Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

اسلام : ایک غیر سیاسی تجزیہ ………..ڈاکٹر اسماعیل ولی

Posted on
شیئر کریں:

ساتویں صدی عیسوی ، انگلینڈ میں عیسایت کی تبلیغ شروع کا اغاز – وہ علاقے جہاں روم کی سلطنت تھی- عیسایت کے زیر نگیں- ایران میں زرتشتیت اور ھندوستان میں بدھ مت عرو ج پر- عرب میں پیغمبر اسلام ﷺمبعوث ہوے- اور مکہ سے اپنی تبلیغ کا اغاز کیا اسلام کا بنیادیپیغام توحید ہے- جو انسانی شعور میں ایک ایسے اصول ڈالنے اور پھر اس کی پیروی کرنے کا نام ہے 150 جس کا تعق انسانی ذات سے ہے- یعنی نفسیاتی طور پر، یہ سفر ” کچھ بھی نہیں سے شروع ہو کر صرف وہی ایک خدا پر ختم ہوتا ہے”- کھنے کے لیے بہت اسان ہے- ہر مسلمان بچے /بچی کو زبانی یاد ہے- لیکن اس پیغام کو شعوری طور پر جاننا یعنی اپنے شعور کا حصہ بنانا اتنا اسان نہیں جتنا لگتا ہے- اس پیغام کو میکانیکی انداز میں اور ایک زندہ اور قایم ودایم اصول کے طور پر ماننے میں زمین و اسمان کا فرق ہے- میکانیکی انداز میں یا سفارتی انداز میں ماننا ابو لہب اور ابو جہل کے لیے بھی کویی مشکل نہ تھا- لیکن وہ اس کو ایک زندہ اصول کے طور پر ماننے کے لیے تیار نہ تھے- کیونکہ ان کو معلوم تھا- کہ ایک زندہ اصول کے طور پر ماننے میں کیا مشکلات درپیش تھے- اور کیا معاشرتی نقصانات برداشت کرنے تھے- یہی وجہ تھی کہ مکہ کے سرداروں نے اس پیغام کو اغاز ہی میں کچلنے کی بھر پور کوشش کی- جو ان سے ہو سکتا تھا- انہوں نے کیا- اگر اس وقت کے معروضی حا لات کا جایزہ لیا جاے- تو دس سالوں میں اسلام کا پیغام مکہ یا کچھ نواحی علاقوں سے اگے نہیں نکل سکا- اور ابتدایی دس سالوں کا عرصہ پیغمر اسلامﷺ اور اپ کے ساتھیوں کے لیے ازمایشوں کا دور تھا- اگر ان میں سے ایک ازمایش ہم پہ اجاے- تو ہم ایک دن بھی برداشت نہیں کرینگے-

مکے کے سرداروں کو یقین نہیں تھا- کہ اس پیغام کو مدینہ میں پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا- کیونکہ ارد گرد طاقت ور یہودی اباد تھے- اور کفار مکہ کو معلوم تھا کہ وہ اس پیغام کو پھیلنے نہیں دین گے- لیکن نتیجہ ان کی توقعات کے خلاف نکلتا ہے- یہاں کچھ لمحوں کے لیے سوچتے ہیں- کہ یہ قرون اولی کے مسلمانوں کے قربانی کا جذبہ تھا- کہ مدینہ میں اسلام کو پایدار بنیادوں پر پھیلنے کا موقعملا- قربانی کا یہ جذبہ صرف جہاد تک محدود نہیں تھا- اگر دنوں میں شمار کیا جاے- توتیرہ سالوں میں جہاد باالسیف کا عرصہ مہینوں میں ہے- باقی ماندہ عرصہ (یعنی بارہ سال سے زیادہ) حالت امن میں گزرا-

یہ وہ زمانہ تھا جب قیصر و کسرای کا دور دورہ تھا- ان کی افواج انتہایی منظم تھی- ا نکے ہتھیا ر اور جنگی سازو سامان مدینہ کے مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ موثر تھے- قیصر و کسرای بڑے بڑے محالات میں رہتے تھے- یعنی معروضی حالات مسلمانوں کے مخالف تھے- لیکن تیس سال کے عرصے میں یہ طاقتیں ایک ایک ہو کر گرنے لگیں- یہ طاقتیں اسلیے گر گییں- کہ کویی مرکزی اصول نہیں تھا- جو ان کو توانایی فراہم کرے- مسلمان اسلیے جیت گیے- کہ ایک مرکزی اصول سے ان کو توانانی پہنچ رہی تھی- اور اس اصول کی وجہ سے ان میں اتحاد قایم رہا- حضرت خالد کو جرنیلی سے ھٹا کر ایک عام سپاہی بنایا جاتا ہے- لیکن وہ کویی سازش نہیں کرتا- اور بحیثیت سپاہی لڑنے کو اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہے-

اموی اور عباسی دور میں اگر چہ داخلی سازشیں سر اٹھانے لگیں- لیکن غلبہ مسلمانوں کا رہا- ازمنہ وسطی میں بات یوروپ تک پہنچی- اور صلیبی جنگیں چھڑ گییں- انہی جنگوں کی وجہ سے یوروپ والوں نے مسلمانوں سے بہت کچھ سیکھ لیا- اور اسلامی تاریخ میں ترکوں کو ابھرنے کا موقع ملا- اگر تیمور لنگ کی خون ریزیاں نہ ہوتیں- تو تاریخ کا دھارا کچھ اور طرف بہنے والا تھا-
سولھویں صدی میں یوروپ میں نشاتہ ثانیہ کا اغاز ہوا- وہ علوم جن کو مسلمانوں نے ترقی دینے اور مدون کرنے کی کوشش کی تھی- ان کے حصے میں چلا گیا- عقلی علوم کا دور دورہ شروع ہوا- ساینسی علوم میں ترقی کی وجہ سے صنعتی اور ٹکنالولجی میں ترقی ممکن ہویی 150 طب کے میدان میں حریت انگیز دریافتیں ہویں- خلا کو مسخر کیا گیا- اور انسان مریخ میں اباد ہونے کا منصوبہ بنا رہا ہے-
دور حاظر میں مغرب والوں کی زندگی میں مذہب کا کویی عملی کردار نہیں- وہ اس کو کسی کی ذاتی پسند و ناپسند کا مسلہ قرار دے کر اپنے کندھوں کو ایک خاص جھٹکا دے کر خاموش ہو جاتے ہیں یا حیرانگی کا اظہار کرتے ہیں- اگرچہ ان ایسے لوگ موجود ہیں جو مذہب کی اہمیت کا قایل ہیں بلکہ یہ کھنا مناسب ہوگا- ہم سے بھتر انداز میں اس اہمیت اجاگر کر رہے ہیں-

جن لوگوں کی زندگی میں “مذہب” نہیں ہے- ان کا اندروں کھوکھلا ہوتا ہے- اسلیے اس خلا کو پر کرنے کے لیے دوسرے ذرایع تلاش کرتے ہیں- کبھی ایک پورانی “چاینک” یا “چاے جوش” کو ڈراینگ روم میں رکھ کر دل بھلاتے ہیں- تو کبھی کسی فن پارے کی جذباتی پرستش کرکے اپنی روح کیلے تسکین کا سامان پیدا کرتے ہیں- اور کبھی کسی ماڈل کی “حرکات” اور جسم کے نقش و نگار کی جزییات دیکھ کر دل خوش کرتے ہیں- غرض ان کی زندگی تین بنیادی مقاصد کے گرد گھومتی ہے: تعلیم ،روزگار، اور تفریح 150 ان کو معلوم ہے کہ ایک دن مرنا ہے- اسلیے زندگی سے بھر پور لطف اندوز ہو کر مرنا چاھتے ہیں-

ھمارے بنیادی مسایل: محنت کا فقدان، علم کی کی کمی، تحقیق کی مذمت، مذھب کی دین و دنیا میں تقسیم، پھر اس بنیاد پر گروہ بندیاں، گروہی سازشیں اور سیاست ، غربت اور بےروز گاری

محنت کا فقدان
ہم خود محنت کے عادی نھیں- بلکہ مفت کھانے کے عادی ہیں- اور مفت کھا کر خوش ہوتے ہیں- قران پاک میں کہیں بھی زکواتہ مانگنے کی بات نہیں ہے- بلکہ ہمیشہ نماز قایم رکھنے کے ساتھ زکواتہ دینے کا حکم ہے- اور زکواتہ دینے کے لیے ضروری ہے- کہ انسان محنت کرے- اور کچھ کماے- اس کا مطلب یہ ہوا- معاش کے لیے محنت فرض ہے- کیونکہ زکواتہ دینا فرض ہے- اور زکواتہ دینے کے لیے مال و دولت ضروری ہے- اور مال و دولت کمانے کے لیے محنت ٖضروری ہے- جب تک ہم معاش کے لیے محنت کو فرض نہیں سمجھیں گے 150 سست اور کاہل رہینگے- اور سستی و کاہلی سے پناہ مانگنے کا حکم ہے-

علم کی کمی
خالق کاینات قران پاک میں فرماتا ہے- علم خیر کثیر ہے- یعنی علم میں خیر ہی خیر ہے- لیکن ہم نے “مسایل” ہی کے علم کو علم سمجھا ہے- لیکن جب پیٹ میں درد ہوتا ہے- تو فورا ڈاکٹر کے پاس چلے جاتے ہیں- لیکن اس کے علم کو علم ماننے کے لیے تیار نہیں- لھذا ضروری ہے- کہ ساینسی علوم کو بھی اسی طرح فرض سمجھا جاے- جس طرح مذہبی علوم کو سمجھا جاتا ہے- اور درس نظامی کی نصاب میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے- تکہ دنیا والوں کو بتا سکیں کہ ہم علم والے لوگ ہیں
تحقیق کی مذمت
تقریبا ایک ہزار سالوں سے تحقیق کا دروازہ بند پڑا ہے- افسوس کا مقام ہے کہ لوگ امریکہ اور یورورپ سے اسلامی علوم میں پی ایچ ڈی کرکے اتے ہیں- اور دارالعلوم سے فارغ التحصیل طلبا یونیورسٹیوں سے ایم فل /پی ایچ ڈی کرتے ہیں- لھذا ضروری ہے- کہ تحقیق کے دروازے کو کھولا جاے- اور اس طرح معیاری تحقیق کا انتظام ہو-کہ مغرب سے طلبا یھاں تعلیم حاصل کرنے اجایں- اور ان کو معلوم ہو جاے- کہ اسلام میں علم کی کتنی اہمیت ہے- اور قران پاک میں علم و تحقیق کی طرف کیا اہم اشارے موجود ہیں-

دین و دنیا کی تقسیم
جسم اور روح ایک دوسرے سے الگ نھیں- جب الگ ہونگے تو ہم بھی نہیں ھونگے- جب میں اپنا ہاتھ ہلاتا ہوں- تو یہ بہ یک وقت جسمانی بھی ہے اور ذہنی بھی- اس کا مطلب یہ ہے کہ میرا شعور میرے ہاتھ کو ہلاتا ہے- یا میرا ہاتھ میرے شعور کے حکم سے ہلتا ہے- اسی طرح جب کویی بندوق کا پیہ دباتا ہے- اور فایر کر کے کسی شخص کو ھلاک کرتا ہے- تو وہ یہ کہ کر بچ نہیں سکتا- کہ یہ حرکت میں نے نہیں میری انگلی نے کی- کچھ مثالیں اس کی مزید وضاحت کرینگی- ایک ادمی صوم و صلاتہ کاپابند ہے- اور مسجد میں امامت کرتا ہے- چالیس سال بعد پتہ چلتا ہے- کہ وہ انڈیا کا جاسوس تھا- ایک ادمی لوگوں کو دیکھانے کے لیے نماز پڑھتا ہے- پرھیز گاری کی نمایش کرتا ہے- دوسرا ادمی ہے- وہ مستری کا کام کرتا ہے- لیکن اسکی نیت یہ ہے کہ وہ صاحب نصاب ہو کر زکوتہ ادا کرے- قران پاک میں “دنیا” و “اخرت” کے الفاظ استعمال ہوے ہیں- یعنی ایک ہی خط ہے- ایک سرے پر دنیا ہے دوسرے پر اخرت-
دین و دنیا میں تفریق کی بنا پر مسلمانوں میں کیی فرقے پیدا ہوے- بعض دنیا کو چھوڑ کر گوشہ نشینی کو اصل اسلام سمجھا- اور بعض ابھی تک دنیا پر “لعنت” بھیج رہے ہیں- لیکن دوکانداروں کو یہ مشورہ دے رھے ہیں- کہ فایدہ کمانے کے لیے کویی شرح مقرر نہیں ہیں- ٹیکسی میں قران موجود ہے- لیکن دھوکہ دینے کے لیے ہمہ وقت تیار- نماز پڑھنے کو دین سمجھیں گے-اور جھوٹی قسمیں کھا کر فایدہ حاصل کر کے حج کرنے کو دین سمھجیں گے- لیکن طبی علوم کو دنیا سمجھیں گے-
ان کے بزرگوں کے ناموں کے ساتھ سکول، کالج اور یونیورسٹیاں منسوب ہیں- ہمارے ہاں زیارتوں کا جو حال ہے خدا کی پناہ-

غربت اور بے روزگاری
غربت اور بے روز گاری نتیجہ ہے- سبب نہیں- اسباب اوپر بیان ہوے- نتیجے کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے- کہ اسباب کو ختم کیا جاے- جب اسباب ختم ہونگے- غربت اور بے روزگاری خود بخود ختم ہونگی-

اصل مسلہ
بنیادی مسلہ یہ نہیں ہے- کہ مغرب کیا کر رہا ہے- یا یھودی کیا کر رہے ہیں- یا عیسایی کیا کرہے ہیں- بنیادی مسلہ یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں- اسلام کا “اشتہار” ہم ہیں- دنیا ہمیں دیکھے گی- دنیا کو یہ معلوم ہے- کہ اسلام فرقوں میں بٹا ہوا ہے- دنیا کو یہ بھی معلوم ہے- یہ فرقے ایک دوسرے کو مسلمان ماننے کے لیے تیار نھیں- ان کو یہ بھی معلوم ہے- ہمارے اکثر اختلافات فرو عی نوعیت کے ہیں- بالفاظ دیگر حقیقت ایک ھے- باقی سیاسی افسانے ہیں- اور یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے- کہ قیامت کے دن گروہی اختلافات کے بارے میں کویی انٹرویو نھیں دنیا- پہلے بہت سی باتیں لوگوں کو معلوم نھیں تھیں- اب کویی بات بھی چھپی نہیں- مثال کو طور پر تاریخ کے بہت سے گوشے پردے میں تھے- اب ساری باتیں کھل کر سامنے اگیی ہیں-

کویی مسلمان عالم (اس کا تعلق جس فرقے سے بھی ہو) دنیا میں اگراسلام کا غلبہ چاہتا ہے- تو گروہی اختلافات کو ختم کرنا ہوگا- ان کو ختم کرنے کی دو ہی صورتیں ہیں: فروعی مسایل کو بنیاد بناکر کسی کو کافر کھنے سے گریز کیا جاے- اس کا اعلان خفی بھی ہو اور جلی بھی- 2)ان اختلافات کو کھلے دل سے برداشت کرنے ہونگے- جو فروعی نوعیت کے ہیں- اگر حساس نوعیت کے بھی ہوں تو خاموشی اختیار کرکے مشترکہ معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے- تیسری ضروری بات جذباتیت سے متعلق ہے- مسلمان ایک جذباتی مخلوق ہے-کل ہی میں یہ بات کہیں پڑھی- کہ بغداد کی تباہی کے وقت چن چن کر مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا تھا- خوف سے بعض مسلمان چھپ گیے تھے- اذان دی گیی- تو فورا نماز کے لیے باہر اگیے- اور تاتا ریوں کے نیزوں کا نشانہ بن گیے- ہمیں اشتعال دلانے کے لیے ایک کارٹون شایع ہوتاہے- پیغمر اسلام کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے- یا قران کے بارے میں کویی بات کہی جاتی ہے- مسلمان کا کا م حکمت بھی ہے- فراست بھی ہے- عقل و وشعور کا استعمال بھی ہے- اور ان کو منصوبہ بندی کا موقع مل جاتا ہے

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام ایک نظام حیات کا نام ہے- ضروری نہیں کہ اس کی کویی سیاسی صورت ہو- بعض حالات میں سیاسی صورت ا س کو نقصان پہنچاتی ہے- جب ایک انسان رضاکارانہ طور پر اس نظام حیات کو اپنانے کا فیصلہ کرے- جس میں زور یا لالچ کی کویی مداخلت نہ ہو- اسلامی نظام حیات کہلاتا ہے- اور یہ ازمایشوں سے بھرا راستہ ہے- سب سے بڑی ازمایش اس انسان کی نفسیاتی کمزوریاں ہو تی ہیں- یہ کمزوریاں اس وقت سر اٹھاتی ہیں- جب سامنے کویی فایدہ نظر اے یا نقصان کا خطرہ ہو- گذ شتہ تیرہ سو پچاس سالوں میں کم و بیش یہی صورت حا ل رہا ہے- بعض لوگوں نے جب محسوس کیا- کہ اجتماعی زندگی اسلام کے بر عکس جارہی ہے- تو تصوف کا راستہ اپنایا- اور اپنے نفس کو تربیت دینے اور خدمت خلق کو اپنا نصب العین بنایا- مسلمانوں کی عمومی حالت کا اگر جایزہ لیا جاے- تو رسمی اسلام غالب نظر اتا ہے- یعنی لوگوں کی اکثیرت “مسلمانوں” کی ہے- اسلیے مجبورا اسلامی زندگی گزار رہے ہیں- ورنہ بہت سے لوگ کب کا اسلام کو چھوڑ چکے ہوتے- کیونکہ اس میں رضاکارانہ پہلو نہیں ہے- ہماری مسلمانی میں حالات کا عمل دخل زیادہ ہے- ایماناور احتساب کا عنصر بہت کم ہے- روز قیامت کیا حشر ہوگا- وہ اللہ پاک کو معلوم ہے-


شیئر کریں: