ہمیشہ چترال کیوں؟ ۔ تحریر : کلیم افسر خان
چترال؛ محبت اور امن اس کا دوسرا نام ہے۔ خوبصورتی اس کو ورثے میں ملی ہے۔ مہمان نوازی اس کے ماتھے کا جھومر ہے۔ با اخلاق، سلجھے ہوئے اور شریف لوگ اس کے باشندے ہیں۔ وطن سے محبت ان کے خون میں ہے۔ چترال وہ واحد علاقہ ہے جہاں پر قوم پرستی، فرقہ واریت، غیرت کے نام پر بے غیرتی۔ مذہبی جنونیت، شدد پسندی، دہشتگردی کا نام و نشان تک نہیں ہے۔
پھر بھی چترال کیوں؟
کیوں ہمارے پہاڑوں کو بلاسٹ کیا جا رہا؟
کیوں ہم 56 سالوں سے ایک ریاست کے ساتھ ہونے کے باوجود تاریک دور میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں؟
کیوں ہماری سڑکیں پختہ نہیں ہیں؟
کیوں ہمارے شناخت اور زبان کو خطرہ ہے؟
کیوں بنیادی تعلیمی ادارے اور بنیادی صحت کے مراکز نہیں ہیں؟
کیوں ہمارے جنگلات کی غیر قانونی کٹائی ہو رہی ہے؟
کیوں ہمیں تقسیم کیا جا رہا ہے؟
کیوں ایک ارب چھبیس کروڑ روپے میں بھی چند کلومیٹر روڈ نہیں بن رہی؟
کیوں ہمیں ہمیشہ امن پسند اور مہذب کہ کر خاموش کیا جاتا ہے؟
کیوں ہمارے پر امن شہریوں کو اپنے بنیادی حقوق مانگنے پر ہتھکڑیاں پہنایا جا رہا ہے؟
کیوں پولو جیسے ہمارے قومی اور روایتی ورثے کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے؟
کبھی یہ سوال آپ کے ذہن میں آئے ہیں؟ کبھی آپ نے ان کے بارے میں سوچا ہیں؟
جب آپ کسی تعلیم یافتہ کے سامنے یہ باتیں رکھتے ہیں وہ آپ کو یہ دلیل دے کر چپ کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ہم نے پاکستان کے لیے کیا کیا جو ریاست ہمارے لیے کرے۔
تو سنو!
ہم نے سب سے پہلے بغیر کسی کنفلکٹ کے اپنے 10800 مربع کیلومیٹر کی ریاست پاکستان کے حوالے کیے۔
چترال کی مٹی نے کبھی دہشتگرد پیدا نہیں کیا۔
چترال میں کبھی بھی کوئی ریاست مخالف نعرے نہیں لگے.
ہم انتہائی دور افتادہ اور ترقی پزیر ہونے کے باوجود اپنے بچوں کو تعلیم دی تاکہ وہ اچھے شہری بنے نتیجتاً ہم پاکستان میں سب سے زیادہ لیٹریسی رکھنے والا علاقوں میں شمار ہوگے۔
11/9 کے بعد پورا ملک دہشتگردی سے تباہ و برباد ہوگیا، ہم اس دور میں بھی پر امن اور ملک و ملت کے ساتھ وفادار رہے۔
چترال میں کبھی بم دھماکہ نہیں ہوا۔ کبھی کسی سرکاری عمارت کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ ریاستی اداروں کو گالی نہیں دی گئی۔
پھر بھی ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں؟
کیوں ہمیں بھی ملک سے بد ظن کیا جا رہا؟
کیوں ہمیں بھی متشدد راستہ اپنانے پر مجبور کیا جا رہا؟
کیوں ہمارے نوجوان کے ذہنوں میں ریاست اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے قوم پرستی کا بیج بو رہی ہے؟
کیا اس ملک میں صرف خون خرابے سے آپ کو حق ملے گا؟
کیا ہم غلط راستے اختیار کریں؟
کیا ہم بھی بندوقیں لے کر پہاڑوں میں اپنے حق کے لیے لڑنا شروع کریں؟
کیا ہم بھی اس ملک کی بنیاد پر سوال اٹھانا شروع کریں؟
اگر نہیں تو چترال کو حق دو۔
اس کی سڑکیں تعمیر کرو۔
ارندو سے لے کر بروغل تک جتنے منصوبوں پر کرپشن ہوا ہے ان کا احتساب کرو۔
تورکھو، تریچ روڈ پر جتنے بھی کرپٹ لوگ ہیں جنھوں نے ایک مسائل میں گھرے ہوئے علاقے کے فنڈ کھائے ہیں، قانون کے مطابق سزا دو۔
آیون، بمبوریت جو کہ ایک ضروری سیاحتی علاقے ہیں ان کی سڑکوں پر فوراً کام شروع کرو۔
شندور، مستوچ اور جتنے بھی سڑکیں ہیں ان کو تعمیر کرو۔ تاکہ ہم بھی اس جدید دور میں سکھ کا سانس لے سکیں۔ ہم بھی سمجھیں کہ ہم کسی ریاست کے ماتحت ہیں۔
ہمارے پاس پاکستانی ہونے کی صرف ایک دلیل ہے اور وہ ہے پاکستانی شناختی کارڈ۔
اس کے علاوہ ہمارے ضلع میں کیا ہے۔ ہمارے وسائل (لوہا، درخت، پانی، ماربل) اور دوسرے ذرائع لوٹے جا رہے لیکن کام ایک ٹکے کا نہیں ہے۔
ریاست ماں ہوتی ہے لیکن ہماری والی سوتیلی ہے۔
چترال کے سیاسی، قومی، فلاحی، اور مذہبی رہنماؤں سے گزارش ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو تھوڑا ان کے مسائل کے بارے میں بھی آگاہ کریں۔
ان کو بتایا جائے کیسے ہم اپنی شناخت کھو رہے۔
کس طرح ہمارے روایات شفٹ یا ختم ہوتے جا رہے۔
کس طرح ہماری زبان، ثقافت، روایات ایک اکثریتی زبان، اور سوسائٹی کے سامنے گھٹنے ٹیک رہے۔
کیا کوئی کھیل یا موسیقی کے میدانوں سے نکل کر ہمارے نوجوانوں کو اس چیز کے بارے میں بھی آگاہی دے سکتا ہے؟