Chitral Times

May 16, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

یوم صحافت اور ایکریڈیشن کارڈ – میری بات/روہیل اکبر

Posted on
شیئر کریں:

یوم صحافت اور ایکریڈیشن کارڈ – میری بات/روہیل اکبر

صحافت کا عالمی دن ہو اور ہم صحافیوں کے متعلقہ محکمے ڈی جی پی آر کو بھول جائیں یہ تو ناممکن ہے ڈی جی پی آر کا میں نے ذکر خاص اس لیے کیا ہے کہ اس وقت پنجاب کے ڈی جی پی آر تاریخ کے متنازعہ ترین ڈائریکٹر جنرل ہیں اس محکمہ اور محکمہ کے لوگوں پر لکھنے سے پہلے بس اتنا بتاناہے کہ اس وقت دنیا میں 195ممالک ہیں اور ان میں سے 180ممالک میں صحافیوں کی آزادی کے حوالہ سے عالمی صحافتی تنظیم رپورٹرز ود آٹ بارڈرز نے آزادی صحافت کی صورتحال پر ایک رپورٹ جاری کی ہے عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان جو پہلے 152 ویں نمبر پر تھا جو اب مزید برے حالات سے دوچار ہونے کے بعد 158 درجے پر آگیا اس رپورٹ میں آزادی صحافت پر لگنے والی قدغنیں تنزلی کی اہم وجہ قرار دی گئی جبکہ میڈیا پر بڑھتے معاشی دباؤ کے باعث امریکا سمیت تقریبا ایک تہائی ممالک میں معاشی مشکلات کے باعث خبررساں ادارے بند ہو رہے ہیں

 

آمرانہ حکومتیں میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے اقتصادی دبا ؤ استعمال کر رہی ہیں پاکستان جس نمبر پر آچکا ہے اس سے اندازہ لگالیں کہ صحافت اور صحافی کن مشکلات سے دوچار ہیں اخباری مالکان کی موجیں لگی ہوئی ہیں جبکہ ڈمی اخبارات کی ان سے زیادہ موجیں ہیں ان میں سے کچھ اخبارات کروڑوں روپے کے اشتہارات لے رہے ہیں اور کچھ لاکھوں روپے کے بعض اخبارات ایسے بھی ہیں جو صرف اشتہار ملنے کی صورت میں ہی چھپتے ہیں ایسے حالات میں جو ورکر صحافی ہیں انہیں اس حد تک تنگ کردیا گیا ہے کہ وہ فاقہ کشی تک پہنچ چکے ہیں پچھلے دنو ں لاہور کے ایک سینئر صحافی نے مکان کا کرایہ نہ ہونے کے باعث خود کشی کی کوشش کی جبکہ کچھ عرصہ قبل ایک خاتون رپورٹر نے معاشی حالات سے تنگ آکر خودکشی کر لی تھی

 

پاکستان میں صحافت کا جو سنہرا دور تھا وہ ختم ہو گیا ہے اب جبر اور مفادات کا دور ہے یہی وجہ ہے کہ ہم آزادی صحافت کے آخری نمبروں پر کھیل رہے ہیں میں نے شروع میں محکمہ تعلقات عامہ کا ذکر کیا تھا اس دن کی مناسبت سے ڈی جی پی آر کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ محکمہ بھی ختم ہوتے ہوتے اب اپنے انجام کی طرف ہے اس محکمہ کے ساتھ صحافیوں کی اگر دلی اور جذباتی وابستگی تھی تو وہ صرف ایکریڈیشن کارڈکی حد تک وہ بھی اس لیے کہ انہیں اس کارڈ کے زریعے ریلوے کرایہ میں رعایت ملتی ہے جس دن محکمہ ریلوے نے ڈی جی پی آر کے کارڈ کے بغیر رعایت دینا شروع کردی اس دن محکمہ تعلقات عامہ میں صرف اشتہارات لینے اور دینے والوں کے سوا اور کوئی نہیں آئے گا کالم کے آغاز میں موجودہ ڈی جی پی آرغلام صغیر شاہد کو میں نے اس محکمہ کا متنازعہ ترین ڈی جی پی آراس لیے لکھا ہے کہ ان کی سب کے ساتھ ناراضگی چل رہی ہے

 

انہیں انکے اپنے محکمہ کے افسر منہ نہیں لگاتے اور تو اور اس وقت محکمہ تعلقات عامہ میں 2ایڈیشنل ڈی جی پی آر ہیں جن میں سے ایک میڈم روبینہ ڈائریکٹر جنرل بھی رہ چکی ہیں اور انکا اس وقت اپنے ہی محکمہ میں داخلہ بند ہے جبکہ دوسرے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل عابد نور بھٹی ہیں جنہیں جنوبی پنجاب کے لیے ملتان بھیجا ہوا ہے وہاں پر انکے پاس دفتر ہے اور نہ ہی کوئی کام اور یہ دونوں افراد اس وقت محکمہ کے سینئر ترین افسر ہیں جن سے ڈی جی صاحب کا کوئی رابطہ نہیں ہے اور نہ ہی انکا کسی کے ساتھ رابطہ ہے بلکہ اب اختلافات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ ڈی جی پی آر کے ڈائریکٹر اپنے ڈی جی کے پاس بیٹھنا گوارا نہیں کرتے اگر ڈی جی صاحب جذبہ خیر سگالی کے طور پر کھانے کی پلیٹ پکڑے اپنے کسی ڈائریکٹر کے پاس بیٹھ بھی جائیں تو وہ ڈائریکٹر وہاں سے بھاگ اٹھتا ہے خیر بہت سی اندرونی باتیں ہیں جو پھر کسی وقت کے لیے سنبھال رکھتا ہوں

 

آج چونکہ آزادی صحافت کاعالمی دن ہے اور اس دن کی مناسبت سے عرض ہے کہ موجودہ ڈی جی پی آر نے ایکریڈیشن کارڈ روک کر کوئی بہت بڑا کارنامہ سر انجام نہیں دیا بلکہ اپنے محکمہ کے افسران کے ساتھ ساتھ پنجاب کے اکثر صحافیوں کو بھی اپنے خلاف کرلیا ہے محترم غلام صغیر شاہد کو چاہیے تو یہ تھا کہ جن ڈمی اخبارات نے پیسے خرچ کرکے اپنے اخبارات کی بھاری بھرکم اے بی سی کروارکھی ہے وہ انکے اشتہارات بند کرتےABC والوں کے خلاف کوئی ایکشن لیتے اور ان پریس والوں کی نگرانی کرواتے جہاں جہاں سے اخبارات چھپتے ہیں لیکن انہوں نے اپنا سارازور ایکریڈیشن کارڈ والوں پر ہی نکال رکھا ہے حالانکہ ان سے پہلے بھی ڈی جی پی آر رہے ہیں جو کارڈ لیکر اخبارات کے دفتر خود جایا کرتے تھے خواجہ جمیل طاہر اورملک محمد حسین جیسے خوبصورت ہیرے بھی اسی محکمہ کے ڈی جی رہے جنہیں آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں

 

ایکریڈیشن کارڈ کی ویلیو صرف ریلوے کرایہ تک محدود ہے میں تو حنیف عباسی صاحب سے کہتا ہوں کہ وہ بھی پی آئی اے کی طرح صحافیوں کو رعایت دینے کا کوئی ایسا فارمولہ بنائیں تاکہ ڈی جی پی آر سے جان چھوٹ جائے رہی بات اس محکمہ کی ایک دن آئے گا یہ خود اپنے اختلافات کی نظر ہو جائیگاآج چونکہ عالمی یومِ صحافت ہے اور پاکستان میں صحافیوں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے یہ دن صحافیوں کی انتھک محنت، لگن اور معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے سچائی کو بے نقاب کرنے کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے صحافی رائے عامہ کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں مختلف آراء کو سامنے لاتے ہیں اور شہریوں کو باخبر فیصلے کرنے کے قابل بناتے ہیں

 

صحافی طاقتور اداروں اور افراد کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہیں، بدعنوانی کو بے نقاب کرتے ہیں،حکومتی اور دیگر اداروں کو جوابدہ بناتے ہیں ان کی تحقیقاتی رپورٹیں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں صحافی معاشرے میں موجود سماجی، معاشی اور ماحولیاتی مسائل کو اجاگر کرتے ہیں محروم طبقات کی آواز بنتے ہیں اور پالیسی سازوں کو ان مسائل کے حل کے لیے توجہ دلاتے ہیں صحافی عوام کو اہم قومی اور بین الاقوامی امور سے آگاہ کرتے ہیں انہیں تعلیم دیتے ہیں اور باشعور شہری بننے میں مدد کرتے ہیں صحافی غلط معلومات اور افواہوں کا مقابلہ کرتے ہوئے حقائق پر مبنی رپورٹنگ کو فروغ دیتے ہیں ذمہ دار صحافت قومی اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے

 

 

یہ مختلف ثقافتوں اور نقطہ نظر کے درمیان پل کا کام کرتی ہے رواداری اور افہام و تفہیم کو بڑھاتی ہے پاکستانی صحافی اکثر خطرناک حالات میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہیں انہیں دھمکیوں، ہراسانی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کی قربانیاں سچائی کی تلاش اور عوام کو باخبر رکھنے کے عزم کا منہ بولتا ثبوت ہیں عالمی یومِ صحافت اس بات کی بھی یاد دہانی کراتا ہے کہ صحافت ایک خطرناک لیکن انتہائی اہم پیشہ ہے پاکستان میں صحافیوں کو ایک محفوظ اور سازگار ماحول فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ بغیر کسی خوف و خطر کے اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکیں حکومت، سول سوسائٹی اور میڈیا تنظیموں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ صحافیوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے اور پریس کی آزادی کو فروغ دیا جا سکے۔

 

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
102011