Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

اگے کیا ہونے والا ہے………. ڈاکٹر اسماعیل ولی

Posted on
شیئر کریں:

سب سے اہم اور انقلاب افرین ٹکنالوجی جو انسان نے اپنے ماحول میں دریافت کی وہ اگ تھی- اگ کی وجہ سے انسانی بود و باش میں زبردست انقلاب ایا- اور انسان کو ایک طاقت ور اور مضبوط الہ بھی مل گیا-معاشرتی ارتقا کے ماہرین کہتے ہیں- کہ پہلا بنیادی انقلاب شکاری ماحول سے نکل کر زرعی ماحول کی طرف انا تھا- زرعی ماحول کے لیے ضروری تھا- کہ انسان ایک جگہ مستقل رہایش اختیار کرے- اور مستقل رہایش کے لیے گھر بنانا ، گھر بنانے کے لیے اوزار بنانے اور زراعت کے لیے الات بنانے کا کام اگ کی وجہ سے ممکن ہو گیا- اس تصور کو علامہ اقبال نے خدا اور انسان کے درمیان ایک مکالمے کی صورت میں یوں منظوم کیا ہے
خدا
من از خال پولاد ناب آفریدم- تو شمشیر و تیر و تفنگآفریدی
تبر آفریدی نہال چمن را- قفس ساختی طایر نغمہ زن را
(میں نے فولاد پیدا کیا اور تو نے فولاد سے تلوار، تیر، اور بندوق بنا یا اور باغ کے درختوں کے لیے کلہاڑی اور پرندوں کے لیے پنجرہ بنا یا)
اگ کے بغیر لوہا اور فولاد پھر ان سے ہتھیار بنانا نا ممکن تھا- اگ کی وجہ سے یہ سب کچھ ممکن ہوگیا-
انسان
تو شب آفریدی چراغ آفریدم- سفال آفریدی ایاغ آفریدم
من آنم که از سنگ آئینه سازم- من آنم که از زہر نوشینہ سازم
( تو نے رات بنایی- میں نے روشنی کا بندوبست کیا- تو نے مٹی پیدا کیا میں نے پیالہ بنایا- میں پتھر سے شیشہ ا ور زہر سے مشروب بناتا ہوں)
مختصر یہ کہ اگ کی صورت میں ایک ایسی ٹکنالوجی انسان کے ہاتھ ایی- جس نے بہت سے نا ممکنات کو انسان کے لیے ممکن بنایی- ا ور انسان کی زندگی یکسر بدل گیی- جو لوگ اگ کی دریافت کے وقت بوڑھے تھے- ان کے لیے اگ کی ٹکنالوجی ایسی تھی جیسے تیس چالیس پہلے ٹی وی ہمارے بوڑھوں کے لیے- پہلی دفعہ جب انسان نے اگ میں پکایا ہوا گوشت کھایا 150 تو اپنی خوشی کا اظہار کیسے کیا ہوگا- یہ بھی تصور کے لیے ایک زبردست تماشے کی بات ہے-
ایک جگہ مستقل رہایش اپنانے کی وجہ سے گاوں اور شہر اور ملک اباد ہوتے گیے- اور زراعت ترقی کرتے گیی- مختلف فصلیں کاشت ہونےلگیں- باغات کا رواج ہوا- شی براے شی کی تجارت شروع ہویی- جہاں جہاں انسانوں نے رہایش اختیار کی- شناخت کے لیے ضروری ہوا 150 کہ ان کے مختلف نام ہوں- یقینی بات ہے- کہ جن لوگوں نے اگ کا صحیح استعمال کیا- وہ دوسروں پر غالب رہے- کیونکہ ان کے پاس ایک طاقت ور ٹکنالوجی تھی-
انسانی زندگی اس وقت بدلنا شروع ہویی- جب مغرب والوں نے پہلی مشین ایجاد کی- یہ مشین بھاپ کی تھی- پہلے کویلے کو ایک جگے سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے استعمال ہویی- اہستہ اہستہ بھاپ کی جگہ پٹرول اور ڈیزل کو بطور ایندھن استعمال کرنا شرو ع کیا گیا- اور ایک اور انقلاب ایا 150 جس کو صنعتی انقلاب کا نام دیا جاتا ہے- اس کی وجہ سے انسان کی معاشرتی زندگی یکسر بدل گیی- کارخانے بننا شروع ہوے- کارخانوں کے لیے کاریگروں اور مزدوروں کی ضرورت پڑ گیی- اسی انقلاب کی وجہ سے جہاز بنانا ممکن ہوا- خوفناک ہتھیار بنانے کا رواج پڑ گیا- اور اسی بنا پر مغرب کو دوسری اقوام پر بالا دستی حاصل ہو گیی- خصوصا انگریزوں نے اپنی مشینی طاقت کا بھر پور استعمال کیا- جو ابھی تک جاری ہے-
کہتے ہیں 150 تیسرا انقلاب آی ٹی کا ہے- میں اسکو انقلاب نرمیہ کا نام دیتا ہوں- جس کی وجہ سے انسان ایک نیا “زمان و مکان” بنانے میں کا میاب ہو گیا- جو پردہ نرمیں پر “سماعی اور بصری” صورت میں شب و روز دستیاب ہے- اس کے ذریعے انسان نے ایک طرح زمان و مکان کو مسخر کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے- جو مصنوعی شعور اور یاد داشت کی شکل میں سب کے سامنے موجود ہے-
اگے کا دور مشینی انسانوں کا انے والا ہے- جن کو روبوٹ کہتے ہیں- اگر سارے کام روبوٹ کرینگے 150 تو انسانوں کے عضا یکے بعد دیگرے بیکار ہوتے جایینگے- چونکہ دماغ بھی ایک عضو ہے- اور ہر عضو کا انحصار اس کے استعمال پر ہے- اگر ایک مہینوں تک، مثال کے طور پر، کویی انسان اپنے ہاتھوں کو حرکت نہیں دے گا- تو یہ اہستہ اہستہ بیکار ہوتے جایینگے- اور ایک دن ایسا اے گا- کہ یہ بلکل حرکت نہیں کریں گے- اگر دماغ سے کا م نہیں لیا جاے گا- تو ایک دن یہ کام کرنا چھوڑ دے گا- جس طرح اج کے بچے ریاضی کے معمولی سوال بھی حل نہیں کر سکتے- کیونکہ یہ کام ان کے لیے برقی مشین کرتی ہے-
ان دنوں یہ بات بھی میڈیا میں زیر گردش ہے- کہ چین نے “ازدواجی ضروریات” کو پورا کرنے کے ایک گڑیا بنایی ہے- اج نہیں تو کل یہ چیز مارکٹ میں دستیاب ہوگی- ویسے بھی ہم سمگلینگ کے ماہر ہیں- اور ایسے “علما” کی بھی کمی نہیں- جو پہلے اس کو “اضطرار” کے تحت مباح قرار دیں گے- پھر قانون سازی کی بات ہوگی- اور ازاد خیال یہ کہینگے- کہ زمانہ بدل گیا ہے- اور ہمیں زمانے کا ساتھ چلنا ہے- پھر نسا پرست یہ مطالبہ کرینگے- کہ یہ تو مردوں کی تسکین کے لیے ہے- عورتوں کا کیا ہوگا- اگے کیا ہونے والا ہے؟ وللہ اعلم ابالصواب


شیئر کریں: