Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پرآمن ضلع چترال……….میر سیما آمان چترال

Posted on
شیئر کریں:

پچھلے دنوں ایک معرو ف نیوز چینل نے چترال کو ا یک پرامن ضلع قرار دیا تو حسب روایت اس پر ایک بحث چھڑ گئی ایک تو اس امن کا کر یڈٹ ا نتظا میہ یا سیا سی پارٹیز کو دیا جا نے لگا دوسرا چترال کے اندر رہنے والے لوگ یہ کریڈٹ ا پنے اپنے کمیو نٹیز کو دینے لگے جو کہ سراسر غلط ہے۔۔۔ایک طرف وہ لوگ جن کا تعلق چترال سے نہیں وہ اس امن ر پورٹ کی شدید محْالفت کر تے ہوؔ ے نظر آً ئے۔بحثیت پا کستانی ہما رے اندر ا تنا ظرف ہونا چا ہیے کہ اگر پا کستان کے کسی بھی علا قے کی تعر یف ہو تی ہے تو وہ ہم سب کے لئے با عث فخربات ہو اور ا گر منفی رپورٹ ہو تو وہ سب کے لئے با عث ندامت ہونی چا ہیے۔۔۔ اور علا قے کے اپنے لوگ جو اس ا من کا سہرا ا پنے اپنے کمیونٹیز کو د یتے ر ہے ا نہیں اردو کا وہ محاورہ یا د رکھنا چا ہیے کہ تالی ہمیشہ دو ہا تھوں سے بجتی ہے لہذا چترال میں امن کی صورتحال ہو تب بھی اور اگر صورتحال بگڑتی ہے تب بھی اس میں علاقے میں موجود تمام طبقات برابر کے شریک ہیں۔۔۔اور جہاں تک بات اس رپورٹ کی ہے تو اسمیں کوئی شک نہیں کہ چترال ایک پر امن علاقہ ہے،،یہ وہ علاقہ ہے جہاں اب تک سنگین وارداتیں نہیں ہوتی تھیں،، گھر وں میں ڈا کے نہیں پڑتے تھے قتل و غارت نہیں ہوتی تھیں لیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ اب یہاں بھی جرا ئم کا آغا ذ ہو چکا ہے کیو نکہ ایک قتل پوری ا نسا نیت کی قتل ہوتی ہے اور چوری کا ایک بھی واردات ایک ہی وا قعہ کیوں نہ ہو ایک مچھلی پو رے تا لاب کو گندہ کرنے کے مترا دف ہے۔۔۔ لہذا عوام کو ابھی سے جرائم روکنے کی تدبیر کرنی چاہیے کیونکہ ا بھی سے کوئی ٹھوس اقداما ت نہ اٹھائے گئے تو وہ دن دور نہیں جب چترا ل بھی جرائم کا گھر بن جائے۔۔۔بحرحال چند افسوسناک واقعات کو ایک طرف رکھ کر د یکھا جائے تو واقعی چترال کے پرامن ہونے میں کوئی شک نہیں‘‘‘ یہاں تعصب ذدہ لو گوں کی بھی کمی نہیں لیکن اس کے با و جود حْا ص طور پر بات اگر حْواتین کی ہو تو چترال kpk کا واحد ضلع ہے جہاں حْواتین پر ظلم و ذیادتی کے واقعات نہیں ملتے صوبہ سرحد کے دوسرے علاقوں کی برعکس یہاں حْواتین کی تعلیم پر کوئی پا بندی نہیں پھر بات وراثت میں حصہ داری کی ہو یا شادی بیاہ کے معا ملات کی چترال کی خواتین اس لحاذ سے خوش قسمت ہیں کہ نہ تو یہاں ’’’ونی‘‘ جیسے ر سومات ہیں نہ ہی یہاں جائداد بچانے کے لئے بچیوں کی شا د یاں ’’قرآن‘‘ سے کرنے یا برادری میں ہی کرنے کے شرائط جیسے ناٹک ہیں۔۔۔ یہاں اولاد نہ ہونے یا جہیز کم لانے کی صورت میں طلاق جیسے قبیح کیسز نہیں بنتے ..یہ واحد علاقہ ہے جہاں آج تک سسرالیوں کے ہاتھوں کسی عورت کو ذندہ جلانے کے و اقعات نہیں ہوئے کسی عورت پر تیزاب پھینکنے یا کسی پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو قتل کرنے جیسے واقعات آج تک اس علاقے میں نہیں ہوئے ہیں غرض وہ تمام غلط رسومات اور انکے نتیجے میں ہو نے والے وا قعات جنکا شکار پورا ملک ہے ا لحمداﷲ آج تک اس علاقے میں نہیں ہوئے ہیں لیکن اسکا کر یڈٹ کسی ا نتظامیہ یا سیاسی پارٹی یا کسی حْاص فرقے کو نہیں جا تا بلکہ یہ یہاں کے بڑوں کی وہ ا علی تربیت ہے جو نسل در نسل جاری ہے اور ا نشاﷲ رہے گی۔۔۔یہاں پر قا بل غور بات یہ ہے کہ کیا محض اپنے اقدار و روایات پر فحْر کرتے رہنے سے ہی بات بنتی ہے؟؟ میں ذاتی طور پر سمجھتی ہوں کہ چترال میں امن کی صورتحال کو حرْاب کرنے اور یہاں ا نتشار پھیلانے و ا لے عناصر پر مو جودہ وقت پر توجہ نہ دی گئی تووہ وقت دور نہیں جب چترال پر فحْر کرنے کے لیے کوئی بات باقی نہ رہیگی۔۔۔ان عناصر میں چند تو ایسی ہیں جو واضح طور پر اپنا کام کر رہے ہیں لیکن حیرت ا نگیز طور پر انکے حْلاف کاروائی تو دور کی بات ہے کوئی آواذ بھی نہیں اٹھا ر ہا ہے میرا ا شارہ علاقے میں موجود ان ’’دلال کر داردں‘‘ کی طرف ہے جن کیوجہ سے کہیں بچیاں چترال سے با ہر شادی کے نام پر یا تو اپنی جا نیں گنوا چکی ہیں یا ابھی بھی کہیں کسی بوڑھے ا پا ہج کی حْدمت حْلق میں مصروف ہیں گزشتہ کچھ عر صے سے بچیوں کو بے دردی سے قتل کر کے واپس چترال بیجھنے کی ایک روایت بن چکی ہے علاقے میں تنظیم مو جود ہو نے کے با و جود کو ئی فعال کر دار ادا نہیں کر پا ر ہی ہے نہ ہی علا قے کے دوسرے عما ئد ین نے ا ن و ا قعات کے حْلاف کو ئی حْاص ا قدا ما ت ا ٹھا ئے ہیں جو کہ ایک سو ا لیہ نشان ہے۔۔۔یاد ر کھیں کہ یہ و ا قعات اور حْاص طور پر یہ د لا ل نہ صرف علا قے میں ا نتشار پھیلا نے کا با عث بن ر ہے ہیں بلکہ چترال کے آچھے ا میج کو بھی حْراب کر رہے ہیں۔۔۔دوسری طرف ا لیکٹرا نک میڈ یا کے سا ئے میں پلنے والے چند لوگ سو شل میڈ یا کی بے جا آذادی کو ا ستمعا ل کر تے ہو ئے ا پنے ا قد ار و ر و ا یت کو کس قدر اور کس کس طرح سے نقصان پہنچا ر ہے ہیں شا ئد اسکا اندا ذہ ہما ری ا نتہا ئی با شعور عوام نہیں کر پا رہی ہے ۔۔۔ اس کے علاوہ معا شر تی رویے دوسروں کے معا معلات میں بے جا دحْل ا نداذی اور مذ ہب سے دوری کے نتیجے میں نوجوانوں میں حْود کشی کے ر ححا نات بڑھ رہے ہیں بحر حال یہ عنا صر چھو ٹے ہوں یا بڑے موجودہ وقت میں ان پر توجہ کی ا شد ضرورت ہے۔۔۔!!!


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
748