Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بات بنتی نہیں “مستوچ” کہے بغیر؟……….…..ڈاکٹر اسماعیل ولی

شیئر کریں:

یہ حصہ ایک محترم دوست کی فرمایش پر لکھ رہا ہوں
اس بات کو میں شروع میں واضح کرنا چاہتا ہوں- کہ ذاتی طور پر یہ میرے لیے ایک نن ایشو ہے- اور نہ میں ان موضوعات میں دلچسپی رکھتا ہوں- میرے لیے سب نام قابل قبول ہیں- نام کو متناعہ بنانا ایک سیاسی معاملہ ہے یا خاکم بدہن اس میں کچھ “مذہبی” انجینیرز کی توانایی بھی شامل ہو- اسلیے مستوچ کو ایک “گاوں” اور ‘چترال” کو ایک ملک ثابت کر نے کے اشارے مل رہے ہیں- اس تصور کی درستگی کے لیے یہ مضمون لکھ رہا ہوں- رہا نام میرے لیے ضلع چرنو اویر سے لیکر ضلع اویریا ضلع ریچ تک قابل قبول ہیں-

اگر اپ تاریخ کا مطالعہ کریں گے- تو ہندوستان کی دو کتابوں میں اس کا حوالہ ملتا ہے- ایک تاریخ فرشتہ میں دوسرا تاریخ اکبری میں- دونوں میں چترال کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے- تاریخ فرشتہ میں “باجوڑ” پر ایک نوٹ موجود ہے- جس میں یہ لکھا گیا ہے- کہ اس زمانے میں چترال، دیر، اور باجوڑ کے لیے یہ نام استعمال ہوتا تھا- تاریخ اکبری میں دیر کا ذکر موجود ہے- دیر میں ایک چنار کے درخت کا ذکر موجود ہے- یہ اتنا بڑا چنار تھا جس کے نیچے دو سو سواروں کو پناہ ملی- اس کے بعد یہ لکھا گیا ہے- کہ دشمن بھاگ کر کافرستان کی طرف بھاگ گیا- اس کا مطلب یہ ہے کہ سولھویں صدی میں بھی یہ کافرستاں کے نام سے مشہور تھا- ابن بطوطہ کےایک حوالے سے بھی اشارہ ہے- کہ وہ لوٹ کوہ کے راستے بدخشان گیا تھا- ایک جگے میں وہ گیہوں سے بنے حلوے اور گرم چشمے کا ذکر کرتا ہے- لیکن جگے کا نام نہیں بتاتا- کیونکہ اس زمانے میں لوگ مختلف وادیوں میں رہتے تھے- ممکن ہے کہ یہ قبیلوں کی صورت میں رہتے تھے- اور ان کے الگ الگ “بادشاہ” تھے- کویی مرکزی حکومت نہ تھی- چترال تاریخ میں تیں دفعہ گللگت سے لیکر چقان سرا تک ایک حکومت کے زیر نگین رہا ہے- باقی انگریزوں کے انے تک مستوچ یاسین کا حصہ رہا ہے- اور انیس سو پندرہ میں علی حضرت کی درخواست پر مستوچ چترال کا حصہ بنایا گیا- اور بعد میں ضلع اس کے بعد سب دویژن بن گیا- تکنیکی طور پر یہ مستوچ سب ڈویژن کا اپگریڈیشن ہے- اب ضلع بننے جا رہا ہے

اگر ہم اس بحث میں پڑیں کہ نام کیا ہو نا چاہیے- اور کیوں ایک نام زیادہ موزون ہے اور دوسرا کم موزوں ہے- یہ بحث سے حل ہونے کا نہیں- اس کی مثال یوں ہے- کہ ہم بحث کے ذریعے کسی کے مذہب یا سیاسی وابستگی کو تبدیل نہیں کرسکتے- تا ہم اگر کویی مجھ سے پوچھے کہ اس کا نام مستوچ کیوں ہونا چاہیے- تو دلیل کے طور پر میں کہوںگا
– -چترال مشہور ہوگیا ہے- انگریزوں کی کتابوں سے لیکر دور حاظر کے اخباروں اور میڈیا تک اب مستوچ کو مشہور کرنے کی ضرورت ہے- کیونکہ نسبتا یہ کم مشہور ہے- یہ کہ مستوچ سب ڈویژن کو ضلع بنایا جا رہا ہے- سب ڈویژن کا نام سب ڈویژن تورکہو یا سب ڈویژن موڑ کہو نہیں ہے- اگر ہوتا تو وہ زیادہ موزوں ہوتے- کل دروس ضلع بنے گا تو اس کا کیا نام ہوگا- پچاس سال بعد بروغل ضلع بنے گا- تو اس کا کیا نام ہوگا- سو سال بعد ریچ ضلع بنے گا- تو اسکا کیا نام ہوگا- ایک سو پچاس بعد دنین ضلع بنے گا تو اس کا کیا نام ہوگا-

– -یہ دلیل کہ مستوچ گاوں کا نام ہے- مستوچ گاوں کا نا م بھی ہےعلاقے کا نام بھی ہے- جس
– جس طرح چترال گاوں کا نام بھی ہے- ٹاوں کا نام بھی ہے- اور ضلع کا نام بھی ہے
– جعرافیایی طور پر کوہ کا علاقہ ختم ہوتے ہی (کونگھیر دیرو بوھت) سب ڈویژن مستوچ شروع ہوتاہے- اور ضلع بننے کی صورت میں شاید اسی جگے میں ہم سے سوختنی اور تعمیری لکڑ یوں پر ٹیکس وصول کیا جاگا-
– اپر اور لور چترال دونوں کہوار الفاظ نہیں ہیں مستوچ مختصر بھی ہے اور کہوار بھی ہےلسانی اعتبار سے مختصر اور سادہ الفاظ کو زیادہ موثر سمجھا جاتا ہے-

– رہا چترال سے تعلق کا مسلہ دو بھایی جب الگ الگ گھر بناتے ہیں تو ان کا رشتہ اسلیے نہیں ہوتا ہے کہ ایک نام چارشنبہ خان ہے اور دوسرے کا پنچنبہ خان ہے- ممکن ہے دوسر ے کا نام سلامت شاہ ہو-رشتہ دل میں ہوتا ہے- الفاظ میں نہیں – جو دوست الفاظ کے ذریعے رشتہ قایم رکھنا چاہتے ہیں- ان سے گذارش ہے- نان ، ماں، مادر، مور، مدر، مختلف اوازیں ہیں- مفہوم ایک ہی بنتا ہے- چھترار اور مستوچ ایک ہی جعرافیای طوالت کے دو نام ہیں-
– ویسے قارین کی دلچسپی کے لیے یہ بھی عرض کروں کہ مستوچ کو گوگل کرکے دیکھیں ہمارے سفید اقاوں کی کتابوں میں مستوچ پہلے اور بالا چھترار بعد میں استعمال ہوا ہے-

– ا خر میں پھر اس بات کو زور دیکھ کر کہنا چاہتا ہوں- میرے لیے نام کویی مسلہ ہی نہیں- میرے لیے ضلع تورکہو یا ضلع موڑ کہو یا یا ضلع بیار یا ضلع تریچ یا ضلع تریچ میر اسی طرح خوبصور ت اور دل کے قریب ہیں- جتنا مستوچ- البتہ دل کی اپنی منطق ہوتی ہے- جو “چترال” اور “چترالی” کو ماننے کے لیے تیار نہیں- ہاں چھترار بالکل ٹھیک ہے- لیکن اس کو ہمارے دوسرے دوست بول نہیں سکتے-

– نوٹ :بعض دوست کہتے ہیں کہ ہمیں اگے سوچنا چاہیے لیکن اگے کا مطلب میں سمجھنے سے قاصر ہوں شاید وہ کہنا چاہتے ہیں- ہم اس کا نام انگریزی کے طرز پر نیو چترال رکھیں- چلو اس کا نام نیو لندن بھی رکھیں میرا کویی اعتراض ہے-


شیئر کریں: