
ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخوا، سرکاری جامعات کے وی سیز اور ایچ ای سی کی سرکاری کالجز کے مسائل پر مشترکہ کانفرنس
ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخوا، سرکاری جامعات کے وی سیز اور ایچ ای سی کی سرکاری کالجز کے مسائل پر مشترکہ کانفرنس
پشاور ( چترال ٹائمزرپورٹ ) ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخوا نے سرکاری کالجز میں جاری بی ایس اور اے ڈی پروگرام کے مسائل کے حل کے لیے خیبر پختونخوا کی سرکاری جامعات کے وی سی اور ایچ ای سی کے نمائندوں کی مشترکہ ایک روزہ کانفرنس پشاور میں منعقد ہوئی ۔خیبر پختونخوا کے وزیر برائے اعلیٰ تعلیم میناخان آفریدی نے اس موقع پر اپنی گفتگو میں کہا کہ سرکاری جامعات میں رینکنگ نظام متعارف کرنے کے بعد سرکاری کالجوں میں رینکنگ نظام کے دائرہ کار کو بڑھائیں گے تاکہ پتہ چلے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی کارکردگی کیا ہے کون سا ادارہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے اور کونسا نہیں کرتا۔اس کے بعد اداروں میں اصلاح اور سزاوجزا کا عمل شروع کریں گے جو ہماری موجودہ صوبائی حکومت کا نعرہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیوں میں ایسا نظام ہونا چاہیے جہاں پر سٹوڈنٹس کو معیاری ریسرچ کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر ہوں۔ جامعات اچھے گریجویٹس پیدا کرے۔ ان گریجویٹس کو آگے لے آنا چاہیے۔ ہمیں ایکسیلنس اور شفافیت کی طرف جانا ہوگا۔ کسی بھی ادارے کی ترقی میں ایک لیڈر بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اگر لیڈر اپنے ادارے کے ساتھ مخلص ہو اور وہ ادارے کیلیے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتا ہے تو وہ ادارہ ترقی کی دوڑ میں بہت آگے جاسکتا ہے۔ جامعات کے لیڈرز ان کے وائس چانسلرز ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ معیاری تعلیم کو عام کرنے اور اس کے فروغ کیلیے میں بھرپور تعاون جاری رکھوں گا۔ صوبائی وزیر نے ان خیالات کا اظہار سرکاری جامعات اور کالجز میں امتحانات اور نتائج میں تاخیر سمیت دیگر مسائل اور ان مسائل کے حل کے حوالے سے پشاور میں منعقدہ ایک روزہ کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ محکمہ اعلیٰ تعلیم خیبر پختونخوا اور کوالٹی ایشورنس سیل کے اشتراک سے منعقدہ کانفرنس میں سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن کیپٹن(ر) کامران احمد آفریدی، سپیشل سیکرٹری غلام سعید، صوبے کی مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز، محکمہ اعلیٰ تعلیم، ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد، ڈائریکٹوریٹ آف ہائیر ایجوکیشن کالجز کے نمائندوں سمیت سٹیک ہولڈرز نے شرکت کی۔ کانفرنس میں شرکاء نے کالجز اور یونیورسٹیوں کے الحاق کا طریقہ کار، امتحانات،نتائج میں تاخیر، اے ڈی پروگرام، سکالر شپس اور دوسرے اہم مسائل پر سیر حاصل بحث کی۔ جب کہ مسائل کے پائیدار حل کیلیے مختلف تجاویز پر بھی غور کیا گیا۔ جن مسائل پر مشاورت نہ ہوسکی ان کیلیے چار کمیٹیاں (الحاق کی پالیسی کے لیے کمیٹی، امتحانات کے لیے کمیٹی، اے ڈی پروگرام کے لیے کمیٹی اور ایچ سی سی کے ساتھ منسلک مسائل کے لیے کمیٹی) تشکیل دیدی گئیں جو مسائل کے حل کیلیے اپنی سفارشات تیار کرکے صوبائی وزیر برائے اعلیٰ تعلیم کو پیش کریگی اور ان سفارشات پر اگلے کانفرنس میں تفصیلی فیصلے ہوں گے۔
کانفرنس سے سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن نے اپنے خطاب میں کہا کہ نوجوان نسل کی شخصیت سازی اور اخلاق سازی پر توجہ دینا ہو گی ان کے لئے زیادہ سے زیادہ ہم نصابی اور تفریحی سرگرمیوں کو رواج دینا ہوگا۔صوبائی وزیر میناخان آفریدی کا کہنا تھا کہ اگر سٹوڈنٹس کے مسائل حل نہیں ہوتے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنے منصب کا حق ادا کر نہیں کررہے۔ ہم سب کو مسائل کے مستقل حل کیلیے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔انہوں نے کانفرنس کے انعقاد کو سراہا اور تاکید کی کہ اس طرح کی کانفرنسز تواتر کے ساتھ ہر تین ماہ بعد منعقد کی جائیں تاکہ پچھلی کانفرنس میں کئے گئے فیصلوں پر عمل در آمد اور نفاذ کا جائزہ لیا جاسکے۔ کانفرنس کے اختتام پر صوبائی وزیر اور دوسرے مہمانان کو شیلڈز دی گئیں اور روایتی پگڑیاں پہنائی گئیں۔