Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

 کہوار میں اسماے بری و بحری …….ڈاکٹر اسماعیل ولی

شیئر کریں:

کہوار پر چار بڑی زبانوں کے اثرات موجود ہیں- دراوڑی، سنسکرت، فارسی، اور ترکی- بعض ماہرین کا خیال ہے- کہ اریہ سے پہلے دریاے سندھ کے کناروں پر لوگ اباد تھے- اور یہ ایک لمبی کہانی ہے- لیکن یہ نظریہ زور پکڑتا جا رہا ہے- کہ یہ لوگ دراوڑی زبان بولتے تھے- جسکی ایک شاخ بروہی کی صورت میں پاکستان میں بولی جاتی ہے- اس کی پچاس سے زاید شاخیں ہندوستان اور ملحقہ علاقوں میں بولی جاتی ہیں- کچھ ماہرین کا خیال ہے- کہ دراوڑی زبانوں کے لسانی رابطے چینی، جاپانی، ترکی، اور “برفانی” قبایل کی زبانوں سے بھی جڑے ہیں- تحقیق جاری ہے- ایک اطلاع کے مطابق جو مخصوص لسانی اوازیں کہوار میں پای جاتی ہیں وہ چینی زبان میں بھی ہیں- اس کا مطلب یہ ہے- کہ کہیں دور جا کر کہوار اور چینی زبان کی جڑیں مل جاتی ہیں- یہ لسانیات کے ماہرین کا کام ہے- کہ وہ اس پر تحقیق کریں- اس کے کیی مثبت پہلو سامنے ایں گے-
دراوڑی اور سنسکرت کے روابط پر بھی تحقیق ہو رہی ہے- اس تحقیق کی روشنی میں جو باتیں سامنے ارہی ہیں- ان سے پتہ چلتا ہے- کہ موہن جو ڈارو یا اس دور کی جو تہذیبیں جو مٹ چکی ہیں- یا ان پر اریہ والوں کا غلبہ ہوا یا ان کو جنوب کی طرف دکھیلا گیا- وہ سب دراوڑی زبان بولتے تھے- اسی نظریے کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا- کہ چترال کی وادیوں میں بھی اریوں کے ظہور سے پہلے قبایل اباد تھے- اور وہ درواڑی زبان بولتے تھے- اس سلسلے میں ہمارے پاس جو ریکارڈ موجود ہے- وہ گاوں کے ناموں، پہاڑوں کے ناموں اور پانی کے ذ خیروں کے ناموں کی صورت میں موجود ہے- اب ضرورت اس امر کی ہے- کہ ان سارے ناموں کا ایک ڈیٹا بیس بنایا جاے- تاکہ تحقیق کرنا اسان ہو- اور ایک سلسلہ چل پڑے- یہ ڈیٹا ایسا ہو- جس میں چھوٹی سے چھوٹی جگے یا پہاڑی حصہ یا چشمہ کا نام بھی درج ہو- اور اس کو جمع کرنا اپنی جگہ ایک پراجکٹ ہے- اس کے بغیر کویی رسمی کام کرنا مشکل ہے- ان ناموں کے بارے ابھی تک جو کچھ میں نے غیر رسمی مطالعہ کیا ہے- اس کے عمومی باتیں یہ ہیں:
وہ نام جو سنسکرت ماخذ سے ہیں- ان کا اندازہ لگانا اسان ہے- مثلا گرام کے لاحقہ یا سابقہ والے- شاگرام، شو گرام، میراگرام، نو گرام یا گراموڑی – سنسکرت میں” میر” پہاڑ کے لیے استعمال ہوتا ہے- گرام اب بھی ہمارے ہاں کسی گاوں کے انتظامی حدود کو متعیں کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے- میرا گرام کا مطلب ہے- پہاڑ پر واقع گاوں- بہت ممکن ہے “شا” اور “شو” بھی پہاڑ یا زمین کے یا پہاڑ کے رنگ کی طرف اشارہ کرتا ہو- مشکل اس وقت پیدا ہوتی ہے- جب ہم “میر” ( جو سنسکرت میں پہاڑ ہے) کو فارسی میں پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں- تو فارسی میں “میر” رہنما کے لیے استعمال ہوتا ہے- مثال کے طور پر وہ پامیر کو “پاے میر” یعنی میر کا پاوں کرتے ہیں- جس کا اشارہ زرتشت کی طرف ہے- اگر ہم “تریچ میر” کو اس تناظر میں پڑھنا چاہیں- تو شاید یہ “تاج میر” یا “میر کا سر” ہو- کیونکہ یہ ہندو کش کی بلند ترین چوٹی ہے- اور قدیم فارسی میں یہ تاچ بھی لکھا گیا ہے- اور بلندی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے-
دوسری بات ، دوسرے ناموں کے مقابلے میں سنسکرت نام کم ملتے ہیں- اندازتا دس بیس سے زیادہ نہیں ہونگے- اس کا مطلب یہ ہے- کہ آریہ والے یہاں بہت کم رہے- یا ان وادیوں کو بطور پڑاو استعمال کیا اور جنو ب کی طرف ہجرت کرتے گیے – چینی زبان میں پہاڑ کو “شان” کھتے ہیں- شان دور اور ‘شان” چراگاہوں کی صور ت میں پاے جاتے ہیں-
پور کا لاحقہ متنازعہ ہے- بعض کے مطابق دراوڑی ہے اور بعض کے مطابق سنسکرت ہے- چترال میں صرف “لاسپور” اور “سو(ر) لاسپور میں استعمال ہوا ہے- پور بھی گاوں، قصبہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے- اور پنچاب میں (دونوں) طرف کافی ناموں کے ساتھ بطور لاحقہ استعمال ہوا ہے- بعض نام لسانی تغیرات کی وجہ سے بد ل گیے ہیں- مثال کے طور پر سو نو غر- لگتا ہے- یہ سورنوغور ہے- اور سور نوغور میرے اندازے کے مطابق “سر نگر” کی کہوار شدہ صورت ہے- یعنی ‘بڑا گاوں یا قصبہ ‘ یا اہم گاوں یا بستی- اسی طرح جنوبی چترال میں “نغر” بھی ہے- یہ بھی اصل میں نگر لگتا ہے- اور یہ بھی سنسکرت ہے- یعنی ‘نغر” یا “نغور” نگر سے نکلا ہے- یا یہ بھی ممکن ہے 150 نوغور سے نگر بنا ہو-
زمانہ وسطی میں اس علاقے میں جو بڑا انقلاب ایا- وہ منگولوں کا تھا- لگتا ہے- اس انقلاب کے دوران سارا چترال متاثر ہوگیا- اس کا اشارہ ہمیں “گول” کے لفظ سے ملتا ہے- یہ منگول (گول کو نوٹ کریں) لفظ ہے- اور سارے چترال میں مستعمل ہے- اور کوہ میں ایک گاوں کا نام بھی استان گول ہے- موژ گول اور گولدور بھی اس دور کے یاد گار ہیں-
منگو ل زبان میں یہ لفظ پانی کے ذخیرے کے لیے استعمال ہوتا ہے- یعنی چشمہ- نہر- ندی- دریا 150جھیل- اس کی دوسری صورتیں “کول” قول” یا “قل” بھی ہیں- چترال میں کویی گاوں ایسا نہیں ہے- جس میں گول کا استعمال نہ ہو- یعنی گول منگولوں کی ایک یاد گار ہے- بلکہ ہمارے بحری ناموں کی “شاہ کار” ہے
بعض نام فارسی الصل ہیں- مثال کے طور پر راغ ، بمعنی دامن کوہ، مرغزار یا صحرا – کوراغ نام کا گاوں بدخشان میں بھی ہے- ممکن ہے یہ کو ہ و راغ ہی کی ایک شکل ہو- اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوغوزی بھی کوہ و راغ کی بگڑی شکل ہو- جسطرح سونو غر سور یا سر نگر کی
فارسی اور سنسکرت کا اثر کسی قصبے یا گاوں کے اندر ابادی کے بناوٹ پر بھی ہے- مثال کے طور پر کہیں دور استعمال ہوا ہے یعنی کنان دور، رومان دور، – کہیں دہ- موڑ دہ- تور دہ- موژ دہ 150 دونوں میں فرق یہ ہے- فارسی لاحقے میں کسی قبیلے کی طرف اشارہ نہیں ہے- معاشرت پر بھی فارسی اور سنسکرت دونوں کا اثر ہے- جس طرح گرام ہے- اس کی اب بھی وہی اہمیت ہے- جو قدیم میں ہوگی- میر ژویو کا استعمال اب بھی ہے- جوفارسی میں میر جوے ہے-
تور کہواور موڑ کہو بظاہر سمتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں- اور بعض دوستوں کی راے ہے کہ یہ “کو ہ” ہی کی ایک شکل ہے- لیکن میں ان سے اختلاف کرنے کی جسارت کرتا ہوں- ہوا یوں کہ چھ سو صدی عیسوی میں وسط ایشیا سے ایک “ترک” قبیلہ غلبہ حاصل کرکے مختلف سمتوں میں پھیل گیا- اس قبیلے کا نام “گوک” تھا عین ممکن ہے کہ اس قبیلے کچھ لوگ یا خاندان جنوب کی طرف اتے ہوے تور کہو میں رہ گیے ہوں- اور یہ “گوک” اہستہ لسانی تغیر ات کے زیر اثر “کہو” بنا ہو- اور کہوار شر وع میں گوک وار ہو- ویسے بھی تور کہو کے کچھ قبایل کا قد کاٹ ترکوں سے زیادہ ملتا ہے- اس زمانے میں یہ اتنا پیچیدہ مسلہ
نہیں- ڈی این اے ٹسٹ سے “ترک” اور تورکہو والوں کا رشتہ معلوم ہوجاے گا- میرا خیال ہے- کوہ سے کہو کا کویی تعلق نہیں ہے- اور یہ میں نے اپنے بزگوں سے بھی سناہے- کہ شندور کے اخر ی حصے میں ایک بڑا پتھر تھا- اس سے مغرب کی طرف علاقے کو کہوستان (کہستان نہیں) کہتے تھے- اس مفروضے میں ایک مشکل یہ پیش اتی ہے- سنا ہے کہ محمد شکور غر یب تور کہو یا موڑ کہو کی جگہ تورکہوپ اور موڑ کہوپ لکھتے ہیں-
ارندو سے لیکر بروغل تک اور سور لاسپور لیکر گوبور تک جتنے بھی نام ہیں- بہت کم ایسی مثالیں ہیں- جن کا اپس میں کویی لسانی تعلق ہو- وہ مثالیں بھی بہت کم ہیں- جو کسی قبیلے یا “قوم” کے نام پر ہوں- سر دست یہ کہوںگا- بعض نام انتہاٰیی مختصر ہیں-جن کو میں یک صوتی کہوںگا- مثلا دروس، بنگ ،کہوژ، بریپ، دیزگ، بروز، کوشٹ، یا دو صوتی ہیں- ویر کھوپ، بو نی، اوی، ریشن، مور دیر ، شی داس یا سہ صوتی ہیں- سو لاس پور، ارندو، برینس، سو نو غور، ان ناموں سے ان کی قدامت کا اندازہ ہوتا ہے- لیکن انکے ماخذ کو معلوم کرنا اگرچہ مشکل ہے ناممکن نہیں-
کہوار ناموں سے جو اسم صفت بنتے ہیں- وہ بھی کافی دلچسپ ہیں- اس میں ‘آنو” (دروسانو/نغا رانو) یا “ی” (ایونی /برسنی) یا “یکو” (اویکو/چھتراریکو)یا “ایغ” (تریچھیغ /برہ زیغ/بونیغ/ زیتھیغ) یا ژیری (کوراغ ژیری/پرواک ژیری) یا “اک”( ریچھک / یارخونک/لاسپرک/ بریپک) یا “ایکی” (مستوچکی/چپاڑیکی) یا “چی” (پرکوسپچی /تور کہویچی/موڑ کہویچی) 150 اس کا مطلب یہ ہے- کہ مختلف زبانوں کی وجہ سے یہ تنوع پیدا ہو گیا ہے-
خلاصہ اس بحث کا یہ ہے- کہ سب سے پہلے سار ے ناموں(بری اور بحری) کا ڈیٹا بیس بنانا بہت ضروری ہے- اس کے بغیر یہ کام بہت مشکل ہے- اس میں نہ صرف گاوں بلکہ گاوں کے ذیل حصوں کے نام، پہاڑوں کے نام اور پہاڑون کے ذیلی حصوں (شال /غاری /بچھان وغیرہ) اور اور ابی ذخایر کے نام ایک جگہ جمع ہوں- پھر کویی مفید کام ہونے کی امید ہے- اور یاد رکھنا چاہیے- کہ اس زمانے میں سوشیالوجی اور ایتھروپالوجی میں ان مطالعوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے- اور ایک خصوصی گذارش یہ ہے- کہ مذہبی جذبے میں یا کسی سیاسی جذبے کے زیر اثر یہ نام کسی بھی صورت تبدیل نہ کیے جاییں- انہی ناموں میں تاریخ اور ثقافت پوشیدہ ہوتی ہیں-
جن قارین /دوستوں کو اس موضوع میں دلچسپی ہے- درج ذیل فارم بھر اس پتے پر بھیجدیں:

khowar data base form dr ismail wali 1


شیئر کریں: