامنے آیا۔ تو یہ بیان جاری کرنے والا امیدوار ہار چکا تھا۔ تو کیا یہ مان لیا جائے کہ وہ باطل کی نمائندگی کر رہا تھا۔ایک امیدوار کا بیان چھپا تھا کہ فتح حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والوں کی ہوگی۔ یہ بیان دینے والا امیدوار بھی شکست کھا گیا۔ تو کیا اس نے تسلیم کرلیا۔ کہ جیتنے والا امیدوار ہی حق کی جدوجہد کرنے والی جماعت کا علمبردار تھا۔بدقسمتی نے ہمارے ہاں انتخابی منشور کی بنیاد پر الیکشن نہیں لڑا جاتا۔ اب بھی سیاسی جماعتیں اپنا وژن پیش کرنے کے بجائے دوسروں کی ٹانگیں کھینچ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔کبھی مخالف امیدوار اور اس کی پارٹی کو دشمن کا ایجنٹ اور یہود و ہنود کا ہم نوا قرار دیا جاتا ہے۔ کبھی اس کے خاندان پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ کبھی اس کی قومیت، ذات، قوم، قبیلے اور مسلک و عقیدے کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔انسان کی حیرت اس وقت انتہا کو پہنچتی ہے جب ایک دوسرے کو کافر، زندیق ،غدار، ملک دشمن اوراغیار کا ایجنٹ قرار دینے والے ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کوگلے لگاتے ہیں ماتھا چومتے ہیں ان کے ساتھ انتخابی اتحاد کرتے ہیں۔انہیں فرشتہ قرار دیتے ہیں اوران کی تعریفوں کے پل باندھنے شروع کردیتے ہیں۔اور اس کا جواز یہ بتایا جاتا ہے کہ ’’ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی‘‘کسی کی مخالفت میں دشمنی کی حدوں کو چھونے اور اسے روئے زمین پر بدترین مخلوق قرار دینے کے بعد جب سب کچھ بھول کر انہیں گلے لگایاجاتا ہے اور ان کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے جاتے ہیں تو عام آدمی سوچنے لگتا ہے کہ کیا یہی سیاست کا مفہوم ہے۔خدا را! سیاست کو اب گالی نہ بنائیں۔ اسے خدمت کا ذریعہ بنائیں۔کیونکہ خدمت میں ہی عظمت ہے۔اور ہر دور میں یہ حقیقت ثابت ہوچکی ہے۔


شیئر کریں: