
یوکرین، روس اور امریکہ: طاقت، وسائل اور جنگ بندی کا کھیل – قادر خان یوسف زئی
یوکرین، روس اور امریکہ: طاقت، وسائل اور جنگ بندی کا کھیل – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے
دنیا میں طاقت کے کھیل کی نوعیت ہمیشہ ایک جیسی رہی ہے، کبھی زمین کی خاطر جنگیں لڑی گئیں، کبھی وسائل کے لیے، اور کبھی اقتدار کی ہوس میں قوموں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا۔ یوکرین جنگ بھی انہی بنیادی محرکات کی ایک کڑی ہے، مگر اس بار معاملہ صرف زمین یا سیاسی اثر و رسوخ تک محدود نہیں، بلکہ زمین کے نیچے چھپے وہ خزانے بھی اس جنگ کے ایندھن میں شامل ہو چکے ہیں، جن کی قیمت کھربوں ڈالر میں ہے۔ سوال صرف یہ نہیں کہ اس جنگ کا فاتح کون ہوگا، بلکہ یہ بھی ہے کہ یوکرین کے ان نایاب معدنی وسائل کا اصل مالک کون بنے گا؟ دنیا کے اس پیچیدہ کھیل میں امریکہ ایک بار پھر مرکزی کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا ہے، مگر کیا یہ محض ایک اتحادی ہے یا پھر وہ سوداگر جو اپنے مفادات کی قیمت پر نئی شراکتیں قائم کر رہا ہے؟
یوکرین اور امریکہ کے درمیان سخت مذاکرات جاری رہے، جن کا مقصد امریکی کمپنیوں کو یوکرین کی نایاب معدنیات تک رسائی دینا اور بدلے میں تعمیر نو کے منصوبوں میں امریکی شمولیت کو یقینی بنانا تھا۔ بالآخر یہ طے پایا کہ یوکرین اپنے قدرتی وسائل کے منافع میں امریکہ کو شراکت دار بنائے گا، جہاں آمدن کا نصف حصہ یوکرین کو حاصل ہوگا اور باقی نصف امریکہ کو۔ ابتدا میں واشنگٹن نے پانچ سو ارب ڈالر کے معدنی حقوق مانگے، مگر یوکرین کے سخت موقف کے باعث یہ مطالبہ گھٹ کر نوے ارب ڈالر تک آ گیا۔ اس معاہدے کو یوکرین کی اقتصادی بقا کے لیے ایک امید کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، مگر اس میں ایک بنیادی کمی یہ ہے کہ اس میں سیکیورٹی گارنٹی یا دفاعی مدد کی کوئی شق شامل نہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب یوکرین کو نہ صرف مالی بلکہ عسکری مدد کی بھی اشد ضرورت ہے، اس معاہدے کو صرف معاشی مفادات کا سودا قرار دیا جا رہا ہے۔ یورپی یونین کے کچھ رہنماؤں نے اس پر تنقید کی ہے کہ کسی بھی ملک کی امداد کو اس کے قدرتی وسائل کے استحصال سے جوڑنا ایک نیا نوآبادیاتی ماڈل بنانے کے مترادف ہے، جس میں طاقتور ممالک معاشی بحران میں گھری ریاستوں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
دوسری طرف روس، جو پہلے ہی یوکرین کے کئی علاقوں پر قابض ہو چکا ہے، نے ایک حیران کن چال چلتے ہوئے امریکی کمپنیوں کو براہ راست ایک اور پیشکش کر دی۔ روس نے کہا کہ اگر امریکہ پابندیاں نرم کرے تو وہ ڈونیٹسک، لوہانسک اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں موجود نایاب معدنی وسائل تک امریکی کمپنیوں کو رسائی دے سکتا ہے۔ اس معاہدے کی اصل اہمیت صرف معاشی نہیں بلکہ سفارتی ہے، کیونکہ اگر امریکہ اس پیشکش کو قبول کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ یوکرین کے مقبوضہ علاقوں پر روسی تسلط کو تسلیم کر رہا ہے۔ روس کے زیر قبضہ علاقوں میں کوئلے، مینگنیز اور دیگر قیمتی دھاتوں کے ذخائر کی مالیت تین سو پچاس ارب ڈالر سے زائد بتائی جاتی ہے، اور یہ وسائل امریکہ اور یورپ کے لیے اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل ہیں۔ روس کے اس اقدام کو مغربی اتحاد میں دراڑ ڈالنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ اس سے یوکرین کے معاہدے کی کشش کم ہو سکتی ہے اور امریکہ کو فوری فوائد کی ایک ایسی پیشکش مل رہی ہے، جو اسے یوکرین کے ساتھ طویل مدتی معاہدے سے زیادہ پرکشش محسوس ہو سکتی ہے۔
جنگ کے میدان سے ہٹ کر ایک اور جنگ سفارتی محاذ پر بھی جاری ہے، جہاں امریکہ کی قیادت میں یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ ایک فوری جنگ بندی کے حق میں ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ایسٹر سے پہلے، یعنی بیس اپریل تک، یوکرین فوجی پسپائی اختیار کرے اور کچھ علاقوں میں روسی کنٹرول کو تسلیم کر لے۔ امریکی وزیر دفاع نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ دوہزار چودہ سے پہلے کی یوکرینی سرحدیں اب غیر حقیقی تصور ہیں، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ امریکہ سفارتی لحاظ سے یوکرین کے کچھ علاقوں پر روسی کنٹرول کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ مگر یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ جب تک انہیں سیکیورٹی گارنٹیز نہیں ملتیں، وہ کسی بھی معاہدے کا حصہ نہیں بنیں گے۔
یوکرین میں داخلی سیاست بھی ایک نیا رخ اختیار کر چکی ہے، جہاں ٹرمپ اور روس دونوں اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ چونکہ زیلنسکی کی آئینی مدت ختم ہو چکی ہے، اس لیے فوری انتخابات کرائے جائیں۔ ٹرمپ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ زیلنسکی ایک ڈکٹیٹر بن چکے ہیں اور وہ جمہوری عمل کو روک رہے ہیں، جبکہ روس بھی یہی بیانیہ آگے بڑھا رہا ہے تاکہ یوکرین کی حکومت کو کمزور ثابت کیا جا سکے۔ لیکن عوامی سروے کچھ اور کہانی سنا رہے ہیں۔ کیو انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ستاون فیصد یوکرینی عوام اب بھی زیلنسکی پر اعتماد کرتے ہیں، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے خلاف جاری پروپیگنڈا حقیقت سے زیادہ سیاسی چال ہے۔
یہ صورتحال امریکہ کے لیے ایک پیچیدہ انتخاب بن چکی ہے۔ ایک طرف یوکرین ہے، جو ایک ایسا معاہدہ پیش کر رہا ہے جو طویل المدتی معاشی فوائد تو رکھتا ہے، مگر فوری نوعیت کی سیاسی کامیابی کے لیے اتنا پرکشش نہیں۔ دوسری طرف روس ہے، جو فوری وسائل تک رسائی کی پیشکش کر رہا ہے، مگر اس کے بدلے میں امریکہ کو یوکرین کی خودمختاری کے اصول سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ اگر امریکہ یوکرین کے ساتھ کھڑا رہتا ہے تو وہ اپنی عالمی ساکھ اور مغربی اتحاد کو برقرار رکھ سکتا ہے، مگر اس کا مطلب ہوگا کہ وہ فوری معاشی فوائد کو قربان کر دے۔ اگر وہ روس کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے تو اسے قیمتی وسائل تک رسائی مل سکتی ہے، مگر اس کے نتیجے میں نیٹو اور یورپ کے ساتھ اس کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔
یہ فیصلہ نہ صرف یوکرین اور روس کے درمیان توازن کا تعین کرے گا، بلکہ امریکہ کی مستقبل کی خارجہ پالیسی کے لیے بھی ایک مثال قائم کرے گا۔ کیا امریکہ عالمی قیادت کا دعویٰ برقرار رکھے گا یا پھر فوری معاشی مفاد کے لیے ایک ایسا راستہ اختیار کرے گا جو اس کی اصولی سیاست پر سوالیہ نشان لگا دے؟ آنے والے دنوں میں یہ واضح ہو جائے گا کہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک کس سمت میں اپنا قدم بڑھاتا ہے۔ مگر ایک بات طے ہے، جو بھی فیصلہ ہوگا، وہ صرف یوکرین یا روس کے لیے نہیں، بلکہ پوری عالمی سیاست کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوگا۔