Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پہلے بات کو تولو ………..محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

بزرگوں کا کہنا ہے کہ پہلے بات کو تولو، پھر منہ سے بولو۔بات کو تولنے کے ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ بولنے کے لئے کونسا وقت صحیح ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ غلط وقت پر صحیح اور صحیح وقت پر غلط بات کہنے سے لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں ۔ ہمارے وزیر داخلہ احسن اقبال کی مثال ہی لے لیں۔ وہ وزیرداخلہ بننے سے پہلے بہت کم بولتے تھے۔ اور جو تھوڑا بہت بولتے بھی تھے تو وزیر منصوبہ بندی ہونے کے ناطے لوگ اس پر زیادہ دھیان نہیں دیتے تھے۔ چوہدری نثار کی طرف سے شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں شامل ہونے سے معذرت کے بعد وزارت داخلہ کا قرعہ فال احسن اقبال کے نام نکل آیا۔شاید یہ اچانک فیصلہ تھا جس کی خود احسن اقبال کوبھی توقع نہیں تھی۔نئی ذمہ داری کندھوں پر پڑجائے تو انسان کی ٹانگوں کے ساتھ زبان بھی لڑکھڑانے لگتی ہے۔ کچھ ایسا ہی وزیرداخلہ کے ساتھ ہوا۔ حالانکہ اس کے پیش رو چوہدری نثار ہر بات ناپ تول کربولتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ اخباری رپورٹر ان کی دو گھنٹے کی پریس کانفرنس کے بعد بھی چار چھ لائنوں کی خبر نہیں نکال پاتے تھے۔ جب سے احسن اقبال وزیرداخلہ بنے ہیں ۔روز اخبارات کی شہ سرخی بننے لگے ہیں۔حال ہی میں ان کا بیان آیا تھا کہ عسکری قیادت جمہوری حکومت کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرے۔ معیشت میں بہتری نہ آنے کی باتیں باوردی لوگوں کو زیب نہیں دیتیں۔ انہیں اپنی بندوق سے کام رکھنا چاہئے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر شور مچ گیا۔ سوشل میڈیا پر تبصروں کا ایک سیلاب سا آگیا۔ عسکری ترجمان کا جواب آیا کہ جمہوری حکومت کو افواج پاکستان کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔ البتہ حکومت کو اپنے غیر جمہوری طرز عمل سے خطرہ ہوسکتا ہے۔ حکمران جماعت کے سینئر لیڈروں نے بھی وزیرداخلہ کو منہ سنبھال کر بات کرنے کی تلقین کی ہوگی۔ اگلے روز ان کا بیان آیا۔ کہ آئی ایس پی آر کے بیان پر انہیں دکھ ہوا تھا۔ جب عسکری ترجمان نے وضاحت کردی۔ تو انہیں تسلی ہوگئی ( کہ جمہوریت کو فوج کی طرف سے سردست کوئی خطرہ نہیں) اس لئے بحث ختم ہوگئی وہ جواب الجواب دے کر معاملے کو مزید طول دینا نہیں چاہتے۔ تاہم انہوں نے حسب عادت یا صحافیوں کے اصرار پر یہ کہہ کر نیا شوشہ چھوڑ دیا کہ آپریشن ردالفساد کے لئے حکومت نے اپنا پیٹ کاٹ کر وسائل فراہم کئے ہیں۔ گویا حکومت مطلوبہ فنڈز فراہم نہ کرتی تو آپریشن ردالفساد کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں تھا۔وزیرداخلہ کو شاید یاد نہ ہو۔ پشاور میں سانحہ اے پی ایس کے بعد ملک کی تمام سیاسی و عسکری قیادت نے مل بیٹھ کر آئندہ ایسے سانحات کو روکنے کے لئے ایک مشترکہ اور متفقہ پلان مرتب کیا تھا۔ جسے نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا گیا۔ بیس نکات پر مشتمل اس پلان کے پانچ نکات پر فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں جبکہ پندرہ نکات پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے عمل درآمد کرنا تھا۔ فوج نے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کی شکل میں اپنے حصے کا کام کردیا۔ جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ذمے پندرہ نکات اب تک واجب الادا ہیں۔وزیرداخلہ کو صداقت اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کوتاہی کا بھی اعتراف کرنا چاہئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ملک کی سلامتی کے لئے لڑی جارہی ہے جس میں افواج ، پیراملٹری فورسز اور پولیس نے بیش بہاقربانیاں دی ہیں۔ جب ملک میں امن نہیں ہوگا تو ترقی بھی نہیں ہوگی۔ اس لئے یہ احسان جتانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ حکومت نے اپنا پیٹ کاٹ کر فوج کو وسائل فراہم کئے ہیں۔ حکمرانوں نے اپنا نہیں بلکہ غریب عوام کو مہنگائی کی شکلمیں پیٹ اور جیب کاٹ کر وسائل جمع کئے ہیں جو اگر ملکی دفاع پر خرچ ہوئے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔وزیرداخلہ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ تمام ریاستی اداروں کو اپنی آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے ملک کی حفاظت، ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرنا چاہئے۔ کہوار زبان کی مشہور کہاوت ہے کہ جب ہوا چلتی ہے تو پتے ہلتے ہیں۔ جب کوئی ادارہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کرے تو اس پر انگلیاں ضرور اٹھیں گی۔ نکتہ چینوں کی انگلیاں کاٹنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ بلکہ کارگذاری بہتر بناکر تنقید اور الزامات کا جواب دیا جاتا ہے یہی آبرومندانہ جمہوری عمل ہے۔


شیئر کریں: