Chitral Times

گرم چشمہ لوئیرچترال میں آغا خان ہائیر سیکنڈری اسکول کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا

گرم چشمہ لوئیرچترال میں آغا خان ہائیر سیکنڈری اسکول کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا

گرم چشمہ (نمائندہ چترال ٹائمز )آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان کی جانب سے گرم چشمہ لوئیرچترال کے لیے ایک ہائیر سیکنڈری اسکول کی منظوری دی گئی ہے. یہ جدید تعلیمی ادارہ گرم چشمہ کے مقام ایژ میں تعمیر کیا جائے گا ۔ اس سلسلے میں گزشتہ دن گرم چشمہ کے مقام پر اس سکول کے سنگ بنیاد رکھنے کے حوالے سے ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی اس پراجیکٹ کے ڈونر فیروز غلام حسین تھے ۔انہوں نے اپنے دست مبارک سے آغا خان ہائیر سیکنڈری اسکول کا سنگ بنیاد رکھا۔اس پروقار تقریب میں لیفٹنٹ کرنل انجم مشتاق نے بھی اعزازی مہمان کی حیثیت سے شرکت کی۔تقریب کی صدارت ریجنل کونسل لوئیر چترال کے پریزیڈنٹ ظفرالدین نے کی ۔

 

آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو افیسرامتیاز مومن، ہیڈ آف ایجوکیشن آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان آئین شاہ ، جنرل منیجر گلگت بلتستان اورچترال بریگیڈئر ( ریٹائرڈ ) خوش محمد خان کے علاوہ علاقے کے عمائدین بھی اس تقریب میں بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔

ابتدائی کلمات میں جنرل منیجر اے کے ای ایس پی بریگیڈئر ریٹائرڈخوش محمد خان نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ آج کا دن بہت اہم اور تاریخی دن ہے۔ کیونکہ کہ اس سرزمین پر ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھی جا رہی ہے ۔جو آنے والے وقتوں میں علاقے کی نئی نسل کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے حوالے سے ایک سنگ ِ میل ثابت ہوگا ۔

 

انہوں نے کہا کہ آغا خان ہائیرسیکنڈری اسکول گرم چشمہ کی تعمیر کے منصوبے کی باقاعدہ اجازت شہز ادی زہرا غاخان نے 25 مئی کو اپنے مختصر دورۂ چترال کے موقع پر دی۔

انہوں نے اب تک آغا خان سکولوں کے لیے عطیات دینے والے افراد خاص طور پر اس جدید سہولیات سے آراستہ اسکول کے لیے زمین عطیہ کرنے والی کمیونٹی کے جذبے کو سراہا۔انہوں نے اس کامیابی کے پیچھے کارفرما عوامل کا ذکر کرتے ہوئے چترال کی لیڈرشپ کی تعریف کی کہ انہوں نے تعلیم کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے دہائیوں کی کوشش سے اپنے علاقے ایسی تعلیمی سہولیات فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے.

اس اسکول کے حوالے سے تفصیلی پرزنٹیشن دیتے ہوئے آغا خان ایجوکیشن سروس کے ہیڈ آف ایجوکیشن آئین شاہ نے کہا کہ مذکورہ ہائیر سیکنڈری اسکول میں ابتدائی تعلیم سے لے کر بارھویں جماعت تک ایک سیشن کے دوران ۱۳۰۰ سے زیادہ طلبہ پہلے شفٹ میں اور ضرورت پڑنے پر سیکنڈ شفٹ میں ۱۳۰۰ طلبہ تعلیم حاصل کرسکیں گے۔ان سکولوں میں آغا خان ایجوکیشن سروس کے زیر انتظام مصروف عمل ہائی سکولوں سے فارغ التحصیل طلبہ کے علاوہ دوسرے تعلیمی اداروں سے ثانوی تعلیم کی سند حاصل کرنے والے طلبہ کو بھی قابلیت کی بنیاد پر داخلہ ملے گا۔ سکول کی عمارت کی تعمیر ۲۰۲۷ کے اواخر میں مکمل ہوگی جبکہ پری پرائمری کلاسز کا اجرا پہلے سے ہوچکا ہے ۔

چیف انجینئر تنزیف شاہ نے کہاکہ عمارت کا نقشہ مجوزہ زمین کو قدرتی آفات کے تناظر میں، خوب چھان بین کرکے محفوظ قرار دینے کے بعد بنایا گیا ہے. یہ عمارت تعلیم کے جدید اور اعلیٰ معیار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بنا ئی جائے گی ۔ جس میں جدید طرز تعلیم کی سہولیات سے مزئین کمرہ جماعت، جدیدسائنسی الات سے لیس تجربہ گاہیں، کانفرس روم, کھیلوں کی سہولیات، شدید زمینی بھونچال کو برداشت کرنے کی صلاحیت اور خدا نخواستہ آگ لگنے کی صورت میں بڑے نقصان سے محفوظ رہنے کی صلاحیت موجود ہوگی ۔

پروگرام کے خاص مہمان اور اس اسکول کے لیے فنڈ عطیہ کرنے والےفیروز غلام حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں خود بھی اے کے ای ایس کاپیدوار ہوں۔ میری تعلیم اے کے ای ایس تنزانیہ میں ہوئی ہے۔ آغا خان ایجوکیشن سروس کی معیاری تعلیم کے فوائد میں پوری زندگی حاصل کرتا رہا۔ آج اس ادارے کی بنیاد اس یقین کے ساتھ رکھ رہا ہوں کہ یہ تعلیمی ادارہ آگے چل کر کئی نسلوں کی زندگی میں بہتری لانے کا سبب بنے گا اور علاقے کے لوگوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کا موجب بنے گا۔ آپ سب لوگوں نے جس شاندار انداز میں استقبال کیا میں اس کے لئے تہہ دل سے آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

لفٹنٹ کرنل انجم مشتاق نے کہا کہ آغاخان ایجوکیشن سروس کی تعلیمی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ اس ادارے کی تعلیمی خدمات کسی تعارف کے
محتاج نہیں اس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چترال کے لوگوں کا تعلیم سے لگاؤ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے علم حاصل کرنے کے اس لگاؤ کی وجہ سے چترال کے لوگ پورے ملک میں سب سے پرامن لوگ تصور کیے جاتے ہیں۔ اسی علم کی وجہ سے اس دھرتی نے بہت سارے نامور سپوت پیدا کئے ہیں جن بھی فخر کیا جاسکتا ہے۔

آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان کے سی ای او امتیاز مومن نے کہا کہ یہ اسکول ہمارے بچوں کی زندگیوں کو بدلنے میں اہم اکردار ادا کرے گا ۔ انہوں نے فیروز غلام حسین اور ان کی اہلیہ کا شکریہ ادا کیا اور ان کی فیاضانہ کردار کو خراج ِ تحسین پیش کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اداروں کو بنانا کسی فرد یا ایک ادارے کی بس کی بات نہیں ۔ اس کے لیے کمیونٹی کے تمام اسٹیک ہولڈرز متحد ہوکے کوشش کریں تو بات بنتی ہے ۔

 

تقریب کے آخر میں اسماعیلی ریجنل کونسل کے صدر ظفر الدین نے چترال کی ترقی میں ان تعلیمی اداروں کی اہمیت کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ کمیونٹی ، ڈونرز اور آغا خان ایجوکیشن سروس کا شکریہ ادا کیا ۔تقریب میں مختلف مکاتب فکرکے افراد کثیر تعداد میں شرکت کی۔

chitraltimes akhss garamchashma earth breaking ceremony akesp chitral 14

chitraltimes akhss garamchashma earth breaking ceremony akesp chitral 13

chitraltimes akhss garamchashma earth breaking ceremony akesp chitral 17

chitraltimes akhss garamchashma earth breaking ceremony akesp chitral 5

chitraltimes akhss garamchashma earth breaking ceremony akesp chitral 11 chitraltimes akhss garamchashma earth breaking ceremony akesp chitral 7 chitraltimes akhss garamchashma earth breaking ceremony akesp chitral 6 chitraltimes akhss garamchashma earth breaking ceremony akesp chitral 4 chitraltimes akhss garamchashma earth breaking ceremony akesp chitral 3

chitraltimes akhss garamchashma earth breaking ceremony akesp chitral 1

chitraltimes akhss garamchashma earth breaking ceremony akesp chitral 10

chitraltimes akhss garamchashma earth breaking ceremony akesp chitral 16

chitraltimes akesp aga khan higher secondary school garamchashma

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
89491

شندور فیسٹول کی تیاریوں کے سلسلے میں کمانڈنٹ چترال سکاوٹس اور چترال کے دونوں اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز ودیگر کا انتظامات کا جائزہ لینے کیلئے شندور پولو گراونڈ کا دورہ

شندور فیسٹول کی تیاریوں کے سلسلے میں کمانڈنٹ چترال سکاوٹس اور چترال کے دونوں اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز ودیگر کا انتظامات کا جائزہ لینے کیلئے شندور پولو گراونڈ کا دورہ

اپر چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) شندور فیسٹول 2024 کے انتظامات کا جائزہ لینے کے سلسلے میں اج کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس کرنل بلال جاوید، ڈپٹی کمشنر اپر چترال محمد عرفان الدین ، ڈپٹی کمشنر لوئر چترال محمد عمران خان ، ونگ کمانڈر 144 ونگ مستوج لیفٹننٹ کرنل محمد نور، صدر پولو ایسوسیشن چترال شہزادہ سکندرالملک اور ویلج کونسل سور لاسپور کے چیرمین نے شندور پولو گراؤنڈ کا دورہ کیا۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی جشن شندور کو شایان شان طریقے سے منانے اور شائقین پولو کو ہرممکن سہولیات پہنچانے کے لئے پولو گراؤنڈ شندور کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ۔

انہوں نے باہمی طور پر یہ فیصلہ کیا کہ اس سال شندور کی خوبصورتی کا خاص خیال رکھا جائے گا اور گراؤنڈ کے اس پاس اور پہاڑوں پر ہر قسم کی خطاطی، پینٹنگ یا غیر ضروری اشتہار وغیرہ لگانے پر مکمل پابندی ہوگی اور لکھنے یا اشتہار وغیرہ لگانے کی صورت میں اسے فوری طور پر ہٹا دیا جائے گا۔ اس حوالے سے بہت جلد ڈپٹی کمشنر اپر چترال دفعہ 144نافذ کرے گا۔

یہ طے ہوا کہ سویلین تماشائیوں کے لئے اس سال خصوصی سہولیات پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی ۔یہ بھی طے ہوا کہ اس سال پولیس کیمپنگ والا سائڈ تماشائیوں کے رہنے کے لئے ریزرو کیا جائے گا۔ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ اس سال جشن شندور کو منعقد کرتے وقت مقامی لوگوں کے روایات اور اقدار کا خاص خیال رکھا جائے گا۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی سمیت ، پولو گراؤنڈ کی تزئین و آرائش اور تماشائیوں کے بیٹھنے کے لئے سیڑھیوں پر کام جلد از جلد مکمل کیا جائے گا۔یادرہے کہ جشن شندور اس سال 27 جون سے 29جون کے درمیان منایا جارہاہے، جبکہ اس سے پہلے یہ ایونٹ 7 سے 9 جولائی کے درمیان منایا جاتا رہاہے، گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی اس فیسٹول کی میزبانی چترال کے دونوں اضلاع کی انتطامیہ کرینگے۔

chitraltimes comdt DCs upper and lower chittral visits shahndur polo ground 2 chitraltimes comdt DCs upper and lower chittral visits shahndur polo ground 3 chitraltimes comdt DCs upper and lower chittral visits shahndur polo ground 4 chitraltimes comdt DCs upper and lower chittral visits shahndur polo ground 5 chitraltimes comdt DCs upper and lower chittral visits shahndur polo ground 6 chitraltimes comdt DCs upper and lower chittral visits shahndur polo ground 7 chitraltimes comdt DCs upper and lower chittral visits shahndur polo ground 8 chitraltimes comdt DCs upper and lower chittral visits shahndur polo ground 9 chitraltimes comdt DCs upper and lower chittral visits shahndur polo ground 1 chitraltimes comdt DCs upper and lower chittral visits shahndur polo ground 12 chitraltimes comdt DCs upper and lower chittral visits shahndur polo ground 13 chitraltimes comdt DCs upper and lower chittral visits shahndur polo ground 14

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
89471

مشکلات میں کیا کرنا چاہیے ۔ خاطرات : امیرجان حقانی

مشکلات میں کیا کرنا چاہیے ۔ خاطرات : امیرجان حقانی

زندگی میں آزمائشیں اور مشکلات آتی ہیں اور مالی مسائل بھی انہی آزمائشوں میں سے ایک ہیں۔ ایسے حالات میں جب انسان مالی مشکلات کا سامنا کر رہا ہو، تو اس کے ذہنی اور جسمانی صحت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آج کی تحریر میں ان افراد کو اطمینان، سکون، اور حوصلہ فراہم کرنا ہے جو ان حالات سے گزر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ چند معروضات عمومی حوالے سے بھی عرض کرنی ہیں تاکہ تحریر سے استفادہ عامہ ممکن ہو. دینی اور دنیاوی نقطہ نظر سے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کس طرح ہم ان مشکلات سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں۔

 

دینی نقطہ نظر

دین اسلام بھی انسان کے ہر معاملے میں مکمل رہنمائی کرتا ہے. قرآن کریم کی سینکڑوں آیات، آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم کے فرامین اور سیرت اس حوالے سے انسان کو بہت زیادہ رہنمائی اور موٹیویشن دیتی ہیں. تاہم ایک دو پوائنٹس دینی نکتہ نظر سے عرض کرتے ہیں.

 

1.صبر اور توکل:

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر صبر کرنے کی تاکید کی ہے۔ سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں.

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۳﴾
ترجمہ”اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔”
صبر اور نماز کے ذریعے ہم اللہ کی مدد حاصل کر سکتے ہیں اور دل کو سکون پہنچا سکتے ہیں۔ یہ مجرب اعمال ہیں. اسی طرح توکل بھی ہے.

 

2.شکر گزاری:
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہمیں ذہنی سکون فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ مالی مشکلات ہیں، لیکن ہماری زندگی میں بہت سی دوسری نعمتیں بھی ہیں جن کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:

لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ

ترجمہ “اور اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔” (سورۃ ابراہیم: 7).

 

3.دعا اور استغفار:

دعا ایک ایسی عبادت یا ایکٹیویٹی ہے جس کی کیفیات ہر انسان کے لیے علیحدہ ہے. دعا کرنا اور اللہ سے مدد طلب کرنا ایک مؤثر طریقہ ہے۔ استغفار کے ذریعے ہم اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ کی رحمت کے طلبگار ہوتے ہیں۔ دعا اور استغفار سے دل کو سکون اور اطمینان ملتا ہے۔

 

دنیاوی نقطہ نظر

مشکلات سے نمٹنے کے لئے دین کیساتھ دنیاوی اعتبار سے بھی بڑی رہنمائی ملتی ہیں. جو باتیں عموماً دنیاوی اعتبار سے کہی جاتیں ہیں وہ بھی دینی نقطہ نظر ہی ہوتا ہے. دین اسلام نے ان تمام ہدایات و امور کو سمو دیا ہے تاہم، ہم افہام و تفہیم کی آسانی کے لیے دنیاوی عنوان سے اس کا ذکر کر دیتے ہیں. چند اہم پوائنٹ ملاحظہ کیجئے.

 

1.خود اعتمادی اور مثبت سوچ:

دنیاوی اعتبار سے، خود اعتمادی اور مثبت سوچ اپنانا ضروری ہے۔ اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ رکھیں اور یہ یقین رکھیں کہ آپ ہر مشکل کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ہر دن کو ایک نئے موقع کے طور پر دیکھیں اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے محنت کریں۔

 

2.مدد قبول کرنا:

جب ہم بالخصوص مالی مشکلات و مسائل کا سامنا کرتے ہیں تو بعض اوقات ہم مدد لینے سے جھجکتے ہیں، لیکن مشکل حالات میں مدد قبول کرنا ضروری ہے۔ دوستوں، رشتہ داروں یا فلاحی اداروں سے مدد لیں۔ یہ یاد رکھیں کہ مدد طلب کرنا کوئی کمزوری نہیں ہے بلکہ ایک سمجھداری کا عمل ہے۔ بہت دفعہ رریاستی سسٹم میں بھی مدد کے کئی پہلو موجود ہوتے ہیں جو ہمیں معلوم نہیں ہوتے.
عمومی طور پر ایک مسئلہ پیش آتا ہے کہ لوگ مدد کرنے یا قرضہ حسنہ دینے سے کتراتے ہیں، وہ الگ بحث ہے. سردست یہ دیکھنا کہ مشکل اوقات میں دیگر احباب سے مدد طلب کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے.

 

3.نئے مواقع کی تلاش:

عموماً ہم جب بھی مالی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں تو ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جاتے ہیں اور مزید خود کو کمزور اور کسیل بنا دیتے ہیں.
ایسے میں مالی مشکلات کا سامنا کرتے وقت نئے مواقع کی تلاش میں رہنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ کوئی نیا ہنر سیکھیں، کوئی نیا کاروبار شروع کریں یا موجودہ کام کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ دنیاوی اعتبار سے، جدت اور محنت ہی ہمیں کامیابی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔

عمومی طور پر ہم جب بھی مشکلات میں پھنسے، یہ مشکلات کسی بھی نوعیت کے ہوسکتے ہیں. مالی ہونا ضروری نہیں. ایسے حالات میں ہمیں چند باتوں کا خصوصیت سے خیال رکھنا چاہیے تاکہ ان حالات و مشکلات کا مقابلہ کرسکیں.

 

1.مثبت سوچ و رویہ اپنائیں:

منفی ترین حالات میں بھی ہمیشہ مثبت پہلو دیکھنے کی کوشش کریں۔ ہر مشکل میں سیکھنے کا موقع تلاش کریں۔ ایسے حالات میں رویوں کو مزید مثبت بنانے کی اشد ضرورت ہوتی ہے.

 

2.اہداف مقرر کریں:

واضح اور قابلِ حصول اہداف طے کریں اور انہیں حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کریں۔ یہ آپ کو سمت فراہم کریں گے اور آپ کی محنت کو بامقصد بنائیں گے۔ اہداف طے کیے بغیر زندگی بہت مشکل اور بے ڈھنگ ہوجاتی ہے. میں اپنے طلبہ کو اہداف کے تعین کے حوالے سے باقاعدہ لیکچر دیتا ہوں. یہ صراط مستقیم ہے جو ہر انسان کی الگ ہے جس کا ہر ایک کو الگ الگ جاننا ضروری ہے.

 

3.استقامت برقرار رکھیں:

کامیابی کے حصول کے لیے جان جوکھوں میں ڈالنا پڑتا ہے. کامیابی آسانی سے حاصل نہیں ہوتی۔ کامیابی کے حصول کے لئے مستقل مزاجی اور صبر کے ساتھ کام جاری رکھیں۔ہزاروں عالمی و کامیاب شخصیات میں استقامت کامن صفت ہے. اللہ نے بھی اسی کا حکم دیا ہے.

 

4.خود پر اعتماد رکھیں:

خود اعتمادی سے ہی آپ مشکلات کا سامنا کر سکتے ہیں۔ یقین رکھیں کہ آپ کے پاس مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت اور ٹیلنٹ موجود ہے۔ آپ مسائل کو ریزہ ریزہ کرسکتے ہیں. بس اس کے لئے خود پر، اپنے سکلز اور علم پر اعتماد کی ضرورت ہے.

 

5.حوصلہ افزائی حاصل کریں:

ہم عمومی طور پر حوصلہ شکن لوگ ہیں. ہماری ناکامیوں کا ایک بڑا سبب حوصلہ شکنی ہے. ہم ذرا اوٹ اف بکس سوچنے والوں کا جینا حرام کر دیتے ہیں. معاشرتی بیریر کھڑے کر دیتے ہیں، اور جی بھر کر حوصلہ شکنی کرتے ہیں. تاہم مشکل حالات میں ہمیں چاہیے کہ ہم ان لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جو ہماری کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، ڈھارس بندھاتے ہیں اور ہمیں مثبت توانائی دیتے ہیں۔ یہ لوگ بڑے غنیمت ہوتے ہیں. انہیں کسی صورت ضائع نہیں کرنا چاہیے. معلوم کیجئے. رسول اللہ بھی اپنے اصحاب کو مثبت توانی دیتے رہتے تھے. کاش یہ طرز عمل ہمیں سمجھ آجائے.

 

6.تعلیم اور مہارت میں اضافہ کریں:

اپنی تعلیم اور اپنی مہارتوں میں اضافہ کرنے سے بھی انسان ایزی فیل کرتا ہے بلکہ دوسروں سے نمایاں ہوجاتا ہے. علم اور مہارتیں بڑھانے سے آپ مشکلات کا بہتر سامنا کر سکتے ہیں اور مزید مواقع حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ دور ہی تعلیم و سکلز میں مہارتوں اور بڑھاوے کا ہے. اس سے انسان میں کنفیڈینس بھی آجاتا ہے.

 

7. خود کو آرام دیں:

بعض دفعہ ہم مشکلات میں مزید الجھ جاتے ہیں. ڈپریشن اور اینگزائٹی کا شکار ہوجاتے ہیں. خود کو تکلیف دینے لگ جاتے ہیں. اس سے پرہیز لازم ہے. جسمانی اور ذہنی سکون کے لیے وقت نکالیں۔ ورزش میں مشغول رہیں۔ خوب نیند کریں اور گھر والوں کو بھی ٹائم دیں اور کھلیں کودیں. گپیں ماریں. چیخیں چلائیں اور ہنسیں ہنسائیں. غرض جس شکل میں بھی انجوائے کرنے کی گنجائش ہو کرگزر جائیں.

 

8.منصوبہ بندی اور تنظیم:

مشکلات میں بالخصوص اپنے وقت اور وسائل کی بہتر منصوبہ بندی کریں. مسائل اور وسائل کا باریک بینی سے جائزہ لیں۔ ترجیحات کا تعین کریں اور اہم کاموں پر توجہ دیں۔ غیر ضروری امور میں الجھنے اور پھنسنے سے قطعی گریز کریں.

 

9. مثبت عادات اپنائیں:

انسان کو ہر اعتبار سے مضبوط بننے کے لئے کچھ مستقل عادات اپنانی ہوتی ہیں. ان سے بہت کچھ اچھا محسوس کیا جاسکتا ہے. روزانہ کی مثبت عادات، جیسے کہ مطالعہ، ورزش، اور شکرگزاری، گھر کے چھوٹے موٹے کام، آپ کو مضبوط اور مثبت بناتی ہیں۔ اور بہت ساری عادات حسب ضرورت اپنائی جا سکتیں ہیں.

 

10.ماضی سے سیکھیں:

یاد ماضی کو عذاب بنانے کے بجائے اسی ماضی کی ناکامیوں اور کامیابیوں سے سبق حاصل کریں اور مستقبل میں بہتر فیصلے کرنے کی کوشش کریں۔ بعض اوقات ماضی کی غلطیاں اور کامیابیاں عظیم استاد بنتی ہیں. ہمیں بڑے نقصانات سے بچاتی ہیں اور کامیابیوں کی طرف گامزن کرتی ہیں.

تلکہ عشرۃ کاملۃ، فی الحال یہی دس نکات کافی ہیں.

 

مشکلات مالی ہوں یا کوئی بھی، زندگی کا حصہ ہیں، لیکن ان سے نبرد آزما ہونے کا طریقہ ہمارے اختیار میں ہے۔ دینی اور دنیاوی نقطہ نظر کو اپنا کر ہم نہ صرف اپنی مالی مشکلات سے نکل سکتے ہیں بلکہ ذہنی اور جسمانی صحت کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔ صبر، شکرو ذکر، دعا، اور استغفار سے دل کو سکون ملتا ہے، جبکہ خود اعتمادی، مثبت سوچ، اور نئے مواقع کی تلاش سے ہم دنیاوی اعتبار سے بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں صبر و استقامت عطا فرمائے اور ہمیں ہر مشکل سے نکالے۔ آمین۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
89442

اسماعیلی جماعت کے روحانی پیشوا ہزہائینس پرنس کریم اغاخان کی صاحبزادی شہزادی زہرہ آغاخان  کی اپر چترال آمد

اسماعیلی جماعت کے روحانی پیشوا ہزہائینس پرنس کریم اغاخان کی صاحبزادی شہزادی زہرہ آغاخان  کی اپر چترال آمد

چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز )اسماعیلی جماعت کے روحانی پیشوا ہزہائینس پرنس کریم اغاخان کی صاحبزادی شہزادی زہرہ آغاخان چترال اپر اور لوئیر کے دورے پر آج اپر چترال کے ہیڈ کوارٹر بونی پہنچ گئی ہیں، شہزادی زہرا اغاخان بونی ہیلی پیڈ پہنچنے پر ڈپٹی کمشنر اپر چترال محمد عرفان الدین نے ان کا استقبال کیا۔اس موقع پر ڈسٹرکٹ پولیس افسر اپر چترال اور ضلعی انتظامیہ کی دیگر افسران اور علاقے کے عمائدین بھی موجود تھے۔ڈپٹی کمشنر نے معزز مہمان کو اپر چترال امد پر خوش آمدید کہا اور ضلعی انتظامیہ اپر چترال کی جانب سے ان کو سوئنیر پیش کیا۔ڈپٹی کمشنر نے شہزادی زہرا کو concept paper حوالہ کیا اور چترال کی ترقی میں اغاخان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے کردار کو سراہا۔
کنسپٹ پیپر میں چترال میں ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کی تعمیر اور اغاخان یونیورسٹی سنٹرل ایشیاء جو کہ کرغزستان میں ہے کا ایک شاخ اپر چترال میں کھولنے جیسے اہم نکات شامل تھے۔

کنسپٹ پیپر میں تفصیلی طور پر لکھا گیا ہے کہ چترال میں تقریباً 30 ہزار میگاواٹ تک بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جس سے نہ صرف چترال بلکہ پورے ملک کو فائدہ ہوگا۔ بجلی گھر کے قیام سے علاقے میں صنعت کے شعبے میں ترقی ہوگی اور تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوانون کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔

چترال کے نوجوان علم حاصل کرنے کے متقاضی ہیں اور یہاں سنٹرل ایشیاء یونیورسٹی کے طرز پر یونیورسٹی کے قیام سے علاقے کے نوجوانوں کو دوردراز جگہوں میں جاکر تعلیم حاصل کرنے کے بجائے اپنے علاقے میں معیاری تعلیم حاصل کرنے کا موقع میسر ہوگا۔

شہزادی زہرا اغاخان بونی میڈیکل سنٹر کا مختصر دورہ کیا اور وہان سے لوئر چترال کے لئے روانہ ہوا۔ ڈپٹی کمشنر نے دیگر افسروں کے ہمراہ شہزادی زہرا اغاخان کو الوداع کیا اور مستقبل کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

chitraltimes princes zahra aga khan arrived chitral upper 5 chitraltimes princes zahra aga khan arrived chitral upper 4 chitraltimes princes zahra aga khan arrived chitral upper 3 chitraltimes princes zahra aga khan arrived chitral upper 2

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged , ,
89362

وزیراعظم نے گلگت بلتستان کے مسائل کے حل کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی

Posted on

وزیراعظم نے گلگت بلتستان کے مسائل کے حل کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی

اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ) وزیراعظم شہبازشریف نے گلگت بلتستان کے مسائل کے حل کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی۔وزیراعظم سیکرٹریٹ سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق کمیٹی میں 4 وفاقی وزراء سمیت 3 صوبائی وزیر بھی شامل ہیں، صوبائی وزراء انجینئرمحمد انور، انجینئر اسماعیل، فتح اللہ خان اور چیف سیکرٹری گلگت بلتستان بھی کمیٹی کے ممبر ہیں۔نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ امید ہے کمیٹی کے ذریعے بہت جلد گلگت بلتستان کے دیرینہ مسائل حل ہوں گے، کمیٹی کا مقصد گلگت بلتستان کے مالی معاملات کے حوالے سے سفارشات مرتب کرنا، دیامر بھاشا ڈیم سے گلگت بلتستان کو خالص ہائیڈل منافع کے حوالے سے سفارشات مرتب کرنا شامل ہے۔کمیٹی گلگت بلتستان میں چار اضافی اضلاع (تاتل، تانگیر، روندو، گوپس/یٰسین) کے قیام کی فزیبلٹی کا جائزہ لینے اور قابل عمل سفارشات فراہم کرنے سمیت گلگت بلتستان میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی وضع کرے گی اور عملدرآمد کا پلان فراہم کرے گی۔نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی کا مقصد گندم کی سبسڈی کے لیے ایک طویل المدتی پائیدار منصوبے پر غور کرنا اور تجویز کرنا جس میں گندم کی قیمت کو معقول بنانا اور ٹارگٹڈ سبسڈی شامل ہو سکتی ہے۔نوٹی فکیشن کے مطابق کمیٹی 30 دنوں کے اندر اپنی سفارشات وزیر اعظم پاکستان کو پیش کرے گی، وزارت امور کشمیر اور گلگت بلتستان کمیٹی کو سیکرٹریل معاونت فراہم کرے گی۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged
89318

پرنسز زہرہ کا دورہ گلگت بلتستان اور کچھ تجاویز- خاطرات : امیرجان حقانی 

پرنسز زہرہ کا دورہ گلگت بلتستان اور کچھ تجاویز- خاطرات : امیرجان حقانی

گلگت بلتستان، پاکستان کا ایک خوبصورت مگر انتہائی بھرپور چیلنجز سے مملو خطہ ہے، اس خطے کی چیلنجز میں بالخصوص امن و امان، سماجی ہم آہنگی، تعلیم و صحت اور روزگار کے مسائل شامل ہیں. اس کی وادیاں اور پہاڑیاں قدرت کے حسین مناظر کا نمونہ ہیں۔ اس خطے کے عوام نے ہمیشہ اپنی محنت، خلوص اور جدوجہد سے دنیا میں اپنی شناخت بنائی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم تعلیم اور صحت کے میدان میں بالخصوص پورے گلگت بلتستان میں انقلاب برپا کریں، تاکہ گلگت بلتستان امن کا گہوارہ بھی بن جائے اور ترقی یافتہ معاشرہ بھی. یہ انقلاب کچھ مخصوص شہروں یا اضلاع و کمیونٹیز تک محدود نہ ہو بلکہ گاشو پہوٹ سے لے کر شندور تک، داریل کھنبری سے لے کر استور کالا پانی اور بلتستان چھوربٹ تک یہ انقلاب حقیقی طور پر برپا ہو، اس سے سنی، شیعہ، نوربخشی، اسماعیلی اور  دیگر سب برابر مستفید ہوں. اور اس میں آغا خان فاؤنڈیشن کا کردار کلیدی ہو سکتا ہے۔کلیدی کردار کے لئے عزم اور خلوص کی ضرورت ہوتی ہے جس کو پیدا کرنا بھی ایک مستقل چیلنج ہے اور حوصلہ درکار ہے. دل و دماغ کو بہت بڑا کرنا ہوگا. اتنا بڑا کہ سب سمو جائیں.
پرنس کریم آغا خان کی بیٹی پرنسز زہرہ کی گلگت بلتستان آمد نے اس خطے کے لوگوں میں نئی امیدیں اور جذبہ پیدا کیا ہے۔ ان کے دورے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آغا خان اور آغا خان فاؤنڈیشن ہمیشہ سے ہی یہاں کے عوام کی بھلائی کے لئے سرگرم ہیں اور رہیں گے۔ آغا خان فاؤنڈیشن نے ضلع ہنزہ اور غذر میں تعلیم، صحت اور دیگر اہم شعبوں میں شاندار کام کیے ہیں، اور یہ بدیہی حقیقت ہے کہ امامتی اداروں، آغاخان فاونڈیشن اور اس کے ذیلی یونٹس  سے زیادہ تر اسماعیلی برادری کے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ دیگر کمیونٹیز کے لوگ جزوی طور فائدہ حاصل کر پا رہے ہیں. دیامر مکمل محروم ہے.
ہم سب جانتے ہیں کہ تعلیم مستقبل کی کنجی ہے. ضلع دیامر و استور اور بلتستان کے کچھ ایریاز میں بالخصوص تعلیم کے میدان میں بہت زیادہ بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ یہاں کے بچوں اور نوجوانوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ آغا خان فاؤنڈیشن کے تجربات اور وسائل کی مدد سے یہاں تعلیمی اداروں کی حالت بہتر بنائی جاسکتی ہےاس کے لیے کچھ مختصر تجاویز پیش خدمت ہیں جو بالخصوص پرنسز زہرہ اور محمد علی تک پہنچائی جاسکتی ہیں۔
1.معیاری تعلیمی اداروں کا قیام:
دیامر و استور اور دیگر نیڈی ایریاز  میں جدید سہولیات سے آراستہ تعلیمی اداروں کا قیام وقت کی ضرورت ہے۔ ایسے ادارے جو نہ صرف جدید تعلیمی معیار کو بلند کریں بلکہ بچوں کی شخصیت سازی میں بھی اہم کردار ادا کریں اور انہیں دور جدید کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تیار کریں۔
2.اساتذہ کی تربیت:
معیاری تعلیم کے لئے معیاری اساتذہ ضروری ہیں۔ آغا خان فاؤنڈیشن اساتذہ کی تربیت کے لئے خصوصی پروگرام شروع کرے تاکہ وہ جدید تدریسی طریقوں سے واقف ہو سکیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ پی ڈی سی این گلگت کے زیر انتظام، پہلے ہی اساتذۂ کی تربیت کا انتظام چل رہا ہے، تاہم میرا خصوصی مدعا یہ ہے کہ دیامر ڈویژن اور دیگر نیڈی علاقوں کے اساتذہ کو ترجیحی بنیادوں پر فوکس کیا جائے.
3.تعلیم کی رسائی:
ان علاقوں کے ہر بچے تک تعلیم کی رسائی کو ممکن بنانا ہے۔ اس کے لئے خصوصی تعلیمی پروگرامز کا آغاز کیا جائے جن کے ذریعے دور دراز علاقوں میں بھی تعلیم فراہم کی جا سکے۔ پرنسز زہرہ اگر اس نکتہ کو فوکس کرکے آغاخان یونیورسٹی اور فاونڈیشن کو ذمہ داری دے تو ایسا خصوصی نظم یعنی کوئی پروجیکٹ ترتیب دیا جاسکتا ہے کہ تعلیم چل کر ہی ہر بچے کی دہلیز تک پہنچے. کاش! اس بات کو کوئی سمجھے. یہ پروجیکٹ حکومت، کسی این جی اور یا لوکل کمیونٹیز کیساتھ مل کر بھی وضع کیا جاسکتا ہے.یہ بہت اہم بات ہے. دیہی علاقوں کے بچے تعلیم اور تعلیم ان سے محروم ہے. گلگت بلتستان میں بیلنس ترقی کے لئے یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں.
ان دو تین تجاویز کے علاوہ بھی آغاخان یونیورسٹی اور آغاخان فاونڈیشن لازمی پروجیکٹ تیار کرسکتے ہیں. ان کے پاس تعلیمی ماہرین کی بڑی ٹیمیں موجود ہیں. وہ جانتے ہیں کہ  نیڈی رولر ایریاز میں کام کیسے کیا جاسکتا ہے. تعلیم ان تک کیسے پہنچائی جاسکتی ہے.
تعلیم کیساتھ صحت بھی بہت ضروری ہے. ایک صحت مند معاشرہ ہی ایک ترقی یافتہ معاشرہ بن سکتا ہے. بغیر صحت کے معاشرے اور قومیں زوال پذیری کا شکار ہوتی ہیں.
دیامر ڈویژن اور کچھ نیڈی رولر ایریاز میں صحت کے میدان میں بھی بہتری کی ضرورت ہے. ان علاقوں کے عوام کو معیاری صحت کی سہولیات فراہم کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ آغا خان ہسپتال اور فاؤنڈیشن یہاں بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آغاخان فاونڈیشن کے اسکردو، ہنزہ، گلگت اور غذر میں بہترین ہسپتال ہیں. ایسے کچھ مزید اعلی شان ہسپتالوں کی ضرورت دیامر اور استور میں بھی ہے.شعبہ صحت کے حوالے سے بھی کچھ تجاویز ملاحظہ ہوں.
1. جدید طبی مراکز کا قیام:
ضلع دیامر و استور میں جدید طبی مراکز کا قیام ضروری ہے جہاں عوام کو معیاری طبی سہولیات میسر ہوں۔ دیامر گلگت بلتستان کا گیٹ وے ہے اور شاہراہ قراقرم کا بڑا حصہ یہی سے گَزرتا ہے. اکثر مسافروں کے حادثات بھی ہوتے ہیں. اس حوالے سے بھی چلاس میں ایک جدید ہسپتال کی ضرورت ہے. اکلوتا چلاس سرکاری ہسپتال چار لاکھ سے زائد آبادی اور ہزاروں مسافروں اور زخمیوں کا بوجھ برداشت کرنے سے قاصر ہے.
2.صحت کی تعلیم:
صحت کے بارے میں عوام میں آگاہی پیدا کرنا اہم ہے۔ اس کے لئے خصوصی مہمات چلائی جائیں جن میں عوام کو صحت مند طرز زندگی کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جس طرح لٹریسی ریٹ دیامر میں کم ہے اسی طرح صحت کے حوالے سے بھی بنیادی معلومات سے لوگ نابلد ہیں. یہ بھی ایک خطرناک چیلنج ہے جو پورے گلگت بلتستان کو ڈسٹرب کررہا ہے.
3.ماں اور بچے کی صحت:
ماں اور بچے کی صحت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ آغا خان فاؤنڈیشن کے ذریعے ماں اور بچے کی صحت کے مراکز قائم کئے جائیں جہاں ماں اور بچے کو مکمل طبی سہولیات فراہم ہوں۔ افسوسناک امر یہ ہے زچہ بچہ کی تعلیمی آگاہی ان علاقوں میں نہ ہونے کے برابر ہے. بلکہ عیب سمجھا جاتا ہے. دیامر اور استور کی روایات کو مدنظر رکھ شاندار آگاہی دی جاسکتی ہے.
تعلیم اور صحت کے علاوہ دیگر اہم ایریاز بھی بالخصوص دیامر ڈویژن میں کام کی ضرورت ہے.
1.روزگار کے مواقع:
ان علاقوں میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے آغا خان فاؤنڈیشن مقامی صنعتوں کو فروغ دے سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف معیشت مستحکم ہو گی بلکہ عوام کو بھی روزگار ملے گا۔مائیکرو فائنانس اور مائیکرو بزنس کی دسیوں صورتیں ترتیب دی جاسکتی ہیں.
2.خواتین کی ترقی:
ان علاقوں کی خواتین کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے۔ ان کے لئے ہنر سکھانے کے مراکز قائم کئے جائیں تاکہ وہ خود مختار ہو سکیں۔ اس میں بھی مقامی لوگوں کی روایات و ثقافت کو مدنظر رکھ کر بڑے پیمانے پر کام کرنے کہ گنجائش اور ضرورت موجود ہے.
3.ماحولیات کی حفاظت:
ان علاقوں میں ماحولیات کی حفاظت کے لئے خصوصی پروگرام شروع کئے جائیں تاکہ قدرتی وسائل کو محفوظ رکھا جا سکے۔ دیامر اور استور قدرتی وسائل کے خزانے ہیں. ان کی حفاظت کے لئے ہر سطح پر کام کیا جاسکتا ہے.
یہ ماننے میں قطعاً حرج نہیں کہ آغا خان فاؤنڈیشن نے ضلع ہنزہ اور غذر میں جو خدمات انجام دی ہیں، وہ قابل تحسین ہیں۔لیکن ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ پرنس کریم آغا خان  ایک عالمی شخصیت ہیں. عالمی شخصیت ہونے کے ناطے، آغا خان کے وژن اور خدمات کو صرف ایک کمیونٹی تک محدود رکھنا مناسب نہیں۔ یہ بات مقامی لوگوں اور آغاخان کے چاہنے والوں کو ضرور بری لگے گی بلکہ وہ فوراً تردید کریں گے اور دیگر کمیونٹیز کے لیے کی جانے والی خدمات گنوانا شروع کریں گے مگر بہرحال یہ بھی زمینی حقیقت ہی ہے کہ گلگت بلتستان و چترال میں آغا خان اور آغاخان فاونڈیشن کو محدود کیا گیا ہے. اب تک عملا یہی ہورہا ہے.جس سے انکار کی گنجائش موجود نہیں اور نہ ہی اس حوالے سے دلائل گھڑنے کی ضرورت ہے. اب تک جو ہوا سو ہوا.
گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع، خصوصاً دیامر و استور، کو بھی ان خدمات سے مستفید ہونے کا پورا حق ہے۔ ہمیں امید ہے کہ پرنسز زہرہ کی گلگت بلتستان آمد، ان علاقوں کے لوگوں کے لئے نئے مواقع اور ترقی کے دروازے کھولے گی۔ لوگ بدلے ہیں. حالات بدلے ہیں. خیالات بدلے ہیں. اب وہ سوچ اور خیالات نہیں رہے جن کا کبھی شکوہ کیا جاسکتا تھا. اب ان علاقوں میں کام نہ کرنے کا کوئی بہانہ یا دلیل معقول نہیں کہلائی گی.
آئیے، ہم سب مل کر ایک روشن مستقبل کی بنیاد رکھیں جہاں گلگت بلتستان کے ہر بچے کو معیاری تعلیم، مناسب روزگار اور صحت کی بہترین سہولیات میسر ہوں۔ یہ وہ وقت ہے جب ہمیں اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لئے مشترکہ طور پر کوششیں کرنی ہوں گی۔ ایک ایسا مثالی معاشرہ قائم کریں جہاں ہر فرد کو ترقی کے برابر مواقع ملیں اور ہم سب مل کر اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ایک بہتر دنیا تخلیق کریں۔
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
89302

طلبہ و طالبات کی سیکورٹی اور عملی اقدامات – خاطرات :امیرجان حقانی

طلبہ و طالبات کی سیکورٹی اور عملی اقدامات – خاطرات :امیرجان حقانی

آج دن بھر سوشل میڈیا میں یہ خبر گردش کرتی رہے ہے کہ ایک بدبخت شخص گورنمنٹ گرلز ہائی سکول جوٹیال گلگت کی چھوٹی بڑی طالبات کو ہراساں کرتا رہتا تھا. طالبات نے اسکول جانا چھوڑ دیا تھا. یوں سکول انتظامیہ نے والدین سے رجوع کیا اور والدین اور جوٹیال یوتھ نے اس کمبخت کو پکڑ کر خوب پھینٹا لگا دیا اور پولیس کے حوالے کر دیا. کاش ہر سکول کے سامنے بیٹھ کر ایسی حرکتیں کرنے والوں کو یوں پھینٹا لگایاجاتا.
جوٹیال گرلز ہائی سکول گلگت بلتستان کے  طالبات کے سرکاری سکولز میں سب سے بہتر اور معیاری سکول ہے. میں خود گزشتہ کئی سالوں سے اس اسکول کی کارگردگی کو غور سے دیکھتا رہا ہوں. شاندار صفائی اور تعلیمی نظام ہے.
یہ ایک نہایت افسوسناک اور قابل مذمت واقعہ ہے جس میں ایک بدبخت، رذیل اور کمینہ آدمی نے گرلز ہائی سکول جوٹیال کی معصوم طالبات کو روزانہ ہراساں کر کے ان کی زندگیوں کو جہنم بنا دیا تھا۔
اس خبر کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے. گرلز ہائی سکول ایف سی این اے کے ساتھ ہی ہے. یہ فوجی علاقہ ہے جو انتہائی حساس اور سینٹرل ایریا ہے. جگہ جگہ کیمرے لگے ہونگے. درست نہج پر اس کی پوری تحقیقات ہونی چاہیے.
یہ بدبخت نہ صرف اخلاقی پستی کا شکار ہے بلکہ معاشرتی امن اور سکون کو بھی شدید نقصان پہنچا رہا تھا۔ گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں ایسے افراد کے باعث بچیاں خوف و ہراس میں مبتلا ہو کر اپنی تعلیم جاری رکھنے سے قاصر ہو جاتی ہیں جو نہایت تشویشناک امر ہے۔ گلگت بلتستان کے کئی ایریاز میں ایسے بدبخت پائے جاتے ہیں.
جوٹیال یوتھ اور بچیوں کے والدین کی جرات مندی اور اقدام قابل تحسین ہے کہ انہوں نے اس شخص کو پکڑ کر اس کے ناپاک ارادوں کا قلع قمع کیا اور اسے پولیس کے حوالے کر دیا۔ یہ ایک بہترین مثال ہے کہ جب برائی کو دیکھ کر خاموشی اختیار کرنے کی بجائے، ہمیں مل کر اس کا مقابلہ کرنا چاہیے. حدیث میں حکم بھی آیا ہے کہ اگر برائی کا خاتمہ ہاتھ سے ہوسکتا ہے تو کرنے میں دیر نہیں لگانا چاہیے۔ جوٹیالین نے حدیث پر عمل کرکے اجر عظیم کمایا ہے. جہاں جہاں ایسی صورتحال ہو وہاں وہاں اہل محلہ و علاقہ اور والدین کو مل کر ایسا اقدام کرنا چاہیے. تاکہ طلبہ و طالبات بھی محفوظ ہوں اور ثواب عظیم بھی ملے.
تاہم یاد رکھا جائے یہاں صرف محلہ والوں یا والدین کی ذمہ داری ختم نہیں ہوتی۔ یہ واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہماری انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزید مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے افراد کی جڑ سے بیخ کنی کی جا سکے۔ پولیس کو چاہیے اس واقعہ کو بطور کیس اسٹڈی لیں اور تمام تعلیمی اداروں کے دائیں بائیں پائے جانے والے  ایسے غنڈوں کا ڈیٹا جمع کریں اور ان کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے کوئی میکنیزم تیار کریں. تاکہ ایسے افراد کو سخت سے سخت سزا دی جاسکے اور دوسروں کے لئے عبرت کا نشان بن سکے۔

انتظامیہ کو بھی سکولوں اور ان کے اطراف میں سیکورٹی کے انتظامات کو بہتر بنانا چاہیے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔
سکول کے طلبہ و طالبات کی حفاظت اور تعلیم ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے۔ ایسے افراد کے خلاف سخت ترین اقدامات کرنے سے ہی ہم اپنے معاشرے کو محفوظ بنا سکتے ہیں اور طلبہ و طالبات کو ایک محفوظ تعلیمی ماحول فراہم کر سکتے ہیں۔ امید ہے کہ انتظامیہ، حساس ادارے، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اس واقعہ کو سنجیدگی سے لے کر فوری اور مؤثر کارروائی کریں گے۔
سماجی اور معاشرتی طور پر بھی سب کو ملکر ایسے گندے اور غلیظ کیریکٹرز کے خاتمے کے لئے علمی، شعوری اور عملی اقدامات کرنے چاہیے.
تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات کی سیکیورٹی اور انہیں ہراساں کرنے والوں سے بچاؤ کے لئے کچھ لانگ ٹرم تجاویز عرض کیے دیتا ہوں. ان پر عمل کیا جائے تو صورتحال مثالی بن سکتی ہے. یہ کام ریاست کے تمام ادارے اور سماجی و عوامی معاونت و اشتراک سے ہوسکتے ہیں.
1. تعلیمی ادارے کی حدود میں سیکیورٹی انتظامات:
 تعلیمی ادارے کی چار دیواری اور داخلی و خارجی راستوں پر سیکیورٹی گارڈز کی تعیناتی۔
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب اور ان کی موثر نگرانی۔
2. طلبہ و طالبات کی آگاہی اور تربیت:
 سیکیورٹی اور ہراسانی سے بچاؤ کے بارے میں طلبہ و طالبات کی تربیت اور خصوصی ٹریننگ
 ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد تاکہ وہ خود کو محفوظ رکھنے کے طریقوں سے آگاہ ہو سکیں۔
3. سکول کارڈز اور بائیو میٹرک سسٹم کا استعمال:
   تمام طلبہ و طالبات ، اساتذہ اور عملے کے لئے سکول کارڈز کا اجرا اور ان کا لازمی استعمال۔
  بائیو میٹرک سسٹم کی تنصیب تاکہ کسی بھی غیر متعلقہ شخص کا، ادارے میں داخلے کو روکا جا سکے۔
4. ایمرجنسی نمبرز اور رابطے کی معلومات:
   طلبہ و طالبات کو ایمرجنسی نمبرز فراہم کرنا۔ تاکہ وہ بروقت رابطہ کرسکیں
   ہر کلاس روم میں ایمرجنسی رابطے کی معلومات کا دستیاب ہونا۔
5. ہراسانی کی شکایات کے لئے ہاٹ لائن:
   ایک خفیہ ہاٹ لائن کا قیام جہاں طلبہ و طالبات بغیر کسی خوف کے اپنی شکایات درج کروا سکیں۔
  شکایات پر فوری اور مناسب کارروائی کی جائے۔
6.اساتذہ اور عملے کی تربیت:
   اساتذہ اور دیگر عملے کو سیکیورٹی اور ہراسانی سے نمٹنے کی تربیت دی جائے۔
  تاکہ وہ کسی بھی ممکنہ مسئلے کی صورت میں فوری مدد فراہم کر سکیں۔
7. طلبہ و طالبات کی نقل و حرکت کی نگرانی:
   تعلیمی اداروں کی بسوں اور دیگر ٹرانسپورٹ کے نظام کی نگرانی۔
  ہاسٹلز اور رہائشی سہولیات میں سیکیورٹی کا موثر نظام۔
8. سیکیورٹی آڈٹس اور معائنہ:
   تعلیمی ادارے میں باقاعدگی سے سیکیورٹی آڈٹس کا انعقاد و انتظام
  کسی بھی کمزوری کی صورت میں فوری بہتری کے اقدامات۔
9. محفوظ آن لائن ماحول:
   تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے محفوظ استعمال کے بارے میں آگاہی دینا۔
  سائبر بُلِنگ سے بچاؤ کے طریقے سکھانا۔( آج کل سائبر بُلنگ کے ذریعے سب سے زیادہ ہراساں کیا جاتا ہے)
10. والدین کے ساتھ تعاون:
    والدین کو بچوں کی سیکیورٹی اور ممکنہ خطرات کے بارے میں آگاہ کرنا۔
   ان سے مسلسل رابطے میں رہنا تاکہ کسی بھی مسئلے کی صورت میں فوری مدد حاصل کی جا سکے۔
ان تجاویز پر عمل کر کے تعلیمی ادارے، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے طلبہ و طالبات کی سیکیورٹی میں مکمل بہتری لا سکتے ہیں اور انہیں ہراسانی سے بچا سکتے ہیں۔
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
88987

یہ اختصاص کا دور ہے – خاطرات :امیرجان حقانی 

یہ اختصاص کا دور ہے – خاطرات :امیرجان حقانی

 

یہ اختصاص یعنی کسی ایک فن یا موضوع پر مکمل دسترس اور مہارت حاصل کرنے کا دور ہے. ایک مخصوص ہنر، فن یا موضوع پر مہارت حاصل کرنا بھی ایک مکمل آرٹ  ہے جس میں انسان اپنے علم، تجربہ، اور مہارت کو بہتر بناتا ہے۔ اس دور میں، ایک فرد اپنی پیشہ ورانہ مہارتوں پر مستقل طور پر کام کرتا ہے، جس سے اس کی قابلیت، صلاحیت اور اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

اختصاص انسان کو  اپنے شعبہ  یا فنی میدان میں عالمی درجہ پر پہنچنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ اس کی بہت ساری مثالیں دی جاسکتی ہیں. کسی انسان کا کسی خاص فن میں اختصاص ہی اس کی پہچان بن جاتی ہے.

ایسے افراد جو مخصوص فن یا علم میں اختصاصی صلاحیت پیدا کرتے ہیں، اپنے میدان میں علم و تجربہ کے ساتھ مصروف رہتے ہیں اور اپنے علم و فن کو مکمل کرنے کے لئے محنت کرتے ہیں۔ اپنی صلاحیتوں و مہارتوں کی بنیاد پر وہ اپنے شعبہ اور  میدان میں معتبر شخصیت بن جاتے ہیں، اور دنیا کے لیے علم، فہم، اور عظمت کی علامت بن جاتے ہیں ۔ ان متخصص لوگوں کے ذریعہ، نئے فنون کی دریافت ہوتی ہے، نئے تجربات وجود میں آتے ہیں ، اور معاشرتی اور تکنیکی ترقی کے لئے نئے دروازے کھل جاتے ہیں۔ ان کی مہارتوں کا اثر، عام لوگوں کی زندگیوں پر بھی ہوتا ہے، جو ان کے کاموں سے مستفید ہوتے ہیں۔

اختصاص پورا وقت چاہتا ہے. پورا سرمایہ چاہتا ہے. پوری قوت چاہتا ہے. مکمل یکسوئی چاہتا ہے. انسان سب کچھ نچھاور کرے تو پھر وہ کسی ایک فن، علم، ہنر یا شعبہ میں متخصص و ماہر بن سکتا ہے اور اپنا نام کما سکتا ہے. چند مثالوں کے ذریعے اس کی افہام و تفہیم کی کوشش کرتا ہوں.
عورت کو پورا مرد چاہیے:
یہ ایک معروف کہاوت ہے. عورت آدھا مرد پر رضا نہیں ہوتی. اس کو پورا مرد چاہیے. وہ مرد میں تقسیم بھی نہیں چاہتی. اگر مرد خود کو مکمل اس کے حوالہ کر دے تو شاید وہ راضی ہو، ورنا عورت کڑھتی رہتی ہے. ویسے اس کا کچھ تجربہ مجھے ایک سال سے ہو بھی رہا ہے.

عورت کے اسی فلسفہ اور “پورے مرد” کو دیگر امور میں قیاس کرلیتے ہیں. ہر فیلڈ اور ہر فن کے لیے پورا پورا مرد چاہیے ہوتا ہے. آدھا مرد یا آدھا تیتر آدھا بٹیر  بننے سے کام نہیں چلے گا.

سیاست کو پورا سیاست دان چاہیے:

سیاست ایک اہم شعبہ ہے جو معاشرتی ترقی اور سیاسی شعور و ترتیب کے لئے ضروری ہے۔ ایک مثالی سیاست دان، اپنے اصولوں پر قائم رہتا ہے، اور عوام کے مفادات کے لئے محنت کرتا ہے۔ وہ قوم کو ملکی ترقی اور فلاح کی راہ میں رہبری دیتا ہے، اور ایک بہترین معاشرتی نظام کی بنیاد رکھتا ہے. اب اگر کوئی پارٹ ٹائم سیاست کرے تو قطعاً وہ سیاسی نہیں کہلائے گا. بلکہ سچ یہ ہے کہ سیاست پر دھبہ ہوگا.اور پاکستان دھبوں سے بھرا پڑا ہے.

عسکریت کو پورا فوجی چاہیے:

عسکریت ایک پورا شعبہ ہے. اس کی ایک مکل تاریخ ہے.فوج ایک ملک کی حفاظت اور امن کے لئے اہم ہوتی ہے۔ ایک مثالی فوجی، اپنے پیشہ پر فخر کرتا ہے، اور اپنے ادارے کے اصولوں اور قوانین کا پاسبانی کرتا ہے اور اپنے حلف کی پاسداری کرتا ہے۔ وہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے جان کی قربانی دینے کو تیار رہتا ہے ،اور عوام کی حفاظت کے لئے ہمہ دم مستعد رہتا ہے۔ اگر وہ اس کام کی بجائے سیاست، معیشت، کنسٹرکشن، طب اور تعلیم میں لگے تو شاید وہ اپنی اہمیت و مہارت کھو بیٹھتا ہے. دنیا اس کے فن عسکریت کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتی.

علم کو پورا طالب علم اور مدرس چاہیے:

تعلیم اور علم کی اہمیت کو نظرانداز کرنا ناممکن ہے۔ ایک مثالی طالب علم، حصول علم کے لیے محنت کرتا ہے اور اپنے علمی میدان میں ترقی کرتا ہے ۔ ایک مثالی مدرس، اپنے طلباء کو روشنی اور ہدایت فراہم کرتا ہے ، اور ان میں مختلف معاشرتی مسائل کے حل کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے اور مہارت سکھاتا ہے۔ اگر استاد اور طالب علم اپنا کام یکسوئی سے کرکے مہارت حاصل کرنے کی بجائے سیاستدان دانوں کے لئے ایندھن بنیں اور نعرے لگائیں تو وہ کچھ بھی ہوسکتے ہیں مگر طالبان علم نہیں ہوسکتے.

شاعری کو پورا شاعر چاہیے:

شاعری اور ادب سماجی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک مثالی شاعر اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں جذبات پیدا کرتا ہے ، اور ان کی زندگیوں کو رنگین بناتا ہے۔ اس کی شاعری میں عظمت، عشق، اور فن کی روشنی ہوتی ہے، جو سماج کے فہم و فرہنگ کو بڑھاتی ہے۔ اگر شاعر اور ادیب اپنے فن میں متخصص نہ ہو تو شاید اپنی وقعت کھو بیٹھے گا اور اس کی ادبی عمر بہت کم ہوگی.

تحقیق اور دانش بھی ریاضت چاہتے ہیں: 

تحقیق اور دانش کا کاروبار انسانی ترقی کے لئے بہت اہم ہے۔ ایک مثالی محقق، اپنی تحقیقات میں عمق اور صداقت کے ساتھ محنت کرتا ہے۔ اس کا فہم اور تجربہ، اسے نیو معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے. وہ ہر وقت کھوج لگاتا رہتا ہے۔ وہ اپنی تحقیقات کو باریکی سے پیش کرتا ہے اور اپنی تحقیق کو تحقیقی مہارتوں سے مزین کرتا ہے۔ ایسا محقق، انسانی معرفت کو بڑھانے اور معاشرتی مسائل کے حل کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دانش ور بھی یہی کرتے ہیں.
ایک مثالی مبلغ، اپنے علم اور فن کو استعمال کرتے ہوئے اپنے پیغام کو عوام تک پہنچاتا ہے۔ اس کی فنی خوبصورتی اور قوتِ تقریر و تبلیغ ، اسے ایک نمایاں مبلغ بناتی ہے۔

ایک سادہ مثال آپ کی تفہیم کے لیے عرض کرتا ہوں. معروف ادارہ ایم آئی ٹی سے پیور سائنس میں ڈگری حاصل کرنے والے پروفیسر ہود بائی، جب سائنس کو چھوڑ کر مذہب و سیاست اور سماجی علوم پر مکالمے و مباحثے کریں یا انجینئر طاہر مرزا جہلمی علم انجینئرنگ کی بجائے فن حدیث پر گفتگو کریں یا مولانا الیاس گھمن صاحب دینی علوم کو چھوڑ کر سرچ اور ریسرچ کا فلسفہ بیان کریں، تو شاید مضحکہ بن جائیں گے. ایسے لوگ کبھی اس فن میں سند نہیں بنیں گے.

 

یہ  چند مثالیں اپنی بات کو سمجھانے کے لیے لکھ دی.اور یہ باتیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہر  شعبہ میں مثالی شخصیتوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنے کردار میں مکمل ہوں۔ ایسے افراد معاشرتی ترقی اور امن کے لئے اہم ہوتے ہیں، اور ان کی صلاحیتوں کی قدر کی جانی چاہیے۔

ہر کام میں، مکمل وقت، سرمایہ، فرد اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ انجام دینے والے کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے اور ان کو اپنی ماہریت پر فخر ہونا چاہئے۔ آج کے دور میں، ہر فن مولا بننے کی غیر ضروری کوشش کرنا اور دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑانے کی بجائے ، اپنی پروفیشنل ذمہ داریوں کو پورا کرنا ضروری ہے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف افراد بلکہ پورے سماج اور انسانیت کو فائدہ پہنچتا ہے.

ہمارا سماجی المیہ یہ ہے کہ اپنے کام میں مہارت حاصل کرنے اور اس میں یکسوئی سے لگے رہنے کی بجائے دوسروں کے کاموں اور شعبوں میں گھس جاتے ہیں. جس کا لازمی نتیجہ نقصان کا ہوتا ہے.

بہت سے احباب لکھنا چاہتے ہیں. کالم نگار بننے کی خواہش ہوتی ہے. جب ان سے کہا جائے کہ مطالعہ کریں، کتابیں خریدیں اور بے تحاشا پڑھیں تو موت آنے لگتی ہے.
آدمی شوقیہ لکھاری تو نہیں بن سکتا. عشروں کی ریاضت و مشقت چاہیے ہوتی ہے. فل ٹائم دینا پڑتا ہے. گرمی سردی کا خیال نہیں کرنا پڑتا. بہر حال، انسان کو اپنے کام کی اچھی طرح تشخیص کرکے اس پر خوب اختصاص حاصل کرنا چاہیے. اگر زندہ رہنے اور کارآمد انسان بننے کی خواہش ہے تو کسی ایک چیز میں اختصاصی پوزیشن حاصل کریں.

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
88863

گوہرآباد: مسائلِستان پر مشتمل تاریخی وادی – خاطرات :امیرجان حقانی 

گوہرآباد: مسائلِستان پر مشتمل تاریخی وادی – خاطرات :امیرجان حقانی

گوہرآباد، گلگت بلتستان کا ایک دلکش اور تاریخی گاؤں ہے، جس کا وجود بارہ سو سال سے قائم ہے۔ کچھ روایات کے مطابق تین ہزار سال سے قائم ہے.قدیم زمانے میں یہ گاؤں تین قلعہ بند آبادیوں، لسنوٹ، ڈبوٹ، اور کھرتلوٹ پر مشتمل تھا.قدیم زمانے میں اکثریتی آبادی یہی قلعہ بند آبادیوں مقیم تھی. جہاں اب بھی قدیم رہائشی مکانات موجود ہیں جو علاقے کے تاریخی ورثے کی عکاسی کرتے ہیں۔ گوہرآباد اپنی پرانی تہذیب، قدیم رسم و رواج اور بھرپور ثقافت، قدرتی خوبصورتی، زرخیز زمینوں، جنگلات اور چراگاہوں سے جانا جاتا ہے.
اب گوہرآباد کی موجودہ کیفیت بدل گئی ہے.اس گاؤں کا رقبہ اراضی بہت طویل ہے۔ گیس پائن،گیس بالا، دونوں رائیکوٹ، تھلیچی پر مشتمل ہے۔  فیری میڈوز جیسی معروف اور خوبصورت جگہ بھی گوہرآباد کے حصہ میں آئی ہے۔ اور نانگا پربت بھی اسی گوہرآباد میں ہے.
گوہر آباد کے لوگ ملنسار، تعلیم یافتہ، مہذب اور مہمان نواز ہیں۔ شادی بیاہ بہت سہل ہے۔ لوگ دیندار اور صلح جو ہیں۔ قدیم زمانے میں اجتماعی شادیاں ہوتی تھیں جن کا اپنا ایک لطف ہوتا تھا. سماج نے طے کر رکھا تھا کہ انفرادی کوئی شادی نہیں ہوگی. شاید یہ رسم 1960 تک باقاعدہ چلتی رہی. دعوت ولیمہ وغیرہ سب ساتھ ہوتا تھا. اب بھی ایک ساتھ شادیوں کا رواج ہے تاہم پہلے کی طرح نہیں. کسی ایک دن شادی کی تاریخ  طے کرکے درجن دو درجن شادیاں ساتھ ہوتی ہیں مگر ولیمہ اور دیگر رسوم انفرادی ہوتے ہیں. پہلے کی اجتماعی شادیوں میں ہر چیز اجتماعی ہوتا تھا.
ان سماجی اقدار کا ذکر آج بھی بڑے بوڑھے شاندار انداز میں کرتے ہیں. گوہرآباد کا جرگہ سسٹم صدیوں سے رائج ہے. کسی زمانے میں پورے گلگت بلتستان کے لئے آئیڈیل جرگہ سسٹم تھا، زمانے کے تفاوت نے اس سسٹم کو تہہ و بالا کر دیا ہے تاہم آج بھی جرگہ سسٹم اور نمبرداری کا وجود نہ صرف باقی ہے بلکہ بڑے بڑے مسائل حل کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کررہا ہے.
گوہرآباد میں آبشاروں، چشموں اور گلیشئرز کا شفاف پانی وافر مقدار میں ہے مگر نہری نظام نہ ہونے کی وجہ سے وسیع اراضی بنجر پڑی ہوئی ہے اور فصلیں قلت آب کا شکار ہیں.
تاریخی اور ثقافتی ورثہ:
گوہرآباد کا تاریخی ورثہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں موجود قلعے، جو “شکارے” کہلاتے ہیں، تین منزلہ عمارتیں ہیں جن کی تعمیر میں لکڑی اور چھوٹے پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے۔ کئی صدیاں گزرنے کے بعد، آج بھی یہ قلعے سالم ہیں. اسی طرح قدیم زمانے کی بنائی ہوئی کچھ قبریں بھی تعمیراتی شاہکار ہیں. تعمیراتی لکڑیوں سے بنی ان قبروں کی عمارتیں شاندار کارنگ کا مظہر ہیں. یہ زیارتیں اور  قلعے  گوہرآباد کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں اور اسے علاقے کے دیگر ثقافتی ورثے سے ممتاز بناتے ہیں۔ ان قلعوں کا تحفظ اور دستاویزی کام ان کے معدوم ہونے سے بچا سکتا ہے اور آنے والی نسلوں کے لئے تاریخی معلومات فراہم کر سکتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سرکاری ادارے اس عظیم ورثہ کو بچانے کے لیے متحرک نہیں.
گوہرآباد کا عجوبہ ہپرنگ :
گوہرآباد میں “ہپرنگ” نامی ایک عجوبہ بھی ہے، جس کے بارے میں بہت سی کہانیاں، اسطوراۃ اور روایات موجود ہیں۔ یہ ایک بڑی کھوہ ہے، جسے مقامی لوگ جنات اور پریوں کے مسکن کے طور پر جانتے ہیں. ہپرنگ سے متعلق کئی دیومالائی کہانیاں زبان زد عام ہیں۔ ہپرنگ کا پانی دریائے سندھ میں جا گرتا ہے، اور اگر اسے سیاحتی مرکز کے طور پر ترقی دی جائے، تو یہ بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔ گوہرآباد کی چراگاہوں تک اگر روڈ بنایا جائے تو یہاں کی خوبصورتی دنیا کے سامنے آجائے. پیدل چل کر ان حسین مناظر اور قدرتی رعنائیوں تک پہنچنا مشکل ہے. ہوائی جہاز کے سفر میں ان کا کچھ نظارہ ہوجاتا ہے.
 قدرتی وسائل اور جنگلات: 
پورے گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ جنگلات گوہرآباد میں پائے جاتے ہیں، جن میں کائل،فر،چیڑھ،دیار،بنئی،کاؤ، صنوبر، مورپنگ، اور قسم ہائے قسم درخت وافر مقدارمیں موجود ہیں۔ کئی اقسام کی جڑی بوٹیاں بھی وافر پائی جاتی ہیں.
گوہرآباد میں جنگلات کا وسیع رقبہ ہے. ان جنگلات میں برفانی ریچھ، مارخور، ہرن، شاہین، چکور، بٹیر، خرگوش، بھیڑیا، لومڑی، برفانی چیتا اور دیگر جنگلی حیات کی اقسام پائی جاتی ہیں۔ ان جنگلات کا تحفظ اور مناسب طریقے سے استعمال علاقے کی معیشت کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔پورے گوہرآباد میں اب تک جنگل اور جنگلی حیات کا تحفظ موجود نہیں. جنگلات کی کٹائی اور جنگلی جانوروں کا شکار بغیر کسی رکاوٹ کے کیا جاتا ہے.
گوہرآباد کی زمین زرخیز ہے اور یہاں گندم، جو، مکئی، آلو، پیاز، اور دیگر فصلیں بڑی مقدار میں اگائی جاتی ہیں۔ گوہرآباد میں چلغوزے کے درخت بھی وافر مقدار میں موجود ہیں، جو علاقے کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مال مویشی بھی یہاں کی معیشت کا ایک بڑا حصہ ہیں. گوہرآباد کی معیشت میں اہلیان گوہرآباد کا بڑی سرکاری پوسٹوں اور عمومی سرکاری ملازم ہونا بھی خصوصی اہمیت رکھتا ہے. گوہرآباد کے لوگوں بہت زیادہ تعلیم یافتہ ہیں اس لئے نوکری پسند ہیں. کاروبار کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے.
گوہرآباد کی چراگاہیں :
گوہرآباد کی درجنوں بڑی چراگاہیں موسم گرما میں جانوروں سے بھر جاتی ہیں۔ گوہرآباد کی مشہور چراگاہوں میں مارتل، کھلیمئی ، سگھر،بھری، چھُلو ، ہُومل، سلومن بھوری ، مطیرا، دساہ ، چانگھا، دروگاہ، ملپٹ ، جبار دار، مٹھاٹ اور تتو شامل ہیں جہاں موسم سرما میں لاکھوں مال مویشاں چرتے ہیں۔ اور جنگلی حیات کا بہتات ہے.
 سیاحت کی امکانات: 
گوہرآباد میں سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ “فیری میڈوز ” نانگا پربت، اور “ہپرنگ” جیسے مقامات بین الاقوامی سیاحتی دلچسپی کے مراکز بن سکتے ہیں۔ اگر ان مقامات کو بہتر طریقے سے ترقی دی جائے اور سیاحتی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنایا جائے، تو یہ علاقے کی معیشت کو بڑھا سکتے ہیں۔ گوہرآباد کی قدرتی خوبصورتی اور ثقافتی ورثہ سیاحوں کے لئے بڑی کشش کا باعث بن سکتا ہے۔ فیری میڈوز اور نانگا پربت میں سیاحوں کا رش لگا رہتا ہے تاہم سینٹرل گوہرآباد آج بھی ملکی اور بین الاقوامی سیاحوں کی توجہ سے یکسر محروم ہے.
گوہرآباد کے سینکڑوں مسائل ہیں، تاہم مختصراً کچھ مسائل ذکر کیے دیتا ہوں.
نظام آب پاشی:
سینٹرل گوہرآباد میں پانی کی بہت زیادہ کمی ہے، جس سے زرعی سرگرمیاں شدید متاثر ہوتی ہیں. کئے عشرے پہلے پانی کا ایک کول/ نہر بنایا گیا تھا جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے. دہگر نالوں میں پانی وافر مقدار میں ہے مگر نظام آب پاشی صدیوں پرانا ہے. نہری سسٹم نہیں بنایا گیا ہے. جس کی وجہ سے پانی ضائع جاتا ہے اور زمینیں بنجر پڑی رہتی ہیں.
برابری کے مالکانہ حقوق :
 کچھ قبائل اور برادریاں اقلیت میں ہیں. ان کو برابری کے مالکانہ حقوق میسر نہیں. یہ ایک اہم مسئلہ ہے، جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
تعلیمی مسائل :
تعلیمی مسائل بہت پیچیدہ ہیں. عشرہ پہلے ڈرنگ داس میں کالج منظور ہوا تھا جو بعد میں ہائی سیکنڈری سکول میں تبدیل کرکے ہائی سکول گوہرآباد کے ساتھ بلڈنگ بنا دی گئی مگر اب تک نظام نہیں چلایا جاسکا. پرائیویٹ سکول سسٹم بھی ناپید ہے. رائیکوٹ اور تھلیچی میں بھی سرکاری سکول سسٹم بربادی کا شکار ہے.
وادی گوہرآباد میں انفراسٹرکچر کے مسائل کی فہرست درج ذیل ہے:
سڑکیں اور پل:
روڈ کی بناوٹ اور مواصلات کی سہولتوں میں کمی وادی گوہرآباد کا اہم مسئلہ ہے۔ عالمی سیاحتی پوائنٹ فیری میڈوز کا روڈ بھی خستگی کا شکار ہے جب بھی ٹوٹ جاتا ہے یا بارشوں کا نذر ہوتا ہے تو مقامی لوگ اپنی مدد آپ بناتے ہیں. دیگر نالوں میں بھی صورتحال بہت افسوسناک ہے.
گوہرآباد کا مرکزی پل موت کا کنواں بنا ہوا ہے. گیس کا پل بھی خستہ ہے. وادی کے درمیان کئی چھوٹے چھوٹے پل ہیں جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں.
شعبہ صحت :
صحت کی سہولتوں کی کمی، اور معیاری صحت کی خدمات کی عدم فراہمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سینٹرل گوہرآباد کا دس بیڈ ہسپتال بھی چیخ چیخ کر محکمہ صحت کو پکار رہا ہے. باقی ویٹرنری ہسپتال بھی خانہ پوری کہ حد تک موجود ہے.
بجلی: بجلی بھی ایک سنگین ایشو بن چکا ہے.
گوہرآباد کے جنگلات اور جنگلی حیات کا تحفظ بھی ضروری ہے. ٹمبر مافیا کی وجہ سے علاقے کے جنگلات کو نقصان پہنچا ہے۔ سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری تنظیمیں اور سماجی و ثقافتی این جی اوز بھی ان مذکورہ مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ میڈیا میں بھی شعوری مہم کا آغاز کیا جاسکتا ہے.
خلاصہ کلام :
گوہرآباد، اپنی تاریخی اہمیت، ثقافتی ورثے اور قدرتی خوبصورتی کے باوجود، بنیادی سہولیات کی کمی اور دیگر مسائل کا شکار ہے۔ ان مسائل کے حل کے لئے سرکاری اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر گوہرآباد کے تاریخی ورثے اور قدرتی وسائل کو محفوظ بنایا جائے اور سیاحتی امکانات کو بڑھایا جائے، تو یہ علاقے کی معیشت کو مضبوط بنا سکتا ہے اور آنے والی نسلوں کے لئے ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
chitraltimes gohar abad gilgilt baltistan 1
chitraltimes gohar abad gilgilt baltistan 2
chitraltimes gohar abad gilgilt baltistan 7
chitraltimes gohar abad gilgilt baltistan 6

chitraltimes gohar abad gilgilt baltistan 3 chitraltimes gohar abad gilgilt baltistan 4 chitraltimes gohar abad gilgilt baltistan 5

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
88734

  شندور پولو فیسٹیول کے انتظامات کے حوالے سےاعلی سطح اجلاس , این ایچ اے کو فیسٹیول سے پہلے سیاحوں کی آمدروفت کے لیے سڑکوں پر جاری کام کو تیز کرنے اور بھاری مشینری کی دستیابی کو یقینی بنانے کی ہدایت 

  شندور پولو فیسٹیول کے انتظامات کے حوالے سےاعلی سطح اجلاس , این ایچ اے کو فیسٹیول سے پہلے سیاحوں کی آمدروفت کے لیے سڑکوں پر جاری کام کو تیز کرنے اور بھاری مشینری کی دستیابی کو یقینی بنانے کی ہدایت

پشاور (چترال ٹائمزرپورٹ) چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا ندیم اسلم چوہدری کی زیر صدارت شندور پولو فیسٹیول کے انتظامات کے حوالے سے جمرات کے روز پشاور میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری محکمہ داخلہ، سیکرٹری محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ، سیکرٹری ایڈمنسٹریشن، سیکرٹری کلچر اینڈ ٹورزم، ڈائریکٹر جنرل انفارمیشن، سول ایویشن،چترال پولو ایسوسی ایشن، چیمبر آف کامرس،ٹریول ایجنٹ ایسوسی ایشن کے نمائندوں اور دیگر افسران نے شرکت کی۔ جبکہ کمشنر ملاکنڈ ڈویژن، ریجنل پولیس افسر ملاکنڈ ڈویژن، کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس، ڈپٹی کمشنر، ڈی پی او اپر اور لوئر چترال نے بذریعہ ویڈیو لنک شرکت کی۔ اجلاس میں چیف سیکرٹری کو شندور پولو فیسٹیول کے انعقاد کے حوالے سے اب تک کئے جانے والے انتظامات پر تفصیلی بریفننگ دی گئی۔

 

اس موقع پر چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا ندیم اسلم چوہدری نے انتظامات کو حتمی شکل دینے کی کوششیں تیز کرنے اور فیسٹیول کے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ایک جامع اور مکمل پلان ترتیب دینے کی ہدایت کی۔ انھوں نے کہا کہ شندور پولو فیسٹیول سے عالمی سطح پر نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ پاکستان کا ایک مثبت تاثر جائے گا۔ اس موقع پر چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا ندیم اسلم چوہدری نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو فیسٹیول سے پہلے سیاحوں کی آمدروفت کے لیے سڑکوں پر جاری کام کو تیز کرنے اور لینڈ سلائیڈنگ ا رو دیگر حالات کے دوران ہنگامی اقدامات کے تحت بھاری مشینری کی دستیابی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ دنیا کے سب سے بلند مقام پر واقع پولو گراؤنڈ میں منقعد ہونے والے ٹورنامنٹ کیلئے تاریخوں کا اعلان موسمی حالات کو دیکھ کر مشاورت کے بعد جلد کردیا جائیگا۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ فیسٹیول کے انعقاد کے لیے تمام تر انتظامات کو جلد سے جلد مکمل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ مقامی و غیر ملکی سیاحوں، میڈیا نمائندوں و دیگر مہمانوں کی رہائش کے لیے تمام تر انتظامات کو مزید بہتر بنایا جارہا ہے۔

 

اس موقع پر چیف سیکرٹری نے فیسٹیول کے لیے بہترین انتظامات کی ہدایت کی تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا ندیم اسلم چوہدری نے کہا کہ چترال کی دستکاری اور مقامی طور پر تیار شدہ مصنوعات کو فروغ دینے کے لئے فیسٹول میں خصوصی سٹالز کا اہتمام کیا جائے۔ شندور پولو فیسٹیول کے کامیاب انعقاد سے چترال کی مقامی معشیت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ اسلام آباد سے چترال پی آئی اے کی خصوصی فلائٹس ہوں گی جن سے سیاح استفادہ کرتے ہوئے شندور پولو فیسٹیول میں شرکت کرسکیں گے۔

chitraltimes chief secretary khyber pakhtunkhwa chairing shandur meeting2

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
88571

مستوج اور گلگت کے درمیان نیٹکو بس سروس دوبارہ بحال ، گیارہ مئی سے سروس کا باقاعدہ آغاز ہوگا

مستوج اور گلگت کے درمیان نیٹکو بس سروس دوبارہ بحال ، گیارہ مئی سے سروس کا باقاعدہ آغاز ہوگا

چترال ( چترال ٹائمزرپورٹ ) ناردرن ایریا ٹرانسپورٹ کارپوریشن ( نیٹکو ) نے 11 مئی سے مستوج (اپرچترال ) سے گلگت کوسٹر سروس شروع کرنے کیلئے بکنگ کا آغاز کر دیا ہے ۔ نیٹکو سروس گذشتہ ایک دہائی سے مستوج اور گلگت کے درمیان لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پر آمدورفت کی سہولت مہیا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔ تاہم چترال سائڈ پر مستوج سے بونی تک انتہائی خراب اور کھنڈر سڑک کی وجہ سے اس سروس نے اپنا آخری سٹاپ مستوج میں قائم کیا تھا ۔ جس سے بونی اور لوئر چترال جانے والے مسافروں اور سیاحوں کو مشکلات پیش آرہی تھیں ۔ اب مین چترال مستوج روڈ پہلے کی نسبت بہتر ہو گیا ہے ۔ اور کوسٹر سروس سے گلگت اور چترال کے مسافروں اور سیاحوں کو سہولت ملے گی ۔ خصوصا حالیہ دنوں میں چترال میں منعقد ہونے والی کالاش فیسٹول (چلم جوشٹ ) دیکھنے کے خواہشمند گلگت کے ہزاروں سیاحوں کو چترال آنے میں بہت سہولت ملے گی۔ عوامی حلقوں نے نیٹکو کوسٹر سروس شروع کرنے کا خیرمقدم کیا ہے ۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستان
88576

مالی مشکلات سے کیسے نکلیں؟ – خاطرات :امیرجان حقانی

مالی مشکلات سے کیسے نکلیں؟ – خاطرات :امیرجان حقانی

عمومی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے یا کیا جاتا ہے کہ

کیا آپ مالی مشکلات کا شکار ہیں؟

 

مالی مشکلات کو حل کرنے کے کچھ دلچسپ اور مؤثر طریقے ہیں جو آپ کی زندگی کو تھوڑا آسان بنا سکتے ہیں۔ میں خود ان طریقوں سے گزر رہا ہوں اس لئے سوچا آپ سے بھی شئیر کروں.

 

1. بجٹ کا جادو:

سب سے پہلے، ایک سادہ بجٹ بنائیں۔ یہ بالکل کسی جادوئی نسخے کی طرح کام کرتا ہے۔ ایک قلم اور کاغذ لیں اور اپنی آمدنی اور خرچوں کو لکھیں۔ پھر یہ دیکھیں کہ کہاں کہاں خرچ کم کیا جا سکتا ہے۔ بجٹنگ کا یہ عمل آپ کو بڑی حد تک ریلیف دے سکتا ہے.

 

2. غیر ضروری خرچوں کا خاتمہ:

مالی مشکلات میں سب سے بڑا عنصر غیر ضروری اخراجات ہیں. ہر ماہ نئی چیزیں خریدنا، غیر ضروری چیزیں لینا یا ہوٹلوں میں کھانے کا شوق پورا کرنا انتہائی نقصان دہ ہے.
تو بس ذرا سنبھل جائیں۔ غیر ضروری خرچوں کو کم کریں۔ یہ نہیں کہ زندگی میں مزہ نہ کریں، لیکن ہر چیز میں اعتدال ضروری ہے۔ اور بالخصوص مالی مشکلات کے دنوں میں اعتدال سے بھی تھوڑا کم خرچنا چاہیے.

 

3. چھوٹی چھوٹی بچتیں:

ہر ماہ کچھ نہ کچھ بچانے کی عادت ضرور بنالیں، ، چاہے وہ بچت کتنی ہی کم کیوں نہ ہوں۔ یہ چھوٹی چھوٹی بچتیں وقت کے ساتھ بڑی رقم میں تبدیل ہو سکتی ہیں، جیسے قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے۔ اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں. میں اپنے کئی احباب سے یہ پریکٹس کروا رہا ہوں. خود بھی کررہا ہوں.

 

4. اضافی آمدنی کے راستے:

اگر آپ کا بجٹ ہمیشہ سرخ نشان پر ہی رہتا ہے، آپ کی ماہانہ امدنی آپ کے بجٹ سے کم ہے تو پھر کوئی اضافی جاب یا فری لانسنگ کا سوچیں۔ کچھ نیا سیکھیں اور اسے کمائی کے ذریعے میں تبدیل کریں۔ یا کسی کیساتھ کاروباری پارٹنرشپ اختیار کریں. کوئی نہ کوئی اضافی آمدن کی ترتیب بنالیں.

 

5. قرضوں سے ہوشیار رہیں:

قرضوں کا سہارا لینا کبھی کبھی ضروری ہوتا ہے، لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ قرض لینا آسان ہے اور واپس کرنا مشکل۔ اگر آپ کو قرض لینا ہی ہے، تو پہلے سوچیں کہ آپ اسے واپس کیسے کریں گے۔ میں گزشتہ دو سال سے قرض لینے اور فوراً واپسی کے عمل سے گزر رہا ہوں. آج کے دور میں قرض کوئی نہیں دیتا، بہرحال اس سے پرہیز ضروری ہے. خوداراد شخص مشکل سے کسی سے قرض لیتا ہے. یہ ایک تکلیف دہ عمل ہے.

 

6. ماہر مالی مشاورت:

اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی مالی مشکلات کا مسئلہ گمبھیر ہوتا جا رہا ہے، تو کسی ماہر مالی مشیر سے ملیں۔ وہ آپ کو بہترین مشورہ دے سکتے ہیں۔ ویسے آج کل ایسے ماہر اور مخلص لوگوں کا فقدان بھی ہے.

 

7. مالیاتی علم میں اضافہ:

آخر میں، مالی معاملات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کریں۔ کتابیں پڑھیں، آن لائن کورسز کریں، یا یوٹیوب ویڈیوز دیکھیں۔ جتنا زیادہ آپ جانیں گے، اتنا ہی آپ کی مالی حالت مضبوط ہوگی۔ معلومات کی کمی اور عدم فہم کی وجہ سے بھی بہت دفعہ انسان مالی مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے.

 

8. مخلوقِ خدا پر خرچ:

ہر ماہ اپنی آمدن کا کچھ حصہ اللہ کی رضا کے لیے اللہ کی مخلوق کی مدد میں ضرور خرچ کریں. یہ خرچ اپنے گھر والوں کے علاوہ ہو. یقین کریں یہ صدقہ آپ کو سینکڑوں مشکلات سے بھی بچائے گا اور آمدن میں برکت کیساتھ اضافہ بھی ہوگا.

 

یہ ہیں کچھ آسان اور دلچسپ طریقے جو آپ کی مالی مشکلات کو حل کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ لہذا پریشان نہ ہوں اور ان اقدامات کو آزمائیں۔ ممکن ہے کہ آپ کے مالی مسائل کا حل انہی میں چھپا ہوا ہو۔ میں خود ان تمام نسخوں میں الجھا ہوا ہوں. کافی فائدہ بھی ہورہا ہے. بہر حال ان کے علاوہ بھی آپ کے پاس کئی راستے یا طریقے ہوسکتے ہیں جو آپ کو مالی مشکلات سے نکال سکتے.

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
88524

وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کا شاہراہ قراقرم پر موٹروے پولیس تعینات کرنے کا مطالبہ

Posted on

وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کا شاہراہ قراقرم پر موٹروے پولیس تعینات کرنے کا مطالبہ

گلگت(چترال ٹائمزرپورٹ) وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان گلبر خان نے شاہراہ قراقرم پر موٹر وے پولیس تعینات کرنے کا مطالبہ کر دیا۔اس ضمن میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان گلبر خان نے وزیر اعظم شہباز شریف کو خط لکھ دیا۔خط میں کہا گیا کہ قراقرم ہائی وے پر ٹریفک حادثات پر قابو پانے کیلئے موٹر وے پولیس کی تعیناتی عمل میں لائی جائے۔متن میں کہا گیا کہ چلاس کے قریب المناک ٹریفک حادثے کی شفاف تحقیقات کے احکامات دیئے ہیں، حقائق کی روشنی میں مستقبل میں ٹریفک حادثات سے بچنے کیلئے اقدامات کئے جائیں، قراقرم ہائی وے میں بڑھتے حادثات سے قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہو رہا ہے۔وزیراعلیٰ گلگت بلتستان گلبر خان نے خط میں مزید لکھا کہ گلگت بلتستان میں سیاحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، قرقرام ہائی وے پر محفوظ سفر کو یقینی بنانے کیلئے موٹر وے پولیس کی تعیناتی ضروری ہے۔

 

 

ایمل ولی خان متفقہ طور پر عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر منتخب

پشاور(سی ایم لنکس) سینئر سیاستدان اسفند یار ولی خان کے بیٹے ایمل ولی خان متفقہ طور پر عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر منتخب ہوگئے۔اے این پی کے انٹرا پارٹی انتخابات میں ایمل ولی خان عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر جبکہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ سلیم خان اے این پی کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے۔اس کے علاوہ سردار حسین بابک پارٹی سیکرٹری خارجہ امور اور انجینئر احسان سیکرٹری اطلاعات بن گئے، ڈاکٹر میرب اعوان پہلی بار مرکزی سیکرٹری برائے خواجہ سرا حقوق منتخب ہوئے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور سینیٹر زاہد خان نے پارٹی قیادت سے مبینہ اختلافات کے سبب ترجمان کا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کر دیا تھا۔زاہد خان نے عوامی نیشنل پارٹی کے ترجمان کا عہدہ چھوڑنے کے ساتھ ساتھ انٹرا پارٹی الیکشن میں بھی حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged
88408

وادی نلتر کا ایک روزہ مطالعاتی دورہ – خاطرات :امیرجان حقانی

وادی نلتر کا ایک روزہ مطالعاتی دورہ – خاطرات :امیرجان حقانی

یکم مئی کا دن تھا. یہ مزدوروں کا عالمی دن ہے. گلگت بلتستان کے موسم میں بڑی خنکی تھی. وقفے وقفے سے بارشوں نے پورے جی بی کو گھیر رکھا تھا. ایسے میں پوسٹ گریجویٹ کالج گلگت کے پروفیسروں نے وادی نلتر کا ایک روزہ مطالعتی دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ صبح کے ابتدائی اوقات تھے، اور گلگت کے پہاڑوں کے اوپر ہلکی سی برف باری کی روشنی ابھی بھی موجود تھی۔ ہوا میں ہلکی سی خنکی اور کچھ نئی شروعات کا احساس تھا۔

 

گھر میں شام کو یہی بتا رکھا تھا کہ مجھے صبح احباب کیساتھ نلتر جانا تھا. گھر کے اندر زندگی کی خوبصورتی اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب آپ کے پاس دو محبت کرنے والی بیویاں ہوں جو آپ کے دل کو خوشی سے بھر دیتی ہیں اور آپ کے سفر و حضر میں محبتیں بانٹتی ہیں۔ جب آپ اپنی صبح کا آغاز کرتے ہیں، تو ایک بیوی آپ کے لیے چائے کا پیالہ لے کر آتی ہے، اس کی مسکراہٹ سورج کی پہلی کرن جیسی ہوتی ہے۔ دوسری بیوی ناشتہ تیار کرتی ہے، اور اس کے ہاتھوں کی خوشبو آپ کے دل کو گرمائش دیتی ہے۔ ان دونوں کے ساتھ وقت گزارنا گویا دنیا کے سب سے خوبصورت گلابوں کے بیچ بیٹھنے جیسا ہے۔ یہ آپ کو تب محسوس ہوگا جب آپ اس کیفیت سے گزریں گے.

 

آپ اپنے دن کی شروعات کرتے ہیں، اور وہ دونوں آپ کے ساتھ گفتگو کرتی ہیں، ہنستی ہیں، اور آپ کے ساتھ اپنے خواب بانٹتی ہیں۔ راز و نیاز کی باتیں شئیر کرتی ہیں. ان کے ساتھ ہر لمحہ خاص ہوتا ہے، اور آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے پاس دنیا کی سب سے قیمتی چیز ہے۔ جب آپ نلتر جیسی خوبصورت وادی کی سیر کے لیے جانے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں، تو ایک بیوی آپ کا سامان پیک کرنے میں مدد دیتی ہے، گرم سویٹر پہناتی ہے، جبکہ دوسری آپ کو الوداع کہنے کے لیے محبت بھرا بوسہ دیتی ہے۔ یہ سب کچھ آپ کو یہ احساس دلاتا ہے کہ محبت اور خوشی کی کوئی حد نہیں ہے، اور آپ محبت اور خوشی کو ہر طرح انجوائے کرسکتے ہیں. اور آپ اپنے دل میں یہ دعا کرتے ہیں کہ یہ لمحے ہمیشہ یونہی چلتے رہیں۔ جب کیفیات یہی ہوں تو پورا دن شاندار گزرتا ہے.

 

میں پڑی بنگلہ سے یہی خوبصورت، کیفیات، لمحات اور محسوسات لیے کالج پہنچا. بھائی افضل نے کالج کی منی بس اسٹارٹ کی اور ہم نو بجے چل دیے. میں قافلے کا سائق تھا. ہر کوئی مجھ سے رابطہ کیا جارہا تھا. باب گلگت، پبلک چوک، یادگار چوک، مین بازار اور گھڑی باغ سے احباب کو پک کرتے ہوئے یونیورسٹی روڈ یعنی شاہراہ نلتر پر سفر شروع کیا. اس شاہراہ کو گلگت نلتر ایکسپریس بھی کہا جاتا ہے.

پروفیسروں کی ٹیم نے گلگت سے نلتر کی طرف روانہ ہوتے ہوئے، ایک دوسرے سے گفتگو کرتے اور قدرت کے حسن کو سراہتے ہوئے سفر کا آغاز کیا. آغاز بہت دلچسپ تھا۔ منی بس قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کو چھوتے ہوئے نومل کی طرف فراٹے بھرنے لگی. جیسے جیسے وہ پہاڑی راستوں پر آگے بڑھتے گئے، قدرت کے نادر نظارے سامنے آتے گئے۔ بلندی پر پہنچتے ہی سبزہ اور رنگ برنگے جنگلی پھولوں نے ان کا استقبال کیا۔ یہاں کی خوبصورتی کا کوئی جواب نہیں تھا.

 

نلتر کی وادی اپنی خوبصورتی اور قدرتی حسن کے لئے مشہور ہے۔ یہاں پر اونچے اونچے درخت اور بہتی ہوئی ندیاں ہر سمت دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہ وادی ہر موسم میں ایک نئے روپ میں ظاہر ہوتی ہے، گرمیوں میں یہ سبزے سے بھرپور اور رنگین پھولوں سے سجی ہوتی ہے جبکہ سردیوں میں برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ یہاں درختوں اور چوٹیوں پر برف کی چادر بچھی ہوتی ہے.

 

نلتر گلگت بلتستان کے کیپٹل ایریا گلگت کی ایک خوبصورت وادی ہے۔ یہ اپنا قدرتی حسن، برف باری، اور سیاحتی مقامات کے لئے مشہور ہے۔ یہاں نلتر کے بارے میں کچھ اہم معلومات اور چیزیں ہیں، جو آپ کے لئے دلچسپی کا باعث ہو سکتی ہیں.

 

نلتر گلگت شہر سے تقریباً 34 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے۔ یہ وادی بلند پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے اور اس میں چند خوبصورت جھیلیں بھی موجود ہیں۔ نلتر وادی کی بلندی مختلف مقامات پر تقریباً 2800 سے 3500 میٹر کے درمیان ہے۔نلتر بالا میں پہنچ کر ایک راستہ جھیل کی طرف جاتا ہے اور ایک زیرو پوائنٹ کی طرف، جہاں سکینگ پوائنٹ ہے. نلتر بالا کے زیرو پوائنٹ سے ست رنگی جھیل، پری جھیل اور بلیو لیک تک جیپوں کے بغیر نہیں جایا جا سکے گا۔ ست رنگی جھیل تک 12 کلومیٹر کا سفر ہے.

 

نلتر وادی میں ہر موسم کی اپنی خاصیت ہے۔ گرمیوں میں یہاں سبزہ اور پھولوں کی بھرمار ہوتی ہے، جبکہ سردیوں میں یہ وادی برف سے ڈھک جاتی ہے۔ یہ مقام برف باری کے لئے بھی مشہور ہے. نلتر کے موسم کا کوئی اعتبار نہیں. کسی بھی وقت بارش یا برف باری ہوسکتی ہے. اس لیے مناسب لباس یعنی سویٹر اور اورکوٹ ضرور ساتھ لیتے جائیں. ایک چھتری بھی ہو تو بہتر ہے.

 

گلگت بلتستان کا سیاحتی مقام وادی نلتر میں، موسم سرما میں سکینگ کے عالمی مقابلے بھی ہوتے ہیں۔ 2019 انٹرنیشنل قراقرم الپائن سکی کپ کا میلہ ممنعقد ہوا. جس میں پاکستان سمیت پندرہ ممالک کے 35 سکیئرز نے حصہ لیا.

 

سطح سمندر سے 8960 فٹ کی بلندی پر واقع نلتر سکی سلوپ میں جاری انٹرنیشنل قراقرم الپائن سکی کپ کے مقابلے میں ترکی نے پہلی، پاکستان نے دوسری اور یوکرائن نے تیسری پوزیشن حاصل کی. ایونٹ کی سلالم کیٹیگری میں اپنے فن کا بہترین مظاہرہ کرتے ہوئے ان کھلاڑیوں نے بالترتیب گولڈ،سلور اور براونز میڈل جیتے۔
انٹرنیشنل قراقرم الپائن سکی کپ میں پاکستان کے علاوہ ترکی، یونان، افغانستان، مراکش، آزربائیجان، ہانگ کانگ،برطانیہ، بوسنیا ہردگوزینیا، تاجکستان بیلجیئم سمیت دیگر ممالک کے سکی پلیئرز نے حصہ لیا اور خوب سراہا۔

 

نلتر کا سکی چیئرلفٹ، جو بلند اور خطرناک سمجھی جاتی ہے، نے کئی نوجوانوں کو سکینگ کی مشق کرنے کا موقع دیا ہے۔ اسی چیئرلفٹ پر پریکٹس کرتے ہوئے، نلتر ہی کے چند مقامی نوجوانوں نے عالمی سطح پر منعقد ہونے والی سکی چمپئن شپس میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان اور گلگت بلتستان کا نام فخر سے بلند کیا ہے۔

گلگت بلتستان کے نوجوان سکیئرز میں ضلع غذر سے تعلق رکھنے والی دو بہنیں، آمنہ ولی اور عارفہ ولی، نمایاں ہیں۔ یہ دونوں بہنیں نہ صرف اپنی مقامی برادری میں مقبول ہیں بلکہ انہوں نے بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ انہوں نے اپنے کھیل میں کمال مہارت دکھا کر یہ ثابت کیا ہے کہ گلگت بلتستان میں بھی بین الاقوامی معیار کے خواتین کھلاڑی موجود ہیں۔

 

ان کی یہ کامیابیاں نلتر کی سکینگ کمیونٹی کے لئے ایک بڑی خوشخبری ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر مواقع فراہم کیے جائیں اور محنت کی جائے، تو دنیا کے کسی بھی کونے سے قابل کھلاڑی سامنے آ سکتے ہیں۔ نلتر کے ان نوجوانوں نے یہ ثابت کر دیا کہ سکینگ کے لئے درکار ہمت اور جرأت، قدرتی خوبصورتی کے درمیان پروان چڑھ سکتی ہے۔ ویسے پہاڑوں کی اولاد کے لیے یہ معمول کی باتیں ہیں.

 

نلتر میں کئی خوبصورت جھیلیں ہیں، جن میں ست رنگی جھیل سب سے مشہور ہے۔ اس جھیل کا پانی نیلا اور شفاف ہوتا ہے، جو اسے ایک خاص دلکشی عطا کرتا ہے۔ اسی جھیل کو ست رنگی جھیل (Seven Color Lake) کہا جاتا ہے. یہ خوبصورت جھیل ہے جو اپنی منفرد رنگوں کی بدولت مشہور ہے۔ سنا ہے کہ روشنی پڑنے پر جھیل کے پانیوں کا رنگ مختلف سات رنگوں میں نظر آنے لگتا ہے. یہ جھیل نلتر ویلی کا ایک دلکش مقام ہے اور سیاحوں کے درمیان بہت مقبول ہے۔ یہاں اس جھیل کے بارے میں کچھ اہم معلومات فراہم کی جا رہی ہیں.
یہ جھیل نلتر ویلی کی تین بڑی جھیلوں میں سے ایک ہے۔

جھیل کا نام “ست رنگی” اس کے پانی کے رنگوں کی بدولت رکھا گیا ہے۔ پانی میں مختلف معدنیات اور روشنی کے انعکاس کے باعث یہ جھیل مختلف رنگوں میں نظر آتی ہے، جیسے کہ سبز، نیلا، فیروزی، اور دیگر رنگ۔جھیل کے ارد گرد کے مناظر انتہائی خوبصورت اور دلکش ہیں، جس میں بلند پہاڑ، سرسبز جنگلات، اور گلیشیئرز شامل ہیں۔

 

سیاح اس جھیل کے کنارے وقت گزارنے، تصاویر لینے، اور قدرتی خوبصورتی کا لطف اٹھانے کے لیے آتے ہیں۔ست رنگی جھیل کے پاس ہائیکنگ اور کیمپنگ کی بھی سہولتیں موجود ہیں، جو ایڈونچر پسند لوگوں کو پسند آتی ہیں۔موسم گرما میں یہ جھیل خاص طور پر خوبصورت ہوتی ہے، جب درجہ حرارت معتدل ہوتا ہے اور سبزہ چاروں طرف پھیلا ہوتا ہے۔موسم سرما میں برف باری کے باعث جھیل جم کر منجمد ہو جاتی ہے اور نلتر کے جملہ مناظر برفیلی چادر میں ڈھک جاتے ہیں۔

 

جھیل تک پہنچنے کے لیے جیپ یا 4×4 گاڑیوں کا استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہاں کا راستہ پہاڑی اور دشوار گزار ہوتا ہے۔ ابھی تک نلتر ایکسپریس وہاں تک نہیں پہنچا. جھیل کے قریب رہائش کے محدود انتظامات ہیں، لیکن سیاح گلگت میں رہائش اختیار کر کے دن بھر کا دورہ کر سکتے ہیں۔
ست رنگی جھیل کی خوبصورتی، مختلف رنگوں کا منظر، اور اس کے ارد گرد کے قدرتی مناظر اسے گلگت بلتستان کے اہم سیاحتی مقامات میں شامل کرتے ہیں۔ یہ جھیل قدرتی خوبصورتی کا ایک شاہکار ہے اور یہاں کا دورہ سیاحوں کے لیے ایک یادگار تجربہ ہوتا ہے۔

 

وادی نلتر میں سیاحوں اور سیاحتی سرگرمیوں کے لئے بہت کچھ موجود ہے۔ یہاں آپ ہائیکنگ، کیمپنگ، اور فوٹوگرافی کر سکتے ہیں۔ سردیوں میں سکینگ کے شوقین حضرات کے لئے یہاں بہترین مواقع ہیں۔ پاکستان آرمی ہر سال یہاں نیشنل سکینگ چیمپیئن شپ کا انعقاد کرتی ہے، جس میں ملک بھر سے کھلاڑی شرکت کرتے ہیں۔

 

نلتر وادی کے مقامی لوگ سادہ اور دوستانہ ہوتے ہیں۔ ان کی ثقافت میں موسیقی، رقص، اور روایتی لباس کا اہم کردار ہے۔ مقامی لوگ عموماً کھیتی باڑی اور مویشی پالنے میں مشغول رہتے ہیں۔ نلتر کا آلو بہت مشہور اور لذیذ ہے. غذائیت سے بھرپور ہے. آج کل نلتر میں بڑے بڑے ہوٹل تعمیر ہورہے ہیں. گلگت بلتستان کے درجنوں امیر لوگوں نے یہاں زمینیں خریدی ہیں اور ہوٹل اور موٹل بنا لیے ہیں. پاکستان آرمی بھی بھرپور موجود ہے. کئی مرکزی مقامات ان کے پاس ہیں.

 

ہم سے کئی احباب نے پوچھا کہ نلتر تک کیسے پہنچا جائے. اگر آپ کو اسلام آباد سے گلگت تک ہوائی جہاز کا ٹکٹ ملتا ہے تو یہ ایک گھنٹہ کا سفر ہے. آپ ناننگا پربت کا ہوائی وزٹ کرتے ہوئے گلگت پہنچ سکتے ہیں. اور اگر آپ جون جولائی میں آنا چاہتے ہیں تو اسلام آباد سے براستہ ناران کاغان اور بابوسر ٹاپ کے گلگت تشریف لائیں اور اگر سردیوں میں آنا ہے تو براستہ بشام قراقرم ہائے وے گلگت تشریف لائیں.

 

نلتر وادی تک پہنچنے کے لئے گلگت شہر سے جیپ یا دیگر گاڑیوں کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پہلے نلتر تک جیپ میں سفر ممکن تھا. اب روڈ بہترین ہے کوئی بھی چھوٹی گاڑی جاسکتی ہے تاہم واپسی پر انتہائی احتیاط سے ڈرائیونگ کرنی ہوگی. کئی حادثات رونما ہوئے ہیں.

 

پوسٹ گریجویٹ کالج مناور گلگت کےپروفیسروں کی یہ ٹیم نلتر زیرو پوائنٹ پہنچ گئی. ہم جھیل تک جانا چاہتے تھے مگر قلت وقت اور کچی روڈ کی وجہ سے وہاں جانے سے رہ گئے. ہماری ایونٹ منیجمنٹ کمیٹی کی ٹیم پروفیسر فرید اللہ کی سربراہی میں سویرے ہی وہاں پہنچ کر نگرہ میں ڈھیرے ڈال چکی تھی. ہم بھی زیرو پوائنٹ سے نگرہ تک پیدل گئے. راقم، رحمت اور انتخاب صاحب پہلی فرصت میں نلتر کا سب سے بلند ویوو پوائنٹ نگرہ میں پہنچے اور دیر تک وہی نظارے کرتے رہے.جھیلوں کے دائیں بائیں کے حسین مناظر کو بھی یہاں سے دیکھ کر دل کوبہلایا مگر یہ کمبخت کب بہل جاتا ہے. نگرہ وویو پوائنٹ میں سنگاپور کی دو سیاح خواتین بھی ایک مقامی گائیڈ کی معیت میں پہنچی ہوئی تھیں. خوب انجوائے کررہی تھی. یہ لوگ بھی فطرت کے بڑے نشئی ہیں.

نگرہ سے ہر طرف کا نظارہ کمال کا ہورہا ہے. نلتر پائین اور بالا کا ہر مقام واضح نظر نواز ہوتا ہے. یہاں 2022 میں بھی آنے کا موقع ملا تھا. برادرم مولانا عمر خٹک اور ترکی کے کچھ طلبہ کیساتھ اسی ویوو پوائنٹ میں دیر تک ٹھہرے رہے تھے. نلتر بھی بار بار جانا ہے. میرے کئی اسٹوڈنٹنس ہیں جو مدعو کرتے ہیں. شاید ایک بار اپنے کلاس فیلوز کی ٹیم کیساتھ بھی جانا پڑے جلد.

 

نگرہ اور اس کے اطراف میں موجود برفیلی پہاڑیوں، وسیع و عریض سبزہ زاروں اور فطری مقامات نے ہمیں مبہوت کر دیا. یہ جگہ واقعی جنت کا ایک ٹکڑا معلوم ہو رہی تھی۔ پروفیسرز نے نگرہ کے چبہ چبہ چھان مارا. وہاں بیٹھ کر سکون محسوس کیا، اور بعض نے تو برف کے ساتھ خوب اٹھکھیلیاں کی. برف سے سب سے زیاد لطف غلام عباس، عبداللہ اور رزاق نے اٹھایا۔ میں اور ضیاء ان کی ویڈیو بناتے رہے. ارشاد شاہ، رحمت اور انتخاب ہماری اٹھکھیلیوں کو انجوائے کرتے رہے. اشتیاق یاد نے سچ کہا کہ بڑھاپے کی دھلیز میں بھی غلام عباس صاحب میں ایک شرارتی نوجوان زندہ ہے.

 

فطرت اور قدرت ہمارے وجود کا مرکز ہیں، جو ہمیں خوبصورتی، سکون اور حیرت کا احساس عطا کرتے ہیں۔ گھنےجنگلات کی سبزیاں، دریاؤں کا روانی، پہاڑوں کی اونچائیاں، اور سمندروں کی گہرائیاں، یہ سب فطرت کے حیران کن عناصر ہیں جو ہماری دنیا کو ایک جادوئی جگہ بناتے ہیں۔ نلتر میں یہ سب کچھ موجود ہے. قدرت کے یہ مناظر نہ صرف آنکھوں کو خوش کرتے ہیں بلکہ ہماری روح کو بھی سکون دیتے ہیں۔ ہم ان سے سیکھتے ہیں کہ زندگی کتنی پیچیدہ اور خوبصورت ہوسکتی ہے۔ فطرت کی یہ شان و شوکت ہمیں اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ ہمیں اپنی دنیا کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ یہ خوبصورتی آنے والی نسلوں کے لئے بھی برقرار رہ سکے۔

فطرت کے بارے میں اللہ کا پیغام واضح اور جامع ہے۔ قرآن مجید میں، اللہ نے فطرت کو ایک نشانی کے طور پر پیش کیا ہے، جس کے ذریعے انسان اس کی عظمت، حکمت، اور تخلیقی قوت کو سمجھ سکتا ہے۔ قرآن میں بار بار فطرت کے عناصر جیسے کہ آسمان، زمین، پہاڑ، دریا، درخت، اور جانوروں کی تخلیق کا ذکر آتا ہے تاکہ انسان غور و فکر کرے اور اللہ کی قدرت کو پہچانے۔
فطرت کا مشاہدہ اور اس پر غور کرنا، ایمان کو مضبوط کرتا ہے اور اللہ کی وحدانیت اور اس کی عظمت کا ادراک عطا کرتا ہے۔ ہمیں فطرت کی قدر کرنی چاہیے اور اسے نقصان سے بچانے کے لیے کوشش کرنی چاہیے، تاکہ ہم اللہ کے پیغام کا احترام کر سکیں اور اس کے تخلیقی کاموں کی حفاظت کر سکیں۔

ہمارے احباب دن بھر نلتر میں فطرت کو قریب سے دیکھتے رہے. خوب مشاہدہ کیا. اپنے اپنے افکار و علوم سے دیگر کو مستفید کیا. اسلام اور سائنس کے آفاقی اصول بھی زیر بحث آئے. مختلف مضامین کے اساتذہ تھے جو اپنا اپنا علم شئیر کررہے تھے . بہر حال بہت کچھ سیکھنے کو ملا.

 

دوپہر کے وقت، سب نے ساتھ میں مل کر، کھیتوں کے درمیان زمین پر بیٹھ کرکھانا کھایا. میں نے نگرہ کے کھیتوں کے ٹاپ سے واپسی پر بہتی ندی کے پانی میں وضو کرکے نماز ظہر ادا کی اور ذرا دیر سے آیا. کھانا ختم ہوچکا تھا. کچھ ساتھی دو دو بار پلیٹوں میں گوشت بھر بھر کر کھاچکے تھے. ہم نے بھی بچا کچھا زہرمار کر دیا اور قہوہ خوب انجوائے کیا. کھانے پینے کے بعد جو کچرا جمع ہوا تھا، ہمارے احباب نے چن چن کر اس کو اٹھا لیا. بچی روٹی اور فروٹ کے چھلکے بیچ کھیت جانوروں کو کھلایا. ہڈیاں کتوں نے چانٹ لیں. یوں جہاں احباب نے فرشی نشست لگائی تھی صاف ستھری کرکے رکھ دیا. یہی اس خوبصورت مقام کا تقاضا بھی ہے کہ گندگی نہ پھیلائی جائے، تھوڑا بہت کچرا جمع بھی ہوجائے تو سنبھال کر لے جائیں اور دور کہیں پھینک دیں.

 

ہمارے پروفیسر احباب نے کھلے میدان میں ایک محفل سجھا رکھی تھی. ایک دوسرے کے ساتھ کہانیاں شیئر کیے جارہے تھے. ماضی کی حسین یادیں دہرائی جا رہی تھیں. لطائف کا زوروں تھا. اچانک غلام عباس صاحب نے ناچنا شروع کیا. پھر کیا تھا کہ سب باری باری ناچنے لگے. پرنسپل اسلم ندیم صاحب کی گاڑی میں بڑی سی سونڈ ڈیگ لگی ہوئی تھی اور مختلف مقامی گانے چل رہے تھے. ان پر پروفیسر احباب تھرک رہے تھے. ہم بھی دور بیٹھیں ان کی پرفارمنس کو دیکھ رہے تھے. کبھی قریب ہوکر کسی کے “ناچ شریف” پر تبصرہ مار دیتے . واقعی “علمائے ناچو” لگ رہے تھے.

 

یہ وہ لمحات تھے جب قدرت کی خوبصورتی نے سب کے دلوں کو چھو لیا تھا۔ قدرت کے حسن میں ہزار رعنائیاں پنہاں ہیں. ہم پر یہ رعنائیاں منکشف ہورہی تھیں.
میں نے ادھر ادھر مقامی لوگوں سے نلتر کے بارے میں مختلف دلچسپ معلومات بھی جمع کیں، جیسے کہ یہاں کے موسمی حالات، مقامی ثقافت، سیاحت، ہوٹل انڈسٹری اور لوگوں کی روزمرہ زندگی، بہت سی دلچسپ باتیں معلوم ہوئی جن کا کچھ تذکرہ ماقبل کے سطور میں ہوگیا ہے.

 

وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا، اور شام کا وقت قریب آ گیا۔ پروفیسروں نے واپس گلگت جانے کے لئے تیاریاں شروع کیں، لیکن نلتر کی وادی کی خوبصورتی ان کے دلوں میں ایک انمٹ نقش چھوڑ چکی تھی۔ گروپ فوٹو بنایا جاچکا تھا. احباب نے انفرادی اور اجتماعی طور پر بھی خوب فوٹو گرافی کر لی تھی. سلیمی صاحب کی تجویز تھی کہ راستے میں کہیں چائے پی لی جائے. اشتیاق یاد اس کی تائید کررہے تھے. ہم بھی یہی چاہتے تھے تاہم واپسی پر نومل میں جس ہوٹل میں چائے پی وہ جگہ تو اچھی تھی مگر چائے بہت بے کار. وہاں کافی دیر ٹھہرے رہے. احباب کے استفسار پر دوسری شادی کے متعلق اپنی تجاویز اور تجربات شئیر کیے.

پروفیسر احباب گلگت کی طرف واپسی میں جاتے ہوئے خوب خوش گپیاں کررہے تھے ، انہوں نے آپس میں وعدہ کیا کہ وہ پھر سے نلتر کی وادی کا دورہ کریں گے، تاکہ قدرت کی اس خوبصورت تخلیق کا مزید لطف اٹھا سکیں۔

 

یہ ایک ایسا سفر تھا جو ہمیشہ کے لئے ان کے دلوں میں محفوظ رہے گا، اور نلتر کی خوبصورتی نے ان کے دلوں کو محبت اور سکون سے بھر دیا تھا۔ یہ یادیں مرتی نہیں، مرنے کے بعد بھی احباب کو زندہ رکھتی ہیں. رفیع صاحب جاتے ہوئے بھی اور واپسی پر بھی سب کو چھیڑ رہے تھے. سجی محفل میں بھی کوئی نہ کوئی مزاحیہ جملہ کَس دیتے تھے. ویسے وہ سفر میں تنگ نہ کرے اور جگت بازی کا مظاہرہ نہ کرے تو سفر پھیکا سا پڑ جاتا ہے.ہمارے ایسے اسفار میں، احباب کی بے تکلفیاں بھی عروج پر ہوتیں ہیں. غیر پارلیمانی الفاظ کا آزادانہ استعمال ہوتا ہے جن پر قدغن نہیں ہوتی.

 

وادی نلتر میں سیاحت کو بڑھوا دینے کے لیے چند تجاویز دل میں آرہی ہیں، جو عرض کیے دیتا ہوں.
انفراسٹرکچر کی بہتری بڑے پیمانے پر ہونی چاہیے. سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنایا جائے تاکہ سیاحوں کو آسانی سے نلتر پہنچنے کا موقع مل سکے۔نلتر کے اندر پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ نیٹکو کے ذمہ داروں کو اس حوالے سے کچھ اچھا کر دکھانا چاہیے.

 

نلتر میں ہوٹل انڈسٹری نے قدم جمانا شروع کیا ہے. کئی محکموں کے ریسٹ ہاوس بھی ہیں. تاہم قیامطو طعام کے مزید آپشنز فراہم کیے سکتے ہیں ، جیسے کہ ہوٹلز، ریزورٹس، اور کیمپنگ سائٹس۔موجودہ گیسٹ ہاؤسز اور کیمپنگ سائٹس کے معیار کو بہتر بنایا جاسکتا ہے. سستی اور مہنگی دونوں سہولیات موجود ہونی چاہیے تاکہ ہر کوئی نلتر سے لطف اٹھا سکے.

 

نلتر کی سیاحت کی ترقی کے لیے بھرپور مارکیٹنگ کی ضرورت ہے. نلتر کی خوبصورتی کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے اشتہاری مہم چلائی جائے۔ اور ابلاغ و اشتہار کے جملہ ذرائع استعمال کیے جائیں.

 

سیاحتی معلومات کے مراکز بنائے جائیں جہاں سیاحوں کو مقامی معلومات اور رہنمائی فراہم کی جا سکے۔

سیاحوں کو ماحول دوست سیاحت کے بارے میں آگاہ کیا جائے اور ان سے توقع کی جائے کہ وہ اپنے کچرے کو صحیح طریقے سے ٹھکانے لگائیں۔ اور گندگی پھیلانے کا سبب نہ بنیں. اپنی گند کے ذریعے فطرت کو نقصان پہنچانا کسی صورت جائز نہیں.
نلتر کی قدرتی خوبصورتی اور جنگلی حیات کی حفاظت کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں۔ یہ مقامی لوگوں سمیت سیاحوں پر بھی لاگو ہوں.

سیاحتی سرگرمیوں کی متنوعیت شروع کی جائے. سیاحتی سرگرمیوں کی مختلف اقسام متعارف کی جائیں، جیسے کہ ہائیکنگ، راک کلائمبنگ وغیرہ.

مقامی لوگوں کے ساتھ ثقافتی تجربات کی فراہمی، جیسے کہ مقامی موسیقی، دستکاری، اور کھانوں کا تعارف۔ وغیرہ.

مقامی آبادی کو سیاحت کے شعبے میں روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ بھی سیاحت سے فائدہ اٹھا سکیں اور اپنی معیشت بہتر بنا سکیں۔

مقامی افراد کو سیاحوں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے اور سیاحوں کو خوش آمدید کہنے کا سلیقہ سکھانے کے لئے ترتیب دی جائے۔

نلتر میں طبی سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ ہنگامی صورت حال میں سیاحوں کو فوری مدد مل سکے۔ اور ہمہ وقت کچھ ایمبولینس یہاں موجود ہونے چاہیے.

سیاحوں کی حفاظت کے لیے پولیس اور سیکیورٹی کے انتظامات کو مضبوط بنایا جائے۔ مقامی لوگوں کی سیکورٹی بھی بہت اہم ہے.

ان چند تجاویز پر محکمہ سیاحت گلگت بلتستان و پاکستان غور کرسکتی ہیں. اگر ان پر عمل پیرا ہونا شروع کیا گیا تو یہ تجاویز نلتر میں سیاحت کو فروغ دینے اور سیاحوں کے تجربے کو بہتر بنانے کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کر سکتی ہیں۔ ان پر عمل کرنے سے نہ صرف سیاحوں کو ایک خوشگوار ماحول حاصل ہوگا، بلکہ نلتر اور گلگت بلتستان و پاکستان کی معیشت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔

chitraltimes nalter Gilgit baltistan

chitraltimes naltar gilgit baltistan tour haqqani 1

chitraltimes naltar gilgit baltistan tour haqqani 2 chitraltimes naltar gilgit baltistan tour haqqani 3

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
88366

بارش اور محبتوں کے اڑان – خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on

بارش اور محبتوں کے اڑان – خاطرات :امیرجان حقانی

 

بارش، قدرت کا ایک حسین تحفہ ہے جو نہ صرف بحر و بر کو فیضیاب کرتا ہے بلکہ دلوں کو بھی تازگی، فرحت اور سکون بخشتا ہے۔ آج پڑی بنگلہ میں جب ہلکی ہلکی بارش ہورہی ہے، تو فضا میں ایک رومانٹک سرور چھا گیا ہے۔ ہر بوند جو زمین پر گرتی ہے، جیسے کہ محبت کا ایک نرم لمس ہو جو دلوں کو گرما دیتا ہے۔ دل جب گرما جائے تو پھر دنیا ہی بدل جاتی ہے.

بارش کی رعنائی میں ایک عجیب سی کشش ہے۔ یہ سب کچھ بدل دیتی ہے، ہر منظر کو نئے رنگوں سے سجا دیتی ہے۔ درختوں کی پتے دھل جاتے ہیں اور وہ ایک نئے جیون کا احساس دیتے ہیں۔ شاید یہ ایام بھی جیون کے ملاپ کے ہیں. گلیوں، سڑکوں اور پانی کا نالیوں میں پانی کی ننھی ننھی ندیاں بہنے لگتی ہیں، جیسے کہ یہ محبت کی راہیں ہوں جو دلوں کو جوڑتی ہیں۔

جب بادل چھا جاتے ہیں اور بارش برستی ہے، تو ہر چیز کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے۔ لوگوں کے چہرے مسکرا اٹھتے ہیں، جیسے کہ وہ محبت کے نئے جذبے سے لبریز ہوں۔ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے، ہر منظر ایک دلکش تصویر بن جاتا ہے. اس وقت میں لکھ بھی رہا اور میرے صحن کے درخت اور پھول اور بیل بوٹے مجھے دیکھ کر اپنی ننھی ننھی ٹہنیاں ہلا ہلا کر اپنی محبت کا اظہار بھی کررہے ہیں. شاید وہ مجھے سلام کررہے ہیں. کچھ پرندے بھی ادھر ادھر پھدک رہے ہیں اور خوبصورت آوازیں نکال رہے ہیں. ۔ہر منظر دل کا بھا لیتا ہے.

بارش کے دنوں چھتریاں کھلتی ہیں، جیسے کہ محبت کے پھول کھل رہے ہوں۔ ان بارشوں میں رعنا جوان اور ضعیف بوڑھے چھتریوں کے پَر کھولے گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح ہر جانب حسن بکھیر رہے ہوتے ہیں.

اس وقت پڑی بنگلہ میں میرے سامنے ہلکی بارش ہورہی ہے. دھوپ نے بھی اپنا انچل دکھا دیا ہے اور میرے سامنے گرم گرم چائے کا ایک کپ پڑا ہے. ویسے آپس کی بات ہے کہ بارش کے دوران ایگ گرم کپ چائے یا کافی ، ایک رومانٹک ناول، اور ساتھ میں اپنے محبوب کی موجودگی، یہ سب مل کر ایک خوابیدہ دنیا کا منظر بناتے ہیں۔ میرے پاس رومانٹک ناول تو نہیں فی الحال تفہیم القرآن کی پہلی جلد ہے جس میں مقدمہ تفہیم القرآن کا مطالعہ ہورہا ہے. اردو تفاسیر میں تفہیم القرآن بھی رومان سے کم نہیں.
میں سماجی علوم کا دینی طالب علم ہوں. کوشش کرتا ہوں کہ سماجی اور فطری امور کو دینی علوم کی روشنی میں سمجھوں.
قران مجید میں فطرت کا فلسفہ بہت جامع اور گہرا ہے. اللہ تعالیٰ کی قدرت، حکمت، اور تخلیق کے مختلف پہلو قرآن میں بیان کیے گئے ہیں، جن میں بارش اور اس کے اثرات بھی شامل ہیں۔

بارش کو زمین کی زندگی کہا گیا ہے. بارش کو اللہ کی قدرت خاص بیان کیا گیا ہے اور فطرت کی علامت کہا گیا. بارش کے نزول کو توازن و اعتدال اور انصاف سے تعبیر کرکے انسان کو راہ اعتدال دکھایا گیا ہے. بارش رحمت اور حیات ہے.

قرآن کریم میں حضرت انسان کو فطرت کا محافظ قرار دیا گیا ہے۔ انسان کو فطرت کا خیال رکھنے اور اس کی حفاظت کرنے کی بھاری ذمہ داری سونپ دی گئی ہے. بارش سمیت دیگر قدرتی وسائل کو ضائع یا نقصان پہنچانے سے روکا گیا ہے.انسان کو پابند بنا دیتا ہے کہ وہ قدرت کا احترام کرے اور اس کی حفاظت کرے۔ بارش کا ذکر نہ صرف اللہ کی رحمت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ انسان کو فطرت کے ساتھ ہم آہنگی میں رہنے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ اگر آپ فطرت کیساتھ ہم آہنگی میں رہنا چاہتے ہیں تو بس اتنا ضرور کیجئے کہ بارش کی لمس اور نرمی و توازن کو محسوس کیجئے اور اسے خوب لطف اٹھائیں. لطف اٹھانے کا طریقہ ہر ایک کا مختلف ہوسکتا ہے.

بارش کے ساتھ ایک خاموشی ہوتی ہے، جو دلوں کو قریب لے آتی ہے۔ یہ لمحے زندگی کی وہ نرمی ہیں جو ہمیشہ یاد رہتی ہیں۔
آج پڑی بنگلہ میں رم جھم بارش ہونی چاہیے تھی مگر ہلکا بوندا باندی ہوئی جو کئی دنوں سے پیاسے کھیتوں اور درختوں کے لیے ناکافی ہیں.

یہ بارش کا حسن ہے، جو دلوں کو گرما دیتا ہے اور زندگی میں ایک نیا رنگ بھرتا ہے۔ جب بارش ہوتی ہے، تو یوں لگتا ہے کہ قدرت نے محبت کے پیغام کو زمین پر بھیج دیا ہو، تاکہ ہم سب کو یاد دلائے کہ محبت ہی وہ جذبہ ہے جو سب کچھ بدل دیتا ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ بارش کے ان دنوں میں گلگت بلتستان کے ہر فرد کے صالح جذبات بدل کر رہ جائیں گے اور نباتات، حیوانات اور جمادات محبتوں کے اڑان بھریں گے.

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
88104

سوشل میڈیا اور سماجی اقدار- خاطرات: امیرجان حقانی

Posted on

سوشل میڈیا اور سماجی اقدار- خاطرات: امیرجان حقانی

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔مسلمانوں کی شاندار سماجی اقدار ہیں۔ یہ ایسی اقدار ہیں جو پوری انسانیت کے لیے ماڈل اور نمونہ ہیں۔انسانی سماج میں ارتقاء کا عمل جاری ہے۔اس سماجی نظام میں ہر صبح کوئی نہ کوئی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔اور یہ تبدیلی کسی نئے پیغام  اور حقیقت کا مژدہ سنا دیتی ہے۔کائنات میں ہر طرح کی تبدیلیوں کی طرح ذرائع ابلاغ میں بھی  تبدیلیاں اور ترقیاں جاری ہیں۔بلکہ اگر یہ کہا جائے تو درست ہوگا کہ ذرائع ابلاغ کے میدان میں شعبہ ہائے زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی زیادہ ہوئی ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ مسلمانان عالم   میڈیائی ترقی کے ان مراحل میں رہنماء بننے کی بجائے  مسلسل پسماندگی کا شکار ہیں۔ذرائع ابلاغ کے تمام بڑے نیٹ ورک غیروں کے قبضے میں ہیں جہاں مسلمانوں کی کوئی شنوائی نہیں۔ذاتی اور ریاستی دونوں سطح پر مسلم دنیا تنزلی کا شکار ہے۔

سوشل میڈیا اور سماجی اقدار کے درمیان قریبی اور گہر اتعلق ہے۔ جدید دور میں، سوشل میڈیا نے دنیا کو ایک دوسرے کے قریب لا کر روابط کو آسان بنا دیا ہے۔درست معنوں میں دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ ہم پلک جھپکنے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور لاکھوں میل دور لوگوں سے آسانی سے رابطہ اور علمی و سماجی موضوعات پر مکالمہ کرسکتے ہیں۔اس کے ساتھ  ہی  سوشل میڈیا نے سماجی اقدار کو متاثر کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے، اور یہ اثرات مثبت اور منفی دونوں ہوسکتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے  ہتھیار سے ہمارے ملی، دینی، اورقومی مفادات ، تہذیبی اقدار  اور دینی افکار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔سوشل میڈیا ایک بہتا دریا ہے۔اس کے صارفین اس میں جواہر اور موتی بھی ڈال سکتے ہیں  اور زہر بھی انڈیل سکتے ہیں۔اگر آج کے مسلم نوجوان کی سماجی رابطوں پر ترجیحات کا جائزہ لیا جائے تو وہ اس فورم میں گند اور کچرا ہی ڈال رہے ہیں۔ سوشل میڈیا جتنا اخلاقی، تبلیغی اور تعلیمی نقطہ نظر سے مفید تر ہے  اسی لیول میں ہی  انسانی اقدار و اخلاق کو تباہ و برباد کرنے میں بھی موثر ہے۔

سماجی اقدار وہ اصول اور اخلاقی معیارات ہیں جو معاشرتی رویے اور اجتماعی زندگی کے معیارات کو طے کرتے ہیں۔ یہ اقدار معاشرتی رویوں، قوانین، اور اخلاقیات کو تشکیل دیتی ہیں، اور وہی اقدار ثقافت یا مذہب کے مطابق مختلف ہو سکتی ہیں۔ علوم دینیہ کے مفکرین کو اس باب میں غور و خوض کی ضرورت ہے۔سماجی مشکلات کا حل دینا اور سماجی اقدار کو علوم دینیہ کی روشنی میں حل دینا آج کے مسلم سماجی مفکرین کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے مگر وہ صدیوں پرانے فروعی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں۔

عمومی سماجی اقدار میں  دوسرے کے حقوق،  خیالات و افکار کا احترام، ایمانداری، انصاف اور غیر جانبدارانہ سلوک،شفقت و رحمدلی، محبت و مودت اور تعاون اور بالخصوص مختلف الفکر  والعقائد لوگوں اور ان کی سماجی و ثقافتی اقدار  کے ساتھ برداشت و قبولیت  کے ساتھ رہناشامل ہیں۔اسلام کی خاصیت یہ ہے کہ ان سب کو سموتے ہوئے کئی ایک مزید اقدار کی بات کرتا ہے۔ جن میں تقویٰ، عدل ، مواخات، حیا، احسان، شکرگزاری، صبر، عزت و احترام اور صدقہ و خیرات اور مواخاۃ قابل ذکر ہیں۔فحشاء و رزائل، ظلم و ستم  اور نفرت و تعصب سے اجتناب  اور  پرہیز اسلام کی امتیازی  قدریں ہیں۔ان اعلی شان قدروں کو جدید خطوط میں مرتب کرنا اور بیان کرنا علماء اسلام کا کام ہے۔کیا وہ اپنی اس ذمہ داری کو نبھا رہے ہیں؟۔

سوشل میڈیا آج کل ہماری روزمرہ زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔جدید انسان کا اس کے بغیر گزارہ نہیں۔ لوگ مختلف پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، ٹویٹر(ایکس)، انسٹاگرام،ٹک ٹاک،یوٹیوب،ٹیلی گرام،لنکڈ  ان، اسنیپ چیٹ،ریڈڈیٹ،پنٹیرٹ،ڈسکارڈ اور واٹس ایپ کے ذریعے اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔یہ پلیٹ فارمز مختلف مقاصدمثلا جغرافیائی، علاقائی،مذہبی ،سماجی اور مخصوص دلچسپیوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں اورمعلومات کی رسائی کا  اہم،تیز ترین اور سستا ترین ذریعہ بھی بن گئے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال بھی ہو رہا ہے، خاص طور پر مقدسات اسلامی کی توہین کے حوالے سے اس پلیٹ فارم کو انتہائی بے دردی سے استعمال کیا جاتا ہے ۔

اسلام کے مقدسات میں قرآن کریم، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام،اہل بیت عظام،ائمہ اطہار،دینی شعائر، حرمین شریفن اور دیگر انبیاء کرام اور اسمانی کتب شامل ہیں۔ جب سوشل میڈیا پر مقدسات اسلامی کی توہین کی جاتی ہے، تو یہ عمل، نہ صرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرتا ہے، بلکہ سماجی اقدار اور بین المذاہب ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ سوشل میڈیا نے اسلامی اقدار و شعائر کے ساتھ دیگر سماجی اقدار کا بھی جنازہ نکل کر رکھ دیا ہے۔

 

سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹی خبریں پھیلائی جارہی ہیں۔بہتان تراشی اور تہمت اندازی کا وسیلہ بنایا گیا ہے۔اس کو نفرت کی آگ لگانے اور فرقہ پرستی کے لیے بھی  کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔اسی طرح دہشت گرد گروہ بھی اس کو خوب استعمال کرتے ہیں۔اور مختلف مذاہب کے خود ساختہ خدائی فوجدار بھی عام مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے سوشل میڈیا کے جملہ ٹولز  اور پلیٹ فارمز کمال مہارت سے استعمال کرتے ہیں۔اسی طرح ہماری سماجی اقدار کی بربادی کے لیے  فحشاء کی اشاعت  اور بے حیائی کی خوب تبلیغ کی جاتی ہیں۔سنجیدہ  معاشروں میں جو چیزیں خلوت اور میاں بیوی کے درمیان معیوب سمجھی جاتی ہیں  ان کا استعمال و اظہار بھی سوشل میڈیا میں ڈھٹائی کے ساتھ بلکہ فخریہ کیا  جاتا ہے۔یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز نے دھوم مچا کر رکھ دیا ہے۔یہ وہ چیزیں ہیں جن سے ہماری نوجوان نسل تباہ ہورہی ہیں ۔ یہی چیزیں اخلاقی اقدار کے لیے تباہ کن اورزہر ہلاہل سے کسی طور کم نہیں۔بندہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ سب کچھ دیکھنے اور سننے پر مجبور ہوجاتا ہے۔حد یہ ہے کہ کوئی چارہ گر نہیں۔

 

سوشل میڈیا میں رسول اللہ ﷺ ، اصحاب رسول ﷺ، اہل بیت عظام، قرآن کریم اور دیگر مقدس مقامات و شخصیات کے متعلق غلیظ پروپیگنڈ کیا جاتا ہے۔ اس میں غیروں کے ساتھ اپنے نادان دوست بھی شامل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے سماج میں برے اثرات مرتب ہوتے اور اور مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔اس سب کے باوجود مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ صبر کے ساتھ متانت اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ قانون ہاتھ میں بالکل نہ لیں۔نفرت سے خود کو بھی بچائیں اور اپنے معاشرے کے دیگر لوگوں کو بھی بچائیں بالخصوص غیر مسلموں بھائیوں کی تضحیک و توہین اور ان کے مذہبی شعائر و مقاسات کی قطعا بے حرمتی نہ کریں۔ اور ایسا کرنے والوں کے خلاف ملکی قوانین کی روشنی میں کاروائی عمل میں لائیں۔

 

یہاں یہ بات ضروری ہے کہ ہم سب مل کر سوشل میڈیا کے صحیح استعمال کو فروغ دیں اور غلط استعمال کے خلاف آواز اٹھائیں۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر مقدسات اسلامی کی توہین کے خلاف سخت قوانین بنائیں اور ان قوانین کا سختی سے اطلاق کریں۔ اسی طرح، سوشل میڈیا کمپنیوں کو بھی اپنی پالیسیوں میں مقدسات کی توہین کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے چاہیے۔تاکہ ہمارا سماج مزید بربادی سے بچ سکے اور ہماری اقدار کا جنازہ نہ نکلے۔

 

آخر میں، ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم سوشل میڈیا کو ایک مثبت اور احترام پر مبنی پلیٹ فارم بنائیں۔ ہمیں اپنے الفاظ اور اعمال میں احتیاط برتنا چاہیے اور مقدسات اسلامی کی توہین کے خلاف متحد ہو کر کھڑے ہونا چاہیے۔ یہ صرف ایک مذہب یا کمیونٹی کی بات نہیں ہے؛ یہ انسانیت اور سماجی اقدار کا سوال ہے۔

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
88056

شندور قتل کیس میں نامزد ملزمان کی 22 سال بعد گلگت میں گرفتاری، ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ بیوہ خاتون کا عدالت عالیہ استدعا

شندور قتل کیس میں نامزد ملزمان کی 22 سال بعد گلگت میں گرفتاری، ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ بیوہ خاتون کا عدالت عالیہ استدعا

پشاور ( چترال ٹائمزرپورٹ ) 2022 میں چترال کی ایک رہائشی خاتون نے چترال ٹائمز کی توسط سے ایک پریس کانفرس ریکارڈ کرائی کہ میرے خاوند چترال چیوڈوک کے رہائشی عظمت خدا (مرحوم) ایک ٹیکسی/ جیب ڈرائیور تھا جو کہ اپنے ساتھی/ کنڈکٹر کے ساتھ مورخہ 16.10.2002 کو ایک بوکنگ پر چترال سے گلگت کے لئے روانہ ہوا جو کہ گلگت جاتے ہوئے شندور بمقام مس جنالی کے قریب جیب میں سوار سوار/ حملہ آوروں/ ملزمان نے بے دردی سےقتل کر دیے۔ جبکہ مقدمے کی ایف آئی آر مقامی پولیس نے پولیس اسٹیشن مستوج میں درج کیے تھے جہان گلگت سے تعلق رکھنے والے پانچ ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا اور بعد ازان ایک ملزم جہان زیب ولد منصور خان ساکنہ سگور گلگت بلتستان کو گرفتار کیا گیا۔ جہان وہ ٹرائل کورٹ/ سیشن جج چترال کی عدالت نے ایک ملزم کو سزا کا مرتکب پا کر مجرم قرار دیا ۔ جبکہ بقیہ (4) چار ملزماں ابھی تک مفرور ہیں۔ فاضل عدالت کی جانب سےرو پوش ملزمان کے خلاف NBWs جاری کرنے کے باوجود متعلقہ SHO ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس بابت خاتون نے نے متعدد بار حکام بالا کو درخواستیں/اپیل جمع کروائیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

 

چترال ٹائمز کی توسط سے واقعے کی خبر لیتے ہوئے چترال کے نوجوان سپوت شیر حیدر خان ایڈوکیٹ ہائی کورٹ نے متاثرہ خاندان سے ہمدری کا اظہار کر تے ہوئے ملزمان کو کیفر کردار تک پنچانے کے لئے پشاور ہائی کورٹ میں متاثرہ خاندان کی جانب سے ایک رٹ پٹیشن ڈائیر کی جسکی عدالت عالیہ نے ںوٹس لیتے ہوئے حکومت پاکستان و دیگر اعلٰی حکام و اداروں کے غیر اطمنان بخش کاروائی پر سرزنش کی اور حکومت پاکستان و دیگر اعلٰی حکام کو حکم جاری کی کہ ملزمان بالا کی ہر قیمت پر گرفتاری عمل میں لائی جائےاور قانون کی کٹہرے میں پیش کی جائے۔ عدالت عالیہ کے احکامات کے بعد مقدمے میں دلچسپی آئی کی ملزمان بالا میں ملزم شاہ زیب ولد منصور خان ساکنہ سگور گلگت بلتستان، حکومت گلگت بلتستان کے حاضر سروس ملازم ہے اور حکام کو اچھی طرح معلومات ہونے کے باوجودملزم کی گرفتاری و حوالہ قانون کرنے کو تیار نہیں۔

 

عدالت عالیہ کے احکامات پر حکومت گلگت بلتستان و گلگت بلتستان پولیس نے سی ٹی ڈی آپریشنل ٹیم پر مشتمل ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی جو کہ مطلوب اشتہاری ملزمان شاہ زیب ولد منصور خان, علیم الله ولد شیریں خان ساکنان (سگوار ) گلگت کو سکوار میں ایک سرچ آپریشن کے دوران گرفتار کر کے سی ٹی ڈی تھانہ منتقل کیا۔ جو ملزمان نےاعتراف کیا کہ سال 2002 میں شریک ملزمان کے ہمراہ چترال سے ایک شخص کی گاڑی بنیت ڈکیتی بک کر کے گلگت لاتے ہوئے راستے میں دو بندوں کو ہے دردی سے قتل کر کے گاڑی کو لے کر فرار ہوئے تھے۔

 

متاثرہ خاتون نے چترال ٹائمز اور متعلقہ حکام و ایڈوکیٹ شیر حیدر خان کا خصوصی شکریہ ادا کی جو کہ 22 سالوں سے حصول انصاف کے لئے لڑتی رہی اور باا آخر 1 سال کے اندر اندر وکیل و عدالت عالیہ کے خصوصی دلچسپی کی وجہ سے مفرور ملزمان تک رسائی ممکن ہو ئی اور استدعا کی ہے کر ملزمان کو کٹری سے کٹری سزا دی جائے تا کہ آئیندہ کوئی کسی کا نسل برباد کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لے۔

chitraltimes chewdok resident zarmast press confrence

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
87661

جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے اقدامات قابل تحسین ہیں۔ کنزرویٹر جنگلی حیات ،وزارت موسمیاتی تبدیلی

جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے اقدامات قابل تحسین ہیں۔ کنزرویٹر جنگلی حیات ،وزارت موسمیاتی تبدیلی

 

اسلام آباد (چترال ٹائمز رپورٹ ) پاکستان میں جنگلی حیات کےغیر قانونی شکار کو روکنے اور جرائم کی تفتیش کے حوالوں سے متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ دور دراز مقامات، محدود وسائل اور فوری رسائی نہ ہونے کی وجہ سے شواہد کے حصول میں ہمیشہ سے مشکلات درپیش رہی ہیں۔

 

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے، سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن نے غیر قانونی شکار اور جنگلی حیات کے جرائم کے ثبوتوں کو اکھٹا کرنے کے حوالے سےجدید سائنسی بنیادوں پر ٹریننگ کا اہتمام کیا۔ خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے محکمہ جنگلی حیات، اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ، ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان اور سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے دس اہلکاروں نے 3 روزہ تربیت کامیابی سے مکمل کر لی۔ کینیڈا کے جنگلی حیات کے ماہربرائن پیٹرر نے تربیت فراہم کی۔

 

اختتامی اور تقسیم اسناد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ثمر حسین خان کنزرویٹر جنگلات وزارت موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ وائلڈ لائف گارڈز/ واچرز نچلی سطح پر جنگلی حیات کے تحفظ میں بہترین کردار ادا کررہے ہیں۔ مقامی کمیونٹیز کے ساتھ مل کر کی جانے والی کوششیں ہماری جنگلی حیات کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے بہت اہم ہیں۔ وقت کے ساتھ ان کی پیشہ وارانہ مہارتوں کو بڑھانا بھی بہت ضروری ہے۔

 

ثمر حسین خان نے تربیت کے پہلے مرحلے کی کامیاب تکمیل پر سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن، صوبائی محکمہ جنگلی حیات اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے کردار کو سراہا۔ انہوں نے دوسرے مرحلے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور تربیت حاصل کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ایک روشن مستقبل کے لیے برفانی چیتے سمیت حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لئے اپنی بھر پور توانائیاں صرف کریں گے۔

اس موقعے پر خطاب کرتے ہوئے برائن پیٹرر نے کہا کہ جنگلی حیات کےغیر قانونی شکار کو روکنے اور جرائم کی تفتیش کے حوالوں سے ثبوتوں کو بہتر طریقے سے اکھٹا کرنے اور شواہد کے طور پر پیش کرنے کے لیے شرکاء کی صلاحیتوں کو بڑھانے پر خوشی ہوئی۔ اس تربیت سے حکومت پاکستان اور سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن جیسی تنظیموں کو ماحول اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے اٹھائی جانے والی کوششوں کو تقویت ملے گی۔ انھوں نے کہا کہ اس ٹریننگ کے بعد شکاریوں اور غلط کام کرنے والوں کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے عدالتوں میں سائنسی ثبوت فراہم کرنے کے حوالے سے شعور اجاگر ہوگا۔

 

اپنے پیغام میں ڈائریکٹرسنو لیپرڈ فاؤنڈیشن علی نواز نے جنگلی حیات سے متعلقہ جرائم سے نمٹنے کے لیے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے جنگلی حیات کے موثر تحفظ کے لیے فیلڈ سٹاف کو ضروری مہارتوں سے آراستہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے جنگلی حیات کے جرائم کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حکومت، کمیونٹیز اور ایس ایل ایف جیسی تنظیموں کے درمیان تعاون کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ علی نواز نے جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے ایس ایل ایف کے عزم کا اعادہ کیا اور پاکستان کی حیاتیاتی تنوع کے بقا کے لیے تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔

 

سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن، سنو لیپرڈ ٹرسٹ کے ساتھ مل کر “سٹیزن رینجرز وائلڈ لائف پروٹیکشن پروگرام (سی آر ڈبلیو پی پی)” پر کام کر رہا ہے جس کا مقصد بلند پہاڑی علاقوں میں غیر قانونی شکار اور جنگلی حیات کی تجارت کے خلاف موثر اقدامات اٹھانا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وزارت کے تعاون سے، کلیدی سرگرمیوں میں رینجرز کو تربیت اور لیس کرنا اور ماسٹر ٹرینرز کا نیٹ ورک قائم کرنا بھی اسی پروگرام کا حصہ ہیں۔ اس سال مختلف شعبوں سے 50 افراد کو تربیت فرہم کی جائے گی۔

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged
87658

شندور کے مقام پر دو افراد کو قتل کرکے گاڑی لیکر فرار ہونے والے ملزمان بائیس سال بعد گلگت میں گرفتار

Posted on

 شندور کے مقام پر دو افراد کو قتل کرکے گاڑی لیکر فرار ہونے والے ملزمان بائیس سال بعد گلگت میں گرفتار

گلگت ( چترال ٹائمزرپورٹ ) گزشتہ دن سی ٹی ڈی آپریشنل ٹیم گلگت نے sip عارف جان کی سربراہی میں مقدمہ علت نمبر48/02 بجرائم 302 ت پ 17 حرا بہ تھانہ مستوج چترال خیبرپختونخوا کو مطلوب اشتہاری ملزمان شاہ زیب ولد منصور خان اور علیم اللہ ولد شیریں خان ساکنان سكوار ضلع گلگت کو سکوار میں ایک سرچ آپریشن کے دوران گرفتار کر کے سی ٹی ڈی تھانہ منتقل کیا ہے ۔

یاد رہے مجرمان مذکوران نے سال 2002 کو اپنے شریک مجرمان کے ہمراہ چترال سے ایک شخص کی گاڑی بنيت ڈکیتی بک کر کے گلگت لاتے ہوےراستے میں شندور کے مقام پر دو افراد گاڑی ڈرائیور عصمت خداولد خوش خدا اور شاگرد سکندر شاہ ولد فقیر محمد ساکنان چیوڈوک چترال
کو بے دردی سے قتل کر کے لینڈکروزر گاڑ ی کو لے کر فرار ہوے تھے ۔ بعد میں گاڑی کو گلگت سے برآمد کیا گیا تھا،جبکہ مجرمان کو سیشن عدالت چترال سے سزا بھی ہوئی ہے۔

پریس ریلیز کےمطابق مجرمان اشتہاری کی گرفتاری کیلئے 22 سال کمے دوران چترال پولیس کی ٹیم 2/3 بار گلگت آی ہوئی تھی جو کہ ناکام ہوئی ۔۔مجرمان اشتہاری کو گرفتار کرنے کے لئے IG گلگت بلتستان نے AIG CTD گلگت کو خصوصی ٹاسک دیا تھا۔

 

ٹیکسی ڈرائیور کے بیوہ کی مجرمان کی گرفتاری بارے پریس کانفرنس 

https://chitraltimes.com/2021/10/14/53583/

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
87615

فلک نور کیس: اب بھی راستہ ہے – خاطرات:امیرجان حقانی

Posted on

فلک نور کیس: اب بھی راستہ ہے – خاطرات:امیرجان حقانی

فلک نور اور فرید کا کیس عدالت کے ذریعے منطقی انجام کو پہنچ گیا. اللہ نہ کرے کسی کی بہن بیٹی کے ساتھ یہ معاملہ ہو، ایسی کسی سیچوئیشن کی  نوبت ہی نہ آجائے. اولاد بالخصوص بچیوں کی ترتیب و نگرانی کا کڑا خیال رکھا جانا چاہیے. عورت ذات بہر حال جلدی جھانسے میں آجاتی ہے. اور اگر وہ کم عمر بھی ہو تو جلدی ٹریپ میں آجاتی ہے.

 

falak noor gilgit baltistan

 

اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر کیا کیا جائے. یعنی لڑکی اپنی مرضی سے کسی کیساتھ جاکر نکاح کرتی ہے  تو

پہلی صورت:

پہلی صورت میں لڑکا لڑکی کے والدین اور سرپرست کوشش کریں کہ کیس کو اچھالنے کی بجائے باہمی افہام و تفہیم سے، لڑکا لڑکی کی خواہش کا احترام کرکے، شریعت کے احکام کے مطابق ان کو زندگی گزارنے دیں. اس حد سے گزرنے کے بعد مزید روڑے اٹکانے سے گریز بہتر ہے.

دوسری صورت:

دوسری صورت جرگہ کے ذریعے معاملات نمٹا دیے جائیں. یہ بھی ہمارے ہاں روایتی طریقہ کار ہے. تمام مکاتب فکر کے ہاں جرگہ کے ذریعے معاملات نمٹانے کی شکلیں موجود ہیں. ہمارے جی بی میں اسکی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں.

تسیری صورت:

تیسری صورت نظم، قانون اور عدالت کا راستہ اختیار کیا جائے. سسٹم سے مدد لی جائے. یہ والا راستہ مشکل، مہنگا اور جان جوکھوں والا ہے. ہمارا انتظامی اور عدالتی سسٹم کوئی مثالی نہیں، نہ اس سے خیر کی توقع کی جاسکتی ہے. بہر حال ایک راستہ ہے.

چوتھی صورت:

چوتھی صورت عموماً دشمنی، قتل اور اسی شکل میں بدلہ کی ہوتی ہے. بہر حال اس آخری صورت کی نہ شرع اجازت دیتی ہے نہ ملکی سسٹم. اور نہ ہی اس میں خیر ہے. اس سے گریز بہتر ہے.

یہاں تک فلک نور اور فرید کا معاملہ ہے. کسی بھی سنجیدہ فکر انسان نے اس کی حمایت نہیں کی اور نہ ہی کرنے کی گنجائش موجود ہے. اللہ کسی باپ بھائی کو یہ دن نہ دکھلائے.
اب قانون کے مطابق جو بھی فیصلہ ہوا ہے سب کو قبول کرنا چاہیے. مزید اس سماجی ناسور اور گندگی کو کریدنے کی ضرورت نہیں. جتنا کریدا جائے اتنا ہی بدبو نکلے گا اور کچھ نہیں.

تاہم اگر فلک نور اور اسکا شوہر فرید عالم اور اسکی  فیملی چاہیے تو اب بھی اس تباہی اور بدنامی کا ازالہ ہوسکتا ہے. یہ بدبو کسی حد تک ختم ہوسکتی ہے.
اگر فرید کے والدین اور پوری فیملی خواتین سمیت فلک نور کے والد کے گھر معافی تلافی کے لیے پہنچ جائیں. ان کے گھر، جرگہ بھیج دیں. غلطی کا احساس کریں اور معیاری طریقے سے ازالہ کی کوشش کریں، فلک نور اور فرید عالم بھی ان کے پاؤں پڑ کر معافی مانگ لیں اور اپنی غلطی اور جلدبازی پر  کھلے دل سے معافی مانگ لیں تو بعید نہیں کہ فلک نور کا باپ اور دیگر فیملی والے ان کو معاف نہ کریں. معافی کے لیے گھر پہنچنے پر کئی کئی خون معاف کیے جاتے ہیں. یہ ہمارے رسول اللہ کا طریقہ بھی ہے اور ہماری قدیم روایت بھی.

مجھے معلوم نہیں کہ یہ فرید کون اور کہاں سے ہے. جو بھی ہے اگر یہ فیملی سمیت اپنے سسر اور ساس کے پاس معافی مانگنے کے لیے پہنچ جائے تو فلک نور کا باپ اور فیملی معاف بھی کریں گے اور دل سے قبول بھی کریں گے. اس سے خیر بھی برآمد ہوگا.
ورنا والدین کو ہرا کر ایسے رشتے دیرپا ثابت نہیں ہوتے ہیں. فلک نور اپنے والدین سے جیت گئی. قانون نے ان کا راستہ صاف کیا. اب وہ دل بڑا کرکے ایک دفعہ معافی مانگنے کے لئے اپنے شوہر اور اسکی فیملی لے کر پہنچ جائے.
کاش!
ایسا ہوجائے. ورنا اس رشتے کا انجام برا ہوگا. اس کا احساس اب فلک نور، فرید اور اس کی فیملی کو کرنا چاہیے. زندگی صرف محبت کی شادی کرنا اور کورٹ سے جیت جانے کا نام نہیں. اور نہ ہی والدین کو ہرانا ہے. والدین سے جیت جانے کا انجام بہت برا ہوتا ہے. زندگی یہی ہے کہ اپنی محبت پانے کے بعد جیسے تیسے والدین کو راضی کرنا اور اللہ کو بھی راضی کرنا ہے. والدین اور اللہ کو راضی کرنے کا اب ایک ہی راستہ بچا ہے کہ رو دھو کر ان سے معافی مانگ لی جائے.

ایک بات نوٹ کرنے کی ہے. والدین جتنے بھی سخت ہوں یا جتنے بھی ناراض ہو مگر وہ دل سے ناراض نہیں ہوسکتے اور بہت جلدی معاف کرجاتے ہیں. یہ خدا کی فطرت ہے کہ والدین کے دل میں اولاد کی بے تحاشا محبت ہوتی ہے. بے شک اولاد کا دل کہیں اور ہوتا ہے مگر والدین کا دل ہمیشہ اولاد کے لیے دھڑکتا ہے.

فلک نور بے شک تم نے اپنی محبت کو پا لیا. تم نے فرید کے لیے وہ کچھ کیا جو ایک کم عمر لڑکی یا کوئی خاتون سوچ بھی نہیں سکتی. والدین کا گھر چھوڑنا مذاق نہیں، مگر تم نے کرلیا. بوڑھے باپ کے آنسو تمہارا دل پسیج نہیں سکے، سوشل میڈیا کے ایکٹیوسٹ بھی تمہارا کیس ہار گئے. عدالتوں نے بھی آپ کے جذبات کا احترام کیا. میڈیا نے بھی آپ کی مدد نہیں کی تو مخالفت بھی نہیں کی.

فلک نور تمہاری محبت جیت گئی ہمارا سماج ہار گیا. تمہاری محبت جیت گئی ہماری روایات ہار گئیں. جی ہاں تمہاری محبت جیت گئی والدین کا مان ٹوٹ گیا، بھائیوں کا بھرم بکھر گیا. وہ زندگی بھر خجالت کا یہ داغ لیے پھریں گے. اور کیا پتہ کل تمہارے بچوں کو کوئی طعنہ دے کہ ” تمہاری ماں تو بھاگ کر آئی تھی”. ان بچوں پر کیا گزرے گی..؟

مانتے ہیں تم نے اپنی محبت کے لیے یہ سب کچھ کیا ہوگا، محبت نام ہی قربانی اور ایثار کا ہے. پر تم یہ سب سیدھے طریقہ پر بھی تو کرسکتی تھی نا. تمہارے والدین تو اتنے ریجڈ نہیں ہونگے نا؟ انہیں تو پرنس کریم آغا خان نے بیٹیوں کو پاور فل بنانے کے درس دیا تھا وہ اس پر عمل پیرا بھی ہیں. تم ان سے بات کرلیتی، اپنے جذبات کنفیڈینس کیساتھ ان کے سامنے رکھ دیتی جیسے تم نے میڈیا اور کورٹ کے سامنے رکھا تو شاید کوئی با عزت راستہ نکل جاتا. لیکن تم نے وہ راستہ اپنا لیا جس سے والدین کی ناک کٹ گئی. تم والد /والدہ نہیں ہو نا اس لئے یہ درد محسوس کرنا فی الحال مشکل ہے. تمہارے ہاں تو بیٹیوں کی خوشی کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے.

چلیں!

تم جہاں بھی رہیو خوش رہیو، ہماری دعا ہے.

مگر ایک بات یاد رکھو!

تم سب کچھ جیت جانے کے بعد بھی تم ہار گئی ہو. تمہارا فرید ہارا ہے. اس کی فیملی ہاری ہے. عنداللہ بھی تم ہارے ہو اور عندالناس بھی تم ہارے ہو.
مگر ہاں تم جیت سکتے ہو. تم بوڑھے والدین سے بھی جیت سکتے. عنداللہ و عندالناس بھی جیت سکتے. اس کے لئے ایک دفعہ، جی ہاں صرف ایک دفعہ اپنی ضد، اکڑ، ہٹ دھڑمی اور  غلطی کا احساس کرکے معافی مانگنے کا راستہ نکال لو.

اے کاش! فلک نور، فرید اور اس کی فیملی اب یہ راستہ اختیار کریں.
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو.

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
87392

فلک نور کیس سے جڑی غلط فہمیاں – ممتاز گوہر

Posted on

فلک نور کیس سے جڑی غلط فہمیاں – ممتاز گوہر

falak noor gilgit baltistan

سب سے پہلے میں سلام پیش کرتا ہوں گلگت بلتستان کے چاروں مسالک کے ان تمام احباب کو جنھوں نے فلک نور کے کیس میں یہاں کے کچھ تنگ نظر لوگوں اور باقی دنیا کو بتا دیا کہ بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں. بچوں کے حقوق کی کسی بھی قسم کی خلاف ورزی ہو تو مسلک، ذات پات اور علاقائیت سے نکل کر آواز اٹھانا سب کی اولین ترجیح ہونی چاہئے.

 

گلگت بلتستان کے مسلکی طور پر زخم شدہ معاشرے میں فلک نور کیس جو کہ ایک اغواء و کم عمری میں شادی کی ایک قانونی اور بنیادی انسانی حقوق کی مضبوط کیس ہے. یہاں کے کچھ ناعاقبت اندیش اس کیس کو بھی کھینچ کر اسی زخموں سے چور مسلکی کھاتے میں ڈالنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں.

 

نادرا کے سرکاری دستاویزات کے مطابق فلک نور کی تاریخ پیدائش اٹھارہ جنوری 2012 ہے. اس حساب سے فلک نور کی عمر آج چھ اپریل 2024 کو بارہ سال دو مہینے اور انیس دن بن جاتے ہیں. اگر ہم کہیں کہ والد نے دو سال کم عمر لکھوالی ہے تو پھر بھی شادی کے لئے قانونی تقاضے پورے نہیں ہوتے. لڑکی کا قد اور جسامت سے اس کا عمر تعین نہیں کیا جا سکتا. چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ (سی ایم آر اے) 1929 کے تحت لڑکی کی شادی کے لیے کم از کم عمر کی حد 16 سال جبکہ لڑکے کی اٹھارہ سال مقرر ہے.

 

اب جو لوگ اس کم عمری کی شادی کے حق میں آواز اٹھا رہے ان سے سوال ہے کیا آپ اپنی بہن یا بیٹی کا اس عمر میں شادی کرائیں گے؟ وہ بھاگ جائے اسے قبول کرنا تو دور کی بات، اگر وہ اس عمر میں کسی کو پسند کرے اور شادی کی اجازت مانگے تو آپ شادی کرا دیں گے؟ اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو مانیں یا نہ مانیں فلک نور کیس میں آپ لوگ کھل کر منافقت کر رہے ہو.

 

معصوم بچیوں کو بہلا پھسلا کر کم عمری میں بھگایا جائے یا کم عمری میں شادی کی جائے یہ کسی بھی مذہب یا مسلک میں پسندیدہ عمل نہیں ہے. بہتر ہے کہ ایک خاندانی نظام کے تحت خوبصورت علاقائی و قانونی تقاضوں کے مطابق یہ رسم ادا کی جائے. بچوں کی تربیت (پیرنٹنگ) کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے اور اس فیلڈ میں بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے.

 

گگت بلتستان میں مختلف مسالک کے لوگوں کی آپس میں شادیاں ہوتی رہی ہیں. فلک نور کا کیس پہلا ہے نہ ہی آخری. ایک ذمہ دار ذرائع کے مطابق گلگت بلتستان میں ڈیڑھ ماہ میں اٹھارہ سال سے زائد عمر کی پانچ لڑکیوں نے بھاگ کر شادیاں کی ہیں. ان میں سے چار نے دیگر مسالک میں شادیاں کی ہیں. کسی نے اس پر کوئی آواز نہیں اٹھائی. کیوں کہ ملکی اور عالمی قوانین کے مطابق وہ ایسا کر سکتی ہے۔ وہ اپنے فیصلوں پر آزاد ہیں۔

 

فلک نور کے حق میں آواز اٹھانے والوں کو مسلک کے ساتھ جوڑنے والو اگر ایسا ہی ہوتا تو ایسے تمام واقعات میں فلک نور کی طرح آواز اٹھایا جاتا. لیکن ایسا نہیں ہے. بچوں کے حقوق کا عالمی معاہدہ (یو این سی آر سی) ہو یا ملکی قوانین کم عمری کی شادی غیر قانونی ہے. اور غیر قانونی اقدام کو مسلک کے کھاتے میں ڈال کر اسے جائز بنانے اور اس کے حق میں آواز اٹھانا بھی تعصب اور مسلکی انتہا پسندی ہے.

 

لڑکی بھاگ جائے، پسندی کی شادی کرے یا اغوا ہو جائے، ہر بار لڑکی کے کریکٹر اور اس کے خاندان پر ہی سوال اٹھائے جاتے ہیں. لیکن جو لڑکا یہ حرکت کرتا ہے وہ کریکٹر میں دودھ کا دھلا اور اس کے خاندان والے پارسا اور “کنفرم جنّتی” ڈکلیرڈ ہوئے ہیں. جتنی بات لڑکی اور اس کے والدین اور خاندان پر ہوتی ہے. اسی طرح سے بات لڑکے کی تربیت، والدین اور خاندان پر بھی ہونی چاہئے.

 

مجھے گلگت بلتستان کی گجر کمیونٹی سے خاص طورپر ہمددری ہے یہ ابتداء سے اب تک غربت اور مشکل حالات سے نبرد آزما ہیں. اگر اس کیس میں مبینہ طور پر کم عمری میں شادی کرنے والے فرید اگر اٹھارہ سال سے کم عمر ہے تو بچہ ہونے کے ناطے اس کا تحفظ اور سیکورٹی بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی فلک نور کی. اگر دستاویزات سے ثابت ہو کہ فرید اٹھارہ سال سے کم عمر ہے تو عالمی اور ملکی قوانین کے تحت دونوں بچے ہیں. ایسے میں فرید کی شادی ممکن ہے نہ ہی فلک نور کی.

 

فلک نور کے کیس میں سب سے بہترین کردار اس کے والد سخی احمد جان نے ادا کیا ہے. وہ اس وقت صرف اپنی بچی کا کیس نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے پانچ لاکھ کے قریب بچوں کا کیس لڑھ رہے ہیں. اگر سخی احمد جان یہ کیس جیت جاتے ہیں اور کم عمری کی شادی رکوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ صرف سخی احمد جان کی جیت نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے لاکھوں کم عمر بچوں کی جیت ہے.

 

سخی احمد جان جیسے لوگ گلگت بلتستان میں ہزاروں ہوں گے جو اس طرح کے واقعات میں اپنی کم عمر بچیوں کے کھیلنے کودنے اور پڑھنے کی عمر میں غیر قانونی طور پر شادیاں کر وا دی ہوں. یا ایسے واقعات میں قانون کا سہارا لینے کے بجائے مکمل خاموشی اختیار کی ہو. سلام ہو سخی احمد جان کو جو ایک مزدور اور کم پڑھا لکھا ہونے کے باوجود اپنی بیٹی کے لئے ہر قانونی اقدام اٹھانے کے لئے جدوجہد کر رہا ہے. سخی احمد جان دعا زہرہ کے والد کی طرح ایک ہیرو ہے. امید ہے وہ اس قانونی جنگ میں پیچھے نہیں ہٹے گا اور سرخرو ہوگا.

 

کچھ لوگ سوال اٹھا رہے تھے کہ فلک نور کے کیس میں اتنا شور اور واویلا کیوں مچایا جا رہا ہے جبکہ ایسے واقعات آئے روز ہوتے ہیں. اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ جو بھی باپ یا ماں اپنے بچوں سے ہونے والی زیادتی کے خلاف سخی احمد جان کی طرح اٹھ کھڑا ہوگا اس کا حسب استطاعت ساتھ دیا جائے گا. جو ایسے واقعات کے بعد دیت کے پیسے لیں، کورٹ کے باہر معاملات کو نمٹا لیں تو ایسے لوگوں کا سول سوسائٹی اور دیگر سٹیک ہولڈر کیسے ساتھ دیں گے.

 

فلک نور کے کیس کو سامنے رکھتے ہوئے گلگت بلتستان اسمبلی میں بھی کم عمری کی شادی روکنے کے حوالے سے سخت قانون سازی کرنی ہوگی. عوام کو کم عمری کی شادی کے نقصانات کے حوالے سے آگہی دینی ہوگی اور باقی زیادہ تر اسلامی ممالک کی طرح شادی کی عمر کو لڑکا اور لڑکی دونوں کے لئے کم از کم اٹھارہ سال مقرر کرنا ہوگا. گلگت بلتستان کے اکثر اضلاع میں کم عمری کی غیر قانونی شادی کو کھلے عام انجام دیا جاتا ہے. اس کے لئے متعلقہ اداروں کو متحرک اور قانون کی عمل داری کو یقینی بنانا ہوگا.

 

اس کیس میں گلگت بلتستان پولیس نے جس طرح کی بے حسی اور غیر پیشہ وارانہ کردار ادا کیا ہے وہ انتہائی مایوس کن ہے. تیرہ سال کی بچی کو ڈھائی ماہ تک ڈھونڈ نہ سکے. گلگت بلتستان کے حددود سے نکل کر ہزارہ جاتے ہیں وہاں آرام سے رہتے ہیں واپس خود ہی اسی راستے گلگت آ جاتے ہیں اور خود ہی عدالت پیشی کے لئے آ جاتے ہیں. اور پولیس کہتی کہ ہم نے ڈھونڈ لیا. اتنا عرصہ آپ نے کیا کیا. آپ کی ٹیمیں ناکام کیوں ہوئیں؟ راستے کی چیک پوسٹوں میں سہولت کار یا پولیس اہلکار تھے؟ یقیناً اسی سے جڑھے کئی سوال جواب طلب ہے. مگر گلگت بلتستان پولیس کے پاسس ناکامی اور سہولت کاری کے سوا کچھ نہیں. ساتھ ساتھ وزیر داخلہ، ترجمان اور دیگر حکومتی ذمہ دار بھی سہولت کاری کی یہ ذمہ داری بطریق احسن انجام دے رہے ہیں.

 

فلک نور کیس میں ہر مسلک اور ہر مذہب کا بندہ ایک ہی پیج پر ہے. جن کی صبح اور شام ہی مسلکی چورن کی خرید و فورخت سے ہو وہ تو ہر چیز کو اسی عینک سے ہی دیکھیں گے. یا پھر وہ لوگ مخالف ہیں جو اس کیس کے قانونی پہلوؤں سے لا علم ہیں. مجھے یاد ہے گلگت سکار کوئی کی معصوم زینب زیادتی کیس کے لئے بھی ایسے ہی آواز اٹھایا گیا تھا مگر اس کیس کو بھی انصاف فراہمی کے بجائے مسلکی کارندوں نے دبا دیا. لہذا یہ ایسے کیسز میں یہ مسلک مسلک کا کھیل زیادہ دیر نہیں چل سکتا. حق سچ، جھوٹ تعصب سب کھل کے سامنے آجاتے ہیں.

 

اگر کوئی اٹھارہ سال سے زائد عمر کی بچی کو پسند کی شادی پر غیرت کے نام پر قتل کرتا ہے اور فلک نور کے کیس میں مبینہ طور بھاگنے اور کم عمری میں شادی کی حمایت کرتا ہے تو وہ سب سے بڑا منافق ہے. قانون

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
87215

فلک نور ایشو : کیس اسٹڈی کی ضرورت – خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on

فلک نور ایشو : کیس اسٹڈی کی ضرورت – خاطرات :امیرجان حقانی

 

فلک نور نے کم عمری میں والدین اور فیملی کی اجازت کے بغیر، اپنی مرضی سے جاکر شادی کی. اور بار بار ویڈیو پیغامات اور عدالت کے سامنے بیان ریکارڈ کروایا. سب کچھ پرنٹ، ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا میں وائرل ہوچکا ہے. ایسا کرنا گلگت بلتستان کی سماجی و اخلاقی اور دینی روایات نہیں. ہمارا سماج کسی صورت اس کو پسند نہیں کرتا اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے. بہرحال یہ سب کچھ قابل مذمت و افسوس ہے. عدالت میں پیش ہونے کے بعد یہ کیس بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا.
یہ پہلا کیس بھی نہیں ہے. گھر، فیملی ، روایات اور علاقائی کلچر سے بغاوت کرکے شادی کرنے کے سینکڑوں رجسٹر کیسز ہیں. مخصوص علاقوں یا مذہب کیساتھ بھی اس کا تعلق نہیں ہے، تاہم کچھ علاقوں میں کیسز کی تعداد زیادہ ہے اور ان کا میڈیا انفلوئنز بھی زیادہ ہے. اس لیے ایسی کیسز ہائی لائٹ زیادہ ہوتی ہیں. کم عمری میں ایسا کرنے کی بھی درجنوں مثالیں موجود ہیں.

 

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اہم سماجی ایشو پر تحقیق کیا جائے.
کوئی مفکر، ریسرچر کوئی تحقیقی ادارہ یا یونیورسٹی اس کو بطور کیس اسٹڈی مطالعہ کے لئے چُنے اور کام شروع کرے. مذہبی تعلیمی ادارے اور این جی اوز بھی اس سمت میں تحقیق کرسکتی ہیں یا تحقیق میں ممد معاون بن سکتی ہیں.
ہمارے ہاں یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے سیاسی و مذہبی فسادات اور غیر ضروری امور میں پڑے ہوتے ہیں. اصل کرنے کے یہی کام ہیں جن سے درگذر کیا جاتا ہے. موجود فنڈ کو اللوں تللوں میں ضائع کیا جاتا ہے.

 

ریسرچر اور یونیورسٹیز کے لئے گلگت بلتستان جیسے روایتی سماج کی لڑکیوں کا بھاگ کر شادی کرنا، بالخصوص کم عمری میں ایسا کرنا بہت ہی اہم اور ہارٹ ٹاپک ہے.
اس اہم موضوع پر کیس اسٹڈی کا خاکہ تیار کرتے وقت درج ذیل اہم سوالات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے.

 

1.درست معلومات:
لڑکیوں کی اصل عمر اور ڈاکومنٹس کی عمر کیا ہے. تعلیمی سطح، خاندانی ماحول، اور معاشرتی حالات کیا اور کیسے ہیں.

2. بھاگ کر شادی کی وجوہات:
آخر وہ کونسی خاص وجوہات ہیں جن کی وجہ سےلڑکیاں بھاگ کر، بالخصوص کم عمری میں شادیاں کرنے پر مجبور ہوئی ہیں؟
کیا یہ والدین کی روش ہے؟
بہلانا پھسلانا ہے، نفسیاتی جذبات اور عشق و محبت کے چونچلے ہیں.
دھمکانا اور ڈرانا ہے.
سماجی رویوں سے بغاوت ہے.
لڑکیوں پر بے جا سختی یا بے جا آزادی ہے.
شوق یا فیشن ہے.
اپنے مذہب سے بغاوت ہے.
غربت یا کسمپرسی ہے.
شعور و تربیت کی کمی ہے.
جدید اور مخلوط تعلیم کا شاخسانہ ہے.

3. معاشرتی اثرات:

بھاگ کر شادی کے بعد معاشرتی اثرات کیا ہونگے؟ بالخصوص کم عمری میں بھاگ کر شادی سے مستقبل کے سماجی سٹرکچر پر کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے؟
فیملی پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟

4. قانونی مسائل و پیچیدگیاں :
بھاگ کر شادی اور کم عمری میں ایسا کرنے کی صورت میں قانونی مسائل کیا ہوں گے؟

5. صحت و تعلیم پر اثرات:
کم عمری میں شادی کرنے سے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر کیسا اثر ہوگا؟ اور صحت بالخصوص زچکی معاملات میں کیا برے اثرات مرتب ہونگے.

6. فوائد و نقصانات کا موازنہ:
بھاگ کر شادی کرنے اور بالخصوص کم عمری میں ایسا کرنے کے فوائد اور نقصانات کا تفصیلی موازنہ کیا جا سکتا ہے، مثلاً خاندانی تشہیر، قتل و غارت، مستقل دشمنیاں، اسی انداز میں بدلہ لے کر ایک اور ٹریجڈی کو جنم دینا، اخلاقی اصول، اور معاشی حالات وغیرہ

اس کیس اسٹڈی میں ان جیسے دیگر اہم سوالات کے جوابات شامل کیے جا سکتے ہیں تاکہ مختلف جہات کو مد نظر رکھ کر اس اہم موضوع پر غیر جانبدار ہوکر، مکمل تجزیہ و تحقیق کیا جا سکے۔ اور بہترین سفارشات مرتب کرکے سماج، اداروں بالخصوص میڈیا انفلوئنسرز اور سرکاری عمال کو بھی ایسے ایشوز پر تعصبات سے پاک ہوکر ہینڈل کرنے کا راستہ دکھایا جاسکتا ہے.

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
87198

گوہرآباد کا نرالا پن و انفرادیت – خاطرات :امیرجان حقانی گلگت

Posted on

گوہرآباد کا نرالا پن و انفرادیت – خاطرات :امیرجان حقانی گلگت

آج پڑی بنگلہ میں راقم کے گھر گوہرآباد گیس سے تعلق رکھنے والے پڑی بنگلہ تھانہ کے تھانیدار  میراجان صاحب اور پڑی کے کچھ علماء و احباب افطاری کے لیے مدعو تھے.
گھنٹہ بھر نشست رہی. مرکزی موضوع گوہرآباد اور اسکی سماجی صورت حال ہی رہا. اس میں دو رائے نہیں کہ گوہرآباد پورے جی بی میں چند خصوصیات میں سب پر بھاری اور سب پر فائز اور انفرادی پہچان رکھتا ہے.
سماجی رواداری، اخوت،ہم آہنگی اور درد و بُنت کے اعتبار سے اب بھی گوہرآباد واقعی مثالی پوزیشن میں ہے.
سیاسی ابتری، رنگارنگی، نیرنگی اور اتھل پھتل کے باجود گوہرآباد کا سماجی سٹرکچر اور انت بُنت واقعی آئیڈیل صورت حال میں ہے. بہت سی کمزوریاں دُر آئی ہیں مگر بہرحال صورت حال قابل اطمینان ہے.
مثلاً
گوہرآباد میں کرائم کا ریٹ زیرو ہے.اگر کوئی پولیس کیس ہو تو پولیس اطلاع بھیجتی کہ فلاں بندہ تھانہ آجائے اور وہ پہنچ جاتا ہے . چھاپے مارنے کی ضرورت نہیں پڑتی.
شرح خواندگی بہت بہتر ہے.
اعلی آفیسران کی بہتات ہے.
چوری چکاری نہ ہونے کے برابر ہے.
بدیسی لوگ کوئی نہیں.
باہر کے لوگوں کو زمین کوئی نہیں بیچتا.
باہر کے لوگ گوہرآباد میں رہ بھی نہیں سکتے.
علاقہ انتہائی پُرامن ہے.
غریب پر کوئی ظلم نہیں کرتا. اگر کوئی کرے تو سب مل کر اس کا جینا حرام کر دیتے ہیں.
لڑائی جھگڑے کی صورت میں کم لوگ تھانہ تک جاتے ہیں، ورنا وہی گاؤں میں جرگہ داران، ویلیج امن کمیٹی اور دیگر معتبرین معاملہ رفع دفع کرتے ہیں.
اب تک گوہرآباد کے مرکز یا کسی بڑے گاؤں میں تھانہ یا پولیس چوکی نہیں. اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے. دور تھلیچی میں تھانہ ہے.
گوہرآبادی ایک دفعہ دوستی کا ہاتھ ملائے تو کسی صورت دھوکہ نہیں کرتے.مفادات کی حد تک دوستی نہیں کرتے.
خواتین انتہائی محنت کش ہیں. بڑے شہروں میں اعلی آفیسران کی پڑھی لکھی بیویاں، بہوئیں اور بیٹیاں بھی اپنے صحن میں اعلی قسم کی سبزیاں اور کیاریاں اگاتی ہیں. اور اکثر کے پاس گائے بھی ہوگی. گاؤں میں تو یہ عام باتیں ہیں.
خواتین شاپنگ اور مختلف ڈیمانڈز کے ذریعے شوہر کو کنگال نہیں کرتی.
گوہرآباد میں خواتین کا حد درجہ احترام ہے. خواتین پورے گوہرآباد میں بے دھڑک کہیں بھی جاتی ہیں. کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا، نہ ہی جمگھٹے بناکر کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے کا رواج ہے.
گوہرآباد میں کھبی یہ مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوتا کہ گھر میں کوئی مرد نہیں ہے تو بچوں اور خواتین کو کوئی مسئلہ ہے یا ڈر لگ رہا ہے. یا کوئی خطرہ ہے.
اگر گھر کا مرد بغرض تبلیغ، کام یا نوکری علاقے سے باہر ہے تو خواتین کو کھیتوں میں ہل چلانے، کھیتوں کو پانی دینے، کھیت کھلیان کے دیگر کاموں میں کھبی دقت نہیں ہوتی. ہمسایہ اور دیگر رشتہ دار یا اہل علاقہ خوش اسلوبی سے یہ کام انجام دیتے  رہتے ہیں. کوئی معاوضہ لینے کا سوال ہی نہیں.
 خواتین جتنی محنت کش ہیں مرد اتنے ہی لاپرو بھی ہیں. سچ کہوں تو گوہرآباد میں خواتین کی وجہ گھروں کی رونق اور رزق میں برکتیں ہیں ورنا عورتوں کے مقابلے میں، مرد فضول خرچ بھی ہیں اور لاپروا بھی.
غیرت کے نام پر عشروں میں کوئی قتل ہوتا ہوگا. ورنا اس جرم کا فیصد بھی زیرو ہی ہے.
اکثر لوگ بہنوں کو وراثت میں حصہ دیتے ہیں. کم یا زیادہ، کسی نہ کسی شکل میں بہر حال دیا جاتا ہے.
گوہرآباد میں اگر آپس میں ناراضگی ہو تو شادی بیاہ یا فوتگی کے دنوں میں ایک دوسرے کے پاس پہلی فرصت میں پہنچ کر ختم کر دیا جاتا. پھر سب شیر و شکر.
لوگ رمضان میں اپنا تھلتاپو گھی میں بگھو کر مسجد پہنچتے ہیں. وہ سب مل کر افطاری کرتے، مسافروں کے بھی وارے نیارے ہوتے. اگر کوئی مرد مسجد نہ بھی جائے تو تھلتاپو ( دیسی گھی میں بگھوئی ہوئی گرم روٹی) بچوں کے ذریعے خواتین مسجد پہنچا دیتی ہیں.
مساجد میں لکڑی خریدی نہیں جاتی بلکہ خواتین گھروں سے بچوں اور مردوں کیساتھ بھجوا دیتی ہیں.
تبلیغی جوڑ ہو تو خواتین ہر قسم کے کھانے حسب استطاعت پکا کر مساجد پہنچاتی ہیں.
گوہرآباد میں بڑے بڑے گھر بنانے کا رواج نہیں. معمولی سے گھروں میں جوائنٹ فیملیز اتفاق سے رہتی ہیں.
ایک ہی جگہ (کوٹ) تمام قبائل کے لوگ صدیوں سے رہتے ہیں. گھر اور مکان کی دیوار لگی ہوتی ہے. اب کچھ کچھ الگ جگہوں میں مکانات بننے لگے ہیں.
زمینیں آج بھی سب قبائل کی ساتھ ساتھ ہیں. کھیتی باڑی اور کھیلیان وغیرہ میں کوئی ایشو پیدا نہیں ہوتا. نہ پانی دینے میں. البتہ پانی کی قلت ہو تو بھائی بھائی سے بھی الجھتا ہے مگر کھیتی باڑی کے کاموں میں قبائلی و سماجی مسائل پیدا نہیں ہوتے. چھوٹے موٹے معاملات ہوں بھی تو فوراً صلح کروا دی جاتی ہے.
کسی بھی قیمت پر اولاد کو تعلیم دلائی جاتی ہے. اب تو لڑکیوں کی تعلیم پر بھی انتہائی زور دیا جاتا ہے.
گوہرآباد میں بظاہر قبائلی تعصب زیرو فیصد ہے. سیاسی تعصبات کی بات البتہ الگ ہے. وہ تعصبات موسمی کھمبیوں کی طرح ہوتے ہیں جو جلد مرجھا جاتے ہیں. صرف الیکشن کے دنوں میں.
شادی بیاہ اور فوتگی کے دنوں میں دیگر قبیلوں کے لوگ سب سے زیادہ پہنچ جاتے ہیں. قبائل کا آپس میں شادی بیاہ اور رشتہ داریاں بھی معمول کی  بات ہے.
بنجر آراضی کی تقسیم و  حفاظت، جنگلات کی تقسیم و حفاظت، چلغوزوں اور تعمیراتی لکڑ کی کٹائی وغیرہ میں مثالی اتفاق و اتحاد پایا جاتا ہے. زوتی سسٹم/ ویلیج کمیٹی سسٹم صدیوں سےبہت مضبوط ہے. کچھ سالوں سے ڈسٹرب بھی ہے. جلد صحیح ہوجائے گا.
اجتماعی شادی بیاہ مختلف شکلوں میں اب بھی موجود ہے. جو بہت سے مشکلات کو روکا ہوا ہے. پہلے تو اس کا اسٹرانگ سسٹم تھا.
بہر حال افطاری کا پورا وقت یہی موضوع چلتا رہا. پڑی کے احباب کو حیرت ہورہی تھی .
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
87100

گلگت بلتستان کے لوگوں کی ترقی، انہیں صحت اور تعلیم کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے، تینوں ڈویژنز میں دانش سکول تعمیر  کرینگے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف

گلگت بلتستان کے لوگوں کی ترقی، انہیں صحت اور تعلیم کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے، تینوں ڈویژنز میں دانش سکول تعمیر  کرینگے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف

اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ) وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کی ترقی، انہیں صحت اور تعلیم کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق منگل کو وزیراعظم محمد شہبازشریف وزیرِ اعلی گلگت بلتستان گلبر خان نے ملاقات کی۔اس موقع پر وزیرِ قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ، وزیرِ اقتصادی امور احد خان چیمہ اور متعلقہ اعلی حکام بھی موجود تھے۔ اجلاس میں گلگت بلتستان میں تعلیم، صحت اور سیاحت کے شعبے کی ترقی کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی، اجلاس کو گلگت بلتستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے عطاآباد اور ہارپو میں پن بجلی کے دو منصوبوں پر جاری کام کی پیش رفت کے بارے آگاہ کیا گیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ ان منصوبوں کی تکمیل سے گلگت بلتستان میں بجلی کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنائی جا سکے گی۔

 

وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ نلتر ایکپریس وے کی تعمیر کا کام مکمل ہو گیا ہے جو علاقے کی ترقی اور خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ وزیرِ اعظم نے گلگت بلتستان میں سیاحت کی ترقی اور شمشی توانائی کے منصوبوں کے حوالے سے لائحہ عمل مرتب کرکے پیش کرنے کی ہدایت کی۔ وزیرِ اعظم نے گلگت بلتستان کو درپیش مسائل کے حل کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے ہدایت کی کہ کمیٹی گلگت بلتستان کو درپیش تمام مسائل پر مشاورت کے بعد اپنی سفارشات پیش کرے، گلگت بلتستان کے لوگوں کی ترقی، انہیں صحت اور تعلیم کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔وزیراعظم نے کہاکہ گلگت بلتستان میں غریب و نادار گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں اور بچیوں کیلئے دانش سکول قائم کر رہے ہیں۔ دانش سکول بچوں کو بین الاقوامی معیار کی اعلی تعلیم کے ساتھ ساتھ رہائش کی سہولت بھی فراہم کریں گے۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ گلگت بلتستان میں سیاحت کی وسیع استعداد سے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے سفارشات مرتب کرکے پیش کی جائیں اور گلگت بلتستان کے تینوں ڈویڑنز میں دانش سکول تعمیر کئے جائیں۔ وزیر اعظم نے گلگت بلتستان میں عطاآباد اور ہارپو پن بجلی منصوبے کی تکمیل پر کام کہ رفتار کو تیز کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان میں شمشی توانائی کے منصوبوں کے حوالے سے لائحہ عمل مرتب کرکے پیش کیا جائے۔

 

 

وزیراعظم کی گلگت بلتستان کے تینوں ڈویژنز میں دانش سکول تعمیر کرنے کی ہدایت

اسلام آباد(سی ایم لنکس) وزیراعظم شہباز شریف نے گلگت بلتستان کے تینوں ڈویڑنز میں دانش سکول تعمیر کرنے کی ہدایت کر دی۔وزیراعظم سے وزیرِ اعلیٰ گلگت بلتستان گلبر خان نے ملاقات کی، ملاقات میں وزیرِ قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ، وزیرِ اقتصادی امور احد خان چیمہ اور متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔اس موقع پر شہباز شریف نے گلگت بلتستان کو درپیش مسائل کے حل کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دے دی اور کہا کہ کمیٹی گلگت بلتستان کو درپیش تمام مسائل پر مشاورت کے بعد اپنی سفارشات پیش کرے۔ملاقات کے دوران وزیرِ اعظم نے گلگت بلتستان کے تینوں ڈویڑنز میں دانش سکول تعمیر کرنے کی بھی ہدایت کی۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں غریب و نادار گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں اور بچیوں کیلئے دانش سکول قائم کر رہے ہیں جہاں بین الاقوامی معیار کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ رہائش کی سہولت بھی فراہم کریں گے۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کی ترقی، انہیں صحت اور تعلیم کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔شہباز شریف نے ہدایت کی کہ گلگت بلتستان میں سیاحت کی وسیع استعداد سے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے سفارشات مرتب کر کے پیش کی جائیں، گلگت بلتستان میں عطاء آباد اور ہارپو پن بجلی منصوبے کی تکمیل پر کام کی رفتار کو تیز کیا جائے۔اس موقع پر وزیراعظم نے شمسی توانائی کے منصوبوں کے حوالے سے لائحہ عمل مرتب کر کے پیش کرنے کی بھی ہدایت کی۔

chitraltimes cm gb meeting with pm shehbaz 2

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستان
87085

زیر تعمیر چترال شندور روڈ کے تمام بقایاجات متعلقہ ٹھِیکہ دار کو ریلیز کردئے گئے ، عید کے فورا بعد تعمیراتی کام دوبارہ شروع ہوگا

Posted on

زیر تعمیر چترال شندور روڈ کے تمام بقایاجات متعلقہ ٹھِیکہ دار کو ریلیز کردئے گئے ، عید کے فورا بعد تعمیراتی کام دوبارہ شروع ہوگا

اسلام آباد ( چترال ٹائمز رپورٹ ) آج این ایچ اے کے ایگزیکٹو بورڈ نے لواری ٹنل الیکٹریکل ورک اورٹنل اپروچ روڈ کے PC-1 کی منظوری دی جس کی کل لاگت 40 ارب ہے۔ اسے جلد ہی CDWP کے میٹنگ میں پیش کیا جائیگا۔ زرائع کے مطابق این ایچ اے حکام نے چترال بونی مستوج شندور روڈ کے تمام بقایا جات بھی متعلقہ ٹھیکہ دار کو ریلیز کردی ہے، اس بات کی تصدیق فرزند چترال جوائنٹ سیکریٹری کمیونکیشن منسٹری بشارت احمد نے کی ہے، این ایچ اے زرائع کے مطابق چترال شندور روڈ پر عید کے فورا بعد دوبارہ زوروشور سے کام شروع کیا جائیگا، اس خبر پر چترال کے مختلف مکاتب فکر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ،

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستان
86963

جی بی کالجز کے اساتذہ کی پروموشن، پروفیسروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی.

Posted on

جی بی کالجز کے اساتذہ کی پروموشن، پروفیسروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی

 

گلگت (امیرجان حقانی سے) گلگت بلتستان ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے زیر انتظام گلگت بلتستان کی مختلف کالجز کے چھتیس اساتذہ کرام کو اگلے گریڈ میں ترقی دی گئی. ڈاکٹر عظمیٰ سلیم کو گریڈ بیس پروفیسر، عبدالکریم، محمود بیگ، راحت شاہ کو گریڈ انیس ایسوسی ایٹ پروفیسر، عظمیٰ شہناز کو ٹایم سکیل گریڈ 20، ادیبہ بانو اور صباحت میر کو ٹایم سکیل گریڈ 19،جبکہ 17 میل لیکچرز کو گریڈ سترہ سے اٹھارہ بطور اسسٹنٹ پروفیسر اور تیرہ فی میل لیکچرز کو گریڈ 17 سے 18 بطور اسسٹنٹ پروفیسر ترقی دی گئی. پروفیسروں کی نمائندہ تنظیم، گلگت بلتستان لیکچررز اینڈ پروفیسرز ایسوسی ایشن(GB PLA) کے صدر پروفیسر فضل کریم اور اس کی کابینہ صوبائی حکومت بالخصوص چیف سیکرٹری ابرار احمد مرزا، سیکریٹری سروسز راجہ رشید علی، سیکریٹری ہائر ایجوکیشن ولی خان اور ڈائریکٹر کالجز جمعہ گل اور جملہ معاونین اور عملے کا شکریہ ادا کرتی ہے. پروفیسر ایسوسی ایشن نے ایک طویل عرصہ بعد ترقی پانے والے کالجز کے معلمین و معلمات کو مبارک باد پیش کی اور مزید اس عزم کا اظہار کیا کہ ایسوسی ایشن کالجز کی فیکلٹی کے ایشوز کو احسن انداز میں ایڈرس کرے گی اور ارباب اختیار تک تمام مسائل پہنچائے گی. اور صوبائی حکومت سے توقع کا اظہار کیا کہ موجودہ فور ٹائر فارمولہ کا نفاذ اور نیا خیبر پختونخوا طرز کے فارمولے کو بہت جلد منظور کر کہ 24 سالوں سے منتظر کالجز کے معلمین و معلمات کو ریلیف دینے کا موقع فراہم کرے گی اور کالج اساتذہ کے دیرینہ مطالبہ پوری کرے گی۔ یاد رہے کہ گلگت بلتستان کالجز کے اساتذہ گریڈ 17 میں بھرتی ہوتے ہیں اور 20، 22 سال بعد اگلے گریڈ 18 میں ترقی ملتی ہے جو انتہائی غیر منصفانہ ہے.

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان
86829

نوادرات رمضان ( بیٹیاں) – خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on

نوادرات رمضان ( بیٹیاں) – خاطرات :امیرجان حقانی

 

قاری نوشاد عالم میرے کزن ہیں اور بہنوئی بھی. ان کے ہاں 14 مارچ بروز جمعرات 3 رمضان المبارک کو بیٹا پیدا ہوا. اس کا نام محمد عامر رکھا گیا ہے.

17 مارچ بروز اتوار 6 رمضان المبارک کو اللہ تعالٰی نے راقم کو بیٹی عطا فرمائی. بیٹی کا نام اس کے بھائی عمر علی حقانی نے لبابہ حقانی رکھا ہے. میری دو بیٹیاں پہلے سے ہیں. وہ دونوں بھی رمضان المبارک میں پیدا ہوئی ہیں. سچ یہ ہے کہ مجھ پر بیٹیوں کی شکل میں رمضان میں رحمتیں نازل ہوتی ہیں. یہی نوادرات رمضان ہیں.

اب زندگی کا مشن یہی ہے کہ ان بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کا خوب انتظام کروں اور جنت کا حقدار ٹھہروں.

میرے حبیب صل اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد کیا ہے:
مَنْ کُنَّ لَه ثَلَاثُ بَنَاتٍ اَوْ ثَلَاثُ أخَوَاتٍ، أوْ بِنْتَانِ، أو أخْتَانِِ اِتَّقَی اللّٰہَ فِیْھِنَّ، وَاَحْسَنَ اِلَیْھِنَّ حَتّٰی یُبِنَّ أوْ یَمُتْنَ کُنَّ لَه حِجَابًا مِنَ النَّارِ
(مسند أحمد: 9043 بسند صحیح )

جس کی تین بیٹیاں،یا تین بہنیں،یا دو بیٹیاں،یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور ان کے ساتھ احسان کرے، یہاں تک کہ وہ اس سے جدا ہو جائیں یا فوت ہو جائیں تو وہ اس کے لیے جہنم سے پردہ ہوں گی۔

 

ایک اور حدیث میں ارشاد ہے.

اللہ کے رسول صل اللہ علیہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : “جس شخص نے اپنی دو بیٹیوں کی پرورش اچھے طریقے سے کی یہاں تک کہ ان کو بالغ کر دیا تو میں اور وہ قیامت کے دن اس طرح کھڑے ھونگے ، آپ ؑ نے اپنی شہادت اور درمیان والی انگلی ملا کر دکھائی”۔ ( مسلم شریف )

میری پہلی بیٹی وجیہہ حقانی پیدا ہوئی تو یہی جذبات تھے. دوسری بیٹی علینہ حقانی پیدا ہوئی تب بھی یہی جذبات تھے. تیسری بیٹی لبابہ حقانی کی پیدائش پر بھی یہی جذبات ہیں.
اگر اللہ مجھے درجنوں بیٹیاں دیں تو بھی میرے یہی جذبات ہونگے. ان شا اللہ

 

میں آپ سے صرف یہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ
بیٹی اللہ کی رحمت ہے اور جہنم کی آگ سے نجات ہے.

آئیے! اپنے آپ سے وعدہ کیجئے لڑکی کی پیدائش پر کبھی غم اور افسوس کا اظہار نہیں کریں گے بلکہ اس کے پورے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ محبت اور شفقت کا برتاؤ کریں گے۔ اور رسول اللہ کی طرح بہترین تربیت کریں گے.

 

آج ہمیں اپنی بے ہودہ سوچ بدلنی ہوگی۔ تبھی ہم اپنے سماج میں بہترین تبدیلی لا سکتے ہیں اور بیٹیوں کے متعلق پائے جانے والی اوہام کا خاتمہ کرسکتے ہیں.
بیٹیاں خدا کی رحمت ہوتی ہیں ہے اور والدین کی عزت اور بھرم بھی. خصوصاً باپ کے لئے محبت و دعا کا سبب بھی.

 

اس پیغام کو سمجھانے کی، پہنچانے کی اور منوانے کی کوشش کرنی چاہیے.
تبھی صحیح معنوں میں بیٹیوں کو ان کا مقام ملے گا. اگر یہ بیٹیاں نہ ہوں تو اس کائنات کا رنگ و بو ہی بے کار. سچ یہ ہے کہ ان بیٹیوں کے دم سے ہے کائنات میں رنگ. انہیں کی مرہون منت خوشیاں ہیں. لطافتیں ہیں اور ابدی دنیا میں کامرانی ہی کامرانی.

اللہ سے دعا ہے کہ بھانجا اور بیٹی دونوں سلامت رہیں اور والدین کے لیے آنکھوں کا نور بنیں. آمین

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
86756

وادی لوٹکوہ اور تحصیل مستوج میں نوروز” پتھاک دیک” کی تہوارمنائی گئی

Posted on

وادی لوٹکوہ اور تحصیل مستوج میں نوروز” پتھاک دیک” کی تہوارمنائی گئی

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) آج ۲۱ مارچ کو اپر اور لویر چترال کے مختلف وادیوں میں نوروز یا پتھاک دیک کی تہوارمنائی جارہی ہے۔ اس موقع پر مختلف رنگارنگاتقریبات منعقد ہوئے جبکہ اس دن کے لئے گھروں کی خصوصی صفائی کرنے کے ساتھ نئے کپڑے بھی زیب تن کئے جاتے ہیں۔ گھروں میں خصوصی طعام کی تیاری اور رشتہ داروں کے گھروں کی وزٹ کرنا بھی اس کی رسومات میں شامل ہیں۔ یہ تہوار لوٹ کوہ اور اپر چترال کے بیار میں منائی جاتی ہے۔

 

چترال شہر میں ہلکی بارش جبکہ اپر چترال کے بالائی علاقوں میں برفباری کا سلسلہ دوبارہ شروع

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) اپر چترال کے بالائی علاقوں میں برفباری کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔ تریچ، کھوت، ریچ، مڑپ اور بروغل سے برفباری کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ لویر چترال میں ہلکی بارش کا سلسلہ جاری ہے جبکہ محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کے مطابق بارش اور برفباری کا یہ سلسلہ ہفتے کے دن تک جاری رہے گا۔ لواری ٹنل کا اپروچ روڈ اس وقت ہر قسم کی ٹریفک کے لئے کھلا ہوا ہے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستان
86596

سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے زیراہتمام جانوروں کی صحت اور پیداوار کے حوالے سے چترال ، گلگت بلتستان اور کشمیر کےکمیونٹی ممبران  کے لئے سرٹیفکیٹ کورس کا انعقاد کیا گیا

سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے زیراہتمام جانوروں کی صحت اور پیداوار کے حوالے سے چترال ، گلگت بلتستان اور کشمیر کےکمیونٹی ممبران  کے لئے سرٹیفکیٹ کورس کا انعقاد کیا گیا

اسلام آباد (چترال ٹائمزرپورٹ ) سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن نے پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل اینیمل سائنسز ڈویژن کے تعاون سے گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر اور چترال کے تیس (٣٠) مقامی افراد کو جدید سائنسی بنیادوں پر تربیت فراہم کی. چودہ روزہ رہائشی تربیتی پروگرام میں جانوروں کی صحت اور پیداوار کے حوالے سرٹیفکیٹ کورس کا انعقاد کیا گیا جس میں برفانی چیتے کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے دور دراز علاقوں سے کمیونٹی ممبران شریک ہوئے۔

ورکشاپ کا مقصد دیہی معیشت میں لائیو سٹاک کے اہم کردار پر توجہ دینا تھا جس میں زراعت میں ترقی کے لئے جدید سانسی طریقوں کا استعمال، مال مویشی کا بہتر دیکھ بھال، ویکسینیشن اور ملکی اور مقامی سطح پر برامدات کو بڑھانے کے طریقے سکھائے گئے۔ لائیو سٹاک کے ماہرین نے شرکاء کی استعداد کار کو بڑھاتے ہوئے کمیونٹی لائیوسٹاک ویکسینیٹر کے طور پر بھی تیار کیا جس کا مقصد مویشیوں کی اموات کو کم کرنا، سماجی اقتصادی حالات کو بہتر بنانا اور جنگلی حیات کی نسلوں میں بیماریوں کی منتقلی کو روکنا ہے۔

مہمان خصوصی ثمر حسین خان کنزرویٹر وائلڈ لائف وزارت موسمیاتی تبدیلی نے اپنے خطاب میں اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ کمیونٹی لائیوسٹاک ویکسینیٹر کے طور پر کمیونٹی ممبران کو تربیت دینا قابل ستائش کام ہے جس سے ملک کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں رہنے والے مقامی افراد کو مال مویشیوں کی اموات کو روکنے کے ساتھ ساتھ اس سے وہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں بری حد تک بہتری آئے گی۔

ڈاکٹر جعفر الدین ڈپٹی ڈائریکٹر ایس ایل ایف نے شرکاء اور مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے پائیدار معاشی اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے برفانی چیتے کے تحفظ کے علاقوں میں مقامی کمیونٹیز کو بااختیار بنانے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ایس ایل ایف گزشتہ سولہ سالوں سے گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر اور چترال کے پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی مختلف خدمات فراہم کرنے میں سرگرم عمل ہے. انھوں نے ان علاقوں کے لوگوں کو بھی سراہا جو ہمیشہ جنگل اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے مکمل تعاون کر رہے ہیں.
chitraltimes snowleopard certification course on livestock for gb chitral and kashmir 2

ڈاکٹر سید محمود ناصر سینئر ماہر ماحولیات و بشریات اور سابق انسپکٹر جنرل آف فارسٹ نے دیہی ترقی اور ماحولیاتی نظام کے استحکام میں مویشیوں کی صحت اور پیداوار کے اہم کردار کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ملکی ترقی کے لئے جدید بنیادوں پر لائیو سٹاک کی پیداوار کو بڑھانا ہوگا۔ انھوں نے کامیابی سے ٹریننگ حاصل کرنے والے شرکاء کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ اب آپ کے کاندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جو کچھ آپ نے اس ٹریننگ میں سیکھا ہے اسے آپ اپنے علاقے تک منتقل کریں اور وہاں ضرورت مند مقامی افراد کی مدد کریں۔

 

ڈاکٹر محمد شفیق نے مویشیوں کو بیماریوں سے دور رکھنے اور صحت مند کمیونٹیز اور ماحولیاتی نظام کے لیے بہترین طریقوں کو فروغ دینے کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ ڈاکٹر شفیق جو اس پروگرام کے کوآردنیٹر بھی تھے انھوں نے تمام شرکاء کے تعاون اور جذبے کو سراہا۔

 

اعلیٰ ترین قومی معیارات پر منعقد ہونے والی اس اہم سرٹیفکیٹ کورس میں تمام فیلڈز کا احاطہ کیا گیا جس میں مویشیوں میں بیماریوں کا روک تھام، ویکسین اور ادویات کا استعمال، بہتر دیکھ بھال، چھوٹے پیمانے کے آپریشن، بہتر افزائش نسل، مویشیوں کا خوراک، مرغ بانی، خرگوش فارمنگ، دیکھ بھال کے جدید طریقے اور مویشیوں میں ویلیو ایڈیشن جیسے موضوعات پر تربیت فراہم کی گئی۔

 

ایس ایل ایف جنگلی حیات کے تحفظ اور کمیونٹی کو بااختیار بنانے کے اپنے مشن پر کاربند ہے. موجودہ سرٹیفکیٹ کورس ان اینیمل ہیلتھ اینڈ پروڈکشن جیسے اقدامات ان مقاصد کے حصول میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ شرکاء میں اسناد تقسیم کی گئیں جبکہ مہمانوں اور ٹرینرز کو شیلڈز پیش کی گئیں۔

chitraltimes snowleopard certification course on livestock for gb chitral and kashmir 1

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستان
86072

مغربی ہواؤں کی ملک میں انٹری سے بارش اور برفباری کا امکان،تمام متعلقہ اداروں کو الرٹ رہنے کی ہدایت 

Posted on

مغربی ہواؤں کی ملک میں انٹری سے بارش اور برفباری کا امکان، تمام متعلقہ اداروں کو الرٹ رہنے کی ہدایت

اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ )محکمہ موسمیات نے آئندہ تین روز میں ملک کے مختلف علاقوں میں بارشوں اور برفباری کی پیشگوئی کردی، 29فروری سے سے مغربی ہواؤں کا سلسلہ ملک میں داخل ہو گا۔محکمہ موسمیات کے مطابق مغربی لہر بلوچستان کے مغربی علاقوں کو متاثر کر رہی ہے اور اگلے 36 گھنٹوں تک برقرار رہنے کا امکان ہے، ایک اورطاقتور مغربی لہر کل مغربی بلوچستان میں داخل ہونے کا امکان ہے،جو یکم مارچ کو بالائی اور وسطی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور 3 مارچ تک برقرار رہ سکتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یکم مارچ کو ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم سرد اور خشک جبکہ شمالی علاقوں میں شدید سرد رہے گا، تاہم شمالی اور جنوب مغربی بلوچستان، گلگت بلتستان میں مطلع جزوی ابر آلود رہنے کے علاوہ چند مقامات پر تیز ہواؤں گرج چمک کے ساتھ ہلکی بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان ہے۔موسم کا احوال بتانے والوں کا کہنا ہے کہ2مارچ کو بلوچستان، جنوبی پنجاب،خیبرپختونخوا،بالائی سندھ، گلگت بلتستان اور کشمیرمیں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان ہے،ملک کے دیگر علاقوں میں موسم سرد اور خشک جبکہ شمالی علاقوں میں شدید سرد رہے گا۔

محکمہ موسمیات کے پریس ریلیز کے مطابق 29فروری سے 02 مارچ کے دوران ملک کے بیشتر علاقوں میں آندھی/جھکڑ چلنےاورگرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارش/ شدید برفباری/چند مقامات پر ژالہ باری کی پیش گوئی شدید بارش کے باعث طغیانی / شدید برفباری سے متاثرہ علاقوں میں روز مرہ کے معاملات متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطا بق طاقتورمغربی ہواؤں کا سلسلہ29فروری سے ملک کے مغربی علاقوں میں داخل ہوگا اور 01 مارچ کو ملک کے بیشتر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے گا جو کہ02 مارچ تک موجود رہےگا۔ جس کے باعث :

بلوچستان: 29فروری اور01 مارچ کے دوران نوکنڈی، دالبندین، چاغی، قلات، خضدار، لسبیلہ، آواران، تربت، کیچ، گوادر، جیوانی، پسنی، اورماڑہ، پنجگور، خاران، نوشکی، واشک، مستونگ، سبی، نصیر آباد، ژوب، شیرانی، بارکھان، موسیٰ خیل، کوہلو، جھل مگسی، لورالائی، زیارت، کوئٹہ، چمن، پشین، قلعہ عبداللہ اور قلعہ سیف اللہ میں اکثر مقامات پر آندھی /جھکڑچلنےاور گرج چمک کے ساتھ موسلا دھار بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان۔ اس دوران چند مقامات پرژالہ باری کی بھی توقع ہے

خیبر پختونخوا: 29فروری سے03 مارچ کے دوران چترال، دیر، سوات، ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہری پور، کوہستان، شانگلہ، بونیر، باجوڑ، کرک، خیبر، پشاور، چارسدہ، نوشہرہ، صوابی، مردان، کرم، وزیرستان، کوہاٹ، لکی مروت، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں اکثر مقامات پر آندھی /جھکڑچلنےاور گرج چمک کے ساتھ موسلا دھار بارش اور پہاڑوں پر شدید برفباری کا امکان۔ اس دوران چند مقامات پرژالہ باری کی بھی توقع ہے۔

گلگت بلتستان/کشمیر: 29فروری سے03 مارچ کے دوران گلگت بلتستان (دیامیر، استور، غذر، اسکردو، ہنزہ، گلگت، گا نچھے، شگر)، کشمیر (وادی نیلم، مظفر آباد،راولاکوٹ، پونچھ، ہٹیاں،باغ،حویلی،سدھنوتی، کوٹلی،بھمبر،میر پور) میں اکثر مقامات پر تیز ہواؤں/آندھی اور گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارش اورشدید برفباری کا امکان۔ اس دوران چند مقامات پرژالہ باری کی بھی توقع ہے۔

پنجاب/اسلام آباد: 01مارچ اور02 مارچ کو مری، گلیات، اسلام آباد/راولپنڈی، اٹک، چکوال، جہلم، منڈی بہاؤالدین، گجرات، گوجرانوالہ، حافظ آباد، سیالکوٹ، نارووال، لاہور، قصور، اوکاڑہ، فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، خوشاب، سرگودھا، میانوالی اور بھکر میں اکثر مقامات پر آندھی /جھکڑچلنےاور گرج چمک کے ساتھ موسلا دھار بارش کا امکان۔جبکہ مری،گلیات اورملحقہ علاقوں میں شدید برفباری بھی متوقع۔ 29فروری سے02 مارچ کے دوران ملتان، کوٹ ادو، لیہ، راجن پور، ڈیرہ غازی خان، رحیم یار خان، صادق آباد، خان پور، ساہیوال، بہاولپور اور بہاولنگرمیں آندھی /جھکڑچلنےاور گرج چمک کے ساتھ بارش متوقع۔ اس دوران چند مقا مات پر ژالہ باری کی بھی توقع ہے۔

سندھ: 29 فروری اور01 مارچ کو سکھر، جیکب آباد، کشمور، لاڑکانہ، دادو، شہید بینظیر آباد، کراچی، حیدرآباد، ٹھٹھہ، بدین، خیرپور اور میرپور خاص میں آندھی /جھکڑچلنےاور گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان۔ اس دوران چند مقا مات پر ژالہ باری کی بھی توقع ہے۔

29 فروری اور01 مارچ کو موسلا دھار بارشوں کے باعث گوادر، کیچ، تربت، پنجگور، آواران، بارکھان، کوہلو، سبی، نصیر آباد، دالبندین، خضدار اور ڈیرہ غازی خان جبکہ 01 اور02 مارچ کو خیبرپختونخوا، کشمیر، مری، گلیات اور اسلام آباد/راولپنڈی کے برساتی/مقامی ندی نالوں میں طغیانی کا خدشہ ہے۔
01اور02 مارچ کو مری، گلیات، ناران، کاغان، دیر، سوات، کوہستان، مانسہرہ، ایبٹ آباد، شانگلہ، استور، ہنزہ، اسکردو، وادی نیلم، باغ، پونچھ اور حویلی میں شدید بارش / برفباری سے رابطہ سڑکیں بند ہونے کا خدشہ ہے۔

اس دوران بالائی خیبر پختونخوا، مری، گلیات، کشمیر اور گلگت بلتستان میں لینڈسلائیڈنگ کا بھی خدشہ ہے۔
آندھی/جھکڑ / گرج چمک اور تیز بار ش کے باعث کمزور انفرا سٹرکچر ( بجلی کے کھمبے،گاڑیوں سولر پینل وغیرہ)کو نقصان کا اندیشہ ہے
آندھی/بارش اور برفباری کے دوران سیاحوں کو غیر ضروری سفر نہ کرنے کی ہدایت جبکہ کسانوں کو بھی محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اور ساتھ تمام متعلقہ اداروں کو اس دوران” الرٹ “رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔۔بارشوں اور برفباری کا سلسلہ3 مارچ تک وقفے وقفے سے جاری رہنے کا امکان ہے۔ لہذا اس دوران غیر ضروری سفر اور سیاحوں کو محتاط رہنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

 

pdma alert snowfall

گلگت بلتستان: اسکردو میں بارش اور برفباری، بالائی علاقوں میں زمینی رابطہ منقطع

گلگت بلتستان(سی ایم لنکس)گلگت بلتستان کے شہر اسکردو میں بالائی مقامات پر بارش اور برفباری کا سلسلہ جاری ہے، جس سے نظارے دلفریب گئے جبکہ بالائی علاقوں میں زمینی رابطہ منقطع ہوگیا۔ بارش اور برفباری سے پہاڑ، سڑکیں اور گاڑیاں برف سے ڈھک گئیں، برفباری کے دوران بچے برف پر کھیل کود کرکے لطف اندوز ہوتے رہے۔محکمہ موسمیات نے بتایا کہ آج گلگت بلتستان میں مطلع ابر آلود رہنے کے علاوہ چند مقامات پر گرج چمک کے ساتھ ہلکی بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان ہے۔مزید امکان ظاہر کیا کہ کل بروز بدھ گلگت بلتستان میں مطلع ابر آلود رہے گا، جبکہ چند مقا مات پر گرج چمک کے ساتھ ہلکی بارش اور پہاڑوں پر برفباری ہوسکتی ہے۔محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ آج کم سے کم درجہ حرارت لہہ منفی 10، کا لام منفی 07، استور منفی 06، گوپس، مالم جبہ منفی 04، اسکردو، ہنزہ منفی 03 اور بگروٹ میں منفی 02 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستان
85780

26 اور27 فروری کو چترال اور دیرسمیت ملک کے بالائی علاقوں اور بلوچستان میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش اور پہاڑوں پر برفباری کی پیشنگوئی 

26 اور27 فروری کو چترال اور دیرسمیت ملک کے بالائی علاقوں اور بلوچستان میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش اور پہاڑوں پر برفباری کی پیشنگوئی

چترال ( چترال ٹائمزرپورٹ ) 26 اور27 فروری کوبلوچستان اور ملک کےبالائی علاقوں میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش (پہاڑوں پر برفباری) کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطا بق مغربی ہواؤں کا سلسلہ 25 فروری(رات) سے بلوچستان میں داخل ہوگا اور 26 فروری کو ملک کے بیشتر بالائی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ جس کے باعث بلوچستان میں 25(رات) اور 26 فروری کو چاغی، نوشکی، خاران، پنجگور، گوادر، آواران، خضدار، قلات، لسبیلہ، سبی، کوئٹہ، زیارت، چمن، پشین، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، ژوب، شیرانی، بارکھان، موسیٰ خیل اور کوہلو میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ ہلکی سے درمیانی بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان ہے۔ اس دوران چند مقا مات پر موسلادھار بارش کی بھی توقع ہے

اسی طرح خیبر پختونخوا میں 25 (رات)سے27 فروری کے دوران چترال، دیر، سوات، شانگلہ، کوہستان، بونیر، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور، صوابی، مردان، چارسدہ، نوشہرہ، پشاور، مہمند، باجوڑ، خیبر، کرم، کوہاٹ، بنوں اور وزیرستان میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان ہے۔اس دوران چند مقا مات پر ژالہ باری کی بھی توقع ہے ۔
گلگت بلتستان/کشمیر میں 25(رات) سے27 فروری کے دوران گلگت بلتستان (دیامیر، استور، غذر، اسکردو، ہنزہ، گلگت، گا نچھے، شگر)، کشمیر (وادی نیلم، مظفر آباد، پونچھ، ہٹیاں،باغ،حویلی،سدھنوتی، کوٹلی،بھمبر،میر پور) میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان۔ اس دوران چند مقا مات پر ژالہ باری کی بھی توقع ہے

پنجاب/اسلام آباد میں 26( شام/رات) اور27 فروری کو مری ،گلیات، اسلام آباد/راولپنڈی، اٹک، جہلم، چکوال، میانوالی، خوشاب، سرگودھا، بھکر، لیہ اور ڈیرہ غازی خان میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ ہلکی سے درمیانی بارش اور پہاڑوں پربرفباری کا امکان۔ اس دوران چند مقا مات پر ژالہ باری کی بھی توقع ہے
اسی طرح سندھ 25 اور26 فروری کے دوران صوبہ کے جنوبی علاقوں میں مطلع ابر آلود رہنے کے علاوہ آندھی/تیز ہوائیں چلنے کا امکان ہے جس کے ممکنہ اثرات کے پیش نظر احتیاطی تدابیراپنانے کی ہدایت کی گئِ ہے۔

26 فروری (رات) کو شمالی بلوچستان میں برفباری سے سڑکیں بند اور گاڑیوں کی آمد ورفت میں خلل جبکہ بلوچستان خصوصا گوادر، کیچ، پنجگور اور آواران میں موسلادھار بارش کے باعث مقامی ندی نالوں میں طغیانی کا بھی خدشہ ہے،

26( شام/رات) اور27 فروری کو مری، گلیات، ناران، کاغان، دیر، سوات، کوہستان، مانسہرہ، ایبٹ آباد، شانگلہ، استور، ہنزہ، اسکردو، وادی نیلم، باغ، پونچھ اور حویلی میں برفباری سے گاڑیوں کی آمد ورفت میں خلل کا امکان ہے۔ اس دوران بالائی خیبر پختونخوا، مری، گلیات، کشمیر اور گلگت بلتستان میں لینڈسلائیڈنگ کا بھی خدشہ ہے۔ آندھی/جھکڑ / گرج چمک اور تیز بار ش کے باعث کمزور انفرا سٹرکچر ( بجلی کے کھمبے،گاڑیوں سولر پینل وغیرہ)کو نقصان کا اندیشہ ہے۔ آندھی/بارش اور برفباری کے دوران کسانوں اورسیاحوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ دریں اثنا پی ڈی ایم اے کی طرف سے تمام متعلقہ اداروں کو اس دوران” الرٹ “رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

 

خیبرپختونخوا میں بارشوں،تیز ہواؤں اور بالائی اضلاع میں برفباری کے پیش نظر پی ڈی ایم اے نے تمام ضلعی انتظامیہ کو الرٹ رہنے کےلیے مراسلہ جاری کردیا۔ ۔ بارشوں اور برفباری کے پیش نظر ضلعی انتظامیہ کو پیشگی اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اور ساتھ برفباری اور بارشوں سے بالائی اضلاع میں لینڈسلائیڈنگ کاخدشہ کیا گیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کو چھوٹی بھاری مشینری کی دستیابی یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اورطوفان کی صورت میں عوام بجلی کی تاروں، بوسیدہ عمارتوں و تعمیرات، سایئن بورڈز اور بل بورڈز سے دور رہنے حساس بالائی علاقوں میں سیاحوں اور مقامی آبادی کو موسمی حالات سے باخبر رہنے اور احتیاتی تدابیر کی ہدایت کی گئی ہے۔ پی ڈی ایم اے مراسلہ میں حساس اضلاع میں ضلعی انتظامیہ کو مقامی آبادی تک پیغامات مقامی زبانوں میں پہنچا نے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اور مذید کہا گیا ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں تمام متعلقہ ادارے روڈ لنکس کی بحالی میں چوکس رہیں اورسڑک کی بندش کی صورت میں ٹریفک کے لئے متبادل راستے فراہم کئے جائیں۔ حساس علاقوں میں صوبائی اور قومی شاہراہوں پرمسافروں کو پیشگی خبردار کیا جائے ۔ اس دوران ہنگامی خدمات کے اہلکاروں کی دستیابی یقینی بنائیں۔سیاحوں کو موسمی صورت حال سے آگاہ کیاجائے ۔ بارشوں اور برفباری کا سلسلہ 27 فروری تک وقفے وقفے سے جاری رہنے کا امکان ہے۔جس کے دوران سیاح دوران سفر خصوصی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

chitraltimes pdma weather alert

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستان
85641

صحافت بیتی ۔ تحریر: خادم حسین

Posted on

صحافت بیتی ۔ تحریر: خادم حسین

 

صحافی کسی بھی سماج کا اہم فرد ہوتا ہے جس کا کام معاشرے میں آگہی دینا اور حالات و وقعات سے لوگوں کو باخبر رکھنا ہوتا ہے. بطور صحافی کسی کے لیے بھی یہ عمل سہل نہیں ہوتا کہ وہ غیر جانبداری سے حقائق لوگوں تک پہنچاٸے یہ کام نہ صرف مشکل ہے بلکہ خطرناک بھی ہوسکتا ہے بعض اوقات تو یہ دشمنی اور قتل و غارت گری تک چلاجاتا ہے. کبھی بھی صحافی اپنے پیشے کو اپناتے ہوٸے یہ نہیں کہتا کہ میں معروضی حقاٸق بیان کرتے ہوٸے تامل سے کام نہیں لوں گا. یہ مرحلہ کافی مشکل اور جان خطرے میں ڈالنے نیز معاشی طور پر مفلوک الحال ہونے کے مترادف ہے ۔ پاکستان میں جس طرح صحافت کی پرورش ہوٸی وہ بھی کسی دکھی داستان سے کم نہیں ہے. اواٸل زمانہ سے ہی صحافی قتل ہوٸے، دباٶ میں لاٸے گٸے اور میڈیا انڈسٹری کو کمرشلاٸز کرکے صحافت کو پیسوں اور اقتدار کی اکھاڑ پیچھاڑ کا زریعہ بنایا گیا ۔

پاکستان کے قیام سے ہی صحافت کو دبانے کی کوشش کی جاتی رہی یہ سلسلہ اب بھی زور و شور سے رواں ہے ۔ قیام پاکستان کے شروع سے ہی صحافت کو دباٶ میں رکھنے کے لیے ہتھکنڈے استعمال ہوٸے سول اور عسکری حکومتوں نے کھل کر اپنے موقف کے خلاف لکھنے اور بولنے والے صحافی حضرات کو تختہ مشق بنا ڈالا ایک رپورٹ کے مطابق جولاٸی 1951 سے جون 1952 تک روزنامہ آفاق ، احسان، زمیدار، کو تقریبا 3 لاکھ نقد عطیات دیے گٸے نیز من پسند اخبارات کو خریدنے کے لیے بہت سے اشتہارات بھی دیے گٸے جس سے عوام کو اصلیت اور حقاٸق پتہ نہ چل سکے

اس سے یہ بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں شروع سے ہی صحافت پروان نہیں چڑ سکی جس کا خمیازہ آج تلک سب بھگت رہے ہیں
1948 کو فیض احمد فیض کو گرفتار کیا گیا وہ ان دنوں روزنامہ امروز کے ایڈیٹر تھے اس اخبار پہ چھپنے والی ایک خبر سے حکومت کو اعتراض تھا اسی طرح 1949 میں سفینہ لاہور کو بند کردیا گیا جس پر بھی بے بنیاد خبر نشر کرنے کا الزام دھرا گیا

13 مٸی 1978 کا دن ہی سیاہ ہے صحافتی ادوار کے لیے کیوں کہ اس دن فوجی عدالتوں نے سرسری سماعتوں کے بعد چار صحافیوں کو کوڑوں کی سزا سناٸی تھی ان صحافیوں میں مسعود اللہ خاں ، اقبال احمد جعفری، نعیم ہاشمی اور ناصر زیدی شامل تھے اگر تمام ادوار کا سرسری جاٸزہ لیں تو ہم بخوبی جان سکتے ہیں کہ صحافی برادری نے آج تک کس قدر قربانیاں پیش کی ہیں یہ ایک طویل فہرست ہے شروع ایوب کے دور سے بھی کریں تو صحافت پابند سلاسل نظر آٸے گی اس دور میں میڈیا پر تابڑ توڑ حملے ہوٸے اور قبضے کیے گٸے میڈیا انڈسٹری پر اس کے تحت ملک کے سب سے بڑے خبر رساں ادارے PPA کو سرکاری قبضہ میں لیا گیا.
یحی کا دور بھی کافی صبر آزما تھا ایک فوجی کارواٸی کے بعد میڈیا پر سنسرشپ لگا دی گٸی اور خبریں سنسر شب کے بعد نشر کی تاکید کردی گٸی

1971تا 1977 میں بھٹو نے نہ صرف وہی رویہ روا رکھا بلکہ کٸی بڑے ایڈٹرز کو برطرف کردیا اسی طرح حریت اور ڈان کراچی کے چیف ایڈیٹز کو گرفتار کیا اس دور میں مجیب الرحمن شامی بھی گرفتار ہوٸے جو بعد میں روزنامہ پاکستان کے چیف ایڈیٹر بنے یہ سلسلہ ضیا ء الحق کے زمانے میں بھی جاری رہا اور مزید صحافیوں پر پابندیاں لگی اس دور میں سنسر شب مزید بڑھا دی گٸی اور پریس ایڈواٸس کا سلسہ شروع ہوا یہ تک بتایا جاتا ہے کہ سرکاری نماٸندہ خبر ہی کاٹ دیتا تھا ۔ بے نظیر ملک کی وزیر اعظم دو دفعہ بنی پہلا دور 1988تا 1990 اور دوسرا دور 1993 تا 1996 تک کا ہے یہ دور سیاہ دور تھا اور بھر پور انتقامی کارواٸیاں ہوٸی صحافیوں کے خلاف ۔ بے نظیر کے دور میں سندھ میں مظہر حسین نواٸے وقت کے اور احمد خان ppi کو قتل کیا گیا اسی طرح اسلام آباد کے رپورٹر حامد میر کو اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس کے علاٶ ہفت روزہ تکبیر کے مدیر صلاح الدین کو باز نہ آنے پر قتل کردیا گیا ۔

 

نواز شریف دور بھی تشدد اور جبر سے مملو ہے انکی پارٹی کے طلبہ نے صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا بعض میڈیا دفاتر میں حملہ کیا گیا اسی طرح ppp کے حامی اخبار مساوات کے اشتہارات بن کیے گٸے ۔ مشرف دور نسبتا اچھا دور ہے میڈیا کے لیے جس میں کم سے کم تشدد اور جبر ہوا پھر بھی صحافی قتل ہوٸے اس دور میں مشرف نے صحافیوں کو کنڑول کرنے کے لیے ہتک عزت کا قانون پریس کونسل آف پاکستان آڈیننس 2002 نافذ کیا پاکستان میں tv چینلز اور fm ریڈیو کا قیام مشرف ہی کے سر جاتا ہے ۔ ملک میں صحافیوں کے قتل کی رودات کافی دلخراش ہے شروع اگر 1994 سے کریں تو سر فہرست صلاح الدین کا نام ہے جن کو دفتر کے باہر گولیوں سے نشانہ بنایا گیا وہ MQM کے خلاف لکھتے تھے۔ 6 دسمبر 1996 کو روزنامہ پرچم کے بزنس مینجر محمد صمدانی کو بھی قتل کیا گیا قتل کرنے والے روزنامہ پرچم کے ایڈیٹر کو مارنا چاہتے تھے ٹارگٹ نہ ملنے پر صمدانی کو مار گٸے یکم فروری 2002 کو کراچی میں امریکی وال سٹریٹ جرنل کا بیرو چیف ڈینل پرل اغوا کے بعد قتل ہوا اسی طرح 2003 میں فری لانس لکھاری فضل وہاب کو منگورہ میں دکان کے باہر گولیوں سے قل کیا گیا

 

مزید براں 2005 کو FATA میں دو صحافی قتل ہوٸے اسی حملے میں دو صحافی زخمی بھی ہوٸے 2007 میں ایک افغان صحافی کو ہنگو میں قتل کیا گیا اسی سال محبوب خان ایک خود کش حملے میں شہید ہوٸے ۔ یہ نہ تھمنے والا سلسلہ آج تک جاری ہے اس میں خاص کر سندھ کی دھرتی شامل ہے جو ہمیشہ سے صحافتی کاموں کے لیے کٹھن رہی ہے سندھ میں وقتا فوقتا صحافی قتل ، اغوا اور ان کو تشدد کیا جاتا ہے سن 2012 کو سندھ کے علاقے خیر پور میں کارنر میٹنگ پر مسلح افراد کی فاٸرنگ سے دھرتی tv کے رپورٹر مشتاق خند شہید جبکہ 3 صحافی زخمی ہوٸے

 

اس سال بھی سندھ میں صحافیوں کے لیے اچھی خبریں موصول نہیں ہوٸی کٸی صحافی دباٶ کا شکار رہے کٸی تشدد کا نشانہ بھی بنے اور خاص طور پر جان محمد کی جنہوں نے ہمیشہ سچ دیکھایا دوسرے صحافیوں کے لیے نمونہ تھے نڈر اور بے باک تبصرے اور رپورٹنگ کرتے تھے آخر کار پیشہ سے وفادری کی سزا دے کر جان سے مار دیا گیا اور آج تک کوٸی خاطر خواں کارواٸی عمل میں نہیں آسکی جس کا ہمیشہ فاٸدہ جاگیر داروں ، نوابوں اور سیاست دانوں کو ہوتا رہا. بہر حال صحافت جان جوکھوں کا کام ہے.

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
85285

جماعت اسلامی کا سیاسی المیہ – خاطرات: امیرجان حقانی

Posted on

جماعت اسلامی کا سیاسی المیہ – خاطرات: امیرجان حقانی

ہمارے جماعت اسلامی کے دوستوں کا ایک خطرناک المیہ ہے. جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے الخدمت فاؤنڈیشن اور ریڈ فاونڈیشن سکولز چلتے ہیں.
ریڈ فاؤنڈیشن سکولز ایک بہترین بزنس ہے. دوسرے پرائیویٹ سکولوں سے ریڈ فاؤنڈیشن سکولز کی فیسیں زیادہ ہیں. مثلاً ریڈ فاؤنڈیشن سکول گلگت اور پبلک سکول اینڈ کالج گلگت اور اقراء روضۃ الاطفال سکول گلگت کے فیسوں کا تقابل کیا جائے تو ریڈ فاؤنڈیشن سکول کی فیس زیادہ ہے جبکہ پبلک سکول اینڈ کالج اور اقراء روضۃ الاطفال کی فیسیں کم ہونے کے ساتھ معیار بہتر ہے. تاہم ریڈفاؤڈیشن سکولوں میں یتیم بچوں کی ٹیوشن فیس نہیں لی جاتی اور کتابیں اور یونیفارم بھی فری میں دی جاتی ہے اور اس کے لیے باقاعدہ فنڈ رائزنگ کی محفلیں منعقد کی جاتیں ہیں اور لوگ کفالت کی پوری سکیم لیتے ہیں اور بچے کی تعلیم اور دیگر اخراجات ذمے لیتے ہیں.
اسی طرح الخدمت فاؤنڈیشن رفاہی کاموں میں بہت آگے ہے. اس کا اعتراف ہر ذی شعور اور باخبر کرتا ہے اور دنیا جہاں سے فنڈ رائز کیا جاتا ہے. لوگ اعتماد کرتے ہیں اور الخدمت والے بھی ہمہ وقت ایکٹیو رہتے ہیں.
ان کا سیاسی المیہ یہ ہے کہ یہ حضرات ریڈفاؤڈیشن سکولز اور الخدمت کی کاوشوں  اور دیگر رفاہی کاموں کو سیاست اور ووٹ سے جوڑ لیتے ہیں.
یہ آپ ذہن میں رکھے کہ پاکستان کی کوئی پارٹی یا فرد آپ کے رفاہی کاموں سے انکاری نہیں.
اگر رفاہی کاموں سے ووٹ ملنا ہے تو پھر الخدمت سے زیادہ آغا خان فاؤنڈیشن، ایدھی ویلفیئر، سیلانی ٹرسٹ، وغیرہ کو ملنا چاہیے. اگر تعلیمی اداروں کے نام پر ووٹ ملنا چاہیے تو پھر اقراء روضۃ الاطفال، AKES، وفاق المدارس وغیرہ کو ملنا چاہیے.
آپ ایک کام کیجئے. اگر آپ نے پاکستان کی مروجہ جمہوری پارلیمانی سیاست کرنی ہے. اور بہرحال اقتدار حاصل کرنا ہے تو آپ پاورپالٹیکس بیٹھ کر سیکھ لیں. آپ سیاسی طور پر ہر بار کسی نہ کسی کے پیٹ و پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں اور کسی کی گود میں گرتے ہیں
یہ تاریخ بہت لمبی ہے. اور اتفاق سے اس کو سیاست بھی کہتے ہو اور عبادت بھی.
او میرے پیارے جمیعتیو!
آپ کا یہ والا اسٹائل نہ سیاست ہے نہ عبادت. انتہائی پارلیمانی الفاظ میں آپ کے طریق واردات کو ڈھکوسلہ کہا جاسکتا ہے. آپ ہمیشہ ایک ایکسٹریم پر کھڑے ہوتے ہیں. آپ ساتھ دیں تو پیپلز پارٹی کی حمایت اور دشمنی پر آئیں تو بھٹو کی پھانسی میں فریق بنتے ہو.
آپ ماننے پر آئیں تو مولانا فضل الرحمن کو سیاسی لیڈر مانتے ہیں اور مخالفت میں آیے تو مولانا اور اس کی جماعت کی آڑ میں دیگر اکابر علماء تک کی بھی توہین کرتے ہو. اور سیاسی اتحاد کرنا ہوتو نواز شریف کے دروازے پر دستک دیتے ہو اور مخالفت پر آئے تو اس کو عدالت سے ڈس کوالیفائی کروانے میں “مرد مجاہد” کا کردار ادا کرتے ہو.
آپ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ کیمپ میں جانا چاہو تو ضیاء الحق کو امیرالمومنین مانتے ہو اور پھر دور ہوجاؤ تو اسی اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیتے. آپ کی عجیب و غریب سیاسی یتیمی پر مشتمل تاریخ بہت طویل ہے.
غرض آپ کا ہر سیاسی جماعت کے ساتھ یہی رویہ ہوتا ہے.
آپ ہی بتاؤ! آپ نے کس کے ساتھ جوڑ رکھا ہے؟ اور کس کو زک نہیں پہنچایا؟
اگر آپ نے پارلیمانی سیاست میں بہترین انٹری دینی ہے تو کچھ کام کیجئے اور کچھ سے مستقل گریز کیجئے.
اپنا سیاسی مائنڈ سیٹ چینج کیجئے. شوری کے نام پر غیر جمہوری اور زمینی حقائق سے نظریں نہ چرائیں.اور سیاسی نرگسیت سے باہر آجائیں. زمینی حقائق کو بہر حال فوکس کریں . پاور پالیٹکس سیکھیں. قومی ریاستی نظم کے اندر اپنے خوامخواہ کے گلوبل ایجنڈے سے باہر آجائیں. جے یو آئی کے نہیں تو انڈونیشیا کی نہضۃ العلماء کے منہج ہی کو دیکھ لیں اس باب میں.
افغان و کشمیر جہاد، الخدمت کے رفاہی کاموں، ریڈ فاؤنڈیشن سکولز اور دیگر خدمات کو پارلیمانی سیاست اور پاور پالیٹکس کے درمیان نہ لائیں اور نہ ہی ان کے نام پر ووٹ مانگیں. اور نہ ہی ان کو کاموں کو برتری کے لئے بطور پروپیگنڈہ پیش کریں.
نامور علماء اور دینی طبقات کی مخالفت سے گریز کریں. اور سیاست میں عقائد کو درمیان میں کھبی نہ لائیں.
سیاست میں مذاکرات اور اتحاد کے لئے ایک کھڑکی ہمیشہ کھلی رکھیں. ہر ایک سے خدا واسطے کی دشمنی سے سیاست نہیں ہوتی اور نہ ہی دوستی کے جھال میں لیٹا لیٹی شروع کریں. بلکہ اعتدال کیساتھ حدود میں رہیں.
اور نہ ہی اتحاد میں اتنا آگے جائیں کہ نزع کے عالم میں بھی عمران خان کے در پر سیاسی یتیم بن کر حاضری دیں.
اسٹیبلشمنٹ کے نہ اتنا قریب جائیں کہ ضیاء اور مشرف کی بی ٹیم بن جائے اور نہ ہی طاقتور اداروں سے اعلان جنگ کیجئے.
 یاد رہیں!
اگر آپ بطور سیاسی جماعت مستقبل میں یہی کچھ کرتے رہے تو مزید 82 سال میں بھی  کسی صوبہ یا مرکز میں حکومت نہیں بنا سکیں گے. آپ زیادہ سے زیادہ رونا دھونا، احتجاج کرنا اور پریشر گروپ ہی زندہ رہ سکتے ہیں.
فیصلہ آپ خود کیجئے.
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
85195

“جی بی گندم سبسڈی پروگرام” –   خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on

“جی بی گندم سبسڈی پروگرام” –   خاطرات :امیرجان حقانی

گندم شاید گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ایشو ہے. اور گندم جی بی کی سب سے بڑی ضرورت ہے. اور جی بی کے لیے گندم سے بڑی سبسڈی کوئی نہیں. اور شاید سب سے زیادہ کرپشن بھی گندم میں ہی ہورہی ہے.
پنجاب میں جس گودام سے گندم اٹھایا جارہا ہے اس گودام سے لے کر محلے کے ڈیلر تک ہر کوئی اپنا حصہ وصولتا ہے. یہ نرا جھوٹ ہے کہ  صرف چند کلرک، آفیسر یا منتظمین گندم کرپشن میں ملوث ہیں. بلکہ ٹرک ڈرائیور، گودام، فلورملز، آٹا سپلائی کرنے والے مزدے، ٹریکٹر اور محلہ کے ڈیلر تک ہر آدمی ہاتھ صاف کرتا ہے. اور شاید اس گندم کو بہانہ بناکر گلے کوچے کے کئی لوگ لیڈر بنے ہیں اور خوب مفادات بٹورے ہیں.
جی بی کے گندم سے بذریعہ کرپشن و فساد، ڈیپارٹمنٹ سمیت تمام وزیر مشیر اور اصحاب اقتدار اور سیاسی مذہبی رہنماؤں اور پریشر گروپس، سب مستفید ہوئے ہیں. عوام سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.
سوائے عوام کے ہر ایک نے اپنا الو سیدھا کیا ہے. اور بہتی گنگا میں اشنان کیا ہے. اس “گنگا کے گاہک” بہت سارے ہیں.
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس گندم کا مستقل کوئی حل نہیں کہ اس کو کرپشن سے پاک کیا جائے اور منصفانہ تقسیم کے ذریعے مستحق تک پہنچایا جائے.
اگر حکومت چاہیے تو یہ بہت آسانی سے ہوسکتا.
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ملک کے کروڑوں لوگوں کو شفاف طریقے سے ڈیل کرتا ہے اور سالوں قبل کسی غیر مستحق نے اس گنگا میں اشنان کرنے کی کوشش کی بھی ہوگی مگر سالوں بعد اسے ریکوری کی گئی، ایک ایک روپیہ. اب صرف مستحقین مستفید ہورہے ہیں. اتفاق سے اب ڈاکٹر امجد ثاقب اسکے امین ہیں. وہ مزید چار چاند لگائیں گے.
اگر جی بی حکومت، فورڈ ڈیپارٹمنٹ اور گندم کے نام پر سیاست کرنے والے اور ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران چاہیے تو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرح “جی بی گندم سبسڈی پروگرام” کے نام سے ایک بہترین آن لائن سسٹم وضع کیا جاسکتا. ایک ایسا شفاف سسٹم جسے گندم کا ایک دانہ بھی چوری نہ ہوسکے.
 “جی بی گندم سبسڈی پروگرام” کے لئے، ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے وژنری اور ایماندار شخص کی ضرورت ہے.
اگر ایسا ہوا تو یہ ایک بڑی خدمت ہوگی. کاش ایسا ہو.
مگر مجھے یقین ہے. یہ کبھی بھی نہیں ہوگا. کیونکہ اس سے گندم کے تمام اسٹیک ہولڈرز کا بھاری نقصان ہے. حکومت اور ڈیپارٹمنٹ بھی نہیں چاہیے گا. گندم کے نام پر سیاست کرنے والے مُلا و مسٹر بھی نہیں چاہیے گے اور کمیٹی کے احباب بھی.
کوئی اپنے “غیبی رزق، خواہ مخواہ کی بھرم، لیڈری اور پریشر ککر سے دستبرداری اختیار نہیں کرسکتا.
سب مل کر عوام پر بوجھ ڈال رہے ہیں.
نوجوانوں اور عوام کو چاہیے کہ اب ان لائن شفاف سسٹم کا ڈیمانڈ کریں اور ہر حال میں بائیو میٹرک ہو. شفاف بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے گندم/ آٹا کی تقسیم ہی واحد حلبہے. اور اس پر کمپین چلائیں. ورنا ہمیشہ اس ایشو پر خوار ہونے کا فائدہ نہیں.لہو آپ کا جلے گا چراغ کسی کا روشن ہوگا.
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
84849

اے۔کے۔ار۔ایس۔پی ۔ کے زیر اہتمام موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار کمیونٹیز کو ایمرجنسی صورت حال سے نمٹنے کیلئے تیار کرنے کی غرض سے شروع کئے جانے والے پراجیکٹ” BRAVE” کے سلسلے میں نالج حب کا قیام عمل میں لایا گیا

Posted on

اے۔کے۔ار۔ایس۔پی ۔ کے زیر اہتمام موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار کمیونٹیز کو ایمرجنسی صورت حال سے نمٹنے کیلئے تیار کرنے کی غرض سے شروع کئے جانے والے پراجیکٹ” BRAVE” کے سلسلے میں نالج حب کا قیام عمل میں لایا گیا

 

چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز) موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار کمیونٹیز کو ایمرجنسی صورت حال سے نمٹنے کیلئے تیار کرنے کی غرض سے شروع کئے جانے والے پر ا جیکٹ” BRAVE” کے سلسلے میں ایک نالج حب کا قیام اے کے آر ایس پی آفس چترال میں منعقدہ ورکشاپ میں عمل میں لایا گیا ۔ جس میں اس پراجیکٹ کے حوالے سے تجاویز و سفارشات پیش کئے گئے۔ اس موقع پر شرکاء نے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ چترال پر موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات تشویشناک حد تک بڑھ گئے ہیں ۔ بارش اور برفباری میں شدید کمی آئی ہے ۔ جس سے پانی کے ذرائع ختم ہو رہے ہیں ۔ جبکہ بے موسمی بارشیں الگ تباہی و بربادی پھیلارہی ہیں ۔ خشک موسم کے باعث فصلوں ،پھلوں اور سبزیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے ۔ جس کی وجہ سے لوگوں کو خوراک کے حصول اور زندگی گزارنے میں شدید مشکلات پیش آرہی ہیں ۔ اس لئے موسمیاتی منفی اثرات کو کم کرنے ،لوگوں کو متبادل زرعی وسائل سے استفادہ کرنے ،کماو فصل کے فروغ اور آبی وسائل کے تحفظ کیلئے اقدامات کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا گیا ۔

گروپ ورک میں مقامی مصنوعات کی ترقی کیلئے تربیت کی فراہمی ، واٹر چینلز کی بہتری ،سولرانرجی کو فروغ دینے ،آلودگی کم کرنے کیلئے شجرکاری ، پھلوں کیلئے کولڈ سٹوریج ، فوڈ پراسسنگ اور ویلیو ایڈیشن کی ضرورت ،بنجر آراضی کیلئے نہر کشی کرنے ،ریوربیڈ کے ساتھ متاثرہ اضافی زمین (شوتار) کو محفوظ کرکے قابل کاشت بنانے ،ڈھلوان زمینات کی ٹیریسنگ ،چیک ڈیمز واٹر شیڈ کے علاوہ ایگری بزنس ،جیم اینڈ جیولری ،فوڈ اینڈ ہوٹلنگ کی ترقی ،ڈیجیٹل سکلز اور میڈیا ایویرنس پر کام کی تجاویز پیش کی گئیں اور کہا گیا کہ چترال اب مون سون بارشوں اور گلاف سے متاثر ہونے والا خطہ بن چکا ہے ۔ جس کی وجہ سے نہ صرف انفراسٹرکچر اور زمینات کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ بلکہ خوراک کے مسائل کے باعث بھی انسانی زندگی اور حیوانات مشکلات کا شکار ہیں ۔ شرکاء نے اس امر کا بھی اظہار کیا ۔ کہ بزنس کی ترقی کے بغیر چترال کی ترقی ممکن نہیں ہے۔ اس لئے نوجوانوں کو سکلز دینےکی اشد ضرورت ہے ۔

قبل ازین فوکل پرسن اے۔کے۔ایف ظہور آمان ، لائیولی ہڈ اسپشلسٹ کنسرن شفقت اللہ ، آرپی ایم اختر علی، کو آرڈنیٹر BRAVE پراجیکٹ شمیم اختر نے پراجیکٹ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ پراجیکٹ اپر ،لوئر چترال ،نوشہرہ اور گلگتت بلتستان کے ضلع غذر اور استور میں کام کر رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کلائمیٹ چینج رسک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے ۔ لیکن موسمیاتی تبدیلی میں اس کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس موقع پر نالج حب کے عہدہ داروں کا چناو بھی عمل میں لایا آیا ۔

chitraltimes akrsp brave project workshop 1

chitraltimes akrsp brave project workshop 3

chitraltimes akrsp brave project workshop 2

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
84697

گلگت بلتستان: گندم سبسیڈی ختم کرنے کے خلاف  شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری 

گلگت بلتستان: گندم سبسیڈی ختم کرنے کے خلاف  شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری

گلگت( چترال ٹائمزرپورٹ)عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر گلگت بلتستان میں آج تیسرے روز بھی شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری ہے۔احتجاجی دھرنوں کے باعث شاہراہِ قراقرم گلگت پنڈی سیکشن اور گلگت ہنزہ سیکشن بند ہے۔ہنزہ اور غذر سے لوگ گلگت پہنچ کر اتحاد چوک پر مرکزی دھرنے میں شامل ہو رہے ہیں۔شٹر ڈاؤن ہڑتال کے باعث شہر کی تمام مارکیٹیں، بازار اور کاروباری مراکز بند ہیں۔اندرونِ شہر پبلک ٹرانسپورٹ اور بین الاضلاعی ٹرانسپورٹ بھی معطل ہے۔عوامی ایکشن کمیٹی کے کوآرڈینیٹر کا کہنا ہے کہ مطالبات کی منظوری تک احتجاج اور دھرنے جاری رہیں گے۔پہیہ جام شٹرڈاون ہڑتال سے گلگت بلتستان میں نظام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے، گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں گندم کی سبسیڈی ختم کرنے کے خلاف گزشتہ ۳۳ روز سے جاری ہے۔ جو اب شدت اختیار کرگیا ہے، گلگت بلتستان کے علاوہ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بھی احتجاج جاری ہے۔

chitraltimes gilgit protest for wheat subsidy

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged ,
84672

دیامر گلگت بلتستان میں غازی محمد عیسیٰ کامزار – تحریر : محمد خالد خان

دیامر گلگت بلتستان میں غازی محمد عیسیٰ کامزار – تحریر : محمد خالد خان

برصغیر پاک و ہند کے دور افتادہ کونے نوآبادیاتی حکمرانی کے سامنے جھکنے والوں میں شامل تھے اور چترال اور گلگت کے علاقوں کو خاص طور پر 1880 کی دہائی کے بعد انگریزوں کے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ہنگامہ خیز دور میں ایک نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے – محمد عیسیٰ غازی جو کہ برطانوی حملہ آوروں کے خلاف اٹوٹ بہادری اور مزاحمت کی علامت ہے۔

غازی محمد عیسیٰ نے اپنے ثابت قدم ساتھیوں کے ساتھ برطانوی فوج کے خلاف شدید مزاحمت کرتے ہوئے شیر افضل کے ساتھ اتحاد کیا۔ ان کی بہادری کی داستانیں تاریخ میں گونجتی ہیں کیونکہ انہوں نے متعدد بار برطانوی افواج کو کامیابی سے پسپا کیا۔ تاہم، بڑے پیمانے پر جدید ہتھیاروں اور مقامی حمایت کی آمد نے بالآخر نوآبادیاتی آقاؤں کے حق میں ترازو کو آگے بڑھایا، جس کے نتیجے میں چترال کے ایک معمولی محاصرے کے بعد مزاحمت کو بے دخل کر دیا گیا۔

مصیبت کے عالم میں، غازی محمد عیسیٰ کابل فرار ہو گئے اور ایک غدارانہ سفر شروع کیا جو بالآخر انہیں ضلع چلاس تانگیر لے آیا۔ یہاں، مقامی بزرگوں نے، اس کی ہمت سے متاثر ہو کر، مبینہ طور پر پناہ اور مدد فراہم کی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہیرو زہر کے ذریعے اپنے انجام کو پہنچا، اور اس کی آخری آرام گاہ گلگت کے ایک دور افتادہ گاؤں تحصیل تانگیر کے ایک گاؤں میں ہے۔

محمد عیسیٰ کی زندگی غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف بہادری اور غیرمتزلزل عزم کی ایک مہاکاوی ہے۔ جب کہ تاریخ کی کتابوں میں اس خطے کی جدوجہد کو بیان کیا گیا ہے، لیکن اس کی مزاحمت، اگرچہ 1830 میں سکھوں کے خلاف سعید احمد شہید کی مزاحمت کے مقابلے میں ہے، لیکن اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
غازی محمد عیسیٰ خاندان کے ایک فرد کے طور پر، ان کی بہادری کی داستانیں ہمیشہ دل موہ لینے والی تھیں، جس کا اختتام گھر سے بہت دور شمالی علاقہ جات کے ایک کونے میں ان کی المناک موت کے ساتھ ہوا۔ ان کے رشتہ داروں میں سے کوئی بھی ان کی آخری رسومات میں شرکت نہیں کرسکا، جو اس کی جدوجہد کی تنہائی کو ظاہر کرتا ہے۔

مجھے ضلع تانگیر میں غازی محمد عیسیٰ کے مزار پر جانے کا موقع ملا، کیونکہ میں نے اپر کوہستان میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) کا کردار ادا کیا جو جی بی کے تانگیر اور داریل سے بالکل متصل ہے۔

بالائی کوہستان کے معروف عالم دین مولانا غفور نے غازی محمد عیسیٰ کی آرام گاہ کا سراغ لگانے کے لیے بہت مہربانی کی اور 21 جنوری 2024 کو میں ان کے خاندان میں پہلا شخص بن گیا جس نے ان کی قبر پر تعزیت کی۔ یہ تجربہ گہرا تھا، جس کے چاروں طرف حیرت انگیز وائبز اور زبردست جذبات تھے۔ ہیرو گلگت کے ایک دور افتادہ گاؤں میں ہے، جو اس کی عظمت کا ثبوت ہے۔ میں مقامی عمائدین خاص طور پر حاجی شکرت خان، ایک جانی پہچانی شخصیت اور (تحصیل تانگیر کے نمبر دار) کو دورہ کے دوران ان کی مہمان نوازی اور تعاون پر دل کی گہرائیوں سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں، اور غازی محمد عیسیٰ کے بارے میں مزید کہانیاں شیئر کر رہا ہوں جو سن کر خوشی ہوئی۔

ضلع تانگیر کے کونے کونے میں محمد عیسیٰ غازی کا ورثہ زندہ ہے، جو ہمیں اس ناقابلِ تسخیر جذبے کی یاد دلاتا ہے جس نے غیر ملکی جبر کے خلاف مزاحمت کی اور اپنے لوگوں کی آزادی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔

chitraltimes mazar muhammad issa khan diamer gilgit long tumb chitraltimes mazar muhammad issa khan diamer gilgit kohistan

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
84601

ضلع دیامر کی شرح خواندگی اور مگرمچھ کے آنسو – خاطرات: امیرجان حقانی

Posted on

ضلع دیامر کی شرح خواندگی اور مگرمچھ کے آنسو – خاطرات: امیرجان حقانی

ضلع دیامر میں خواتین کی شرح خواندگی انتہائی کم یعنی11 فیصد بتلائی جارہی ہے.
اگر سروے درست کی گئی ہے تو اس گیارہ فیصد میں 8 فیصد یقینا دینی مدارس و مکاتب کی مرہون منت ہے.
ورنا تین  لاکھ سے زائد آبادی والے ضلع میں صرف ایک گرلز ہائی سکول ہے اور ایک ہوا میں فٹ گرلز انٹر کالج ہے جس کی عمر ایک سال ہے. اور ایک مرد اس کا پرنسل ہے. ایسے میں شرح خواندگی گیارہ فیصد ہونا ناممکن ہے. کیا یہ محکمہ ایجوکیشن (سکول و کالجز) کے منہ پر طمانچہ نہیں..؟
اصولی بات یہ ہے کہ یہ گیارہ فیصد شرح خواندگی بھی لڑکیوں کے ان مدارس کی مرہون منت ہے جو ضلع دیامر میں واقع ہیں یا دیامر کی بچیاں گلگت، غذر اور اسلام آباد پنڈی کی دینی مدارس للبنات میں رہائشی تعلیم حاصل کررہی ہیں.
مجھے معلوم ہے کہ دیامر کو طعنے دینے والے سوشل ایکٹوسٹ، صحافی، آفیسران اور دیگر ذمہ دار لوگ دیامر میں خواتین کی ایجوکیشن کے لیے کسی طور مخلص نہیں. اگر مخلص ہوتے تو طعنے دینے کی بجائے سرکار اور دیگر اداروں کو سوشل میڈیا کی مہم کے ذریعے مجبور کرتے کہ وہ دیامر میں خواتین ایجوکیشن میں ڈھکوسلہ بازی کی بجائے حقیقی اقدامات کریں. وہ ایسا کسی صورت نہیں کریں گے. آج تک دیامر کے کسی لکھاری، صحافی یا دانشوڑ نے اس کو موضوع بحث بنایا ہی نہیں.کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ دیامر کی ماں بیٹی پڑھی لکھی ہوئی تو دیامر کے نام نہاد دینداروں اور جی بی کے جعلی تعلیم یافتوں کی خیر نہیں.
لہذا سرکار سمیت دیگر تمام رفاہی و تعلیمی این جی اوز اور دیامر کے زبردستی دیندار،اور مفادات سے بھرے ممبران اسمبلی، دیامر میں خواتین ایجوکیشن پر کچھ بھی نہیں کریں گے. سوائے دینی مدارس کے. وہ جیسے تیسے لڑکیوں کو تعلیم دے رہے ہیں مگر کوئی ان کا ذکر تک نہیں کرتا. بلکہ ان کو ہی لٹریسی ریٹ کی کمی کا الزام دیا جارہا ہے.
راقم نے اپنے پیارے دوست مولانا امتیاز داریلی کے ذریعے اس پر ایک پورا تھیسز لکھوایا ہے اور انہوں نے شاندار ریکمنڈیشنز بھی دی ہیں. یہ کام بھی داریل کا مولوی کرگیا مگر کالج یونیورسٹی کا پینٹ بردار طعنے دے گا کام نہیں کرے گا.
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
84394

ولی محمد خان یفتالی ریجنل پروگرام منیجر آغا خان ایجنسی فار ہبیٹاٹ چترال ریجن تعینات

Posted on

ولی محمد خان یفتالی ریجنل پروگرام منیجر آغا خان ایجنسی فار ہبیٹاٹ چترال ریجن تعینات

چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) آغا خان ایجنسی فار ہبیٹاٹ AKAH’P پاکستان نے چترال ریجن کے لیے ولی محمد خان یفتالی کو ریجنل پروگرام مینجر تعینات کر دیا ہے۔آغا خان ایجنسی فار ہبیٹاٹ پاکستان AKAH’P نے نئے تعینات ریجنل پروگرام مینجر کو نئے عہدے کے لیے , آفیشیل نوٹیفکیشن جاری کر دیے۔

یاد رہے ولی محمد خان یفتالی گزشتہ کئی برسوں سے آغا خان ڈولمپنٹ نیٹ ورک(اے۔کے۔ڈی ۔ این ) کے ساتھ منسلک ہے۔ اس دوران وہ ادارے کے مختلف شعبوں و مختلف عہدوں پر بطور منیجر ایمرجنسی مینجمنٹ اور پروگرام آفیسر ،کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

ولی محمد خان یونیورسٹی آف پشاور سے سوشیالوجی اور پولیٹکل سائنس میں ماسٹرز کرچکے ہیں۔وہ پاکستان سے باہر انٹرنیشنل ڈیزاسٹرز پروگرام میں ادارے ہذا کی بھی نمائندگی کرنے کے ساتھ نیپال ٫یوگینڈا ٫،تاجکستان دوبئی ودیگر ملکوں میں منعقدہ کئی بین الاقوامی سیمنار میں شرکت کر چکے ہیں۔
یادرہے کہ ولی محمد خان یفتالی بابائے لاسپور گل ولی خان (مرحوم ) کے فرزند ارجمند ہیں، انکی بطور ریجنل پروگرام منیجر تعیناتی پر علاقے کے عوام نے نیک خواہشات کے ساتھ اس امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ دلجمعی اور احسن طریقے سے علاقے کے فلاح وبہبود کے کاموں کو سرانجام دیں گے۔ اور ادارے کو مذید ترقی سے ہمکنار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
84033

جی بی کے فضلاء : علمی کنٹریبیوشن – خاطرات : امیرجان حقانی

جی بی کے فضلاء : علمی کنٹریبیوشن – خاطرات : امیرجان حقانی

زمانہ طالب علمی میں مجھے اکابر علماء و مشائخ کی آپ بیتاں اور سوانح عمریاں پڑھنے کا بڑا شوق تھا. اس کا فائدہ یہ ہوا کہ “مشاہیر علماء گلگت بلتستان” کے نام سے ایک تحقیقی و تصنیفی سلسلہ زمانہ طالب علمی سے شروع کیا. قیام پاکستان سے پہلے کے فاضلین دارالعلوم دیوبند کو ابتدا میں رکھا. حیرت ہوئی کہ دو درجن سے فاضلین دارالعلوم دیوبند پر 80، 90 سالوں میں کسی نے کچھ نہیں لکھا. ایک دو شخصیات پر تاثراتی مضامین کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آیا.
ان بزرگوں کی سوانح جمع کرنے میں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے، وہ الگ کہانی ہے. پھر کھبی.
ان فاضل علماء کی گلگت بلتستان میں اشاعت دین کے حوالے سے بڑی خدمات ہیں اور اتفاق سے اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم بھی دلائی ہے اور کروڈوں کی جائیداد بھی چھوڑی ہے مگر اولاد اتنی ناہنجار کہ اپنے عظیم باپ پر دو چار لاکھ خرچہ کرکے کوئی کتاب ہی قلم بند کرواتی، مگر استخوان فروشوں کے اس قبیل نے آج تک اس کی زحمت نہیں کی. اللہ ایسی اولاد کسی کو نہ دے.
2015 میں اپنے ایم فل کے مقالے کے لئے گلگت بلتستان میں قیام امن کا ٹاپک چنا. سوچا کہ ایک باب گلگت بلتستان کے مسالک کا تعارف اور تاریخ پر لکھا جائے. چار مکاتب فکر کو چنا. گلگت بلتستان کی اسماعیلی برادری نے شاندار تصنیفی کام کیا ہے. درجنوں کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں.ان کی پوری تاریخ مرتب ہے. اہل تشیع کے اہل علم نے بھی اپنی جی بی کی تاریخ مرتب کی ہے اور اپنے اہل علم کی کاوشوں کو قلم بند کیا ہے. لٹریچر موجود ہے. نوربخشی برادری کی بنیاد ہی جی بی میں پڑی ہے. انہوں نے بھی اپنے تُراث کو شاندار انداز میں مرتب کیا ہے اور بہت سارا لٹریچر ان کی مختلف ویب سائٹس پر موجود ہے. ان کی کتابیں آن لائن موجود ہیں. ان تینوں مکاتب فکر کی کتابوں سے ریسرچر استفادہ کررہے ہیں. علمی مقالوں اور تحقیقات میں ان کی کتب کے حوالے استعمال ہو رہے ہیں.
جب اہل سنت کی تاریخ، ان کے علماء و مشائخ کی کاوشوں کو جاننے کی کوشش کی تو کچھ بھی نہیں ملا. جی بی کی چار مسلکی برادریوں میں اہل سنت آبادی 35 فیصد ہے. ان کے علماء قدیم زمانے سے یہاں موجود ہیں. دو درجن سے زائد علماء نے قیام پاکستان سے پہلے ہندوستان کے بڑے تعلیمی اداروں سے تعلیم مکمل کی ہے. باقاعدہ مستند اہل علم ہیں. ان سے پہلوؤں کی بات الگ ہے. . اب تو جی بی  اور پاکستان بھر میں گلگت بلتستان کے علماء کی سو سے زائد مدارس ہیں. ان کا سالانہ بجٹ اربوں میں ہے. یعنی اربوں روپیہ یہ حضرات، مدارس میں مختلف مَدوں میں خرچ کرتے ہیں. مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کراچی سے پھنڈر تک، لاہور سے گانچھے تک ان سینکڑوں مدارس میں ایک بھی دارالتصنیف نہیں جہاں گلگت بلتستان میں اہل سنت علماء کی دینی خدمات اور اہل سنت کی تاریخ و تراث اور دیگر علمی موضوعات پر کام ہورہا ہو.
اتفاق کی بات یہ ہے کہ ان مدارس کے ارباب و اختیار اور  اور جی بی کے  جید علماء کرام سے میری اچھائی شناسائی ہے. ہر ایک کے پاس اس کام کی اہمیت بلاکم وکاست بیان کی. مگر افسوس آج تک کسی نے سیریس نہیں لیا. کاش ایسا نہ ہوتا.
آج بھی دیامر، گلگت، استور، بلتستان اور غذر میں کئی امیر ترین دینی مدارس ہیں. ان کے ارباب چاہیے تو بہترین ویب سائٹ، میگزین اور شاندار تصنیفی کام کرسکتے ہیں. اور سابق علماء و مشائخ اور مبلغین و مفسرین کی کسمپرسی میں کی جانے والی دینی خدمات کی روئداد مرتب کی جاسکتی ہے. مگر اس عظیم علمی کنٹریبیوشن سے یہ حضرات کیوں کتراتے ہیں، آج تک وجہ سمجھ نہیں آ سکی. کراچی لاہور اود اسلام آباد میں گلگت بلتستان کے اہل سنت جید علماء کے کئی بڑے ادارے ہیں. وہ بھی اس اہم ترین ضرورت کی طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں.
آخر پورا علاقہ ایک صدی سے بانجھ کیوں ہے مجھے سمجھ نہیں آئی.
اگر آج کوئی سوال کرے کہ گلگت بلتستان میں اہل سنت کیسے آئے، مبلغین کون تھے. ان کی خدمات کیا ہیں، دین کیسے پھیلا، مساجد و مدارس کیسے بنے، اہل سنت میں بدعات کیسے ختم ہوئی، عقائد وافکار کی اصلاح کیسے ہوئی،تبلیغی جماعت گھر تک کیسے پہنچ گئی، ہزاروں حفاظ اور علماء کیسے پیدا ہوئے اور ان جیسے بے شمار سوالات کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں اور نہ کسی کتاب کا حوالہ مل سکتا ہے. کچھ باتیں زبانی کلامی چل رہی ہیں اور بس.
آج کے نوجوان فضلاء چاہیے تو اپنی صلاحیتوں کو اس طرح متوجہ کرسکتے ہیں. اگر ایسا ہوا تو اہل سنت کی تاریخ محفوظ ہوجائے گی. یہ ایک بہت بڑی علمی کنٹریبیوشن ہوگی. کوئی ہے جو اس صدا پر لبیک کہے..؟ خیر! نقار خانے میں طوطی کا کون سنتا ہے. مگر صدا دینا لازم ہے.
وہ حضرات، جن کے والدین نے قیام پاکستان سے پہلے متحدہ ہندوستان کے بڑے علمی اداروں سے پڑھا تھا ان پر لازم ہے کہ اپنے والدین کی دینی خدمات پر مشتمل مواد تیار کروا کر شائع فرمائیں. ورنا کل اپنے والدین کو کیا منہ دکھائیں گے. رسول اللہ کے صحابہ نے اپنے حبیب صل اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک ایک ادا محفوظ کی اور یہاں استخوان فروش لوگ باپ داد کا نام بیچ کھاتے ہیں. اور بس.
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
83778