
ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان کی سات دہائیوں تک اسماعیلی جماعت کی امامت ۔ تحریر : مصطفی کمال
ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان کی سات دہائیوں تک اسماعیلی جماعت کی امامت ۔ تحریر : مصطفی کمال
سات دہائیوں تک اسماعیلی جماعت کی ولولہ انگیز دینی و دنیاوی قیادت کے بعد امام شاہ کریم الحسینی داغِ مفارقت فرما گئے
امام نہایت ہی کم عمری میں اور ایک پر اشوب سیاسی دور میں جماعت کی قیادت کی ذمہ داری پہ جلوہ افروز ہوئے اور صحیح معنوں میں قیادت کا حق ادا کیا۔ امام نے ایک ایسے دور میں قیادت کی ذمہ داری سنبھالی جب مسلمان دنیا میں نوآبادیت کا خاتمہ ہو رہا تھا یا پھر نوآبادیت کے خاتمے کی جدوجہد جاری تھی۔ اسلامی دنیا کے بیشتر حصوں میں سوشلسٹ اور قوم پرست حکومتیں بننے اور بکھرنے کے مراحل سے گزر رہی تھیں۔ جمال الدین افغانی کے نظریات سے ابھرتی ’اسلامک ریفارمزم‘ کا دائرہ اثر ایک طرف بڑھ رہا تھا تو مولانا مودودی اور سید قطب کا ’سیاسی اسلام‘ دوسری جانب مسلمان دنیا کو متاثر کر رہا تھا۔ مغرب کے مفکرین ’سیکولرائزیشن تھیسیس‘ کی نوک پلک سنوار کر دنیا سے مذہب کے خاتمے کا اعلان کر رہے تھے تو دوسری طرف ایران کے اسلامی انقلاب کی وجہ سے ’مذہب کا اثر‘ دوبارہ سے ظہور پذیر ہو رہا تھا۔ سرد جنگ کے خاتمے سے دنیا دورخی طاقت کے محور سے نکل کر امریکی استعماری نظام کے شکنجے میں پھنس چکی تھی۔
دوسری طرف فاطمی حکومت کے خاتمے کے بعد اسماعیلی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے۔ آئمہ روپوش تھے، جماعت اور اماموں کے بیچ رابطے کا کوئی موثر نظام نہیں تھا۔ جن ممالک میں اسماعیلی رہ رہے تھے وہ انتظامی و انصرامی لحاظ سے بدترین ممالک تھیں اور پھر اسماعیلی ان بدترین انتظامی ممالک کے انتہائی مضافات میں قیام پذیر تھے جہاں تعلیم، صحت، معیشت، اور اس طرح کے دیگر مواقعوں کا ملنا تو ایک طرف، ان کے بارے میں سوچنا بھی درکنار تھا۔
شاہ کریم الحسینی نے امامت سنبھالنے کے بعد جماعت کے ساتھ اپنے رابطوں کو منظم کیا۔ آپ نے جماعت کی از سرِ نو تعمیر کا بیڑہ اٹھایا۔ امام کے سامنے دنیا میں اسلامی دنیا کے اندر دو ماڈلز کار فرما تھیں۔ ایک ماڈل یہ کہ جددیت کی مخالفت کر کے اسے ترک کیا جائے، یا یہ کہ جدیدیت کو مکمل اپنایا جائے۔ اسکی ایک مثال ہندوستان کی تھی جہاں ایک طرف سرسید احمد خان اور دوسرے مسلمان رہنما مسلمانوں کو کھانے پینے، رہنے سہنے کے اطوار تک میں مغرب کی پیروی کرنے کی تاکید کرتے تھے اور دوسری طرف اکبر الہ ابادی قسم کے لوگ تھے جو مسلمانوں کو مغربی تعلیم حاصل کرنے اور ڈبل روٹی کھانے کا طعنہ دیتے پھرتے تھے۔ مگر امام نے ان دونوں ماڈلز کو باہم جوڑا۔ یہ ہیگل کے تھیسیس اور اینٹی تھیسس کے ملاپ سے بننے والا سنتھیسس جیسا تھا۔ امام نے نہ تو مکمل طور پر جدیدیت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی حمایت کی اور نہ ہی جدیدیت کو مکمل نظرانداز کیا۔ امام نے ہمیشہ اپنی جماعت کو اپنی ثقافت پہ فخر کرنے اور ’اسلامی آفاقی اصولوں‘ کے زیرِ اثر زندگی گزارنے کی تاکید کی، تو دوسری طرف آپ نے جدید تعلیم، جدید ٹیکنالوجی، جدید فنِ تعمیر کی حوصلہ افزائی اور انہیں اپنانے کی تلقین کی۔ امام کے ماڈل کی پیروی میں اس بات کا امکان تھا کہ کوئی بھی انسان اپنی ثقافتی بنیادوں کو مسمار کئے بغیر بھی جدید زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکتا ہے۔ یہ اس ماڈل سے مختلف تھی جس میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ جدیدیت اسلامی اخلاقیات کی بنیادوں کو مسمار کرے گی۔
امام نے مغرب اور مشرق کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرنے کی کوشش میں عمر کا بہترین حصہ صرف کیا۔ آپ نے مغرب کے بڑے بڑے پلیٹ فارمز پر اسلام کی حمایت کی اور اسلام کو ایک عقلی مذہب کے طور پر پیش کیا۔ آپ نے مسلمانوں کے خلاف مغربی پراپیگینڈے کا ہر محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ آپ نے اسلام کو شدت پسندی سے جوڑنے کی مخالفت کی۔ امام کے نزدیک اسلام کی عقلی توجیح ہو سکتی تھی اور انکے نزدیک عقل اور دین کا جو باہمی تعلق تھا، وہ اسلام اور بالخصوص شیعہ اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ہمیشہ عقلی دلائل کی روشنی میں تنازعات کے خاتمے کے لئے مذاکرات کی اہمیت پر ہمیشہ زور دیا۔ یہی وہ واحد وجہ بھی تھی کہ وہ ہمیشہ معجزات اور مافوق الفطرت اساطیری قصوں کی بجائے عقلی دلائل کی تبلیغ کرتے رہے۔
جہاں امام مغرب کے اندر اسلام کے ایک ’سافٹ امیج‘ کے پرزور داعی رہے، وہی پر آپ مغرب کی سائنسی اور فکری ترقی سے متاثر رہے اور مسلمانوں کو اور بالخصوص اسماعلیوں کو اس سائنسی اور فکری ورثے کو اپنانے کی تاکید فرماتے رہے۔ جماعت کے لئے اپنے فرامین میں انہوں نے ہمیشہ سائنس اور جدید تعلیم کے حصول کی حوصلہ افزائی کی۔ امام کا سائنسی فکر جنسی تفریق سے آزاد تھا کہ انہوں نے ہمیشہ خواتین اور بچیوں کے تعلیم، انکی معاشی و فکری خودمختاری کی حمایت کی۔
امام کے نزدیک تفکر، انصاف، امن، بقائے باہمی کے اسلام کے آفاقی اصولوں میں اور جدیدیت کے اصولوں میں کسی قسم کا کوئی ٹکراؤ نہیں تھا بلکہ یہ ایکدوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ سیموئل ہنٹنگٹن کی مشہورِ زمانہ ’تہذیبوں کے تصادم‘ کو جہاں ابتدائی طورپر ایڈورڈ سعید نے رد کیا، وہی پر امام نے بھی تہذیبوں کے درمیان تصادم کو خارج آز امکان قرار دیا۔ آپ نے سیاسی اور عالمی تصادم کی بنیادی وجوہات غربت، تعلیم کی کمی، اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کو قراردیا اور دنیا بھر میں تصادم کے خطرات کو روکنے کی خاطر ادارہ جاتی ماڈل کے ذریعے لوگوں کی معاشی، اقتصادی، فکری، علمی استعدادِ کار کو بڑھانے کی کوششیں کی۔ جہاں آپ نے ادارہ جاتی نظام کو مسلسل ترقی کا ایک ناگزیر عمل قرار دیا، وہی پر آپ نے اداروں کے اندر خامیوں کو بھی تسلیم کیا اور فرمایا کہ چونکہ ادارے بھی انسان چلاتے ہیں، ان میں خرابیاں موجود ہو سکتی ہیں، مگرعلمی اور وقتی نذرانے کی صورت میں اداروں کے استعدادِ کار میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
امام نے شعلہ بیانی، سطحی جذباتیت، عوامی نعروں اور معجزات کی بنیاد پر اپنی شناخت کی پہچان کروانے سے اجتناب کیا۔ آپ نے دھیمے پن، لفظوں کی حرمت، اور تفکر کی لاج رکھی۔ دنیا بھر سے، مغرب سے لیکر مشرق تک، اور تمام اسلامی ممالک اور شخصیات کی طرف سے امام کو خراجِ تحسین اس بات کا اعتراف ہے کہ امام نے واقعی میں مسلمان دنیا اور مغرب کے درمیان، اور مسلمانوں کے درمیان تاریخی تنازعات کے حل میں ایک پل کا کردار ادا کیا۔ فاطمی آئمہ کے بعد انچاسویں امام ہی وہ امام تھے جنہوں نے اسماعیلیوں کو ایک عالمی پہچان دی، اور اسماعیلیوں اور امام کے درمیان رابطے کو اور اسماعیلیوں اور دنیا کے درمیان رابطے کو مستحکم کیا۔ امام کی رحلت حقیقتاََ ایک بڑے دماغ، ایک ہمہ گیر فکر، ایک مسلسل جستجو، اور ترقی کے داعی کی رحلت ہے۔
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجئے
خواجہ آتش
لکھاری مصطفی کمال سویڈن کے لینیئس یونیورسٹی میں ڈیجیٹل ہیومینیٹیز اور اسلامک اسٹیڈیز میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں