Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کُنجِ قفس ……. نابیہیل طبقہ …… الطاف اعجازؔ

Posted on
شیئر کریں:

میرا نام ہے نب۔۔۔ خیر چھوڑو، کیسے تمھیں اب میں اپنا نام بتاؤں اور کونسا نام بتاؤں،اور کس منہ سے بتاؤں!۔ میرے دوست میں ’تھا‘ ہوتے ہوتے بچ گیاہوں، جب میں بیتی ہوئی اس حادثے کے عکسرے پر خود کو نام دینے کی کوشش کرتا ہوں تو عین جائے واردادپر آکرعکسرہ ٹوٹ جاتا ہے اور میں ہکاّ بکّا حیران رہ جاتاہوں ۔اس نوع کے وارداد اب معمول بن گئے ہیں۔ بعض دفعہ میرے گروہ کے حضرات(حسنِ بیان کے ساتھ)میرے گر وہ کے نوجوان اس قسم کے حادثات کے بعد سیدھا عدم آباد پہنچ جاتے ہیں،اور بعض اگر بچتے بھی ہیں تو ایسی حالت میں کہ اعضاء جوارع ان کے نہیں رہتے ۔ ہاں اتنا ضرور کہونگا کہ اگلی بار جب تم راہوں پر نکلو تو غور سے دیکھنا ،میں کبھی بھی کسی بھی وقت تمہیں بھی ملونگا، ترررررررررررررر کرتا ہوا ۔تب میرے پیچھے جو نام مجھے دینا چاہتے ہو ،سر آنکھوں پر ۔ تیرا دل رکھنے کے لئے اتنا ضرورکہنا چاہتا ہوں کہ میں اپنے زمانے کاایک جنونی بائیک سوار ہوں۔ ہوا،گان، ماچس، جہاز، انگار، توپ۔ ۔یہ سب سیاق کے لحاظ سے میرے نام ہیں بلکہ میرے آثاثے ہیں۔اور ہاں ! اپنی رفتار میں ،میں بعض وقت ہوا کو بھی مات دیتا ہوں،اور بعض وقت میں اتنی رفتار پکڑتا ہوں اتنی پکڑتا ہوں کہ۔۔۔۔۔بس بس۔۔چھوڑو۔کیا بتاؤں! اگر سننا ہی چاہتے ہو تو سنو۔ زبانِ خاص وعام کے ملے ہوئے ناموں سے پرے ہٹ کر میرا اصل نام اگر دریافت کرو تو ’نابیہیل‘ ہے ۔ اور یہ درست نام ہے ججتا ہے مجھ پہ ،اور اگر آپ بھی اپنے کسی رشتہ دار خاص کر اولاد کو (خدا نہ کرے) نابیہیل کرنا چاہتے ہیں تو اسے بد دعا ہر گز نہ دیں بلکہ ایک بائیک لے کر اس کے ہاتھ میں دیں ،باقی سب کچھ اپنے اب ہوجائے گی۔جدید تقاضوں کو دیکھ کر جدید بد دعائی ۔اُس روزمجھے کیاہوگیا تھا پتہ نہیں ،یوں سمجھو کہ گیدڈ کی موت آئی تھی اور وہ شہر کی طرف دوڑا۔بس ایک جنون تھا،ایک بگولا تھا، ایک دھن تھی، ۔۔۔آئی اور چلی گئی۔۔۔ لیکن کہاں چلی گئی ۔۔۔؟؟ بس سنتے جائیے ۔وہ اس طرح کہ ابھی میں اپنے بائیک پر سوار ہو ہی گیا تھا کہ میں خود کوظلّ الہی محسوس کرنے لگا،پتہ نہیں ایسا کیوں ہوا۔ سچ بتاؤں تویہی احساس میری تباہی کا پیش خیمہ تھا جو رہتے سمے سمجھ میں نہ آئی تھی ۔یہ احساس اُس وقت یقین میں بدل گیا جب تھوڑا آگے چند محلائیں شیخی بگھارتے ہوئے پاس سے گزر گئیں۔وہ اپنے اپ کو کیا سمجھ رہے تھے پتہ نہیں،اور یہ بھی علم نہیں کہ اس وقت میں خود کو کیا سمجھ رہا تھا،وہ اپنے اپ کو اہمیت دیتے تھے یا مجھے،میں اپنے اپ کو اہمیت دیتا تھا یا انھیں، عجیب کنفیوژن تھا ۔عجب ہے انسان کی نفسیات ،اور اوپر سے جدید انسان کی نفسیات کی بات ہو تو انسان عجیب تر ہے۔خیرجو بھی ہو، خاکسار اپنے گھوڑے میں آگے نکلا۔چلتا گیا چلتا گیاپھر ایک جگہے میں جاکر کیاہواکہ رفتار اور راستے کی ہم آہنگی سے میوزک یاد آئی، یک لخت میرے ہا تھ سے اکسیلیریٹر یوں حرکت میں آرہاتھا جیسے کوئی مجھ پر چھومترجادو کیا ہو،کیونکہ میری کانوں میں اب ایک مدھر سی آوازرس گھول رہی تھی،اب میوزک لگاتھا،اےئرفون اور آواز۔۔۔صرف میری کانوں تک کے لئے محدود بزمِ میوزک۔ رفتار سے اب یوں لگ رہا تھا جیسے میں کوئی گیت لکھ رہا ہوں،اصل میں یہ میوزک کا اثر تھاجو دائیں ہاتھ میں ظاہر ہوتارہتا تھا۔۔۔شاید میں ایکسیلیریٹرسے کچھ مرثیہ لکھنے کی موڈمیں تھا۔اتنے میں ایک آدمی اپنے بائیک پر تررررررررکرتا پاس سے نکلا۔۔’’تم ساتھ ہوتے اگر!‘‘ میری براداری کا تھا ۔ ۔ ۔ نابیہیل صاحب!۔ پھر تھوڑا آگے ایک موڑ آگیا۔۔۔ موڑ ہوگا دوسروں کے لئے ، میرے لیے یہ تو امتحان نمبر پانچ تھا،یعنی جدھر بھی موڑ آجائیں وہیں سے سنیک کٹ کرتے ہوئے مہارت اور کامیابی سے نکلنا،اس موڑ پر بخوشی اور سلامتی سے پار ہوا۔پار ہوتے ہی کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے ایک آدمی بائیک پر جا رہا ہے ۔ میری طبیعت سخت خراب ہوئی اس لئے کہ وہ آہستہ آہستہ بلکہ بہت آہستہ جا رہا ہے۔یہ کیا ! بائیک کے ساتھ اتنی گستاخی! ایسے لوگوں کے ہاتھ بائیک نہ دیناچائیے، یونہی خراماں خراماں چلنا۔ اسی سوچ کے ساتھ جب محترم کے پاس سے گزرا تو علم ہوا کہ دراصل وہ بلکل درست رفتار میں جا رہا تھا ،ہاں میرے سامنے اسکی رفتار کچھوے کی تھی۔ہارن کرتا ہوا اس کے پہلو سے ماچس کی رفتار میں نکلا ،اور شائیں کر کر کے ایک بائیک ورک شاپ پر جا نکلا۔ زرق برق بائیکز غرور کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑے تھے اور ہر ایک پر کچھ نہ کچھ رقم ضرور تھا ، ان الفاظ کو دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے تمام بائیکز ایک دوسرے سے برتری کے معاملے کو لے کر بحث کر رہے ہوں مثلا ۔۔۔’’صرف تم‘‘۔ ۔۔’’ہم‘‘۔۔۔ ’’ MYSELF I ME‘‘۔۔۔ ’’YOU‘‘۔۔۔’ ’تاغیچھان گدیری ‘‘۔ ۔۔۔’’وامہ نو لیس‘‘ ۔۔ ’’ہارژغا مہ لیس‘‘۔ ’’ہیا ہاسے‘‘۔۔۔۔’’تو مہ ژان‘‘ ۔۔۔۔’ ’ہمسفر‘‘۔۔۔۔۔’’الودا ع‘‘ ۔ ۔ ۔ ’’WELCOM‘‘۔ ۔۔۔۔’’اُف تہ غیچھ‘ ‘۔ ۔ ’’برویوماں ‘‘ ۔۔۔’’زندہ اسوم‘‘ ۔ ۔ ۔۔’’تنہا‘‘۔۔۔اور ان میں سے ایک بائیک ضرورت سے زیادہ ٹیک لگائے تھوڑا فاصلے پر سنجیدہ کھڑا تھا جس پر لکھا تھا۔۔۔’’تنہا تنہا‘۔۔ اتنے میں ایک جوان لڑکا اپنے بائیک پر دھڑام سے نازل ہوا، آتے ہی موبلیر ڈالنے کی بات کی جبکہ اس کا بائیک یہ کہتے ہوئے لگ رہاتھا ۔۔’’مالک !اب مجھے کسی کباڑ میں جمع کر دو،بہت خدمت کی‘‘۔ اور اس بائیک پر لکھا تھا ۔۔’’دل سے دعا دو‘‘۔اگر کسی کو رومانوی الفاظ کی تلاش ہو تو لغت میں سر نہ کھپائیے ،ادھر تشریف لائیے ۔خیر یہاں کچھ منٹ کھڑا رہا ، اور پھراپنا ’’ دل ‘زخمی‘‘ لیکر چل دیا۔ اس ورکشاپ سے تھوڑا ہی آگے وہ سڑک آرہی تھی جو پکا ہونے کے ساتھ ساتھ تقریبا ایک منٹ کے فاصلے تک بلکل سیدھا جا رہی تھی مطلب یہ کہ بائیک والوں کے لئے خاص کر نابیہیل طبقوں کے لئے ا نتہائی رفتارتک پہنچے کا چلینج، میرے خیال میں کوئی نابیہیل ایسا نہیں ہوگاجواس سڑک پر قسمت نہ آزمایا ہو۔ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے ، میرے دوست اس سڑک پر پہنچتے ہی میری نابیہیلی کروٹ لی تھی سر منڈواتے ہی اوڑے پڑے تھے ۔ابھی تین سکنڈ بھی نہ گزرے تھے کہ فاست گئیر میں حد درجے کی ایکسیلیریٹر کردی، اسی کشمکش میں تھا کہ سکنڈگئیرلگ گئی اور ساتھ ساتھ رفتار اتنی تیز ہوئی ،اتنی تیز ہوئی کہ بس بس! ۔۔۔آدھا راستہ طے کرتے ہی ایک دھاری سی چمک ٹوٹتے ستارے کی طرح میری نظروں کے کنارے سے نکل پڑی۔ فورًا دوسرے ہی لمحے دیکھا کہ جہاںیہ سیدھا سڑک ختم ہوتی تھی عین اس مقام پر کچھ چیز سڑک کے عین بیچ چمکتی نظر آرہی تھی ،پانی پانی سا کچھ مائع شے۔۔۔۔۔۔۔میری رفتار سے لگ رہا تھا کہ اب بائیک کے پرچخے اڑنے کے قریب ہیںِ ۔دل زخمی کا ٹکڑوں میں بٹنے کے لئے بس تھوڑا اورجو رفتار کی کنجائش تھی دبا دباکے اس کو بھی پورا کر دیا ۔کب میں تھرڈ گےئیرسے نکل کر ٹاپ پر پہنچ چکا تھامجھے پتہ ہی نہ چالا۔ مانو یا نہ مانو ! اکسیلیر یٹر اب برائے اکسیلیریٹر ہی ہاتھ میں گھوم رہاتھاکیونکہ اب میری بائیک سیدھا ہوا سے باتین کر رہی تھی اوردماغ کو محسوس ہورہا تھا کہ جسم ہلکی ہو کرزمین سے آہستہ اوپر ہوا میں اٹھ رہا ہے ۔کسی بھی چیزکی انتہائی تیز رفتار میں شوروغل تھم جاتی ہے، کانین بند محسوس ہونے لگتے ہیں اور بلکل خاموشی چھائی ہوئی لگتی ہے ۔میری بائیک میں بھی کچھ یوں طبیعت آئی تھی ،کسی مرزائیل کی طرح خاموش مگر انتہائی تیز جارہی تھی۔اچانک وہ پانی پانی سا مائع شے بلکل میرے سامنے مجھ سے کئی گنا تیز رفتار میں میری طرف آتا ہوادیکھائی دیا،ایسے جیسے کوئی چیتا اپنی ہواسی رفتار میں کسی ہرن کے بلکل پاس پہنچنے پر ہی ہرن کوہوش آئی ہو۔فاصلہ دو سیکنڈ کا بھی نہیں بچا تھاکہ نظریں سامنے اس مائع مائع چمک پر پڑتے ہی خیال آیا کہ گریز اور موبلیرجب سڑک پرگرے تو سڑک انتہائی پھسلن اور چکنی ہوتی ہے۔ میرے دوست بہت دیر ہو چکی تھی۔ انجام تم خود سوچو!!!


شیئر کریں: