Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

انتہا پسندی ایک سوچ کا نام ہے……..ڈاکٹر محمد اسماعیل ولی

Posted on
شیئر کریں:

موجودہ میڈیا شاہی کے زیر اثر انتہا پسندی کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ منسوب کرنے کی کوشش زوروں پر ہے- اس وجہ سے دوسرے انتہا پسند گروہ پس منظر میں چلے جاتے ہیں- اور عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گیی ہے- کہ انتہا پسند رویے مسلمانوں میں پاے جاتے ہیں- انتہا پسندی ایک سوچ کا نام ہے- ضروری نہیں کہ یہ سوچ مذہب سے وابستہ عوامل سے ہو-

اسلام چودہ سو سالوں سے یہاں کے معاشروں میں موجود ہے- عرب سے نکل کر ایران، انڈیا، وسط ایشیا، انڈونیشیا،اور افریقہ اور یوروپ میں پھیل رہا ہے اور سات سو سالوں تک اندلس پر غالب رہا- اگر مسلمان چاہتے تو عرب علاقوں میں ایک یھودی یا ایک عیسایی کابھی زندہ بچنا محال تھا- لیکن تاریخ اس بات پہ گواہ ہے- کہ مدینے میں مسلمان ور یہودی مل جل کر رہتے تھے- اور کاروباری معاملات میں ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے تھے- اسی طرح ہندوستان پرتقریبا چھ سو سالوں تک مسلمانوں کی حکومت رہی- اگر وہ چاھتے تو ایک ھندو یا بدھ برصغیر میں زندہ نہ رہتا- لیکن حقیقت یہ ہے- کہ وہ مل جل کر رہے-

یہ بات بھی مخفی نہیں- کہ مسلمانوں نے علم و ادب اور تحقیق کی سر پرستی کی- مسلمانوں کی سرپرستی میں ہر ایک علمی میدان میں کام ہوا- علم قران و حدیث و تفسیر، اور فقہ کے علاوہ ساینس، فلسفہ، منطق، طبیعت، کمیا، ، تاریخ ،عمرانیات، یہاں تک موسیقی پر اتنا کام ہوا ہے- کہ انسان کو حیرانگی ہوتی ہے- کہ کیا علمی ذوق تھا-

عمر خیام کی شاعری سے لیکر ابو بکر رازی کی ازاد خیالی تک راے زنی کی ایک کھلی کتاب ہمارے سامنے ہے- اایسی داستانیں لکھیں گییں- جن میں پیغمبروں اور صحابیوں کو بطور کردار پیش کیا گیا- لیکن کسی کو مارنے یا قتل کرنے کی مثال نہیں ملتی- کیی صدیوں سے مسلمان مغلوب ہیں- شکست خوردہ ہیں- اور اسلام ایک مخصوص طبقہ فکر کی گرفت میں ہے- یہ “اسلام” شکست خوردگی کی پیداوار ہے- اور اس “اسلام” کے پیروکار یہ چاہتے ہیں- کہ جس اسلام کی تعریف وہ کرتے ہیں- وہی اصل “اسلام” ہے- اور یہاں سے طاقت کے استعمال کا تصور شروع ہوتا ہے- اور انتہا پسندی کا رویہ فروغ پاتا ہے-

قران میں مسلمانوں کو امت “وسط” کھا گیا ہے- یعنی یہ افراط و تفریط سے بچنے والی امت ہے- دین و دینا میں توازن، جسم و روح میں توازن، رویوں میں توازن، علم و عمل میں توازن اور امدن و خرچ میں توازن قرانی نظام حیات کے بنیادی تصورات ہیں- اور عقل والوں نے بھی اس طرز زند گی کی تایید کی ہے- ارسطو جس کو باباے فلسفہ تصور کیا جا تا ہے- جب زندگی کی غایت پر غور کرتے ہیں- تو ان کو “خوشی” نظر اتی ہے- پھر خوشی کیا ہے- اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں- کہ خوشی اس وقت حاصل ہوتی ہے- جب عقل کو صحیح استعمال کیا جاے- پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے- کہ عقل کا صحیح استعمال کیا ہے- تو جواب یہ ملتا ہے- کہ زندگی میں توازن کی تلاشں عقل کا صحیح استعمال ہے- اس کو زرین وسط کا اصول کہا جا تا ہے-

اگر ہمارے ہاں بعض مذہبی عناصر انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہیں- تو وہ نہ صرف اسلام اور قران کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں- بلکہ عقل والوں کی بھی خلاف ورزی کرتے ہیں- جس کو قران کی زبان میں حکمت کہا گیا ہے- اسکو ہم مذھبی انتہا پسندی کہیں گے-
جسطرح مذہبی انتہا پسندی ایک حقیقت ہے- جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ ھندوں، یہودیوں، عیسایوں اور بدھ مذھب والوں میں پایی جاتی ہے- بلکہ جس رویے کی پیروی یک طرفہ طور پر کیا جاے- وہ انتہا پسندی کی صورت میں ظہور پذیر ہوتا ہے- اگر کویی طبیعات کا ماہر یہ کہے- کہ صرف طبیعات ہی ساینس ہے- باقی سب افسانے ہیں- تو یہ بھی انتہا پسندی ہے- اگر کویی سیکولر ادمی یہ کہے- کہ غیر مذہبیت ہی حقیقت ہے- باقی سارے افسانے ہیں- تو یہ بھی انتہا پسندی ہے- اگر کویی مارکٹنگ والا یہ سوچتا ہے کہ عورت کے بغیر کویی اشتہا ر نا مکمل ہے تو یہ بھی انتہا پسندی ہے- اگر کویی ماہر تعمیرات یہ سوچتا ہے یا سوچتی ہے- کہ انسان کی ترقی تعمیر ہی سے وابسطہ ہے- باقی گوشوں کی کویی حقیقت نہیں ہے- یہ بھی انتہا پسندی ہے-اگر کویی مرد یہ سوچتا ہے- کہ زندگی کا دارو مدار مرد پر ہی ہے- تو یہ اس کی انتہا پسندی ہے- اگر کویی عورت یہ سوچتی ہے- کہ مرد ہی ساری برایوں کا ذمہ دار ہے تو یہ اس کی انتہا پسندی ہے- اگر سفید فام قوم یہ سوچتی ہے- کہ باقی اقوام انسان کہنے کا لایق نہیں- تو اس کی انتہا پسندی ہے-اور اگر کویی ملک یہ سوچتا ہے- کہ ایٹم بم صر ف اس کے پاس ہو- باقی کسی ریاست کو یہ اختیا ر یا حق حاصل نہیں- تو یہ بھی انتہا پسندی ہے- اور اگر کویی قوم یہ سوچتی ہے- کہ صرف وہی مھذب ہے- باقی حیوان ہیں- یہ بھی انتہا پسندی ہے-اگر امریکہ کو یہ حق حاصل ہے- کہ وہ عسکری برتری اور نت نیے عسکری ہتھیاروں کی وجہ سے دنیا کے وسایل پر قبضہ کرنے کا سوچے- اور “علمگیریت” کے راستے پر گامزن ہو- تو ہر ایک قوم کو یہ حق حاصل ہے- کہ وہ بھی اپنی ماضی کی روشنی میں اپنے مستقبل کا راستہ تعین کرے- اگر امریکہ قومی مفاد کا بھانہ بناکر عراق، لیبیا، افغانستان کو تباہ کرسکتا ہے- تو چین، روس، اور دوسری ریاستوں کو بھی اپنے مفاد میں حکمت عملیاں بنانے کا حق حاصل ہے-

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے- جب تواز ن کا خیال نہ رکھا جاے- اچھے سے اچھا کام بھی نقصان دہ ہوتا ہے- – بہت زیادہ کھانا بھی نقصان دہ ہے- اور نہ کھانا بھی نقصان دہ ہے- حد سے زیادہ خرچ کرنا فضول خرچی ہے- اور بالکل نہ کرنا بخل ہے- اور افراط و تفریط سے بچنا حکم خداوندی کی فرمانبرداری بھی ہے عقلمندی بھی- یہ اصول فرد اور ریاست دونوں کے لیے یکسان طور پر مفید ہے- واللہ اعلم با ا لصواب


شیئر کریں: