“گھناو نا جرم” تحریر : اقبال حیات اف برغذی
گھناو نا جرم – تحریر : اقبال حیات اف برغذی
ہم سرزمین چترلا کے مکین عموماً مزاج کے اعتبار سے نرم اور خوش طبع ہوتے ہیں ۔ دنیاوی معاملات میں ایک دوسرے کو جانی نقصان پہنچانے کی نوعیت کے حامل واردات ہماری معاشرتی زندگی میں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔گولیوں کی آواز سے ناآشنا نرم دلی ور غمخواری کی فضا میں پروان چڑھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس کرتے ہوئے انہیں بانٹنے کی کوشش میں بخل نہیں کرتے۔ اور ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہوئے کم ازکم اُف تک کہنے کی سکت ہمارے اندر موجود ہے۔ ماضی کے مقابلے میں اگرچہ ہمارا مثالی معاشرہ اس وقت مادہ پرستی کی زد میں آنے سے سرد مہری کا شکار ہورہا ہے پھر بھی ایک دوسرے کے لئے سہارے کی رسی موجود ہے۔اور اس قسم کے اوصاف سے معطرمعاشرتی زندگی کی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کو سب سے بڑی خدائی نعمت سے تعبیر کیا جائے تو بےجانہ ہوگا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انسانی معاشرہ کسی نہ کسی قسم کی کوتاہی سے خالی نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ بشری معاشرے کی بنیاد تقاضوں کے تصادم کی وجہ سے معاملات کے سلسلے میں کوئی نہ کوئی ناپسندیدہ فعل کا ارتکا ب ہونا بعید ازامکان نہیں۔ اس تناظر میں بدقسمتی سے ہماری معاشرتی زندگی میں کسی دنیاوی امور میں ہمارا ایک دوسرے سے جب تنازعہ پیدا ہوتا ہے تو ہم اس کدورت کو دل کے نہان خانے میں سجا کر رکھ دیتے ہیں۔اور ایک دوسرے سے ناطہ توڑ لیتے ہیں۔ اور اس فعل کا ارتکاب اپنی نوعیت کے اعتبار سے اسلامی نقطہ نظر میں انتہائی قبیح جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس جرم کی پاداش میں سزا کی نوعیت سے متعلق ایک واقعہ زیر نظر آرہا ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے قابل ذکر اور قابل فکر ہے۔
اصفہان کے علاقے سے ایک شخص ہجرت کرکے مکہ مکرمہ میں سکونت اختیار کرتے ہیں اور اپنی امانت داری اور دینداری کی بنیاد پر بہت جلد نام پیدا کرتے ہیں۔ اور مکہ مکرمہ کے لوگ اپنی امانتین اس کے پاس رکھتے ہیں ۔ایک شخص کثیر مالیت کا حامل سرمایہ اس کی تفویض میں دے کر خود لمبے سفر پر جاتے ہیں۔اور ان کی واپسی سے قبل امانتدار انسان فوت ہوتے ہیں۔ سرمائے کا مالک واپسی پر اپنے سرمائے سے متعلق ان کے ورثاء سے دریافت کرنے پر وہ لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں اور یوں اس شخص کو تحریری مواد اور گواہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت بڑے خسارے سے دوچار ہونے کا خطرہ ہوا ہے۔ مکہ مکرمہ کے فقہاسے اس سلسلے میں معاونت کے تقاضے پر مرحوم کے کردار کی بنیاد پر ان کی روح علیئن میں ہونے کی امید پر انہیں تہجد کی نماز کی ادائیگی کے بعد آب زمزم کے کنویں میں جاکر ان کا نام لے کر پکارنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اور متاثرہ شخص کے اس عمل کا کوئی ردعمل نہیں ہوتا۔ جس کا تذکرہ دوبارہ فقہا کے سامنے کرنےپر ” انا للہ وانا الیہ راجعون” کہ کر اس عمل کو لبنان میں “برھوت” نام کے جہنم سے منسوب کنویں میں جاکر کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
وہ شخص سرمائے کی کثرت کی وجہ سے طویل سفر طے کرکے مذکورہ مقام پر پہنچتے ہیں اور تجویز شدہ عمل کو اپنانے پر پہلی ہی آواز میں اس کی کنویں میں موجودگی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس شخص کی ظاہری دنیاوی کردار کے حوالے سے اس کے انجام بد کے محرکات دریافت کرنے پر مرحوم چیخ کر روتے ہوئے کہتے ہیں کہ اصفہان سے مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کے وقت اپنے قریبی رشتہ داروں سے دنیاوی امور پر تنازعہ کی وجہ سے تعلقات توڑ دئیے تھے۔ اور انہیں دوبارہ بحال کرنےکا موقع نہ ملا تھا۔ یوں مرنے کے بعد تعلقات بگاڑکر آنے والے کا ٹھکانہ قرار دے کر مجھے اس سجین میں رکھا گیا۔ اپ اپنے سرمائے کے سلسلے میں آئے ہوئے ہونگے۔ کسی پر اعتبار نہ ہونے کی وجہ سے آپ کے سرمائے کو اپنے گھر کے اندر مخصوص جگہ میں دفنا دی ہے۔وہ شخص واپس آکر ان کی نشان دہی کی بنیاد پر دفنایا ہوا اپنا سرمایہ نکال لیتا ہے۔