ہر نیا جھوٹ ایک نیا توفہ – پیامبر : قادر خان یوسف زئی
ہر نیا جھوٹ ایک نیا توفہ – پیامبر : قادر خان یوسف زئی
مخصوص جماعت کی موجودہ سیاست اور سوشل میڈیا مہم میں فیک ویڈیوز اور تصاویر کا استعمال ایک نہایت مہارت سے تیار کی جانے والی حکمت عملی بن چکا ہے، جس کا مقصد نہ صرف عوام کو گمراہ کرنا ہے، بلکہ انہیں اتنا ذہنی اذیت میں مبتلا کر دینا ہے کہ وہ حقیقت اور جھوٹ کے فرق کو بھول جائیں۔ سوشل میڈیا پر ایک فیک ویڈیو یا تصویر کا پھیلنا بالکل ایسے ہی ہوتا ہے جیسے کسی طوفان کا آغاز ہو، اور پھر وہ فوراً ہی عام عوام کے ذہنوں میں ایک حقیقت بن جاتی ہے، چاہے وہ حقیقت سے کتنی بھی دور ہو۔
مخصوص جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم نے اس ”فن“ کو اتنا سلیقے سے اپنایا ہے کہ آپ کو لگے گا جیسے ان کے پاس کسی سٹارٹ اپ کا بہترین ’پروپیگنڈا پلان‘ ہے۔ ان کی فیک ویڈیوز اتنی معصوم نظر آتی ہیں کہ کوئی بھی شخص، جو زندگی میں کبھی بھی ڈیجیٹل لٹریسی سے روشناس نہیں ہوا، وہ انھیں سچ سمجھنے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک مخصوص سیاستدان کی تصویر کو ایڈٹ کر کے اس کے منہ سے ایسی باتیں نکلوائی جاتی ہیں جو اس نے کبھی کہیں نہیں کیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ کیا یہ سوشل میڈیا پر پھیلانے والے افراد اتنے ”سریے“ ہیں کہ انہوں نے سیاستدان کے منہ کو ایک مخصوص ”دیشی طریقے“ سے جوڑا، یا پھر یہ فیک ویڈیوز کی جدید ”ہنر مندی“ کا حصہ ہیں؟
جب یہ فیک ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر ایک مخصوص جماعت کے ”محنتی کارکنوں“ کے ذریعے ری شیئر کی جاتی ہیں، تو ان کا مقصد واضح ہوتا ہے: عوام کو گمراہ کرنا، نفرت پھیلانا اور مخالفین کے چہرے پر ایسے ”مہارت سے“ تھپڑ مارنا کہ وہ فوراً ”غصے کی حالت“ میں آ جائیں۔ یہ ”ویڈیوز“ پھر اتنی تیزی سے پھیلتی ہیں کہ جیسے انٹرنیٹ پر کوئی ”حرکت“ نہ ہو، بس ایک ”کلک“ کی دیر ہے، سوشل میڈیا پر ”من گھڑت“ خبروں اور افواہوں کی یہ باقاعدہ فیکٹریاں کچھ اس طرح کام کرتی ہیں کہ جیسے جھوٹ بولنا ایک ”نیا کام“ بن چکا ہو۔ ان ویڈیوز کو اتنی مہارت سے بنایا جاتا ہے کہ آپ کو یہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ایسا کچھ کبھی نہیں ہوا۔ کسی ”سپیشل ایڈیٹر“ کی زیر نگرانی، ان ”خبروں“ کو اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ ان میں ہر جھوٹ کو ایسے ”حقیقت کا رنگ“ دے دیا جاتا ہے کہ وہ فوراً عوام کے ذہنوں میں ایک ”حقیقی منظر“ بن جاتا ہے۔
اب تو یہ حال ہو چکا ہے کہ اگر کوئی سیاستدان ”چپ“ ہو جائے یا اس کی جسمانی موجودگی کہیں نہ ہو، تو اس کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ ”ایک نیا آلہ“ بن جاتا ہے، جہاں اس کی ”عدم موجودگی“ کو نہ صرف اجاگر کیا جاتا ہے، بلکہ اس کی ”آن لائن غیبت“ کو ”سیاسی حکمت عملی“ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ”بیانات“ جو ان ”غیاب“ میں پوسٹ کیے جاتے ہیں، کیا یہ حقیقتاً ان کے اپنے خیالات ہیں یا پھر کسی ”ایجنڈے“ کا حصہ ہیں؟ ان اکاؤنٹس کو بیرون ملک سے منظم کرنے کی مہارت کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ فیک ویڈیوز بنانے والے بھی کسی ”بین الاقوامی چیمپئن شپ“ میں حصہ لے رہے ہیں!
ان فیک ویڈیوز اور تصاویر کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ جب یہ پھیلتی ہیں تو انہیں ”سچائی“ کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے، اور جب تک ان کی حقیقت سامنے آتی ہے، تب تک یہ اتنی ”گہرائی“ تک جا پہنچتی ہیں کہ عوام اس کے اثرات سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کا دماغ چکرا جاتا ہے۔ تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس سوشل میڈیا ”دہشت گردی“ کا خاتمہ کب ہوگا؟ جب تک فیک ویڈیوز کا ”سیلاب“ چلتا رہے گا، تب تک سیاست میں عوام کو گمراہ کرنے کا یہ ”نیا کھیل“ کامیاب ہوتا رہے گا۔
مخالف جماعتوں کی مخصوص جماعت کے خلاف بے بسی کا منظر ہر گزرتے دن کے ساتھ اور بھی دلچسپ ہے۔ جب وہ سچائی کے پیچھے دوڑنے کی بجائے، صرف اپنے دفاع میں ہی ہلکان ہو رہے ہیں۔ جب تک وہ جھوٹ کی اس آگ کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ آگ مزید تیزی سے پھیل کر ان کے ”انصاف“ اور ”سچ“ کو دبوچ لیتی ہے۔ سوشل میڈیا پر مخصوص جماعت کے شاطر کھلاڑی ”فیک“ ویڈیوز اور تصاویر کی جھرمٹ میں حقیقت کو اس طرح چھپاتے ہیں کہ مخالف جماعت کی آواز گم ہو کر رہ جاتی ہے۔ ان کی ہر کوشش، ہر دلیل، ہر سچ کو ایک بار پھر اس جھوٹ کے سمندر میں غرق کر دیا جاتا ہے، اور وہ ایک ”سچ کے ملاح“ بن کر اس سیلاب میں اپنی کشتی بچانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ہر بار یہ کوششیں ایک نیا دھچکا ہی ثابت ہوتی ہیں۔
مخالف جماعت کی سچائی کی جتنی بھی دفاعی کوششیں کی جاتی ہیں، وہ سوشل میڈیا کی بے رحم ”موجوں“ میں اتنی بے بس اور بے اثر ہو جاتی ہیں کہ ان کے دلوں میں ایک مسلسل غم کی لہر اٹھتی ہے۔ یہ لہر اس وقت مزید شدید ہو جاتی ہے جب وہ سچ کے ساتھ ساتھ عوامی ردعمل کی کمیابی کو بھی محسوس کرتے ہیں۔ ہر نیا جھوٹ ایک نیا ”توفہ“ بن کر ان کے سامنے آتا ہے، اور وہ مسلسل اس ”کمنگ ٹرین“ سے ٹکراتے ہیں جو ان کے مواقف اور موقف کی حقیقت کو تو چپ چاپ نگل جاتی ہے، مگر ان کے جذبے کو زخمی کر دیتی ہے۔
مخالف جماعت کے رہنما جب سوشل میڈیا پر اپنی طرف سے ”حقائق“ پیش کرتے ہیں، تو انہیں لگتا ہے جیسے وہ ایک ”ہاتھوں میں مٹی“ بھرے ہوئے ”خالی ظرف“ میں سچائی ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن حقیقت میں وہ ایک ”جھوٹ کے طوفان“ کے سامنے کھڑے ہیں، جہاں سچ کا سراب ان کی نظر سے اوجھل ہو چکا ہے۔ اس ”جھوٹ کے سورج“ کی کرنوں میں ان کی سچائی بھی دھندلا چکی ہے اور وہ دن بہ دن اس مایوسی میں ڈوبتے جا رہے ہیں کہ آیا کوئی روشنی ان کی ”آہنی“ ارادوں میں ان کا ساتھ دے گی؟