Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مقدس جنگل سے مقدس جبلت تک …..ڈاکٹر اسماعیل ولی

Posted on
شیئر کریں:

بعض خواتین و حضرات “مہذب معاشرہ” کی اصطلاح مغرب اور امریکہ کے حوالے سے کرتے ہیں- اور ہمارے ذہن میں یہ نقشہ ابھرتا ہے- کہ وہاں لوگ کتنے اچھے ہیں- کتنے بااخلاق ہیں- خصوصا عورتوں کے معاملے میں تو ہمارے ذہنوں میں “فرشتہ صفت” مردوں کی تصویر ڈال دی گیی ہے- لیکن حقیقت کچھ اور ہی بتاتی ہے- ان دنوں “مقدس جنگل” (ہولی وو ڈ) کے ایک مشہور ہدایت کار پر عورتوں کو ہراسان کرنے کے الزامات کا ایک لمبا سلسلہ پردہ نرمیں پر نظر ارہا ہے- میرے خیال میں ابھی تک چوبیس عورتوں نے اپنے دعوں میں یہ اعلان کیا ہے- ان دعوں کی کہانی تیس سالوں پر محیط ہے- کتنی عورتیں اس قطار میں مزید شامل ہوں گی- وہ وقت بتاے گا- اور کتنی عورتیں اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کو چھپایں گی 150 وہ ایک الگ قصہ ہے- سوچنے کی بات یہ ہے- کہ کیا ہراسانی کی یہ کہانی صرف ان عورتوں تک محدود ہے- یا اس ماحول تک محدود ہے- جس میں حسین لڑکیوں کو “کردار” دینے کا کاروبار ہوتا ہے- اور یہ “کردار” حاصل کرنے کے لیے ان کو کیا کیا قربانیاں دینی پڑتی ہیں- موجودہ الزامات سے ان “قربانیوں” سے پردہ ہٹ رہاہے- اور یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے ارہی ہے- کہ جنسی ازادی سے جنسی بربادی پھیل رہی ہے- ان الزامات سے پہاڑ کی صرف چوٹی نظر انے لگی ہے- پہاڑ کا زیادہ حصہ اس معاشرے کے “تجارتی” حس میں چھپا ہو ا ہے-
معاملے کے حجم کو جانچنے کے لیے ٹویٹر پر “می ٹو” (مجھے بھی ستایا گیا) کا سلسلہ بھی شروع ہے- اور ابھی تک ان عورتوں کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ چکی ہے- اور پاکستانیوں نے بھی اس “کار خیر” میں اپنا حصہ ڈالا ہے- میرا اندازہ یہ ہے- کہ یہ پانچ لاکھ بھی وہ تعداد ہے- جو پہاڑ کی چوٹی تک محدود ہے- خاموش اکثریت سامنے نہیں ارہی ہے- اور نہ انے میں بھی بہت سی مصلحتیں پوشیدہ ہیں- اگر چہ میڈیا والے چاہتے ہیں 150 کہ ایسے واقعات سامنے اہیں- برٹش ایر لاینز کی ایک ہوسٹس نے کمپنی میں ہونے وا لے ہراسانی کے واقعات کی کچھ تفصیلات سامنے لایی ہیں- ہول ووڈ کے بعد بولی ووڈ والیاں بھی کھلنے لگی ہیں- لولی ووڈ کا حال بھی قابل تصور ہے-
مسلہ کی بنیاد کہاں ہے- مسلے کی بنیاد انسانی نفسیات میں ہے- اور نفسیات پر تحقیق ابھی اپنے ابتدایی مراحل میں ہے- ابھی تک فرایڈ کی نفسیات کا غلبہ ہے- فرایڈ کا ایک بنیادی مفروضہ یہ ہے- کہ جنسی جذبے کو دبانے کی وجہ سے ذہنی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں- مغرب میں ابھی جنسی ازادی ہے- اور ہولی ووڈ میں تو اور بھی ازادی ہے- پھر بھی یہ لوگ ” بیمار” کیوں ہوتے ہیں-
دوسرا غالب مفروضہ مردانہ اور زنانہ نفسیات کی یگانگت کا ہے- حالانکہ مردوں اور عورتوں کی نفسیات میں زمین و اسمان کا فرق ہے- اگر کویی عورت یہ سمجھتی ہے- کہ مرد عورت کی طرح سوچتا ہے- تو یہ اس کی غلط فہمی ہے- ہمارے پاس ابھی تک ایسی ٹکنالوجی نہیں 150 جس کے ذریعے ہم ان مردوں کی ذہنی کیفیات کی تصویر کمپیوٹر کے پردے پر دیکھ سکیں- جس کو ایک عورت “اچھا” تصور کر تی ہے- یا اس کو یقین ہے کہ وہ ایک “اچھا” مرد ہے- یا کہوار میں اس کو “بزر گ ” کہتے ہیں – اگر ہمارے پاس ایسی ٹکنالوجی ہو- جس کے ذریعے ہم کسی کمرے میں بیٹھے ہوے مردوں کے تصوراتی خاکوں کو پردے پر دیکھ سکھیں جب ان کی نظر ایک حسین عورت پر پڑتی ہے- پھر شاید عورتوں کو یقین ہو جاے- کہ اس کے ساتھ والے ڈیسک پر بیٹھے ہوے “خاموش” مرد کے ذہن میں کیا ڈرامہ کھیلا جا رہاے- یہ رہا مسلے کا ایک رخ- دوسرا رخ یہ ہے- جب بھی موقع ملے گا- وہ “خاموش” مرد مختلف طریقوں سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی کوشش کرے گا- تیسرا رخ یہ ہے- کہ اس “ڈرامے” کی وجہ سے اس مرد کے کام اور توجہ پر کیا اثر پڑتا ہے- اس پر ابھی تک تحقیق خاموش ہے-
یہ رہا مسلہ- حل کیا ہے- جب کہ مسلہ مرد کی نفسیات میں ہے- اور یہ اتنی گہری ہے- جس کا اندازہ سارے نفسیات دان بھی مل نہیں لگا سکتے- کیا عورسانی (عورت اور ستانا) کے قوانیں سے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے- میرا جواب ہے بالکل نہیں- کیونکہ عورسانی کے جتنے دعوے کسی ادارے میں ہو رہے ہیں- وہ اصل میں نہ ہونے کے برابر ہیں- خاص کر ہمارے معاشرے میں- اس کا مطلب یہ ہے- ننانوے فیصد معاملات عزت کو بچانے کے لیے چھپاے جاتے ہیں- اور اگر یہ ننانوے فیصد معاملات بھی درج ہو گیے- تو ہر ادارے کے زیادہ وسایل انہی مسایل کو حل کرنے اور سٹاف کو سزاییں دینے اور نیے ملازمیں بھرتی کرنے پر خرچ ہو ں جایں گے- اور دو تین سالوں میں یہ ادارہ ڈوب جاے گا-
مسلے کا ایک ہی بنیادی حل ہے- کہ دونوں کو الگ الگ رکھا جاے- مثال کے طور پر ترکی میں عورتوں کے لیے پنک بس سروس شروع ہویی ہے- امریکہ میں بعض سکول صرف لڑکیوں کے لیے شروع ہو گیے ہیں- اس کا فایدہ یہ ہوگا- کہ عورسانی کا مسلہ کافی حد تک حل ہو جاے گا- عورتیں اپنے ماحول میں خوش رہیں گی- اور مرد اپنے ماحول میں گپ شپ لگاتے رہیں گے- اگر عورتیں یہ چاہتی ہیں- کہ وہ مخلوط ماحول میں کام کرنا چاہتی ہیں- تو “خاموش” ڈرامے ہوتے رہیں گے- وہ ان کا کچھ نہیں کرسکتیں- جب تک ایسی ٹکنالوجی عام نہ ہو- جو انسانی ذہن میں ہونے والے واقعات کو پردے پر نہ لاے- پھر سارے مرد جیلوں میں ہونگے- کیونکہ یہ ان کی جبلت ہے- جب تک اس جبلت کو دبانے کے لیے اس سے بھی زیادہ طاقت ور جبلت فعال نہ ہو-
خدا پر ایمان ایک ارفع و اعلی جبلت کے نتیجے میں وجود میں اتا ہے- خدا ے بزرگ و برتر کی ذات و صفات پر ایمان ایک دفعہ اگر انسانی شعور کا حصہ بن جاے- تو دوسری جبلتوں کو قابو میں رکھنا اسان ہوتا ہے- لیکن اگر ایک دفعہ
ایمان کی دولت ہاتھ سے نکل جاے- تو سب کچھ حلال ہوجا تا ہے- کسی بیالوجی کی کتاب میں یہ نہیں لکھا ہے- کہ “ماں کون ہے- بہن کیا ہے- یا رشتوں کا تعین کیسے ہوتا ہے” یہ سب کچھ اخلاقیات کا حصہ ہے- اور اخلاقیات کی اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے- اس کی جگہ عملیت پسندی کا رجحان بڑھ رہا ہے- عملیت پسندی کا مطلب یہ ہے- کہ ہر وہ کام اچھا ہے- جس میں کچھ فایدہ ہو- ہر وہ کام جس کا کویی فایدہ نہ ہو- ایک واہمہ ہے-
چونکہ “جنس” تجارت اور اشتہار بازی کا بنیادی عنصر ہے- اسلیے اس کی عملی اہمیت ہے- اور تفریح کے نام پر اس کی تشہیر ہو رہی ہے- معاشیات دانوں کا سرو کار اخلاقیات سے نہیں ہوتا- اس کا نام سن کر وہ ہنسیں گے- اس کا مطلب یہ ہے- کہ “اخلاق” کب کا مر چکا ہے- ان حالات کا فطری نتیجہ یہ نکلتا ہے- کہ انسان کے ذہن میں “جنس” ایک “تفریح” ہی کی صورت میں جا گزین ہو جاتی ہے- پھر عورسانی کی شکایتیں بھی “تفریح” لگیں گی 150
جنسی معاملات پر سنجیدگی سے غور کرنے کے لیے ضروری ہے- کہ مذا ہب عالم کا مطالعہ کیا جاے- اور تاریخ کا مطالعہ کیا جاے- جو یہ ثابت کرتی ہے- کہ دنیا میں وہی اقوام غالب رہی ہیں- جن کے اخلاق بلند ہوں- اور اخلاق کا تعلق بنیادی طور پر جنس سے ہوتا ہے- پھر تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے- کہ دنیا میں قوموں کو زوال اس لیے ایا- کہ اخلاقی گرفت کمزور پڑتی گیی-
انسان کو سمجھنا چاہیے- کہ عورت “کھلونا” نہیں ہے- اور عورت کو بھی اس بات پر غور کرنا چاہیے- کہ وہ کب تک “کھلونا” بلکہ “کھلونی” بنتی رہے گی- اگر وہ شادی نہیں کرنا چاہتی- یہ اس کا بنیادی حق ہے- اگر وہ شادی کرکے انسانی زندگی میں اپنا حصہ ڈالنا چا ہتی ہے- یہ بھی اس کی مرضی ہے- لیکن “تفریح” کا جومیدان مرد نے اس کے لیے کھولا ہے- یہ مرد کی اس جبلت کا نتیجہ ہے- جو اس کو ہمیشہ جنسی تعلق پر ابھارتی ہے- اور یہ ان قانون سازوں کی حماقت ہے- کہ وہ “نا خواستہ پیش رفت” کے نام پر یہ قانون سازی کی ہے- یہ بھی انسانی جبلت کے ساتھ ایک مذاق ہے- مثال کے طور پر ایک ادار ے میں پچاس مرد اور پچاس عورتیں کام کر رہے ہیں- اگر سب “خواستہ پیش رفت” کے اصول پر عمل کرنا شروع کریں گے- پھر ادارے کے کام کا کیا ہوگا-
جب تک عورت کو اس انفرادی “خواستہ تفریح ” کے دایرے سے نکال کر اجتماعی مفاد اور بہبود کے راستے پر ڈالنے کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کی جاے – حالات بد سے بد تر ہوتے جاییں گے- انسان کی اجتماعی مفاد فرد کی جسمانی، ذہنی، اور معاشرتی صحت سے وابسطہ ہے- لہذا انسان کی اجتماعی مفاد کا تقا ضا ہے- کہ کچھ انفرادی “خوشیوں” کو قربان کیا جاے- بہت ممکن ہے کہ ایک فرد یا چند افراد کی خوشی کسی عوامی مقام پر “گندگی” کرنے میں ہو- لیکن اجتماعی مفاد خوشی کی اس خو اہش کو حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتا-
خلاصہ کلام یہ ہے- جب تک جنسی معاملات پر سنجیدگی سے غور نہ کیا جاے- اور اس کو “تفریح” کی صنعت سے نکال کر انسان کی بنیادی صحت کا مسلہ قرار نہ دیا جاے- جس میں 1)جسمانی صحت 2) ذہنی صحت، اور 3) معاشرتی صحت کے پہلو وں کو واضح الفاظ میں اجا گر نہ کیا جاے- “مقدس جنگل” کے واقعات ہر ملک اور ہر معاشرے میں وایرل ہو جاییں گے 150 نہ ادارے اس پر قابو پایں گے- اور نہ قانوں نافذ کرنے والوں کی کویی تدبیر کارگر ہوگی- البتہ میڈیا والوں کو “مرچ مصالحہ” والی کہانیاں دیکھانے اور پیر بھاییوں کو خوش کرنے میں کامیابی ضرور ہوگی-


شیئر کریں: