ہندوکش کمرشل کانفرنس 2022 – محکم الدین ایونی
ادارہ یا ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی رایے سے متفق ہونا ضروری نہیں!
ہندوکش کمرشل کانفرنس 2022 – محکم الدین ایونی
مشہور ہے ۔ کہ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے ہمارے ایک نہایت مہربان دانشور کا قول ہے ۔ کہ آپ جب کوئی کام کریں گے ۔ تو اسی کے بارے میں اچھی یا بری رائے لوگوں کی طرف سے سامنے آئیں گے ۔ جب کوئی سرگرمی سرے سے ہو ہی نہیں رہا ہو ۔ یا نہ ہو چکا ہو ۔ تو خاموشی کے سوا کیا ہو سکتی ہے ۔ بالکل اسی طرح جس طرح گذشتہ دنوں چترال میں ایک کانفرنس کا انعقاد ہوا ۔ کانفرنس کے منتظمیں نے اسے انٹر نیشنل ہندوکش کلچرل کانفرنس کا نام دیا تھا ۔ لیکن ہمارے ایک قریبی عزیز اور انجمن ترقی کھوارکے دیرینہ رکن نے اسے ہندوکش کمرشل کانفرنس کا نام دے کر مجھے حیران و پریشان کردیا ۔ مجھ سےرہا نہ گیا ۔ اور میں نے اس زیادتی کی وجہ پوچھی تو انہوں نےکہا۔” کہ نصف صدی ہماری گزر گئی ۔ ہمارے سامنے کئی تقریبات گزرے ، سکینڈ اور تھرڈ انٹرنیشنل ہندوکش کلچرل کانفرنس ہمارے ہاتھوں انجام پائے ۔ ہم نے میز کرسی صاف کئے ۔ مہمانوں کے ہاتھ دھلوائے ۔ ان کی جوتیاں سیدھی کیں ۔ کیونکہ انجمن کےبڑے امیر خان میر ، ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ، بابا ایوب مرحوم ، امین الرحمن چغتائی ، مہتر جو احمد دیار خان مرحوم ، محمد عرفان ، تاج محمد فگار مرحوم ،گل نواز خاکی مرحوم جیسے آدبی بزرگ کانفرنس کیلئے جونئیر اراکین کو بلاکر ان کو بھی مشورے میں شامل کرتے ۔سب سے رائےلی جاتی ۔ کام بتائے جاتے ۔ اور شاباشی و اچھے الفاظ سے ان کی خدمات کے اعتراف کئے جاتے۔ جس سے انجمن کے سنئیر ز کی قدر دل میں ہوتی تھی ۔ اور ہم اسے اپنےلئے اعزاز سمجھتے تھے ۔ چترال کے تمام لوگ بیرونی مہمانوں کو اپنا مہمان سمجھتے تھے ۔ اپنے گھروں میں ان کی رہائش اور دعوتوں کا انتظام کرتے ۔ شہر کے اندر غیر معمولی سرگرمی ہر ایک فرد کو معلوم ہوتی تھی۔ اور عام لوگ یہ محسوس کرتےتھے ۔ کہ واقعی زبان و ثقافت انتہائی اہمیت والی اور قدر کرنے والی چیز ہے ۔ جس کی حفاظت یقینا ضروری ہے “۔ ان کے مقابلے میں
یہ کیسا کانفرنس ہے ۔ کہ انجمن کے ادبا اورکلچر سے تعلق رکھنے والے سنئیر اراکین کی حاضری کو ہی ضروری نہ سمجھا گیا ۔ بس ایک چیز پرکانفرنس منتظمیں کی توجہ مرکوز رہی ۔ کہ کسی کو بھی رجسٹریشن فیس وصولی کے بغیر کانفرنس میں شرکت نہ کرنے دیا جائے۔ کانفرنس میں سنئیر ممبران کی ایک بڑی تعداد اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کیلئے بھی شریک نہیں ہوئی۔ اس لئے مجھے اسے انٹرنیشنل ہندو کش کلچرل کانفرنس کہنے کی بجائے ہندوکش کمرشل کانفرنس کہنا زیادہ موزون لگتا ہے۔ ” انجمن کے ایک اور سنئیر معروف شاعر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ۔ کہ انجمن ہائی جیک ہو چکا ہے۔ انجمن کے صدر صاحب کو بھی جال میں پھنسا دیا گیا ہے ۔ اس کانفرنس سے کلچر پر مثبت کی بجائےمنفی اثرات پڑے ہیں ۔ پانچ کے ٹولے نے ہیلی پیڈ پر قبضہ جما لیاہےوہ اسے تیارملا ہے ۔ جبکہ یہ پلیٹ فارم
دو سوسال قبل اتالیق محمد شکور غریب ، ہز ہا نس سر ناصر الملک ، شزاد ہ حسام الملک ، پرنسپل غلام عمر ، اور ادب و ثقافت کیلئے اپنی عمریں کھپانے والے ہمارے ادیبوں نے تیار کیا تھا ۔ اب فاختہ کے گھونسلے پر شاہین اپنی طاقت اور تیز طراری سے قابض ہونےکی کوشش کررہا ہے۔
ان دونوں ادیبوں کے خیالات کے علاوہ اگر ہم دیکھیں ۔ تو کئ اہم فورم اور اداروں کی ناراضگی بھی عیاں ہیں ۔ ان میں گندھارا ہندکو بورڈ پشاور جس نے انجمن ترقی کھوار چترال کے کئی کتابوں کی چھپائی میں مدد کی ۔ چترال میں کانفرنس کا بھی انعقاد کیا۔ نےہندوکش کانفرنس کیلئے دعوت نے دینے پر انجمن ترقی کھوار چترال سے ناراضگی کا اظہار کیاہے۔ اسی طرح اوور سیز پاکستانی دوبئی کی تنظیم جن کی چترال کی تہذیب و ثقافت اور ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ بے سہارا چترالیوں کی مدد کے حوالے سے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ کو مدعو نہ کرنےبر تنظیم کے صدر حاجی محمد ظفر ان کی ٹیم اور سابق جنرل سیکرٹری نظار ولی شاہ کی ناراضگی پہلے ہی زیب قرطاس بن چکی ہیں۔
ہمارے ایک محسن دوست نےیہ بھی انکشاف کیا ۔ کہ ابھی تک چترال کے ممتاز سکالر ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کی طرف سے اس کانفرنس کے حوالے سے کوئی آرٹیکل سامنے نہیں آیا ۔ اس سے اندازہ ہے۔ کہ کچھ لاوہ ادھر بھی پک رہا ہے ۔
بہر حال جتنے منہ اتنی باتیں ۔ کانفرنس تو ہر پہلو کامیاب رہی ۔ چاہے ادبی لوگ خوش رہیں یا ناراض ۔