Chitral Times

شندور کے مقام پر دو افراد کو قتل کرکے گاڑی لیکر فرار ہونے والے ملزمان بائیس سال بعد گلگت میں گرفتار

Posted on

 شندور کے مقام پر دو افراد کو قتل کرکے گاڑی لیکر فرار ہونے والے ملزمان بائیس سال بعد گلگت میں گرفتار

گلگت ( چترال ٹائمزرپورٹ ) گزشتہ دن سی ٹی ڈی آپریشنل ٹیم گلگت نے sip عارف جان کی سربراہی میں مقدمہ علت نمبر48/02 بجرائم 302 ت پ 17 حرا بہ تھانہ مستوج چترال خیبرپختونخوا کو مطلوب اشتہاری ملزمان شاہ زیب ولد منصور خان اور علیم اللہ ولد شیریں خان ساکنان سكوار ضلع گلگت کو سکوار میں ایک سرچ آپریشن کے دوران گرفتار کر کے سی ٹی ڈی تھانہ منتقل کیا ہے ۔

یاد رہے مجرمان مذکوران نے سال 2002 کو اپنے شریک مجرمان کے ہمراہ چترال سے ایک شخص کی گاڑی بنيت ڈکیتی بک کر کے گلگت لاتے ہوےراستے میں شندور کے مقام پر دو افراد گاڑی ڈرائیور عصمت خداولد خوش خدا اور شاگرد سکندر شاہ ولد فقیر محمد ساکنان چیوڈوک چترال
کو بے دردی سے قتل کر کے لینڈکروزر گاڑ ی کو لے کر فرار ہوے تھے ۔ بعد میں گاڑی کو گلگت سے برآمد کیا گیا تھا،جبکہ مجرمان کو سیشن عدالت چترال سے سزا بھی ہوئی ہے۔

پریس ریلیز کےمطابق مجرمان اشتہاری کی گرفتاری کیلئے 22 سال کمے دوران چترال پولیس کی ٹیم 2/3 بار گلگت آی ہوئی تھی جو کہ ناکام ہوئی ۔۔مجرمان اشتہاری کو گرفتار کرنے کے لئے IG گلگت بلتستان نے AIG CTD گلگت کو خصوصی ٹاسک دیا تھا۔

 

ٹیکسی ڈرائیور کے بیوہ کی مجرمان کی گرفتاری بارے پریس کانفرنس 

https://chitraltimes.com/2021/10/14/53583/

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
87615

فلک نور کیس: اب بھی راستہ ہے – خاطرات:امیرجان حقانی

Posted on

فلک نور کیس: اب بھی راستہ ہے – خاطرات:امیرجان حقانی

فلک نور اور فرید کا کیس عدالت کے ذریعے منطقی انجام کو پہنچ گیا. اللہ نہ کرے کسی کی بہن بیٹی کے ساتھ یہ معاملہ ہو، ایسی کسی سیچوئیشن کی  نوبت ہی نہ آجائے. اولاد بالخصوص بچیوں کی ترتیب و نگرانی کا کڑا خیال رکھا جانا چاہیے. عورت ذات بہر حال جلدی جھانسے میں آجاتی ہے. اور اگر وہ کم عمر بھی ہو تو جلدی ٹریپ میں آجاتی ہے.

 

falak noor gilgit baltistan

 

اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر کیا کیا جائے. یعنی لڑکی اپنی مرضی سے کسی کیساتھ جاکر نکاح کرتی ہے  تو

پہلی صورت:

پہلی صورت میں لڑکا لڑکی کے والدین اور سرپرست کوشش کریں کہ کیس کو اچھالنے کی بجائے باہمی افہام و تفہیم سے، لڑکا لڑکی کی خواہش کا احترام کرکے، شریعت کے احکام کے مطابق ان کو زندگی گزارنے دیں. اس حد سے گزرنے کے بعد مزید روڑے اٹکانے سے گریز بہتر ہے.

دوسری صورت:

دوسری صورت جرگہ کے ذریعے معاملات نمٹا دیے جائیں. یہ بھی ہمارے ہاں روایتی طریقہ کار ہے. تمام مکاتب فکر کے ہاں جرگہ کے ذریعے معاملات نمٹانے کی شکلیں موجود ہیں. ہمارے جی بی میں اسکی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں.

تسیری صورت:

تیسری صورت نظم، قانون اور عدالت کا راستہ اختیار کیا جائے. سسٹم سے مدد لی جائے. یہ والا راستہ مشکل، مہنگا اور جان جوکھوں والا ہے. ہمارا انتظامی اور عدالتی سسٹم کوئی مثالی نہیں، نہ اس سے خیر کی توقع کی جاسکتی ہے. بہر حال ایک راستہ ہے.

چوتھی صورت:

چوتھی صورت عموماً دشمنی، قتل اور اسی شکل میں بدلہ کی ہوتی ہے. بہر حال اس آخری صورت کی نہ شرع اجازت دیتی ہے نہ ملکی سسٹم. اور نہ ہی اس میں خیر ہے. اس سے گریز بہتر ہے.

یہاں تک فلک نور اور فرید کا معاملہ ہے. کسی بھی سنجیدہ فکر انسان نے اس کی حمایت نہیں کی اور نہ ہی کرنے کی گنجائش موجود ہے. اللہ کسی باپ بھائی کو یہ دن نہ دکھلائے.
اب قانون کے مطابق جو بھی فیصلہ ہوا ہے سب کو قبول کرنا چاہیے. مزید اس سماجی ناسور اور گندگی کو کریدنے کی ضرورت نہیں. جتنا کریدا جائے اتنا ہی بدبو نکلے گا اور کچھ نہیں.

تاہم اگر فلک نور اور اسکا شوہر فرید عالم اور اسکی  فیملی چاہیے تو اب بھی اس تباہی اور بدنامی کا ازالہ ہوسکتا ہے. یہ بدبو کسی حد تک ختم ہوسکتی ہے.
اگر فرید کے والدین اور پوری فیملی خواتین سمیت فلک نور کے والد کے گھر معافی تلافی کے لیے پہنچ جائیں. ان کے گھر، جرگہ بھیج دیں. غلطی کا احساس کریں اور معیاری طریقے سے ازالہ کی کوشش کریں، فلک نور اور فرید عالم بھی ان کے پاؤں پڑ کر معافی مانگ لیں اور اپنی غلطی اور جلدبازی پر  کھلے دل سے معافی مانگ لیں تو بعید نہیں کہ فلک نور کا باپ اور دیگر فیملی والے ان کو معاف نہ کریں. معافی کے لیے گھر پہنچنے پر کئی کئی خون معاف کیے جاتے ہیں. یہ ہمارے رسول اللہ کا طریقہ بھی ہے اور ہماری قدیم روایت بھی.

مجھے معلوم نہیں کہ یہ فرید کون اور کہاں سے ہے. جو بھی ہے اگر یہ فیملی سمیت اپنے سسر اور ساس کے پاس معافی مانگنے کے لیے پہنچ جائے تو فلک نور کا باپ اور فیملی معاف بھی کریں گے اور دل سے قبول بھی کریں گے. اس سے خیر بھی برآمد ہوگا.
ورنا والدین کو ہرا کر ایسے رشتے دیرپا ثابت نہیں ہوتے ہیں. فلک نور اپنے والدین سے جیت گئی. قانون نے ان کا راستہ صاف کیا. اب وہ دل بڑا کرکے ایک دفعہ معافی مانگنے کے لئے اپنے شوہر اور اسکی فیملی لے کر پہنچ جائے.
کاش!
ایسا ہوجائے. ورنا اس رشتے کا انجام برا ہوگا. اس کا احساس اب فلک نور، فرید اور اس کی فیملی کو کرنا چاہیے. زندگی صرف محبت کی شادی کرنا اور کورٹ سے جیت جانے کا نام نہیں. اور نہ ہی والدین کو ہرانا ہے. والدین سے جیت جانے کا انجام بہت برا ہوتا ہے. زندگی یہی ہے کہ اپنی محبت پانے کے بعد جیسے تیسے والدین کو راضی کرنا اور اللہ کو بھی راضی کرنا ہے. والدین اور اللہ کو راضی کرنے کا اب ایک ہی راستہ بچا ہے کہ رو دھو کر ان سے معافی مانگ لی جائے.

ایک بات نوٹ کرنے کی ہے. والدین جتنے بھی سخت ہوں یا جتنے بھی ناراض ہو مگر وہ دل سے ناراض نہیں ہوسکتے اور بہت جلدی معاف کرجاتے ہیں. یہ خدا کی فطرت ہے کہ والدین کے دل میں اولاد کی بے تحاشا محبت ہوتی ہے. بے شک اولاد کا دل کہیں اور ہوتا ہے مگر والدین کا دل ہمیشہ اولاد کے لیے دھڑکتا ہے.

فلک نور بے شک تم نے اپنی محبت کو پا لیا. تم نے فرید کے لیے وہ کچھ کیا جو ایک کم عمر لڑکی یا کوئی خاتون سوچ بھی نہیں سکتی. والدین کا گھر چھوڑنا مذاق نہیں، مگر تم نے کرلیا. بوڑھے باپ کے آنسو تمہارا دل پسیج نہیں سکے، سوشل میڈیا کے ایکٹیوسٹ بھی تمہارا کیس ہار گئے. عدالتوں نے بھی آپ کے جذبات کا احترام کیا. میڈیا نے بھی آپ کی مدد نہیں کی تو مخالفت بھی نہیں کی.

فلک نور تمہاری محبت جیت گئی ہمارا سماج ہار گیا. تمہاری محبت جیت گئی ہماری روایات ہار گئیں. جی ہاں تمہاری محبت جیت گئی والدین کا مان ٹوٹ گیا، بھائیوں کا بھرم بکھر گیا. وہ زندگی بھر خجالت کا یہ داغ لیے پھریں گے. اور کیا پتہ کل تمہارے بچوں کو کوئی طعنہ دے کہ ” تمہاری ماں تو بھاگ کر آئی تھی”. ان بچوں پر کیا گزرے گی..؟

مانتے ہیں تم نے اپنی محبت کے لیے یہ سب کچھ کیا ہوگا، محبت نام ہی قربانی اور ایثار کا ہے. پر تم یہ سب سیدھے طریقہ پر بھی تو کرسکتی تھی نا. تمہارے والدین تو اتنے ریجڈ نہیں ہونگے نا؟ انہیں تو پرنس کریم آغا خان نے بیٹیوں کو پاور فل بنانے کے درس دیا تھا وہ اس پر عمل پیرا بھی ہیں. تم ان سے بات کرلیتی، اپنے جذبات کنفیڈینس کیساتھ ان کے سامنے رکھ دیتی جیسے تم نے میڈیا اور کورٹ کے سامنے رکھا تو شاید کوئی با عزت راستہ نکل جاتا. لیکن تم نے وہ راستہ اپنا لیا جس سے والدین کی ناک کٹ گئی. تم والد /والدہ نہیں ہو نا اس لئے یہ درد محسوس کرنا فی الحال مشکل ہے. تمہارے ہاں تو بیٹیوں کی خوشی کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے.

چلیں!

تم جہاں بھی رہیو خوش رہیو، ہماری دعا ہے.

مگر ایک بات یاد رکھو!

تم سب کچھ جیت جانے کے بعد بھی تم ہار گئی ہو. تمہارا فرید ہارا ہے. اس کی فیملی ہاری ہے. عنداللہ بھی تم ہارے ہو اور عندالناس بھی تم ہارے ہو.
مگر ہاں تم جیت سکتے ہو. تم بوڑھے والدین سے بھی جیت سکتے. عنداللہ و عندالناس بھی جیت سکتے. اس کے لئے ایک دفعہ، جی ہاں صرف ایک دفعہ اپنی ضد، اکڑ، ہٹ دھڑمی اور  غلطی کا احساس کرکے معافی مانگنے کا راستہ نکال لو.

اے کاش! فلک نور، فرید اور اس کی فیملی اب یہ راستہ اختیار کریں.
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو.

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
87392

فلک نور کیس سے جڑی غلط فہمیاں – ممتاز گوہر

Posted on

فلک نور کیس سے جڑی غلط فہمیاں – ممتاز گوہر

falak noor gilgit baltistan

سب سے پہلے میں سلام پیش کرتا ہوں گلگت بلتستان کے چاروں مسالک کے ان تمام احباب کو جنھوں نے فلک نور کے کیس میں یہاں کے کچھ تنگ نظر لوگوں اور باقی دنیا کو بتا دیا کہ بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں. بچوں کے حقوق کی کسی بھی قسم کی خلاف ورزی ہو تو مسلک، ذات پات اور علاقائیت سے نکل کر آواز اٹھانا سب کی اولین ترجیح ہونی چاہئے.

 

گلگت بلتستان کے مسلکی طور پر زخم شدہ معاشرے میں فلک نور کیس جو کہ ایک اغواء و کم عمری میں شادی کی ایک قانونی اور بنیادی انسانی حقوق کی مضبوط کیس ہے. یہاں کے کچھ ناعاقبت اندیش اس کیس کو بھی کھینچ کر اسی زخموں سے چور مسلکی کھاتے میں ڈالنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں.

 

نادرا کے سرکاری دستاویزات کے مطابق فلک نور کی تاریخ پیدائش اٹھارہ جنوری 2012 ہے. اس حساب سے فلک نور کی عمر آج چھ اپریل 2024 کو بارہ سال دو مہینے اور انیس دن بن جاتے ہیں. اگر ہم کہیں کہ والد نے دو سال کم عمر لکھوالی ہے تو پھر بھی شادی کے لئے قانونی تقاضے پورے نہیں ہوتے. لڑکی کا قد اور جسامت سے اس کا عمر تعین نہیں کیا جا سکتا. چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ (سی ایم آر اے) 1929 کے تحت لڑکی کی شادی کے لیے کم از کم عمر کی حد 16 سال جبکہ لڑکے کی اٹھارہ سال مقرر ہے.

 

اب جو لوگ اس کم عمری کی شادی کے حق میں آواز اٹھا رہے ان سے سوال ہے کیا آپ اپنی بہن یا بیٹی کا اس عمر میں شادی کرائیں گے؟ وہ بھاگ جائے اسے قبول کرنا تو دور کی بات، اگر وہ اس عمر میں کسی کو پسند کرے اور شادی کی اجازت مانگے تو آپ شادی کرا دیں گے؟ اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو مانیں یا نہ مانیں فلک نور کیس میں آپ لوگ کھل کر منافقت کر رہے ہو.

 

معصوم بچیوں کو بہلا پھسلا کر کم عمری میں بھگایا جائے یا کم عمری میں شادی کی جائے یہ کسی بھی مذہب یا مسلک میں پسندیدہ عمل نہیں ہے. بہتر ہے کہ ایک خاندانی نظام کے تحت خوبصورت علاقائی و قانونی تقاضوں کے مطابق یہ رسم ادا کی جائے. بچوں کی تربیت (پیرنٹنگ) کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے اور اس فیلڈ میں بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے.

 

گگت بلتستان میں مختلف مسالک کے لوگوں کی آپس میں شادیاں ہوتی رہی ہیں. فلک نور کا کیس پہلا ہے نہ ہی آخری. ایک ذمہ دار ذرائع کے مطابق گلگت بلتستان میں ڈیڑھ ماہ میں اٹھارہ سال سے زائد عمر کی پانچ لڑکیوں نے بھاگ کر شادیاں کی ہیں. ان میں سے چار نے دیگر مسالک میں شادیاں کی ہیں. کسی نے اس پر کوئی آواز نہیں اٹھائی. کیوں کہ ملکی اور عالمی قوانین کے مطابق وہ ایسا کر سکتی ہے۔ وہ اپنے فیصلوں پر آزاد ہیں۔

 

فلک نور کے حق میں آواز اٹھانے والوں کو مسلک کے ساتھ جوڑنے والو اگر ایسا ہی ہوتا تو ایسے تمام واقعات میں فلک نور کی طرح آواز اٹھایا جاتا. لیکن ایسا نہیں ہے. بچوں کے حقوق کا عالمی معاہدہ (یو این سی آر سی) ہو یا ملکی قوانین کم عمری کی شادی غیر قانونی ہے. اور غیر قانونی اقدام کو مسلک کے کھاتے میں ڈال کر اسے جائز بنانے اور اس کے حق میں آواز اٹھانا بھی تعصب اور مسلکی انتہا پسندی ہے.

 

لڑکی بھاگ جائے، پسندی کی شادی کرے یا اغوا ہو جائے، ہر بار لڑکی کے کریکٹر اور اس کے خاندان پر ہی سوال اٹھائے جاتے ہیں. لیکن جو لڑکا یہ حرکت کرتا ہے وہ کریکٹر میں دودھ کا دھلا اور اس کے خاندان والے پارسا اور “کنفرم جنّتی” ڈکلیرڈ ہوئے ہیں. جتنی بات لڑکی اور اس کے والدین اور خاندان پر ہوتی ہے. اسی طرح سے بات لڑکے کی تربیت، والدین اور خاندان پر بھی ہونی چاہئے.

 

مجھے گلگت بلتستان کی گجر کمیونٹی سے خاص طورپر ہمددری ہے یہ ابتداء سے اب تک غربت اور مشکل حالات سے نبرد آزما ہیں. اگر اس کیس میں مبینہ طور پر کم عمری میں شادی کرنے والے فرید اگر اٹھارہ سال سے کم عمر ہے تو بچہ ہونے کے ناطے اس کا تحفظ اور سیکورٹی بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی فلک نور کی. اگر دستاویزات سے ثابت ہو کہ فرید اٹھارہ سال سے کم عمر ہے تو عالمی اور ملکی قوانین کے تحت دونوں بچے ہیں. ایسے میں فرید کی شادی ممکن ہے نہ ہی فلک نور کی.

 

فلک نور کے کیس میں سب سے بہترین کردار اس کے والد سخی احمد جان نے ادا کیا ہے. وہ اس وقت صرف اپنی بچی کا کیس نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے پانچ لاکھ کے قریب بچوں کا کیس لڑھ رہے ہیں. اگر سخی احمد جان یہ کیس جیت جاتے ہیں اور کم عمری کی شادی رکوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ صرف سخی احمد جان کی جیت نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے لاکھوں کم عمر بچوں کی جیت ہے.

 

سخی احمد جان جیسے لوگ گلگت بلتستان میں ہزاروں ہوں گے جو اس طرح کے واقعات میں اپنی کم عمر بچیوں کے کھیلنے کودنے اور پڑھنے کی عمر میں غیر قانونی طور پر شادیاں کر وا دی ہوں. یا ایسے واقعات میں قانون کا سہارا لینے کے بجائے مکمل خاموشی اختیار کی ہو. سلام ہو سخی احمد جان کو جو ایک مزدور اور کم پڑھا لکھا ہونے کے باوجود اپنی بیٹی کے لئے ہر قانونی اقدام اٹھانے کے لئے جدوجہد کر رہا ہے. سخی احمد جان دعا زہرہ کے والد کی طرح ایک ہیرو ہے. امید ہے وہ اس قانونی جنگ میں پیچھے نہیں ہٹے گا اور سرخرو ہوگا.

 

کچھ لوگ سوال اٹھا رہے تھے کہ فلک نور کے کیس میں اتنا شور اور واویلا کیوں مچایا جا رہا ہے جبکہ ایسے واقعات آئے روز ہوتے ہیں. اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ جو بھی باپ یا ماں اپنے بچوں سے ہونے والی زیادتی کے خلاف سخی احمد جان کی طرح اٹھ کھڑا ہوگا اس کا حسب استطاعت ساتھ دیا جائے گا. جو ایسے واقعات کے بعد دیت کے پیسے لیں، کورٹ کے باہر معاملات کو نمٹا لیں تو ایسے لوگوں کا سول سوسائٹی اور دیگر سٹیک ہولڈر کیسے ساتھ دیں گے.

 

فلک نور کے کیس کو سامنے رکھتے ہوئے گلگت بلتستان اسمبلی میں بھی کم عمری کی شادی روکنے کے حوالے سے سخت قانون سازی کرنی ہوگی. عوام کو کم عمری کی شادی کے نقصانات کے حوالے سے آگہی دینی ہوگی اور باقی زیادہ تر اسلامی ممالک کی طرح شادی کی عمر کو لڑکا اور لڑکی دونوں کے لئے کم از کم اٹھارہ سال مقرر کرنا ہوگا. گلگت بلتستان کے اکثر اضلاع میں کم عمری کی غیر قانونی شادی کو کھلے عام انجام دیا جاتا ہے. اس کے لئے متعلقہ اداروں کو متحرک اور قانون کی عمل داری کو یقینی بنانا ہوگا.

 

اس کیس میں گلگت بلتستان پولیس نے جس طرح کی بے حسی اور غیر پیشہ وارانہ کردار ادا کیا ہے وہ انتہائی مایوس کن ہے. تیرہ سال کی بچی کو ڈھائی ماہ تک ڈھونڈ نہ سکے. گلگت بلتستان کے حددود سے نکل کر ہزارہ جاتے ہیں وہاں آرام سے رہتے ہیں واپس خود ہی اسی راستے گلگت آ جاتے ہیں اور خود ہی عدالت پیشی کے لئے آ جاتے ہیں. اور پولیس کہتی کہ ہم نے ڈھونڈ لیا. اتنا عرصہ آپ نے کیا کیا. آپ کی ٹیمیں ناکام کیوں ہوئیں؟ راستے کی چیک پوسٹوں میں سہولت کار یا پولیس اہلکار تھے؟ یقیناً اسی سے جڑھے کئی سوال جواب طلب ہے. مگر گلگت بلتستان پولیس کے پاسس ناکامی اور سہولت کاری کے سوا کچھ نہیں. ساتھ ساتھ وزیر داخلہ، ترجمان اور دیگر حکومتی ذمہ دار بھی سہولت کاری کی یہ ذمہ داری بطریق احسن انجام دے رہے ہیں.

 

فلک نور کیس میں ہر مسلک اور ہر مذہب کا بندہ ایک ہی پیج پر ہے. جن کی صبح اور شام ہی مسلکی چورن کی خرید و فورخت سے ہو وہ تو ہر چیز کو اسی عینک سے ہی دیکھیں گے. یا پھر وہ لوگ مخالف ہیں جو اس کیس کے قانونی پہلوؤں سے لا علم ہیں. مجھے یاد ہے گلگت سکار کوئی کی معصوم زینب زیادتی کیس کے لئے بھی ایسے ہی آواز اٹھایا گیا تھا مگر اس کیس کو بھی انصاف فراہمی کے بجائے مسلکی کارندوں نے دبا دیا. لہذا یہ ایسے کیسز میں یہ مسلک مسلک کا کھیل زیادہ دیر نہیں چل سکتا. حق سچ، جھوٹ تعصب سب کھل کے سامنے آجاتے ہیں.

 

اگر کوئی اٹھارہ سال سے زائد عمر کی بچی کو پسند کی شادی پر غیرت کے نام پر قتل کرتا ہے اور فلک نور کے کیس میں مبینہ طور بھاگنے اور کم عمری میں شادی کی حمایت کرتا ہے تو وہ سب سے بڑا منافق ہے. قانون

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
87215

فلک نور ایشو : کیس اسٹڈی کی ضرورت – خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on

فلک نور ایشو : کیس اسٹڈی کی ضرورت – خاطرات :امیرجان حقانی

 

فلک نور نے کم عمری میں والدین اور فیملی کی اجازت کے بغیر، اپنی مرضی سے جاکر شادی کی. اور بار بار ویڈیو پیغامات اور عدالت کے سامنے بیان ریکارڈ کروایا. سب کچھ پرنٹ، ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا میں وائرل ہوچکا ہے. ایسا کرنا گلگت بلتستان کی سماجی و اخلاقی اور دینی روایات نہیں. ہمارا سماج کسی صورت اس کو پسند نہیں کرتا اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے. بہرحال یہ سب کچھ قابل مذمت و افسوس ہے. عدالت میں پیش ہونے کے بعد یہ کیس بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا.
یہ پہلا کیس بھی نہیں ہے. گھر، فیملی ، روایات اور علاقائی کلچر سے بغاوت کرکے شادی کرنے کے سینکڑوں رجسٹر کیسز ہیں. مخصوص علاقوں یا مذہب کیساتھ بھی اس کا تعلق نہیں ہے، تاہم کچھ علاقوں میں کیسز کی تعداد زیادہ ہے اور ان کا میڈیا انفلوئنز بھی زیادہ ہے. اس لیے ایسی کیسز ہائی لائٹ زیادہ ہوتی ہیں. کم عمری میں ایسا کرنے کی بھی درجنوں مثالیں موجود ہیں.

 

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اہم سماجی ایشو پر تحقیق کیا جائے.
کوئی مفکر، ریسرچر کوئی تحقیقی ادارہ یا یونیورسٹی اس کو بطور کیس اسٹڈی مطالعہ کے لئے چُنے اور کام شروع کرے. مذہبی تعلیمی ادارے اور این جی اوز بھی اس سمت میں تحقیق کرسکتی ہیں یا تحقیق میں ممد معاون بن سکتی ہیں.
ہمارے ہاں یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے سیاسی و مذہبی فسادات اور غیر ضروری امور میں پڑے ہوتے ہیں. اصل کرنے کے یہی کام ہیں جن سے درگذر کیا جاتا ہے. موجود فنڈ کو اللوں تللوں میں ضائع کیا جاتا ہے.

 

ریسرچر اور یونیورسٹیز کے لئے گلگت بلتستان جیسے روایتی سماج کی لڑکیوں کا بھاگ کر شادی کرنا، بالخصوص کم عمری میں ایسا کرنا بہت ہی اہم اور ہارٹ ٹاپک ہے.
اس اہم موضوع پر کیس اسٹڈی کا خاکہ تیار کرتے وقت درج ذیل اہم سوالات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے.

 

1.درست معلومات:
لڑکیوں کی اصل عمر اور ڈاکومنٹس کی عمر کیا ہے. تعلیمی سطح، خاندانی ماحول، اور معاشرتی حالات کیا اور کیسے ہیں.

2. بھاگ کر شادی کی وجوہات:
آخر وہ کونسی خاص وجوہات ہیں جن کی وجہ سےلڑکیاں بھاگ کر، بالخصوص کم عمری میں شادیاں کرنے پر مجبور ہوئی ہیں؟
کیا یہ والدین کی روش ہے؟
بہلانا پھسلانا ہے، نفسیاتی جذبات اور عشق و محبت کے چونچلے ہیں.
دھمکانا اور ڈرانا ہے.
سماجی رویوں سے بغاوت ہے.
لڑکیوں پر بے جا سختی یا بے جا آزادی ہے.
شوق یا فیشن ہے.
اپنے مذہب سے بغاوت ہے.
غربت یا کسمپرسی ہے.
شعور و تربیت کی کمی ہے.
جدید اور مخلوط تعلیم کا شاخسانہ ہے.

3. معاشرتی اثرات:

بھاگ کر شادی کے بعد معاشرتی اثرات کیا ہونگے؟ بالخصوص کم عمری میں بھاگ کر شادی سے مستقبل کے سماجی سٹرکچر پر کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے؟
فیملی پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟

4. قانونی مسائل و پیچیدگیاں :
بھاگ کر شادی اور کم عمری میں ایسا کرنے کی صورت میں قانونی مسائل کیا ہوں گے؟

5. صحت و تعلیم پر اثرات:
کم عمری میں شادی کرنے سے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر کیسا اثر ہوگا؟ اور صحت بالخصوص زچکی معاملات میں کیا برے اثرات مرتب ہونگے.

6. فوائد و نقصانات کا موازنہ:
بھاگ کر شادی کرنے اور بالخصوص کم عمری میں ایسا کرنے کے فوائد اور نقصانات کا تفصیلی موازنہ کیا جا سکتا ہے، مثلاً خاندانی تشہیر، قتل و غارت، مستقل دشمنیاں، اسی انداز میں بدلہ لے کر ایک اور ٹریجڈی کو جنم دینا، اخلاقی اصول، اور معاشی حالات وغیرہ

اس کیس اسٹڈی میں ان جیسے دیگر اہم سوالات کے جوابات شامل کیے جا سکتے ہیں تاکہ مختلف جہات کو مد نظر رکھ کر اس اہم موضوع پر غیر جانبدار ہوکر، مکمل تجزیہ و تحقیق کیا جا سکے۔ اور بہترین سفارشات مرتب کرکے سماج، اداروں بالخصوص میڈیا انفلوئنسرز اور سرکاری عمال کو بھی ایسے ایشوز پر تعصبات سے پاک ہوکر ہینڈل کرنے کا راستہ دکھایا جاسکتا ہے.

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
87198

گوہرآباد کا نرالا پن و انفرادیت – خاطرات :امیرجان حقانی گلگت

Posted on

گوہرآباد کا نرالا پن و انفرادیت – خاطرات :امیرجان حقانی گلگت

آج پڑی بنگلہ میں راقم کے گھر گوہرآباد گیس سے تعلق رکھنے والے پڑی بنگلہ تھانہ کے تھانیدار  میراجان صاحب اور پڑی کے کچھ علماء و احباب افطاری کے لیے مدعو تھے.
گھنٹہ بھر نشست رہی. مرکزی موضوع گوہرآباد اور اسکی سماجی صورت حال ہی رہا. اس میں دو رائے نہیں کہ گوہرآباد پورے جی بی میں چند خصوصیات میں سب پر بھاری اور سب پر فائز اور انفرادی پہچان رکھتا ہے.
سماجی رواداری، اخوت،ہم آہنگی اور درد و بُنت کے اعتبار سے اب بھی گوہرآباد واقعی مثالی پوزیشن میں ہے.
سیاسی ابتری، رنگارنگی، نیرنگی اور اتھل پھتل کے باجود گوہرآباد کا سماجی سٹرکچر اور انت بُنت واقعی آئیڈیل صورت حال میں ہے. بہت سی کمزوریاں دُر آئی ہیں مگر بہرحال صورت حال قابل اطمینان ہے.
مثلاً
گوہرآباد میں کرائم کا ریٹ زیرو ہے.اگر کوئی پولیس کیس ہو تو پولیس اطلاع بھیجتی کہ فلاں بندہ تھانہ آجائے اور وہ پہنچ جاتا ہے . چھاپے مارنے کی ضرورت نہیں پڑتی.
شرح خواندگی بہت بہتر ہے.
اعلی آفیسران کی بہتات ہے.
چوری چکاری نہ ہونے کے برابر ہے.
بدیسی لوگ کوئی نہیں.
باہر کے لوگوں کو زمین کوئی نہیں بیچتا.
باہر کے لوگ گوہرآباد میں رہ بھی نہیں سکتے.
علاقہ انتہائی پُرامن ہے.
غریب پر کوئی ظلم نہیں کرتا. اگر کوئی کرے تو سب مل کر اس کا جینا حرام کر دیتے ہیں.
لڑائی جھگڑے کی صورت میں کم لوگ تھانہ تک جاتے ہیں، ورنا وہی گاؤں میں جرگہ داران، ویلیج امن کمیٹی اور دیگر معتبرین معاملہ رفع دفع کرتے ہیں.
اب تک گوہرآباد کے مرکز یا کسی بڑے گاؤں میں تھانہ یا پولیس چوکی نہیں. اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے. دور تھلیچی میں تھانہ ہے.
گوہرآبادی ایک دفعہ دوستی کا ہاتھ ملائے تو کسی صورت دھوکہ نہیں کرتے.مفادات کی حد تک دوستی نہیں کرتے.
خواتین انتہائی محنت کش ہیں. بڑے شہروں میں اعلی آفیسران کی پڑھی لکھی بیویاں، بہوئیں اور بیٹیاں بھی اپنے صحن میں اعلی قسم کی سبزیاں اور کیاریاں اگاتی ہیں. اور اکثر کے پاس گائے بھی ہوگی. گاؤں میں تو یہ عام باتیں ہیں.
خواتین شاپنگ اور مختلف ڈیمانڈز کے ذریعے شوہر کو کنگال نہیں کرتی.
گوہرآباد میں خواتین کا حد درجہ احترام ہے. خواتین پورے گوہرآباد میں بے دھڑک کہیں بھی جاتی ہیں. کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا، نہ ہی جمگھٹے بناکر کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے کا رواج ہے.
گوہرآباد میں کھبی یہ مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوتا کہ گھر میں کوئی مرد نہیں ہے تو بچوں اور خواتین کو کوئی مسئلہ ہے یا ڈر لگ رہا ہے. یا کوئی خطرہ ہے.
اگر گھر کا مرد بغرض تبلیغ، کام یا نوکری علاقے سے باہر ہے تو خواتین کو کھیتوں میں ہل چلانے، کھیتوں کو پانی دینے، کھیت کھلیان کے دیگر کاموں میں کھبی دقت نہیں ہوتی. ہمسایہ اور دیگر رشتہ دار یا اہل علاقہ خوش اسلوبی سے یہ کام انجام دیتے  رہتے ہیں. کوئی معاوضہ لینے کا سوال ہی نہیں.
 خواتین جتنی محنت کش ہیں مرد اتنے ہی لاپرو بھی ہیں. سچ کہوں تو گوہرآباد میں خواتین کی وجہ گھروں کی رونق اور رزق میں برکتیں ہیں ورنا عورتوں کے مقابلے میں، مرد فضول خرچ بھی ہیں اور لاپروا بھی.
غیرت کے نام پر عشروں میں کوئی قتل ہوتا ہوگا. ورنا اس جرم کا فیصد بھی زیرو ہی ہے.
اکثر لوگ بہنوں کو وراثت میں حصہ دیتے ہیں. کم یا زیادہ، کسی نہ کسی شکل میں بہر حال دیا جاتا ہے.
گوہرآباد میں اگر آپس میں ناراضگی ہو تو شادی بیاہ یا فوتگی کے دنوں میں ایک دوسرے کے پاس پہلی فرصت میں پہنچ کر ختم کر دیا جاتا. پھر سب شیر و شکر.
لوگ رمضان میں اپنا تھلتاپو گھی میں بگھو کر مسجد پہنچتے ہیں. وہ سب مل کر افطاری کرتے، مسافروں کے بھی وارے نیارے ہوتے. اگر کوئی مرد مسجد نہ بھی جائے تو تھلتاپو ( دیسی گھی میں بگھوئی ہوئی گرم روٹی) بچوں کے ذریعے خواتین مسجد پہنچا دیتی ہیں.
مساجد میں لکڑی خریدی نہیں جاتی بلکہ خواتین گھروں سے بچوں اور مردوں کیساتھ بھجوا دیتی ہیں.
تبلیغی جوڑ ہو تو خواتین ہر قسم کے کھانے حسب استطاعت پکا کر مساجد پہنچاتی ہیں.
گوہرآباد میں بڑے بڑے گھر بنانے کا رواج نہیں. معمولی سے گھروں میں جوائنٹ فیملیز اتفاق سے رہتی ہیں.
ایک ہی جگہ (کوٹ) تمام قبائل کے لوگ صدیوں سے رہتے ہیں. گھر اور مکان کی دیوار لگی ہوتی ہے. اب کچھ کچھ الگ جگہوں میں مکانات بننے لگے ہیں.
زمینیں آج بھی سب قبائل کی ساتھ ساتھ ہیں. کھیتی باڑی اور کھیلیان وغیرہ میں کوئی ایشو پیدا نہیں ہوتا. نہ پانی دینے میں. البتہ پانی کی قلت ہو تو بھائی بھائی سے بھی الجھتا ہے مگر کھیتی باڑی کے کاموں میں قبائلی و سماجی مسائل پیدا نہیں ہوتے. چھوٹے موٹے معاملات ہوں بھی تو فوراً صلح کروا دی جاتی ہے.
کسی بھی قیمت پر اولاد کو تعلیم دلائی جاتی ہے. اب تو لڑکیوں کی تعلیم پر بھی انتہائی زور دیا جاتا ہے.
گوہرآباد میں بظاہر قبائلی تعصب زیرو فیصد ہے. سیاسی تعصبات کی بات البتہ الگ ہے. وہ تعصبات موسمی کھمبیوں کی طرح ہوتے ہیں جو جلد مرجھا جاتے ہیں. صرف الیکشن کے دنوں میں.
شادی بیاہ اور فوتگی کے دنوں میں دیگر قبیلوں کے لوگ سب سے زیادہ پہنچ جاتے ہیں. قبائل کا آپس میں شادی بیاہ اور رشتہ داریاں بھی معمول کی  بات ہے.
بنجر آراضی کی تقسیم و  حفاظت، جنگلات کی تقسیم و حفاظت، چلغوزوں اور تعمیراتی لکڑ کی کٹائی وغیرہ میں مثالی اتفاق و اتحاد پایا جاتا ہے. زوتی سسٹم/ ویلیج کمیٹی سسٹم صدیوں سےبہت مضبوط ہے. کچھ سالوں سے ڈسٹرب بھی ہے. جلد صحیح ہوجائے گا.
اجتماعی شادی بیاہ مختلف شکلوں میں اب بھی موجود ہے. جو بہت سے مشکلات کو روکا ہوا ہے. پہلے تو اس کا اسٹرانگ سسٹم تھا.
بہر حال افطاری کا پورا وقت یہی موضوع چلتا رہا. پڑی کے احباب کو حیرت ہورہی تھی .
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
87100

گلگت بلتستان کے لوگوں کی ترقی، انہیں صحت اور تعلیم کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے، تینوں ڈویژنز میں دانش سکول تعمیر  کرینگے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف

گلگت بلتستان کے لوگوں کی ترقی، انہیں صحت اور تعلیم کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے، تینوں ڈویژنز میں دانش سکول تعمیر  کرینگے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف

اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ) وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کی ترقی، انہیں صحت اور تعلیم کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق منگل کو وزیراعظم محمد شہبازشریف وزیرِ اعلی گلگت بلتستان گلبر خان نے ملاقات کی۔اس موقع پر وزیرِ قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ، وزیرِ اقتصادی امور احد خان چیمہ اور متعلقہ اعلی حکام بھی موجود تھے۔ اجلاس میں گلگت بلتستان میں تعلیم، صحت اور سیاحت کے شعبے کی ترقی کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی، اجلاس کو گلگت بلتستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے عطاآباد اور ہارپو میں پن بجلی کے دو منصوبوں پر جاری کام کی پیش رفت کے بارے آگاہ کیا گیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ ان منصوبوں کی تکمیل سے گلگت بلتستان میں بجلی کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنائی جا سکے گی۔

 

وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ نلتر ایکپریس وے کی تعمیر کا کام مکمل ہو گیا ہے جو علاقے کی ترقی اور خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ وزیرِ اعظم نے گلگت بلتستان میں سیاحت کی ترقی اور شمشی توانائی کے منصوبوں کے حوالے سے لائحہ عمل مرتب کرکے پیش کرنے کی ہدایت کی۔ وزیرِ اعظم نے گلگت بلتستان کو درپیش مسائل کے حل کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے ہدایت کی کہ کمیٹی گلگت بلتستان کو درپیش تمام مسائل پر مشاورت کے بعد اپنی سفارشات پیش کرے، گلگت بلتستان کے لوگوں کی ترقی، انہیں صحت اور تعلیم کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔وزیراعظم نے کہاکہ گلگت بلتستان میں غریب و نادار گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں اور بچیوں کیلئے دانش سکول قائم کر رہے ہیں۔ دانش سکول بچوں کو بین الاقوامی معیار کی اعلی تعلیم کے ساتھ ساتھ رہائش کی سہولت بھی فراہم کریں گے۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ گلگت بلتستان میں سیاحت کی وسیع استعداد سے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے سفارشات مرتب کرکے پیش کی جائیں اور گلگت بلتستان کے تینوں ڈویڑنز میں دانش سکول تعمیر کئے جائیں۔ وزیر اعظم نے گلگت بلتستان میں عطاآباد اور ہارپو پن بجلی منصوبے کی تکمیل پر کام کہ رفتار کو تیز کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان میں شمشی توانائی کے منصوبوں کے حوالے سے لائحہ عمل مرتب کرکے پیش کیا جائے۔

 

 

وزیراعظم کی گلگت بلتستان کے تینوں ڈویژنز میں دانش سکول تعمیر کرنے کی ہدایت

اسلام آباد(سی ایم لنکس) وزیراعظم شہباز شریف نے گلگت بلتستان کے تینوں ڈویڑنز میں دانش سکول تعمیر کرنے کی ہدایت کر دی۔وزیراعظم سے وزیرِ اعلیٰ گلگت بلتستان گلبر خان نے ملاقات کی، ملاقات میں وزیرِ قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ، وزیرِ اقتصادی امور احد خان چیمہ اور متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔اس موقع پر شہباز شریف نے گلگت بلتستان کو درپیش مسائل کے حل کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دے دی اور کہا کہ کمیٹی گلگت بلتستان کو درپیش تمام مسائل پر مشاورت کے بعد اپنی سفارشات پیش کرے۔ملاقات کے دوران وزیرِ اعظم نے گلگت بلتستان کے تینوں ڈویڑنز میں دانش سکول تعمیر کرنے کی بھی ہدایت کی۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں غریب و نادار گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں اور بچیوں کیلئے دانش سکول قائم کر رہے ہیں جہاں بین الاقوامی معیار کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ رہائش کی سہولت بھی فراہم کریں گے۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کی ترقی، انہیں صحت اور تعلیم کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔شہباز شریف نے ہدایت کی کہ گلگت بلتستان میں سیاحت کی وسیع استعداد سے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے سفارشات مرتب کر کے پیش کی جائیں، گلگت بلتستان میں عطاء آباد اور ہارپو پن بجلی منصوبے کی تکمیل پر کام کی رفتار کو تیز کیا جائے۔اس موقع پر وزیراعظم نے شمسی توانائی کے منصوبوں کے حوالے سے لائحہ عمل مرتب کر کے پیش کرنے کی بھی ہدایت کی۔

chitraltimes cm gb meeting with pm shehbaz 2

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستان
87085

زیر تعمیر چترال شندور روڈ کے تمام بقایاجات متعلقہ ٹھِیکہ دار کو ریلیز کردئے گئے ، عید کے فورا بعد تعمیراتی کام دوبارہ شروع ہوگا

Posted on

زیر تعمیر چترال شندور روڈ کے تمام بقایاجات متعلقہ ٹھِیکہ دار کو ریلیز کردئے گئے ، عید کے فورا بعد تعمیراتی کام دوبارہ شروع ہوگا

اسلام آباد ( چترال ٹائمز رپورٹ ) آج این ایچ اے کے ایگزیکٹو بورڈ نے لواری ٹنل الیکٹریکل ورک اورٹنل اپروچ روڈ کے PC-1 کی منظوری دی جس کی کل لاگت 40 ارب ہے۔ اسے جلد ہی CDWP کے میٹنگ میں پیش کیا جائیگا۔ زرائع کے مطابق این ایچ اے حکام نے چترال بونی مستوج شندور روڈ کے تمام بقایا جات بھی متعلقہ ٹھیکہ دار کو ریلیز کردی ہے، اس بات کی تصدیق فرزند چترال جوائنٹ سیکریٹری کمیونکیشن منسٹری بشارت احمد نے کی ہے، این ایچ اے زرائع کے مطابق چترال شندور روڈ پر عید کے فورا بعد دوبارہ زوروشور سے کام شروع کیا جائیگا، اس خبر پر چترال کے مختلف مکاتب فکر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ،

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستان
86963

جی بی کالجز کے اساتذہ کی پروموشن، پروفیسروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی.

Posted on

جی بی کالجز کے اساتذہ کی پروموشن، پروفیسروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی

 

گلگت (امیرجان حقانی سے) گلگت بلتستان ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے زیر انتظام گلگت بلتستان کی مختلف کالجز کے چھتیس اساتذہ کرام کو اگلے گریڈ میں ترقی دی گئی. ڈاکٹر عظمیٰ سلیم کو گریڈ بیس پروفیسر، عبدالکریم، محمود بیگ، راحت شاہ کو گریڈ انیس ایسوسی ایٹ پروفیسر، عظمیٰ شہناز کو ٹایم سکیل گریڈ 20، ادیبہ بانو اور صباحت میر کو ٹایم سکیل گریڈ 19،جبکہ 17 میل لیکچرز کو گریڈ سترہ سے اٹھارہ بطور اسسٹنٹ پروفیسر اور تیرہ فی میل لیکچرز کو گریڈ 17 سے 18 بطور اسسٹنٹ پروفیسر ترقی دی گئی. پروفیسروں کی نمائندہ تنظیم، گلگت بلتستان لیکچررز اینڈ پروفیسرز ایسوسی ایشن(GB PLA) کے صدر پروفیسر فضل کریم اور اس کی کابینہ صوبائی حکومت بالخصوص چیف سیکرٹری ابرار احمد مرزا، سیکریٹری سروسز راجہ رشید علی، سیکریٹری ہائر ایجوکیشن ولی خان اور ڈائریکٹر کالجز جمعہ گل اور جملہ معاونین اور عملے کا شکریہ ادا کرتی ہے. پروفیسر ایسوسی ایشن نے ایک طویل عرصہ بعد ترقی پانے والے کالجز کے معلمین و معلمات کو مبارک باد پیش کی اور مزید اس عزم کا اظہار کیا کہ ایسوسی ایشن کالجز کی فیکلٹی کے ایشوز کو احسن انداز میں ایڈرس کرے گی اور ارباب اختیار تک تمام مسائل پہنچائے گی. اور صوبائی حکومت سے توقع کا اظہار کیا کہ موجودہ فور ٹائر فارمولہ کا نفاذ اور نیا خیبر پختونخوا طرز کے فارمولے کو بہت جلد منظور کر کہ 24 سالوں سے منتظر کالجز کے معلمین و معلمات کو ریلیف دینے کا موقع فراہم کرے گی اور کالج اساتذہ کے دیرینہ مطالبہ پوری کرے گی۔ یاد رہے کہ گلگت بلتستان کالجز کے اساتذہ گریڈ 17 میں بھرتی ہوتے ہیں اور 20، 22 سال بعد اگلے گریڈ 18 میں ترقی ملتی ہے جو انتہائی غیر منصفانہ ہے.

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان
86829

نوادرات رمضان ( بیٹیاں) – خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on

نوادرات رمضان ( بیٹیاں) – خاطرات :امیرجان حقانی

 

قاری نوشاد عالم میرے کزن ہیں اور بہنوئی بھی. ان کے ہاں 14 مارچ بروز جمعرات 3 رمضان المبارک کو بیٹا پیدا ہوا. اس کا نام محمد عامر رکھا گیا ہے.

17 مارچ بروز اتوار 6 رمضان المبارک کو اللہ تعالٰی نے راقم کو بیٹی عطا فرمائی. بیٹی کا نام اس کے بھائی عمر علی حقانی نے لبابہ حقانی رکھا ہے. میری دو بیٹیاں پہلے سے ہیں. وہ دونوں بھی رمضان المبارک میں پیدا ہوئی ہیں. سچ یہ ہے کہ مجھ پر بیٹیوں کی شکل میں رمضان میں رحمتیں نازل ہوتی ہیں. یہی نوادرات رمضان ہیں.

اب زندگی کا مشن یہی ہے کہ ان بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کا خوب انتظام کروں اور جنت کا حقدار ٹھہروں.

میرے حبیب صل اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد کیا ہے:
مَنْ کُنَّ لَه ثَلَاثُ بَنَاتٍ اَوْ ثَلَاثُ أخَوَاتٍ، أوْ بِنْتَانِ، أو أخْتَانِِ اِتَّقَی اللّٰہَ فِیْھِنَّ، وَاَحْسَنَ اِلَیْھِنَّ حَتّٰی یُبِنَّ أوْ یَمُتْنَ کُنَّ لَه حِجَابًا مِنَ النَّارِ
(مسند أحمد: 9043 بسند صحیح )

جس کی تین بیٹیاں،یا تین بہنیں،یا دو بیٹیاں،یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور ان کے ساتھ احسان کرے، یہاں تک کہ وہ اس سے جدا ہو جائیں یا فوت ہو جائیں تو وہ اس کے لیے جہنم سے پردہ ہوں گی۔

 

ایک اور حدیث میں ارشاد ہے.

اللہ کے رسول صل اللہ علیہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : “جس شخص نے اپنی دو بیٹیوں کی پرورش اچھے طریقے سے کی یہاں تک کہ ان کو بالغ کر دیا تو میں اور وہ قیامت کے دن اس طرح کھڑے ھونگے ، آپ ؑ نے اپنی شہادت اور درمیان والی انگلی ملا کر دکھائی”۔ ( مسلم شریف )

میری پہلی بیٹی وجیہہ حقانی پیدا ہوئی تو یہی جذبات تھے. دوسری بیٹی علینہ حقانی پیدا ہوئی تب بھی یہی جذبات تھے. تیسری بیٹی لبابہ حقانی کی پیدائش پر بھی یہی جذبات ہیں.
اگر اللہ مجھے درجنوں بیٹیاں دیں تو بھی میرے یہی جذبات ہونگے. ان شا اللہ

 

میں آپ سے صرف یہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ
بیٹی اللہ کی رحمت ہے اور جہنم کی آگ سے نجات ہے.

آئیے! اپنے آپ سے وعدہ کیجئے لڑکی کی پیدائش پر کبھی غم اور افسوس کا اظہار نہیں کریں گے بلکہ اس کے پورے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ محبت اور شفقت کا برتاؤ کریں گے۔ اور رسول اللہ کی طرح بہترین تربیت کریں گے.

 

آج ہمیں اپنی بے ہودہ سوچ بدلنی ہوگی۔ تبھی ہم اپنے سماج میں بہترین تبدیلی لا سکتے ہیں اور بیٹیوں کے متعلق پائے جانے والی اوہام کا خاتمہ کرسکتے ہیں.
بیٹیاں خدا کی رحمت ہوتی ہیں ہے اور والدین کی عزت اور بھرم بھی. خصوصاً باپ کے لئے محبت و دعا کا سبب بھی.

 

اس پیغام کو سمجھانے کی، پہنچانے کی اور منوانے کی کوشش کرنی چاہیے.
تبھی صحیح معنوں میں بیٹیوں کو ان کا مقام ملے گا. اگر یہ بیٹیاں نہ ہوں تو اس کائنات کا رنگ و بو ہی بے کار. سچ یہ ہے کہ ان بیٹیوں کے دم سے ہے کائنات میں رنگ. انہیں کی مرہون منت خوشیاں ہیں. لطافتیں ہیں اور ابدی دنیا میں کامرانی ہی کامرانی.

اللہ سے دعا ہے کہ بھانجا اور بیٹی دونوں سلامت رہیں اور والدین کے لیے آنکھوں کا نور بنیں. آمین

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
86756

وادی لوٹکوہ اور تحصیل مستوج میں نوروز” پتھاک دیک” کی تہوارمنائی گئی

Posted on

وادی لوٹکوہ اور تحصیل مستوج میں نوروز” پتھاک دیک” کی تہوارمنائی گئی

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) آج ۲۱ مارچ کو اپر اور لویر چترال کے مختلف وادیوں میں نوروز یا پتھاک دیک کی تہوارمنائی جارہی ہے۔ اس موقع پر مختلف رنگارنگاتقریبات منعقد ہوئے جبکہ اس دن کے لئے گھروں کی خصوصی صفائی کرنے کے ساتھ نئے کپڑے بھی زیب تن کئے جاتے ہیں۔ گھروں میں خصوصی طعام کی تیاری اور رشتہ داروں کے گھروں کی وزٹ کرنا بھی اس کی رسومات میں شامل ہیں۔ یہ تہوار لوٹ کوہ اور اپر چترال کے بیار میں منائی جاتی ہے۔

 

چترال شہر میں ہلکی بارش جبکہ اپر چترال کے بالائی علاقوں میں برفباری کا سلسلہ دوبارہ شروع

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) اپر چترال کے بالائی علاقوں میں برفباری کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔ تریچ، کھوت، ریچ، مڑپ اور بروغل سے برفباری کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ لویر چترال میں ہلکی بارش کا سلسلہ جاری ہے جبکہ محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کے مطابق بارش اور برفباری کا یہ سلسلہ ہفتے کے دن تک جاری رہے گا۔ لواری ٹنل کا اپروچ روڈ اس وقت ہر قسم کی ٹریفک کے لئے کھلا ہوا ہے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستان
86596

سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے زیراہتمام جانوروں کی صحت اور پیداوار کے حوالے سے چترال ، گلگت بلتستان اور کشمیر کےکمیونٹی ممبران  کے لئے سرٹیفکیٹ کورس کا انعقاد کیا گیا

سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے زیراہتمام جانوروں کی صحت اور پیداوار کے حوالے سے چترال ، گلگت بلتستان اور کشمیر کےکمیونٹی ممبران  کے لئے سرٹیفکیٹ کورس کا انعقاد کیا گیا

اسلام آباد (چترال ٹائمزرپورٹ ) سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن نے پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل اینیمل سائنسز ڈویژن کے تعاون سے گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر اور چترال کے تیس (٣٠) مقامی افراد کو جدید سائنسی بنیادوں پر تربیت فراہم کی. چودہ روزہ رہائشی تربیتی پروگرام میں جانوروں کی صحت اور پیداوار کے حوالے سرٹیفکیٹ کورس کا انعقاد کیا گیا جس میں برفانی چیتے کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے دور دراز علاقوں سے کمیونٹی ممبران شریک ہوئے۔

ورکشاپ کا مقصد دیہی معیشت میں لائیو سٹاک کے اہم کردار پر توجہ دینا تھا جس میں زراعت میں ترقی کے لئے جدید سانسی طریقوں کا استعمال، مال مویشی کا بہتر دیکھ بھال، ویکسینیشن اور ملکی اور مقامی سطح پر برامدات کو بڑھانے کے طریقے سکھائے گئے۔ لائیو سٹاک کے ماہرین نے شرکاء کی استعداد کار کو بڑھاتے ہوئے کمیونٹی لائیوسٹاک ویکسینیٹر کے طور پر بھی تیار کیا جس کا مقصد مویشیوں کی اموات کو کم کرنا، سماجی اقتصادی حالات کو بہتر بنانا اور جنگلی حیات کی نسلوں میں بیماریوں کی منتقلی کو روکنا ہے۔

مہمان خصوصی ثمر حسین خان کنزرویٹر وائلڈ لائف وزارت موسمیاتی تبدیلی نے اپنے خطاب میں اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ کمیونٹی لائیوسٹاک ویکسینیٹر کے طور پر کمیونٹی ممبران کو تربیت دینا قابل ستائش کام ہے جس سے ملک کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں رہنے والے مقامی افراد کو مال مویشیوں کی اموات کو روکنے کے ساتھ ساتھ اس سے وہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں بری حد تک بہتری آئے گی۔

ڈاکٹر جعفر الدین ڈپٹی ڈائریکٹر ایس ایل ایف نے شرکاء اور مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے پائیدار معاشی اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے برفانی چیتے کے تحفظ کے علاقوں میں مقامی کمیونٹیز کو بااختیار بنانے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ایس ایل ایف گزشتہ سولہ سالوں سے گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر اور چترال کے پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی مختلف خدمات فراہم کرنے میں سرگرم عمل ہے. انھوں نے ان علاقوں کے لوگوں کو بھی سراہا جو ہمیشہ جنگل اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے مکمل تعاون کر رہے ہیں.
chitraltimes snowleopard certification course on livestock for gb chitral and kashmir 2

ڈاکٹر سید محمود ناصر سینئر ماہر ماحولیات و بشریات اور سابق انسپکٹر جنرل آف فارسٹ نے دیہی ترقی اور ماحولیاتی نظام کے استحکام میں مویشیوں کی صحت اور پیداوار کے اہم کردار کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ملکی ترقی کے لئے جدید بنیادوں پر لائیو سٹاک کی پیداوار کو بڑھانا ہوگا۔ انھوں نے کامیابی سے ٹریننگ حاصل کرنے والے شرکاء کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ اب آپ کے کاندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جو کچھ آپ نے اس ٹریننگ میں سیکھا ہے اسے آپ اپنے علاقے تک منتقل کریں اور وہاں ضرورت مند مقامی افراد کی مدد کریں۔

 

ڈاکٹر محمد شفیق نے مویشیوں کو بیماریوں سے دور رکھنے اور صحت مند کمیونٹیز اور ماحولیاتی نظام کے لیے بہترین طریقوں کو فروغ دینے کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ ڈاکٹر شفیق جو اس پروگرام کے کوآردنیٹر بھی تھے انھوں نے تمام شرکاء کے تعاون اور جذبے کو سراہا۔

 

اعلیٰ ترین قومی معیارات پر منعقد ہونے والی اس اہم سرٹیفکیٹ کورس میں تمام فیلڈز کا احاطہ کیا گیا جس میں مویشیوں میں بیماریوں کا روک تھام، ویکسین اور ادویات کا استعمال، بہتر دیکھ بھال، چھوٹے پیمانے کے آپریشن، بہتر افزائش نسل، مویشیوں کا خوراک، مرغ بانی، خرگوش فارمنگ، دیکھ بھال کے جدید طریقے اور مویشیوں میں ویلیو ایڈیشن جیسے موضوعات پر تربیت فراہم کی گئی۔

 

ایس ایل ایف جنگلی حیات کے تحفظ اور کمیونٹی کو بااختیار بنانے کے اپنے مشن پر کاربند ہے. موجودہ سرٹیفکیٹ کورس ان اینیمل ہیلتھ اینڈ پروڈکشن جیسے اقدامات ان مقاصد کے حصول میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ شرکاء میں اسناد تقسیم کی گئیں جبکہ مہمانوں اور ٹرینرز کو شیلڈز پیش کی گئیں۔

chitraltimes snowleopard certification course on livestock for gb chitral and kashmir 1

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستان
86072

مغربی ہواؤں کی ملک میں انٹری سے بارش اور برفباری کا امکان،تمام متعلقہ اداروں کو الرٹ رہنے کی ہدایت 

Posted on

مغربی ہواؤں کی ملک میں انٹری سے بارش اور برفباری کا امکان، تمام متعلقہ اداروں کو الرٹ رہنے کی ہدایت

اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ )محکمہ موسمیات نے آئندہ تین روز میں ملک کے مختلف علاقوں میں بارشوں اور برفباری کی پیشگوئی کردی، 29فروری سے سے مغربی ہواؤں کا سلسلہ ملک میں داخل ہو گا۔محکمہ موسمیات کے مطابق مغربی لہر بلوچستان کے مغربی علاقوں کو متاثر کر رہی ہے اور اگلے 36 گھنٹوں تک برقرار رہنے کا امکان ہے، ایک اورطاقتور مغربی لہر کل مغربی بلوچستان میں داخل ہونے کا امکان ہے،جو یکم مارچ کو بالائی اور وسطی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور 3 مارچ تک برقرار رہ سکتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یکم مارچ کو ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم سرد اور خشک جبکہ شمالی علاقوں میں شدید سرد رہے گا، تاہم شمالی اور جنوب مغربی بلوچستان، گلگت بلتستان میں مطلع جزوی ابر آلود رہنے کے علاوہ چند مقامات پر تیز ہواؤں گرج چمک کے ساتھ ہلکی بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان ہے۔موسم کا احوال بتانے والوں کا کہنا ہے کہ2مارچ کو بلوچستان، جنوبی پنجاب،خیبرپختونخوا،بالائی سندھ، گلگت بلتستان اور کشمیرمیں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان ہے،ملک کے دیگر علاقوں میں موسم سرد اور خشک جبکہ شمالی علاقوں میں شدید سرد رہے گا۔

محکمہ موسمیات کے پریس ریلیز کے مطابق 29فروری سے 02 مارچ کے دوران ملک کے بیشتر علاقوں میں آندھی/جھکڑ چلنےاورگرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارش/ شدید برفباری/چند مقامات پر ژالہ باری کی پیش گوئی شدید بارش کے باعث طغیانی / شدید برفباری سے متاثرہ علاقوں میں روز مرہ کے معاملات متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطا بق طاقتورمغربی ہواؤں کا سلسلہ29فروری سے ملک کے مغربی علاقوں میں داخل ہوگا اور 01 مارچ کو ملک کے بیشتر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے گا جو کہ02 مارچ تک موجود رہےگا۔ جس کے باعث :

بلوچستان: 29فروری اور01 مارچ کے دوران نوکنڈی، دالبندین، چاغی، قلات، خضدار، لسبیلہ، آواران، تربت، کیچ، گوادر، جیوانی، پسنی، اورماڑہ، پنجگور، خاران، نوشکی، واشک، مستونگ، سبی، نصیر آباد، ژوب، شیرانی، بارکھان، موسیٰ خیل، کوہلو، جھل مگسی، لورالائی، زیارت، کوئٹہ، چمن، پشین، قلعہ عبداللہ اور قلعہ سیف اللہ میں اکثر مقامات پر آندھی /جھکڑچلنےاور گرج چمک کے ساتھ موسلا دھار بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان۔ اس دوران چند مقامات پرژالہ باری کی بھی توقع ہے

خیبر پختونخوا: 29فروری سے03 مارچ کے دوران چترال، دیر، سوات، ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہری پور، کوہستان، شانگلہ، بونیر، باجوڑ، کرک، خیبر، پشاور، چارسدہ، نوشہرہ، صوابی، مردان، کرم، وزیرستان، کوہاٹ، لکی مروت، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں اکثر مقامات پر آندھی /جھکڑچلنےاور گرج چمک کے ساتھ موسلا دھار بارش اور پہاڑوں پر شدید برفباری کا امکان۔ اس دوران چند مقامات پرژالہ باری کی بھی توقع ہے۔

گلگت بلتستان/کشمیر: 29فروری سے03 مارچ کے دوران گلگت بلتستان (دیامیر، استور، غذر، اسکردو، ہنزہ، گلگت، گا نچھے، شگر)، کشمیر (وادی نیلم، مظفر آباد،راولاکوٹ، پونچھ، ہٹیاں،باغ،حویلی،سدھنوتی، کوٹلی،بھمبر،میر پور) میں اکثر مقامات پر تیز ہواؤں/آندھی اور گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارش اورشدید برفباری کا امکان۔ اس دوران چند مقامات پرژالہ باری کی بھی توقع ہے۔

پنجاب/اسلام آباد: 01مارچ اور02 مارچ کو مری، گلیات، اسلام آباد/راولپنڈی، اٹک، چکوال، جہلم، منڈی بہاؤالدین، گجرات، گوجرانوالہ، حافظ آباد، سیالکوٹ، نارووال، لاہور، قصور، اوکاڑہ، فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، خوشاب، سرگودھا، میانوالی اور بھکر میں اکثر مقامات پر آندھی /جھکڑچلنےاور گرج چمک کے ساتھ موسلا دھار بارش کا امکان۔جبکہ مری،گلیات اورملحقہ علاقوں میں شدید برفباری بھی متوقع۔ 29فروری سے02 مارچ کے دوران ملتان، کوٹ ادو، لیہ، راجن پور، ڈیرہ غازی خان، رحیم یار خان، صادق آباد، خان پور، ساہیوال، بہاولپور اور بہاولنگرمیں آندھی /جھکڑچلنےاور گرج چمک کے ساتھ بارش متوقع۔ اس دوران چند مقا مات پر ژالہ باری کی بھی توقع ہے۔

سندھ: 29 فروری اور01 مارچ کو سکھر، جیکب آباد، کشمور، لاڑکانہ، دادو، شہید بینظیر آباد، کراچی، حیدرآباد، ٹھٹھہ، بدین، خیرپور اور میرپور خاص میں آندھی /جھکڑچلنےاور گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان۔ اس دوران چند مقا مات پر ژالہ باری کی بھی توقع ہے۔

29 فروری اور01 مارچ کو موسلا دھار بارشوں کے باعث گوادر، کیچ، تربت، پنجگور، آواران، بارکھان، کوہلو، سبی، نصیر آباد، دالبندین، خضدار اور ڈیرہ غازی خان جبکہ 01 اور02 مارچ کو خیبرپختونخوا، کشمیر، مری، گلیات اور اسلام آباد/راولپنڈی کے برساتی/مقامی ندی نالوں میں طغیانی کا خدشہ ہے۔
01اور02 مارچ کو مری، گلیات، ناران، کاغان، دیر، سوات، کوہستان، مانسہرہ، ایبٹ آباد، شانگلہ، استور، ہنزہ، اسکردو، وادی نیلم، باغ، پونچھ اور حویلی میں شدید بارش / برفباری سے رابطہ سڑکیں بند ہونے کا خدشہ ہے۔

اس دوران بالائی خیبر پختونخوا، مری، گلیات، کشمیر اور گلگت بلتستان میں لینڈسلائیڈنگ کا بھی خدشہ ہے۔
آندھی/جھکڑ / گرج چمک اور تیز بار ش کے باعث کمزور انفرا سٹرکچر ( بجلی کے کھمبے،گاڑیوں سولر پینل وغیرہ)کو نقصان کا اندیشہ ہے
آندھی/بارش اور برفباری کے دوران سیاحوں کو غیر ضروری سفر نہ کرنے کی ہدایت جبکہ کسانوں کو بھی محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اور ساتھ تمام متعلقہ اداروں کو اس دوران” الرٹ “رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔۔بارشوں اور برفباری کا سلسلہ3 مارچ تک وقفے وقفے سے جاری رہنے کا امکان ہے۔ لہذا اس دوران غیر ضروری سفر اور سیاحوں کو محتاط رہنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

 

pdma alert snowfall

گلگت بلتستان: اسکردو میں بارش اور برفباری، بالائی علاقوں میں زمینی رابطہ منقطع

گلگت بلتستان(سی ایم لنکس)گلگت بلتستان کے شہر اسکردو میں بالائی مقامات پر بارش اور برفباری کا سلسلہ جاری ہے، جس سے نظارے دلفریب گئے جبکہ بالائی علاقوں میں زمینی رابطہ منقطع ہوگیا۔ بارش اور برفباری سے پہاڑ، سڑکیں اور گاڑیاں برف سے ڈھک گئیں، برفباری کے دوران بچے برف پر کھیل کود کرکے لطف اندوز ہوتے رہے۔محکمہ موسمیات نے بتایا کہ آج گلگت بلتستان میں مطلع ابر آلود رہنے کے علاوہ چند مقامات پر گرج چمک کے ساتھ ہلکی بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان ہے۔مزید امکان ظاہر کیا کہ کل بروز بدھ گلگت بلتستان میں مطلع ابر آلود رہے گا، جبکہ چند مقا مات پر گرج چمک کے ساتھ ہلکی بارش اور پہاڑوں پر برفباری ہوسکتی ہے۔محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ آج کم سے کم درجہ حرارت لہہ منفی 10، کا لام منفی 07، استور منفی 06، گوپس، مالم جبہ منفی 04، اسکردو، ہنزہ منفی 03 اور بگروٹ میں منفی 02 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستان
85780

26 اور27 فروری کو چترال اور دیرسمیت ملک کے بالائی علاقوں اور بلوچستان میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش اور پہاڑوں پر برفباری کی پیشنگوئی 

26 اور27 فروری کو چترال اور دیرسمیت ملک کے بالائی علاقوں اور بلوچستان میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش اور پہاڑوں پر برفباری کی پیشنگوئی

چترال ( چترال ٹائمزرپورٹ ) 26 اور27 فروری کوبلوچستان اور ملک کےبالائی علاقوں میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش (پہاڑوں پر برفباری) کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطا بق مغربی ہواؤں کا سلسلہ 25 فروری(رات) سے بلوچستان میں داخل ہوگا اور 26 فروری کو ملک کے بیشتر بالائی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ جس کے باعث بلوچستان میں 25(رات) اور 26 فروری کو چاغی، نوشکی، خاران، پنجگور، گوادر، آواران، خضدار، قلات، لسبیلہ، سبی، کوئٹہ، زیارت، چمن، پشین، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، ژوب، شیرانی، بارکھان، موسیٰ خیل اور کوہلو میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ ہلکی سے درمیانی بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان ہے۔ اس دوران چند مقا مات پر موسلادھار بارش کی بھی توقع ہے

اسی طرح خیبر پختونخوا میں 25 (رات)سے27 فروری کے دوران چترال، دیر، سوات، شانگلہ، کوہستان، بونیر، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور، صوابی، مردان، چارسدہ، نوشہرہ، پشاور، مہمند، باجوڑ، خیبر، کرم، کوہاٹ، بنوں اور وزیرستان میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان ہے۔اس دوران چند مقا مات پر ژالہ باری کی بھی توقع ہے ۔
گلگت بلتستان/کشمیر میں 25(رات) سے27 فروری کے دوران گلگت بلتستان (دیامیر، استور، غذر، اسکردو، ہنزہ، گلگت، گا نچھے، شگر)، کشمیر (وادی نیلم، مظفر آباد، پونچھ، ہٹیاں،باغ،حویلی،سدھنوتی، کوٹلی،بھمبر،میر پور) میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان۔ اس دوران چند مقا مات پر ژالہ باری کی بھی توقع ہے

پنجاب/اسلام آباد میں 26( شام/رات) اور27 فروری کو مری ،گلیات، اسلام آباد/راولپنڈی، اٹک، جہلم، چکوال، میانوالی، خوشاب، سرگودھا، بھکر، لیہ اور ڈیرہ غازی خان میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ ہلکی سے درمیانی بارش اور پہاڑوں پربرفباری کا امکان۔ اس دوران چند مقا مات پر ژالہ باری کی بھی توقع ہے
اسی طرح سندھ 25 اور26 فروری کے دوران صوبہ کے جنوبی علاقوں میں مطلع ابر آلود رہنے کے علاوہ آندھی/تیز ہوائیں چلنے کا امکان ہے جس کے ممکنہ اثرات کے پیش نظر احتیاطی تدابیراپنانے کی ہدایت کی گئِ ہے۔

26 فروری (رات) کو شمالی بلوچستان میں برفباری سے سڑکیں بند اور گاڑیوں کی آمد ورفت میں خلل جبکہ بلوچستان خصوصا گوادر، کیچ، پنجگور اور آواران میں موسلادھار بارش کے باعث مقامی ندی نالوں میں طغیانی کا بھی خدشہ ہے،

26( شام/رات) اور27 فروری کو مری، گلیات، ناران، کاغان، دیر، سوات، کوہستان، مانسہرہ، ایبٹ آباد، شانگلہ، استور، ہنزہ، اسکردو، وادی نیلم، باغ، پونچھ اور حویلی میں برفباری سے گاڑیوں کی آمد ورفت میں خلل کا امکان ہے۔ اس دوران بالائی خیبر پختونخوا، مری، گلیات، کشمیر اور گلگت بلتستان میں لینڈسلائیڈنگ کا بھی خدشہ ہے۔ آندھی/جھکڑ / گرج چمک اور تیز بار ش کے باعث کمزور انفرا سٹرکچر ( بجلی کے کھمبے،گاڑیوں سولر پینل وغیرہ)کو نقصان کا اندیشہ ہے۔ آندھی/بارش اور برفباری کے دوران کسانوں اورسیاحوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ دریں اثنا پی ڈی ایم اے کی طرف سے تمام متعلقہ اداروں کو اس دوران” الرٹ “رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

 

خیبرپختونخوا میں بارشوں،تیز ہواؤں اور بالائی اضلاع میں برفباری کے پیش نظر پی ڈی ایم اے نے تمام ضلعی انتظامیہ کو الرٹ رہنے کےلیے مراسلہ جاری کردیا۔ ۔ بارشوں اور برفباری کے پیش نظر ضلعی انتظامیہ کو پیشگی اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اور ساتھ برفباری اور بارشوں سے بالائی اضلاع میں لینڈسلائیڈنگ کاخدشہ کیا گیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کو چھوٹی بھاری مشینری کی دستیابی یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اورطوفان کی صورت میں عوام بجلی کی تاروں، بوسیدہ عمارتوں و تعمیرات، سایئن بورڈز اور بل بورڈز سے دور رہنے حساس بالائی علاقوں میں سیاحوں اور مقامی آبادی کو موسمی حالات سے باخبر رہنے اور احتیاتی تدابیر کی ہدایت کی گئی ہے۔ پی ڈی ایم اے مراسلہ میں حساس اضلاع میں ضلعی انتظامیہ کو مقامی آبادی تک پیغامات مقامی زبانوں میں پہنچا نے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اور مذید کہا گیا ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں تمام متعلقہ ادارے روڈ لنکس کی بحالی میں چوکس رہیں اورسڑک کی بندش کی صورت میں ٹریفک کے لئے متبادل راستے فراہم کئے جائیں۔ حساس علاقوں میں صوبائی اور قومی شاہراہوں پرمسافروں کو پیشگی خبردار کیا جائے ۔ اس دوران ہنگامی خدمات کے اہلکاروں کی دستیابی یقینی بنائیں۔سیاحوں کو موسمی صورت حال سے آگاہ کیاجائے ۔ بارشوں اور برفباری کا سلسلہ 27 فروری تک وقفے وقفے سے جاری رہنے کا امکان ہے۔جس کے دوران سیاح دوران سفر خصوصی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

chitraltimes pdma weather alert

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستان
85641

صحافت بیتی ۔ تحریر: خادم حسین

Posted on

صحافت بیتی ۔ تحریر: خادم حسین

 

صحافی کسی بھی سماج کا اہم فرد ہوتا ہے جس کا کام معاشرے میں آگہی دینا اور حالات و وقعات سے لوگوں کو باخبر رکھنا ہوتا ہے. بطور صحافی کسی کے لیے بھی یہ عمل سہل نہیں ہوتا کہ وہ غیر جانبداری سے حقائق لوگوں تک پہنچاٸے یہ کام نہ صرف مشکل ہے بلکہ خطرناک بھی ہوسکتا ہے بعض اوقات تو یہ دشمنی اور قتل و غارت گری تک چلاجاتا ہے. کبھی بھی صحافی اپنے پیشے کو اپناتے ہوٸے یہ نہیں کہتا کہ میں معروضی حقاٸق بیان کرتے ہوٸے تامل سے کام نہیں لوں گا. یہ مرحلہ کافی مشکل اور جان خطرے میں ڈالنے نیز معاشی طور پر مفلوک الحال ہونے کے مترادف ہے ۔ پاکستان میں جس طرح صحافت کی پرورش ہوٸی وہ بھی کسی دکھی داستان سے کم نہیں ہے. اواٸل زمانہ سے ہی صحافی قتل ہوٸے، دباٶ میں لاٸے گٸے اور میڈیا انڈسٹری کو کمرشلاٸز کرکے صحافت کو پیسوں اور اقتدار کی اکھاڑ پیچھاڑ کا زریعہ بنایا گیا ۔

پاکستان کے قیام سے ہی صحافت کو دبانے کی کوشش کی جاتی رہی یہ سلسلہ اب بھی زور و شور سے رواں ہے ۔ قیام پاکستان کے شروع سے ہی صحافت کو دباٶ میں رکھنے کے لیے ہتھکنڈے استعمال ہوٸے سول اور عسکری حکومتوں نے کھل کر اپنے موقف کے خلاف لکھنے اور بولنے والے صحافی حضرات کو تختہ مشق بنا ڈالا ایک رپورٹ کے مطابق جولاٸی 1951 سے جون 1952 تک روزنامہ آفاق ، احسان، زمیدار، کو تقریبا 3 لاکھ نقد عطیات دیے گٸے نیز من پسند اخبارات کو خریدنے کے لیے بہت سے اشتہارات بھی دیے گٸے جس سے عوام کو اصلیت اور حقاٸق پتہ نہ چل سکے

اس سے یہ بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں شروع سے ہی صحافت پروان نہیں چڑ سکی جس کا خمیازہ آج تلک سب بھگت رہے ہیں
1948 کو فیض احمد فیض کو گرفتار کیا گیا وہ ان دنوں روزنامہ امروز کے ایڈیٹر تھے اس اخبار پہ چھپنے والی ایک خبر سے حکومت کو اعتراض تھا اسی طرح 1949 میں سفینہ لاہور کو بند کردیا گیا جس پر بھی بے بنیاد خبر نشر کرنے کا الزام دھرا گیا

13 مٸی 1978 کا دن ہی سیاہ ہے صحافتی ادوار کے لیے کیوں کہ اس دن فوجی عدالتوں نے سرسری سماعتوں کے بعد چار صحافیوں کو کوڑوں کی سزا سناٸی تھی ان صحافیوں میں مسعود اللہ خاں ، اقبال احمد جعفری، نعیم ہاشمی اور ناصر زیدی شامل تھے اگر تمام ادوار کا سرسری جاٸزہ لیں تو ہم بخوبی جان سکتے ہیں کہ صحافی برادری نے آج تک کس قدر قربانیاں پیش کی ہیں یہ ایک طویل فہرست ہے شروع ایوب کے دور سے بھی کریں تو صحافت پابند سلاسل نظر آٸے گی اس دور میں میڈیا پر تابڑ توڑ حملے ہوٸے اور قبضے کیے گٸے میڈیا انڈسٹری پر اس کے تحت ملک کے سب سے بڑے خبر رساں ادارے PPA کو سرکاری قبضہ میں لیا گیا.
یحی کا دور بھی کافی صبر آزما تھا ایک فوجی کارواٸی کے بعد میڈیا پر سنسرشپ لگا دی گٸی اور خبریں سنسر شب کے بعد نشر کی تاکید کردی گٸی

1971تا 1977 میں بھٹو نے نہ صرف وہی رویہ روا رکھا بلکہ کٸی بڑے ایڈٹرز کو برطرف کردیا اسی طرح حریت اور ڈان کراچی کے چیف ایڈیٹز کو گرفتار کیا اس دور میں مجیب الرحمن شامی بھی گرفتار ہوٸے جو بعد میں روزنامہ پاکستان کے چیف ایڈیٹر بنے یہ سلسلہ ضیا ء الحق کے زمانے میں بھی جاری رہا اور مزید صحافیوں پر پابندیاں لگی اس دور میں سنسر شب مزید بڑھا دی گٸی اور پریس ایڈواٸس کا سلسہ شروع ہوا یہ تک بتایا جاتا ہے کہ سرکاری نماٸندہ خبر ہی کاٹ دیتا تھا ۔ بے نظیر ملک کی وزیر اعظم دو دفعہ بنی پہلا دور 1988تا 1990 اور دوسرا دور 1993 تا 1996 تک کا ہے یہ دور سیاہ دور تھا اور بھر پور انتقامی کارواٸیاں ہوٸی صحافیوں کے خلاف ۔ بے نظیر کے دور میں سندھ میں مظہر حسین نواٸے وقت کے اور احمد خان ppi کو قتل کیا گیا اسی طرح اسلام آباد کے رپورٹر حامد میر کو اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس کے علاٶ ہفت روزہ تکبیر کے مدیر صلاح الدین کو باز نہ آنے پر قتل کردیا گیا ۔

 

نواز شریف دور بھی تشدد اور جبر سے مملو ہے انکی پارٹی کے طلبہ نے صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا بعض میڈیا دفاتر میں حملہ کیا گیا اسی طرح ppp کے حامی اخبار مساوات کے اشتہارات بن کیے گٸے ۔ مشرف دور نسبتا اچھا دور ہے میڈیا کے لیے جس میں کم سے کم تشدد اور جبر ہوا پھر بھی صحافی قتل ہوٸے اس دور میں مشرف نے صحافیوں کو کنڑول کرنے کے لیے ہتک عزت کا قانون پریس کونسل آف پاکستان آڈیننس 2002 نافذ کیا پاکستان میں tv چینلز اور fm ریڈیو کا قیام مشرف ہی کے سر جاتا ہے ۔ ملک میں صحافیوں کے قتل کی رودات کافی دلخراش ہے شروع اگر 1994 سے کریں تو سر فہرست صلاح الدین کا نام ہے جن کو دفتر کے باہر گولیوں سے نشانہ بنایا گیا وہ MQM کے خلاف لکھتے تھے۔ 6 دسمبر 1996 کو روزنامہ پرچم کے بزنس مینجر محمد صمدانی کو بھی قتل کیا گیا قتل کرنے والے روزنامہ پرچم کے ایڈیٹر کو مارنا چاہتے تھے ٹارگٹ نہ ملنے پر صمدانی کو مار گٸے یکم فروری 2002 کو کراچی میں امریکی وال سٹریٹ جرنل کا بیرو چیف ڈینل پرل اغوا کے بعد قتل ہوا اسی طرح 2003 میں فری لانس لکھاری فضل وہاب کو منگورہ میں دکان کے باہر گولیوں سے قل کیا گیا

 

مزید براں 2005 کو FATA میں دو صحافی قتل ہوٸے اسی حملے میں دو صحافی زخمی بھی ہوٸے 2007 میں ایک افغان صحافی کو ہنگو میں قتل کیا گیا اسی سال محبوب خان ایک خود کش حملے میں شہید ہوٸے ۔ یہ نہ تھمنے والا سلسلہ آج تک جاری ہے اس میں خاص کر سندھ کی دھرتی شامل ہے جو ہمیشہ سے صحافتی کاموں کے لیے کٹھن رہی ہے سندھ میں وقتا فوقتا صحافی قتل ، اغوا اور ان کو تشدد کیا جاتا ہے سن 2012 کو سندھ کے علاقے خیر پور میں کارنر میٹنگ پر مسلح افراد کی فاٸرنگ سے دھرتی tv کے رپورٹر مشتاق خند شہید جبکہ 3 صحافی زخمی ہوٸے

 

اس سال بھی سندھ میں صحافیوں کے لیے اچھی خبریں موصول نہیں ہوٸی کٸی صحافی دباٶ کا شکار رہے کٸی تشدد کا نشانہ بھی بنے اور خاص طور پر جان محمد کی جنہوں نے ہمیشہ سچ دیکھایا دوسرے صحافیوں کے لیے نمونہ تھے نڈر اور بے باک تبصرے اور رپورٹنگ کرتے تھے آخر کار پیشہ سے وفادری کی سزا دے کر جان سے مار دیا گیا اور آج تک کوٸی خاطر خواں کارواٸی عمل میں نہیں آسکی جس کا ہمیشہ فاٸدہ جاگیر داروں ، نوابوں اور سیاست دانوں کو ہوتا رہا. بہر حال صحافت جان جوکھوں کا کام ہے.

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
85285

جماعت اسلامی کا سیاسی المیہ – خاطرات: امیرجان حقانی

Posted on

جماعت اسلامی کا سیاسی المیہ – خاطرات: امیرجان حقانی

ہمارے جماعت اسلامی کے دوستوں کا ایک خطرناک المیہ ہے. جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے الخدمت فاؤنڈیشن اور ریڈ فاونڈیشن سکولز چلتے ہیں.
ریڈ فاؤنڈیشن سکولز ایک بہترین بزنس ہے. دوسرے پرائیویٹ سکولوں سے ریڈ فاؤنڈیشن سکولز کی فیسیں زیادہ ہیں. مثلاً ریڈ فاؤنڈیشن سکول گلگت اور پبلک سکول اینڈ کالج گلگت اور اقراء روضۃ الاطفال سکول گلگت کے فیسوں کا تقابل کیا جائے تو ریڈ فاؤنڈیشن سکول کی فیس زیادہ ہے جبکہ پبلک سکول اینڈ کالج اور اقراء روضۃ الاطفال کی فیسیں کم ہونے کے ساتھ معیار بہتر ہے. تاہم ریڈفاؤڈیشن سکولوں میں یتیم بچوں کی ٹیوشن فیس نہیں لی جاتی اور کتابیں اور یونیفارم بھی فری میں دی جاتی ہے اور اس کے لیے باقاعدہ فنڈ رائزنگ کی محفلیں منعقد کی جاتیں ہیں اور لوگ کفالت کی پوری سکیم لیتے ہیں اور بچے کی تعلیم اور دیگر اخراجات ذمے لیتے ہیں.
اسی طرح الخدمت فاؤنڈیشن رفاہی کاموں میں بہت آگے ہے. اس کا اعتراف ہر ذی شعور اور باخبر کرتا ہے اور دنیا جہاں سے فنڈ رائز کیا جاتا ہے. لوگ اعتماد کرتے ہیں اور الخدمت والے بھی ہمہ وقت ایکٹیو رہتے ہیں.
ان کا سیاسی المیہ یہ ہے کہ یہ حضرات ریڈفاؤڈیشن سکولز اور الخدمت کی کاوشوں  اور دیگر رفاہی کاموں کو سیاست اور ووٹ سے جوڑ لیتے ہیں.
یہ آپ ذہن میں رکھے کہ پاکستان کی کوئی پارٹی یا فرد آپ کے رفاہی کاموں سے انکاری نہیں.
اگر رفاہی کاموں سے ووٹ ملنا ہے تو پھر الخدمت سے زیادہ آغا خان فاؤنڈیشن، ایدھی ویلفیئر، سیلانی ٹرسٹ، وغیرہ کو ملنا چاہیے. اگر تعلیمی اداروں کے نام پر ووٹ ملنا چاہیے تو پھر اقراء روضۃ الاطفال، AKES، وفاق المدارس وغیرہ کو ملنا چاہیے.
آپ ایک کام کیجئے. اگر آپ نے پاکستان کی مروجہ جمہوری پارلیمانی سیاست کرنی ہے. اور بہرحال اقتدار حاصل کرنا ہے تو آپ پاورپالٹیکس بیٹھ کر سیکھ لیں. آپ سیاسی طور پر ہر بار کسی نہ کسی کے پیٹ و پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں اور کسی کی گود میں گرتے ہیں
یہ تاریخ بہت لمبی ہے. اور اتفاق سے اس کو سیاست بھی کہتے ہو اور عبادت بھی.
او میرے پیارے جمیعتیو!
آپ کا یہ والا اسٹائل نہ سیاست ہے نہ عبادت. انتہائی پارلیمانی الفاظ میں آپ کے طریق واردات کو ڈھکوسلہ کہا جاسکتا ہے. آپ ہمیشہ ایک ایکسٹریم پر کھڑے ہوتے ہیں. آپ ساتھ دیں تو پیپلز پارٹی کی حمایت اور دشمنی پر آئیں تو بھٹو کی پھانسی میں فریق بنتے ہو.
آپ ماننے پر آئیں تو مولانا فضل الرحمن کو سیاسی لیڈر مانتے ہیں اور مخالفت میں آیے تو مولانا اور اس کی جماعت کی آڑ میں دیگر اکابر علماء تک کی بھی توہین کرتے ہو. اور سیاسی اتحاد کرنا ہوتو نواز شریف کے دروازے پر دستک دیتے ہو اور مخالفت پر آئے تو اس کو عدالت سے ڈس کوالیفائی کروانے میں “مرد مجاہد” کا کردار ادا کرتے ہو.
آپ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ کیمپ میں جانا چاہو تو ضیاء الحق کو امیرالمومنین مانتے ہو اور پھر دور ہوجاؤ تو اسی اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیتے. آپ کی عجیب و غریب سیاسی یتیمی پر مشتمل تاریخ بہت طویل ہے.
غرض آپ کا ہر سیاسی جماعت کے ساتھ یہی رویہ ہوتا ہے.
آپ ہی بتاؤ! آپ نے کس کے ساتھ جوڑ رکھا ہے؟ اور کس کو زک نہیں پہنچایا؟
اگر آپ نے پارلیمانی سیاست میں بہترین انٹری دینی ہے تو کچھ کام کیجئے اور کچھ سے مستقل گریز کیجئے.
اپنا سیاسی مائنڈ سیٹ چینج کیجئے. شوری کے نام پر غیر جمہوری اور زمینی حقائق سے نظریں نہ چرائیں.اور سیاسی نرگسیت سے باہر آجائیں. زمینی حقائق کو بہر حال فوکس کریں . پاور پالیٹکس سیکھیں. قومی ریاستی نظم کے اندر اپنے خوامخواہ کے گلوبل ایجنڈے سے باہر آجائیں. جے یو آئی کے نہیں تو انڈونیشیا کی نہضۃ العلماء کے منہج ہی کو دیکھ لیں اس باب میں.
افغان و کشمیر جہاد، الخدمت کے رفاہی کاموں، ریڈ فاؤنڈیشن سکولز اور دیگر خدمات کو پارلیمانی سیاست اور پاور پالیٹکس کے درمیان نہ لائیں اور نہ ہی ان کے نام پر ووٹ مانگیں. اور نہ ہی ان کو کاموں کو برتری کے لئے بطور پروپیگنڈہ پیش کریں.
نامور علماء اور دینی طبقات کی مخالفت سے گریز کریں. اور سیاست میں عقائد کو درمیان میں کھبی نہ لائیں.
سیاست میں مذاکرات اور اتحاد کے لئے ایک کھڑکی ہمیشہ کھلی رکھیں. ہر ایک سے خدا واسطے کی دشمنی سے سیاست نہیں ہوتی اور نہ ہی دوستی کے جھال میں لیٹا لیٹی شروع کریں. بلکہ اعتدال کیساتھ حدود میں رہیں.
اور نہ ہی اتحاد میں اتنا آگے جائیں کہ نزع کے عالم میں بھی عمران خان کے در پر سیاسی یتیم بن کر حاضری دیں.
اسٹیبلشمنٹ کے نہ اتنا قریب جائیں کہ ضیاء اور مشرف کی بی ٹیم بن جائے اور نہ ہی طاقتور اداروں سے اعلان جنگ کیجئے.
 یاد رہیں!
اگر آپ بطور سیاسی جماعت مستقبل میں یہی کچھ کرتے رہے تو مزید 82 سال میں بھی  کسی صوبہ یا مرکز میں حکومت نہیں بنا سکیں گے. آپ زیادہ سے زیادہ رونا دھونا، احتجاج کرنا اور پریشر گروپ ہی زندہ رہ سکتے ہیں.
فیصلہ آپ خود کیجئے.
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
85195

“جی بی گندم سبسڈی پروگرام” –   خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on

“جی بی گندم سبسڈی پروگرام” –   خاطرات :امیرجان حقانی

گندم شاید گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ایشو ہے. اور گندم جی بی کی سب سے بڑی ضرورت ہے. اور جی بی کے لیے گندم سے بڑی سبسڈی کوئی نہیں. اور شاید سب سے زیادہ کرپشن بھی گندم میں ہی ہورہی ہے.
پنجاب میں جس گودام سے گندم اٹھایا جارہا ہے اس گودام سے لے کر محلے کے ڈیلر تک ہر کوئی اپنا حصہ وصولتا ہے. یہ نرا جھوٹ ہے کہ  صرف چند کلرک، آفیسر یا منتظمین گندم کرپشن میں ملوث ہیں. بلکہ ٹرک ڈرائیور، گودام، فلورملز، آٹا سپلائی کرنے والے مزدے، ٹریکٹر اور محلہ کے ڈیلر تک ہر آدمی ہاتھ صاف کرتا ہے. اور شاید اس گندم کو بہانہ بناکر گلے کوچے کے کئی لوگ لیڈر بنے ہیں اور خوب مفادات بٹورے ہیں.
جی بی کے گندم سے بذریعہ کرپشن و فساد، ڈیپارٹمنٹ سمیت تمام وزیر مشیر اور اصحاب اقتدار اور سیاسی مذہبی رہنماؤں اور پریشر گروپس، سب مستفید ہوئے ہیں. عوام سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.
سوائے عوام کے ہر ایک نے اپنا الو سیدھا کیا ہے. اور بہتی گنگا میں اشنان کیا ہے. اس “گنگا کے گاہک” بہت سارے ہیں.
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس گندم کا مستقل کوئی حل نہیں کہ اس کو کرپشن سے پاک کیا جائے اور منصفانہ تقسیم کے ذریعے مستحق تک پہنچایا جائے.
اگر حکومت چاہیے تو یہ بہت آسانی سے ہوسکتا.
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ملک کے کروڑوں لوگوں کو شفاف طریقے سے ڈیل کرتا ہے اور سالوں قبل کسی غیر مستحق نے اس گنگا میں اشنان کرنے کی کوشش کی بھی ہوگی مگر سالوں بعد اسے ریکوری کی گئی، ایک ایک روپیہ. اب صرف مستحقین مستفید ہورہے ہیں. اتفاق سے اب ڈاکٹر امجد ثاقب اسکے امین ہیں. وہ مزید چار چاند لگائیں گے.
اگر جی بی حکومت، فورڈ ڈیپارٹمنٹ اور گندم کے نام پر سیاست کرنے والے اور ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران چاہیے تو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرح “جی بی گندم سبسڈی پروگرام” کے نام سے ایک بہترین آن لائن سسٹم وضع کیا جاسکتا. ایک ایسا شفاف سسٹم جسے گندم کا ایک دانہ بھی چوری نہ ہوسکے.
 “جی بی گندم سبسڈی پروگرام” کے لئے، ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے وژنری اور ایماندار شخص کی ضرورت ہے.
اگر ایسا ہوا تو یہ ایک بڑی خدمت ہوگی. کاش ایسا ہو.
مگر مجھے یقین ہے. یہ کبھی بھی نہیں ہوگا. کیونکہ اس سے گندم کے تمام اسٹیک ہولڈرز کا بھاری نقصان ہے. حکومت اور ڈیپارٹمنٹ بھی نہیں چاہیے گا. گندم کے نام پر سیاست کرنے والے مُلا و مسٹر بھی نہیں چاہیے گے اور کمیٹی کے احباب بھی.
کوئی اپنے “غیبی رزق، خواہ مخواہ کی بھرم، لیڈری اور پریشر ککر سے دستبرداری اختیار نہیں کرسکتا.
سب مل کر عوام پر بوجھ ڈال رہے ہیں.
نوجوانوں اور عوام کو چاہیے کہ اب ان لائن شفاف سسٹم کا ڈیمانڈ کریں اور ہر حال میں بائیو میٹرک ہو. شفاف بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے گندم/ آٹا کی تقسیم ہی واحد حلبہے. اور اس پر کمپین چلائیں. ورنا ہمیشہ اس ایشو پر خوار ہونے کا فائدہ نہیں.لہو آپ کا جلے گا چراغ کسی کا روشن ہوگا.
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
84849

اے۔کے۔ار۔ایس۔پی ۔ کے زیر اہتمام موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار کمیونٹیز کو ایمرجنسی صورت حال سے نمٹنے کیلئے تیار کرنے کی غرض سے شروع کئے جانے والے پراجیکٹ” BRAVE” کے سلسلے میں نالج حب کا قیام عمل میں لایا گیا

Posted on

اے۔کے۔ار۔ایس۔پی ۔ کے زیر اہتمام موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار کمیونٹیز کو ایمرجنسی صورت حال سے نمٹنے کیلئے تیار کرنے کی غرض سے شروع کئے جانے والے پراجیکٹ” BRAVE” کے سلسلے میں نالج حب کا قیام عمل میں لایا گیا

 

چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز) موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار کمیونٹیز کو ایمرجنسی صورت حال سے نمٹنے کیلئے تیار کرنے کی غرض سے شروع کئے جانے والے پر ا جیکٹ” BRAVE” کے سلسلے میں ایک نالج حب کا قیام اے کے آر ایس پی آفس چترال میں منعقدہ ورکشاپ میں عمل میں لایا گیا ۔ جس میں اس پراجیکٹ کے حوالے سے تجاویز و سفارشات پیش کئے گئے۔ اس موقع پر شرکاء نے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ چترال پر موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات تشویشناک حد تک بڑھ گئے ہیں ۔ بارش اور برفباری میں شدید کمی آئی ہے ۔ جس سے پانی کے ذرائع ختم ہو رہے ہیں ۔ جبکہ بے موسمی بارشیں الگ تباہی و بربادی پھیلارہی ہیں ۔ خشک موسم کے باعث فصلوں ،پھلوں اور سبزیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے ۔ جس کی وجہ سے لوگوں کو خوراک کے حصول اور زندگی گزارنے میں شدید مشکلات پیش آرہی ہیں ۔ اس لئے موسمیاتی منفی اثرات کو کم کرنے ،لوگوں کو متبادل زرعی وسائل سے استفادہ کرنے ،کماو فصل کے فروغ اور آبی وسائل کے تحفظ کیلئے اقدامات کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا گیا ۔

گروپ ورک میں مقامی مصنوعات کی ترقی کیلئے تربیت کی فراہمی ، واٹر چینلز کی بہتری ،سولرانرجی کو فروغ دینے ،آلودگی کم کرنے کیلئے شجرکاری ، پھلوں کیلئے کولڈ سٹوریج ، فوڈ پراسسنگ اور ویلیو ایڈیشن کی ضرورت ،بنجر آراضی کیلئے نہر کشی کرنے ،ریوربیڈ کے ساتھ متاثرہ اضافی زمین (شوتار) کو محفوظ کرکے قابل کاشت بنانے ،ڈھلوان زمینات کی ٹیریسنگ ،چیک ڈیمز واٹر شیڈ کے علاوہ ایگری بزنس ،جیم اینڈ جیولری ،فوڈ اینڈ ہوٹلنگ کی ترقی ،ڈیجیٹل سکلز اور میڈیا ایویرنس پر کام کی تجاویز پیش کی گئیں اور کہا گیا کہ چترال اب مون سون بارشوں اور گلاف سے متاثر ہونے والا خطہ بن چکا ہے ۔ جس کی وجہ سے نہ صرف انفراسٹرکچر اور زمینات کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ بلکہ خوراک کے مسائل کے باعث بھی انسانی زندگی اور حیوانات مشکلات کا شکار ہیں ۔ شرکاء نے اس امر کا بھی اظہار کیا ۔ کہ بزنس کی ترقی کے بغیر چترال کی ترقی ممکن نہیں ہے۔ اس لئے نوجوانوں کو سکلز دینےکی اشد ضرورت ہے ۔

قبل ازین فوکل پرسن اے۔کے۔ایف ظہور آمان ، لائیولی ہڈ اسپشلسٹ کنسرن شفقت اللہ ، آرپی ایم اختر علی، کو آرڈنیٹر BRAVE پراجیکٹ شمیم اختر نے پراجیکٹ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ پراجیکٹ اپر ،لوئر چترال ،نوشہرہ اور گلگتت بلتستان کے ضلع غذر اور استور میں کام کر رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کلائمیٹ چینج رسک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے ۔ لیکن موسمیاتی تبدیلی میں اس کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس موقع پر نالج حب کے عہدہ داروں کا چناو بھی عمل میں لایا آیا ۔

chitraltimes akrsp brave project workshop 1

chitraltimes akrsp brave project workshop 3

chitraltimes akrsp brave project workshop 2

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
84697

گلگت بلتستان: گندم سبسیڈی ختم کرنے کے خلاف  شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری 

گلگت بلتستان: گندم سبسیڈی ختم کرنے کے خلاف  شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری

گلگت( چترال ٹائمزرپورٹ)عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر گلگت بلتستان میں آج تیسرے روز بھی شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری ہے۔احتجاجی دھرنوں کے باعث شاہراہِ قراقرم گلگت پنڈی سیکشن اور گلگت ہنزہ سیکشن بند ہے۔ہنزہ اور غذر سے لوگ گلگت پہنچ کر اتحاد چوک پر مرکزی دھرنے میں شامل ہو رہے ہیں۔شٹر ڈاؤن ہڑتال کے باعث شہر کی تمام مارکیٹیں، بازار اور کاروباری مراکز بند ہیں۔اندرونِ شہر پبلک ٹرانسپورٹ اور بین الاضلاعی ٹرانسپورٹ بھی معطل ہے۔عوامی ایکشن کمیٹی کے کوآرڈینیٹر کا کہنا ہے کہ مطالبات کی منظوری تک احتجاج اور دھرنے جاری رہیں گے۔پہیہ جام شٹرڈاون ہڑتال سے گلگت بلتستان میں نظام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے، گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں گندم کی سبسیڈی ختم کرنے کے خلاف گزشتہ ۳۳ روز سے جاری ہے۔ جو اب شدت اختیار کرگیا ہے، گلگت بلتستان کے علاوہ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بھی احتجاج جاری ہے۔

chitraltimes gilgit protest for wheat subsidy

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged ,
84672

دیامر گلگت بلتستان میں غازی محمد عیسیٰ کامزار – تحریر : محمد خالد خان

دیامر گلگت بلتستان میں غازی محمد عیسیٰ کامزار – تحریر : محمد خالد خان

برصغیر پاک و ہند کے دور افتادہ کونے نوآبادیاتی حکمرانی کے سامنے جھکنے والوں میں شامل تھے اور چترال اور گلگت کے علاقوں کو خاص طور پر 1880 کی دہائی کے بعد انگریزوں کے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ہنگامہ خیز دور میں ایک نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے – محمد عیسیٰ غازی جو کہ برطانوی حملہ آوروں کے خلاف اٹوٹ بہادری اور مزاحمت کی علامت ہے۔

غازی محمد عیسیٰ نے اپنے ثابت قدم ساتھیوں کے ساتھ برطانوی فوج کے خلاف شدید مزاحمت کرتے ہوئے شیر افضل کے ساتھ اتحاد کیا۔ ان کی بہادری کی داستانیں تاریخ میں گونجتی ہیں کیونکہ انہوں نے متعدد بار برطانوی افواج کو کامیابی سے پسپا کیا۔ تاہم، بڑے پیمانے پر جدید ہتھیاروں اور مقامی حمایت کی آمد نے بالآخر نوآبادیاتی آقاؤں کے حق میں ترازو کو آگے بڑھایا، جس کے نتیجے میں چترال کے ایک معمولی محاصرے کے بعد مزاحمت کو بے دخل کر دیا گیا۔

مصیبت کے عالم میں، غازی محمد عیسیٰ کابل فرار ہو گئے اور ایک غدارانہ سفر شروع کیا جو بالآخر انہیں ضلع چلاس تانگیر لے آیا۔ یہاں، مقامی بزرگوں نے، اس کی ہمت سے متاثر ہو کر، مبینہ طور پر پناہ اور مدد فراہم کی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہیرو زہر کے ذریعے اپنے انجام کو پہنچا، اور اس کی آخری آرام گاہ گلگت کے ایک دور افتادہ گاؤں تحصیل تانگیر کے ایک گاؤں میں ہے۔

محمد عیسیٰ کی زندگی غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف بہادری اور غیرمتزلزل عزم کی ایک مہاکاوی ہے۔ جب کہ تاریخ کی کتابوں میں اس خطے کی جدوجہد کو بیان کیا گیا ہے، لیکن اس کی مزاحمت، اگرچہ 1830 میں سکھوں کے خلاف سعید احمد شہید کی مزاحمت کے مقابلے میں ہے، لیکن اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
غازی محمد عیسیٰ خاندان کے ایک فرد کے طور پر، ان کی بہادری کی داستانیں ہمیشہ دل موہ لینے والی تھیں، جس کا اختتام گھر سے بہت دور شمالی علاقہ جات کے ایک کونے میں ان کی المناک موت کے ساتھ ہوا۔ ان کے رشتہ داروں میں سے کوئی بھی ان کی آخری رسومات میں شرکت نہیں کرسکا، جو اس کی جدوجہد کی تنہائی کو ظاہر کرتا ہے۔

مجھے ضلع تانگیر میں غازی محمد عیسیٰ کے مزار پر جانے کا موقع ملا، کیونکہ میں نے اپر کوہستان میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) کا کردار ادا کیا جو جی بی کے تانگیر اور داریل سے بالکل متصل ہے۔

بالائی کوہستان کے معروف عالم دین مولانا غفور نے غازی محمد عیسیٰ کی آرام گاہ کا سراغ لگانے کے لیے بہت مہربانی کی اور 21 جنوری 2024 کو میں ان کے خاندان میں پہلا شخص بن گیا جس نے ان کی قبر پر تعزیت کی۔ یہ تجربہ گہرا تھا، جس کے چاروں طرف حیرت انگیز وائبز اور زبردست جذبات تھے۔ ہیرو گلگت کے ایک دور افتادہ گاؤں میں ہے، جو اس کی عظمت کا ثبوت ہے۔ میں مقامی عمائدین خاص طور پر حاجی شکرت خان، ایک جانی پہچانی شخصیت اور (تحصیل تانگیر کے نمبر دار) کو دورہ کے دوران ان کی مہمان نوازی اور تعاون پر دل کی گہرائیوں سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں، اور غازی محمد عیسیٰ کے بارے میں مزید کہانیاں شیئر کر رہا ہوں جو سن کر خوشی ہوئی۔

ضلع تانگیر کے کونے کونے میں محمد عیسیٰ غازی کا ورثہ زندہ ہے، جو ہمیں اس ناقابلِ تسخیر جذبے کی یاد دلاتا ہے جس نے غیر ملکی جبر کے خلاف مزاحمت کی اور اپنے لوگوں کی آزادی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔

chitraltimes mazar muhammad issa khan diamer gilgit long tumb chitraltimes mazar muhammad issa khan diamer gilgit kohistan

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
84601

ضلع دیامر کی شرح خواندگی اور مگرمچھ کے آنسو – خاطرات: امیرجان حقانی

Posted on

ضلع دیامر کی شرح خواندگی اور مگرمچھ کے آنسو – خاطرات: امیرجان حقانی

ضلع دیامر میں خواتین کی شرح خواندگی انتہائی کم یعنی11 فیصد بتلائی جارہی ہے.
اگر سروے درست کی گئی ہے تو اس گیارہ فیصد میں 8 فیصد یقینا دینی مدارس و مکاتب کی مرہون منت ہے.
ورنا تین  لاکھ سے زائد آبادی والے ضلع میں صرف ایک گرلز ہائی سکول ہے اور ایک ہوا میں فٹ گرلز انٹر کالج ہے جس کی عمر ایک سال ہے. اور ایک مرد اس کا پرنسل ہے. ایسے میں شرح خواندگی گیارہ فیصد ہونا ناممکن ہے. کیا یہ محکمہ ایجوکیشن (سکول و کالجز) کے منہ پر طمانچہ نہیں..؟
اصولی بات یہ ہے کہ یہ گیارہ فیصد شرح خواندگی بھی لڑکیوں کے ان مدارس کی مرہون منت ہے جو ضلع دیامر میں واقع ہیں یا دیامر کی بچیاں گلگت، غذر اور اسلام آباد پنڈی کی دینی مدارس للبنات میں رہائشی تعلیم حاصل کررہی ہیں.
مجھے معلوم ہے کہ دیامر کو طعنے دینے والے سوشل ایکٹوسٹ، صحافی، آفیسران اور دیگر ذمہ دار لوگ دیامر میں خواتین کی ایجوکیشن کے لیے کسی طور مخلص نہیں. اگر مخلص ہوتے تو طعنے دینے کی بجائے سرکار اور دیگر اداروں کو سوشل میڈیا کی مہم کے ذریعے مجبور کرتے کہ وہ دیامر میں خواتین ایجوکیشن میں ڈھکوسلہ بازی کی بجائے حقیقی اقدامات کریں. وہ ایسا کسی صورت نہیں کریں گے. آج تک دیامر کے کسی لکھاری، صحافی یا دانشوڑ نے اس کو موضوع بحث بنایا ہی نہیں.کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ دیامر کی ماں بیٹی پڑھی لکھی ہوئی تو دیامر کے نام نہاد دینداروں اور جی بی کے جعلی تعلیم یافتوں کی خیر نہیں.
لہذا سرکار سمیت دیگر تمام رفاہی و تعلیمی این جی اوز اور دیامر کے زبردستی دیندار،اور مفادات سے بھرے ممبران اسمبلی، دیامر میں خواتین ایجوکیشن پر کچھ بھی نہیں کریں گے. سوائے دینی مدارس کے. وہ جیسے تیسے لڑکیوں کو تعلیم دے رہے ہیں مگر کوئی ان کا ذکر تک نہیں کرتا. بلکہ ان کو ہی لٹریسی ریٹ کی کمی کا الزام دیا جارہا ہے.
راقم نے اپنے پیارے دوست مولانا امتیاز داریلی کے ذریعے اس پر ایک پورا تھیسز لکھوایا ہے اور انہوں نے شاندار ریکمنڈیشنز بھی دی ہیں. یہ کام بھی داریل کا مولوی کرگیا مگر کالج یونیورسٹی کا پینٹ بردار طعنے دے گا کام نہیں کرے گا.
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
84394

ولی محمد خان یفتالی ریجنل پروگرام منیجر آغا خان ایجنسی فار ہبیٹاٹ چترال ریجن تعینات

Posted on

ولی محمد خان یفتالی ریجنل پروگرام منیجر آغا خان ایجنسی فار ہبیٹاٹ چترال ریجن تعینات

چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) آغا خان ایجنسی فار ہبیٹاٹ AKAH’P پاکستان نے چترال ریجن کے لیے ولی محمد خان یفتالی کو ریجنل پروگرام مینجر تعینات کر دیا ہے۔آغا خان ایجنسی فار ہبیٹاٹ پاکستان AKAH’P نے نئے تعینات ریجنل پروگرام مینجر کو نئے عہدے کے لیے , آفیشیل نوٹیفکیشن جاری کر دیے۔

یاد رہے ولی محمد خان یفتالی گزشتہ کئی برسوں سے آغا خان ڈولمپنٹ نیٹ ورک(اے۔کے۔ڈی ۔ این ) کے ساتھ منسلک ہے۔ اس دوران وہ ادارے کے مختلف شعبوں و مختلف عہدوں پر بطور منیجر ایمرجنسی مینجمنٹ اور پروگرام آفیسر ،کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

ولی محمد خان یونیورسٹی آف پشاور سے سوشیالوجی اور پولیٹکل سائنس میں ماسٹرز کرچکے ہیں۔وہ پاکستان سے باہر انٹرنیشنل ڈیزاسٹرز پروگرام میں ادارے ہذا کی بھی نمائندگی کرنے کے ساتھ نیپال ٫یوگینڈا ٫،تاجکستان دوبئی ودیگر ملکوں میں منعقدہ کئی بین الاقوامی سیمنار میں شرکت کر چکے ہیں۔
یادرہے کہ ولی محمد خان یفتالی بابائے لاسپور گل ولی خان (مرحوم ) کے فرزند ارجمند ہیں، انکی بطور ریجنل پروگرام منیجر تعیناتی پر علاقے کے عوام نے نیک خواہشات کے ساتھ اس امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ دلجمعی اور احسن طریقے سے علاقے کے فلاح وبہبود کے کاموں کو سرانجام دیں گے۔ اور ادارے کو مذید ترقی سے ہمکنار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
84033

جی بی کے فضلاء : علمی کنٹریبیوشن – خاطرات : امیرجان حقانی

جی بی کے فضلاء : علمی کنٹریبیوشن – خاطرات : امیرجان حقانی

زمانہ طالب علمی میں مجھے اکابر علماء و مشائخ کی آپ بیتاں اور سوانح عمریاں پڑھنے کا بڑا شوق تھا. اس کا فائدہ یہ ہوا کہ “مشاہیر علماء گلگت بلتستان” کے نام سے ایک تحقیقی و تصنیفی سلسلہ زمانہ طالب علمی سے شروع کیا. قیام پاکستان سے پہلے کے فاضلین دارالعلوم دیوبند کو ابتدا میں رکھا. حیرت ہوئی کہ دو درجن سے فاضلین دارالعلوم دیوبند پر 80، 90 سالوں میں کسی نے کچھ نہیں لکھا. ایک دو شخصیات پر تاثراتی مضامین کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آیا.
ان بزرگوں کی سوانح جمع کرنے میں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے، وہ الگ کہانی ہے. پھر کھبی.
ان فاضل علماء کی گلگت بلتستان میں اشاعت دین کے حوالے سے بڑی خدمات ہیں اور اتفاق سے اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم بھی دلائی ہے اور کروڈوں کی جائیداد بھی چھوڑی ہے مگر اولاد اتنی ناہنجار کہ اپنے عظیم باپ پر دو چار لاکھ خرچہ کرکے کوئی کتاب ہی قلم بند کرواتی، مگر استخوان فروشوں کے اس قبیل نے آج تک اس کی زحمت نہیں کی. اللہ ایسی اولاد کسی کو نہ دے.
2015 میں اپنے ایم فل کے مقالے کے لئے گلگت بلتستان میں قیام امن کا ٹاپک چنا. سوچا کہ ایک باب گلگت بلتستان کے مسالک کا تعارف اور تاریخ پر لکھا جائے. چار مکاتب فکر کو چنا. گلگت بلتستان کی اسماعیلی برادری نے شاندار تصنیفی کام کیا ہے. درجنوں کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں.ان کی پوری تاریخ مرتب ہے. اہل تشیع کے اہل علم نے بھی اپنی جی بی کی تاریخ مرتب کی ہے اور اپنے اہل علم کی کاوشوں کو قلم بند کیا ہے. لٹریچر موجود ہے. نوربخشی برادری کی بنیاد ہی جی بی میں پڑی ہے. انہوں نے بھی اپنے تُراث کو شاندار انداز میں مرتب کیا ہے اور بہت سارا لٹریچر ان کی مختلف ویب سائٹس پر موجود ہے. ان کی کتابیں آن لائن موجود ہیں. ان تینوں مکاتب فکر کی کتابوں سے ریسرچر استفادہ کررہے ہیں. علمی مقالوں اور تحقیقات میں ان کی کتب کے حوالے استعمال ہو رہے ہیں.
جب اہل سنت کی تاریخ، ان کے علماء و مشائخ کی کاوشوں کو جاننے کی کوشش کی تو کچھ بھی نہیں ملا. جی بی کی چار مسلکی برادریوں میں اہل سنت آبادی 35 فیصد ہے. ان کے علماء قدیم زمانے سے یہاں موجود ہیں. دو درجن سے زائد علماء نے قیام پاکستان سے پہلے ہندوستان کے بڑے تعلیمی اداروں سے تعلیم مکمل کی ہے. باقاعدہ مستند اہل علم ہیں. ان سے پہلوؤں کی بات الگ ہے. . اب تو جی بی  اور پاکستان بھر میں گلگت بلتستان کے علماء کی سو سے زائد مدارس ہیں. ان کا سالانہ بجٹ اربوں میں ہے. یعنی اربوں روپیہ یہ حضرات، مدارس میں مختلف مَدوں میں خرچ کرتے ہیں. مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کراچی سے پھنڈر تک، لاہور سے گانچھے تک ان سینکڑوں مدارس میں ایک بھی دارالتصنیف نہیں جہاں گلگت بلتستان میں اہل سنت علماء کی دینی خدمات اور اہل سنت کی تاریخ و تراث اور دیگر علمی موضوعات پر کام ہورہا ہو.
اتفاق کی بات یہ ہے کہ ان مدارس کے ارباب و اختیار اور  اور جی بی کے  جید علماء کرام سے میری اچھائی شناسائی ہے. ہر ایک کے پاس اس کام کی اہمیت بلاکم وکاست بیان کی. مگر افسوس آج تک کسی نے سیریس نہیں لیا. کاش ایسا نہ ہوتا.
آج بھی دیامر، گلگت، استور، بلتستان اور غذر میں کئی امیر ترین دینی مدارس ہیں. ان کے ارباب چاہیے تو بہترین ویب سائٹ، میگزین اور شاندار تصنیفی کام کرسکتے ہیں. اور سابق علماء و مشائخ اور مبلغین و مفسرین کی کسمپرسی میں کی جانے والی دینی خدمات کی روئداد مرتب کی جاسکتی ہے. مگر اس عظیم علمی کنٹریبیوشن سے یہ حضرات کیوں کتراتے ہیں، آج تک وجہ سمجھ نہیں آ سکی. کراچی لاہور اود اسلام آباد میں گلگت بلتستان کے اہل سنت جید علماء کے کئی بڑے ادارے ہیں. وہ بھی اس اہم ترین ضرورت کی طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں.
آخر پورا علاقہ ایک صدی سے بانجھ کیوں ہے مجھے سمجھ نہیں آئی.
اگر آج کوئی سوال کرے کہ گلگت بلتستان میں اہل سنت کیسے آئے، مبلغین کون تھے. ان کی خدمات کیا ہیں، دین کیسے پھیلا، مساجد و مدارس کیسے بنے، اہل سنت میں بدعات کیسے ختم ہوئی، عقائد وافکار کی اصلاح کیسے ہوئی،تبلیغی جماعت گھر تک کیسے پہنچ گئی، ہزاروں حفاظ اور علماء کیسے پیدا ہوئے اور ان جیسے بے شمار سوالات کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں اور نہ کسی کتاب کا حوالہ مل سکتا ہے. کچھ باتیں زبانی کلامی چل رہی ہیں اور بس.
آج کے نوجوان فضلاء چاہیے تو اپنی صلاحیتوں کو اس طرح متوجہ کرسکتے ہیں. اگر ایسا ہوا تو اہل سنت کی تاریخ محفوظ ہوجائے گی. یہ ایک بہت بڑی علمی کنٹریبیوشن ہوگی. کوئی ہے جو اس صدا پر لبیک کہے..؟ خیر! نقار خانے میں طوطی کا کون سنتا ہے. مگر صدا دینا لازم ہے.
وہ حضرات، جن کے والدین نے قیام پاکستان سے پہلے متحدہ ہندوستان کے بڑے علمی اداروں سے پڑھا تھا ان پر لازم ہے کہ اپنے والدین کی دینی خدمات پر مشتمل مواد تیار کروا کر شائع فرمائیں. ورنا کل اپنے والدین کو کیا منہ دکھائیں گے. رسول اللہ کے صحابہ نے اپنے حبیب صل اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک ایک ادا محفوظ کی اور یہاں استخوان فروش لوگ باپ داد کا نام بیچ کھاتے ہیں. اور بس.
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
83778

پریکٹیکل بنو اور بناؤ –  خاطرات : امیرجان حقانی

Posted on

پریکٹیکل بنو اور بناؤ –  خاطرات : امیرجان حقانی

گزشتہ دو سال سے میں بہت زیادہ پریکٹیکل ہوگیا ہوں. مجھے دو چیزوں نے پریکٹیکل بنا دیا ہے. ایک وقت اور حالات نے، دوسرا مدرسے کی تعلیم اور زندگی نے. یہ درست بات ہے کہ میرا بیگ گراونڈ دیہاتی ہے. دیہاتی زندگی حقیقی معنوں میں عملی زندگی ہوتی ہے. لوگ سال بھر کام کرتے ہیں، میں گاؤں میں زیادہ نہیں رہا، مڈل تک، نصف تعلیم  چلاس شہر میں تکمیل ہوئی اور نصف گاؤں گوہرآباد میں. چلاس میں، میں اور میرا کزن تنویر احمد حقی، دوسری، تیسری، ساتویں اور آٹھویں جماعت میں اپنے کپڑے خود دھوتے تھے. اور روٹی سالن بھی خود پکاتے تھے اور برتن بھی خود دھوتے تھے. تایا ابو کے علاوہ سب گھر والے گوہر آباد میں ہوتے تھے تب. یوں میں بہترین کُک بھی ہوں.کمال کی روٹیاں بھی پکا سکتا. مجھ سے اچھا چائے کوئی نہیں پکا سکتا جو میرے قربت میں ہیں. اپنی فیملی کی شادیوں میں باقاعدہ سالن خود بناتا اور دیگر تمام پکائیوں کی نگرانی کرتا. چلاس میں اپنے تایا ابو عذرخان صاحب اور کچھ عرصہ بھائی سلیم کے کپڑے دھونا اور استری کرنا بھی ہم نے اپنے ذمہ لیا ہوا تھا. یہ بھی بچپن میں ایک پریکٹیکل لائف تھی. ہمارے دادا جان بھی کھیتی باڑی کے چھوٹے چھوٹے کام ہمیں سکھایا کرتے تھے. کبھی کبھی جنگل سے کاٹ کر لکڑی لانا، ماموں لوگوں کی بکریاں چرانا اور ان کا دودھ نکالنا میرے پسندیدہ مشاغل تھے.
بہر حال آٹھویں پاس کرنے کے بعد ہم کراچی سدھار گئے. مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کی.مدارس میں بہت سارے کام طلبہ کرتے ہیں. مثلاً اپنے کپڑے دھونا، استری کرنا، اور باری باری طلبہ کو کھانا کھلانا، مطعم کی صفائی کرنا ، مدرسہ کے لان کی صفائی، مسجد کی صفائی، درسگاہوں کی صفائی، واش رومز کی صفائی طلبہ کرتے ہیں. چھوٹے مدارس میں ہر طالب علم یہ کام کرتا ہے. یہ سب کام میں نے بھی کیے ہیں اور اس پر مستزاد کئی سال اپنے اساتذہ کے کپڑے دھوئے اور استری کی. جامعہ فاروقیہ میں داخلے کے بعد اساتذہ کے کپڑے اور مسجد اورمدرسے کی صفائی کی توفیق نہ مل سکی. باقی سارے کام وہاں پر بھی کیے.
 مدارس کے طلبہ اساتذہ کے کام اور خدمت فخریہ کرتے ہیں. بڑے مدارس میں طلبہ زیادہ ہوتے ہیں اور صفائی وغیرہ کے کاموں کے لئے ملازمین ہوتے ہیں اور اساتذہ گھروں میں فیملی کیساتھ ہوتے ہیں اس لیے طلبہ کو اساتذہ کی خدمت کا موقع کم ملتا، تاہم میری خوش قسمتی ہوئی کہ مجھے فاروقیہ جیسے بڑے ادارے میں بھی کئی اساتذہ کی مسلسل خدمت کا موقع ملا جن میں استاد ابن الحسن عباسی مرحوم، استاد عبداللطیف معتصم، استاد حبیب اللہ زکریا، استادمنظور یوسف کے چھوٹے چھوٹے کام کئی سال کیے. ان کے گھر جامعہ میں ہی تھے اس لیے زیادہ کام نہ ہوسکے.
عملی زندگی میں آیا تو اللہ نے اچھا سرکاری عہدہ دیا. پہلی ہی نوکری سترہ گریڈ کی ملی مگر اس آرام دہ نوکری کیساتھ مدرسہ نصرۃ الاسلام کے ساتھ جڑ گیا. جامعہ نصرۃ الاسلام گلگت میں تدریس و رسالہ کی ادارت کے ساتھ کئی سال بہت سے کام کیے. مثلاً میگزین آفس کی مسلسل سات سال صفائی خود کی. بہت دفعہ راتوں کو طلبہ کے واش رومز صاف کیے. شروع کے سالوں میں سالانہ تعطیلات میں دو دو ماہ، میں ہی پورے واش رومز صاف کرتا. مدرسہ خالی ہوتا تھا. تب جون جولائی میں سالانہ تعطیلات ہوتی تھی، جامعہ کا چار حصوں پر مشتمل لان کو پانی دیا کرتا تھا.نلکوں سے چار حصوں پر مشتمل بڑے لان کو پانی دینا جان جوکھوں کا کام تھا جو بڑے ذوق سے کیا کرتا تھا. یہ تربیت مجھے دینی مدارس سے ہی ملی تھا اور یہ ثواب کی نیت سے کیا کرتا تھا. کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے.
جامعہ نصرۃ الاسلام سے باہر شفٹ ہونے کے بعد جوٹیال جانا ہوا. وہاں بھی بہت سارے کام کیا کرتا. مثلا گائے کے لیے تازہ چارہ چاہیے ہوتا. کوئی کھیت خریدتا اور پورا سیزن چارہ خود کاٹتا تھا. بہن بھائی بھی ساتھ دیتے تھے. ہمارے ہاں شہروں میں عموماً ان کاموں کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور بالخصوص جن کے پاس سرکار میں اچھا عہدہ ہو، اس کو ایسے معمولی کام کرنے پر طعنے دیے جاتے ہیں. مجھے بھی یہ طعنے درجنوں لوگوں نے دیے مگر اللہ کا فضل ہے کہ مجھے فرق نہیں پڑا.
گزشتہ دو سال سے پڑی بنگلہ میں مکان کا تعمیراتی کام کروا رہا ہوں، مزدوروں کیساتھ باقاعدہ کام کرتا. بہت سارے کام خود کیے، کافی باجری جمع کیا، اس کو چھانی لگایا . پلاٹ کافی بڑا ہے. آج کل مزدور کیساتھ مل کر روڑا جمع کررہا ہوں. اپنے اسٹور کا چھت پر لکڑی خود لگایا. مٹی بھی چھان کرکے خود ہی اوپر لگا لیا. یوں تعمیراتی کاموں کا بڑا علم اور تجربہ حاصل ہوا ہے. مزدوروں ، ٹھیکیداروں اور مستریوں کے دھوکوں سے بچ رہا ہوں اور ان کی چالیں سمجھتا بھی ہوں. نئے تجربات بھی ہورہے ہیں تعمیراتی امور میں.
اپنے پلاٹ میں باغیچہ بنایا ہے. ایک سال میں چار سو کے قریب درخت  لگائے ہیں. دسمبر سے ہی شجرکاری شروع کرتا ہوں. یہ دوسرا سال ہے شجرکاری کا.
گائے کے لیے چارہ بھی کاشت کیا ہے. سال بھر پودوں اور چارہ کو پانی دیتا رہا.
بہر حال ان تمام کاموں میں اپنا آٹھ سالہ بیٹا عمر علی بھی ساتھ رکھتا. وہ بڑے شوق سے میرے ساتھ لگا رہتا ہے. میری چھوٹی چھوٹی بیٹیاں بھی زور زبردستی روز میرے ساتھ پلاٹ جاتی ہیں. بہنیں اور بیویاں بھی پلاٹ یاتری کرتی رہتی ہیں. کوئی نہ کوئی کام کرتی ہیں. سبزیاں اُگاتی، ان کی صفائی کرتی ہیں اور بےکار بوٹیاں نکال دیتی ہیں.کیاریاں بناتی ہیں. پھول اور گلاب لگاتیں ہیں. سبزیوں کو پانی دیتی ہیں میرے ساتھ. گھر میں بھی خوب سبزیاں اگائی ہوئی ہیں.
یہ عملی زندگی کی تربیت ہے. یہاں بھی کئی لوگ ترچھی نگاہوں سے ہمیں دیکھتے ہیں کہ اتنا بڑا آفیسر کام کرتا ہے. اور چمہ گوئیاں بھی کرتے ہیں. انہیں کیا معلوم میرے نبی صل اللہ علیہ وسلم نے کام کیے ہیں اور جن اساتذہ سے ہم نے کسب فیض کیا ہے وہ سب بھی کام کرتے تھے.. بہت بڑے بڑے علماء و مشائخ کی سوانح عمریاں پڑھی ہیں. بڑے بڑے دنیا داروں اور دینداروں کی لائف کا مطالعہ کیا ہے . وہ اپنے گھر کے بہت سارے کم خود کرتے تھے.
یہ میرے وہ کام ہیں جو پروفیشنل ذمہ داریوں، دینی کتب کی تدریس، مستقل مطالعہ، کالم نگاری اور کاروبار کے علاوہ ہیں. ان کاموں کے ساتھ گھر والوں کو بھی ٹائم دیتا. اور قریبی رشتہ داروں کو بھی. ان کاموں سے میری سوشل لائف کھبی ڈسٹرب نہیں ہوئی.
قارئین، اس ساری تفصیل کے پیچھے میرا فکر و خیال ہے. میں نے سینکڑوں بڑے لوگوں کی آپ بیتیاں پڑھی ہیں . ان کے لائف اسٹائل کو پرکھنے کی کوشش کی ہے. مسلم ہو یا غیر مسلم، یہ سب لوگ اپنے ہاتھ سے کام کیا کرتے تھے. ان کے درمیان کچھ اقدار میں یہ قدر بھی مشترک تھی. کام کرنے کے حوالے سے میرا وژن علمی اور عملی طور پر بالکل کلیر ہے. اس لئے مجھے ان سب کاموں میں مزہ آتا ہے اور کام کو انجوائے کرتا ہوں اور کام سے محبت بھی. جب کام سے محبت ہو تو آدمی تھکتا نہیں. اور میں بھی نہیں تھکتا.
آپ رسول اللہ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کیجیے. سیرت النبی کی کوئی سے مستند کتاب اٹھا لیجیے، آپ کو حیرت ہوگی کہ رسول اللہ کیسے کام کیا کرتے تھے. آپ کے صحابہ اور متبعین نے بھی خود کام کیا. رسول اللہ کے پاس لاکھوں جانثار تھے مگر اپنے کام خود کرتے تھے. یہی معمول اصحاب و ائمہ کا بھی رہا ہے. رسول اللہ اپنے کپڑے خود صاف کرتے، جوتے خود گانٹھتے تھے. اپنے کپڑوں کا رفو خود کرتے. اور بہت سارے کام کرتے تھے.
کام میں انسانی عظمت ہے. اس عظمت کے گرد ہی بہترین اور کامیاب معاشرے کی چکی گھوم رہی ہوتی ہے. ترقی یافتہ معاشروں میں یہ سب کام  بڑے بڑے مالدار اور عہدہ دار خود کرتے ہیں.
اللہ رب العزت نے محنت اور کام کرنے والوں کو بہت پسند کیا ہے. اللہ نے کامیاب اور فطری زندگی میں محنت اور کام کی عظمت و مرتبت کا اعتراف کیا ہے.
آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ تک الہی ایادن کو انسانوں تک پہنچانے والے تمام برگزیدہ انبیاء و رسل نے خود کام کیا ہے. کام اور محنت پیغمبروں کی صفت ہے. یہ سنت انبیاء ہے.
رسول اللہ کے فرامین کی روشنی میں
حضرت آدم علیہ السلام نے کاشت کاری کی، سوت کاتا۔
حضرت نوح علیہ السلام نے لکڑی کا کام کیا. اور اپنی محنت سے کما کر کھاتے تھے۔ محنت میں ہی عزت و عظمت اور طمانیت ہے.
حضرت ادریس علیہ السلام درزی کا کام کیا کرتے تھے تھے۔
حضرت شیث علیہ السلام سوت کاتتے تھے۔
حضرت داؤد علیہ السلام بادشاہ ہونے کے باوجود لوہے کی زرہیں اور اوزار بنایا کرتے اور اس  کمائی کا رزق کھاتے تھے۔
حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام نے اپنے ہاتھوں سے بیت اللہ کو تعمیر کیا.
اپنے پیارے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے محنت کو اپنا شعار بنایا ہوا تھا، کعبۃ اللہ کی تعمیر نو، مسجد کی نبویؐ کی تعمیر اور مدینہ منورہ کے دفاع کے لیے خندق کھودتے وقت آپؐ نے اپنے ہاتھوں سے کام  اور محنت کش کا جو عظیم کردار کائنات کے سامنے پیش کیا وہی ہمیں پریکٹیکل انسان بننے اور بنانے کے لیے کافی ہے. آپ صل اللہ علیہ وسلم نے کسی سفر میں پڑاؤ کے دروان پکائی کے لیے لکڑیاں تک جمع کی. کاش کہ رسول اللہ کی ان اداؤں کو ہی ہم اپنے لیے مشعلِ راہ بناتے. اے کاش!
حضرت جابر بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں کہ ہم غزوۂ احزاب کے موقع پر خندق کھود رہے تھے کہ ایک سخت چٹان آڑے آگئی۔ رسول اللہ کو صورتحال سے آگاہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت میں کہ تین دن سے کچھ نہیں کھایا تھا اور بھوک کی شدت کے باعث پیٹ پر پتھر باندھ رکھا تھا، تشریف لائے، کدال اٹھائی اور چٹان کو ریزہ ریزہ کر دیا ۔ (بخاری شریف)
اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے. حضرت براء بن عاذبؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم، خندق کی کھدائی کے موقع پر اپنے ہاتھوں سے مٹی اٹھا اٹھا کر باہر پھینکتے تھے۔ (بخاری شریف )
آپ صل اللہ علیہ السلام کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اکثر کام کرنے والے تھے. بخاری شریف میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اور ابوداؤد شریف میں حضرت عکرمہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ ’’عمال انفسہم‘‘ یعنی اپنے کام کاج خود کرنے والے تھے.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’خود کام کر کے کمانے والے‘‘ کی کمائی کو سب سے اچھی کمائی قرار دیا ہے ۔
بخاری شریف میں حضرت مقدام بن معدی کربؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اس سے اچھی کمائی کوئی نہیں کہ انسان اپنے ہاتھ کی محنت سے کھائے۔
کھبی موقع ملے تو عبدالستار ایدھی کی زندگی پڑھ لیجیے. کیسے کام کیا کرتے تھے. وہ تو اپنے ہاتھوں سے کئی کئی لاوارث بچیوں کو کھانا کھلاتے اور ان کی صفائی کرتے.
کئی عشرے بغیر کسی چھٹی کے کام کیا ہے.
ہمارے استاد شیخ سلیم اللہ خان رحمہ اللہ کے متعلق سنا ہے کہ انہوں نے پوری زندگی اپنے پان کا اگالدان  کسی کو صاف کرنے نہیں دیا یہاں تک کہ اپنی گھر والی کو بھی. کہا کرتے جب  میں خود گندگی کرتا ہوں تو خود ہی صاف کرونگا. مفتی شفیع عثمانی رح کے بارے کہیں پڑھا تھا کہ واش روم میں دوران تقاضا، واش روم کے ساتھ پانی کا لوٹا تک صاف کیا کرتے تھے. یہ ہمارے اکابر تھے جبکہ اصاغر کا حال بہت پتلا ہے.
امریکی سابق صدر اوباما آج بھی کام کرتے ہیں اور انتہائی مالدار اور طاقتور صدر ٹرمپ کی لائف کا اسٹڈی کریں. وہ آج بھی کام کرتے ہیں. انہوں نے دوران صدارت اپنے ہوٹل میں ویٹر کے جملہ کام سرانجام دیے. یہاں تک کہ ایک گاہک کے کتے کو بھی واک کروایا.کھبی فرصت ملے تو بل گیٹس، وران بفٹ کو ہی پڑھ لیں. یہ لوگ کام کو عظمت سمجھتے ہیں اور عظمت کے میناروں کو چھو رہے ہیں.
میں نے کسی آرٹیکل میں پڑھا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کے وزیر مشیر اور سیکریٹریز کے پاس مختلف اوزار کا بکس یعنی ایک کٹ ہوتی ہے. وہ اپنے گھر کے بہت سارے چھوٹے موٹے کام خود کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں معمولی گریڈ کا اے سی، ڈی سی، انجنئیر، ایکسین، سیکریٹری وغیرہ بھی اپنے گھر کا ایک بلب لگوانے کے لیے بھی کسی سرکاری ملازم کو بلواتے ہیں. چھوٹا سا گارڈن کی تزئین و آرائش کے لیے بھی سرکاری افسران کے ملازم ہوتے ہیں اور دولت مند لوگ ذاتی ملازم رکھتے ہیں.
وہ گھر کتنا بدقسمت ہوگا جن میں کھانا نوکر بناتے ہیں اور میاں بیوی مل کر نوکر کا بنایا ہوا کھانا کھاتے ہیں. کھانا تو وہی لذیذ ہوتا ہے جو بندہ گھر والوں کیساتھ مل کر خود تیار کرتا ہے یا گھر کی مائیں، بہنیں، بیویاں اور بہو بیٹیاں پکاتی ہیں. اب تو ہمارے ہاں اپنا کھانا خود گرم کرو والی روایت چل پڑی ہے. یہ افسوسناک رویہ ہے.
آپ اگر باپ ہیں تو اپنے بیٹوں کو بہترین تعلیم کیساتھ کوئی ایک ہنر ضرور سکھائیں اور گھر کے چھوٹے موٹے کام کرنا اور بچوں سے کرانا اپنے معمولات اور ترجیحات میں شامل کیجئے. آپ جب خود کام کریں گے تو آپ کو دیکھ کر بچہ پریکٹیکل بن جائے گا. رسول اللہ نے عمل پہلے کیا تقریر اور وعظ بعد میں کیا. ہمیں بھی چاہیئے کہ طلبہ اور بچوں کو لمبی نصیحتیں اور لیکچر جھاڑنے کی بجائے خود کام کرکے دکھائیں. بچے خود آپ کو کاپی کرلیں گے. آپ اگر ماں ہیں تو بچپن میں ہی بیٹوں کے ذمے چھوٹے چھوٹے کام لگا لیں اور بچت کرنے کے گُر سیکھا دیں اور بچیوں کو ترجیحی بنیادوں پر بچپن سے ہی سلائی کڑھائی اور کھانا پکانا اور گھر کو مینٹین رکھنا سکھا دیں. گھر کی منیجمنٹ، ارینجمنٹ اور مینٹینینس ایک بہت بڑا فن ہے. لاریب ماں سے بہتر ایک بچی کو یہ فن کوئی نہیں سکھا سکتا. ہمارے سکول، کالج اور یونیورسٹی کھبی نہیں اور نہ ہی ہمارے سلیبس میں اس کی گنجائش ہے. اگر بچی گھر کی بہترین ارینجمنٹ، منیجمنٹ  اور مینٹینینس سیکھ گئی تو کل کسی بڑے ادارے یا محکمہ کو خوب سنبھال سکے گی. ہوم اکنامکس میں ایم اے کرنے والی خواتین سے آن پڑھ سیکھی ہوئی خواتین بریانی بھی اچھی پکاتی ہیں اور روٹیاں بھی. اور گھر بھی اچھا مینٹین رکھتی ہیں، کیونکہ ان کی ماں نے انہیں گھرداری سکھا دیا ہوتا ہے. اور وہ سگھڑ بن چکی ہوتی ہے.
اگر گھر کے سب افراد کام کرنے والے بنیں تو گھر آباد ہوگا. اگر معاشرے کے سب کام کرنے والے بنیں تو معاشرہ کامیاب کہلائے گا اور اگر پورا ملک کام کرے گا تو ملک بہت جلد ترقی یافتہ ہوگا. ہمیں تیسری دنیا کے ملک کا طعنہ بھی نہیں پڑے گا. لہذا خود بھی پریکٹیکل بنو اور اپنے بچوں اور طلبہ اور گھر والوں کو بھی پریکٹیکل بنادو.
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
83407

مزاحمتی نہیں اصلاحی تحریک – خاطرات: امیرجان حقانی

Posted on

مزاحمتی نہیں اصلاحی تحریک – خاطرات: امیرجان حقانی

ضلع دیامر ایک طویل عرصے سے متنوع مشکلات کا شکار ہے. دیامر کے بعض علاقے بالخصوص داریل اور گوہرآباد قدیم زمانے سے مدنی زندگی گزار رہے تھے. لوگ بھی مدنی الطبع ہیں.انیسویں اور بیسویں صدی تک پورا جی بی اندھیرے میں تھا بالخصوص گلگت ریجن کے علاقے ہنزہ، نگر، گلگت اور غذر اور دیگر مقامات کے لوگ، راجاؤں، مہا راجاؤں اور دیگر  ظالم حکمرانوں کے شکنجے میں پھنسے ہوئے تھے. انہیں مڈل سکول تک کی سہولت نہیں تھی یا تعلیم کی ہی اجازت نہیں تھی ایسے میں داریل میں روحانی اور تعلیمی درسگاہیں ہوا کرتی اور چلاس اور گوہرآباد کے درجنوں لوگ ہندوستان کے بڑے تعلیمی اداروں سے تعلیم یافتہ تھے.
پھر شہری زندگی نے پلٹا کھایا اور سماجی و ریاستی زندگی کا ڈھانچہ ہی بدل کر رہ گیا.
ہنزہ، غذر وغیرہ کے علاقوں میں پرنس کریم آغا خان کی تعلیمی شروعات اور ریفارمز کی وجہ سے ان کے پیروں اور معتقدین میں تعلیمی انقلاب آیا بشمول مرو و خواتین میں.
ان علاقوں کے، آج کے، 50، 60 سال کے تعلیم یافتہ اور بڑی نوکریوں اور عہدوں والے لوگوں کے والدین اور اجداد وغیرہ کھیتی باڑی اور چھوٹے چھوٹے ٹیکنیکل پیشوں سے منسلک تھے. اور راجاؤں کے رحم و کرم پر تھے.
پرنس کریم آغا خان نے ان علاقوں میں بالخصوص تعلیم اور خواتین امپاورمنٹ پر فوکس کیا اور سماجی تبدیلی کا یہ سفر ساٹھ ستر سالوں میں مکمل ہوا اور کل تک جو لوگ بھیڑ بکریوں کے ساتھ رہا کرتے تھے ان کا لائف اسٹائل بدل گیا اور کل تک جن کے والدین سکول نہیں جاسکتے تھے آج وہ تعلیم اور جدید لائف اسٹائل کے رہنما کہلائے. اور مدنی الطبع اور عرف عام میں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوئے . ان علاقوں میں اگر پرنس کریم آغا خان کی ریفاہی اور تعلیمی تحریک نہ پہنچتی تو یہ لوگ آج بھی دنیا سے سو سال پیچھے ہوتے. وہاں کچھ مزاحمتی گروپس ضرور پیدا ہوئے مگر سماجی تبدیلی ان کی وجہ سے قطعاً نہیں آئی.
عمومی طور پر مزاحمتی اور مسلح تحریکیں وہاں اٹھتی ہیں جہاں ریاستی جبر ہو یا فیوڈلز اور سرمایہ داروں کی اجارہ داری اور استحصال و استیصال ہو.
دنیا میں ابھرنے والی اکثر مزاحمتی، مسلح اور خونی انقلابی تحریکیں ناکامی سے دو چار ہوئی ہیں، چند ایک کامیاب بھی ہوئی ہیں. تاہم ان کے سماج پر دو رس اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں.
 مزاحمتی تحریکوں میں اکثریت ریاستی ظلم و استحصال کے خاتمہ کے لئے وجود میں آئی ہیں، جبکہ دیامر میں ایسی کوئی صورت حال نہیں.
عموماً یہ تحریکیں  پورے سماجی نظام کو تبدیل کرکے متبادل نظام لانا چاہتی ہیں. اور اس کے لیے آخری حد یعنی خون خرابے تک جانا ہوتا ہے. ایسی کوئی سنگین صورتحال کا سامنا بھی نہیں ہے دیامر میں. ریاست کے تمام جمہوری و آئینی ادارے فعال ہیں جن کی گنجائش جی بی میں ہے. 1974 سے اب تک کی تمام لولی لنگڑی ہی سہی جمہوری و پارلیمانی امور و ایکٹیویٹز اور اسمبلیوں میں دیامر برابر شامل ہے.
بہت سی  مزاحمتی تحریکیں اشرافیہ اور جاگیردار اور نظریاتی آمریتوں کے خلاف ہوتی ہیں. اسکا بھی کوئی وجود نہیں دیامر میں. قبائل پر مشتمل متوسط طبقے کے لوگ ہیں اکثر.
 دیامر میں ایک مثالی معاشرے کے قیام کی ضرورت ہے جس کے لئے مزاحمتی، خونی انقلابی یا مسلح نہیں اصلاحی و فکری تحریک کی اشد ضرورت ہے.
عموماً یہ تحریکیں مسلح جدوجہد اور تشدد  و تعصب کے ذریعہ اپنے اہداف  حاصل کرنا چاہتی ہیں. یہ عموماً بادشاہت یا آمریت میں ہوتا ہے.یہ وہاں ہوتا جہاں ڈائیلاگ کے تمام دروازے بند ہوں. اور مکالمہ کی گنجائش ہی نہ ہو. کچھ تحریکیں جمہوری اور دستوری انداز میں اپنے اہداف و مطالبات کا حصول  چاہتی ہیں.
دیامر میں نہ بادشاہت و آمریت ہے اور نہ ہی جمہوری ایکٹیویٹز پر پابندی ہے.
دیامر میں ریاست پاکستان اور گلگت بلتستان کے تمام قوانین لاگو ہیں. ریاست بظاہر جبر  و استحصال نہیں قانون کی عملداری کی بات کررہی ہے. ریاستی ادارے بھی کسی قسم کا تشدد نہیں چاہتے. عدالتی نظام موجود ہے اور سرکار کے دیگر ادارے بھی. پھر کوئی  مسلح گروہ یا قبیلہ بھی موجود نہیں جو ریاستی رٹ کو چیلنج کریں اور نہ ایسا کرنے والوں کے حامی ہیں، بظاہر اگر دو چار بندوق بردار ہیں بھی تو ان کی حقیقت کیا ہے ہم سب جانتے ہیں. ان کو انتہائی پارلیمانی الفاظ میں اداروں کے “پروردہ” ہی کہا جاسکتا ہے . ان کے خلاف مزاحمتی تحریک کا سوال ہی نہیں ہوتا. ان کی نہ کوئی فکر ہے. نہ ان کے پاس دلیل ہے اور نہ ہی طاقت.
دیامر و کوہستان میں ریفارمز انتہائی آسان ہے. ایک مکتبہ فکر کے لوگ موجود ہیں جو بظاہر دین دار بھی لگتے ہیں. بدقسمتی سے ان کی دینداری چند عبادات پر منحصر ہے. تبلیغی جماعت نے لوگوں کو نماز کی حد تک پابند بنایا ہے. باقی کوئی اصلاح نہیں.
گلگت بلتستان کے تناظر میں اگر مثال سے تبدیلی کی بات سمجھایا جائے تو دیامر  اور کوہستان میں پرنس کریم آغا خان کی طرح کسی اہل سنت ریفارمر کی ضرورت ہے جو ان لوگوں کو ان کے مسلک و فقہ کی روشنی میں اصل دینی تعلیمات اور جمہوری اقدار سے روشناس کرائیں.
انہیں جدید تعلیم اور خواتین ایجوکیشن پر گامزن کرے اور غیر ضروری روایات و اقدار کو دلیل و برہان کی روشنی میں رد کرے. لوگوں کو میڈیا کے جملہ ٹولز کے استعمال سے ان فرسودہ روایات و مضر اقدار اور رواجات کی نفی کریں اور نقصانات بتلائیں اور انہیں یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جدید دور میں اسلامی و جمہوری اقدار ہی کے ذریعے کامیاب معاشرے تشکیل پاتے ہیں نہ کہ علاقائی اور قبائلی رسم و رواج اور بےکار اور لایعنی روایات سے.
اس کے لیے ایک کامیاب سماجی و اصلاحی رہنما کی ضرورت ہے جو پرنسپل کریم آغاخان کی طرح تعلیم اور فکر و نظر کے ذریعے ہی اپنے پیروں کاروں میں دھیرے دھیرے تبدیلی لائے نہ کی مزاحمت اور تشدد اور خونی انقلاب کے ذریعے.
اور تبدیلی لانے کے لئے ریاستی جبر بھی انتہائی نقصان دہ اور فساد پر مبنی ہے. اصلاح کا مطلب دینی و ریاستی نظم و باقاعدگی پیدا کرنا ہے. جس کے لئے سب سے بہترین طریقہ اصلاحی و فکری انقلاب ہی ہے.
دیامر و کوہستان کی سماجی بُنت اور ساخت ایسی ہے کہ ان میں تبدیلی لانے والا شخص بہترین دینی اور عصری تعلیم اور سالم فکر و نظر کا حامل ہو. روایتی علماء کے بس کی بات نہیں، اور یونیورسٹیوں کا جدید طبقہ بھی اپنی مخصوص ساخت و دانش کی بنا پر دیامر کوہستان میں سماجی تبدیلی نہیں لاسکتا. کیونکہ دیامر و کوہستان کا سماج آسانی سے اسکو قبول نہیں کرسکتا.
دیامر کے مولویوں اور اکثریتی عوام نے اپنے کلچر، روایات اور فرسودہ روایات کو ہی اسلام سمجھا ہوا ہے جس کی بنا پر وہ فکری اور اصلاحی ریفارمز نہیں کرسکتے.
دیامر میں اعمال میں اصلاح کے ساتھ افکار نو اور احیائی فکر کی تشکیل کی ضرورت ہے. طرز کہن پر اڑے ہوئے لوگوں کو آئین نو سے روشناس کرانا ہے. اس سے دیامر اور کوہستان میں سماجی و اسلامی پستی کا سبب  بننے والی آئیڈیالوجی ہی ختم نہیں ہوگی، بلکہ علم الکلام، فقہ اوراعمال و عبادات کے حوالے سے ایک نیا سانچہ وجود میں آجائے گا. اگر ایسا ہوا تو مادیت، قبائل پرستی اور شدت پسندی کا خاتمہ ہوجائے گا.
دیامر کوہستان میں ریفارمز کے لئے ریاست، ریاستی کارپرداز اور سنجیدہ علمی و سماجی حلقوں کو اس منہج پر کام کرنے کی ضرورت ہے. اس فکر و عمل کے نفاذ و ترویج کے لئے ادارے اور تنظیمیں اور این جی اوز وجود میں لائے جاسکتے ہیں. جن کا دو ٹوک اور واضح ضابطہ اخلاق اور اہداف ہوں . اس کی تفہیم مثال کے ذریعے یوں ہوسکتی ہے کہ جیسے امام غزالی نے آسیب زدہ اسلامی افکار و خیالات کی اپنی فکری تحریک کے ذریعے تطہیر کی اور احیاء علوم الدین لکھی.اور اصلاح کا بیڑہ اٹھایا.
دیامر و کوہستان کے سماجی ڈھانچے کا جائزہ لینے کا بھی یہی کہا  جاسکتا ہے کہ ضلع دیامر و کوہستان میں اسلامی افکار و خیالات اور امور میں قبائلی کلچر، سوچ اور عمل کا جن سوار ہوا ہے اور خطرناک قسم کا آسیب نے حملہ کیا ہوا ہے. اس آسیب کے خلاف ایک شاندار فکری و اصلاحی تحریک بپا کی جانی چاہیے. ہندوستان کے تناظر میں ایسی اصلاح پسند عملی و فکری تحریک کو سرسید اور علیگڑھ تحریک سے تعبیر کیا جاسکتا اور گلگت بلتستان کے تناظر میں پرنس کریم آغا خان کی تحریک کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے. دیامر اور کوہستان میں تحریک بپا کرنے والا شخص اسی علاقے اور انہیں کا ہم خیال و مشرب ہوتو یہ اصلاحی تحریک کامیاب سے ہمکنار ہوگی.
بہر حال دیامر و کوہستان میں سماجی تبدیلی کے لئے کسی مزاحمتی، خونی انقلابی یا مُسلح تحریک کی ضرورت نہیں. صرف اور صرف فکری واصلاحی تحریک ہی کے ذریعے پرامن اور بہترین سماجی اصلاح اور تبدیلی ممکن ہے. اسی کے ذریعے ہی دیامر و کوہستان کی تعمیر و ترقی ممکن ہے.
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
83052

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں پرائم منسٹر یوتھ لیپ ٹاپ سکیم کے تحت 660 طلبہ وطالبات میں لیپ ٹاپ تقسیم کردیا گیا۔

Posted on

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں پرائم منسٹر یوتھ لیپ ٹاپ سکیم کے تحت 660 طلبہ وطالبات میں لیپ ٹاپ تقسیم کردیا گیا۔

کے آئی یو میں پرائم منسٹر یوتھ لیپ ٹاپ سکیم کے تحت طلبہ وطالبات میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی شاندار تقریب کا انعقاد،وزیر اعلیٰ،صوبائی وزراء، وائس چانسلر سمیت دیگر زمہ داران کی بھرپور شرکت
گلگت بلتستان میں اعلیٰ تعلیم وتحقیق کے فروغ میں جامعہ قراقرم کا کلیدی کردار رہاہے۔وزیر اعلیٰ گلگت

گلگت ( چترال ٹائمزرپورٹ) قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں وزیر اعظم یوتھ لیپ ٹاپ سکیم کے تحت 660 طلبہ وطالبات میں لیپ ٹاپ تقسیم کیاگیا۔شعبہ تعلقات عامہ کی پریس ریلیز کے مطابق لیپ ٹا پ سکیم جو کہ پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کا ایک اہم اقدام ہے۔ جس میں نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی میں بااختیار بنانے اور تعلیمی مہارت کو فروغ دیناہے۔ تقریب میں 600 قابل طلباء میں لیپ ٹاپ تقسیم کیا گیا۔تقریب کے دوران لیپ ٹاپ حاصل کرنے والے طلبا کی خوشی قابل دید تھی۔لیپ ٹاپ تقسیم کے تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ جدید تقاضوں کے مطابق تعلیم کو آگے لے جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔لیپ ٹاپ سکیم تعلیم کو جدید تقاضوں پر لانے میں معاون ثابت ہوگی۔ہم سمجھتے ہیں کہ نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی سے بااختیار بنانا پاکستان کے مستقبل میں سرمایہ کاری ہے۔انہوں نے کہاکہ گلگت بلتستان میں اعلیٰ تعلیم وتحقیق کے فروغ میں جامعہ قراقرم نے کلیدی کردار ادا کیاہے۔جسے کسی صورت فراموش نہیں کیاجاسکتاہے۔جامعہ قراقرم ہمارا قومی آثاثہ ہے۔اس کی تعمیر وترقی اور فلاح وبہبود کے لیے ہم سب نے مل کر کام کرناہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ جامعہ کے مسائل کا احساس ہے اس لیے صوبائی حکومت نے قراقرم بورڑ کو واپس لانے کے لیے صوبائی کابینہ کے اراکین پہ مشتمل کمیٹی قائم کی ہے۔بہت جلد بورڑ کو واپس لائیں گے۔تاکہ جامعہ کے مالی مسائل حل ہونے سمیت گلگت بلتستان کے عوام کو امتحانات سے متعلق گھر کی دہلیز پر سہولیات میسر آسکے۔انہوں نے کہاکہ جامعہ قراقرم کو اپنے بساط کے مطابق ہرممکن تعاون فراہم کررہے ہیں اور مستقبل میں بھی تعاون کو جاری رکھیں گے۔ان سے قبل افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے وائس چانسلر ڈاکٹر عطاء اللہ شاہ نے کہاکہ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت نے ہر مشکل وقت میں جامعہ قراقرم کے ساتھ تعاون کیاہے۔جس پر صوبائی حکومت کا جتنا شکریہ ادا کیاجائے کم ہے۔تقریب میں ایچ ای سی کے ریجنل کوارڈنیٹر برائے لیپ ٹاپ سکیم محمد ماجد مصطفی نے اظہار خیال کرتے ہوئے ہائیر ایجوکیشن کی جانب سے ملک عزیز بلخصوص گلگت بلتستان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے ایچ ای سی کے چیئرمین کی ترجیحات سے متعلق تفصیلی گفتگو کی اور لیپ ٹاپ حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات کو مبارک باد پیش کیا۔لیپ ٹاپ تقسیم کی تقریب میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے علاوہ وائس چانسلر قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر عطاء اللہ شاہ، صوبائی وزیر تعلیم غلام شہزاد آغا،صوبائی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی ثریا زمان،معاون خصوصی زبیح اللہ،وزیر اعلیٰ کے سیکرٹری ثناء اللہ خان، ایچ ای سی کے ریجنل کوارڈنیٹر برائے لیپ ٹاپ سکیم محمد ماجد مصطفی،یونیورسٹی کے سینئرانتظامی وتدریسی افسران، مختلف اداروں کے زمہ داران،صحافی برادری سمیت لیپ ٹاپ حاصل کرنے والے طلبا موجود تھے۔

chitraltimes kiu gilgit laptop distribution cermony chitraltimes kiu gilgit laptop distribution2 chitraltimes kiu gilgit laptop distribution

chitraltimes kiu gilgit laptop distribution cermony gb

 

 

 

پاکستان ریلوے نے ٹرینوں کو حادثات سے بچانے کا کامیاب تجربہ کرلیا

لاہور(سی ایم لنکس)پاکستان ریلوے کی جانب سے ٹرینوں کو حادثات سے بچاؤ کا کامیاب تجربہ کرلیا گیا۔جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان ریلوے نے ٹرینوں کو حادثات سے بچانے کا کامیاب تجربہ کر لیا، جس کے بعد اب ریلوے ٹریک پر کسی انسان سمیت دیگر جانداروں اور مختلف ٹرانسپورٹ کی نشاندہی پہلے ہی ڈرائیور کو انفراریڈ لیزر تھرمل امیجنگ کے ذریعے ہو جائے گی اور ڈرائیور ز بروقت بریک لگا کر ٹرین کو حادثے کا شکار ہونے سے بچا سکے گا۔پاکستان ریلوے کو اکثر ریلوے کراسنگ یا پھاٹک کراس کرتے ہوئے حادثات کا سامنا رہتا ہے، جس سے نہ صرف ریلوے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے بلکہ قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔ریلوے انتظامیہ نے یونیورسٹی آف انجینئرنگ ٹیکنالوجی(یو ای ٹی) کی مدد سے ایک ایسی ڈیوائس تیار کی ہے، جو ڈرائیور کو ریلوے ٹریک پر آنے والے انسان، جانور یا کسی بھی قسم کی ٹرانسپورٹس کو شدید دھند یا اندھیرے میں ایک کلو میٹر کی دْوری سے انفرا ریڈ تھرمل امیجنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے فوری نشاندہی کرے گی۔ریلوے نے یہ آلات اپنے مختلف ٹرینوں کے انجن کے ساتھ لگا دیے ہیں، جس پر صرف 15 لاکھ کے اخراجات آئے ہیں۔ پاکستان ریلوے نے ملک کے مختلف شہروں میں چلائی جانے والی ٹرینوں میں اس ڈیوائس کو لگا کر تجربات کر لیے، جو کہ کامیاب ثابت ہوئے۔انفرا ریڈ تھرمل ٹیکنالوجی کی کامیابی کے بعد ریلوے انتظامیہ نے تمام ٹرینوں پر مرحلہ وار یہ آلات لگانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ رواں مالی سال کے اختتام تک ریلوے اپنی تقریباً تمام ٹرینوں میں اس جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کر دے گا۔

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged
82813

قلم کتا ب کے ساتھ دیگر جملہ ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا ہی جدید دور میں تعلیم کہلائے گی۔ڈائریکٹر کالجز گلگت بلتستان

Posted on

قلم کتا ب کے ساتھ دیگر جملہ ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا ہی جدید دور میں تعلیم کہلائے گی۔ ڈائریکٹر کالجز گلگت بلتستان
ضلع گلگت کے کھیلوں کے مقابلوں میں ڈگری کالج کے طلبہ حصہ لیں گے۔پرنسپل کالج

 

گلگت(نمائندہ چترال ٹائمز ) گو رنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مناور گلگت میں سپورٹ ویک کے اختتام تقریب تقسیم انعامات کے پروگرام سےخطاب کرتے ہوئے ڈائریکٹر کالجز پروفیسر جمعہ گل نے کہا طلبہ کی انٹرٹینمنٹ کے لئے بہترین پروگرامات کا انعقاد بہت زیادہ ضروری ہے۔ذہنی صحت کے ساتھ جسمانی صحت کی فٹنیس بھی کامیاب معاشروں کی علامت ہوتی ہے۔ہماری کوشش ہوگی کہ کتاب و قلم کے ساتھ دیگر تمام ہم نصابی سرگرمیوں کے انعقاد کے لئے سہولیات مہیا کریں ۔آج کی جدید دنیا میں صرف کلاس لینا اور قلم کتاب کو تھامے رکھنا تعلیم نہیں کہلائے گی بلکہ قلم کتا ب کے ساتھ دیگر جملہ ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا ہی جدید دور میں تعلیم کہلائے گی۔ڈائریکٹر کالجز نے مزید کہا کہ ہر بچے کے اندر ایک خاص ٹیلنٹ ہوتاہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ روبوٹک دور میں اپنی صلاحتیوں کو اسی انداز میں منظم کرنا ہے۔ جدید دنیا کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔طلبہ کو چاہئے کہ اپنے اساتذہ، کالج اور والدین کی خواہشات اور امیدوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر زیادہ سے زیادہ محنت کریں اور آگے بڑھیں۔ہم یہ مانتے ہیں کہ طلبہ کی تربیت میں سوسائٹی اور گھر کا کردار بہت اہم ہے تاہم سب سے بڑا کردار اساتذہ اور تعلیمی ادارے کا ہوتاہے۔ہم اساتذہ اور طلبہ کو اسی انداز میں آگے بڑھنا ہوگا۔

 

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کالج کے پرنسپل پروفیسر اسلم ندیم نے کہا ضلع گلگت کے کھیلوں کے مقابلوں میں ڈگری کالج کے طلبہ حصہ لیں گے ۔مناور کالج گلگت ریجن کے کالجز میں کوئز کمپیٹیشن کا انعقاد کرے گی جس میں تمام بوائز و گرلز کالجزکے طلبہ و طالبات ، میں مقابلہ ہوگا۔کالج انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ جو طلبہ اے گریڈ اور اے پلس میں فرسٹ آئیر پاس کریں گے سیکنڈ ائیر میں ان کی داخلہ فیس معاف کی جائے گی۔ لہذا تمام طلبہ کوشش کریں کہ سب کی فیس معاف ہو۔پوسٹ گریجویٹ کالجز میں سپورٹ کمیٹی کے زیر انتظام فٹ بال، والی بال اور کرکٹ کا ٹورنامنٹ منعقد ہوا۔ ہفتہ کھیلوں میں تمام طلبہ نے حصہ لیا۔ ڈائریکٹر کالجز، پرنسپل ، وائس پرنسپل اور دیگر سینئر اساتذہ نے کھیلوں میں حصہ لینے والے طلبہ، اساتذہ کی معاونت کرنے والی طلبہ ٹیم کو کیش ایوارڈ اور دیگر انعامات سے نواز ا۔جیتنے والی تینوں ٹیموں کے علاوہ مین آف دہ میچ،مین آف دہ سیریز اور نگرانی پر معمور اساتذہ و طلبہ میں بھی انعامات، کیش ایوارڈ اور سرٹیفیکٹ تقسیم کیے گئے۔طالب علم الطاف حیدر نے بہترین سپورٹ ویک کے انعقاد پر ، سپورٹ کمیٹی، پرنسپل ، اساتذہ کرام ، کالج منیجمنٹ اسٹاف، اور معاون ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا۔تقریب کے بعد ڈائریکٹر کالجز نے اسٹاف روم میں فیکلٹی ممبران کے ساتھ، کالج کے مسائل ، بی ایس اوراے ڈی اے پروگرام اور دیگر اہم ایشوز پر تفصیلی میٹنگ کی۔ پرنسپل کالج نے انہیں کالج کے مسائل پر بریفنگ دی.

chitraltimes govt post graduate college munawar Gilgit sports concluding cermony 2 chitraltimes govt post graduate college munawar Gilgit sports concluding cermony 4 chitraltimes govt post graduate college munawar Gilgit sports concluding cermony 5 chitraltimes govt post graduate college munawar Gilgit sports concluding cermony 1

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged
82801

دیامر ڈائیلاگ/ جرگہ – سوال تو اٹھے گا – خاطرات: امیرجان حقانی

Posted on

دیامر ڈائیلاگ/ جرگہ – سوال تو اٹھے گا – خاطرات: امیرجان حقانی

پانچ دن پہلے چلاس ہڈر کے مقام پر ایک مسافر بس پر، رات کے اندھیرے میں حملہ ہوا. جس میں کئی لوگ زخمی ہوئے اور گیارہ لوگ اللہ کو پیارے ہوئے، جن میں اہل سنت، اہل تشیع اور اسماعیلی برادری کے افراد شامل ہیں. پاک آرمی کے جوان بھی تھے. یہ حملہ نہیں ایک انتہائی بزدلانہ اور ظالمانہ اقدام تھا جس کی حمایت کوئی باشعور شخص کرہی نہیں سکتا.

کیا درندگی کی حمایت بھی ممکن ہے.؟

اس سانحہ فاجعہ کو لے کر حسب ترتیب بہتوں نے سیاست شروع کی اور مذہبی تعصب بھی، اور دیامر اور اہلیان دیامر کو رگیدنا فرائض منصبی سمجھا، جو افسوسناک ہے. سمجھ دار معاشرے، ادارے، پارٹیاں اور افراد ایسا نہیں کرتے. ایسا کرنے والے بھی موقع پرست بلکہ مفاداتیے اور سہالت کار ہوتے ہیں.

جی بی انتظامیہ اور مقتدر اداروں نے فورس کمانڈر اور وزیراعلیٰ کی سرپرستی میں  دیامر میں ایک جرگہ کیا. اس مکالماتی جرگے پر یار لوگ معترض بھی ہیں اور معترضین کو جواب دینے والے بھی.

بنیادی طور پر دونوں انتہاؤں پر ہے. سنجیدہ سوال کوئی نہیں اٹھاتا؟  سوائے تنقید برائے تنقید کے.

یہ ذہن میں رہے کہ کتنا ہی خطرناک مسئلہ کیوں نہ ہو اس کا حل مکالمہ اور مذاکرات میں ہے . یہ بین الاقوامی اصول بھی ہے روایت بھی. دنیا کے بڑے مسائل ایسے ہی حل ہوئے ہیں.

تاہم بنیادی سوال یہ ہے کہ
مکالمہ یا مذاکرات کن سے کیا جارہا ہے؟

کیا گرینڈ جرگے میں تقاریر فرمانے والے دیامر کے لوگ فریق ہیں؟
کیا وہ اس حملے کی ذمہ داری قبول کررہے ہیں؟

اگر وہ فریق ہیں اور حملہ کو تسلیم کررہے ہیں اور ان کے ڈیمانڈز ہیں تو یقیناً ان کے ساتھ مکالمہ و مذاکرات ہونے چاہیے اور کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا چاہیے.

اگر جرگے میں شریک عمائدین و علماء اور دیگر لوگ نہ فریق ہیں اور نہ ہی حملے میں ملوث ہیں اور نہ ہی تسلیم کرتے ہیں کہ حملہ انہوں نے کیا ہے اور  نہ حملہ آوروں کے حمایتی ہیں، بلکہ وہ تو دہشت گردوں کیساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی بات کرتے ہیں تو ان سے مذاکرات یا مکالمہ و جرگہ چہ معنی دارد…؟ یہ تو ڈھکوسلہ ہوا.

چلیں مان لیتے ہیں کہ ان عمائدین اور علماء سے مذاکرات و مکالمہ ہو.
تو پھرسوال اٹھیں گے.

کیا وہ گارنٹی دیں گے کہ آیندہ کوئی حملہ نہیں ہوگا؟

یا انتظامیہ اور عمائدین جرگہ کسی منطقی انجام تک پہنچیں گے کہ آئندہ ایسے حوادث نہیں ہونگے؟

اگر ان دونوں سوالات کا جواب مثبت ہے تو ایک بار نہیں بار بار، مکالمہ و مذاکرات اور جرگے ہونے چاہئیں،اگر جواب نفی میں ہے تو کم از کم انتہائی پارلیمانی الفاظ میں اس گرینڈ جرگہ کو ڈھکوسلہ ہی کہا جاسکتا ہے..
آخر یہ ڈھکوسلا سازی کب تک؟

پھر کیا کرنا چاہیے.؟

انتہائی سادہ الفاظ میں حملہ آوروں کو گرفتار کرکے کیفرکردار تک پہنچایا جائے .کیفرکردار تک پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ مذاکرات و مکالمہ کے ذریعے ہمیشہ کے لئے توبہ تائب ہوتے ہیں اور ہر قسم کی گارنٹی دیتے ہیں تو انہیں محبت اور قانون کی زبان سے سلوک کیا جائے.
اگر نہیں تو پھر سیدھا سیدھا ڈنڈا اور قانون استعمال ہو.

سو باتوں کی ایک بات، مذاکرات، مکالمہ یا جرگہ کرناہے تو اصل فریق / مجرم سے کیجئے.

عام آدمی کو تنگ کیوں کرتے ہو.؟

اور ہاں دیامر کا عام آدمی بھی تو ایسے ڈھکوسلوں کے لئے ہمہ وقت دستیاب رہتا ہے.
کھبی علماء و عمائدین کی شکل میں، کھبی یوتھ موتھ کی شکل میں.
کہیں ان کا “رزق حلال” بھی  ان مذاکرات، ڈائیلاگ اور جرگوں یعنی ان ڈھکوسلوں میں پوشیدہ تو نہیں؟

ویسے ایک سوال یہ بھی اٹھ سکتا ہے کہ
آخر اصل فریق کون ہوسکتا ہے؟ یعنی اصل مجرم

سوال تو اٹھے گا. آپ بھی سنجیدہ سوال اٹھائیے گا.
مذہبی و علاقائی تعصب نہ برتیں پلیز. کام کی بات کیجئے. ہم بھی آپ کیساتھ ہونگے.

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
82799

کنگ سلمان ریلیف نے گلگت بلتستان کے تین اضلاع سمیت پاکستان میں 25,000 ونٹر ریلیف کٹس تقسیم کئیں 

کنگ سلمان ریلیف نے گلگت بلتستان کے تین اضلاع سمیت پاکستان میں 25,000 ونٹر ریلیف کٹس تقسیم کئیں

گلگت ( چترال ٹائمز رپورٹ ) کنگ سلمان ریلیف سینٹر نے پاکستان میں 25000 ونٹر ریلیف پکیج کی تقسیم کا عمل NDMA، PDMAs ، GBDMA ، مقامی حکومتوں اور حیات فاؤنڈیشن کی مدد سے مکمل کرلیا تاکہ مستحق افراد کو سخت سردى میں ریلیف میسر ہو۔
اس ونٹر پیکج کے تحت خیبرپختونخوا کے پانچ اضلاع ، بلوچستان کے چار اضلاع اور گلگت بلتستان کے تین اضلاع میں 25,000 ونٹر ریلیف پکیج تقسیم کئے گئے۔ ونٹر پیکیج میں 2 عدد لحاف ، مردانہ زنانہ گرم شالیں اور بچوں و بڑوں کے لیے گرم ملبوسات شامل بیں۔ جس سے مجموعی طور پر صوبہ خیبرپختونخوا ،بلوچستان اور گلگت بلتستان میں 1 لاکھ 75 ہزار سے زائد افراد مستفید ہوئے۔

chitraltimes king salman relief distribution GB and balochustan 1 chitraltimes king salman relief distribution GB and balochustan 4 chitraltimes king salman relief distribution GB and balochustan 2

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged
82736

سفرنامہ – گلگت ہنزہ ویلی – تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر

سفرنامہ – گلگت ہنزہ ویلی – تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر

 

بلند و بالا سنگلاخ اورفلک شگاف پہاڑوں کے درمیان واقع صوبہ گلگت بلتستان قدرتی حسن سے مالامال ہے یہاں کے بلند و بالاپہاڑوں سے بہتے ہوئے ابشاریں ،ندی نالے کے دلکش مناظر اورخوبصورت جھیلیں دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف رخ کرنے پرمجبور کرتی ہیں۔

 

13نومبر2023 کواے کے آرایس پی کے دفترسے برادرسیدعارف حسین جان کاایک فون آیاکہ کل یعنی 14نومبرکوپانچ روزہ ایکسپوژرٹورپرگلگت اورہنزہ جاناہے آپ تیارہوکرصبح 8بجے دفترآجائیں ۔اُن کے بات کوٹالنے کی کوشش کی مگرانہوں ضدکی کہ آپ کاآنالازمی ہے۔14نومبرکے صبح جب اے کے آرایس پی آفس پہنچاتووہاں سے چارگاڑیوں کاایک قافلہ بالکل تیارکھڑے تھے پہنچتے ہی مجھے ایک گاڑی میں بیٹھادیا۔مقررہ ٹائم پراپناسفرجاری رکھاجب بونی آفس پہنچ گیا تو وہاں سے کچھ خواتین وحضرات ہمارے قافلے میں شامل ہوئے ۔اس معلوماتی دورے میں 4ڈرائیوروں سمیت کل 19افرادیعنی 6خواتین اور باقی مرد شامل تھے ۔ اس گروپ میں اپرچترال سے ایم ایس ٹی ایچ کیوہسپتال بونی ڈاکٹرفرمان علی،سوشل ویلفیئر آفیسراپرچترال ضیاء الرحمن،ڈپٹی ڈی ای اومحکمہ ایجوکیشن اپرچترال مقدس خان ، ثریا شہاب،غزالا بی بی ،حوریابی بی،گل قیہ اورلوئرچترال ارندوسےسوشل ورکرعبدالاکبر،وی سی چیئرمین بازاردروس عبدالقادر،کالاش کمیونٹی سے ممبرتحصیل کونسل اُنت بیگ ،رمبورسے خواتین یوتھ کونسلرشاہی گل، دروش سے سماجی کارکن زینب سجاداورناچیز شامل تھے۔جبکہ اے کے آر ایس پی کی طرف سے سیدعارف حسین جان اس ٹیم کی سہولت کاری کر رہے تھے ۔

chitraltimes GB gilgit hunza tour akrsp 1

چترال سے گلگت تک راستے میں جگہ جگہ کام ہورہاہے ۔ٹوٹے پھوٹے راستوں میں گاڑی زور زور سے ہچکولے کھاتی تھی ہم اندر سیٹوں پہ بیٹھے اوپر اچھلتے تھے۔جگہ جگہ روڈکھولنے کاانتظارکرتے ہوئے برست چیک پوسٹ سے آگے اندھیرا چھاگیا۔آس پاس کے خوب صورت مناظر کو بھی جی بھر کے دیکھنے کا موقع نہ ملا ۔ وہ کچی ٹوٹی پھوٹی سڑک کبھی کھیتوں کے بیچ سے ،کبھی نالے کے ساتھ ساتھ،کبھی خشک پہاڑوں کے دامن سےگزرکررات 1بجے ہم گلگت شہرپہنچ گئے۔

 

اس ایکسپوژرٹور کواپراورلوئرچترال میں گورنمنٹ افیشلز اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو جی بی سی میں باہمی رابطہ مزیدفعال بنانے کے حوالے سے آغاخان رورل سپورٹ پروگرام چترال نے کنیڈین گورنمنٹ کی مالی معاونت سے بیسٹ فارویئر پراجیکٹ کے زیراہتمام انعقاد کیاتھا۔تاکہ سرکاری ،غیرسرکاری اورعوامی نمائندوں او ر برادریوں کے آپس میں باہمی تعلقات مضبوط ہو۔ خواتین کی معاشی خودمختاری ہی خواتین کی صحیح معنوں میں آزادی اورترقی کی ضامن ہیں۔
دوسرے دن ہمیں اے کے آرایس پی کے کورآفس گلگت لے گیاجہاں پروگرام منیجرایم این ای ذیشان ، جینڈر اسپیشلسٹ اے کے آر ایس پی سوسن عزیز،ایریامنیجر راحت علی ،منیجرصحت مندخاندان فریدہ ناز، پروگرام منیجرسول سوسائٹی منیرہ شاہین،نیازاحمدشاہ اوردوسروں نے بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ آغا خان رورل سپورٹ پروگرام (AKRSP)جی بی اورچترال کے پسماندہ اوردورافتادہ علاقوں میں ترقیاتی کاموں کےجال بچھانے کے ساتھ ساتھ اقتصادی ترقی، علم تک رسائی، غربت کے خاتمے ، سماجی شمولیت کو فروغ دینے ،کاروبار، صحت اوردیگرشعبوں میں بے شمارخدمات سر انجام دی ہیں ۔

chitraltimes GB gilgit hunza tour akrsp 6

اے کے آرایس پی کا قیام 1982کوعمل میں لایا گیا تھا جس کامقصدپسماندہ دیہی علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ مختلف امورپرآگاہی دیناہے ۔اے کے آرایس پی چترال میں لوگوں کوہنرمندبنانے میں سماجی،معاشی،معاشرتی،،نفسیاتی ،تکنیکی ، زرعی، پن بجلی گھر اوردوسرے شعبوں میں اہم کرداراداکررہاہے ۔
آغا خان رورل سپورٹ پروگرام اپنے شراکتی طریقہ کار کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنانے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں ۔ جس میں غیرسرکاری اور علاقائی تنظیمیں متعلقہ علاقوں میں خواتین تک رسائی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ ادارہ ہذا معاشرے کے تمام طبقوں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے تاکہ معاشرے میں حقیقی معنوں میں تبدیلی آ سکے اور کوئی بھی حصہ اس سے شمولیت سے محروم نہ رہے۔

 

گزشتہ چالیس سالوں سے اے کے آرایس پی جی بی اور چترال میں مختلف ورکشاپس ،کانفرنس،سمینار، ریسرچ،، تعلیمی کورسز، کمیونٹی ورک اوردوسرے پروگرام کے ذریعے گھرگھرآگاہی پہنچانے کی ہرممکن کوشش کرر ہے ہیں ۔اوردیہی خواتین کے معاشی کردار کی پذیرائی کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کے حل اور ترقی کے لیے کثیر الجہتی حکمت عملی کررہی ہیں۔کئی چیلنجز کامقابلہ کرتے ہوئے پسماندہ علاقوں میں لوگوں کے معاشی حالات میں نمایاں تبدیلی لائی ہیں ۔ترقی سے مراد صرف سائنس یا ٹیکنالوجی کی موجودگی نہیں، بلکہ ترقی کا اصل مقصد اس معاشرے میں رہنے والے انسانوں کی حالت و روزمرہ زندگی میں بہتری لاناہے جس میں اے کے آریس کااہم رول ہیں ۔

chitraltimes GB gilgit hunza tour akrsp 7
آغاخان رورل سپورٹ پروگرام صنفی مساوات،اخلاقیات،مثبت ثقافتی پہلووں ،بچوں کے حقوق ،نوعمروں کی نشوونما، انفارمیشن ،ایجوکیشن ،بچوں اوربڑوں کی مینٹل ہیلتھ ،زندگی میں خوداعتمادی پیداکرنے اورذہنی وجسمانی صحت کاخیال رکھنے قدرت کی طرف سے عطا کی گئی صلاحیتوں کوصحیح معنوں میں استعمال واُجاگر کرنے کا درس ہرفورم میں دے رہی ہیں ۔پسماندہ علاقوں کی دقیانوسی اصولوں کامقابلہ کرتے ہوئے نوجوان نسل خاص کرخواتین کو معاشرے کا فعال اور مثبت رکن بنانے میں ایک نیا باب رقم کی ہے ۔

بعدمیں چترال سے آئے وفدکو سوشل ویلفیئر, پاپولیشن ویلفیئر اور وومن ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کا دورہ کیا۔جہا ں سیکرٹری سوشل ویلفیئر ، ویمن ڈویلپمنٹ ، ہیومن رائٹس اینڈ یوتھ افیٔرز فدا حسین چترال وفدکوخوش آمدیدکرتے ہوئے گلدستہ پیش کیا۔سیکرٹری فداحسین کاتعلق ضلع غذرسے ہےجو کھواربولتے ہیں اس وجہ سے انہوں نے ہماری مہمان نوازی میں کوئی کسرنہیں چھوڑی ۔

 

مختصربریفنگ دیتے ہوئے انہوں نےکہاکہ گلگت چترال ایکسپریس وے منصوبے کی تکمیل سے یہاں کے سیاحت کوفروع ملے گا۔ چترال اورگلگت بلتستان ایک گھرکے مانندہیں ہمارے زبان ،روایات اورکلچرمشترک ہے ہماری مہمان نوازی اورمنفرد کلچرپوری دنیامیں اپنی مثال آپ ہے ۔صوبہ گلگت بلتستان کا رقبہ تقریباً 73 ہزار مربع کلومیٹر (28 ہزار مربع میل) سے زیادہ ہے اور2017کے مردم شماری کے مطابق گلگت بلتستان کی کل آبادی 14لاکھ 92ہزارہ ہے ۔یہاں شینا، بلتی،بروشسکی، کھوار اور وخی بولی جاتی ہے ، جبکہ سب سے بڑی زبان شیناہے جو کہ 65 فیصد لوگ سمجھ سکتے ہیں۔

chitraltimes GB gilgit hunza tour akrsp 4

دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم،ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ جب کہ دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشئیر بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔ پاکستان اور دنیا بھر سے سیاح اس خطے کا رخ کرتے ہیں اور یہاں ٹریکنگ اور کوہ پیمائی کی اہمیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ اے کے آرایس پی گلگت بلتستان کے دور افتادہ علاقوں اور دیہی علاقوں میں تنظیمیں بنا کر خواتین کو اپنے پا وں پر کھڑا کرنے سمیت دیہی علاقوں کے تعمیر وترقی اور انکی زندگیوں میں تبدیلی کے لئے کردار ادا کیا گیا ۔ اے کے آرایس پی ہرمشکل وقت میں عوام اور حکومت کے شانہ بشانہ مصروف عمل ہیں گلگت بلتستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں اے کے ڈی این کے تمام اداروں کے پوری ٹیم ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔

 

اس موقع پر سابق ممبرقانون سازاسمبلی گلگت بلتستان شہزادہ کنزظاہرہ اجلاس میں بیٹھی تھی چترال سے آئے وفدسے ملاقات کرکے انتہائی خوشی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ اے کے آر ایس پی نے جس طرح گلگت بلتستان کے لوگوں کی زندگیوں کو تبدیل کیااور ترقی کی راہ پر گامزن کیا جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔جی بی کے خواتین مختلف علاقوں میں دقیانوسی اصولوں کامقابلہ کرتے ہوئے معاشرے کا فعال اور مثبت رکن بننے کی عزم کے ساتھ آگے آنے کی ضرورت ہے اور قدرت کی طرف سے عطا کی گئی صلاحیتوں کوصحیح معنوں میں استعمال واُجاگر کرکے ملک کی ترقی میں اپناحصہ ڈال سکتے ہیں۔اس وقت صوبائی اسمبلی ڈپٹی اسپیکربھی خاتون ہے ۔
یہاں سے فارغ ہوکرساتھ ہی خصوصی افراد کی ایک سنٹرکادورہ کیاجہا ں درجنوں میل فیمل خصوصی افرادپڑھائی کے ساتھ ساتھ ہنربھی سیکھ رہے ہیں ۔سی ای اوامجدندیم فاونڈیشن تمغہ امیتازامجدندیم جوخودویل چیئرپرچل پھررہاہے۔مگرمحنت ،لگن اورخدمت کے جذبے سے سرشارنوجوان امجدندیم خودتومعذورہیں لیکن حوصلے اورجہدمسلسل نے انہیں آج معاشرے کی کارآمدافرادکی صف میں لاکھڑا کیاہےدوران طلب علمی پشاورمیں حادثے کا شکار ہو گیاتھا اور تب سے انہیں ویل چیئر کا استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔جسمانی معذوری بھی امجدندیم کے حوصلے کوپست نہ کرسکااوروہ آج دوسرے خصوصی افرادکے لئے اُمیداورکامیابی کی مثال بن چکی ہیں۔امجدندیم نے سب سے پہلے گلگت بلتستان بھر کے خصوصی افراد کی حقوق کے لیے جنگ لڑی انہیں ویل چیئر سمیت دیگر ضرورت کی چیزیں مہیا کی۔انہوں نے افراد باہم معذوری کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دینے ،اُن کےجائز حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے اورکسی کے ساتھ امتیازی سلوک کے خدشات کوخاتم کرنے کے لئے امجدندیم فاونڈیشن کاقیام عمل میں لایاہے ۔گلگت بلتستان میں اپنی نوعیت کا پہلا سنٹر ہے جہاں معزور افراد کو خودمختار بنانے کے لیے انہیں مختلف ہنر سیکھائےجاتے ہیں۔یہاں سے فارغ ہوکردنیورایل ایس او کاوزٹ کیاجہاں خواتین مردانہ بالادستی کوکم کرکے مردخواتین کوبرابری کی بنیادپرکام کرنے کے حوالے تفصیلی گفتگوکی۔

chitraltimes GB gilgit hunza tour akrsp 5

دوسرے دن: صبح اٹھاکراپناسفرہنزہ ویلی کی طرف جاری رکھا جہاں پہنچتے ہی اے کے آرایس پی کے ایریاآفس میں مختصربریفنگ کے بعدوہاں کے ایریامنیجرصائمہ اورفنانس افیسر ہمیں ہنزہ کے خواتین کارپینٹری کے اسٹال میں لے گیا۔چترالی وفدسے گفتگوکرتے ہوئے کارپینٹرخاتون بی بی آمنہ نے بتایاکہ 2008میں کارپینٹری کاکام شروع کیا اس دوران کئی چیلنجوں کاسامناکرناپڑا۔مردوں کی بالاستی والے میدان میں جگہ بنانابہت مشکل تھی۔مگرہمیت نہیں ہاری گھروالوں نے ساتھ دیاحالات کامقابلہ کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچی ہوں۔آج درجنوں خواتین یہاں سے تربیت حاصل کرکے اپنے خاندان کی روزی روٹی کماتی ہیں۔اے کے آرایس پی یہ غیر منافع بخش ہے اور اس کا مقصد گلگت بلتستان اور چترال کے لوگوں خصوصاً خواتین کی زندگیوں کو بہتر بنانا ہے۔بی بی آمنہ نے کئی نوجوان لڑکیوں کو تربیت دی ہے جنہوں نے لکڑی کے نئے سامان بنانے کے لیے جدید ہنر اپنایا ہے۔ وہ اپنے طالب علموں کو متنوع اور بہترین ہوتے دیکھ کر فخر محسوس کرتی ہے۔گلگت بلتستان کے خواتین میں وہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کرسکتے ہیں۔ ہنزہ کریم آباد میں خواتین کارپنٹرین اور دیگر کاموں میں مہارت رکھتے ہیں خواتین کے لئے مشال ہے۔

 

بعدمیں التت قلعہ کے سینئر گائیڈ جاویدہنزائی نے ہمیں قلعے کامکمل سیرکرایاتفصل بتاتے ہوئے کہاکہ ہنزہ کے قلعوں میں التت قلعہ سب سے پرا نا ہے۔یہی کوئی نو سو، ہزار سال پرانا۔ پہلے ہنزہ کے میر یہیں رہتے تھے۔وادی ہنزہ کے اصل باشندے بروشو کہلاتے ہیں۔ التت وادی کا ایک قدیم گاؤں اور اپنے قلعے کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔یہ گلگت بلستان میں قدیم ترین قلعہ ہے۔التت کے قدیم لوگوں کے بارے میں خیال ہے کہ ان کا تعلق سلطنت فارس کے قدیم ترقی پذیر اور زراعت سے وابستہ ترک قبیلے ‘ہن’ سے ہے۔کہتے ہیں اس بستی کا پرانا نام ہنوکشال تھا جس کا مطلب ہنوں کا گاؤں ہے۔یہ قلعہ نہ صرف کئی حملہ آوروں کے حملوں میں ثابت قدم رہا بلکہ تعمیر کے بعد آنے والے زلزلوں میں بھی اپنا وجود باقی رکھتا آیا ہے۔یہ امر اسے اپنے دور کی حیرت انگیز اور فن تعمیر کی شاہکار تعمیرات میں سے ایک بناتا ہے۔جسے2007ء سے عوام کے لیے کھولا گیا۔ ٹکٹ کی 30فی صد رقم لوکل کمیونٹی کودیاجاتاہے ۔

chitraltimes GB gilgit hunza tour akrsp 3

قراقرم ایریاڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (KADO) کادورہ کیاجو عام لوگوں کے ساتھ خصوصی افرادکے ترقی کے لئے کام کررہی ہے جس مقصدکاروباری ،سماجی اوراقتصادی ترقی کوفروغ دیناہے ۔خاص کرخصوصی افراد،خواتین اورمعاشرے کے دیگرپسماندہ طبقات کی غربت اورپسماندگی کوکم کرنے کے بااختیاربنانے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں۔ قراقرم ایریاڈیولپمنٹ آرگنائزیشن پسماندہ علاقوں میں پائیدارترقی کوآگے بڑھانے کے لئے جدیداورمقامی طریقوں کوملاتی ہے۔یہاں کےایک ذمہ دارنے بتایاکہ ہمارا مقصدپسماندہ کمیونٹیزکوانٹرپرینیورشپ ،ڈیجیٹل ذریعہ معاش،خواتین کوبااختیاربنانے ،پی ڈبلیوڈی ایس کی شمولیت اورمہارت کی ترقی کوفروع دنیاہے
یہاں سے ہمارے قافلے عطاء آباد جھیل کی سیرکے لئے نکل کیاگیا۔عطاء آبادجھیل کے دلفریب قدرتی نظاروں اورآسمان تلے جادوئی نیلے پانی سے لطف اندوزہونے کے لئے دنیابھرسے سیاح اس رح کرتے ہیں ۔ ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع گلگت بلتستان کی جنت نظیر سیاحتی وادی ہنزہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیابھرکے سیاحوں کی توجہ کامرکزہے۔یہاں سے گلمیت میں ہم نے دوپہرکاکھانہ کھایا۔وہاں میاں بیوی ایک ریسٹوریٹ چلاتے ہیں ۔ہوٹل مالک نے بتایاکہ ہم نے چترال کے کونے کونے گھوم پھرچکاہوں چترال کے لوگ بہت خوش اخلاق اورمہمان نواز ہے ۔انہوں نے یہ بھی بتایاکہ چترال انتہائی پسماندہ اوردورافتادہ علاقے بروغل کے 25بچوں کوہم نے یہاں لاکراچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم دے رہے ہیں ہماری کوشش ہے وہاں کے پسماندگی میں کوئی کمی آجائیں ۔یہاں سے ہم واپس گلگت پہنچ گئے ۔

 

تیسرادن:صبح سویرے گلگت سے واپس روانہ ہوکرایریاآفس اے کے آرایس پی گاہگوچ پہنچایہاں کے ایرمنیجرجاویدعارف نے ہمیں ضلع غذرمیں اے کے آرایس پی کے ترقیاتی اورآگاہی کے کاموں کے حوالے تفصلی بریفنگ دی ۔جمعہ کادن تھابعدازنماز جمعہ گروپ کے خواتین گاہکوچ کے آس پاس علاقوں کودیکھنے کی خواہش کی اور مردحضرات اشکومن جانے کاپروگرام کیا۔گلگت کاٹورہم نے کئی دفعہ کرچکے تھے اوربعض دوست نئے تھے اشکومن ویلی ہم سب کے لئے نئے تھے ۔اشکومن کی طرف سفرجاری رکھتے ہوئے پھکورہ سے تعلق رکھنے والےمعروف شاعر،ادیب ،منفرداندازکے گلوکارسیدممتازعلی اندازسے رابطہ کیا۔انہوں نے ہمیں اپنے دولت خانے میں دعوت دی بہت خلوص دل سے ہمارے مہمانوازی کے مگروقت کی کمی سے زیادہ دیرتک وہاں نہ رھ سکی ۔واپس گاہکوچ میں آکررات گزاری اورچوتھے دن اپنے سفرچترال کی طرف جاری رکھتے ہوئے براستہ شندورشام چھ بجے چترال شہرپہنچ گئے۔

 

اسی لئے سالانہ ہزاروں ملکی اورغیرملکی سیاح ان سربفلک چوٹیوں اوران پرستانوں کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔اس پانچ روزہ معلوماتی ٹورکوچارچاندلگنے میں

ہمارے ڈرئیورحضرات بشیراحمد،غلام چچا،حاجی وزیراورسرتاج خان کابڑاہاتھ تھا انہوں نے تمام گروپ ممبروں کاانفرادی اوراجتماعی خیال رکھتے ہوئے ہمیں اللہ تعالیٰ کی فضل کرم سے چترال پہنچا دی۔

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
82436

گندم سبسڈی عوام اور حکومت – تحریر اقبال بجاڑ ۔ جی۔بی۔

گندم سبسڈی عوام اور حکومت – تحریر اقبال بجاڑ ۔  جی۔بی۔

گلگت بلتستان میں قابل کاشت اتنی زمین نہیں جس سے یہاں گندم کی طلب پوری ہوسکے۔ تقریباً کی پوری گندم وفاق کی طرف سے مہیا کی جاتیہ ے۔ بھٹو نے اپنے دورہ گلگت بلتستان کے دوران یہاں کے عوام کے مطالبے اور اس وقت موجود حالات کے پیش نظر گندم کی ترسیل یعنی ٹرانسپورٹیشن پر سبسڈی دی تھی اس کے بعد ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت یہاں کے عوام کے لیے نہایت سستی قیمت پر گندم مہیا کی جاتی رہی۔ وفاق کی طرف اختیارات یہاں مشکل ہونے لگے تو یہاں بننے والی حکومتوں نے گندم سبسڈی کے ساتھ چھیڑ خانی شروع کردی اور ان کے پاس گندم سبسڈی میں کمی کا کوئی معقول وجہ بھی نہیں ہوتی اور نہ اب ہے۔

گندم سبسڈی کو لیکر عوام اور صوبائی حکومتوں کی الگ الگ رائے ہے صوبائی حکومتوں کا کہنا ہے کہ گندم سبسڈی میں یہاں کے بجٹ پر بوجھ ہے۔ حالانکہ سبسڈی وفاق کی طرف ہے اور اس پر آنے والے اخراجات وفاقی حکومت ادا کرتی ہے دوسری طرف عوامی اکثریتی رائے ہے کہ گندم سبسڈی اس خطے کی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے مل رہی اور حکومت یا وفاق ہم پر کوئی احسان نہیں کررہا ہے۔ گندم سبسڈی کو لے کر گلگ ت بلتستان میں شدید اور کامیاب احتجاج ہوئے ہیں شاید کہ کسی اور ایشو پر عوام اس طرح متحد ہوکر احتجاج کیا ہو۔

2013؁ء کے آخر میں گندم سبسڈی کے حوالے سے بننے والی کمیٹی نے 2014 میں عوامی ایکشن کمیٹی کے نام سے عوام کو متحد کرنے کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم میسر آیا ایسی پلیٹ فارم سے عوام کو متحد کرنے میں جس کا بہت اہم کردار رہا ہے وہ مولانا سلطان رئیس ہے۔ سلطان رئیس دھیمے لہجے کے شیف النفس اور ذہین انسان ہیں۔ کسی بھی موضوع پر مضبوط گرفت اور تقاریر میں ثانی رکھتے ہیں ان کی زیر سرپرستی عوامی ایکشن کمیٹی نے گلگت بلتستان میں حکومت کو اسمبلی سے باہر اپوزیشن کا ٹف ٹائم دیا اور اسی پلیٹ فارم سے سلطان رئیس نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا آپ نے حلقہ ایک سے صوبائی اسمبلی کے لیے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اور دس ہزار سے زائد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ حالیہ صوبائی حکومت کی گندم سبسڈی کو ختم کرنے کے فیصلے نے اس ایشو کو دوبارہ زندہ کیا اور صوبائی کابینہ کے اس فیصلے نے گویا عوام پر بجلیاں گرادی۔ اس ایشو پر بات کرنے کے لیے مولانا سلطان رئیس سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا میں نے ان سے پہلے یہ سوال پوچھا کہ کیا گندم سبسڈی کو ہم اپنا حق سمجھتے ہیں کیا واقعی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے یہ ہمارا حق بنتا ہے اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ گندم سبسڈی کے حوالے سے وفاق سے ہمارا کوئی تحریری فیصلہ نہیں ہاں بین الاقوامی قوانین کے مطابق گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے پاکستان یہاں کے عوام کو سبسڈی دینے کا پابند ہے اور انہی قوانین کی وجہ سے ہم گندم سبسڈی کو اپنا حق سمجھتے ہیں ان کا کہنا تھا ملک کی دیگر صوبائی حکومتیں اپنے صوبے کے عوام کے لیے وفاق سے سبسڈی مانگتے ہیں اور خود بھی سبسڈی دیتے ہیں لیکن ہماری حکومتوں کی نااہلی دیکھئے یہ عوام کے منہ سے نوالہ چھیننے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ان کی لاعلمی کو دیکھ کر بندہ سر پکڑتا ہے۔ بقول ان کے عوامی ایکشن کمیٹی کے اندر انتشار اور دھڑا بندی کی ہر صوبائی حکومت نے کوشش کی لیکن ناکام رہے خریدنے کی کوشش کی ناکام رہے آخر ی Cridet سابق وزیر اعلیٰ خالد خورشید کو جاتا ہے جس نے عوامی ایکشن کمیٹی کو دھڑا بندی میں تقسیم کیا لیکن اس صوبائی حکومت نے گندم سبسڈی کو ختم کرکے عوامی ایکشن کمیٹی کو پھر متحد کیا اور انشاء اللہ ہم اس حوالے سے شدید قسم کا احتجاج کرینگے اور حکومت کو اس فیصلے کو واپس کرنے پر مجبور کرینگے۔ ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر وفاق ہمیں ابن ایف سی ایوارڈ میں حصہ اور واٹر اینڈ پاور محکمے کے ریونیو، دریا سندھ کی روانی اور سوسٹ پورٹ سے ہونے والی انکم کے ساتھ دیگر انکم کے ذرائع میں ہمیں حصہ دیں تو گندم سبسڈی کو شوق سے ختم کرے لیکن ان حقوق کے بغیر گندم سبسڈی کا خاتمہ یہاں کے عوام کے ساتھ زیادتی ہوگی جو ہم ہر گز نہ ہونے دینگے۔

قارئین کرام مولانا سلطان رئیس صاحب سے اس گفتگو کے بعد یہ بات تو کسی حد تک سامنے آئی کہ گندم سبسڈی کے حوالے سے ہمارا کوئی تحریری فیصلہ نہ وفاق سے ہے اور نہ وفاق کا کسی عالمی ادارے سے ذوالفقار علی بھٹو نے بھی گندم کی ترسیل پر اٹھنے والے اخراجات پر سبسڈی دی تھی نہ کہ گندم پر۔ مووجدہ صوبائی حکومت کا گندم کی قیمت پر یکمشت اتنا اضافہ غیر دانشمندی ہے اور اپنے ہی عوام کے ساتھ ناانصافی ہمیں حقائق کو سامنے رکھ کر اس مسلہ وک حل کرنا ہوگا اگر صوبائی حکومت اپنے فیصلے کو انا کا فیصلہ بناتی ہے تو پھر پورے گلگت بلتستان میں نہ ختم ہونے والے احتجاجی مظاہرے ہونگے جس کو سنبھالنا صوبائی حکومت کے لیے مشکل ہوگا عوام اور حکومت دونوں کے حق میں اچھا نہیں اس لیے حکومت کو چاہئے اپنے فیصلہ کو نظرثانی کریں اور عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
82137

 گلگت بلتستان میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت قائم کیے گئے پہلے سولر پاور پلانٹ کاافتتاح، پلانٹ ایک میگا واٹ بجلی فراہم کریگا

Posted on

 گلگت بلتستان میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت قائم کیے گئے پہلے سولر پاور پلانٹ کاافتتاح، پلانٹ ایک میگا واٹ بجلی فراہم کریگا

 

ہنزہ، (چترال ٹائمز رپورٹ ) این پاک انرجی لمٹیڈ (NPAK)، انڈسٹریل پروموشن سروسز (IPS) کا ذیلی ادارہ ہے جو آغا خان فنڈ فار اکنامک ڈیویلپمنٹ (AKFED) کی ایک شاخ ہے اور جس کا مقصد صنعتی اور انفراسٹرکچر کوترقی دینا ہے۔گلگت۔ بلتستان کے ضلع ہنزہ میں،این پاک انرجی لمٹیڈ کے قائم کیے گئے سولر پاور پلانٹ نے کام کرناشروع کر دیا ہے۔ یہ پاور پلانٹ علاقے کو ایک میگا واٹ (1MW) بجلی فراہم کرے گا۔ اس سولر فوٹو وولٹیک پاور پلانٹ (SPP)کے ساتھ 600کلوواٹ (600kWh) کا ایک بیٹری اسٹوریج بھی قائم کیا گیا ہے۔

یہ منصوبہ گلگت۔ بلتستان میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (PPP) کی پہلی اورمنفرد مثال ہے جو کلین انرجی پیدا کرنے کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی میں کمی کے عالمی ایجنڈے کی تکمیل میں فعال کردار بھی ادا کرتی ہے۔

 

پاور پلانٹ کی افتتاحی تقریب میں گلگت۔ بلتستان کے وزیر اعلیٰ،  حاجی گلبر خان اور حکومت کے دیگرنمائندوں کے علاوہ مقامی کمیونٹی کے رہنماؤں اور این پاک کی انرجی مینجمنٹ نے بھی شرکت کی۔

 

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حاجی گلبر خان نے کہ کہا کہ”حکومت گلگت۔ بلتستان کلین اور گرین انرجی کے حل کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ ہم ایک میگا واٹ کا سولر پلانٹ لگانے پر آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ہم کمیونٹیز کو یقین دلاتے ہیں کہ صوبائی حکومت گلگت۔بلتستان میں بجلی کی قلت پر قابو پانے کے لیے قابل تجدید توانائی (renewable energy) کے مزید پروگراموں پر توجہ دے گی۔“ اس موقع پر صوبائی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقیات، راجا ناصر علی خان، مشیر اطلاعات ایمان شاہ، صوبائی وزیر برائے سماجی بہبود و خواتین کی ترقی، محترمہ دلشاد بانو، وزیر اعلیٰ ٰکے سیکریٹری ثناء اللہ، سیکریٹری پانی و بجلی سجاد حیدر، سیکریٹری ورکس، جباب سبطین احمد اور دیگر سینئر سیاسی و کمیونٹی کے رہنما بھی ان کے ہمراہ موجودتھے۔

 

اس تاریخی منصوبہ کے لیے فنڈز فراہم کرنے کے علاوہ عمل درآمد بھی این پاک نے کیاہے اور یہ گلگت بلتستان میں نجی طور پر قائم کیے جانے اور SPP پرچلایا جانے والا پہلا پاورپلانٹ ہے جس کاکسی بھی دوسرے پاورپلانٹ سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ اس پلانٹ کے لیے سطح سمندر سے 2,800 میٹر کی بلندی پر لگائے گئے 2,376فوٹو وولٹیک پینلز نے ضلع ہنزہ کو بجلی کی فراہمی شروع کر دی ہے۔سولر انرجی سے چلنے والا یہ پلانٹ سالانہ 1,600 میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا جو مقامی گھروں اور کاروباری اداروں کو بجلی کی فراہمی کی صورت میں ضلع ہنزہ میں بجلی کی شدید کمی کو پورا کرنے علاوہ سالانہ تقریباً 1,134 میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کے اخراج میں کمی کرے گا۔

 

این پاک انرجی نے گلگت۔ بلتستان کی حکومت کے ساتھ 30سالہ حقوق کا ایک معاہدہ کیا ہے جس کا مقصد ضلع ہنزہ کے ہر گھر کو صاف، قابل اعتماد اور سستی بجلی کی فراہمی کو یقینی بناتے ہوئے وافر پیداواری صلاحیت حاصل کرنا اور ساتھ ہی کاروباری اور یوٹیلیٹی آپرینشنز کو فروغ دینا ہے۔

 

این پاک انرجی لمٹیڈ کے سی ای او، منصور دھنانی نے کہا کہ ”ہم خطے میں آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کے قابل تجدید توانائی کے پروگراموں کے ذریعے دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے بجلی کے شعبے میں مضبوط ریکارڈ رکھتے ہیں اوراس کے باعث ہمیں گلگت۔ بلتستان کی حکومت کے ساتھ قائم کی گئی شراکت کے تحت گلگت۔ بلتستان میں ہمیں اپنے کام کو فروغ دینے پر فخر ہے، جس سے مقامی کمیونٹیز کو پائیدار توانائی ملے گی۔ ہم ضلع ہنزہ میں این پاک انرجی کی مسلسل ترقی اور کامیابی کے لیے اْمید رکھتے ہیں۔“

 

این پاک انرجی نے شمولیتی مالیاتی سرمایہ کاری کی بنیاد پر ایک مالیاتی ماڈل تیار کیا ہے جو ایکویٹی، قابل برداشت قرض اور گرانٹ فنانسنگ کا مجموعہ ہے۔ سرمایہ کاری کے لیے ایک مکمل دائرہئ کار حاصل کر کے این پاک کا مقصد پائیدار، خود کفیل اور مفید سرگرمیاں شروع کر کے عوامی خدمات کی فراہمی کو مضبوط بنانا ہے۔ اس سے معاشی مواقع حاصل ہونے کے ساتھ روزگار کے ذرائع بھی پیدا ہوں گے۔یہ سماجی اور پائیدار ترقی کی صورت میں خدمات کے لیے جدید اور مؤثر حل پیش کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے جس پر گلگت۔ بلتستان کے دوسرے ضلعوں میں بھی عمل کیا جا سکتا ہے۔

Pioneering Public Private Partnership Solar Power Plant in Gilgit Baltistan hun 2 Pioneering Public Private Partnership Solar Power Plant in Gilgit Baltistan hun 3 Pioneering Public Private Partnership Solar Power Plant in Gilgit Baltistan hun 1

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
81982

آغاخان رورل سپورٹ پروگرام گزشتہ چالیس برسوں سے گلگت بلتستان اور چترال کی تعمیروترقی اورسماجی و معاشی ترقی کیلئے بھر پور کوشش کررہی ہے۔ مقرریں

آغاخان رورل سپورٹ پروگرام گزشتہ چالیس برسوں سے گلگت بلتستان اور چترال کی تعمیروترقی اورسماجی و معاشی ترقی کیلئے بھر پور کوشش کررہی ہے۔ مقرریں

 

 

چترال ( چترال ٹائمز رپورٹ ) آغاخان رورل سپورٹ پروگرام چترال نے کنیڈین گورنمنٹ کی مالی معاونت سے بیسٹ فاروئیر پراجیکٹ کے زیراہتمام لوئراوراپرچترال سے سرکاری محکموں کے ذمہ دران اورسول سوسائٹی لیڈرزکاگلگت اورہنزہ کاپانچ روز ہ معلوماتی دورہ کروایاگیا۔اس ایکسپو ژرٹورکامقصدجی بی سی میں خواتین کوزندگی کے تمام شعبوں میں بااختیاربنانے کے لئے ان کودرپیش معاشرتی،معاشی اورسیاسی نوعیت کے مسائل کاادراک کرنے اوراُن کی حل کے لئے طویل المدتی بنیادوں پرآگاہی دیناہے ۔ چترال سے آئے وفدکوسرکاری اورغیرسرکاری اداروں کےذمہ داران سے ملاقاتیں اورسوال وجواب کاموقع دیاگیا۔کورآفس گلگت میں وفدسے خطاب کرتے ہوئےپروگرام منیجرایم این ای ذیشان ، جینڈر اسپیشلسٹ اے کے آر ایس پی سوسن عزیز، کیپیسٹی بلڈنگ اسپیشلسٹ سول سوسائٹی راحت علی،منیجرصحت مندخاندان فریدہ ناز، پروگرام منیجرسول سوسائٹی منیرہ شاہین،نیازاحمدشاہ اوردوسروں نے کہاکہ آغاخان رورل سپورٹ پروگرام گزشتہ چالیس برسوں سے گلگت بلتستان اور چترال میں علاقے کی تعمیروترقی،خواتین کے حقوق نوجوان نسل کی کردارسازی کے ساتھ ساتھ تخلیقی سوچ اورمثبت طرزعمل کوپروان چڑھانے کے لئے اپنی توانائیاں بروئے کارلاتے ہوئے سماجی اورمعاشی ترقی کیلئے بھر پور کوشش کررہی ہے۔

 

انھوں نے کہا کہ اے کے آر ایس پی نے جس نامساعد اور مشکل حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے چترال اورگلگت بلتستان میں کام کیا وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔اے کے آرایس پی واحد این جی او ہے جو خطے میں کسی بھی دوسری تنظیم سے زیادہ کام کر رہی ہے اور کمیونٹی کو بااختیار بنانے اور اس کی بھر پور شراکت سے پائیدار ترقی کے منزل کا حصول اس کا طرہ امتیاز ہے۔ انہوں نے کہاکہ مرد وخواتین گاڑی کے دو پہیئے ہیں جو زندگی کی گاڑی کو مل کر چلاتے ہیں جب تک دونوں میں بیلنس نہیں ہوگی ۔ گاڑی آگےنہیں چل سکتی۔ اسی لئے موجودہ دور میں ہم ترقی سے تب ہی ہمکنار ہوسکتے ہیں ۔ جب مردوں کے شانہ بشانہ خواتین بھی اپنے اقدار اور تہذیب و ثقافت کا خیال رکھتے ہوئےترقی کے میدان میں آگے آئیں ۔انہوں نے کہاکہ گلگت بلتستان اور چترال میں کئی علاقے ایسے ہیں جو ترقی کےعمل میں اس دور میں بھی بہت پیچھے ہیں ۔ ان علاقوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور ان کیلئے آسانیان پیدا کرنے کیلئے ہم سب کو باہم مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

 

سیکرٹری سوشل ویلفیئر،پاپولیشن ویلفیئر،ویمن ڈویلپمنٹ،ہیومن/چائلڈ رائٹس، یوتھ آفیئرزفداحسین نے گلگت بلتستان میں اے کے ڈی این کے خدمات کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ خواتین کو مختلف ٹریڈز میں فنی تربیت دینے ، خود روزگاری کی جانب راغب کرنے اور معاشی طور پر خود مختار بنانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی ہے۔اورسرکاری سطح پرہرقسم کی تعاون کی یقین دہانی کی۔ اس موقع پرچترال سے آئے ہوئے وفدنےامجدندیم فاونڈیشن سنٹرگلگت، کریم آبادہنزہ کے مشہورالتیت قلعہ ،عطاء آبادجھیل اوردیگرمقامات کادورہ کیا۔اس دوران ہنزہ سے پہلی خاتون کارپینٹربی بی آمنہ ،اے کے آرایس پی کے صائمہ، سی ای اوامجدندیم فاونڈیشن تمغہ امیتازامجدندیم ،ایل ایس او کے ذمہ داران اوردوسرے چھوٹے بڑے اداروں کے سربراہاں نے بتایاکہ ہمیں ایک مثبت سوچ کے ساتھ ہرمشکل حالات کامقابلہ کرنے کی رہنمائی ،حوصلہ افزائی اورمالی تعاون آغاخان رورل سپورٹ پروگرام گلگت نے کی ہے آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں ،اپنے جائزحقوق کے لئے جدوجہدکررہے ہیں اور معاشرے کا مفید باکردار اورایک ذمہ دراشہری بنانے کی تمام کریڈیٹ ا ے کے آرایس پی کوجاتاہے ۔

 

اس موقع پرچترالی وفدکی نمائندگی کرتے ہوئے ڈاکٹرفرمان علی اوردوسروں نے کہاکہ عرصہ درازسے چترال کے کچھ پسماندہ علاقوں میں نہ صرف خواتین ترقی کے عمل میں پیچھے رہ گئی ہیں بلکہ ان کے مسائل میں کمی کی بجائے روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ سماجی اور معاشی طور پر غیرمساوی حیثیت کے ساتھ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، خواتین کی موثر سیاسی شرکت کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان مسائل کے حل کی بجائے ہمیشہ سے نظرانداز کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ چترال میں خواتین کی سیاسی شمولیت کوبہتربنانے کے لئے سکول ،کالج اوریونیورسٹی لیول پرسوشل میڈیا دیگرنیٹ ورک میں مثبت آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔اس گروپ میں ایم ایس ٹی ایچ کیوہسپتال بونی ڈاکٹرفرمان علی،سوشل ویلفیئر آفیسراپرچترال ضیاء الرحمن،ڈپٹی ڈی ای اومحکمہ ایجوکیشن اپرچترال مقدس خان ،چیف ایڈیٹر ڈیلی چترال سیدنذیرحسین شاہ ،کالاش کمیونٹی سے ممبرتحصیل کونسل اُنت بیگ ،رمبورسے خواتین یوتھ کونسلرشاہی گل، دروش سے سوشل ایکٹی وسٹ زئنب سجاد،ارندوسےسوشل ورکرعبدالاکبر، وی سی چیئرمین بازاردروش عبدالقادراپرچترال ثریا شہاب، غزالا بی بی ،حوریابی بی، گل قیہ اوردوسرے شامل تھے ۔ جبکہ اے کے آر ایس پی کی طرف سے سیدعارف حسین جان اس ٹیم کی سہولت کاری کر رہے تھے ۔

chitraltimes akrsp chitral tour gb 4 chitraltimes akrsp chitral tour gb 3

chitraltimes akrsp chitral tour gb 5

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
81938

سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوئم , پُر بصیرت رہنما، جنہوں نے امن و آشتی اور انسانیت کی علمبرداری کی – تحریر: سجاول احمد

Posted on

سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوئم , پُر بصیرت رہنما، جنہوں نے امن و آشتی اور انسانیت کی علمبرداری کی – تحریر: سجاول احمد

تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے پیدا ہوتے ہیں جو زمان و مکان کی حدود سے بالاتر رہتے ہوئے عالمی سطح پر اپنے نقوش چھوڑجاتے ہیں۔ سر سلطان محمد شاہ، آغا خان سوم بلاشبہ ایک ایسے ہی رہنما تھے جن کی وراثت اسماعیلی مسلم کمیونٹی کے رہنما کی حیثیت سے ان کے کردار سے کہیں زیادہ وسعت کی حامل ہے۔ 2 نومبر 1877ء کو کراچی، پاکستان میں پیدا ہونے والے سر سلطان محمد شاہ کو قیادت اور کمیونٹی کی ترقی کی ایک شاندار روایت وراثت میں ملی تھی۔

آغا خان سوم کی زندگیگوں ناگوں کرداروں پر مشتمل تھی، لیکن جس چیز نے انہیں حقیقی معنوں میں ممتاز کیا وہ ان کی انسانیت کے حق میں فکر مندی اور دلچسپی تھی جو ان کے اثر و رسوخ کے ہر پہلو میں جھلکتی تھی۔ یہی وہ گہرا جذبہ تھا جو سماجی اصلاحات کے لیے ان کی لگن، تشدد اور جنگ کی مخالفت، نسل پرستی کو مسترد کرنا، جمہوریت کے لیے ان کی وکالت، عالمی امن کے لیے ان کی غیر متزلزل وابستگی، تعلیم پر ان کی انتھک توجہ، سماجی ترقی کے لیے ان کی بے پناہ کوششوں اور خواتین کو بااختیار بنانے کی جدوجہد میں کارفرما تھا۔

آغا خان سوم نے 3 اگست 1946 کو دارالسلام کلچرل سوسائٹی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ ’اسلام کا مطلب امن ہے‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زندگی گزارنے کے اصول واضع کیے، انسان اور انسان کے درمیان امن، فکر اور عمل میں امن، اور ہمیشہ تمام جانوروں اور تمام انسانوں کے ساتھ شفقت اور نرمی پر زور دیا۔یہ انسانیت کی فکر تھی جس نے آغا خان سوم کو بین الاقوامیت اور عالمگیریت کو اپنانے پر مجبور کیا اور انہی تصورات کو آنے والے وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے ذرائع کے طور پر دیکھا ۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد عالمی تاریخ میں ایک اہم تبدیلی کے دور کا آغاز ہوا۔ 1919 کی پیرس امن کانفرنس نے لیگ آف نیشنز کو جنم دیا، جسے آج یونائٹڈ نیشنز کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک ایسا ادارہ جس کا مقصد بین الاقوامی ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا۔ اس نازک لمحے میں

آغا خان سوم جنیوا میں برصغیر کے مندوبین کی قیادت کرتے ہوئے ایک ممتاز سیاستدان کے طور پر ابھرے۔ ان کی انسانی ہمدردی کی کوششوں نے انہیں جنوری 1924 میں نوبل انعام کے لئے نامزد کیا ۔ انہوں نے ایک امن معاہدے کے بعد ترکی اور مغربی دنیا کے مابین ہم آہنگی برقرار رکھنے میں انتھک محنت کی ۔

ان کی سیاسی ثابت قدمی کے نتیجے میں انہیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر ذمہ داری کے کئی اہم عہدوں پر فرائض منصبی کی انجام دہی کے لئے تیار کیا ، جن میں لیگ آف نیشنز کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دینا ، جو اقوام متحدہ کا پیشرو ادارہ تھا، آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی اور صدر، لندن مسلم لیگ کے سرپرست، وائسرائے ہند میں 1906 کے مسلم ڈیپوٹیشن کے سربراہ، آل انڈیا محمدن ایجوکیشنل کانفرنس کے صدر، گول میز کانفرنس میں برٹش انڈین وفد کے سربراہ، تخفیف اسلحہ کانفرنس کے نمائندے اور شملہ وفد کے سربراہ جیسے عہدے شامل ہیں ۔ انہوں نے نہ صرف تحریک پاکستان میں فعال شرکت کی ، بلکہ عالمی امن کے قیام اور اسے برقرار رکھنے کے لیے سفیر کی حیثیت سے بھی اہم کردار ادا کیا۔ان کی انہی خدمات کے باعث بیکانیر کے مہاراجہ نے ایک بار آغا خان سوم کو “مشرق اور مغرب کو جوڑنے والا ایک پل” کے طور پر بیان کیا تھا، جو جدید دنیا کی دو بڑی تہذیبوں کو جوڑتا ہے۔

بقول آغا خان سوئم کے،لیگ آف نیشنز نے انہیں “بین الاقوامی امن کے مقصد کو فروغ دینے” کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا ۔ دنیا میں امن قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے لئے انہوں نے روایتی اور جدید دونوں طریقوں کی تجویز پیشکی، جیسے کہ غیر ملکی زبانیں سیکھنا، مختلف ادبی روایات کی کھوج لگانا، سفر کرنا، تعلیمی معیار کو بڑھانا اور عام لوگوں کی صحت کو بہتر بنانا وغیرہ۔ یہ ایسی سرگرمیاں ہیں جو کہ باہمی افہام و تفہیم اور دوستی کو زیادہ جامع نقطہ نظر کے ساتھ فروغ دیتی ہیں۔
27 ستمبر 1934 کو لیگ آف نیشنز کے 15 ویں اجلاس کے دوران آغا خان سوم نے عالمی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے مشترکہ کوششوں کی اہمیت پر زور دیا۔ 29 ستمبر 1936 کو 17 ویں اجلاس کے دوران ان کی دانشمندی کی بازگشت ایک بار پھر سنائی دی ، جہاں انہوں نے بین الاقوامی افہام و تفہیم اور تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔ لیگ آف نیشنز کے صدر منتخب ہونے کی حیثیت سے ، انہوں نے “جنگ کی بنیادی وجوہات کے پرامن خاتمے” کی پرجوش حمایت کی۔ ان کی قیادت نے ترکی، عراق، افغانستان اور مصر جیسے ممالک کو لیگ آف نیشنز میں شامل کرنے میں سہولت فراہم کی اور امن کے حصول میں اتحاد اور تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔

chitraltimes sir sultan muhammad shah aga khan III congress 2

یہ تاریخی پس منظر ہمیں احساس دلاتا ہے کہ آغا خان سوم کی کاوشوں کی گونج ان کی زندگی سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک ہم آہنگ دنیا کے لئے ان کی بصیرت کا اظہار ترقیاتی اداروں کے قیام کے ذریعے ہوا جو بعد میں آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک (اے کے ڈی این) میں تبدیل ہوا۔ آج ان کے پوتے پرنس کریم، آغا خان چہارم نے پوری تندہی سے انسانیت اور امن و امان کے حصول کے اس تاریخی ورثے کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری اٹھائی ہوئی ہے۔ ایشیا سوسائٹی کا گیم چینجر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد ، جو “ایشیا اور دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی زندگیوں کو بہتر بنانے” میں ان کے کردار کے اعتراف میں پیش کیا گیا تھا، آغا خان چہارم نے اپنی اور اے کے ڈی این اداروں کی طرف سے اپنائی گئی اقدار پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی عالمی برادری کا کوئی بھی رہنما جس واحد چیز کی امید اور دعا کرتا ہے وہ امن ہی ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں، ہر کمیونٹی میں امن، تاکہ مرد اور عورت محفوظ رہ سکیں، طاقت، ہمت، امید اور دانشمندی کے ساتھ اپنے مستقبل کی تعمیر کر سکیں۔

اپنے دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، موجودہ آغا خان نے عوامی رائے عامہ کو فروغ دینے کے لئے جوش و جذبے سے کام کیا ہے، اور ہمیشہ اُن تنظیموں کی حمایت کی ہے جوتکثیریت کی حمایت کرتی ہیں، اور “دوسروں کی ثقافتوں، معاشرتی ڈھانچوں، اقدار اور عقائد کے ساتھ رواداری، کھلے پن اور ہمدردی” کی مثالیں پیش کرتی ہیں۔ انہوں نے “تکثیریت کے حقیقی احساس” کو “انسانی امن اور ترقی” کی بنیاد کے طور پر بیان کیا ہے۔

20 سے زائد ممالک میں کام کرتے ہوئے ، اے کے ڈی این ایک بہتر دنیا کی تعمیر پر مبنی بصیرت کا ثبوت ہے ، جو اجتماعی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ معاشرے کے اندر کمزور اور پسماندہ افراد کے لئے ہمدردی اور فلاح و بہبود کے لئے ایک بنیادی اتحاد پر مبنی ہے۔ گلوبل سینٹر فار پلورلزم جیسے اداروں اور پیرس پیس فورم جیسے اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے ذریعے اے کے ڈی این شمولیت کو فروغ دینے اور فوری عالمی ترقیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے وقف ہے، ان مسائل میں آب و ہوا کی تبدیلی، بیماریوں کا پھیلنا، بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور جغرافیائی سیاسی تنازعات شامل ہیں۔

اے کے ڈی این کی ایجنسیوں اور اداروں کا ایک مشترکہ مقصد ہے کہ معاشروں اور لوگوں کو ایک ایسا ماحول پیدا کرنے میں مدد کرنا جس میں پرامن، پیداواری معاشرے پھل پھول سکیں۔ تحقیق، جدید زمانے کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے مسائل کے حل کی تلاش اور شراکت داری میں سرمایہ کاری کے ذریعے اے کے ڈی این، سر سلطان محمد شاہ آغاخان کی وراثت کو آگے بڑھاتے ہوئے عالمی چیلنجز سے نمٹنا جاری رکھے ہوئے ہے، جس میں ہمدردی، شمولیت، تکثیریت اور انسانی وقار کی بحالی شامل ہے۔

chitraltimes sir sultan muhammad shah aga khan III congress

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
81163

حکومت پاکستان گلگت بلتستان میں ترقی،امن، خوشحالی اور نوجوان نسل کی بہتری کے لئے بھرپور کردار ادا کر تی رہے گی،نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ

Posted on

حکومت پاکستان گلگت بلتستان میں ترقی،امن، خوشحالی اور نوجوان نسل کی بہتری کے لئے بھرپور کردار ادا کر تی رہے گی،نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ

اسلام آباد( چترال ٹائمزرپورٹ) نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے گلگت بلتستان کے عوام کو جنگ آزادی گلگت بلتستان کے 76 سال مکمل ہونے پرمبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کوبے مثال قربانیوں سے آزادی کی نعمت ملی،حکومت پاکستان گلگت بلتستان میں ترقی،امن، خوشحالی اور نوجوان نسل کی بہتری کے لئے بھرپور کردار ادا کر تی رہے گی،قومی یکجہتی، مذہبی ہم آہنگی اور پر امن بقائے باہمی کے ذریعے دشمن کے مذموم مقاصد کو ناکام بنانا ہوگا۔بدھ کو نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے گلگت بلتستان کی جنگ ا?زادی کے 76 سال مکمل ہونے کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ آج کا دِن گلگت بلتستان اور پورے پاکستان کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے اور ہماری تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے،آج سے 76 سال پہلے گلگت بلتستان کے غیور عوام نے قیامِ پاکستان کے بعد ڈوگرا راج کے خلاف کیپٹن مرزا حسن خان اور صوبیدار میجر بابر جیسے بہادر اور جَری رہنماؤں کی زیرِ قیادت بے سرو سامانی کے باوجود نہایت بہادری اور دلیری کا مظاہرہ کیا اور ہندو سامراج کے کٹھ پْتلی گورنر گھنسارا سنگھ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا اور گلگت بلتستان کے بہادر لوگوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کو ترجیح دی۔

 

انہوں نے کہاکہ گلگت بلتستان کی آزادی ہمارا اثاثہ اور سرمایہء افتخار ہے اور اپنی نوعیت کا منفرد کارنامہ ہے جس کا تاج گلگت بلتستان کے باشندوں نے یکم نومبر 1947 کو خود پاکستان کے سر پر سجایا اور اپنی غیر مشروط،بے مثل اور والہانہ محبت سے ثابت کر دیا کہ ہم پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پورا ملک اس علاقہ کے جذبہ حبْ الوطنی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے،ان جَری لوگوں نے ہمیشہ کیلئے دشمن کو یہ بھی باور کروا دیا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ تھا،ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ رہے گا۔وزیراعظم نے کہاکہ گلگت بلتستان کے لوگ خوش قسمت ہیں کہ ان کی بے مثال قربانیوں سے آزادی کی نعمت ملی لیکن افسوس کہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کے مسلمان آج تک ہندوستان کے غاصبانہ پنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔اگرچہ کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی واضح قراردادیں موجود ہیں لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی اور عالمی طاقتوں کی خاموشی کی وجہ سے مسئلہ کشمیر ابھی تک حل نہیں ہوسکا۔

 

انہوں نے کہاکہ میں آج ایک مرتبہ پھر بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کشمیریوں کی بھرپور سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد تب تک جاری رکھے گا جب تک کہ ان کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حقِ خود ارادیت نہیں مل جاتا۔ نگران وزیر اعظم نے کہا کہ آج میں اقوام ِ عالم کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہم مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کا پْر امن حل چاہتے ہیں اور قِبلہ اَول کی زمین پر اسرائیل کی جارحیت کی بھر پور مذمت کرتے ہیں۔انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ ساری دنیا اس حقیقت سے بخوبی روشناس ہے کہ گلگت بلتستان بہترین مواقع اور امکانات کی سرزمین ہے، قدرتی و معدنی وسائل اور عوام کی بیش بہا صلاحیتوں سے گلگت بلتستان خطے کا اقتصادی اور سیاحتی مرکز بننے کی راہ پر گامزن ہے۔ انہوں نے کہاکہ گلگت بلتستان سمیت پورے پاکستان کے روشن مستقبل کیلئے ہم سب کواتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہوئے درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگااورقومی یکجہتی، مذہبی ہم آہنگی اور پر امن بقائے باہمی کے ذریعے دشمن کے مذموم مقاصد کو ناکام بنانا ہوگا۔وزیراعظم نے کہاکہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان میں ترقی،امن، خوشحالی اور نوجوان نسل کی ترقی کے لئیبھرپور کردار ادا کر تی رہے گی۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged
81161

چترال میں شرح خواندگی کو بڑھانے میں آغا خان ایجوکیشن سروس کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ کمانڈنٹ چترال ٹاسک فورس کرنل بلال /ڈپٹی کمشنر محمد علی 

چترال میں شرح خواندگی کو بڑھانے میں آغا خان ایجوکیشن سروس کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ کمانڈنٹ چترال ٹاسک فورس کرنل بلال /ڈپٹی کمشنر محمد علی

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز ) آغا خان ایجو کیشن سروس پاکستان چترال کے زیر اہتمام آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول سین لشٹ چترال میں آغاخان ا متحانی بورڈ کراچی کے سال 2023 کے امتحان میں صوبائی سطح پر مجموعی اور مختلف مضامین میں انفرادی طور پر نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا ؤ طالبات کے اعزاز میں سائٹیشن تقریب کا اہتمام کیا گیا ، جس کے مہمان خصوصی کمانڈنٹ چترال ٹاسک فورس کرنل بلال جاوید جبکہ مہمان اعزاز کے طور پر ڈپٹی کمشنر لوئر چترال محمد علی ، ڈی پی او لوئرچترال اکرام اللہ کے علاوہ آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان کے سی ای او امتیاز مومن ، ہیڈآف ایجوکیشن اے۔کے۔ای۔ایس۔پی عین شاہ، جنرل منیجر اے۔کے۔ای۔ایس۔پی ۔ چترال وگلگت بلتستان برگیڈئیر خوش محمد ، ڈاکٹر میر بائض ِخان، اور اپر و لوئیر چترال کے اسماعیلی کونسل کے پرزیڈینٹ امتیاز احمد و ظفرالدین ، آغاخان سکولز کے پرنسپلز وطلبہ کے علاوہ امتحان میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے والے طلباؤ طالبات کے والدین اورمختلف مکاتب فکر کے افراد کثیر تعداد میں شرکت کی۔

 

مہمان خصوصی کرنل بلال نے خطاب کرتے کہا کہ آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان ملک بھر میں تعلیم بالخصوص بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے بہت موثر کردار ادا کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خواتین مردوں سے کسی صورت پیچھے نہیں۔ پاکستان آرمی، فضائیہ سمیت ہر شعبہ ِ زندگی میں ان کا کردار قابل ستائش ہے۔ انہوں نے اہل ِ چترال کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ چترال کے لوگ امن پسند ، محنتی اور باصلاحیت ہیں۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ چترال شرح ِ خواندگی میں ۷۷فیصد کے ساتھ خیبر پختون خواہ کے زیادہ تر اضلاع سے آگے ہے۔انھوں نے تعلیم کے میدان میں آغا خان ایجوکیشن سروس کی کردار کو سراہا ۔

ہم نصابی سرگرمیوں کے مقابلے کی تقریب کے مہمان ِ اعزاز ڈپٹی کمشنر لوئر چترال محمد علی نے خطا ب کرتے ہوئے کہا کہ قوموں اور ملکوں کی ترقی میں تعلیم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان، پاکستان خصوصا چترال میں تعلیم کے فروغ کے لیے جو کام کر رہی ہے وہ آج کے بچوں کے پرفامنس سے جھلک رہا تھا۔ مجھے پروگرام میں شریک طلبہ کی خود اعتمادی اور قابلیت دیکھ کر مسرت کا احساس ہوا۔ یہی طلبہ آگے جا کر ملک و قوم کی بہتری میں اپنا کردار بہ خوبی ادا کریں گے۔ انھوں نے آغا خان ایجوکیشن سروس کی چترال کے لئے خدمات کو شاندار الفاظ میں سراہا اور اساتذہ کے ساتھ سکول انتظامیہ کو مبارکباد دی۔

معروف ماہرِ تعلیم ڈاکٹر میر بائض خان نے حاضرین سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دورِ حاضر مقابلے کا دور ہے۔ زندگی میں آگے جانے کے لیے مقابلہ ضروری ہے لیکن مقابلہ ہمیشہ باوقار اور مثبت ہونا چاہیئے۔ اسلام کے سنہریدور میں بھی مقابلے کا رجحان رہا۔ اس لیے مسلمانوں نے ساری دنیا پر حکومت کی۔ قرطبہ سے لے کر شام اور بلخ و بخارا تک کی شاہکار تعمیرات بھی اس بات کی گواہ ہیں۔ طلبہ کوبھی مقابلے کی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہنا چائیے۔ڈاکٹر میر بائض نے طلباو طالبات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ مثبت مقابلے کے لئے ہروقت خود کو تیا ررکھیں ۔

اس سے قبل آغاخان ایجوکیشن سروس پاکستان، گلگت بلتستان اور چترال کے جنرل منیجر بریگیڈئر (ریٹائرڈ) خوش محمد نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور پروگرام کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان چترال اور گلگت بلتستان، پاکستان میں معیاری تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے مسلسل کوشاں ہے ۔ طلبہ کی متوازن شخصیت سازی کے لیے نصابی کاموں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں پر بھی بھر پور توجہ دی جاتی ہے اور اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت کے لیے بھی موقع فراہم کیا جا رہا ہے۔انھوں نے بتایا کہ چترال میں آغا خان ایجوکیشن سروس ۱۹۸۰میں فیمل ایجوکیشن سے شروع ہوا تھا تاکہ یہاں کی خواتین کی شرح خواندگی کو بڑھایا جائے۔ اب آغا خِان ایجوکیشن سروس کے زیر انتظام چترال کے طول وعرض کے ۴۵سکولوں میں ۱۳ ہزار طلباو طالبات زیر تعلیم ہیں ، جہاں کوالٹی ایجوکیشن کے ساتھ انھیں بہترین تربیت دی جارہی ہے ۔ جی ایم نے کوالٹی ایجوکیشن کی فراہمی میں اساتذہ کے ساتھ اسٹاف کی کردار کو بھی سراہا۔

تقریب میں ہم نصابی سرگرمیوں میں آغاخان سکولز چترال کے تین” آر ایس ڈی یوز ” کے طلباؤ طالبات کے درمیان حسنِ قرات، حمد، نعت،ملی نغموں، قومی ترانے، اُردو اور انگریزی تقاریر و مضمون نگاری،اُردو انگریزی خطاطی اور مصوری کے مقابلے ہوئے۔ اس تقریب کے مہمانِ خصوصی کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس کرنل بلال جاوید تھے، جب کہ صدرِ مجلس سی ای او آغا خان ایجو کیشن سروس پاکستان امتیاز مومن تھے۔ تقر یب میں آغا خان یو نیورسٹی امتحانی بورڈ کے سالانہ امتحانات میں ملکی اور صوبائی سطح پر امتیازی پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو تعریفی اسناد اور انعامات سے نوازا گیا اور ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کے مقابلوں میں پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے طلباؤ طالبات کو بھی انعامات دیے گئے۔ تقریب سے پوزیشن ہولڈر طالب علم توحید الرحمن ، دورسمین ، حیبہ حسن ودیگر نے خطاب کرتے ہوئے اپنی کامیابیوں کو اساتذہ کے نام کردیا ، انھوں نے کہا کہ انکی سپورٹ اور بہترین رہنمائی سے ہم اس پوزیشن تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ، تقریب سے زوالفقار نے بھی خطاب کرتے ہوئے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔

chitraltimes akesp chitral citation program akhss seenlasht 15

chitraltimes akesp chitral citation program akhss seenlasht brig khush muhammad chitraltimes akesp chitral citation program akhss seenlasht 4

chitraltimes akesp chitral citation program akhss seenlasht 9

chitraltimes akesp chitral citation program akhss seenlasht 2 chitraltimes akesp chitral citation program akhss seenlasht 11 chitraltimes akesp chitral citation program akhss seenlasht 13 chitraltimes akesp chitral citation program akhss seenlasht 14 chitraltimes akesp chitral citation program akhss seenlasht 16 chitraltimes akesp chitral citation program akhss seenlasht 17 chitraltimes akesp chitral citation program akhss seenlasht 18 chitraltimes akesp chitral citation program akhss seenlasht 7 chitraltimes akesp chitral citation program akhss seenlasht 6 chitraltimes akesp chitral citation program akhss seenlasht 5 chitraltimes akesp chitral citation program akhss seenlasht 3 chitraltimes akesp chitral citation program akhss seenlasht 19

 

chitraltimes akesp citation program akhss seenlasht 5 chitraltimes akesp citation program akhss seenlasht 4 chitraltimes akesp citation program akhss seenlasht 3 chitraltimes akesp citation program akhss seenlasht 2 chitraltimes akesp citation program akhss seenlasht 1

chitraltimes akesp chitral citation program akhss seenlasht 12

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
81005

گلگت، اسکردو میں پھنسے سیاحوں کو نکالنے کیلئے پی آئی اے کی پروازیں بحال

Posted on

گلگت، اسکردو میں پھنسے سیاحوں کو نکالنے کیلئے پی آئی اے کی پروازیں بحال

اسکردو( چترال ٹائمزرپورٹ) گلگت اور اسکردو میں پھنسے سیاحوں کو نکالنے کے لیے قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کی آج 6 پروازیں بحال ہو گئی ہیں۔پی آئی اے فلائٹ شیڈول کے مطابق پروازیں پی کے 601 اور 605 مقرر وقت پر گلگت روانہ ہوں گی۔ اسلام آباد سے اسکردو کی پرواز پی کے 451 اور پی کے 452 بھی آپریٹ ہو رہی ہیں جبکہ گلگت سے اسلام آباد کی 2 پروازیں پی کے 602 اور پی کے 606 بھی شیڈول پر ہیں۔پی آئی اے میں ہنگامی صورتِ حال کی وجہ سے کئی روز سے پروازیں منسوخ تھیں، منسوخی کی وجہ سے سیکڑوں ملکی، غیرملکی سیاہ اسکردو اور گلگت میں پھنسے ہوئے ہیں۔بیرون ملک سے آئے ہوئے غیرملکی سیاحوں کی انٹرنیشنل پروازیں بھی متاثر ہو رہی ہیں، گلگت اور اسکردو کی پروازیں پھنسے مسافروں کو واپس اسلام آباد لائیں گی۔

 

معاملات طے مگرشیڈول بحال نہ ہوسکا، پی آئی اے کی آج بھی 53 پروازیں منسوخ

کراچی(سی ایم لنکس)ایندھن کے واجبات کی ادائیگی کے سلسلے میں پی ایس او سے معاملات طے پانے کے باوجود پی آئی اے کا شیڈول بحال نہیں ہوسکا اور آج بھی 53 پروازیں منسوخ کردی گئیں۔پی آئی اے کے فلائٹ شیڈول کے مطابق اتوار کو کراچی سے اسلام آباد کی 6 پروازیں پی کے 300، 368، 308، 301، 369، 309، گوادر پی کے 503، 504، سکھر پی کے 536، 537 جبکہ لاہور پی کے 306، 307، دمام پی کے 241، دبئی پی کے 213، 214، مسقط پی کے 126 منسوخ کر دی گئی ہیں۔اسلام آباد سے دبئی کی 4 پروازیں پی کے 233، 211، 212، 234، کوئٹہ پی کے 325، 326، شارجہ پی کے 181، سکھر پی کے 631، 632، جدہ پی کے 842، مسقط پی کے 292، ابوظہبی پی کے 262 منسوخ شیڈول میں شامل ہیں۔لاہور سے ابوظہبی پی کے 263، مسقط پی کے 229، کوئٹہ پی کے 322، 323، مدینہ پی کے 747، باکو پی کے 160 اور دبئی پی کے 204 منسوخ کی جا چکی ہیں۔ملتان سے مسقط پی کے 171، ریاض پی کے 765، 766، شارجہ پی کے 293، 294 جبکہ مدینہ سے ملتان پی کے 716 منسوخ کی گئی ہیں۔سیالکوٹ سے دبئی پی کے 179، مسقط پی کے 281، 282، کویت سٹی پی کے 239 اور ابوظہبی پی کے 178 منسوخ ہیں۔پشاور سے دبئی پی کے 283، ابوظہبی پی کے 217، مسقط پی کے 259، 260 اور دوحہ پی کے 286 بھی منسوخ ہیں جبکہ فیصل آباد سے دبئی پی کے 223 اور 224بھی منسوخ ہیں۔واضح رہے کہ پی آئی اے کی آج ملکی و غیر ملکی 53 پروازوں کی منسوخی کے بعد 13 دن میں منسوخ پروازوں کی تعداد 650 ہوگئی ہے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged
80977

آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول کوراغ میں سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری لیول میں نمایاں پوزیشن ہولڈرز طلبہ وطالبات کے اعزاز میں ہائیر ایچیور ایوارڈز کی تقریب

Posted on

آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول کوراغ میں سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری لیول میں نمایاں پوزیشن ہولڈرز طلبہ وطالبات کے اعزاز میں ہائیر ایچیور ایوارڈز کی تقریب

چترال کے بچے بچیاں جدید دنیا سے مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ شہزاد جیوا

اپر چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) آغاخان ہایئر سیکنڈری سکول کوراغ کے ایڈیٹوریم ہال میں گزشتہ دن AKU-EB High Achiever Awards 2023 کی ایک پروقار تقریب منعقد ہوئی اس تقریب کے انعقادکا مقصد آغاخان ایگزامینشن بورڈ میں سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری (پری انجینئرنگ اور پری میڈیکل)لیول میں اعزازی نمبروں سے پاس کرنے والے طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی اور ان کی محنت کو سراہنا تھا۔ اس تقریب کے اہم مہمانوں میں سی- ای -او آغا خان ایگزامینشن بورڈ کراچی شہزاد جیوا، فینسی فاؤنڈیشن کے سی-ای-او امیر شوکت علی فینسی اور ان کی اہلیہ ناز فینسی ، ان کی فرزند ارجمند زین امیر علی فینسی کے علاوہ اے-ڈی-سی اپر چترال فدا الکریم ، صدر اسماعیلی کونسل اپر چترال امتیاز عالم ، صدر اسماعیلی کونسل لوئر چترال ظفر الدین اور سینئر منیجر اکیڈمک اے۔کے۔ای۔ایس۔پی ذولفقار علی کے نام شامل تھے۔

اس پر رونق تقریب میں آغا خان ہایئر سیکنڈری سکول کوراغ کے طالبات کے علاوہ آغا خان ہایئر سیکنڈری سکول چترال کے طلبہ ،اعزازی نمبروں سے پاس کرنے والے طلبہ و طالبات کے والدین ، محکمہ تعلیم کے افسران ، سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کرام اور علاقے کے عمائدین نے بڑی تعداد میں شرکت کیں ۔

پروگرام کا آغاز حسب روایت تلاوت قرآن حکیم سے ہوا۔ اس کے بعد پرنسپل سلطانہ برہان الدین نے مہمانوں کو خوش آمدید اور پروگرام کے اعراض و مقاصد سے آگاہ کرتے ہوئے سکول کی نمایاں کارکردگی اور کامیابی کا جامع خلاصہ پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا مقصد محض بچیوں کی تعلیمی کارکردگی کو بہتر بنانا ہی نہیں بلکہ ہمارا اصل مقصد زندگی کے ہر شعبے میں ان کی مجموعی ترقی ہے۔ تاکہ مستقبل میں یہی بچیاں کھٹن حالات اور چلنجز کا احسن طریقے سے مقابلہ کر سکیں ۔
تقریب کے مہمان خصوصی آغا خان ایگزامینشن بورڈ کے سی -ای-او شہزاد جیوا نے چترالی طلبہ و طالبات کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہاں کے بچے وبچیاں جدید دنیا سے مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں ، ان میں وہ تمام تر صلاحیتیں موجود ہیں جو ایک لیڈر بننے کے لئے ضروری ہیں ۔
اس موقع پر سینئر اکیڈمک منیجر ذوالفقار علی نے جی-ایم خوش محمد کا خصوصی پیغام مہمانان گرامی اور سامعین تک پہنچاتے ہوئے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی فدا الکریم نے کہا کہ چترال کے پچاس فیصد آبادی خراب موسمی حالات اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر چترال چھوڑ کر شہروں کی طرف رخ کر رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں AKDN , AKESP اور AKEUB جیسے ادارے لوگوں کے مسائل کا ادراک رکھتے ہوئے ان دور افتادہ علاقوں میں مسائل کے حل اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے کے لیے کوشاں ہیں۔

اس موقع پر اعزازی مہمان مس ناز فینسی نے کہا کہ میں نے چترال کے بچے بچیوں کی علمی ذوق دیکھ کر بہت متاثر ہوئی ہوں جو کوسوں دور سفر کر کے تعلیم حاصل کر رہی ہیں ۔ تقریب کے آخر میں امیر شوکت علی فینسی طلبہ و طالبات کو مخاطب کرتے ہوئے فینسی فاؤنڈیشن کی اعراض و مقاصد اور تعلیمی میدان میں اپنی خاندان کی کاوشوں اور خدمات کا جامع خلاصہ ترغیبی انداز میں پیش کی ۔

 

دوران تقریب طلبہ و طالبات تخلیقی انداز میں مختلف آئٹمز کے ذریعے اپنی فن اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر آغاخان ہائیر سیکنڈری سکول کوراغ کے طالبات مشروفہ فہار اور عنیزہ فخر نے “ذہنی تناؤ” کے موضوع پر ایک تحقیقی پریزنٹیشن پیش کیا جوکہ حاضرین اور مہمانوں نے بہت سراہا، اسی طرح آغاخان ہائیر سیکنڈری سکول چترال کے میوزیکل گروپ کے طلبہ نے خوب صورت روایتی موسیقی اور رقص سے سامعین کو محظوظ کیا ۔دوران تقریب طلبہ و طالبات میں اعزازی شیلڈ ،سرٹیفکیٹس اور انعامات تقسیم کیے گئے اور فینسی فاؤنڈیشن کی جانب سے آغا خان ہایئر سیکنڈری سکول کوراغ کے پرنسپل سلطانہ برہان الدین کو جدید لیپ ٹاپ کے تحائف بھی پیش کیے گئے ۔

chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 22

 

chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 4

chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 16chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 3

chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 7 chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 6 chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 9 chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 10 chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 11 chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 12 chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 13 chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 15 chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 17 chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 18 chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 19 chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 23 chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 24 chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 25 chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 26

chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 21

chitraltimes akhss kuragh high achiever awards cermony 8

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
80782

آغا خان ایجوکیشن سروس گلگت بلتستان کے زیراہتمام نمایاں پوزیشن ہولڈر طلباوطالبات کےاعزازمیں میرٹ سائٹیشن تقریب کا اہتمام، وائس چانسلر قراقرم یونیورسٹی ڈاکٹرعطااللہ شاہ کا بطورمہمان خصوصی شرکت

Posted on

آغا خان ایجوکیشن سروس گلگت بلتستان کے زیراہتمام نمایاں پوزیشن ہولڈر طلباوطالبات کےاعزازمیں میرٹ سائٹیشن تقریب کا اہتمام، وائس چانسلر قراقرم یونیورسٹی ڈاکٹرعطااللہ شاہ کا بطورمہمان خصوصی شرکت

 

گلگت ( نمایندہ چترال ٹایمز ) آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان، گلگت بلتستان کی جانب سے آغا خان یونیور سٹی امتحانی بورڈ اور قراقرم یو نیورسٹی امتحانی سیکشن کے سالانہ امتحانات میں صوبائی سطح پر مجموعی اور مختلف مضامین میں انفرادی طور پر امتیازی نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کے اعزاز میں Merit Citation کے نام سے ایک تعریفی تقریب کا اہتمام کیا گیا ۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی گلگت بلتستان کے وائس چانسلر ڈاکٹر عطا اللہ شاہ تھے جبکہ صدارت معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات حکومتِ گلگت بلتستان ، ایمان شاہ نے کی ۔ خاص مہمانوں میں اسماعیلی طریقہ اینڈ ریلیجئس بورڈ برائے پاکستان کے معروف اسکالر ڈاکٹر عزیز علی دینار اور چترال سے سابق ایم ۔پی۔ اے سردار حسین شاہ صوبائی اسمبلی خیبر پختون خواہ کے علاوہ مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے سربراہان اور نمائندوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔

 

آغا خان یونیور سٹی امتحانی بورڈ اور قراقرم یو نیورسٹی امتحانی بورڈ کے سالانہ امتحانات ۲۰۲۳میں صوبائی سطح پر نمایاں کارکردگی کے حامل طلبہ اور اُن کے والدین اس تقریب کے اعزازی مہمان تھے ۔ تلاوت کلام پاک سے تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا اور آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان ، گلگت بلتستان اور چترال کے جنرل منیجر بریگیڈئر ( ریٹائرڈ) خوش محمد خان نے مہانوں کو خوش آمدید کہا اور اس خصوصی تقریب کے اغراض و مقاصد بیان کیے ۔ نیز اُنہوں نے پاکستان بھر میں آغا خان ایجوکیشن سروس کے یکساں نصاب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آ غا خان ایجوکیشن سروس پاکستان نہ صرف اپنے طلبہ کو معیاری تعلیم کے مواقع فراہم کر رہی ہے بلکہ اساتذہ کی ہمہ گیر پیشہ ورانہ تربیت کے مواقع بھی فراہم کر رہی ہے ۔ اس سلسلے میں آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان دیگر نامور تعلیمی اداروں کے ساتھ بھی علمی اشتراک میں ہے۔ جنرل منیجر نے واضح کیا کہ آ غا خان ایجوکیشن سروس گلگت بلتستان نے حالیہ سالوں میں ۱۰۰ سے زائد اسکولوں کو اگلی سطحوں پر ترقی دی ہے۔ اس کے علاوہ اسکولوں اور طلبہ کی رہائش کےلیے نئی عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے ۔ انہوں نے پروگرام میں شرکت کرنے پر مہمان خصوصی ، صدر ِ محفل ، میڈیا کے نمائندوں کے علاوہ والدین اور طلبہ کا شکریہ ادا کیا ۔

 

Merit Citation کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی وائس چانسلر قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی گلگت بلتسان ڈاکٹر عطا ؤ اللہ شاہ نے آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان کی کاوشوں کا سراہتے ہوئے کہا کہ انسان کی شخصیت کے تین اہم پہلو ہیں جن میں دماغ ،جسم اور عقل و خرد ہے ۔ہم علم حاصل کرتے ہیں اور اور جسمانی اعضا سے اُس علم کو استعمال کرنے کےلیے مہارتیں پیدا کرتے ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ اہم عنصر عقل و دانش ہے ۔ انسان کے یہ تینوں پہلو ایک دوسرے کےلیے لازم و ملزم ہیں ۔ انہوں نے زور دیکر کہا کہ عالم وہ ہوتا ہے جو سوچتا ہے اور سوچ ہی انسان کی وہ خصوصیت ہے جو اُسے دوسری مخلوقات سے ممتا ز کرتی ہے ۔ وہ سوچ ہی ہے جو انسان کو اخلاق سکھاتی ہے ۔ اُنہوں نے طلبہ کی سالانہ امتحانات میں شاندار کامیابیوں پر اُنہیں مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ آغا خان ایجوکیشن سروس علاقے کے نونہالوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بہترین تربیت کے ضمن میں اپنی مثال آپ ہے ۔ اس ادرے کی سب سے بہترین خوبی جو اسے دوسرے تعلیمی اداروں سے ممتاز کرتی ہے وہ معیاری تعلیم کو تمام تر تعصبات سے پاک ہو کر بلا تفریقِ مذہب، علاقہ ، نسل اور لسان تمام انسانوں کے لیے عام کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا تعلیمی نظام ہمارے بچوں کو وہی علم سکھاتا ہے جو جو پہلے سے رائج ہے گویا ہم پہلے سے موجود علم کو کریدنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن دنیا میں علم اور علمی تحقیق ہر چھ گھنٹے کے بعد تبدیل ہو جاتی ہے لہذا ہمارے بچوں کو پہلے سے موجود علم میں اختراعات کرنے کے بجائے نئے سرے سے نئے علم پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔اُنہوں نے کہا کہ طلبہ کو دنیا کے بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں آغا خان ایجوکیشن سروس ققید الامثال کردار ادا کر رہی ہے ۔ دنیا سکڑ کر گلوبل ویلج بن گئی ہے جس پر رہنے اور زندگی گزارنے کے اپنے تقاضے ہیں لہذا آج کل کے برق رفتار زمانے کا تعقب اُس وقت ممکن ہے جب ہم اپنے آپ کو زمانے کے جدید علمی تقاضوں کے مطابق تیار کریں گے۔

 

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معروف اسکالر ڈاکٹر عزیز علی دینار نے سالانہ امتحانات میں بہترین کارکردگی دکھانے پر طلبہ اور اُن کے والدین کو مبارکباد دی اور اساتذہ کی کوششوں کو سرا ہا ۔ اُنہوں نے درست معنوں میں درس و تدریس کو دنیا کا نازک اور مشکل ترین کام قرار دیتے ہوئے کہاکہ اگرچہ والدین نے اپنے بچوں کی تعلیم کےلیے اپنا خون پسینہ بہایا ہے اور بچوں نے دن رات ایک کر کے محنت کی ہے لیکن طلبہ کی شاندار کامیابی اساتذہ کی منظّم درس و تدریس کا مظہر ہے ۔ ہم اُن تمام اساتذہ کو سلام پیش کرتے ہیں جو طلبہ کو بہترین تعلیم و تر بیت سے گزارنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتے۔ آج کی اس محفل میں جن طلبہ کو ہم خراج تحسین پیش کر رہے ہیں اُ ن کی شاندار کامیابی کے پیچھے اُن کے عظیم اساتذہ ہی کا ہاتھ ہے ۔ طلبہ سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ وہ عظیم طلبہ ہیں جنہوں نے اپنے والدین کی محنت کے پسینے کو آج خوشی و سر افرازی کے آنسوؤں میں بدل دیا ہے ۔ اُنہوں نے قرآن کریم کی ایک آیت کریمہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو نیک کام میں آگے ہوتے ہیں وہ آگے ہی ہوتے ہیں اور اپنی منزل کے قریب ہوتے ہیں۔ پروگرام کے شاندار انعقاد اور طلبہ کی حوصلہ افزائی پر اُنہوں نے آغا خان ایجوکیشن کی لیڈر شب کی علمی کاوشوں کو سراہا ۔

 

تقریب کی پہلی نشست طلبہ کی طرف سے پیش کی جانے والی مختلف رنگا رنگ ہم نصابی سرگرمیوں اور مہمانوں کی تقاریر پر مشتمل تھی جبکہ دوسری نشست تقسیم اسناد پر مبنی رہی جس میں سالانہ امتحانات میں ملکی اور صوبائی سطح پر امتیازی نمبر حاصل کرنے والے درج ذیل طلبہ کو بدست مہمان خصوصی اور دیگر مہمانان تعریفی اسناد و انعامات سے حوصلہ افزائی کی گئی۔ جن طلبا و طالبات نے سالانہ امتحانات میں امتیازی نمبر حاصل کیے تھے اُن کی تفصیل اس طرح ہے :

 

AKU-EBسالانہ امتحانات 2023 (گلگت بلتستان) میں ثانوی اور اعلیٰ ثانوی جماعتوں میں صوبائی سطح کے مجموعی نتائج
آغا خان ہائیر سیکنڈری اسکول گاہکوچ کی طالبہ ، شیدا علی ولد میر باز شاہ نے اعلیٰ ثانوی سطح کے سالانہ امتحانات میں صوبہ بھر میں پہلی پوزیشن، سید کامل والد سید بابر شاہ نے دوسری اور مدیحہ بی بی ولد رحمت بیگ نے تیسری پوزیشن حاصل کی جبکہ ثانوی سطح کے امتحانات میں اسی اسکول کی طالبہ سیماب نایاب ولد محمد نایاب اور حُسنت قیوم ولد محمد قیوم شاہ نے صوبہ بھر میں دوسری اور تیسری پوزیشن اپنے نام کر دی

آغا خان ہائیر سیکنڈری اسکول ہنزہ کی طالبہ ارشیلہ مراد ولد مراد خان نے ثانوی جماعت کے سالانہ امتحان میں صوبہ بھر میں تیسری پوزیشن حاصل کی .
AKU-EBگلگت بلتستان میں صوبائی سطح کے گروپ وار پوزیشن 2023 (پری انجینئرنگ)
آغا خان ہائیر سیکنڈری اسکول گاہکوچ کی طالبہ شیدا علی ولد میر باز شاہ اور علینہ زمان ولد شیر زمان نے انجینئرنگ میں اعلی ٰ ثانوی سطح پر صوبہ بھر میں بالترتیب پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کی ۔

 

آغا خان ہائیر سیکنڈری اسکول گلگت کے طالب علم آصف ولی ولد خو ش ولی اور میرزہ اسداللہ ولد عبد اللہ جان نے انجینئرنگ کے مضامین میں اعلیٰ ثانوی سطح پر صوبہ بھر میں بالترتیب دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کی ۔

 

AKU-EBگلگت بلتستان میں صوبائی سطح کے گروپ وار پوزیشن 2023 (پری میڈیکل )
آغا خان ہائیر سیکنڈری اسکول گاہکوچ کی طالبہ مدیحہ بی بی ولد رحمت بیگ، طالب علم سید کامل بابر ولد سید بابر شاہ اور رینا اختر ولد مراد بیگ نے پری میڈیل میں اعلیٰ ثانوی سطح پر صوبہ بھر میں پہلی ، دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کی ۔

 

AKU-EBگلگت بلتستان 2023 میں صوبائی سطح کے سائنس مضامین کی گروپ وار پوزیشن
آغا خان ہائیر سیکنڈری اسکول گاہکوچ کی طالبہ حبیبہ صاحب ولد صاحب خان اور فائزہ نفس ولد نفس خان نے ثانوی سطح پر صوبہ بھر میں بالترتیب پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کی ۔

 

آغا خان ہائیر سیکنڈری اسکول ہنزہ کی طالبات ، مسمات زویا علی ولد ذولفقار علی اور ارشیلہ مراد ولد مراد خان دونوں نے ثانوی سطح پر صوبہ بھر میں دوسری پوزیش حاصل کی ۔

آغا خان ہائیر سیکنڈری اسکول گلگت کے طالب علم ، علی عباس ولد شیر عباس نے ثانوی سطح پر صوبہ بھر میں تیسری پوزیش حاصل کی۔

 

AKU-EBگلگت بلتستان2023 میں صوبائی سطح کے سائنس کے عمومی پوزیشن
آغا خان ہائیر سیکنڈری اسکول گلگت کے طالب علم ، سعادت علی شاہ ولد مومن شاہ اور علی محمدولد غلام نبی خان نے اعلیٰ ثانوی سطح پر صوبہ بھر میں بالترتیب پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کی ۔

 

گلگت بلتستان، KIU-ESسالانہ امتحانات2023 میں صوبائی سطح کی گروپ وار پوزیشن (پری انجینئرنگ)
ڈائمنڈ جوبلی ہائی اسکول سوست کی طالبہ ، فہمینہ فضل ولد فضل کریم نے اعلیٰ ثانوی سطح پر صوبہ بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی ۔
ڈائمنڈ جوبلی ہائی اسکول پھنڈر کی طالبہ خوشبو نور ولد نہران بیگ نے پہلی پوزیشن حاصل کی ۔

 

گلگت بلتستان، KIU-ESسالانہ امتحانات2023 میں صوبائی سطح کی مجموعی پوزیشنیں
ڈائمنڈ جوبلی ہائی ا سکول ٹیرو کے طالب علم شیر رحیم شاہ ولد ابرہیم نے ثانوی سطح پر تیسری پوزیشن حاصل کی ۔

 

تقریب کے اختتام پر صدرِ تقریب، معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات حکومت گلگت بلتستان ایمان شاہ نے سالانہ امتحانات برائے سال ۲۰۲۲ اور ۲۰۲۳ میں شاندار کار کردگی کے حامل طلبہ کی تعریف کی اور اُن پر زور دیا کہ جس طر ح ا ٓج اُنہوں نے اپنی محنت سے اپنے والدین اور گلگت بلتسان کی قوم کا سر فخر سے بلند کیا ہے اسی طرح عملی زندگی میں بھی میرٹ پر کام کرنے کو اپنا شیوا بنائیں گے ۔ اُنہوں نے کہا کہ گلگت ایک خزانہ ہے اور ہم اس خزانے پر بیٹھے ہوئے دنیا کے وہ غریب لوگ ہیں جو بنیادی انسانی ضروریات سے آج بھی محروم ہیں ۔ اس محرومی کی سب سے بڑی وجہ ملک میں میرٹ کی پامالی ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر ہمارے تمام ادرے آغا خان ایجوکیشن کے نقش قدم پر چل کر میرٹ کا احترام کریں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم دنیا کی امیر ترین قوموں کی صف میں نظر نہ آئیں ۔ اُنہوں نے علاقے میں آغا خان ایجوکیش سسٹم کو اُمید کی کرن قراد یکر ادارے کو یقین دلایا کہ حکومت گلگت بلتسان علم کے پرچار میں آغا خان ایجوکیشن کے شانہ بشانہ کھڑی رہے گی ۔

 

 

یادرہے کہ آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان، گلگت بلتستان اور چترال کی زیر نگرانی چلنے والے ا سکولوں کے معیار ِتعلیم کو مزید بہتر بنانے کےلیے ان اسکولوں کو مرحلہ وار آغا خان یونیورسٹی امتحانی بورڈ کے ساتھ رجسٹرڈکرنے کا عمل 2006 سے جاری ہے ۔ان اسکولوں میں زیر ِتعلیم طلبہ کی مخفی صلاحیتوں کو اُجا گر کرتے ہوئے اُن کےلیے بہترین مستقبل کا تعّین کرنے کے ضمن میں آغا خان یونیور سٹی امتحانی بورڈ سے ملحق تمام سکولوں میں مروّجہ مضامین کی تدریس کےلیے اپنے مضامین میں خصوضی مہارت کے حامل سند یافتہ مدرّسین کا انتخاب کیا جاتا ہے جو اپنے اپنے مضامین میں طلبہ کی بہترین راہنمائی کرتے ہیں اور نتیجے کے طور پر ان سکولوں میں پڑھنے والے طلبہ بورڈ کے امتحانات کے علاوہ اندرون ملک اور بیرون ملک کی نامور جامعات میں داخلہ لینے میں نہ صرف کامیاب ہوتے ہیں بلکہ اُن تعلیمی اداروں کے امتحانات میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں ۔ یہ طلبہ عملی زندگی میں سول سروس اور افواج پاکستان کے علاوہ طب ، شعبہ قانون ، شعبہ تعلیم ، شعبہ کاروبار اور دیگر شعبوں میں اعلی ٰ عہدوں پر قوم کی خدمت کر رہے ہیں ۔

chitraltimes akesp gb merit citation ceremony gilgit 2

chitraltimes akesp gb merit citation ceremony gilgit 1

chitraltimes akesp gb merit citation ceremony gilgit 7

chitraltimes akesp gb merit citation ceremony gilgit 5

chitraltimes akesp gb merit citation ceremony gilgit 9 chitraltimes akesp gb merit citation ceremony gilgit 3 chitraltimes akesp gb merit citation ceremony gilgit 4 chitraltimes akesp gb merit citation ceremony gilgit 8 chitraltimes akesp gb merit citation ceremony gilgit 10

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
80236

آغا خان ایجنسی فار ہیبیٹاٹ پاکستان کے زیراہتمام ڈیزاسٹررسک ریڈیکشن ڈے کے موقع پر سیمینار کا انعقاد

آغا خان ایجنسی فار ہیبیٹاٹ پاکستان کے زیراہتمام ڈیزاسٹررسک ریڈیکشن ڈے کے موقع پر سیمینار کا انعقاد

اپر چترال (نمایندہ چترال ٹایمز) پاکستان اور دنیا بھر میں ہر سال 13اکتوبر کو ڈیزاسٹر رسک ریڈیکشن ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔آٹھ اکتوبر 2005 کا تباہ کن زلزلہ پاکستان میں اس دن کے اہمیت کو ہمیشہ سے اجاگر کرتا ہے۔ اس لئے پاکستان میں یہ دن ہر سال 8 اکتوبر کو منایا جاتا ہے جبکہ باقی دنیا یہ دن 13اکتوبر مناتی ہے۔ آغا خان ایجنسی فار ہبیٹاٹ (AKAHP) ، پاکستان میں 8اکتوبر سے 13 اکتوبر تک ڈی آر آر ویک مناتا ہے جس میں مختلف پروگراموں کے ذریعے عوام میں آگاہی پید ا کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔آج کے اس اہم دن کے حوالے سے AKAHP کی جانب سے بونی میں سیمینار کا انعقاد ہوا جس میں ضلعی انتظامیہ اپر چترال، سول ڈیفنس، ڈیپارٹمنٹ ہیڈز، اسماعیلی سیوک ، ریسکیو 1122اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔آج کے دن کے حوالے سے سیمینار میں مختلف اداروں کے اسٹال بھی لگے ہوئے تھے جس میں رضاکار شرکاء کو آج کے دن کے حوالے سے آگاہ کریں گے۔یاد رہے اس سال ڈی آر آر ڈے Fighting inequality for resilient future! کے تھیم کے تحت منایا جارہا ہے۔

تقریب میں ولی محمد، ایریا منیجر AKAHP ادارے کی سرگرمیوں کے بارے میں ایک مفصل پریزینٹشن دیں۔ جبکہ جاوید احمد، منیجر ای ایم سیکشن AKAHP نے اس دن کی اہمیت کے بارے پریزنٹیشن دی۔ جس میں آج کے دن کی اہمیت اور قدرتی آفات کے بارے میں تقریب کے شرکاء کو آگاہ کیا گیا۔ جاوید احمد نے اس سال کے تھیم کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈیزاسٹر کے دوراں یا اس سے پہلے تمام لوگوں کو ایک جیسی اہمیت نہ دینے کی وجہ سے ڈیزاسٹر کم ہونے کے بجائے زیادہ نقصان کا سبب بن جاتا ہے۔ ہمیں قدرتی آفات کا شکار ہونے سے پہلے اور قدرتی آفات کے دوران وسائل اور بچاؤ کے منصفانہ تقسیم کو روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا ورنہ ہم زیادہ نقصانات کا شکار ہوں گے۔

اختتامی کلمات میں ڈی سی اپر چترال محمد عرفان الدین نے کہا کہ ہم AKAHP کے انتظامیہ کی ہر میدان مدد کرنے پر انتہائی مشکور ہیں اور انسانی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے پر ہم AKAHP کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے پاس وسائل کی ہمیشہ کمی رہتی ہے مگر AKAHP علاقے میں اپنے مختلف پروگراموں کے ذریعے لوگوں میں آگاہی پھیلانے اور اپنے پروجیکٹس کے ذریعے حکومت کی مدد کرنے میں دن رات مصروف رہتا ہے اس کی ہم جتنی تعریف کریں کم ہے۔ تقریب میں پریذیڈنٹ اسماعیلی کونسل اپر چترال، ڈی سی اپر چترال کے علاوہ ریسکیو 1122 کے ذمہ داران اور مختلف اداروں کے سربراہوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

chitraltimes drr day organized by akahp dc upper irfan

chitraltimes drr day organized by akahp

chitraltimes akahp drr day celebration booni upper chitral 3 chitraltimes akahp drr day celebration booni upper chitral 4 chitraltimes akahp drr day celebration booni upper chitral 5 chitraltimes akahp drr day celebration booni upper chitral 6 chitraltimes akahp drr day celebration booni upper chitral 9 chitraltimes akahp drr day celebration booni upper chitral 10 chitraltimes akahp drr day celebration booni upper chitral 11 chitraltimes akahp drr day celebration booni upper chitral 1

chitraltimes drr day organized by akahp3

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
80215

خیبرپختونخوا میں کل شام سے آندھی/تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ وقفے وقفے سے بارش جبکہ پہاڑوں پر برف باری کا امکان ہے ۔ محکمہ موسمیات

Posted on

خیبرپختونخوا میں کل شام سے آندھی/تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ وقفے وقفے سے بارش جبکہ پہاڑوں پر برف باری کا امکان ہے ۔ محکمہ موسمیات

اسلام آباد ( چترال ٹایمز رپورٹ ) محکمہ موسمیات کے مطابق 13 اکتو بر( شام /رات) کومغربی ہوائیں ملک کے بالائی علاقوں میں داخل ہوں گی اور 14 (رات) تک ملک کے بالائی/وسطی علاقوں میں پھیل جائیں گی۔ جس کے باعث خیبرپختونخوا میں 13(شام/رات) سے17 کے دوران چترال، دیر، سوات، مالاکنڈ، شانگلہ، بونیر، مانسہرہ، کوہستان، ایبٹ آباد،صوابی، خیبر ، مہمند، باجوڑ، پشاور، مردان،نوشہرہ، چارسدہ، کرم، کوہاٹ، ہنگو، اورکزئی ، بنوں، کرک،لکی مروت، ٹانک، وزیرستان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں وقفے وقفے سے آندھی/ تیز ہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ بارش جبکہ چند مقا مات پر موسلادھار بارش کا بھی امکان ہے ۔ اس دوران خیبر پختونخوا میں بلند پہاڑوں پر برفباری اور میدانی علاقوں میں چند مقا مات پرژالہ باری کی توقع ہے۔

کشمیر/گلگت بلتستان میں 13 (رات) سے17 کے دوران کشمیر، (وادی نیلم، مظفرآباد، پونچھ، ہٹیاں، باغ، حویلیاں، سودھنوتی، کوٹلی، بھمبر، میرپور)، گلگت بلتستان (دیامیر، استور، غذر، اسکردو، ہنزہ، گلگت، گھانچے، شگر) میں آندھی/ تیز ہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ بارش جبکہ چند مقا مات پر موسلادھار بارش کا بھی امکان۔اس دوران کشمیر اور گلگت بلتستان میں بلند پہاڑوں پر برفباری کی توقع ہے

اسی طرح پنجاب/اسلام آباد میں 13 (رات) سے17 کے دوران اسلام آباد، خطہ پوٹھوہار، مری، گلیات، سیالکوٹ، نارووال، لاہور، شیخوپورہ، اوکاڑہ، گوجرانوالہ، گجرات ، منڈی بہاؤالدین، حافظ آباد،سرگودھا، خوشاب، نور پور تھل، فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ اور قصور میں آندھی/ تیز ہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ بارش جبکہ چند مقا مات پر موسلادھار بارش اور ژالہ باری کا بھی امکان۔16(شام/رات) سے 18 کے دوران لیہ، بھکر، کوٹ ادو،ساہیوال، ملتان، ڈیرہ غازی خان، راجن پور،بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان میں وقفے وقفے سے ا ٓندھی/ تیز ہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ بارش کی توقع ہے

جبکہ سندھ میں 17 (شام/رات) اور 18کے دوران جیکب آباد، کشمور، شکارپور، سکھر، گھوٹکی، خیرپور، سانگھڑ اورعمر کوٹ میں آندھی/ تیز ہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ بارش متوقع ہے
اور بلوچستان میں 17 اور18 کے دوران شیرانی، موسیٰ خیل، ژوب، قلعہ سیف اللہ ، لورالائی، بارکھان، کولہو، سبی، بولان، قلات، ہرنائی، نصیر آباد، ڈیرہ بگٹی، جعفر آباد، قلعہ عبداللہ پشین، کوئٹہ اور زیارت میں آندھی/ تیز ہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ بارش کی توقع ہے

تیز / موسلادھار بارش کے باعث مقامی ندی نالوں میں پانی کے بہاؤ میں اضافے اور مری،گلیات،کشمیر، گلگت بلتستان ، چترال، دیر، سوات، کوہستان، شانگلہ، بونیر، مانسہرہ اور ایبٹ آباد میں لینڈ سلائیڈنگ کا بھی خطرہ ہے 15(شام/رات) اور 16 کے دوران راولپنڈی، گوجرانوالہ اور لاہور میں اربن فلڈنگ کا خطرہ ہے درجہ حرارت میں نمایاں کمی کا امکان ہے کسان حضرات موسمیا تی پیش گو ئی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے معاملات ترتیب دیں۔ سیاحوں کو بارشوں کے دوران کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لیے محتاط رہنے کی ہدایت گئی ہے تمام متعلقہ اداروں کو اس دوران” الرٹ “رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
80196