Chitral Times

Mar 21, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

20 فروری کو عالمی یوم انصافِ سماجی (World Day of Social Justice) منایا جاتا ہے۔۔ تحریر: اسدالرحمن بیگ

Posted on
شیئر کریں:

20 فروری کو عالمی یوم انصافِ سماجی (World Day of Social Justice) منایا جاتا ہے۔۔ تحریر: اسدالرحمن

 

 

یہ دن اقوامِ متحدہ نے 2007 میں مقرر کیا تھا تاکہ دنیا میں سماجی انصاف، مساوات، انسانی حقوق، غربت کے خاتمے، اور تمام افراد کے لیے باوقار زندگی کے مواقع کو فروغ دیا جا سکے۔ اس دن کا مقصد امتیازی سلوک، بے روزگاری، اور سماجی عدم مساوات کے خلاف شعور اجاگر کرنا ہے۔
عالمی یومِ انصافِ سماجی کا دن پہلے موجود نہیں تھا کیونکہ سماجی انصاف کو عالمی سطح پر ایک علیحدہ موضوع کے طور پر اتنی توجہ نہیں دی گئی تھی جتنی کہ دیگر انسانی حقوق، مزدور حقوق، یا اقتصادی انصاف کے معاملات کو دی جاتی رہی۔

اقوام متحدہ نے 1995 میں کوپن ہیگن میں ہونے والی ورلڈ سمٹ فار سوشل ڈیولپمنٹ میں پہلی بار سماجی انصاف کو عالمی پالیسیوں میں ایک لازمی عنصر کے طور پر تسلیم کیا۔ تاہم، تب تک کوئی مخصوص دن اس مقصد کے لیے مقرر نہیں کیا گیا تھا
2000 کی دہائی میں، جب عالمی سطح پر اقتصادی ترقی تو ہوئی لیکن امیر اور غریب کے درمیان فرق بھی بڑھا، تب سماجی انصاف کے مسئلے کو زیادہ سنجیدگی سے لیا جانے لگا۔ ترقی پذیر ممالک میں مزدوروں کے استحصال، بے روزگاری، نسلی امتیاز، اور غربت میں اضافے جیسے مسائل زیادہ نمایاں ہو گئے تھے۔

 

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 26 نومبر 2007 کو A/RES/62/10 نامی قرارداد منظور کی، جس میں 20 فروری کو “عالمی یوم انصافِ سماجی” قرار دیا گیا۔ اس کا مقصد بین الاقوامی برادری کو یاد دلانا تھا کہ انصاف صرف قانونی اصولوں پر ہی نہیں بلکہ سماجی و اقتصادی برابری پر بھی منحصر ہے۔

 

 

یہ دن مزدوروں کے حقوق، تعلیم، صحت، اور معیشت میں برابری پر زور دیتا ہے۔

عالمی تنظیمیں، حکومتیں، اور سول سوسائٹی اس موقع پر سماجی انصاف کے مسائل پر سیمینار، مباحثے، اور آگاہی مہمات چلاتی ہیں۔

اس کا تعلق پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) سے بھی ہے، خاص طور پر غربت کے خاتمے، معیاری تعلیم، اور عدم مساوات کے خاتمے جیسے نکات سے۔

اقوام متحدہ نے عالمی یومِ انصافِ سماجی مقرر تو کر دیا، لیکن کیا وہ خود اس انصاف میں سنجیدہ ہوا؟ یہ ایک پیچیدہ سوال ہے، کیونکہ اقوام متحدہ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جس کی اپنی کوئی عملی طاقت نہیں ہوتی، بلکہ یہ صرف رہنمائی سفارتی دباؤ اور پالیسی سازی کے ذریعے کام کرتا ہے۔

 

اقوام متحدہ ہر سال سماجی انصاف، مزدوروں کے حقوق، غربت، اور امتیازی سلوک پر رپورٹس جاری کرتا ہے۔

یہ دن منانے کے لیے مختلف ممالک کو رہنما اصول فراہم کیے جاتے ہیں۔

 

Sustainable Development Goals (SDGs)
کے ذریعے 2030 تک غربت، عدم مساوات، اور
سماجی ناانصافی کم کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

 

لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ عملی طور پر کسی تبدیلی کا باعث بنا؟

 

ILO (International Labour Organization)
کے ذریعے مزدوروں کے حقوق کے لیے قوانین کی وکالت کی جاتی ہے۔

کچھ ممالک میں اقوام متحدہ کی مدد سے سماجی بہبود کے پروگرام (Social Welfare Programs) شروع کیے گئے۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر رپورٹس اور سفارتی دباؤ ڈالا گیا۔

 

اقوام متحدہ طاقتور ممالک کو سماجی انصاف پر مجبور نہیں کر سکتا، کیونکہ بڑی طاقتیں (جیسے امریکہ، چین، روس) اپنی پالیسیوں میں زیادہ خودمختار ہیں۔

فلسطین، یمن، شام، اور دیگر تنازعات میں سماجی انصاف کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔

دنیا میں دولت کی تقسیم مزید غیر مساوی ہو رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اقوام متحدہ کی پالیسیاں کافی مؤثر ثابت نہیں ہو رہیں۔

 

 

یہ ادارہ صرف سفارتی دباؤ، رپورٹس، اور سفارشات تک محدود ہے۔ اگر کوئی ملک یا کارپوریشن سماجی انصاف کے اصولوں کو نظر انداز کرے، تو اقوام متحدہ اسے روکنے کے قابل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی عدم مساوات، استحصال، اور ناانصافی کے بڑے مسائل دیکھ رہے ہیں۔

لہٰذا، اقوام متحدہ کی سنجیدگی الفاظ میں زیادہ، عمل میں کم محسوس ہوتی ہے، کیونکہ اس کے پاس خود عملی نفاذ (enforcement power) نہیں ہے۔

اقوام متحدہ بظاہر ایک بین الاقوامی تنظیم ہے، لیکن عملی طور پر اس پر کچھ طاقتور ممالک، خاص طور پر امریکہ، کا سب سے زیادہ اثر و رسوخ ہے۔

 

اقوام متحدہ کے بجٹ کا سب سے بڑا حصہ امریکہ دیتا ہے (تقریباً 22 فیصد)، جس کا مطلب ہے کہ وہ اس کے فیصلوں پر غیر معمولی اثر رکھتا ہے۔

اگر امریکہ کسی فیصلے سے ناراض ہو، تو وہ فنڈنگ روک سکتا ہے، جیسا کہ WHO (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کے ساتھ ہوا جب ٹرمپ انتظامیہ نے فنڈنگ بند کر دی۔

 

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC) کے پانچ مستقل اراکین میں سے ایک امریکہ ہے (باقی چار: چین، روس، فرانس، برطانیہ)۔

امریکہ ویٹو پاور کے ذریعے کسی بھی قرارداد کو روک سکتا ہے، چاہے دنیا کے زیادہ تر ممالک اس کے حق میں کیوں نہ ہوں۔

مثال کے طور پر، فلسطین کے حق میں کئی قراردادیں پیش ہوئیں، لیکن امریکہ نے ویٹو کر کے انہیں روک دیا۔

اقوام متحدہ کی کئی امن فوجی مشنز (Peacekeeping Missions) میں امریکہ کا براہ راست یا بالواسطہ کنٹرول ہوتا ہے۔

 

 

اقوام متحدہ ایک آزاد ادارہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ بڑی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ، کی مرضی کے مطابق چلتا ہے۔

دنیا میں عالمی سماجی انصاف کا دن منایا جاتا ہے، جہاں بڑے بڑے ممالک انسانیت، مساوات، اور حقوق کی بات کرتے ہیں۔ لیکن کیا یہ واقعی انصاف ہے، یا صرف ایک دھوکہ؟ اگر ہم حالیہ فلسطین جنگ کو دیکھیں، تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ امریکہ، برطانیہ، اور فرانس جیسے ممالک نے ہزاروں معصوم بچوں، عورتوں، اور بے گناہ مردوں کو بے وجہ مروایا،

 

گزشتہ کئی مہینوں میں، فلسطین خصوصاً غزہ میں ہزاروں معصوم جانیں ضائع ہوئیں۔ گھر ملبے کا ڈھیر بن گئے، اسپتالوں پر حملے ہوئے، اور لوگوں کو پانی، خوراک اور ادویات تک میسر نہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود، امریکہ، برطانیہ، اور فرانس نے اسرائیل کی پشت پناہی جاری رکھی۔

امریکہ نے ہر ممکن طریقے سے اسرائیل کو فوجی اور مالی امداد فراہم کی۔

برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کے خلاف کسی بھی مؤثر قدم سے گریز کیا، حالانکہ وہ عالمی انسانی حقوق کے چیمپئن بننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ میں، جہاں انصاف کے فیصلے ہونے چاہیے تھے، وہیں ویٹو پاور کا استعمال کر کے انصاف کا گلا گھونٹ دیا گیا۔

 

اگر عالمی سماجی انصاف واقعی موجود ہوتا، تو کیا معصوم بچوں کے قتلِ عام کو روکا نہیں جا سکتا تھا؟

اگر انصاف سب کے لیے یکساں ہوتا، تو کیا غزہ میں ہونے والی بربادی پر دنیا خاموش رہتی؟

اگر اقوامِ متحدہ کا انصاف حقیقی ہوتا، تو کیا امریکہ، برطانیہ اور فرانس کھلے عام اسرائیلی مظالم کی حمایت کرتے؟

 

یہ دن صرف ایک دکھاوا ہے، ایک فریب ہے۔ وہی ممالک جو انصاف کی بات کرتے ہیں، خود ظلم کے سب سے بڑے سرپرست ہیں۔
جب تک طاقتور ممالک اپنے مفادات کے لیے کمزوروں کو مرواتے رہیں گے، تب تک عالمی سماجی انصاف
صرف کاغذی نغرہ رہے گا ۔ دنیا کو اصل انصاف چاہیے، نہ کہ طاقتور ممالک کے بنائے ہوئے جھوٹے اصول جو صرف مظلوموں کے حق مارنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں ۔ اگر ہزاروں معصوم بچوں

 

اور عورتوں کا قتل عالمی انصاف کے نظام میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا، تو پھر ایسے انصاف کا
کوئی فائدہ نہیں بلکہ یہ صرف ایک دھوکا ہے

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
99309