Chitral Times

پاک چائینہ بارڈر اور ڈوبتی معیشت – میری بات;روہیل اکبر

پاک چائینہ بارڈر اور ڈوبتی معیشت – میری بات;روہیل اکبر

ایک طرف ہم دنیا کے بلند ترین مقام پرہیں تو دوسری طرف پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں درمیان میں صرف ایک انچ کی لکیرکو جیسے ہی ہم وہ پار کرتے ہیں تو دوسری طرف ترقی،خوشحالی اور سہولتوں کا عروج ہے جو انسان کو حیرت میں ڈال دیتا ہے دنیا کی خوبصورت ندی،نالوں،دریاؤں اور وادیوں سے گذرتا ہوا جیسے ہی میں پاک چائینہ بارڈ خنجراب پر پہنچا تو خوبصورتی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی اسی جگہ ہماری 2اے ٹی ایم مشینیں (نیشنل بینک اور حبیب بنک)بھی لگی ہوئی ہیں جن پر لکھا ہوا ہے کہ یہ دنیا کی بلند ترین مقام پر ہیں اسی بلندی پر ہمارے جوان جو ڈیوٹیاں سر انجام دے رہے ہیں وہ بھی ناقابل یقین ہیں اس ٹھنڈے ترین مقام پر کسی بھی ملازم کو حکومت نے سردی سے بچاؤ کے لیے کچھ نہیں دیا ہوا ہماری حالت پر ترس کھاتے ہوئے چائینہ نے ہی ایک کیبن دے رکھا ہے کہ اگر بارش ہو جائے تو اس چھوٹے سے کیبن میں پناہ مل سکے

 

اس بارڈر تک آنے کے لیے جو سڑک استعمال ہوتی ہے وہ بھی چائینہ کا ہی تحفہ ہے ہمارے بارڈ پر کسی بھی گاڑی کو چیک کرنے کے لیے کوئی آلات نہیں ہیں اور نہ ہی چیک ہوتی ہے جبکہ چائینہ نے چیکنگ کا جدید نظام بنانے کے ساتھ ہی بارڈر لکیر سے موٹر وے طرز کی سڑک بنائی ہوئی ہے انکے سیکیورٹی اداروں کے پاس موسم کے مطابق جدید اور بہترین وردی ہے جو شدید برف باری میں بھی جسم کو گرم رکھتی ہے انکے مقابلہ میں ہماری قراقرم بارڈر فورس کے لیے چائے بنانے کی بھی سہولت نہیں میں سلام پیش کرتا ہوں اپنے جوانوں کو جو اتنی سختی میں بھی اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں پاک چین بارڈ گلگت بلتستان میں دنیا کے بلند ترین مقام پر ہے اور یہاں تک جاتے جاتے ایسے ایسے خوبصورت اور دلفریب نظاروں سے گذرنا پڑتا ہے کہ ہر وادی میں زندگی گذارنے کو دل کرتا ہے ہماری یہ سرحد 596 کلومیٹر (370 میل) قراقرم پہاڑوں کے درمیان سطح سمندر سے 4,693 میٹر (15,397 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے جو دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں میں سے ایک ہے دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ K2 بھی اسی سرحد پر واقع ہے ہنزہ اور نگراس سرحد کے قریب ترین اضلاع ہیں دونوں طرف سے آنے والا سامان سوست میں آتا ہے جہاں ڈرائی پورٹ ہے اس ڈرائی پورٹ کے عملہ سے تاجر حضرات بھی اتنے ہی تنگ ہیں جتنے کہ کسی اور ڈرائی پورٹ سے متعدد بار سوست میں تاجروں نے ٹیکسوں کی بھر مار اور کسٹم حکام کی بدمعاشیوں کے خلاف احتجاج بھی کیا لیکن یہاں پر تاجروں کی یونین نہ ہونے کی وجہ سے مسائل جوں کے توں ہیں سوست میں اس وقت جو دوکانیں بنی ہوئی ہیں

 

ان پر بھی شاہ عالم مارکیٹ لاہور کا ہی مال نظر آتا ہے اس علاقے میں کوئی ڈیوٹی فری شاپ ہے اور نہ ہی سیاحوں کی سہولیات کے لیے کوئی مرکز ہے بلکہ جو بھی پاکستان بارڈر تک جانے کا خواہش مند ہوتا ہے ان سے 5سو روپے فی آدمی کے حساب سے پیسے لیے جاتے ہیں غیرملکیوں سے تقریبا 12ڈالر لیے جارہے ہیں چین کی بنائی ہوئی اس سڑک پر حکومت پیسہ اکھٹا کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی سوست سے خنجراب پاس کو جائیں تو راستے میں بائیں جانب ایک سڑک اوپر کی طرف مسگر وادی کو جاتی ہے جو انتہائی بلندی پر ہے اس وادی کے لوگ خوبصورت،جفاکش اور ملنسار ہیں یہاں ہر شخص پڑھا لکھا ہے اوربہت سے نوجوان فوج میں اعلی عہدوں پر تعینات ہیں اس گاؤں میں دو اساتذہ کرام جاوید اختر اور فریاد علی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جنکا کہنا تھا کہ جو اصل شاہراہ ریشم ہے وہ اسی گاؤں سے گذرتی تھی جو آگے جاکر تین ممالک کے بارڈرز سے مل جاتی ہے ان تین ممالک میں چین،افغانستان اور روس شامل تھا لیکن حکومت نے 1966میں شاہراہ ریشم کو تبدیل کردیا جس پر سڑک1982میں مکمل ہوئی یکم جون 2006 سے، گلگت سے کاشغر، سنکیانگ تک بس سروس بھی چل رہی ہے اور اب تو لاہور سے بھی چائینہ تک بس چل پڑی ہے ان علاقوں میں بجلی اور موبائل نیٹ ورک کا بڑا بحران ہے پاکستان کے مختلف شہروں سے آنے والے لوگ جیسے ہی گلگت بلتستان پہنچتے ہیں تو وہ اپنے گھر والوں،رشتہ داروں اور دوستوں سے کٹ جاتے ہیں ان علاقوں میں صرف ایس کام ہی کام کرتا ہے جسکے انٹرنیٹ کی سپیڈ بھی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ناقابل بیان ہے اکثر اوقات تو پوری رات بجلی غائب رہتی ہے

 

کشمیر اور گلگت بلتستان میں عوام کو ایک فائدہ تو ہے کہ انہیں بجلی انتہائی کم قیمت پر ملتی ہے جبکہ پاکستان بھر میں بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں نے عوام کی چیخیں نکلوا رکھی ہیں جن گھروں میں ایک پنکھا،پانی والی موٹر اور استری چلتی ہے انہیں 30ہزار سے زائد بل آنے کی وجہ سے انکے میٹر اتر چکے ہیں کچھ لوگوں نے گھروں کا سامان بیچ کر اپنے بل جمع کروائے ہیں اسکے ساتھ ساتھ بجلی کے مہنگے نرخوں نے پاکستان میں بہت سی صنعتوں کو بند کرنے یا آف گرڈ جانے پر مجبور کر دیا ہے۔مینوفیکچرنگ سیکٹر، جو معیشت کے استحکام اور توسیع کے لیے ناگزیر ہے، بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت سے بری طرح متاثر ہوا ہے مہنگی بجلی یہ مسئلہ بہت سے کاروباروں کی بقا کو خطرے میں ڈالنے کے علاوہ روزگار اور معاشی ترقی کے لیے نقصان دہ بن چکا ہے سٹیل، سیمنٹ، ٹیکسٹائل اور مینوفیکچرنگ انڈسٹری شدید متاثر ہوچکی ہے کاروباری اداروں کو زیادہ بلوں کے علاوہ بجلی کی بندش سے بھی نمٹنا پڑرہا ہے ان مسائل کی وجہ سے، کاروبار توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنے یا مہنگے بیک اپ جنریٹرز خریدنے پر مجبور ہیں

 

بیک اپ بجلی کی سرمایہ کاری اچانک رکاوٹوں کو کم کر سکتی ہے، لیکن ان کے نتیجے میں اکثر آپریشنل اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں، جو منافع کے مارجن کو کم کرتے ہیں اور مسابقت کو کمزور کرتے ہیں اگرچہ پاور سیکٹر کی کارکردگی کو بڑھانے اور توانائی کے متبادل ذرائع پر غور کرنے کے لیے کئی ناکام کوششیں کی گئی ہیں توانائی کے شعبے کی تشکیل نو کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے حکومت کو چاہیے کہ پائیدار سطحوں پر محصولات کو برقرار رکھنے کے لیے طویل مدتی نقطہ نظر کو توانائی کی پیداوار کو بڑھانے، بنیادی ڈھانچے کو بڑھانے، اور زیادہ مسابقتی توانائی کی مارکیٹ بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اس وقت بہت سی فرمیں توانائی کے زیادہ ٹیرف کی وجہ سے شمسی اور ہوا کی توانائی جیسے قابل تجدید توانائی کے ذرائع میں سرمایہ کاری کر کے گرڈ سے باہر جانے کا انتخاب کر رہی ہیں یہ ایک ایسا مالی بوجھ ہے جسے بہت سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری برداشت نہیں کر سکتے نتیجے کے طور پر یہ کمپنیاں مکمل طور پر کام بند کر دیتی ہیں اگر صنعتیں کام جاری نہیں رکھتی تو معاشرتی بدامنی اور معاشی تنا ؤپیدا ہو سکتا ہے جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہو گا اور ساتھ ہی جرائم بھی بڑھ جائیں گے جن سے بچنے کے لیے حکومت کو سخت اور فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

pak china border khunjarab

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
92786

بھارت اور پاکستان میں سیکولرازم کا تصور اور غلط فہمیوں کا ازالہ – خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on

بھارت اور پاکستان میں سیکولرازم کا تصور اور غلط فہمیوں کا ازالہ – خاطرات :امیرجان حقانی

 

بھارت اور پاکستان دو ایسے پڑوسی ممالک ہیں جن کے نظریاتی اور آئینی ڈھانچے میں بنیادی فرق ہے۔ بھارت خود کو ایک سیکولر ملک قرار دیتا ہے، جہاں مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ رکھا گیا ہے، جبکہ پاکستان کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی گئی ہے، اور یہاں آئینی طور پر اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔

 

بھارت میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 20 کروڑ ہے، جو اسے دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیتوں میں سے ایک بناتی ہے۔ اس اقلیت کو اپنے مذہبی حقوق کی حفاظت کے لیے سیکولرازم ایک حفاظتی دیوار فراہم کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان آزادانہ طور پر اپنی عبادات کر سکتے ہیں، اپنے رسم و رواج اور تہوار منانے کے حق دار ہیں، اور ان کے مذہبی تعلیمی ادارے بھی ریاست کی نگرانی سے آزاد ہیں۔ بھارت کے آئین نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ریاست کسی بھی مذہب کی حمایت یا مخالفت نہیں کرے گی، اور تمام شہریوں کو بلا امتیاز مذہب، مساوی حقوق فراہم کیے جائیں گے۔ خدانخواستہ اگر بھارت قانونی اور آئینی طور پر ہندو مذہب پسند ملک بن گیا تو کروڑوں مسلمانوں اور دیگر چھوٹی اقلیتوں کی مال وجان اور عزت و ابرو اور دیگر ادارے برباد ہوکر رہ جائیں گے اور ان کی زندگی مزید اجیرن بن جائے گی۔

 

یہی وجہ ہے کہ جمعیت علماء ہند جیسی سکہ بند علماء کی سیاسی جماعت اور ان کے ہم خیال جید علماء بھی بھارت میں سیکولرازم کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کا مؤقف یہ ہے کہ بھارت جیسے ملک میں مسلمانوں کی بقا اور ترقی کا واحد راستہ سیکولرازم ہے، کیونکہ یہ نظام انہیں مذہبی آزادی اور مساوات فراہم کرتا ہے۔

 

اس کے برعکس، پاکستان کا آئینی ڈھانچہ اسلامی نظریات پر مبنی ہے، جہاں اللہ کی حاکمیت کو ریاست کے تمام معاملات پر حاوی قرار دیا گیا ہے۔ اس تناظر میں، پاکستان میں سیکولرازم کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ یہ اسلامی نظریے کے خلاف ہے۔ پاکستان کے علماء اور دینی طبقے، بالخصوص جمیعت علماء اسلام اور دیگر بڑی سیاسی جماعتیں اور اہل علم و قلم، سیکولرازم کو ایک ایسے نظام کے طور پر دیکھتے ہیں جو اسلامی اصولوں کے منافی ہے اور اس کی مخالفت اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں مذہبی بنیادوں پر ایک عادلانہ معاشرہ قائم ہو سکے۔

 

مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ، جو اپنے آپ کو اسلامی نظریات کے علمبردار سمجھتے ہیں، اور خود مولانا مودودی رحمۃاللہ علیہ کے پیروکار یا مقلد بھی کہتے ہیں، سیکولرازم کے متعلق، بھارت اور پاکستان کے علماء کے خیالات و تصورات کو بطور طنز استعمال کرتے ہیں اور ان صاحب فکر و نظر علماء پر طنز کرتے ہوئے عجیب و غریب پوسٹیں شئیر کرتے ہیں۔ یہ لوگ شاید اس بات کا شعور نہیں رکھتے کہ بھارت میں سیکولرازم مسلمانوں کی بقا اور حقوق کی حفاظت کا ضامن ہے، جبکہ پاکستان میں اس کی مخالفت عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔

 

ان افراد کو سمجھنا چاہیے کہ ہر ملک کا آئینی اور نظریاتی ڈھانچہ مختلف ہوتا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے لیے سیکولرازم ایک نعمت ہے، جبکہ پاکستان میں اسلامی نظام ہی ہمارے معاشرتی ڈھانچے کی بنیاد ہے۔ ان دونوں ممالک کے حالات اور تقاضے مختلف ہیں، اور اس کو سمجھنے کے بجائے طنز و مزاح کے ذریعے نظریات کا مذاق اڑانا خود نادانی اور کم فہمی ہے۔

 

لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نظریات اور عقائد کو درست تناظر میں سمجھیں اور ان پر فخر کریں۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ جیسے بڑے علماء کے نظریات کو سمجھے بغیر ان کے نام کو استعمال کرنا اور ان دو ممالک میں سیکولرازم کے حوالے سے طنزیہ رویہ اختیار کرنا نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ مولانا کی جدوجہد اور ان کے نظریات کی توہین بھی ہے۔ایسے لوگ معدودے چند ہی ہیں۔

 

آخر میں، یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بھارت میں سیکولرازم مسلمانوں کے لیے حفاظتی حصار ہے، جبکہ پاکستان میں اسلامی حاکمیت ہماری شناخت اور بقا کی ضامن ہے۔ ہمیں اپنے نظریات اور عقائد پر فخر کرنا چاہیے اور ان کی حفاظت کرنی چاہیے، نہ کہ انہیں طنز و مزاح کا نشانہ بنانا چاہیے اور تفریق کا باعث بن کر علمی حلقوں میں اپنا مقام گرانا چاہیے۔یہاں تک یہ سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں کے لیے بھی سیکولرازم بہتر ہے تو اس کا مناسب جواب یہی ہے کہ آئین پاکستان، پاکستان میں بسنے والی تمام غیر مسلم کمیونٹیز کو مساوی حقوق عطا کرتا ہے اور ساتھ ہی چند امتیازی حقوق، مسلمانوں سے زیادہ بھی مہیا کرتا ہے اور قومی اسمبلی میں پاکستانی اقلیتی برادری کے لیے سیٹیں بھی مخصوص ہیں۔ اور ویسے بھی پاکستان کے غیر مسلم شہری قانونی اور آئینی طور پر مساوی حقوق انجوائے کرتے ہیں چند ایک چیزوں کے سوا۔ باقی چند شرپسند عناصر کی ہمارے غیر مسلم شہری بھائیوں کے خلاف مجرمانہ حرکتوں اور دہشتگردی پر مبنی اقدامات کو پاکستان کے آئین، قانون اور اکثریتی مسلمانوں کے کھاتے میں نہیں ڈالا جاسکتا ہے۔ ہر ذی شعور ان کا ظالموں کا مخالف ہے۔اور ہاں جو لوگ آئین اور پاکستان کو ہی تسلیم نہیں کرتے اور اعلانیہ برات کا اظہار کرتے ہیں، وہ پاکستان کے مسلم یا غیر مسلم شہری کہلانے کے مستحق بھی نہیں۔

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
92784

خلیج بنگال سے ہواؤں کا نیا سلسلہ داخل، شدید بارشوں کا امکان, 02 اور 03 ستمبر کو چترال سمیت بالائی علاقوں میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش کی پیشگوئی

Posted on

خلیج بنگال سے ہواؤں کا نیا سلسلہ داخل، شدید بارشوں کا امکان, 02 اور 03 ستمبر کو چترال سمیت بالائی علاقوں میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش کی پیشگوئی

 

اسلام آباد( چترال ٹائمزرپورٹ)محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ خلیج بنگال سے ہواؤں کا نیا سلسلہ 2 سے 3 ستمبر کے دوران داخل ہوگا۔مغربی لہر کا ایک الگ سلسلہ ملک کے مغربی حصوں پر اثر انداز ہوگا، چترال سمیت خیبر پختونخوا میں 2 سے 3 ستمبر کے دوران بالائی علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ بارش متوقع ہے جبکہ اسلام آباد اور وسطی و بالائی پنجاب نے مختلف علاقوں میں 2 سے 3 ستمبر کے دوران بارشوں کا امکان ہے۔محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ 3 سے 4 ستمبر کے دوران جنوبی پنجاب میں شدید بارشوں کا امکان ہے جبکہ بلوچستان میں 2 سے 4 ستمبر کے دوران شدید بارشوں کی پیشگوئی کی گئی ہے۔اسی طرح اندرون سندھ میں 3 سے 4 ستمبر کے دوران بارشوں کا امکان ہے جبکہ بارشوں کے باعث بالائی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور نشیبی علاقہ زیر آب آنے کا خدشہ ہے۔

 

محکمہ موسمیات کے مطابق 02 ستمبر سے مرطوب ہوائیں خلیج بنگال سے ملک کے بالائی علاقوں میں داخل ہونے کا امکان ہے۔جبکہ ایک مغربی لہر 02 ستمبر کی شام کو ملک کے مغربی حصوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ جس کے باعث :

 

خیبر پختونخوا: 02سے03 ستمبر کے دوران: چترال، دیر، سوات، کوہستان، شانگلہ، بٹگرام، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور ،بونیر ،مالاکنڈ، باجوڑ، مہمند، خیبر، پشاور، صوابی، نوشہرہ، مردان، چارسدہ، کرم، اورکزئی، کوہاٹ، ہنگو، بنوں، لکی مروت وزیرستان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں تیز ہواؤںاور گرج چمک کےساتھ بارش کا امکان ہے۔ اس دوران چند مقامات پر موسلادھار بارش بھی متوقع۔

 

پنجاب/اسلام آباد: 02سے03 ستمبر کے دوران: اسلام آباد/راولپنڈی، مری، گلیات، اٹک، چکوال، تلہ گنگ، جہلم، منڈی بہاؤالدین، گجرات، گوجرانوالہ، لاہور، شیخوپورہ، سیالکوٹ، نارووال، حافظ آباد، وزیر آباد، ساہیوال، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ننکانہ صاحب، خوشاب، سرگودھا، میانوالی ، چنیوٹ، فیصل آباد، اوکاڑہ، پاکپتن ،قصور اور بھکر میں تیز ہواؤںاور گرج چمک کےساتھ بارش کا امکان۔ اس دوران چند مقامات پر موسلادھار بارش کی بھی توقع۔جبکہ 03سے04 ستمبر کے دوران: بہاولپور، بہاولنگر، خان پور، ڈیرہ غازی خان، ملتان، لیہ ، راجن پور اور رحیم یار خان میں تیز ہواؤںاور گرج چمک کےساتھ وقفے وقفے سے بارش متوقع ہے۔

 

کشمیر: 02ستمبر(رات) سے03 ستمبر کے دوران: کشمیر (وادی نیلم، مظفر آباد،راولاکوٹ، پونچھ، ہٹیاں،باغ،حویلی،سدھنوتی، کوٹلی،بھمبر،میر پور) میں تیز ہواؤںاور گرج چمک کےساتھ بارش کا امکان۔ اس دوران چند مقا مات پر موسلادھار بارش کی بھی توقع ہے۔

 

گلگت بلتستان: 02سے03 ستمبر کے دوران: گلگت بلتستان (دیامیر، استور، اسکردو، گلگت،ہنزہ، گھانچے اورشگر) میں تیز ہواؤںاور گرج چمک کےساتھ بارش کا امکان ہے

 

بلوچستان: 02سے04 ستمبر کے دوران: کوئٹہ، ژوب، سبی، ہرنائی، زیارت، کوہلو، بارکھان، ، لورالائی، شیرانی، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ ،خضدار، قلات، نصیر آباد، آواران اورلسبیلہ اور میں تیز ہواؤںاور گرج چمک کےساتھ بارش کا امکان ہے۔

 

سندھ: 03سے04 ستمبر کے دوران: سکھر، لاڑکانہ، خیرپور، دادو، جیکب آباد، کراچی، حیدرآباد، ٹھٹھہ، بدین، ٹنڈو الہ یار، ٹنڈو محمد خان، تھرپارکر، مٹھی، میرپور خاص، عمرکوٹ اور سانگھڑ میں تیز ہواؤںاور گرج چمک کےساتھ بارش کا امکان ہے۔

 

ممکنہ اثرات اور احتیاطی تدابیر:
02ستمبر(رات) سے03 ستمبر کے دوران:موسلادھار بارش کے باعث مری، گلیات، مانسہرہ، کوہستان، چترال، گلگت بلتستان، دیر، سوات، شانگلہ، نوشہرہ، صوابی، اسلام آباد/راولپنڈی، شمال مشرقی پنجاب اور کشمیر کے مقامی ندی نالوں میں پانی کے بہاؤ میں اضافے کا امکان ہے۔
02ستمبر(رات) سے03 ستمبر کے دوران:موسلادھار بارش کے باعث اسلام آباد/راولپنڈی، گوجرانوالہ، لاہور، شیخوپورہ، قصور، سیالکوٹ، سرگودھا، فیصل آباد، نوشہرہ اور پشاور کے نشیبی علاقوں میں اربن فلڈنگ ہو سکتی ہے۔

لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بالائی خیبرپختونخوا، مری، گلیات، کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں میں سڑکیں بند ہو سکتی ہیں ۔
03 سے 04ستمبر کے دوران: بارشوں کے باعث قلات، خضدار، بارکھان کے مقامی ندی نالوں میں پانی کے بہاؤ میں اضافے اورلینڈ سلائیڈنگ کا خدشہ ہے۔
شدید بارشوں /آندھی/جھکڑچلنے اورگرج چمک کے باعث روزمرہ کے معمولات متاثر ہونے ، کمزور انفرا سٹرکچر ( کچے گھر/دیواریں ،بجلی کے کھمبے،بل بورڈز،گاڑیوں اور سولر پینل وغیرہ)کو نقصان اورسڑکوں کی بندش کا اندیشہ ہے۔

کسان حضرات موسمیاتی پیش گوئی کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے معمولات ترتیب دیں۔
مسافروں اور سیاححضرات سفر کے دوران زیادہ محتاط رہیں اور موسمی حالات کے مطابق اپنے سفر کا انتظام کریں اور بارشوں کے دوران کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لیے موسم کے بارے میں آگاہی حاصل کریں۔

تمام متعلقہ اداروں کو ” الرٹ “رہنے اور کسی ناخشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
92711

دینی مدارس کے اساتذہ اور ملازمین کے حقوق: عملی تجاویز – خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on

دینی مدارس کے اساتذہ اور ملازمین کے حقوق: عملی تجاویز – خاطرات :امیرجان حقانی

 

 

پاکستان کے تعلیمی نظم میں دینی مکاتب و مدارس اور بڑی جامعات نہایت اہم کردار ادا کر رہے ہیں، جہاں لاکھوں طلبہ و طالبات کو دینی تعلیم دی جارہی ہے۔ یہ مدارس و جامعات تمام مسالک کی ہیں جہاں لاکھوں اساتذہ کرام ، معلمین و معلمات اور قراء حضرات کروڑوں طلبہ و طالبات کو تعلیم و تربیت سے منور کررہے ہیں۔

 

مدارس کی افادیت ضرورت و اہمیت اور شاندار خدمات سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا، مگر وقتاً فوقتاً ان اداروں کے نظم و نسق میں اصلاحات کی ضرورت محسوس ہوتی رہتی ہے۔ خاص طور پر اساتذہ کرام اور دیگر ملازمین کے حقوق اور مراعات کے حوالے سے اصلاحات ناگزیر ہیں، تاکہ وہ عزت و وقار کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے سکیں۔

 

 

موجودہ سنگین صورتحال

بدقسمتی سے، دینی مدارس و جامعات میں اساتذہ اور ملازمین کے حقوق کے حوالے سے کوئی واضح اصول و ضوابط موجود نہیں ہیں، مدارس و جامعات کے مہتممین اور منتظمین ہی کا عقل و خیال اور پسند و ناپسند ہی حرف آخر ہوتا ہے ۔ دینی مدارس کے امتحانی بورڈ جیسے کہ وفاق المدارس العربیہ وغیرہ کے منشور و دستور میں بھی اس حوالے سے کوئی خاص قوانین نہیں ملتے، بلکہ اساتذہ کے حوالے سے سرے سے کوئی رہنمائی ہی موجود نہیں۔صاف الفاظ میں کہا جائے تو مہتممین و منتظمین کے حقوق اور پراپرٹی کے دفاع پر مبنی اصول و ضوابط ہیں۔

 

اکثر مدارس و جامعات میں مہتمم حضرات اپنی مرضی سے اساتذہ و ملازمین کی بغیر ٹیسٹ انٹرویو کے تقرری عمل میں لاتے ہیں۔ استاد یا ملازم مقرر کرنے کا واحد طریقہ مہتمم صاحب کی رضامندی اور پسند و ناپسند ہوتی ہے۔ اور ایسے ہی مہتممین کی ناراضگی پر اساتذہ و ملازمین کو فارغ کردیا جاتا ہے ، اور ملازمین کو اپنی شکایت درج کرنے کے لئے کوئی فورم دستیاب نہیں ہوتا۔ ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جہاں طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے اساتذہ کو ایک جھٹکے میں برطرف کردیا گیا، اور ان کے پاس کہیں اپیل کا حق بھی موجود نہیں تھا۔

 

اسلامی نقطہ نظر

اسلام میں ملازمین کے حقوق کی حفاظت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ حضرت محمد ﷺ اور آپ کے خلفاء نے ہمیشہ انصاف پر مبنی طرزِ عمل اپنایا اور ملازمین کے حقوق کی پاسداری کی۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرنی چاہئے، اور کسی بھی ملازم کے ساتھ ناحق یا ظلم کا برتاؤ ممنوع ہے۔

 

فقہ اسلامی کے اصول بہت واضح ہیں۔تو مدارس کے اساتذہ اور ملازمین کے ساتھ اسلامی اصولوں کے مطابق عزت اور وقار کے ساتھ برتاؤ کیا جانا چاہئے۔ جبکہ مدارس میں اساتذہ کا استحصال و استیصال برابر جاری رہتا ہے جس کا ادراک طلبہ و اساتذہ کو بخوبی ہے۔ اور مہتممین و منتظمین اور ان کی اولاد، اساتذہ کرام کو “اجیرخاص” کا طعنہ بھی دیتے ہیں۔ کیا چالیس پچاس سال، تفسیر قرآن، حدیث رسول، فقہ اسلامی اور دیگر مشکل فنون و علوم پڑھانے اور قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند کرنے والے مخلص لوگوں کو یہ طعنہ دینا جانا چاہیے؟۔

 

آئینی اور قانونی تحفظ

پاکستان کا آئین اور ملکی قوانین ملازمین کے حقوق کی حفاظت کے لئے واضح اصول فراہم کرتے ہیں۔ دینی مدارس میں بھی ان قوانین کو نافذ کیا جانا چاہئے تاکہ اساتذہ اور دیگر ملازمین کے حقوق محفوظ رہ سکیں۔ اسی طرح ہی مدارس قومی دھارے میں شامل ہوسکتی ہیں۔
اس ضمن میں قومی اسمبلی سے ایک جامع ایکٹ پاس کیا جانا چاہئے جو مدارس کے ملازمین کے تقرری، برخاستگی، تنخواہوں، مراعات اور دیگر حقوق و فرائض کے حوالے سے قانونی تحفظ فراہم کرے۔ اور اس قانون سے کوئی مدرسہ یا مہتمم ماورا نہ ہو۔ سب مدارس پر برابر لاگو ہو۔ دینی مدارس و جامعات قطعا ملکی قوانین سے مبرا نہیں۔

 

اصلاحات کی تجاویز

مدارس و جامعات میں انتظامی اور نصابی حوالے سے بڑے پیمانے پر بہترین اصلاحات کی ضرورت ہے، تاہم آج ہم صرف اساتذہ و ملازمین کے حوالے سے چند اصلاحاتی تجاویز پیش کرتے ہیں، تاکہ بہتری کے سفر میں فکری و عملی اقدامات کا آغاز ہوسکے۔

 

1. ملازمت کا معاہدہ

تمام ملازمین، بشمول اساتذہ، کو ایک تحریری معاہدہ فراہم کیا جائے جس میں ان کے حقوق، فرائض، تنخواہ اور ملازمت کی شرائط وضاحت سے بیان کی جائیں۔ اس معاہدے میں تقرری کے عمل، برخاستگی کے طریقہ کار، اور مراعات کا ذکر ہونا چاہئے۔ اور اس معاہدہ کو قانونی تحفظ حاصل ہو۔ فریقین معاہدہ کا پابند ہوں۔

 

2. تنخواہ کا نظام

اساتذہ کی تنخواہوں کے حوالے سے ایک معیاری اور منصفانہ نظام وضع کیا جائے، جو ان کی تعلیم، تجربہ، اور ذمہ داریوں کے مطابق ہو۔ اس نظام میں اضافی مراعات اور سہولیات بھی شامل ہوں تاکہ اساتذہ مالی طور پر مستحکم رہ سکیں۔ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنا غیر قانونی ہونے کیساتھ غیر اخلاقی و اسلامی بھی ہے۔

 

3. وفاق المدارس کے دستور میں تبدیلی

مدارس و جامعات جن وفاق المدارس بورڈز سے ملحق ہیں، ان کے دستور میں اساتذہ اور ملازمین کے حقوق کو واضح طور پر شامل کیا جائے۔ اور دستور میں تبدیلی کرکے ان بورڈز کے بڑے علماء کی سطح پر ایک فورم قائم کیا جائے جہاں اساتذہ اپنے مسائل اور شکایات درج کرسکیں اور ان کا منصفانہ حل نکالا جاسکے۔ بدقسمتی سے مدارس کے بورڈز کا دستور و منشور اساتذہ و ملازمین کے حقوق کے حوالے سے خاموش ہے۔ یہ مجرمانہ خاموشی بھی اسلام اور قانون کے خلاف ورزی ہے۔

 

4. قانونی اپیل کا حق

اساتذہ اور ملازمین کو برطرف کیے جانے کی صورت میں ایک مضبوط اپیل کا حق دیا جائے۔ دستوری طور پر اپیل کا یہ فورم وفاق المدارس کے بڑے علماء پر مشتمل ہونا چاہئے تاکہ اساتذہ کو انصاف مل سکے۔اعلی سطح فورم کے ذریعے مدارس و جامعات کے اساتذہ کیساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا جاسکے اور ان کی اپیل سن کر قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلہ صادر کیا جائے ۔اس پر عمل نہ کرنے والے مدارس کا فوری رجسٹریشن منسوخ کیا جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ، انہیں پاکستانی عدالتوں سے رجوع کرنے کا بھی حق دیا جائے تاکہ ان کے حقوق کا قانونی تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔

 

5.اساتذہ کی یونین کا قیام

ملک بھر کی مدارس و جماعت کے اساتذہ کی ایک طاقتور یونین کا قیام نہایت ضروری ہے۔ یونین کا قیام اساتذہ کا آئینی حق ہے جس کو روکا نہیں جاسکتا ہے۔
یہ یونین اساتذہ کے حقوق کے تحفظ کے لئے آواز اٹھائے اور کسی بھی زیادتی کی صورت میں ان کا دفاع کرے۔ یونین کا قیام اساتذہ کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ اور اسی طرح اس کے ذریعے مدارس کے مہتممین و منتظمین اور منسلک بورڈ کو بھی شفافیت کیساتھ اصول و ضوابط اور قوانین پر عمل پیرا کروانے کے لیے کوشش کیا جائے۔

 

خلاصہ کلام

دینی مدارس کے اساتذہ اور ملازمین کے حقوق کا تحفظ نہ صرف ان کی عزت و وقار کا مسئلہ ہے بلکہ اسلامی تعلیمات اور ملکی آئین کی روح کے عین مطابق ہے۔ یہ حقوق وہ بنیادی ستون ہیں جن پر ایک منصفانہ اور متوازن تعلیمی نظام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے مدارس کے نظام میں ایسی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے جو نہ صرف ان معزز اساتذہ اور کارکنان کو تحفظ فراہم کریں بلکہ ان کی خدمات کا اعتراف بھی ہو۔

 

قومی اسمبلی کو اس اہم مسئلے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے ایک جامع قانون سازی کرنی چاہئے جو اساتذہ کے تقرری، برخاستگی، تنخواہوں، اور مراعات کے حوالے سے واضح اصول وضع کرے۔ یہ قانون سازی اس بات کی ضامن ہونی چاہئے کہ مدارس کے اساتذہ کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو اور ان کے حقوق ہر حال میں محفوظ رہیں۔ اسی طرح، مدارس کے وفاقی بورڈز کو اپنے منشور میں اساتذہ اور ملازمین کے حقوق کو شامل کرنا چاہئے، اور ایک ایسا اعلیٰ سطحی فورم تشکیل دینا چاہئے جہاں اساتذہ اپنی شکایات اور مسائل پیش کرسکیں اور ان کا منصفانہ حل نکالا جا سکے۔

 

مزید برآں، اساتذہ کی ایک طاقتور اور منظم یونین کا قیام بھی ضروری ہے، جو ان کے حقوق کے لئے مضبوط آواز اٹھائے اور کسی بھی قسم کی ناانصافی کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہو۔ یہ یونین نہ صرف اساتذہ کے مسائل کے حل میں مددگار ہوگی بلکہ ان کے حقوق کے تحفظ کا بھی ضامن ہوگی۔

 

ان اقدامات سے نہ صرف دینی مدارس کے اساتذہ اور ملازمین کے حقوق کو تحفظ ملے گا بلکہ مدارس کے نظام میں شفافیت اور انصاف کو بھی فروغ ملے گا۔ یہ اصلاحات اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہوں گی اور ہمارے معاشرے میں عدل و انصاف کی فضاء کو مضبوط کریں گی۔ اس طرح، دینی تعلیم کے معیار میں بھی بہتری آئے گی، اور ہمارے اساتذہ اپنے فرائض کو مزید لگن اور اعتماد کے ساتھ ادا کر سکیں گے۔ اس سفر میں ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایک مضبوط، منصفانہ، اور قابلِ احترام نظام ہی ایک مضبوط قوم کی بنیاد بن سکتا ہے، اور مدارس کے اساتذہ اس بنیاد کے معمار ہیں۔

 

 

 

 

Posted in گلگت بلتستان, مضامینTagged
92682

پیسہ: سب کچھ نہیں، لیکن بہت کچھ ہے۔ خاطرات : امیرجان حقانی

Posted on

پیسہ: سب کچھ نہیں، لیکن بہت کچھ ہے۔ خاطرات : امیرجان حقانی

 

دنیا کا ہر شخص اپنی زندگی میں کسی نہ کسی مرحلے پر پیسے کے بارے میں سوچتا ہے۔ یہ سوچ بچپن سے شروع ہو کر بڑھاپے تک جاری رہتی ہے۔ پیسہ کمانے کی جدوجہد، اسے سنبھالنے کی فکر، اور اس کے بغیر زندگی کے چیلنجز سبھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پیسہ انسانی زندگی میں ایک اہم عنصر ہے۔

 

 

یہ بات آج سے 16 سال پہلے کراچی کے ایک انگلش لینگویج سینٹر میں ہونے والی ایک دلچسپ ڈیبیٹ میں بھی واضح ہوئی، جس کا موضوع تھا:
“Money is everything or not ? ”
اس بحث میں طلبہ و طالبات نے بھرپور حصہ لیا اور زیادہ تر کا موقف تھا کہ “پیسہ سب کچھ ہے۔” تاہم، میں نے اس کے برعکس دلائل دیے اور کہا کہ
“Money is not everything but something.”
آخر کار، ہماری میڈم نے میرے دلائل کو سراہا اور فیصلہ سنایا کہ “پیسہ سب کچھ نہیں، لیکن بہت کچھ ہے۔”

 

 

آج 14 سال بعد، عملی زندگی کے تجربات سے میری ساچ میں تھوڑی تبدیلی آئی، آج بھی میں یہی سمجھتا ہوں کہ پیسہ سب کچھ نہیں تاہم پیسہ انسان کی زندگی کے ہر مرحلے میں بہت اہم ہے۔زندگی کے ہر معاملے میں پیسہ کی اہمیت و ضرورت کا اندازہ خوب ہوجاتا ہے، چاہے وہ تعلیم ہو، صحت، معاشرتی زندگی یا مذہبی فرائض۔ یہاں تک کہ خدا کا گھر یعنی مسجد بھی پیسہ کے بغیر ادھوری ہے۔

 

اسلام آفاقی اور انسانی فلاح کا دین ہے، اسلام نے پیسہ کی اہمیت کو کبھی نہیں جھٹلایا بلکہ اسے صحیح طریقے سے کمانے اور خرچ کرنے کی تعلیم دی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“اللہ تمہیں اپنی بخشش سے زیادہ عطا فرمائے گا اور تمہیں اموال سے نوازے گا۔” (النساء: 32)

 

 

یہ آیت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اللہ کی جانب سے دی گئی دولت ایک نعمت ہے، جسے صحیح طریقے سے استعمال کرنے کا حکم دیا گیا ہے
اسی طرح، ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“وہ شخص خوش نصیب ہے جو اپنا پیسہ جائز طریقے سے کمائے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔” (ترمذی)

یہ حدیث ہمیں اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ پیسہ کمانا اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا نیکی اور بھلائی کا ذریعہ ہے۔

 

جب ہم عملی زندگی میں پیسہ کی اہمیت کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ کوئی بھی شعبہ پیسہ کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ تعلیم کے میدان میں بہترین اداروں میں داخلہ لینے کے لیے پیسہ درکار ہے۔ صحت کے شعبے میں بہترین علاج اور ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے پیسہ ہونا ضروری ہے۔

حتیٰ کہ دینی فرائض جیسے حج، زکات، اور صدقہ کے لیے بھی پیسہ درکار ہوتا ہے۔ حج کا فریضہ صرف ان لوگوں پر فرض ہے جو اس سفر کی استطاعت رکھتے ہوں۔ اسی طرح زکات کا حکم بھی ان پر ہے جن کے پاس نصاب کے مطابق پیسہ ہو۔

 

سماجی زندگی میں پیسہ کا کردار بہت اہم ہے۔ آج کے دور میں، لوگ اکثر دوسرے لوگوں کی عزت اور مقام کا تعین ان کے مال و دولت کے مطابق کرتے ہیں۔ شینا زبان کی ایک معروف کہاوت ہے کہ “غریب مولوی کا فتویٰ بھی ناقابل قبول ہے۔” یہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ معاشرتی حیثیت بھی پیسہ کے بغیر کمزور ہو جاتی ہے۔

 

 

پیسہ سب کچھ نہیں ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیسہ زندگی کے بیشتر معاملات میں بہت کچھ ہے۔ بغیر پیسہ کے، زندگی کی گاڑی چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہمیں پیسہ کو ایک نعمت سمجھنا چاہیے اور اسے صحیح مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

 

آج کے دور میں، جب لوگ عام محافل میں پیسہ اور دنیا پر لعن و طعن کرتے ہیں، وہی لوگ خلوتوں میں پیسہ ہی ڈسکس کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پیسہ کی قدر ہر کوئی جانتا ہے، اور جب پیسہ نہیں ہوتا، تب اس کی اہمیت اور زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اسی لیے، ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ پیسہ نہ تو سب کچھ ہے اور نہ ہی کچھ بھی نہیں، بلکہ یہ زندگی کے بہت سے پہلوؤں کے لیے ناگزیر ہے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
92507

تعصبات کے دلدل میں پھنسا گلگت بلتستان – خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on

تعصبات کے دلدل میں پھنسا گلگت بلتستان – خاطرات :امیرجان حقانی

 

تعصب زہر قاتل ہے۔ یہ ایک ایسی لعنت ہے جو معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے، انسانوں کے درمیان محبت، اعتماد اور بھائی چارے کو ختم کر دیتی ہے۔ گلگت بلتستان جیسے خوبصورت علاقے میں، جہاں قدرتی حسن اپنی مثال آپ ہے، بدقسمتی سے مذہبی، قبائلی، اور علاقائی تعصبات نے نہ صرف یہاں کے لوگوں کو تقسیم کر رکھا ہے بلکہ معاشرتی ترقی کو بھی روکا ہوا ہے۔ اسی تعصب نے گلگت بلتستان کی انتظامیہ، سیاست، علاقے اور قبائل کو نفرت کی انگیٹھی میں دھکیل رکھا ہے. مسجد و منبر کے رکھوالوں سے لے کر پارلیمان و اداروں اور محکموں تک کو نفرت کی آماجگاہیں بناکر رکھ دیا ہے. بڑے عہدوں پر براجمان لوگ تو دن رات مذہبی، اور قبائلی تعصب میں غرق ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو سماج کے اہم عہدوں پر فائز ہو کر معاشرتی استحکام کے لیے کام کرنا چاہیے تھا، وہ خود مذہبی اور قبائلی تعصبات میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

 

مذہبی تعصب دین اسلام کی بنیادی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرمایا: “اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو” (آل عمران: 103)۔ اس آیت میں اتحاد اور یکجہتی کی تاکید کی گئی ہے، مگر جب ہم مذہب کو فرقوں میں تقسیم کر دیتے ہیں، اور پھر ان فرقوں کی اجارہ داری کے لیے دن رات جُتے رہتے ہیں، تو نہ صرف ہم اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ معاشرتی امن کو بھی تباہ کر دیتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں مذہبی تعصب نے مساجد کو بھی نفرت کا گڑھ بنا دیا ہے۔ عبادت کے مقامات جو دلوں کو سکون فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے، وہ اب تفرقہ اور نفرت کے مراکز بن چکے ہیں۔ اب تو حال یہ ہے کہ مساجد میں مذہبی تعصب سے ایک قدم آگے قبائلی و علاقائی تعصب نے بھی خوب جگہ بنالی ہے۔تیرے قبیلے کا امام اور میرے قبیلے کا خطیب جیسی چیزیں عام ہیں۔

 

قبائلی تعصب انسانی تاریخ کا ایک قدیم مسئلہ ہے، مگر اسلام نے اس کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں” (مسند احمد)۔ اس حدیث کے مطابق، تمام انسان برابر ہیں اور کسی قسم کی قبائلی یا نسلی برتری کا تصور اسلام میں نہیں پایا جاتا۔ مگر گلگت بلتستان میں شین، یشکن، ڈوم، کمین، کشیرو، اور کولوچو جیسے قبائلی تعصبات نے لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔ یہ تعصبات نہ صرف سماجی ہم آہنگی کو تباہ کر رہے ہیں بلکہ انتظامی و سیاسی نظام میں بھی رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔ انتظامی اور سیاسی عہدوں پر براجمان لوگ دن رات انہیں خرافات میں لتھڑے ہوئے ہیں۔

 

گلگت بلتستان میں علاقائی تعصب بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جو معاشرتی تقسیم کا سبب بنتا ہے۔ یہ لوگوں کے درمیان اختلافات اور دشمنی کی فضا پیدا کرتا ہے، جو علاقے کی مجموعی ترقی اور استحکام کے لیے نقصان دہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں اس لیے تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو” (الحجرات: 13)۔ اس آیت کا مقصد یہ تھا کہ لوگ ایک دوسرے کی شناخت کریں اور آپس میں تعلقات کو مضبوط کریں، مگر جب علاقائی تعصب کو فروغ دیا جاتا ہے، تو یہ قرآن کے اس مقصد کے خلاف ہوتا ہے۔ تاہم ہمارے ہاں گلگت بلتستان میں بڑی سطح سے لے کر نچلی سطح تک یہ کلچر بنا ہے کہ دوسرے علاقوں اور اضلاع کو بدنام کرنے کا اور سماجی و اخلاقی اور انتظامی طور پر نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے، یہ ایک خطرناک المیہ ہے ۔

 

یہ حتمی بات ہے کہ کسی بھی قسم کا تعصب سماجی تانے بانے کو بکھیر دیتا ہے۔ یہ محبت، بھائی چارے، اور اعتماد کو ختم کر دیتا ہے، اور لوگوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے اور لوگوں کے درمیان دشمنی اور اختلافات بڑھ جاتے ہیں۔ انتظامی اور سیاسی نظام میں تعصب کی مداخلت سماجی انصاف اور ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔ تعصب کے باعث لوگ آپس میں مل جل کر کام کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں، جس سے معاشرتی ترقی رک جاتی ہے۔ اور المیہ تو یہ ہے کہ سماج کی اصلاح کے لیے کوئی منظم کوشش نہیں، اور تو اور مساجد و تربیت گاہوں میں بھی اس کا کوئی کلچر نہیں ۔ ہر کسی کو سانپ سونگھا ہوا ہے بلکہ علماء، اساتذہ، قلم کار اور صحافی تک اس دلدل میں پاؤں تک پھنسے ہوئے ہیں ۔

 

تعصب ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ اس زہر کا خاتمہ کرنے کے لیے ہمیں دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہوگا اور اتحاد و یگانگت کو فروغ دینا ہوگا۔ مذہبی، قبائلی، اور علاقائی تعصبات کو ختم کیے بغیر ہم ایک مضبوط اور ترقی یافتہ معاشرہ قائم نہیں کر سکتے۔ اس کے بغیر ہم ہمیشہ ایک بکھرے ہوئے اور کمزور معاشرے میں ہی زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
92471

گلگت بلتستان: وفاداری کے بدلے میں انصاف کی ضرورت – خاطرات: امیرجان حقانی

Posted on

گلگت بلتستان: وفاداری کے بدلے میں انصاف کی ضرورت – خاطرات: امیرجان حقانی

 

گلگت بلتستان کے لوگوں کے لیے ایک اہم سوال یہ ہے کہ ان کا وطن کہاں ہے؟ اگرچہ وہ خود کو پاکستان کا حصہ تصور کرتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی اور محبت کا اظہار کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان ان کا اصل وطن ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں وہ پیدا ہوئے، پلے بڑھے، اور جہاں ان کے آباواجداد کی قبریں ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں کی مٹی، دریا، پہاڑ اور ہوائیں ان کی شناخت کا حصہ ہیں۔گلگت اور بلتستان کے لوگوں کا ہزاروں سال سے اپنی وطن مالوف کیساتھ گہرا تعلق اور جذباتی وابستگی ہے۔اور یہ وابستگی کسی مفاد یا معاہدہ کا مرہون منت نہیں، یہ مکمل فطری ہے۔

 

پاکستان کی ریاست سے ان کا تعلق ایک مفاداتی تعلق ہے، یہ تعلق ریاست پاکستان کے وجود ممیں آنے کے بعد بنا ہے۔ پاکستان ایک قومی ریاست ہے جس کا وجود 1947 کو ممکن ہوا ہے۔اور گلگت بلتستان کا پاکستان کے ساتھ ساتھ تعلق نومبر 1947 اور اگست 1948 کو کچھ امیدوں، مفادات اور ھمدردی اور دینی جذبے کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔

 

قومی ریاستوں کے ساتھ ان کے شہریوں اور یونٹس کا تعلق آئینی معاہدہ کے تحت طے پاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ریاست اپنے شہریوں کے حقوق تسلیم کرتی ہے، اور بدلے میں شہری اپنی کچھ آزادیاں اور وفاداریاں ریاست کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ تاہم، گلگت بلتستان کی ایک منفرد حیثیت ہے، کیونکہ وہ اب تک پاکستان کے آئینی ڈھانچے میں شامل نہیں ہے۔ یہ ایک معاہدہ کی غیر موجودگی کا نتیجہ ہے، جو گلگت بلتستان کے لوگوں کو تحریری حقوق سے محروم رکھتا ہے اور ان کی وفاداریوں کو تسلیم کرنے میں تاخیر کا باعث بنتا ہے۔ گلگت بلتستان کا پاکستان کے آئینی ڈھانچے میں شامل نہ ہونے کی کچھ وجوہات بین الاقوامی ہیں، کچھ انڈیا کی ہٹ دھڑمی ہے اور کچھ اپنوں کی بے رعنائیاں ہیں۔

 

اس صورتحال میں، یہ ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے عوام کے دلوں کو جیتے اور ان کی خدمات اور قربانیوں کا اعتراف کرے۔ صرف وفاداری اور قربانیوں کی توقع کرنا اور بدلے میں لولی پاپ دینا ناانصافی ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگ پاکستان کے لیے جانیں قربان کرتے ہیں، لیکن ان کے بدلے میں ان کے حقوق کی عدم تسلیم، ان کی قربانیوں کو بے وقعت بناتا ہے۔

 

ریاست پاکستان کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور گلگت بلتستان کے لوگوں کو وہ سہولیات اور مراعات فراہم کرنی ہوں گی جو وہ مستحق ہیں۔ یہ نہ صرف ان کے حقوق کا اعتراف ہوگا بلکہ ان کی وفاداریوں کا صحیح معنوں میں اعتراف بھی ہوگا۔ پاکستان کے ساتھ گلگت بلتستان کا تعلق مضبوط تر تبھی ہوسکتا ہے جب ریاست اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دے اور ان کے جذباتی تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی ضروریات کا خیال رکھے۔

 

گلگت بلتستان کے لوگوں کی دلجوئی اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے کہ ان کو قانونی، آئینی اور عملی طور پر پاکستان کے شہری کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ یہ ایک نہایت اہم اقدام ہوگا جو نہ صرف گلگت بلتستان کے لوگوں کو ان کا حق دلائے گا بلکہ ریاست پاکستان کی ساکھ کو بھی مستحکم کرے گا۔ اگر سردست ایسا کرنا ناممکن ہے تو بہترین سہولیات اور گڈ گورننس اور گلگت بلتستان کے لوگوں کی معیار زندگی بہتر بنانے میں تو انڈیا یا بین الاقوامی طاقتیں رکاوٹ نہیں، لہذا اس پر فوکس کیا جائے۔

 

یہ وقت ہے کہ ریاست پاکستان گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ اپنے تعلقات کو از سر نو دیکھے اور ان کو وہ مقام دے جو وہ حق رکھتے ہیں۔ صرف زبانی وفاداریوں کی توقع رکھنا اور ان کی خدمات کو نظرانداز کرنا ایک ایسی ناانصافی ہے جو ریاست کی ساکھ اور گلگت بلتستان کے عوام کی عزت نفس کو مجروح کرتی ہے۔ اس کے لیے فوری طور پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ دونوں طرف سے ایک مضبوط اور پائیدار رشتہ قائم ہو سکے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
92247

پاکستان کا برفانی چیتے کو موسمیاتی موافقت کی بین الاقوامی علامت قرار دینے کا عزم

Posted on

پاکستان کا برفانی چیتے کو موسمیاتی موافقت کی بین الاقوامی علامت قرار دینے کا عزم

اسلام آباد،(چترال ٹائمزرپورٹ ) پاکستان وائلڈ لائف پروٹیکشن ایوارڈز 2024 کی تقریب میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر رومینا خورشید عالم نے برفانی چیتے کو پہاڑی ماحولیات اور آب و ہوا کے موافقت کی بین الاقوامی علامت کے طور پر نامزد کرنے کے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ یہ اعلامیہ آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے اور اپنی منفرد جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قوم کے عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔

 

اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے موسمیاتی تبدیلی (یو این ایف سی سی سی) کا آئندہ COP29 11-22 نومبر، 2024 کو آذربائیجان کے شہر باکو میں شیڈول ہے ۔جو برفانی چیتے کو اعلی پہاڑی ماحولیات اور آب و ہوا کے موافقت کی عالمی علامت کے طور پر فروغ دینے کا ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔
مارچ 2024 میں سمرقند میں 8 ویں عالمی برفانی چیتے اور ماحولیاتی نظام تحفظ پروگرام (جی ایس ایل ای پی) اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس کے دوران کمیٹی نے اونچے پہاڑی ماحولیاتی نظام میں برفانی چیتے کی اہمیت کا اعادہ کیا۔ اس دوران اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل سے برفانی تیندوے کو اونچے پہاڑی ماحولیات اور آب و ہوا کے موافقت کی ایک طاقتور بین الاقوامی علامت کے طور پر باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کی درخواست کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

 

ایشیا کے اونچے پہاڑجنہیں اکثر “زمین کا تیسرا قطب” کہا جاتا ہے، دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں کے مسکن ہیں اور شمالی نصف کرہ سے دوگنا شرح سے گرمی کا سامنا کر رہے ہیں ۔ یہ تیز گرمی ہمالیہ ، ہندوکش ، پامیر ، تیان شان ، الٹائی پہاڑ اور تبتی سطح مرتفع سمیت تمام خطوں میں گلیشیئرز اور ماحولیاتی نظام کو متاثر کر رہی ہے ۔ پاکستان جو آب و ہوا کی تبدیلی کے سب سے زیادہ خطرے والے پانچ ممالک میں سے ایک ہے اور اسی ہزار مربع کلومیٹر کے برفانی چیتے کے مسکن کا محافظ ہے ، گذشتہ دو دہائیوں کے دوران گلیشیئر ز کو شدید متاثر ہوتے ہوئے دیکھا ہے جس سے زراعت ، پانی کی فراہمی ، پن بجلی اور جنگلی حیات کے مسکن بھی متاثر ہوئے ہیں۔

رومیناخورشید عالم نے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آب و ہوا کی تبدیلی ہمارے ماحولیاتی نظام اور جنگلی حیات کے لیے ایک اہم خطرہ ہے ۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور شدید موسمی واقعات جنگلی حیات کے رہائش گاہوں کومتاثر کر رہے ہیں اور کمزور انواع پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ہمیں اپنی تحفظ کی کوششوں کو مضبوط کرنا چاہیے اور ان اثرات کو کم کرنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ رومینا نے مزید کہا کہ برفانی چیتے کو آب و ہوا کی تبدیلی کی موافقت کی بین الاقوامی علامت کے طور پر تسلیم کرنے سے فطرت کے ساتھ پائیدار اور ہم آہنگ ترقی کا مظاہرہ کرنے والی قوم کے طور پر پاکستان کا امیج عالمی سطح پر بہتر ہوگا۔

سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد علی نواز نے برفانی چیتے کو بین الاقوامی علامت کے طور پر تسلیم کرنے کی اعلی حکومتی سطح پر اقدامات اٹھانے کو شاندار انداز میں سراہتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے جاری کوششوں کو دوام ملے گا۔انھوں نے کہا کہ 2007 میں ایس ایل ایف پاکستان کے سائنسدانوں نے چترال میں ایک برفانی تیندوے پر تجربہ کیا تھا جس نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان 1,600 مربع کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔ جس سے یہ معلوم ہوا کہ وہ بیک وقت کئی ممالک کے سرحدوں میں آتا جاتا رہتا ہے جس سے پہلی بار باقائدہ سرحد پار تحفظ کی کوششوں کی ضرورت کا بھی ادراک ہوا۔

ڈاکٹر نواز نے 2013 میں جی ایس ایل ای پی (GSLEP)کے قیام پر بھی روشنی ڈالی جو 12 ممالک (افغانستان، بھوٹان ، چین، ہندوستان، قازقستان، کرغیز جمہوریہ، منگولیا، نیپال، پاکستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان) کا اتحاد ہے اور برفانی چیتوں اور ان کے رہائش گاہوں کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔ اس عالمی فورم میں پاکستان کا کردار جنگلی حیات کے تحفظ میں اس کی قائدانہ کردار کی نشاندہی کرتا ہے۔

جی ایس ایل ای پی اور جنگلی حیات کے سفیر سردار جمال خان لغاری نے اس اقدام کے بارے میں امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے برفانی چیتے کے تحفظ کی کوششوں کو تقویت ملے گی اور پائیدار ترقی میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی حیثیت سے پاکستان کی ساکھ میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے “تھرڈ پول” خطے میں آب و ہوا کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

انہوں نےمزید کہا کہ برف سے ڈھکی چوٹیوں کے قریب رہنے والے برفانی چیتے صحت مند پہاڑی ماحولیاتی نظام ، آب و ہوا اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی علامت ہیں۔ وہ میٹھے پانی کی فراہمی اور کاربن کو الگ کرنے جیسی ضروری ماحولیاتی نظام کی خدمات فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جس سے اربوں لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔

پاکستان اپنی قومی موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی کے لیے پرعزم ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے، زمینی انحطاط کو روکنے اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی کوششوں کے ساتھ اقتصادی ترقی کو متوازن کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
92164

داریل کا سیاسی منظر نامہ ۔ تحریر: ثمر خان ثمر 

داریل کا سیاسی منظر نامہ ۔ تحریر: ثمر خان ثمر

داریل کے سیاسی اُفق پرکئی ستارے نمودار ہوئے، کئی ایک جگممگانے کی تگ ودو میں رفتہ رفتہ غروب ہوگئے ، سیاسی اُفق پر اپنا جلوہ دکھانے کی حسرت لیے راہی ملک عدم ہوئے ، کئی اس دوڑ میں آج بھی دوڑ رہے ہیں پر منزل ابھی کافی دور نظر آتی ہے۔ حاجی جان عالم پھوگچی مرحوم کا نام لیے بنا داریل کی سیاست کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ اُن کا گھرانہ سیاسی تھا ، اس گھرانے نے صاف شفاف سیاست کی لیکن بدقسمتی سے حاجی صاحب کے انتقال کے بعد یہ گھرانہ سیاست سے کنارہ کش ہوا۔ جانے کیا بات ہوئی کہ یہ خاندان سیاسی تاریخ اور بہترین ساکھ رکھنے کے باوجود سیاست سے الگ ہوگیا۔ ان کے ہم نام حاجی جان عالم منیکالی نے سیاست میں قدم رکھا ، کافی ہلچل مچائی ، ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور یوں یہ ستارہ بھی ٹمٹماتے ٹمٹاتے بجھ گیا۔ ڈاکٹر محمد زمان صاحب نے  2015 میں پہلی بار سیاست میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا، ان کی انٹری سے داریل کے سیاسی اکھاڑے میں ایک طوفان آیا۔ تُندی اور تیزی آئی ، ڈاکٹر صاحب کاویژن نوجوان نسل کو متاثر کرنے لگا ، خود میں نے انھیں ووٹ دیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ ان کے مزاج میں عجلت کا عنصر نمایاں ہے۔ برسوں کا کام مہینوں میں ، مہینوں کا دنوں اور دنوں کا گھنٹوں میں کرنا چاہتے ہیں اور یہ بات قطعاً ممکن نہیں ہے۔ وہ سیاسی اکھاڑے میں اُترنے والے ناتجربہ کار پہلوان تھے اور ان کا سامنا دو گھاگ پہلوانوں سے ہوا تھا جو سیاست کے ہر داؤپیچ کو بہ خوبی جانتے تھے۔ خیر ہار گئے لیکن سُرخیوں میں رہے۔ کچھ نامساعد حالات کی وجہ سے واپس سعودیہ جانا پڑا ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر پانچ سال یہاں جم کر لوگوں کی خدمت بجا لاتے تو آمدہ الیکشن میں جیت بھی سکتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب آج بھی سیاست کے میدان میں نظر آتے ہیں ۔ ملک ٖ غفار خان صاحب بھی کافی عرصے سے قسمت آزمائی کررہے ہیں ، دو بار الیکشن لڑا ، اچھے خاصے ووٹ بھی لیے۔اب دیکھئے ان کا سیاسی مستقبل کتنا تابناک ہے؟
درحقیقت داریل کی سیاست اس وقت دو خاندانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ یہ دو خاندان یہاں کی سیاست کے قطب ہیں۔ ان کے گرد داریل کی سیاست گھومتی ہے۔ گزشتہ تیس برسوں سے باری باری یہ دو خاندان اقتدار پر قابض ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ انھیں ہرانا ناممکن ہے ہاں یہ کہہ سکتا ہوں انتہائی مشکل ضرور ہے۔ سیانے تو کہتے ہیں داریل کی سیاست “دوبیر” ہے ، “سہ بیر” کے امکانات فی الحال دکھائی نہیں دیتے ۔ ان کی عظیم خدمات ہیں۔ عوام کے اندر ان کی گہری جڑیں ہیں۔ یہ جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اکھاڑ پھینکنا محال ہے۔ تقریباً اسی فیصد لوگ ان دو خاندانوں میں بٹے ہوئے ہیں اور باقی بیس فیصد دوسرے اُمیدواروں میں منقسم ہیں۔ یہ میرا اندازہ ہے ، ہو سکتا ہے میں غلط ہوں۔ حاجی حیدر خان صاحب اور حاجی رحمت خالق صاحب ان دو خاندانوں کے چشم و چراغ ہیں۔ یہ دو اس وادی کی ہردلعزیز شخصیات ہیں۔ انھوں نے سیاسی مخالفت میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی لیکن اقدار کو سلامت رکھا۔ اقدار اور روایات کو پامال ہونےنہیں دیا۔ انتخابی مہم کے دوران ایک دوسرے کو نرم گرم بھی کہا مگر ذاتیات پر لے کر نہیں گئے۔ یہ تو سیاست دانوں کا وتیرہ رہا ہے کہ عوامی جلسوں میں ایک دوسرے کے خلاف زبانیں آگ اُگلتی ہیں اور بند کمروں میں پھول جھڑتی ہیں۔ مطلب جلوتوں اور خلوتوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے لیکن سادہ لوح لوگ اس بات کو اپنی انا کا مئلہ بنا کر خونی رشتوں اور ناطوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ ان دو میں سے ایک آج سیاسی اکھاڑے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ رہا ہے۔  جی ہاں حاجی حیدر خان صاحب!
حاجی حیدر خان صاحب نے آج گماری داریل میں اپنے کارکنوں کے جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے سیاست سے سبک دوشی کا اعلان کیا اور اپنے کارکنوں سے نیا لیڈر منتخب کرنے کی درخواست کی ۔کارکنوں نے یک آواز ہو کر نوجوان لیڈر محمد نسیم کو حاجی حیدر خان کا جانشین مقرر کیا۔ وہ ایک ابھرتے ہوئے نوجوان لیڈر ہیں۔ حاجی حیدر خان صاحب کا سیاسی کیریئر تین دہائیوں پر مشتمل ہے۔ یہ کوئی چھوٹا موٹا عرصہ نہیں ہوتا ، ایک عمر ہوتی ہے۔ اس دوران ایک بچہ خود کئی بچوں کا باپ بن جاتا ہے  پہلی بار 1994 میں سیاست میں قدم رکھا اور پہلی ہی بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور انھیں مشیر جنگلات کا قلمدان سونپ دیا گیا۔  1999 میں شکست ہوئی ،  2005 میں ایک بار پھر جیت گئے ،  2010 میں ہار گئے ، 2015 میں فاتح قرار پائے  اور منسٹر ایکسائز بنے۔  2020 میں شکست ہوئی اور دو سال معاون خصوصی کے طور پر کام کیا۔  تین دہائیوں میں تین باریاں لیں۔اُن کے دور میں کافی ترقیات کام ہوئے۔ چند ایک یہ ہیں:  منیکال گبر روڈ ، تبوڑے روڈ  ،ہائر سکینڈری سکول گماری ، پبلک سکول داریل ، نادرا آفس ،تیس بیڈ ہسپتال گماری ،ڈوڈشال ، پھوگچ ، سمیگال اور پدیال ہائی اسکولز ،  کئی پرائمری اسکولز ، ٹی ٹی لائن ، گندم گودام ، لنک روڈز اور سوت چینل پچاس لاکھ فنڈ ؤغیرہ۔  چھوٹی بڑی درجنوں اسکیمیں حاجی صاحب نے داریل کے لئے اپنے دور اقتدار میں رکھی ہیں جن سے آج لوگ مستفید ہورہے ہیں۔ ان کی گران قدر خدمات ہیں ۔ان شاءاللہ عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
کشادہ  پیشانی ،گول مٹول چہرہ اور روشن آنکھیں ، وہ بھاری بھرکم جسامت کے آدمی ہیں۔ چیرے پر بشاشت ہمہ وقت تیرتی رہتی ہے۔ وہ جتنے بھاری بھرکم ہیں اتنے ہی کشادہ دل ہیں۔ مزاج میں ایک عجیب سا ٹھہراؤ ہے۔ وہ ایک انتہائی گھاگ اور جوڑ توڑ کے ماہر سیاست دان کے طور پر جانے جاتے تھے۔  سیاسی داؤ پیچ میں مہارت حاصل تھی۔ سوچ سمجھ کر مہرے چلاتے تھے۔  ان کے مزاج میں  تُند رو ندیوں سا بہاؤ نہیں تھا ، گہری جھیل سا ٹھہراؤ تھا۔ طوفانوں کی سی شوریدہ سری نہیں تھی ، باد صبا کی سی لطافت تھی۔ وہ دنوں کا کام مہینوں میں نکالنے کے عادی تھے۔ عجلت ان میں نہ تھی۔ میں نے ایک بار انھیں ووٹ دیا تھا ، سچ کہوں تو ان کے سیاسی حریف سے ناراض ہو کر دیا تھا ، ان کے کہنے پر نہیں ، اس لیے کوئی احسان  نہیں۔ مردم شناسی ان میں بدرجہا اتم پائی جاتی تھی۔ چار پانچ موقعوں پر مجھے ان کے قریب رہنے کا موقع ملا ہے ، کچھ لوگوں کے بارے میں انھوں نے اس وقت کچھ فیصلے کیے تھے ، تب مجھے ان کی دماغی صحت پر شک ہونے لگا تھا لیکن بعد میں وقت نے ثابت کردیا کہ وہ حق بجانب تھے۔ بزلہ سنجی ان کی گھٹی میں شامل ہے۔ ہمیشہ دھمیے سُروں میں بولتے ہیں اوربزلہ سنجی سے محفل کو کشت زعفران بنا دیتے ہیں۔ ان کے کچھ مقولے ظرافت کی معراج پا چکے ہیں لیکن میں رقم کرکے کسی کو ناراض کرنا نہیں چاہتا۔  وہ  لوگوں کی نبض پکڑ کر فیصلے کرتے تھے۔  اپنے ووٹروں کو سبز باغ دکھانے کے عادی نہ تھے ، راست گو تھے ، صاف کہتے تھے یہ کام ممکن نہیں ہے ، میں وعدہ نہیں کر سکتا۔ ان کا ایک وسیع حلقہ تھا ، لوگ انھیں دیوانہ وار چاہتے تھے۔ نرم خُوئی ، نرم گوئی ، ظرافت ، بشاشت اور شگفتگی ان کے مزاج کا حصہ تھی۔
 2017 میں حاجی صاحب کے فرزند اول حاجی افتخار میرے رفیق سفر حج رہے ہیں۔ چالیس روزہ رفاقت رہی ، ایک کھٹکا میرے دل میں شروع دن سے لگا رہا کہ کبھی نہ کبھی حاجی صاحب سیاست کی بات چھیڑ کر مجھے شدید آزمائش میں مبتلا کر دیں گے ، چالیس دن گزر گئے ، ہم سفر حج سے واپس آگئے ، اُنھوں نے کبھی سیاست کی بات تک نہیں کی۔ میں شدید متاثر ہوا اور اس خاندان کے ظرف کا قائل ہوا۔ حاجی حیدر خان صاحب ایک قبائلی سیاست دان تھے ، انھیں قبائلی سیاست کا ہر گُر آتا تھا۔  وہ ایک ماہر جرگہ دار بھی تھے ، کئی خاندانی دشمنیاں ان کی کاوشوں سے اخوت میں بدل گئیں۔  ہمیشہ اُصولی سیاست کی۔ حزب مخالف کو عزت دی ، احترام دیا۔  بازاری سیاست سے ہمیشہ نالاں رہے۔ وہ اپنے ساتھ سنجیدہ لوگ رکھتے تھے ، ایسے لوگ کہ جن کی موجودگی دوسروں پر گراں نہ گزرے۔ 2020 کے الیکشن میں “داداسرکار” کے نام سے سوشل میڈیا پر بڑی شہرت پائی اور آج دادا سرکار “چھوٹے سرکار” کے  حوالے سیاست کرکے خود علیحدہ ہوگئے۔  اب چھوٹے سرکار کا مقابلہ سیاست کے نامور کھلاڑی “ماماسرکار” سے ہوگا۔ میرا وجدان کہتا ہے ، ٹکر کانٹے دار ہوگی ، سیاست ایک الگ رخ اختیار کرے گی۔
محمد نسیم صاحب بھی سیاست میں کافی تجربہ رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ نووارد ہیں ، دادا سرکار کی سیاسی ڈوریاں ہلانے اور مہرے کھسکانے میں نسیم بھائی کا بھی بڑا ہاتھ رہا ہے۔  اب یہ ان پہ منحصر ہے کہ وہ اپنے چچا اور پارٹی کی اُمیدوں پر کیسے اُترتے ہیں؟  میری صلاح ہوگی کہ آپ کے چچا محترم نے ہمیشہ ایک اصولی سیاست کی ہے ، وہ سنجیدہ سیاست دان رہے ہیں۔ روایات اور اقدار کا پاس اور لحاظ رکھا ہے۔جانشین کو چاہیے کہ اُن کے نقش قدم پر چلے۔ سیاست میں مخالفت  اور مخاصمت چلتی رہتی ہے ، ایک دوسرے پر تنقید بھی ہوتی ہے لیکن کبھی ذاتیات پر  نہیں اُترنا چاہیے۔ سیاست ایک کھیل ہے اور کھیل کو کھیل سمجھ کر کھیلنا چاہیے جنگ نہیں۔ علاقے کا امن زیادہ عزیز ہے اور اگر امن نہیں تو پیچھے کچھ بھی نہیں بچتا۔ ماحول کو سازگار بنانا خود سیاستدانوں کا کام ہے عوام کا نہیں۔ عوام تو اُن دنوں بالکل پگلا جاتے ہیں۔ سیاستدان لوگ کرتب ہی ایسے دکھاتے ہیں کہ عوام پر دیوانگی طاری ہو جاتی ہے ، پھر ایسے ایسے کرتوت سرزد ہوجاتے ہیں کہ ہوش آتے آتے پُلوں کے نیچے سے ٹنوں پانی گزر چکا ہوتا ہے۔  ذرا سی حرکت ایسا گھاؤ دے جاتی ہے کہ رفو کرتے کرتے پانچ سال گزر جاتے ہیں اور ابھی رفوگری کا کام ادھورا ہوتا ہے کہ ایک اور الیکشن  رشتوں ناطوں کو تار تار کرنے آن پہنچتا ہے۔  حاجی حیدر خان صاحب کو الوداع اور  محمد نسیم بھائی کو سیاسی اکھاڑے میں خوش آمدید۔
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
91992

بڑوں کی میراث پر پلتی اولاد اور تلامذہ – خاطرات: امیرجان حقانی

Posted on

بڑوں کی میراث پر پلتی اولاد اور تلامذہ – خاطرات: امیرجان حقانی

 

تاریخ کی کتابوں میں کتنے ہی ایسے واقعات درج ہیں جن میں عظیم شخصیات نے اپنی محنت، قابلیت، علم و ہنر اور حکمت و دانش سے نام پیدا کیا اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ایک روشن مستقبل کی بنیاد رکھی۔ لیکن بدقسمتی سے، آج کی دنیا میں ہم ایسی اولاد اور تلامذہ کو بھی دیکھتے ہیں جو اپنی محنت اور قابلیت کے بجائے اپنے باپ دادا کی کمائی اور جائیداد پر پل رہی ہیں۔اور علمی دنیا میں خود کوئی قابل فخر کارنامہ انجام دینے سے قاصر ہیں۔ بس اپنے اساتذہ اور اکابر کا نام بیچ بیچ کر اپنا شملہ اونچا کرتے ہیں۔ایسی اولاد اورخلف/ تلامذہ کو “استخواں فروش” کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

 

استخواں فروش وہ ہیں جو باپ دادا کے نام، علم، اور جائیداد کو بیچ کر زندگی گزارتے ہیں۔ یہ لوگ خود کچھ کرنے کی جستجو نہیں رکھتے بلکہ اپنے بڑوں کے تذکرے اور ان کی علمی کمالات سے اپنے دن پورے کرتے ہیں۔ان کے پاس نہ کوئی اپنی شناخت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی قابل ذکر کارنامہ۔ حقیقت میں ایسے لوگ خدا کی زمین پر بوجھ کے سوا کچھ بھی نہیں۔!

 

ایسی اولاد اپنے بڑوں کے کارناموں کے قصے سناتے ہوئے خود کو عظیم سمجھتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ان کی بزدلی اور ناکامی کی علامت ہے۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ باپ دادا کی میراث کا فائدہ تب ہی اٹھایا جا سکتا ہے جب وہ اسے آگے بڑھانے کی کوشش کریں۔ اگر وہ صرف ماضی کے کارناموں پر فخر کرتے رہیں گے تو مستقبل میں ان کا کوئی نام نہیں ہوگا۔

 

ایسے لوگ نہ صرف اپنے خاندان اور اساتذہ و اکابر کا نام بدنام کرتے ہیں بلکہ معاشرے میں بھی منفی مثال پیش کرتے ہیں۔ نئی نسل کو یہ پیغام دینا ضروری ہے کہ باپ دادا اور اساتذۂ و اکابر کی میراث کو سنبھالنا اور اسے آگے بڑھانا ایک اہم ذمہ داری ہے، نہ کہ اسے بیچ کر زندگی گزارنا۔

 

 

ہمارے معاشرے کو ضرورت ہے ایسی نسل کی جو محنت، دیانت اور خود اعتمادی سے اپنی شناخت بنائے۔ انہیں اپنے بڑوں کی کامیابیوں سے سیکھ کر خود کو مضبوط بنانا چاہیے۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ہم استخواں فروش نسل کو سمجھائیں کہ اصل فخر محنت اور قابلیت میں ہے، نہ کہ باپ دادا اور اکابر کی جائیداد، علم، روحانیت اور نام بیچنے میں۔

 

 

خلاصہ کلام کہ باپ دادا، اساتذہ و اکابر کی کمائی، علم، تحقیقات اور علمی کمالات اور جائیداد پر پلنے والی اولاد و تلامذہ اگر خود کچھ نہ کریں اور اسی پر اترائے تو وہ صرف اپنے لئے ہی نہیں بلکہ اپنے خاندان، اساتذہ، اکابر اور معاشرے کے لئے بھی نقصان دہ ہیں۔ ہمیں ضرورت ہے ایسی نسل کی جو محنت، لگن اور خود اعتمادی سے اپنی پہچان بنائے اور اپنے بڑوں کی میراث کو آگے بڑھائے، نہ کہ اسے بیچ کر زندگی گزارے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
91643

گلگت بلتستان کی حسین وادیوں میں خوش آمدید۔مگر ایک التجا! ۔خاطرات : امیرجان حقانی

گلگت بلتستان کی حسین وادیوں میں خوش آمدید۔مگر ایک االتجا! ۔خاطرات : امیرجان حقانی

 

محترم و مکرم سیاح حضرات

یہ ہمارا دیس، گلگت بلتستان، قدرت کی صناعی کا ایک بے مثال شاہکار ہے۔ یہاں کی دلکش وادیاں، سرسبز باغات، اور برف پوش پہاڑ آپ کی آمد کا شدت سے انتظار کرتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ ان نظاروں سے لطف اندوز ہوں گے اور یہ جگہ آپ کی یادوں کا حصہ بنے گی۔

تاہم، ہم آپ سے ایک مودبانہ گزارش کرنا چاہتے ہیں۔ جب آپ یہاں آئیں، تو اپنے ساتھ تہذیب، شائستگی، اور احساس ذمہ داری بھی لائیں۔ یہ وہ خزانہ ہے جو کسی بھی سیاح کے سفر کو یادگار بناتا ہے۔

 

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ سیاح اپنی بدذوقی اور بدتہذیبی سے اس جنت نظیر مقام کی خوبصورتی کو داغدار کر دیتے ہیں۔ کہیں پھلدار باغات کی قیمتی شاخیں توڑ دیتے ہیں، کہیں جگہ جگہ گندگی پھیلائی جاتی ہے، اور کہیں سڑکوں پر لاپرواہ ڈرائیونگ کے سبب حادثات ہوتے ہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک چیری یا خوبانی کا درخت کتنی محبت اور محنت سے پھل دیتا ہے؟

کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں کہ ہم ان قدرتی نعمتوں کا احترام کریں؟

 

ہماری گلگت بلتستان کی زمین آپ کے قدموں کی چاپ سننا چاہتی ہے، مگر ان قدموں کے ساتھ ساتھ ہمیں آپ کی شائستگی اور اخلاق کی بھی ضرورت ہے۔
براہ کرم
اس خوبصورت وادی کے حسین مقامات کو اپنی بدتہذیبی سے آلودہ نہ کریں۔ اپنے پیچھے ایک ایسا تاثر چھوڑیں جو آنے والی نسلوں کے لئے قابل تقلید ہو۔

آئیں!

؎
گلگت بلتستان کی فطری خوبصورتی کا حصہ بنیں، اس کے حسن کو نقصان نہ پہنچائیں۔ اپنی موجودگی کا ایک خوشگوار نقش چھوڑیں اور اس علاقے کی دلکشی کو بڑھائیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ کی سمجھداری اور تہذیب ہمارے علاقے کے لئے باعثِ فخر ہو گی۔

دل سے لکھا یہ پیغام آپ تک پہنچے اور آپ ہمارے اس خواب کو حقیقت میں بدلیں۔ آئیے، اور گلگت بلتستان کی خوبصورتی کو محفوظ رکھیں۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
91454

گلگت بلتستان کی پولیس کا رسپانس  – خاطرات:امیرجان حقانی

Posted on

گلگت بلتستان کی پولیس کا رسپانس  – خاطرات:امیرجان حقانی

گلگت بلتستان سیاحت کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتا ہے۔ کچھ سالوں سے یہاں سیاحت بہت پروموٹ ہوئی ہے۔ اس پروموشن میں سب کا حصہ ہے۔ تاہم، جی بی پولیس نے اپنا حصہ انتہائی ذمہ داری کے ساتھ نبھایا ہے اور ملک بلکہ دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کی حفاظت اور خدمت کے لیے چوکس رہتی ہے۔ میں نے خود سینکڑوں سیاحوں سے جی بی پولیس کا رویہ پوچھا ہے، ہر ایک کا رسپانس مثبت تھا۔ کئی ایک کہانیاں ہیں جو جی بی پولیس کا مورال بلند کرتی ہیں۔ بہرحال، اسے مزید بہتر بنانا چاہیے۔

ٹورسٹ پولیس کے متعلق تجاویز

1.سیاحتی معلوماتی مراکز کا قیام

مختلف مقامات پر سیاحتی معلوماتی مراکز قائم کیے جائیں جہاں سیاحوں کو علاقے کے متعلق معلومات، نقشے، اور رہنمائی فراہم کی جائے۔ کچھ جگہوں میں پہلے سے معلوماتی پوائنٹ موجود ہیں تاہم ان کو مزید پھیلانے اور اپ ٹو ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

2.ٹیکنالوجی کا استعمال

سیاحتی مقامات پر کیمرے نصب کیے جائیں تاکہ سیکیورٹی بہتر بنائی جا سکے۔ اور ان کیمروں کو ہر وقت فنکشنل ہونا چاہیے۔
ایک موبائل ایپلیکیشن بنائی جائے جس میں سیاحوں کو جی بی پولیس کی جانب سے ضروری اطلاعات، ہنگامی نمبرز، اور سیاحتی مقامات کے متعلق معلومات فراہم کی جائے۔

3.ٹور گائیڈ ٹریننگ پروگرام

ہر علاقے کے مقامی لوگوں کو ٹور گائیڈ کی تربیت دی جائے تاکہ وہ سیاحوں کو بہترین رہنمائی فراہم کر سکیں۔ اس سے ان کے روزگار میں بھی اضافہ ہوگا اور سیاح بھی کم وقت میں زیارہ فائدہ اٹھا پائیں گے۔
پولیس کے اہلکاروں کو بھی سیاحوں کی بہتر خدمت کے لیے خصوصی تربیت دی جائے۔پہلے سے موجود عملے کو مزید بڑے اور پروفیشنل اداروں سے ٹریننگ دلوائی جائے۔

4.ہنگامی ردعمل کی تیزی

ہنگامی حالات میں تیز ردعمل دینے کے لیے خصوصی یونٹس تشکیل دیے جائیں جو فوری طور پر موقع پر پہنچ سکیں۔ایمرجنسی ریسپانس سینٹرز کا قیام کیا جائے۔ اور پولیس عملے کیساتھ شعبہ صحت کو بھی انوال کیا جائے۔ ریسکیو کو بھی ان معاملات میں ٹورسٹ پولیس کے ساتھ نتھی کیا جائے۔

5. شعوری و آگاہی کمپیئن

سیاحوں اور مقامی لوگوں کے لیے شعوری و آگاہی مہمات چلائی جائیں جن میں قوانین، سیکیورٹی اقدامات، اور ذمہ دار سیاحت کے بارے میں معلومات دی جائے۔سوشل میڈیا پر فعال رہتے ہوئے سیاحوں کو مختلف موضوعات پر آگاہی دی جائے۔ یہ کام سادہ طریقے سے ہر پولیس چیک پوسٹ پر کیا جاسکتا ہے تاکہ پہلی بار گلگت بلتستان آنے والے سیاح محتاط بھی رہیں اور کم وقت میں زیادہ سیاحت سے لطف اندوز ہوں۔

6.کمیونٹی پولیسنگ

مقامی آبادی کے ساتھ مل کر کمیونٹی پولیسنگ کے منصوبے شروع کیے جائیں تاکہ سیکیورٹی کی صورتحال بہتر بنائی جا سکے۔ کچھ جگہوں میں ایسا کیا گیا ہے اس کو مزید پروفیشنل انداز میں استوار کرنے کی ضرورت ہے۔

7.سیاحتی سہولیات کی بہتری

سیاحتی مقامات  اور کے کے ایچ کے اہم پوائنٹس پر بنیادی سہولیات (جیسے کہ بیت الخلا، صاف پانی اور جائے نماز) فراہم کی جائیں۔صاف اور محفوظ رہنے کے لیے مختلف مقامات پر کچرا دان لگائے جائیں۔

 

8. ان تمام اور دیگر امور کی ذمہ داری جی بی پولیس کے ٹورسٹ ڈیپارٹمنٹ کو دی جانی چاہیے تاکہ 

ان تجاویز پر عمل کرکے جی بی پولیس نہ صرف سیاحوں کی خدمت اور حفاظت کو مزید بہتر بنا سکتی ہے بلکہ گلگت بلتستان کی سیاحت کو آگے بڑھانے اور مزید فروغ دینے میں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
91376

قلم کی طاقت اور شکلیں ۔ خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on

قلم کی طاقت اور شکلیں ۔ خاطرات :امیرجان حقانی

 

قلم کی شکلیں اور اس کی طاقت ہمیشہ سے ہی ایک غیر معمولی حقیقت رہی ہے۔ قلم، جو کبھی صرف ایک سادہ لکڑی کا ٹکڑا ہوا کرتا تھا، آج جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ٹچ سکرین کا حصہ بن چکا ہے۔ مگر قلم کی طاقت اپنی جگہ مسلم رہی ہے، اور ہر دور میں اس کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔

 

 

قلم کی اصل طاقت اس کے استعمال کرنے والے کی شخصیت اور اس کی نیت سے جڑی ہوتی ہے۔ ایک لکھاری کے ہاتھ میں قلم محض ایک آلہ نہیں بلکہ ایک خواب بُننے والی مشین ہے، جو لفظوں کے ذریعے دنیا کو ایک نئی شکل دے سکتا ہے۔ لکھاری اپنی سوچوں کو سیاہی میں ڈبو کر صفحے پر اتارتا ہے، اور ایک نئی حقیقت کی بنیاد رکھتا ہے۔

 

 

جب یہی قلم چیف جسٹس کے ہاتھ میں آتا ہے، تو انصاف کی علامت بن جاتا ہے۔ چیف جسٹس قلم کی مدد سے فیصلے لکھتا ہے جو نہ صرف انفرادی زندگیوں کو بدل دیتے ہیں بلکہ قوموں کی تقدیر بھی متعین کرتے ہیں۔ اسی قلم کے ذریعے قانون کی بالادستی قائم رہتی ہے اور معاشرتی انصاف کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔

 

 

منتظم اعلیٰ، یعنی وزیراعظم کے ہاتھ میں قلم حکومت کی پالیسیاں اور قوانین بناتا ہے۔ اس قلم کے ذریعے ایک ملک کی سمت متعین کی جاتی ہے، اور قوم کی ترقی و خوشحالی کے منصوبے طے پاتے ہیں۔ وزیراعظم کی دستخط قلم کی طاقت کو ایک نیا معنی دیتی ہے، جو قوم کے مستقبل کا تعین کرتی ہے۔

 

 

یہ قلم، جو کبھی ایک سادہ لکڑی کا ٹکڑا ہوا کرتا تھا، آج جدید ٹیکنالوجی کی بدولت مختلف شکلوں میں نظر آتا ہے۔ سیاہی اور دوات سے لے کر بال پوائنٹ، فاؤنٹین پین، اور پھر ٹچ سکرین تک، قلم کی شکلیں بدل گئی ہیں، مگر اس کی طاقت نہیں بدلی بلکہ ہر لحظہ اس میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔

 

 

جدید دور میں، قلم کی طاقت کو نئی جہات مل چکی ہیں۔ آج کل، ہم ای میل، سوشل میڈیا، اور بلاگز اور مختلف فورمز کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، لیکن اصل میں یہ سب قلم کی مختلف شکلیں ہی ہیں۔ ایک ٹویٹ، ایک پوسٹ، ایک آرٹیکل، ایک ریسرچ پیپر، ایک کتاب یہ سب اسی قلم کی طاقت کے مظاہر ہیں جو آج بھی دنیا کو بدلنے کی قوت رکھتا ہے۔

 

قلم کی یہ بے پناہ طاقت ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ الفاظ کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوتی۔ ہر لفظ جو قلم سے نکلتا ہے، اس کی ایک ذمہ داری ہوتی ہے، ایک اثر ہوتا ہے۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ قلم ایک عظیم طاقت ہے، اور اسے استعمال کرتے وقت ہمیں اس کی اہمیت اور اثرات کا شعور ہونا چاہئے۔

 

 

قلم کی یہ شکلیں اور اس کی طاقت ہمیشہ سے ایک غیر معمولی حقیقت رہی ہے، اور مستقبل میں بھی یہ ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہوتی رہے گی۔ قلم کی یہ قوت ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ہم اپنے الفاظ اور تحریروں میں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور اس کی طاقت کو مثبت انداز میں استعمال کریں۔

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
91328

وزیراعظم کی ہدایت پر سکردو میں پہلی مرتبہ ماونٹرینگ سکول کے قیام کا فیصلہ

Posted on

وزیراعظم کی ہدایت پر سکردو میں پہلی مرتبہ ماونٹرینگ سکول کے قیام کا فیصلہ ، وزیر اعظم کی معاون برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی ہم آہنگی رومینا خورشید عالم کی سربراہی میں کمیٹی  کا دورہ سکردو اور اجلاس

سکردو ( چترال ٹائمزرپورٹ ) وزیر اعظم کی معاون برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی ہم آہنگی رومینا خورشید عالم نے آج بدھ کے روز وزیر اعظم کی جانب بلتستان میں ماونٹرینگ سکول کے حوالے سے قائم کمیٹی کے ایک اہم اجلاس کی صدارت کی۔ اس موقع پر کمیٹی کے ممبران غلام محمد وزیر سیاحت گلگت بلتستان،راجہ ناصر علی خان وزیر منصوبہ بندی و ترقیات گلگت بلتستان, ذوالفقار یونس ایڈیشنل سیکرٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی، نجیب عالم کمشنر بلتستان، طیب سمیع خان ڈی سی سکردو، ولی اللہ فلاحی ڈی سی شگر، نائلہ کیانی ہائی آلٹیٹیوڈ ماؤنٹینیئر، عارف حسین ای وی کے ٹو سی این آر، سید خالد گردیزی سیکرٹری کشمیر آفئیرز اینڈ گلگت بلتستان، عمران ندیم سابق رکن GBA سمیت دیگر ارکان کمیٹی نے شرکت کی۔

اجلاس کا مقصد ماؤنٹینیرنگ اسکول کی حکمت عملی کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد پر تبادلہ خیال کرنا تھا، جس کا مقصد علاقے میں پائیدار سیاحت اور ماحولیاتی آگاہی کو فروغ دینا ہے۔ اس موقع پر رومینا خورشید عالم نے اس اہم منصوبے کی ضرورت اور فوائد پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اسکول نہ صرف نوجوانوں کو پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرے گا بلکہ علاقے میں سیاحت کو بھی فروغ دینے میں بھی معاون ثابت ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اسکول کے قیام سے مقامی آبادی کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے اور بین الاقوامی کوہ پیماؤں کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا جائے گا، جس سے بلتستان کی قدرتی خوبصورتی کو محفوظ رکھتے ہوئے معاشی ترقی کی راہ ہموار ہو گی۔

اجلاس میں کمیٹی کے ارکان نے اسکول کی جگہ کے انتخاب، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، نصاب کی تیاری، اور بین الاقوامی ماؤنٹینیرنگ ماہرین کے ساتھ تعاون پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔

مزید برآں، اجلاس میں مقامی آبادی کی شمولیت کو یقینی بنانے، ان کی تربیت اور انہیں ماؤنٹینیرنگ کی صنعت میں روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے طریقوں پر بھی غور کیا گیا۔ کمیٹی نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ اس منصوبے کو جلد از جلد عملی جامہ پہنایا جائے گا تاکہ اس کے فوائد جلد از جلد سامنے آ سکیں تاکہ بلتستان کی سیاحت کو فروغ ملے۔ انہوں نے اجلاس کے بعد اسکول کے قیام کے لیے مجوزہ سائیٹ کا دورہ بھی کیا۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged
91223

 این ڈی ایم اے  کےنیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر نے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور ممکنہ آندھی، طوفان اور بارشوں کے پیش نظر گلاف الرٹ جاری کر دیا

Posted on

 این ڈی ایم اے  کےنیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر نے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور ممکنہ آندھی، طوفان اور بارشوں کے پیش نظر گلاف الرٹ جاری کر دیا

اسلام آباد (چترال ٹائمزرپورٹ ) نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کےنیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (این ای او سی) نے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور ممکنہ آندھی، طوفان اور بارشوں کے پیش نظر گلاف الرٹ جاری کر دیا۔ خیبر پختون خواہ اور گلگت بلتستان کے پہاڑی علاقوں میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث گلیشئرز کے پگھلنے کا عمل تیزہونے اور ممکنہ بارش کے سلسلے کے باعث 17تا23جولائ2024 کے دوران مقامی ندی نالوں میں پانی کے بہاو میں اضافہ اور جھیلوں کے سیلاب کے علاوہ لینڈ سلائیڈنگ بھی متوقع ہے۔

این ڈی ایم اے نے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے پی کے اور گلگت ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ متعلقہ محکموں کے ساتھ مکمل رابطے میں رہیں تاکہ کسی بھی رکاوٹ، سڑک کی بندش اور نقصان کی صورت میں ضروری انوینٹری/آلات کے انتظامات اور پہلے سے تعیناتی کے ساتھ ساتھ غیر محفوظ مقامات پر ایمرجنسی اہلکاروں کی دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔ محکموں کو مزید ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مقامی کمیونٹی، سیاحوں اور خطرے سے دوچار علاقوں میں مسافروں کو الرٹ رہنے اور غیر ضروری سفر/ نقل و حرکت سے گریزکرنے کے لیے پہلے سے خبردار کریں۔متعلقہ محکمے خطرے دو چار علاقوں میں لوگوں کے بر وقت انخلاء کو یقینی بنانے کے لیے فرضی مشقیں بھی تشکیل دیں تا کہ بوقت ضرورت عوام کی جان و مال کو محفوظ بنایا جا سکے۔

این ڈی ایم اے نے Pak NDMA Disaster Alert ایپلیکیشن متعارف کرادی ہے جو گوگل پلے سٹور اورiOS ایپ سٹور پر موجود ہے تاکہ عوام کوبر وقت الرٹس، ایڈوائزریز اور خطرے سے متعلق مخصوص گائیڈ لائنز، عوامی آگاہی کے پیغامات اوردیگر ضروری معلومات کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔

دریں اثنا این ڈی ایم اے کے نیشنل ایمرجنسیز آپریشن سینٹر کے مطابق 17 سے 21 جولائی تک کشمیر، اسلام آباد، کے پی،پنجاب کے وسطی اور شمال مشرقی علاقوں میں وقفے کے ساتھ گرج چمک کیساتھ بارشوں امکان ہے ۔ بارشوں کے باعث سوات، مینگورہ، بٹگرام، مردان، صوابی، ہری پور، ایبٹ آباد، کشمیر، اسلام آباد، راولپنڈی، چکوال، جہلم، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں 50 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہونے کا امکان ہے جو مقامی ندیوں اور نالوں میں درمیانے درجے کی فلیش فلڈنگ سبب بن سکتی ہے۔

اسکے علاؤہ فلیش فلڈنگ ذریعہ آمدو رفت میں خلل، عمارتوں/ بنیادی ڈھانچے اور فصلوں و مویشوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
این ڈی ایم اے نے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز اور مقامی انتظامیہ کو چوکس رہنے اور خطرے سے دو چار آبادی کی حفاظت کے لیے مناسب اقدامات کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔

عوام گھروں میں نکاسی آب یقینی بنائیں اور اربن فلڈنگ سے نمٹنے کیلئے پیشگی اقدامات کریں۔ کسی بھی بلاک شدہ نالوں یا ممکنہ خطرات کا موجب بننے والے عمل کی اطلاع مقامی حکام کو فوری طور پر دیں۔ مسافر و سیاح لینڈ سلائیڈنگ کے خطرے سے دو چار علاقوں میں سفر کرتے ہوئے احتیاط برتیں۔ عوام بروقت ڈیزاسٹر الرٹس، گائیڈ لائنز اور احتیاطی تدابیر کے لیے کی  Pak NDMA Disaster Alert   موبائل ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
91003

پاک آرمی کی انجینئرزکور نے مستوج شندورگلگت روڈ پر شاہی داس کے مقام پر اسٹیل پل نصب کردیا

پاک آرمی کی انجینئرزکور نے مستوج شندورگلگت روڈ پر شاہی داس کے مقام پر اسٹیل پل نصب کردیا

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز )پاک آرمی کی انجینیئرزکور کی ٹیم نے شاہی داس نالہ پر اسٹیل پل نصب کردیا ہے، اس پل کی تعمیر سے چترال مستوج شندور اور گلگت کے درمیان ٹریفک بہتر ہوگی ۔ شاہی داس کے مقام پر پل کی تعمیر سے ان علاقوں کی مقامی آبادی کو جہاں آمد و رفت کے لیے آسانی میسر ہوئی ہے وہیں ان خوبصورت ترین علاقوں میں سیاحت کو مذید فروغ ملیگا۔ جبکہ ماضی میں اسی مقام پر پل نہ ہونے اور نالہ میں طغیانی کے سبب کئی گھنٹوں گاڑیاں پھنس کر رہ جاتی تھی،
واضح رہے کہ ماضی میں اس جگہ پر شندور میلہ کے موقع پر بھی پاک آرمی عارضی طور پر پل قائم کرتی تھی جب کہ یہ پل مستقل قائم رکھا جائے گا ۔شاہی داس پل کے قیام سے مقامی ابادی نے خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا ہے،

chitraltimes shahidas bridge mastuj upper chitral 1 chitraltimes shahidas bridge mastuj upper chitral 2

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
90506

آغا خان ہیلتھ سروس نے سول ہسپتال گوپس کے انتظامی اختیارات گلگت بلتستان حکومت کو منتقل کر دیے

آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان نے سول ہسپتال گوپس کے انتظامی اختیارات گلگت بلتستان حکومت کو منتقل کر دیے

 

گلگت (چترال ٹائمزرپورٹ ) آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان کے ایک اعلان کے مطابق محکمہ صحت، حکومت گلگت بلتستان کے ساتھ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے معاہدے کے قبل از وقت خاتمے کے بعد ادارے نے سول اسپتال گوپس (Civil Hospital, Gupis) کے انتظامات حکومت کو واپس منتقل کر دیے ہیں۔

 

حکومت گلگت بلتستان اور آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان کے درمیان پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے معاہدے پر 2012 میں دستخط کیے گئے تھے جس کا مقصد سول ہسپتال گوپس کو از سرنو منظم کرنا تھا۔ آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان نے گزشتہ 12 سالوں کے دوران ہسپتال کے انفراسٹرکچر پر 34 ملین روپے، آلات کی فراہمی و تنصیب پر 28 ملین روپے اور انتظامی خسارے کو پورا کرنے، اسے نئے آلات کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرنے اور جامع دیکھ بھال میں مدد کی فراہمی اور انسولیشن کے لیے اپنی بنیادی فنڈنگ سے 128 ملین روپے کی سرمایہ کاری کی تھی۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی ابتداء سے اب تک، اپ گریڈ کیے گئے سول ہسپتال گوپس نے اپنے بیرونی اور داخل شدہ مریضوں، اور 24 گھنٹے ہنگامی خدمات کی صورت میں معیاری دیکھ بھال فراہم کی ہے، جس میں ہر ماہ اوسطاً 200 سے زائد داخلے، 25 عام زچگیاں اور ہر ماہ 1500 بیرونی مریضوں کے دورے شامل ہیں۔

 

اس کامیابی کے باوجود ، محکمہ صحت، حکومت گلگت بلتستان نےمؤرخہ 26 اپریل ، 2024 ءکو آغا خان ہیلتھ سروس ، پاکستان کو معاہدہ ختم کرنے کا نوٹس جاری کیا۔ مئی، 2024ء میں آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان کی درخواست پر صورتحال کا مزید جائزہ لینے اور اس کے حل کی کوشش کرنے کے لیے اضافی اجلاس منعقد کیے گئے تھے، تاہم ،محکمہ صحت نے جون 2024 ءکے تیسرے ہفتے تک اسپتال کے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی۔

 

اس بارے میں آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ،ندیم عباس نے کہا کہ ”ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے، ہم گوپس یاسین (Gupis-Yasin)کمیونٹی کےایک اہم رکن رہے ہیں اور سول اسپتال کے ذریعے000,002 سے زائد لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کی ہیں۔“ انہوں نےمزید کہا کہ“ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت کے ساتھ ہمارےمثبت تعلقات جاری رہیں گے جو ہماری سب سے قابل قدر ساتھی ہے تاکہ گلگت بلتستان میں رہنے والی متنوع برادریوں کی بہتر خدمت کی جاسکے۔“

 

منتقلی کے منصوبے کے ایک حصے کے طور پر ، آغا خان ہیلتھ سروس ، پاکستان سول اسپتال گوپس کے ارد گرد علاقوں میں صحت کی خدمات کی فراہمی میں کسی بھی خلل ی کی احتیاط سے نگرانی کرے گا ، اور اُس کو ممکنہ حد تک کم سے کم کرنے کے لئے ایک حکمت عملی تیار کرے گا۔ آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان محکمہ صحت اور حکومت گلگت بلتستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے، اور خطے میں اعلیٰ معیار کی صحت کی دیکھ بھال کے تسلسل کو یقینی بنانے کی غرض سے حکومت کے سروس ڈیلیوری ماڈل کی تکمیل کے لیے آپشنز تجویز کرنے کے لیے پرامید ہے ۔

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged
90342

26 جون سے 01 جولائی کے دوران ملک میں بارش کی پیشگوئی

Posted on

26 جون سے 01 جولائی کے دوران ملک میں بارش کی پیشگوئی

اسلام آباد ( چترال ٹائمزرپورٹ ) محکمہ موسمیات کے مطابق 26 جون کو بحیرہ عرب اور خلیج بنگال سے مون سون ہوائیں ملک کے مشرقی علاقوں میں داخل ہونے کا امکان ہے۔جبکہ ہواکا کم دباؤ بھارتی گجرات کے جنوب میں ہے۔ اس موسمی نظام کے زیر اثر:

سندھ: 26 جون سے01 جولائی کے دوران: مٹھی، عمرکوٹ، میرپور خاص، سانگھڑ، ٹنڈو الہ یار، بدین، ٹھٹھہ، کراچی، حیدرآباد، جامشورو، شہید بینظیر آباد، نوشہروفیروز، خیرپور، دادو، سکھر، جیکب آباد، کشمور اور لاڑکانہ میں تیز ہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ بارش جبکہ چند مقامات پر موسلادھار بارش کا امکان ہے۔

پنجاب/اسلام آباد: 27 جون سے01 جولائی کے دوران: اسلام آباد/راولپنڈی، مری، گلیات، اٹک، چکوال، جہلم، منڈی بہاؤالدین، گجرات، گوجرانوالہ، حافظ آباد، وزیر آباد، لاہور، شیخوپورہ، سیالکوٹ، نارووال، ساہیوال، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ننکانہ صاحب، چنیوٹ، فیصل آباد، اوکاڑہ،قصور، خوشاب، سرگودھا، بھکر اور میانوالی میں تیز ہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ وقفےوقفے سے بارش جبکہ چند مقامات پر موسلادھار بارش/ژالہ باری کا امکان۔ 26 جون سے30جون کے دوران : بہاولپور، بہاولنگر، ڈیرہ غازی خان، ملتان، خانیوال، لودھراں، مظفر گڑھ، راجن پور، رحیم یار خان اور لیہ میں تیز ہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ بارش کی توقع ہے

گلگت بلتستان/کشمیر: 28 جون سے01 جولائی کے دوران: : گلگت بلتستان(دیامیر، استور، غذر، اسکردو، ہنزہ، گلگت، گا نچھے، شگر)، کشمیر (وادی نیلم، مظفر آباد،راولاکوٹ، پونچھ، ہٹیاں،باغ،حویلی،سدھنوتی، کوٹلی،بھمبر،میر پور) میں تیز ہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ وقفےوقفے سے بارش کا امکان۔ اس دوران کشمیر کے بعض مقا مات پر موسلادھار بارش کی بھی توقع ہے

خیبر پختونخوا: 28 جون سے01 جولائی کے دوران: : دیر، چترال، سوات، کوہستان، مالاکنڈ، باجوڑ، شانگلہ، بٹگرام، بونیر، کوہاٹ، باجوڑ، مہمند، خیبر، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور، پشاور، مردان، ہنگو اور کرم میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کےساتھ وقفے وقفے سے بارش کا امکان۔ اس دوران چند مقا مات پر موسلادھار بارش کی بھی توقع ہے

بلوچستان: 26 جون سے28جون کے دوران : لسبیلہ، خضدار، آواران، جھل مگسی، قلات، نصیر آباد، جعفرآباد، ڈیرہ بگٹی، کوہلو،ژوب اور بارکھان میں تیز ہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔

ممکنہ اثرات اور احتیاطی تدابیر:
28 سے30جون کو موسلا دھار بارش کے باعث اسلام آباد، راولپنڈی ، لاہور، سیالکوٹ، گجرانوالہ اورنارووال میں اربن فلڈ نگ کا خدشہ ہے۔
آندھی/جھکڑ چلنے اورگرج چمک کے باعث روزمرہ کے معمولات متاثر ہونے ، کمزور انفرا سٹرکچر ( بجلی کے کھمبے،گاڑیوں سولر پینل وغیرہ)کو نقصان کا اندیشہ ہے۔

دریں اثنا تمام متعلقہ اداروں کو ” الرٹ “رہنے اور کسی ناخشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستان
90297

شندور پولو فیسٹول کو خراب موسم کی بنا پر ملتوی کرنے کو چترال کے سول سوسائٹی نےیکسر مسترد کردیا

شندور پولو فیسٹول کو خراب موسم کی بنا پر ملتوی کرنے کو چترال کے سول سوسائٹی نےیکسر مسترد کردیا

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) 28جون سے شروع ہونے والی سہ روزہ شندور پولو فیسٹول کو خراب موسم کی بنا پر التوا ء کو چترال کی سول سوسائٹی نے مسترد کردیا ہے۔ پولو ایسوسی ایشن، بزنس کمیونٹی، ٹورزم سیکٹر کے رہنمااور پولو کے شائقین نے اس فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آخری اوقات میں اس میگاایونٹ کو خراب موسم کی بنا پر ملتوی کرنا سمجھ سے بالاتر ہے جس سے اس علاقے کو ناقابل تلافی نقصان لاحق ہوگا۔ ڈسٹرکٹ پولو ایسوسی ایشن چترال کے جنرل سیکرٹری معیز الدین بہرام ایڈوکیٹ نے کہاکہ چترال کے چاروں ٹیموں کے کھلاڑی گھوڑوں سمیت شندور پہنچ چکے تھے اور ان کے لئے فیسٹول کی التواء کی خبر قیامت سے کم نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ پولو ٹیموں کی کھلاڑیوں کو الاؤنس کی ادائیگی بھی نہیں ہوئی تھی جبکہ اس سے قبل کھلاڑیوں کوا لاؤنس کا نصف حصہ شندور روانگی کے وقت ادا کیا جاتا تھا لیکن اس بار کوئی پیمنٹ نہیں ہوئی۔

 

تجاریونین کے نائب جنرل سیکرٹری حافظ سراج نے کہاکہ شندور فیسٹول کو یکایک غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرنے سے تاجر برادری کو کروڑوں روپے کا نقصان لاحق ہوا ہے جوکہ لاکھوں روپے خرچ کرکے اپنے سازوسامان کے ساتھ شندور پہنچ چکے تھے۔ پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے صوبائی حکومت سے پرزور مطالبہ کیاکہ شندور پہنچنے والے کاروباری حضرات کو معاوضہ دیا جائے تاکہ فیسٹول کی التوا کی وجہ سے ان کے نقصانات کا ازالہ ہوسکے۔

 

ٹورزم ایسوسی ایشن کے صدر کپٹن (ر) شہزادہ سراج الملک نے کہاکہ جس وجہ سے اس ایونٹ کو ملتوی کیا گیا ہے، وہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس فیصلے سے ٹورزم سیکٹر سے وابستہ افراد کو بہت ذیادہ نقصان لاحق ہوگا جوکہ اپنی سرگرمیوں ہزاروں لاکھوں روپے پہلے ہی لگاچکے تھے اور فیسٹول کے التواء کے نتیجے میں یہ انوسٹمنٹ ڈوب گئے جبکہ کئی بیرونی ٹور گروپ بھی اس ایونٹ کے لئے یہاں پہنچنے والے تھے۔

 

شندور فیسٹول میں گزشتہ دو دہائیوں سے ہر بار شرکت کرنے والے فرید احمد رضا کا کہنا تھاکہ کسی علاقے میں میگا ایونٹ کا ملتوی یا منسوخ ہونا بدقسمتی کی بات ہوتی ہے اور شندور فیسٹول کا شیڈول کے مطابق منعقد نہ ہونا اور بھی افسوسناک بات ہے جس سے ہر دل افسردہ ہے۔ پولو کا ابھرتا ہوا کھلاڑی شیخ فاروق اقبال نے مایوسی کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ اس فیسٹول کے انعقاد کو مقامی لوگوں کو سونپ دیاجانا چاہئے۔

 

 

chitraltimes shandur festival all arrangement completed dc upper 1

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستان
90279

چترال: شندور پولو فیسٹول نامساعد موسمی حالات کے پیش نظر ملتوی کر دیا گیا

Posted on

چترال: شندور پولو فیسٹول نامساعد موسمی حالات کے پیش نظر ملتوی کر دیا گیا

چترال( نمائندہ چترال ٹائمز ) 28جون سے دنیا کی بلند ترین پولوگراونڈ شندور میں منعقد ہونے والے تین روز پولو فیسٹول نامساعد موسمی حالات کےپیش نظر ملتوی کر دیا گیا ، سیکریٹری کلچر اور ٹورزم خیبرپختونخوا نے نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ، نوٹیفکشن میں فیسٹول کو ملتوی کرنے کی وجہ نامساعدہ موسمی حالات بتایا گیا ہے، ادھر شندور فیسٹول کے لئے تمام انتظامات مکمل کر لئے گئے تھے ، چترال اور گلگت بلتستان کے کھلاڑی بمعہ گھوڑے شندور پہنچ چکے تھے، اور پریکٹس میچز جاری تھے، جبکہ ایس کام موبائل نیٹ ورک کے زیر انتظام فورجی انٹرنیٹ کی سہولت بھی شندور میں مہیا کردی گئی تھی۔ گزشتہ دن ٹاورز تنصیب کرکے سروس کا آغاز کردیا تھا۔ شندور فیسٹول ملتوی ہونے کی خبر چترال پہننچے پر شائقین پولو نے انتہائی افسوس اور دکھ کا اظہار کیاہے،

 

chitraltimes shandur polo festival postponed

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستان
90259

دنیا کی بلندرترین پولوگراونڈ شندور میں منعقد ہونے والے  فیسٹول کے لئے انتظامات کو حتمی شکل دیدی گئی ہے، ڈپٹی کمشنر محمد عرفان الدین 

دنیا کی بلندرترین پولوگراونڈ شندور میں منعقد ہونے والے  فیسٹول کے لئے انتظامات کو حتمی شکل دیدی گئی ہے، ڈپٹی کمشنر محمد عرفان الدین

اپر چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) دنیا کی بلندترین پولوگراونڈ میں منعقد ہونے والے شندور پولو فیسٹول کے لئے انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے ڈپٹی کمشنر اپر چترال محمد عرفان الدین نے گزشتہ دن شندور پولوگراونڈ کا دورہ کیا، جہاں شندور پولو فیسٹول 2024 کا اغاز 28 جون سے ہورہا ہے۔جو تین دن تک جاری رہیگا،

انتظامات کو حتمی شکل دینے کے سلسلے میں ڈپٹی کمشنر اپر چترال کے ہمراہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے دیگر افسروں بھی موجود تھے۔

ڈپٹی کمشنر نے تمام سہولیات کا از خود تفصیلی جائزہ لیا۔ ڈپٹی کمشنر نے پولو گراؤنڈ کی تزئین و آرائش ،پانی و بجلی کی فراہمی سمیت دیگر سہولیات میں جاری کاموں کو تسلی بخش پایا اور ادھورے کاموں کو جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی ۔ڈپٹی کمشنر نے کھیلاڑیوں سمیت تمام مہمانوں کا خاص خیال رکھنے سے متعلق احکامات بھی جاری کئے۔اس موقع پر ڈپٹی کمشنر نے کہا ہے کہ شندور فیسٹول کے لئے ضلعی انتظامیہ اپر چترال گزشتہ ڈیڈھ مہینے سے کام کررہی ہےاور اب تمام انتظامات کو حتمی شکل دیدی گئی ہے، جہاں سیاحوں کو ہرممکن سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

 

شندور کے سبزہ زار میں ٹینٹ ویلج قائم کردیا گیا ہے، گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی شندور فیسٹول کی انتظامات اپرچترال انتظامیہ سرانجام دے رہی ہے، تاہم لوئیر چترال کی معاونت بھی حاصل ہے ، جبکہ فیسٹول خیبرپختونخوا کلچرل اینڈ ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کی تعاون سے منعقد کیا جارہاہے، جہاں چترال اور گلگت کی پولو ٹیمیں اپس میں ٹکرائیں گے، فیسٹول کے لئے چترال اور گلگت کے پانچ پانچ ٹیموں کا اعلان کردیا گیا ہے،شندور فیسٹول میں پولومیچز کے علاوہ پیراگلائڈنگ، ثقافتی شو اور اسٹال بھی لگائیں جائیںگے۔

 

شندور فیسٹول کا فائنل ۳۰ جون کو ہوگا، گزشتہ ادوار میں شندور فیسٹول کے فائنل میچ میں سربراہان ریاست اور حکومت کے ساتھ آرمی چیف بطور مہمان خصوصی شرکت کرتے آئے ہیں، جن میں جنرل ضیاٗ الحق، بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف، جنرل مشرف ودیگر شرکت کرچکے ہیں، امسال بھی وزیراعظم پاکستان کی شرکت متوقع ہے ، جبکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی آمین گنڈاپور بھی شرکت کرینگے۔دریں اثنا بیرونی سیاحوں کی آمد شروع ہے، جبکہ اندرون ملک سے بھی ہزاروں کی تعداد میں سیاحوں کی شرکت متوقع ہے۔

chitraltimes shandur festival all arrangement completed dc upper 2

chitraltimes shandur festival all arrangement completed dc upper 3 chitraltimes shandur festival all arrangement completed dc upper 4 chitraltimes shandur festival all arrangement completed dc upper 5

chitraltimes shandur festival all arrangement completed dc upper 1

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستان
90244

شندور پولو فیسٹول کے لئے چترال پولوٹیموں کے کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان کردیا گیا، شہزادہ سکندر الملک ٹیم کیپٹن، معروف پلیئر ناصراللہ کواے ٹیم میں شامل، کردیا گیا

Posted on

شندور پولو فیسٹول کے لئے چترال پولوٹیموں کے کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان کردیا گیا، شہزادہ سکندر الملک ٹیم کیپٹن، معروف پلیئر ناصراللہ کواے ٹیم میں شامل، کردیا گیا

اپر چترال (نمائندہ چترال ٹائمز ) شندور پولو فیسٹیول 2024 کے لئے کھیلاڑیوں کے انتخاب بالخصوص پولو پلئیر ناصراللہ کو چترال اے ٹیم میں کھیلانے کے سلسلے میں پولو جیوری کمیٹی چترال کا ایک اہم میٹنگ زیر صدارت محمد عرفان الدین ڈپٹی کمشنر اپر چترال منعقد ہوا۔

 

اس میٹنگ میں صدر پولو ایسوسیشن چترال شہزادہ سکندرالملک اور جیوری کمیٹی کے دیگر ممبران نے شرکت کی۔ میٹنگ میں یہ طے پایا کہ چونکہ ناصر اللہ ایک بہترین پولو پلئیر ہے اور اس نے پری شندور پولو ٹورنامنٹ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اس لئے پولو سلیکش قوانین میں ایک مرتبہ ترمیم کرکے اس کو چترال پولو اے ٹیم میں کھیلانے کا اصولی فیصلہ کیا گیا۔

 

لہذا متفقہ طور پر یہ فیصلہ ہوا کہ ناصر اللہ اس سال چترال اے پولو ٹیم میں کھیلے گا۔ جس پر ڈپٹی کمشنر اپر چترال نے پولو ایسوسی ایشن چترال کا شکریہ ادا کیا ۔دریں اثنا شندور پولو فیسٹول کے لئے چترال کےپولو ٹیموں کے کھلاڑیوں کے ناموں کا بھی اعلان کردیا گیا، شہزادہ سکندر الملک چترال اے ٹیم کے کیپٹن ہونگے، اصغر حسین چترال بی ٹیم کے کیپٹن، شمیم احمد چترال سی ٹیم کےکیپٹن، عماد الدین چترال ڈی ٹیم کے کیپٹن، اسی طرح حکیم سرور سب ڈویژن مستوج ٹیم کے کیپٹن ہونگے۔، دریں اثنا  شندور پولوفیسٹول کے لئے جیوری ودیگر منیجمنٹ کے ممبران کے ناموں کا بھی اعلان کردیا گیا،

 

chitraltimes dc chitral upper chaired shandur team selection meeting 1

chitraltimes shandur festival 2024 team selection and management committee list 2 chitraltimes shandur festival 2024 team selection and management committee list 1 chitraltimes dc chitral upper chaired shandur team selection meeting 2

 

 

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستان
90148

صحافی اور کالم نگار – فرق اور فطرت – خاطرات : امیرجان حقانی

Posted on

صحافی اور کالم نگار – فرق اور فطرت – خاطرات : امیرجان حقانی

صحافی اور کالم نگار میں فرق کو سمجھنے کے لیے ایک باغبان اور مصور کی مثال لی جا سکتی ہے۔ ایک باغبان کا کام ہے کہ وہ باغ کی دیکھ بھال کرے، پودوں کو پانی دے، اور وقت پر کھاد ڈالے۔ وہ حقیقت میں باغ کی نشوونما کا ذمہ دار ہوتا ہے، باغ کی ساری بہاریں اسی کے دم سے ہیں۔ اسی طرح ایک صحافی کا کام ہے کہ وہ خبروں کو جمع کرے، ان کی تحقیق کرے اور عوام تک پہنچائے۔ وہ حقائق کی چھان بین کرتا ہے اور عوام کو صحیح معلومات فراہم کرتا ہے۔ شاید یہ آپ کو معلوم ہو کہ پاکستان میں صحافت جان جوکھوں کا کام ہے۔ حقیقی صحافی کا ایک پیر ہمیشہ جیل میں ہی ہوتا ہے۔ اسے دسیوں مافیاز سے خطرہ رہتا ہے۔

 

دوسری طرف، ایک مصور کا کام ہے کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے کینوس پر اپنی سوچ اور خیالات کا اظہار کرے۔ اسی طرح ایک کالم نگار کا کام ہے کہ وہ اپنے خیالات اور تجزیے کو تحریر کی شکل میں پیش کرے۔ وہ مختلف موضوعات پر اپنی رائے اور نظریات پیش کرتا ہے۔

 

پندرہ سال پہلے جب میں نے یونیورسٹی میں صحافت کی تعلیم میں قدم رکھا، تو میرا سفر بھی ایک صحافی طالب علم کے طور پر ہی شروع ہوا تھا۔ میں نے باقاعدہ یونیورسٹی سے صحافت کی تعلیم حاصل کی، بیس پیپر پاس کیے اور کئی درجن صحافتی اسائنمنٹ مکمل کیے۔ اسی زمانے میں، میں نے بہت سی خبریں جمع کیں، رپورٹیں تیار کیں اور انہیں عوام تک پہنچایا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ، میری دلچسپی کا محور تبدیل ہوتا گیا۔ لکھنا میرا ذوق تھا، گریجویشن کے بعد اخبار میں کالم لکھنا شروع کیا تھا جو ہفت روزہ چٹان میں چھپتا تھا اور دہھر کچھ اخبارات و رسائل میں بھی۔ آج بھی میری تیار کردہ نیوز رپورٹس گلگت بلتستان کے اکثر اخبارات میں شائع ہوتی ہیں۔ یہاں کے نیوز ایڈیٹر صاحبان من و عن شائع کر دیتے ہیں۔ سرخی بھی وہی جما دیتے ہیں جو میں نے لکھ کر بھیجا ہوتا ہے۔

 

گزشتہ اٹھارہ سال سے، میں کالم لکھ رہا ہوں ۔ کالم لکھتے وقت، میں نے محسوس کیا کہ یہ کام میری تخلیقی صلاحیتوں کو زیادہ موقع دیتا ہے۔ اچھا کالم لکھنے کے لئے مجھے اچھا مطالعہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ کالم لکھنا ایک آزادانہ عمل ہے جہاں میں اپنے خیالات اور نظریات کو بے باک انداز میں پیش کر سکتا ہوں۔ سخت سے سخت بات استعارہ و کنایہ میں کہہ جاتا ہوں۔ لوگ تلملا اٹھتے ہیں مگر کچھ کہنے یا کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ میری تحریریں صرف حقائق پر مبنی نہیں ہوتیں بلکہ ان میں میری رائے، تجزیے اور تجربات و تاثرات کا رنگ بھی شامل ہوتا ہے۔

 

اکثر لوگ اس فرق کو نہیں سمجھتے اور مجھے صحافی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ مگر میں جانتا ہوں کہ عملی صحافت ایک ذمہ داری کا کام ہے جہاں حقیقت کو بغیر کسی تحریف کے پیش کرنا ہوتا ہے، جبکہ کالم نگاری ایک تخلیقی کام ہے جہاں میں اپنے خیالات کو آزادانہ طور پر پیش کر سکتا ہوں۔ یہ بست ضرور ہے کہ کالم نگاری صحافت کی ایک صنف ہے مکمل صحافت نہیں۔

 

تو، جب لوگ مجھے صحافی کہتے ہیں تو میں صرف مسکرا کر کہتا ہوں کہ “ان سے کیا الجھنا”، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میری شناخت ایک کالم نگار کی ہے، نہ کہ ایک صحافی کی۔ اس فرق کو سمجھنا اور اسے برقرار رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ ہم اپنے کام کی نوعیت اور اس کی اہمیت کو صحیح طریقے سے پہچان سکیں۔

 

میری تحریروں کا اصل مقصد ہے کہ قارئین کو سوچنے پر مجبور کروں، ان کے ذہنوں میں سوالات پیدا کروں اور انہیں ایک نئے زاویے سے دنیا کو دیکھنے کی ترغیب دوں۔ اور اپنے خاطرات ان تک پہنچانا ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں خود کو ایک کالم نگار کہلوانا زیادہ پسند کرتا ہوں، کیونکہ یہ میری شناخت کا صحیح عکاس ہے۔

 

ہاد رہے! ایک کہنہ مشق صحافی بہترین کالم نگار بن سکتا ہے اور میری طرح کوئی مدرس بھی کالم نگاری میں اپنا مقام بنا سکتا ہے مگر بنیادی طور پر ان دونوں میں فرق واضح ہے جن کو مثالوں کے ذریعے بیان کیا ہے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
90111

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کا مالی بحران اور حل – خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کا مالی بحران اور حل – خاطرات :امیرجان حقانی

 

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی (KIU) گلگت بلتستان کی علمی و تحقیقی خدمات کا مرکز ہے،کسی حد تک گلگت بلتستان کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے۔ یہ یونیورسٹی صدر مشرف کا تحفہ ہے۔گزشتہ بیس سال میں قراقرم یونیورسٹی بہت سے نشیب و فراز سے گزری ہے، تاہم اب کی بار شاید یونیورسٹی شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ یونیورسٹی کے اس حال تک پہنچنے میں کچھ اپنوں کی بے رعنائیاں ہیں اور کچھ اندر والوں کی ریشہ دوانیاں، جو بحرحال افسوسناک ہے۔ حالیہ مالی بحران اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے یونیورسٹی کے دیامر، غذر اور ہنزہ کیمپسز کی بندش کا اعلامیہ ایک افسوسناک واقعہ ہے جو علاقے کی تعلیمی ترقی پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔قراقرم یونیورسٹی کے ساتھ بلتستان یونیورسٹی بھی کرائسس کا شکار ہے۔

 

اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے کچھ تجاویز پیش کی جا رہی ہیں جو دونوں یونیورسٹیوں کو مالی بحران سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ سردست ہم دونوں یونیورسٹیوں کی کمزوریوں اور خامیوں اور ان کے کارپردازوں کی رنگینیوں اور لاپرواہیوں کو ڈسکس نہیں کریں گے۔ وہ پھر کبھی، سردست ہمیں اپنے ان اداروں کو مشکلات سے نکالنا ہے۔یہ ادارے ہم سب کے ہیں اور فرض بھی سب کا ہے۔ تجاویز ملاحظہ ہوں۔

حکومت پاکستان اور حکومت گلگت بلتستان سے تعاون لینا بہت ضروری ہے۔ وفاقی حکومت کو قراقرم یونیورسٹی کے لیے خصوصی فنڈز جاری کرنے چاہئیں تاکہ یونیورسٹی کے مختلف کیمپسز کو فعال رکھا جا سکے۔ اس کے لیے تعلیمی بجٹ میں اضافی مختصات کی ضرورت ہے۔
گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کو بھی دونوں یونیورسٹیوں کی مالی مدد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔خصوصی گرانٹس، سبسڈیز اور تعلیمی پروگرامز کے ذریعے مالی معاونت فراہم کی جائے۔ اور بہت سارے طریقے ہوسکتے ہیں جن کے ذریعے دونوں یونیورسٹیوں کو اس نزاعی حالت سے نکالا جاسکتا ہے۔

ایچ ای سی ایک ذمہ دار آئینی ادارہ ہے۔ گلگت بلتستان کی دو ہی یونیورسٹیوں کو اس طرح بے یار و مددگار نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ایچ ای سی کو چاہیے کہ قراقرم یونیورسٹی اور بلتستان یونیورسٹی کے لئے خصوصی فنڈز کی بحالی کا کوئی ڈسیجن لیں۔ اس کی بھی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں۔

 

1.فوری اور ہنگامی اپیل:
یونیورسٹی انتظامیہ کو ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) سے فنڈز کی بحالی اور اضافی گرانٹس کی درخواست کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کی مداخلت بھی کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ اور دیگر ذمہ دار ادارے بھی کردار ادا کرسکتے ہیں۔

2.طویل مدتی منصوبہ بندی:
ایچ ای سی کو قراقرم اور بلتستان یونیورسٹی کے ساتھ مل کر طویل مدتی فنڈنگ پلان تیار کرنا چاہئے تاکہ مستقبل میں ایسے بحران سے بچا جا سکے۔ قراقرم یونیورسٹی اور بلتستان یونیورسٹی کے پروفیسروں اور منتظمین کے پاس ایسے پلان مرتب شکل میں ہونے چاہئے جو HEC کے ساتھ طویل مدتی فنڈنگ کے لیے کیے جاسکتے ہیں۔

 

دنیا بھر میں ہزاروں ایسے ادارے ہیں جو تعلیمی اداروں بالخصوص تیسری دنیا کے تعلیمی اداروں کو مضبوط کرنے اور انہیں مدد دینے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ عالمی اداروں اور رفاہی تنظیموں سے فنڈ ریزنگ کے لیے بھی بلتستان اور قراقرم یونیورسٹی کو ورک پلان تیار کرنا چاہیے۔ دونوں یونیورسٹیوں کو عالمی اداروں جیسے ورلڈ بینک، یونیسکو، اور دیگر بین الاقوامی تعلیمی فنڈنگ اداروں سے رابطہ کرنا چاہئے۔ انہیں یونیورسٹیوں کی اہمیت اور اس کے مالی بحران کی صورتحال سے آگاہ کیا جائے۔

ملکی اور غیر ملکی رفاہی تنظیموں سے مالی مدد حاصل کرنے کے لیے جامع حکمت عملی تیار کی جائے۔ اس میں انڈوومنٹ فنڈز، سکالرشپس، اور تعلیمی پروجیکٹس کے لیے گرانٹس شامل ہو سکتی ہیں۔

سوشل میڈیا اور عوامی حمایت بھی بہت ضروری ہے۔ جب سے یونیورسٹی نے مالی بحران کا اعلامیہ جاری کیا ہے سوشل میڈیا میں غم و غصہ پایا جاتاہے ۔ طنزیہ پوسٹیں زیئر ہورہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر جاری غم و غصہ کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے۔ ایک مربوط سوشل میڈیا کیمپین کے ذریعے عوام کو یونیورسٹی کی اہمیت اور مالی بحران سے آگاہ کیا جائے تاکہ عوامی حمایت حاصل کی جا سکے۔ اس کے لئے یونیورسٹی ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کو ہنگامی ٹاسک تفویض کریں۔

حکومت کے تمام ادارے عوامی ٹیکس سے ہی چلتے ہیں۔ ایسی بحرانی کیفیت میں دونوں یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ عوام اور مختلف کاروباری اداروں سے عطیات جمع کرنے کے لیے آن لائن اور آف لائن مہمات شروع کریں۔ اس میں یونیورسٹی کے سابق طلباء، مقامی کمیونٹی اور کاروباری حلقے شامل ہو سکتے ہیں۔

مقامی کمیونٹی اور کاروباری اداروں کے ساتھ پارٹنرشپ قائم کی جائے تاکہ یونیورسٹیوں کے مختلف منصوبوں میں مالی معاونت حاصل کی جا سکے۔اسی طرح مقامی اور ملکی صنعتوں سے تعاون حاصل کرنے کے لیے موٴثر حکمت عملی تیار کی جائے، تاکہ انڈسٹری اور یونیورسٹی کے مابین تحقیقی و تعلیمی منصوبوں کے ذریعے مالی معاونت حاصل کی جا سکے۔

اور سب سے بڑھ کر دونوں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر صاحبان اور دیگر انتظامی و اکیڈمیا کے لوگوں کو کفایت شعاری سے کام لینا چاہیے۔ سچ یہ ہے کہ آپ کے بے جا شاہ خرچیوں اور غیر مربوط پالیسیوں کی وجہ سے یہ تعلیمی ادارے اس کیفیت میں مبتلا ہوئے ہیں۔ دوسروں سے مدد اور قربانی طلب کرنے سے پہلے خود شروع کریں تو ان شا اللہ بہتری آئے گی۔

مختصراً عرض ہے کہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی اور بلتستان یونیورسٹی کی بقاء اور ترقی کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔حکومت پاکستان، حکومت گلگت بلتستان، ایچ ای سی، عالمی ادارے، رفاہی تنظیمیں، اور عوامی حمایت کا حصول دونوں یونیورسٹیوں کو موجودہ مالی بحران سے نکال سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل جل کر جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ یونیورسٹیوں کا روشن مستقبل یقینی بنایا جا سکے۔اللہ سے دعا ہے کہ ان قومی اداروں کو مشکلات سے نکالے۔

Karakurom international university KIU GB 1

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
90088

جانوروں کی قیمتوں میں اضافہ: ایک ظالمانہ رویہ  – خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on

جانوروں کی قیمتوں میں اضافہ: ایک ظالمانہ رویہ  – خاطرات :امیرجان حقانی

عیدالاضحیٰ کا موقع مسلمانوں کے لیے ایک مقدس اور عظیم موقع ہوتا ہے، پوری دنیا میں مسلمان اللہ کی رضا کے لیے لاکھوں جانور قربان کرتے ہیں۔ یہ فریضہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی یاد میں ادا کیا جاتا ہے، جس میں ان کی اللہ کے حکم پر اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا واقعہ شامل ہے۔ ہر سال کروڈوں مسلمان اس عمل سے گزرتے ہیں ، جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ اس مقدس فریضے کو بھی منافع خوری کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔
قربانی کے جانوروں کی قیمتیں عیدالاضحیٰ کے قریب آتے ہی آسمان کو چھونے لگتی ہیں۔ جو جانور عام دنوں میں ساٹھ ہزار روپے کا ہوتا ہے، قربانی کے دنوں میں اس کی قیمت لاکھوں میں پہنچ جاتی ہے۔ یہ نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ دینی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ لوگوں کی استطاعت سے باہر قیمتیں وصول کرنا نہ صرف ظلم ہے بلکہ قربانی کی روح کو بھی مجروح کرتا ہے۔ گزشتہ تین دن سے مناسب قیمت پر جانور کی تلاش میں ہوں مگر قیمتیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ۔ عام انسان جس کے پاس ایک دو جانور ہیں وہ بھی دگنا وصولنے کے چکر میں ہیں ۔
مغربی ممالک میں کرسمس اور ایسٹر جیسے تہواروں پر حکومتیں اور تاجر اشیاء کی قیمتیں کم کر دیتے ہیں تاکہ عوام اپنی خوشیاں بھرپور طریقے سے منا سکیں۔ کرسمس کے موقع پر مارکیٹ میں مختلف اشیاء پر خصوصی رعایتیں دی جاتی ہیں، اور لوگ اپنی مذہبی تقریبات کو اطمینان کے ساتھ مناتے ہیں۔ یہ رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تہواروں کا اصل مقصد لوگوں کو خوشی اور سکون فراہم کرنا ہوتا ہے، نہ کہ ان کی مشکلات میں اضافہ کرنا۔ کاش مسلمان مغرب سے اتنا بھی سیکھ لیتے۔
کچھ عملی تجاویز ذہن میں آرہی ہیں۔ دل کرتا ہے آپ سے شئیر کروں۔ آپ بھی اپنے طور پراس چیز کو باریک بینی سے دیکھ لیں۔ہمیں اپنے رویے اور تجارتی طرز عمل میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ قربانی کا اصل مقصد حاصل ہو سکے.
1.اخلاقی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا:
ہمیں اسلامی تعلیمات اور اخلاقی اصولوں کی پیروی کرنی چاہیے۔ قربانی کا اصل مقصد اللہ کی رضا ہے، نہ کہ مالی فائدہ۔ تاجروں کو چاہیے کہ وہ اس موقع پر جانوروں کی قیمتوں میں غیر ضروری اضافہ نہ کریں اور اپنی نیت کو خالص رکھیں۔ تاجر تو چھوڑیں عام مسلمان بھی، جس کے پاس دو چار جانور ہوں دگنا قیمت وصولنے کے چکر میں ہوتا ہے۔
2.حکومتی اقدامات:
حکومت کو چاہئے کہ وہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے اور مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ اس سلسلے میں موثر حکومتی پالیسیز اور نگرانی کا نظام ضروری ہے۔ حکومتی ماہرین کوئی فارمولا وضع کرسکتے ہیں۔
3.عوامی شعور بیدار کریں:
ہمیں مجموعی طور پر عوام کو یہ شعور دینا ہوگا کہ غیر ضروری طور پر مہنگے جانور خریدنے سے گریز کریں اور اعتدال پسندی کو اپنائیں۔ ہمیں اپنی مالی استطاعت کے مطابق قربانی کرنی چاہیے اور دکھاوے سے بچنا چاہیے۔
4.تجارتی تنظیموں کا کردار:
 تاجر برادری کو چاہیے کہ وہ اپنے ممبران کو اخلاقی تعلیمات سے آگاہ کریں اور انہیں ترغیب دیں کہ قربانی کے جانوروں کی قیمتیں مناسب حد میں رکھیں۔ تجارتی تنظیموں کو بھی اس موقع پر خصوصی رعایتوں کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ قربانی کر سکیں۔
5.سوشل میڈیا مہم:
سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے شعور بیدار کیا جائے تاکہ لوگ اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کریں اور مہنگے جانور خریدنے کی دوڑ میں شامل نہ ہوں۔ اس کے علاوہ، علماء اور دینی رہنما بھی لوگوں کو اس حوالے سے رہنمائی فراہم کریں۔ اور یہ مہم بھی چلنا چاہیے کہ جو لوگ یا جن علاقوں میں جانور مہنگے کیے جاتے ہیں یا مصنوعی مہنگائی کی جاتی ہے ان کا بائیکاٹ کرکے دوسری جگہوں سے جانور خریدے جائیں۔
قربانی ایک عظیم دینی فریضہ ہے جو ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد دلاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس موقع پر اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کریں اور اس عمل کو آسان بنائیں۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اپنی دنیاوی فائدے کے بجائے اللہ کی رضا کو ترجیح دیں۔
آئیے، اس عیدالاضحیٰ پر ہم سب مل کر عہد کریں کہ ہم قربانی کے اس عظیم فریضے کو اعتدال کے ساتھ ادا کریں گے اور اپنے بھائیوں کی خوشیوں میں اضافہ کریں گے۔ اگر جانور مہنگے کیے جائیں تو بہت سارے مخلص اور سفید پوش مسلمان قربانی سے رہ جائیں گے۔
اللہ ہمیں صحیح معنوں میں دین کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے۔ آمین۔اور اگر ہم جانور کے تاجر ہیں تو ناجائز منافع خوری سے بچنے اور اعتدال کی راہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
90068

شندور پولو فیسٹیول جمعہ 28 جون کو شیڈول کے مطابق شروع ہوگا، بختیار خان، ڈی سی اپر چترال نے مقامی سطح پر عیدالاضحی کی چھٹیاں منسوخ کر دی

ڈی سی اپر چترال نے مقامی سطح پر عیدالاضحی کی چھٹیاں منسوخ کر دی ہیں، مقامی لوگوں سے بھی مسلسل رابطوں میں ہیں

شندور پولو فیسٹیول جمعہ 28 جون کو شیڈول کے مطابق شروع ہوگا، بختیار خان

مشیر سیاحت کی ہدایات کی روشنی میں تین روزہ فیسٹیول کی تیاریوں کو حتمی شکل دیدی گئی ہے، ضلعی انتظامیہ کے اعلی حکام موقع پر انتظامات کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں،

فیسٹیول میں پولو میچز کے علاؤہ چترال اور گلگت بلتستان کی لوک دھنوں پر مبنی محفل موسیقی بھی منعقد ہوگی، سیکرٹری محکمہ سیاحت و ثقافت

مشیر سیاحت کا انتظامات پر اطمینان کا اظہار، عیدالاضحی کے فوراً بعد محکمہ سیاحت کی انتظامی ٹیمیں شندور بھیجنے کی ہدایت

پشاور ( چترال ٹائمزرپورٹ ) سیکرٹری محکمہ سیاحت و ثقافت خیبرپختونخوا محمد بختیار خان نے کہا ہے کہ مشیر سیاحت و ثقافت زاہد چن زیب کی ہدایات کی روشنی میں شندور پولو فیسٹیول کے تمام انتظامات کو حتمی شکل دیدی گئی ہے جو وزیراعلی کی اعلان کردہ تاریخ یعنی جمعہ 28 جون کو شروع ہو گا۔ اس تین روزہ فیسٹیول میں شرکت کیلئے پاکستان کے علاؤہ دنیا بھر سے سیاحوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے محکمہ سیاحت و ثقافت پشاور کے کانفرنس روم میں منعقدہ جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ سیکرٹری محکمہ سیاحت کا کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنر اپر چترال سمیت چترال کے دونوں اضلاع کی انتظامیہ کے اعلی حکام شاہراہِوں اور سیکورٹی انتظامات کا بذات خود مسلسل جائزہ لے رہے ہیں جبکہ ڈپٹی کمشنر اپر چترال نے مقامی سطح پر ملازمین کی چھٹیاں بھی منسوخ کر دی ہیں اور مقامی لوگوں اور زعماء سے بھی مسلسل رابطوں میں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ عیدالاضحیٰ کے فوراً بعد محکمہ سیاحت و ثقافت کی مختلف انتظامی ٹیمیں شندور پولو فیسٹیول کیلئے روانہ کر دی جائینگی تاکہ شندور گراؤنڈ پر تیاریوں کو نہ صرف فول پروف بنا کر حتمی شکل دی جائے بلکہ مزید بہترین انتظامات بھی کئے جائیں اور جہاں جہاں ضرورت ہو وہاں سیاحوں کیلئے اضافی سہولیات بھی مہیا کی جائیں۔

 

انہوں نے کہا کہ وزیراعلی علی امین گنڈاپور کی طرف سے اعلان شدہ تاریخوں پر ہی شندور پولو فیسٹیول کا انعقاد کیا جائے گا۔ تین روزہ فیسٹیول میں چترال اور گلگت بلتستان کی پولو ٹیموں کے سنسنی خیز مقابلوں کے علاؤہ ان علاقوں کے فنکار اور گلوکار مقامی دھنوں پر محفل موسیقی میں پرفارم کرینگے۔ فیسٹیول میں ہر سال کی طرح امسال بھی مقامی ثقافتی دستکاریوں اور مصنوعات کے سٹالز سجائے جائینگے۔ فیسٹیول کی اختتامی تقریب 30 جون کو شندور پولو گراؤنڈ پر منعقد ہوگی جس میں رنگا رنگ ثقافتی پروگراموں اور فنکاروں کی پرفارمنس کے علاؤہ پیرا گلائڈنگ اور دیگر فن کے مظاہرے بھی پیش کئے جائینگے۔ درایں اثناء مشیر سیاحت و ثقافت زاہد چن زیب نے شندور پولو فیسٹیول کے سلسلے میں جاری انتظامات اور تیاریوں پر اطمینان کا اظہار کیا ہے جو ڈویژنل اور ضلعی انتظامیہ سے مسلسل رابطوں میں ہیں۔ مشیر سیاحت نے اس سلسلے میں چترال کے دونوں اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کی مسلسل نگرانی اور کوششوں کو سراہا ہے۔ انہوں نے عیدالاضحی کے فوراً بعد محکمہ سیاحت کے اعلیٰ انتظامی افسران کی ٹیمیں شندور بھیجنے اور تمام انتظامات کو ہر لحاظ سے فول پروف بنانے کی ہدایت کی۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس تین روزہ فیسٹیول کو عالمی معیار کے مطابق ہر لحاظ سے کامیاب اور یادگار ترین سیاحتی میلہ بنایا جائے گا جس کی گونج بین الاقوامی سطح پر سنائی دے گی۔

chitraltimes dc upper chitral irfan uddin visits camping pot

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
90007

پرنس رحیم آغا خان کا پاکستان کا پانچ روزہ دورہ مکمل، اخری روز وزیراعظم پاکستان سے ملاقات

Posted on

پرنس رحیم آغا خان کا پاکستان کا پانچ روزہ دورہ مکمل، اخری روز وزیراعظم پاکستان سے ملاقات

 

اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ) پرنس  رحیم آغا خان کا دورۂ پاکستان اختتام کو پہنچ گیا۔اپنے دورے کے آخری روزپرنس رحیم آغا خان نے وزیراعظم پاکستان، میاں محمد  شہباز شریف سے اُن کی سرکاری رہائش گاہ ،واقع اسلام آباد ،میں ملاقات کی۔ وزیر اعظم نے پرنس رحیم کا خیرمقدم کرتے ہوئے AKDNکی جانب سے پاکستان کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر اُن کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے علاوہ، وزیر اعظم نے قیام پاکستان میں سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم کے کردار کو بھی سراہا۔ پرنس رحیم کے ہمراہ AKFED کے ڈائریکٹر، سلطان علی الانہ اور آغا خان کے سفارتی اُمور کے شعبے کے سربراہ شفیق سچی دینا بھی موجود تھے۔

 

پرنس رحیم حکومت اور AKDNکی قیادت سے ملاقات اور گلگت بلتستان میںAKDNکے نئے منصوبوں کا جائزہ لینےکی غرض سے پاکستان کے پانچ روزہ دورے پر تھے۔اس دوران انہیں پاکستان کے صدر ،  آصف علی زرداری نے ایشیا اور افریقہ جیسے وسائل سے محروم خطوں میں لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے انتھک کوششیں کرنے  پرپاکستان کے سب سے بڑے سول ایوارڈ”نشان پاکستان“ سے نوازا۔ یہ ایوارڈ ایسے افراد کو دیا جاتا ہے جنہوں نے پاکستان کے لیے اعلیٰ ترین خدمات انجام دی ہوں۔

 

اعزاز وصول کرنے کے بعد پرنس رحیم نے کہا کہ ”مجھے آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک، اپنےساتھیوں،اپنے عملے اور دیگر اُن بہت سے رضاکاروں کی جانب سے جو پاکستان کے عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لئے انتھک محنت کرتے ہیں, اس طرح کا اعزاز قبول کرنے پر فخر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں اس عظیم اعزاز پر صدر پاکستان اور حکومت پاکستان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔“

 

اس دورے کے دوران پرنس رحیم نے صدر پاکستان  آصف علی زرداری، وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف، گورنر گلگت بلتستان ،سید مہدی شاہ، گورنر خیبر پختونخوا ،فیصل کریم کنڈی اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان ،گلُبر خان سمیت مختلف سرکاری حکام سے ملاقاتیں کیں اور ملک میںAKDNکے منصوبوں سمیت باہمی دلچسپی کے اُمور پرتبادلہ خیال کیا۔

 

8جون کو  پرنس رحیم آغا خان نے ہُنزہ کا دورہ کیا ، جہاں انہوں نے ناصرآباد میں سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک کا باضابطہ افتتاح کرنے کے علاوہ ڈوئیکر سولر پاور پلانٹ (Duiker Solar Power Plant)کی پیداواری گنجائش میں اضافہ کرنے اور نئے  سولر پلانٹ کی تنصیب کا افتتاح کیا۔ نصیر آباد میں قائم کیا جانے ولا سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک بجلی کی بلاتعطل فراہمی، تیز رفتار انٹرنیٹ اور چھوٹے اور بڑھتے ہوئے اسٹارٹ اپس، فری لانسرز اور چیمبرز آف کامرس کے لیے کام کرنے کی مشترکہ جگہ(co-working space) فراہم کرے گا۔ سولر انرجی پلانٹ  کا دوسرامرحلہ، جس پر کام شروع ہورہا ہے ، ہنزہ میں تقریبا 20،000 افراد کے لیے بجلی کی فراہمی میں اضافہ کرے گا۔ یہ دونوں منصوبے خطے میں زندگی کے مجموعی معیار کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

 

بعد ازاں،9جون کو ،پرنس رحیم نے ،گلگت بلتستان میں ایچ بی ایل مائیکرو فنانس بینک (HBL MfB) کے نئے علاقائی ہیڈ کوارٹرکا افتتاح کیا۔ جدید فن تعمیر اور مقامی ثقافتی عناصر کا امتزاج رکھنے والی یہ  نئی عمارت گرین کنسٹرکشن (green construction)اوراعلیٰ تعمیر کے  بین الاقوامی معیاروں پر پورا اترتی ہے اور مضبوطی، جدت اور مقامی کمیونٹی کی ترقی کے لیے بینک کے عزم کو اُجاگر کرتی ہے۔

chitraltimes prince rahim aga khan visit to pakistan concluedes meeting with pm shehbaz 2

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
89957

پرنس رحیم آغا خان نے گلگت بلتستان میں HBL MfB کے ریجینل ہیڈ کوارٹرز کا افتتاح کردیا،

Posted on

پرنس رحیم آغا خان نے گلگت بلتستان میں HBL MfB کے ریجینل ہیڈ کوارٹرز کا افتتاح کردیا،

یہ اقدام پائیداری اور ماحولیاتی تحفظ کیلئے قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے بینک کے عزم کا عکاس ہے

گلگت(چترال ٹائمزرپورٹ ) گلگت بلتستان میں HBL مائیکرو فنانس بینک (HBL MfB) نے اپنے نئے ریجینل ہیڈکوارٹرز کا افتتاح کردیا۔ تقریب میں آغا خان فنڈ فار اکنامک ڈویلپمنٹ (AKFED) کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئر پرنس رحیم آغا خان، HBL کے چیئرمین سلطان علی الانہ،HBL کے صدر اور سی ای او محمد ناصر سلیم، HBL MfB کے چیئرمین ریومنڈ کوتوال، HBL MfB کے سی ای او اور صدر عامر خان نے شرکت کی۔

 

یہ عمارت بینک کی پائیداری، جدت اور مقامی آبادی کی ترقی کیلئے بینک کے عزم کا عکاس ہے۔جدید فن تعمیرات اور مقامی ثقافت کے بہترین امتزاج کی حامل عمارت ما حول دوست تعمیرات کے اعلی ترین معیارات پر پورا اترتی ہے۔ عمارت کو LEED گولڈ سرٹیفکیشن اور EDGE ایڈوانسڈ سرٹیفکیشن سے نوازا گیا جو ملک میں مذکورہ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والی پہلی عمارت ہے۔ امریکی گرین بلڈنگ کونسل سے ملنے والی LEED گولڈ سرٹیفیکیشن عمارت کی توانائی اور پانی کی کارکردگی، پائیدار سائٹ کی ترقی اور اندرونی ماحولیاتی معیار میں بہترین کارکردگی کو اجاگر کرتی ہے۔ انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن(IFC)کی طرف سیدی گئی EDGE ایڈوانسڈ سرٹیفیکیشن عمارت کی توانائی اور پانی کی بچت کے حوالے سے وسائل کے استعمال میں بہترکارکردگی کے عزم کو ظاہر کرتی ہے۔یہ عمارت روزمرہ کے امور کی انجام دہی کیلئے درکار بجلی کا 40 فیصد ا پنے طور پر پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

 

پرنس رحیم آغا خان نے کہا”گلگت بلتستان میں HBL مائیکروفنانس بینک کے ریجینل ہیڈ کوارٹرز کاافتتاح آغاخان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک (AKDN) اور بینک دونوں کیلئے ایک شاندار سنگ میل ہے۔ یہ منصوبہ AKDN کے 2030 تک کاربن کے زیرو اخراج کے حصول کے ہدف کی طرف ایک بڑا قدم ہے۔ بہتر اور زیادہ پائیدار مستقبل کیلئے ہماری کوششوں کے تناظر میں یہ عمارت گلگت بلتستان کے لوگوں کیلئے مسلسل ترقی، پائیداری اور خوشحالی کی علامت ہے”۔

 

چیئرمین HBL MfB ریومنڈ کوتوال نے کہا”گلگت بلتستان میں ریجینل ہیڈ کوارٹرز پائیدار ترقی اور مقامی آبادی کی فلاح وبہبود کیلئے ہمارے عزم کا ثبوت ہے۔ HBL مائیکروفنانس بینک کے سفر میں گلگت خاص مقام رکھتا ہے کیونکہ ہم نے دو دہائی قبل اسی شہر سے اپنے سفر کاآغاز کیا۔یہ عمارت معاشی ترقی کے فروغ اور علاقائی ماحول کے تحفظ کیلئے ہماری لگن اور عزم کی علامت ہے۔مقامی ثقافت کے ساتھ پائیدار طریقے اپناتے ہوئے HBL MfB نے ماحولیاتی تحفظ اور کارپوریٹ ذمہ داری میں قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے نئے معیارات قائم کیے ہیں۔ ہمیں گلگت بلتستان کے علاقے کی ترقی میں کردارادا کرنے پر فخر ہے اور ہم تمام پاکستانیوں کے لیے اپنا کردار جاری رکھیں گے۔”

 

صدر و سی ای او HBL MfB عامر خان نے کہا”گلگت بلتستان کا فلیگ شپ ریجینل ہیڈکوارٹرز پاکستان کے بہترین مائیکروفنانس بینک کی طاقت اور استحکام کو ظاہرکرتا ہے۔ ریجینل ہیڈکوارٹرز نہ صرف ہماری آپریشنل صلاحیتوں کومزید تقویت دے گا بلکہ گلگت بلتستان کیلئے ترقی اور امید کی کرن بھی ثابت ہوگا۔ پراجیکٹ کے دوران علاقہ پر خصوصی توجہ دی گئی یہی وجہ ہے کہ مقامی معیشت کو فروغ دینے کیلئے پراجیکٹ کی کل لاگت کا 27فیصد مقامی سپلائرز کے لیے مختص کیا گیا”۔

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستان
89936

ہُنزہ، گلگت بلتستان میں ڈوئیکرسولر پاور پلانٹ فیز ٹو اور ناصر آباد سولر پاور پلانٹس کی تنصیب کے منصوبے کا آغاز

Posted on

ہُنزہ، گلگت بلتستان میں ڈوئیکرسولر پاور پلانٹ فیز ٹو اور ناصر آباد سولر پاور پلانٹس کی تنصیب کے منصوبے کا آغاز

ہنزہ (چترال ٹائمزرپورٹ ) پرنس رحیم آغا خان نے ہفتہ کے روز گلگت بلتستان کے ضلع ہُنزہ کے دورے کے درمیان 3.6 میگاواٹ کی مجموعی پیداواری صلاحیت کے حامل ڈوئیکر سولر پاور پلانٹ، فیز ٹو (Duiker Solar Power Plant, Phase II) کی گنجائش میں اضافے اور ناصر آباد سولر پاور پلانٹ کی تنصیب کے منصوبے کا افتتاح کیا۔

ڈوئیکر پلانٹ کے پہلے فیزنے، جس کی پیداواری گنجائش 01 میگا واٹ اور بیٹر ی اسٹوریج کی گنجائش 0.6 میگاواٹ تھی، گزشہ برس نومبر 2023ء میں کام شروع کیا تھا ۔اس پلانٹ سے 11،000 سے زائد افراد کے لیے بجلی کی روزانہ دستیابی میں اضافہ ہواجوموسم گرما میں 10 سے 17 گھنٹے اور موسم سرمامیں 4 سے 9 گھنٹے تک تھی۔ اس سال، نومبر 2024 تک، ڈوئیکر فیز ٹو کی پیداواری صلاحیت کو 1.0 میگا واٹ سے بڑھا کر 1.6 میگا واٹ اور بیٹری اسٹوریج کی گنجائش کو 0.6 میگا واٹ سے بڑھا کر 1.0 میگا واٹ کیا جائے گا، جس سے مزید 8,760 افراد کو اضافی بجلی فراہم ہو گی۔ اس منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ ڈوئیکر نے ڈیزل سے بجلی پیدا کرنے والے یونٹ کی جگہ لی ہے، جس کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ میں سالانہ 1100 میٹرک ٹن کے مساوی کمی واقع ہوتی ہے۔

لوئر ہنزہ کے علاقے ناصر آباد میں بھی 2.0میگا واٹ کا سولر پاور پلانٹ نصب کیا جائے گا جس کے ساتھ 1.0میگاواٹ بیٹری اسٹوریج کی گنجائش ہو گی۔ اس سے اضافی 23,400 افراد کو بجلی فراہم کی جائے گی۔ توقع ہے ناصر آباد سولر پاور پلانٹ جون 2025 ءمیں شروع کر دے گا۔

آغا خان فنڈ فار اکنامک ڈیویلپمنٹ (AKFED) کے صنعتی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی شاخ انڈسٹریل پروموشن سروسز ((IPS) کا ماتحت ادارہ این پاک انرجی لمیٹڈ(NPak Energy Limited) ان منصوبوں میں 60 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔اس پروجیکٹ کی فنانسنگ ایکویٹی میں آسان قرض، اور گرانٹس شامل ہیں۔ خطے میں توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی غرض سے ترقیاتی شراکت داروں سے اضافی 14 ملین ڈالر حاصل کیے گئے ہیں۔

آئندہ پانچ برسوں کے دوران، این پاک انرجی ہُنزہ اور اطراف کے علاقوں میں بجلی کے صاف اور پائیدار ذرائع میں اضافی سرمایہ کاری کرے گا جس سے خطے میں توانائی کی شدید کمی کو دور کیا جائے گا اور ساتھ موسمیاتی اثرات کو کم کرنے کی عالمی کوششوں میں بھی حصہ لیا جائے گا۔ کمپنی ایک پائیدار، خود کفیل یوٹیلیٹی آپریشن تخلیق کرکے عوامی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لئے پرعزم ہے جو معاشی ذرائع اور روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہے اور ایک جدید اور مؤثر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا ماڈل پیش کرتی ہے اور پائیدار ترقی میں کردار ادا کرتی ہے۔

Posted in جنرل خبریں, گلگت بلتستان
89920

کیا نیٹکو بس حادثے کا ذمہ دار ڈرائیور تھا؟ – شاہ عالم علیمی

کیا نیٹکو بس حادثے کا ذمہ دار ڈرائیور تھا؟ – شاہ عالم علیمی

14 فروری 2023ء کو میری ایک تحقیقاتی رپورٹ اخباروں میں چھپی جو کہ ایک پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کمپنی کی گاڑیوں کے حوالے سے تھی۔ اس رپورٹ میں تفصیل سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ کس طرح اس مخصوص کمپنی کی ناکارہ گاڑیاں پچھلے دس پندرہ سال کے اندر متعدد حادثات میں سینکڑوں گلگت بلتستانیوں کی جان لے چکی ہیں۔ فروری 2023ء کو بھی اس کمپنی کی گاڑی کا قراقرم ہائی وے پر حادثہ ہوا تھا جس میں دو درجن سے زیادہ قیمتی جانوں کا ضیائع ہوا۔

 

انھی دنوں میں نے اس کمپنی کے دفتر واقع راولپنڈی جنرل بس اسٹینڈ کا چکر لگایا۔ انھوں نے ایک بینر آفس ھذا میں آویزاں کیا ہوا ہے جس میں لکھا ہے کہ ہمارے ساتھ سفر کرنے والے ہر مسافر اگر ایک مخصوص رقم کرایے کے ساتھ اضافی ادا کرے تو حادثے میں موت کی صورت میں اس کو اتنی رقم ملے گی۔

گویا کہ انھوں نے اپنے ماضی سے یہی سیکھا ہے کہ حادثہ تو ہونا ہی ہونا ہے، اس میں ہمارا کیا قصور!

پچھلے چند سالوں میں گلگت بلتستان میں روڑ حادثات کے حوالے سے راقم کی متعدد رپورٹیں اخباروں چھپی۔ جن میں اس بات کی خصوصیت کے ساتھ نشاندھی کی گئی تھی کہ ان سڑکوں پر، اور خصوصی طور پر قراقرم ہائی وے پر، چلنے والی گاڑیاں سیفٹی اسٹینڈرڈ پر نہیں اترتی، یہی وجہ کہ ان کے حادثات پیش آتے ہیں۔

میں جب بھی اسلام آباد سے غذر سفر کرتا ہوں ہمیشہ نیٹکو کے ساتھ سفر کرتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پپلک پراپرٹی ہے۔ یہ ترقی کریں اس کا فائدہ عوام ہی کو ہوگا۔ مگر اب نیٹکو کے اندر بھی مس منیجمنٹ اور اقرباء پروری کی بو آرہی ہے۔

 

گزشتہ دنوں میں نیٹکو کے ساتھ سفر کررہا تھا۔ ان کی جو بسیں اسلام آباد سے غذر چلتی ہیں وہ قراقرم ہائی وے پر چلنے کے قابل بالکل بھی نہیں ہیں۔ ایسی ہی ایک گاڑی میں سفر سے پہلے ہی میں نے یہ سوال کیا کہ کیا یہ بس اپنا سفر مکمل کرسکے گی؟ ہوا یوں کہ حویلیاں سے تھوڑا سا آگے پہنچتے ہی اس کے پچھلے دو ٹائیر پھٹ گئے۔ خوش قسمتی سے چڑائی کی وجہ سے رفتہ آہستہ تھا سو کسی بڑے حادثے سے بال بال بچ گئے۔ چلتے چلتے تین چار گھنٹے بعد اس گاڑی کا آگے والا ٹائیر پھٹ گیا، یہاں بھی چالیس سے زیادہ مسافروں پر خدا کا کرم ہوا۔

اس معاملے کو ہم نے سوشیل میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے رکھا۔ اور اس بات کی نشاندھی کی کہ ان گاڑیوں کو اس روٹ پر چلانے کا مطلب عوام کی زندگیوں سے کھیلنا ہے۔ اگلے ہی دن غذر سے راولپنڈی جانے والی نیٹکو بس کا ہزارہ موٹر وے پر حادثہ ہوا۔ گاڑی جل کر خاکستر ہوگئی۔ خوش قسمتی سے تیس سے زیادہ مسافر معجزاتی طور پر بچ گئے۔

اگلے ایک ہفتے میں اس حادثے کے حوالے سے ان کی رپورٹ سامنے آئی، جس میں ڈرائیور کو قصوروار ٹھہرایا گیا ہے اور سارا ملبہ اس بیچارے کے سر ڈال کر معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر اس ڈرائیور کی غلطی تھی تو مذکورہ بالا بس کی خرابی کا ذمہ دار بھی اس کا ڈرائیور ہی ہوگا۔ تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ نیٹکو نے سارے غیر تربیت یافتہ اور ناتجربہ کار ڈرائیور رکھا ہوا ہے؟

میں سمجھتا ہوں کہ یہ رپورٹ صیح نہیں ہے۔ ادارہ اور متعلقہ زمہ داران اپنی ذمہ دای سے چشم پوشی نہیں کرسکتے۔ ان کو حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ غیر حقیقت پسندانہ رویے سے کل کلاں پھر حادثہ ہوگا۔ لہذا حادثات کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ان کا تدارک اشد ضروری ہے۔

اس ساری کہانی سے آپ عوام کی بے بسی سرکار کی بے حسی اور اداروں کی نااہلی کا آسانی کے ساتھ اندازہ لگا سکتے ہیں۔

عوام کے نمائندوں سے عوام کا مطالبہ ہے کہ وہ حرکت میں آجائیں اور اپنی زمہ داریاں نبھائیں۔ کم از کم نیٹکو جیسے ادارے کو ٹھیک سے چلائیں۔

 

گلگت بلتستان میں روڑ حادثات روکنے کے لیے گاڑیوں کی سیفٹی اسٹینڈرڈ اور ڈرائیوروں کی، قراقرم ہائی وے جیسے شاہراہ کو سامنے رکھ کر، خصوصی مہارت پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ نیٹکو کی گاڑیاں، خاص کر، غذر سے اسلام آباد اور گلگت سے چترال چلنے والی گاڑیاں سیفٹی اسٹینڈرڈ پر نہیں اترتی۔ مگر ٹرانسپورٹ کے ادارے سے منسلک ماہرین کو نجانے یہ کیوں نظر نہیں آتا خدا ہی جانے!

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
89925

پرنس رحیم آغا خان نے ناصر آباد ،ہُنزہ میں نئے سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک کا افتتاح کر دیا

پرنس رحیم آغا خان نے ناصر آباد ،ہُنزہ میں نئے سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک کا افتتاح کر دیا

ناصرآباد، ہُنزہ(چترال ٹائمزرپورٹ ) اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (SCO) ، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کام، حکومت پاکستان اور آغا خان فاؤنڈیشن، پاکستان (AKF,P) کے درمیان شراکت کے ذریعے، ناصر آباد، ہنزہ میں قائم کردہ نیا سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک، گلگت بلتستان (GB) کی پائیدار ترقی میں مدد فراہم کرنے کے ساتھ علاقے میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی، تیز رفتار انٹرنیٹ ،چھوٹے اور ترقی کرتے ہوئے اسٹارٹ اپس، فری لانسرز اور چیمبرز آف کامرس کے لیے کام کرنے کی جگہ (co-working space) فراہم کرے گا۔

 

ناصر آباد سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک مرکزی وسائل کی فراہمی کے لیے hub-and-spoke ماڈل کے طور پر کام کرے گا اور خطے کے انتہائی دور دراز علاقوں میں آئی ٹی کی دیگر سہولیات کو منسلک کرنے میں مدددے گا۔ اس طرح فاصلاتی تعلیم، انٹرپرینیورشپ ، کیریئر کونسلنگ اور ڈیجیٹل اسکلز ڈیولپمنٹ تک رسائی میں اضافہ ہوگا، جبکہ فری لانس کاروبار کےذرائع بھی پیدا ہوں گے۔ افتتاحی تقریب کے موقع پر اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل ،میجر جنرل عمر احمد شاہ کے علاوہ آغا خان فنڈ فار اکنامک ڈیولپمنٹ کے ڈائریکٹر اور حبیب بینک لمیٹڈ کے چیئرمین، سلطان علی الانہ، اسماعیلی کونسل برائے پاکستان کے صدر ، نزار میوہ والا اور آغا خان فاؤنڈیشن ،پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اختر اقبال بھی موجود تھے۔

 

chitraltimes prince rahim aga khan inaugurated digital park in hunza

 

اس موقع پراپنی امیدوں کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین سلطان علی الانا نے کہا کہ ”نیا سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک خطے کی معیشت کو مضبوط کرے گا: اس نئی سہولت کےذریعے صارفین پاکستان اور دنیا بھر کےکاروبار ی اداروں کے ساتھ قابل بھروسہ انداز میں منسلک ہوں گے۔ اس کے علاوہ ، اس سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سے مواقع میسر آئیں گے، جدت طرازی کو فروغ ملے گا، نئے کاروباری نیٹ ورکس کی تخلیق میں مدد ملے گی اور خطے میں معاشی ترقی کو فروغ ملے گا۔“

 

میجر جنرل عمر احمد شاہ نے آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ” اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (SCO)کا ویژن 2025 پائیدار آئی ٹی ماحول کی فراہمی کے ذریعے نوجوانوں کو بااختیار بنانے پر مرکوز ہے۔ ہم آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں آئی ٹی اور فری لانسنگ ہب (FLH) کو تیزی سے توسیع دینے کے لیے پرعزم ہیں۔ یہ اقدام ہمارے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے، روزگار کے مواقع پیدا کرتا ہے اور غیر ملکی ترسیلات زر میں اضافہ کرتا ہے۔ تبدیل شدہ آئی ٹی منظرنامہ خطے کی سماجی و اقتصادی ترقی میں مدد کر رہا ہے کیونکہ نوجوان ان علاقوں کی مجموعی ترقی اور خوشحالی میں فعال طور پر حصہ لے رہے ہیں۔“

اس اقدام کی اہمیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے آغا خان فاؤنڈیشن ، پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر، اختر اقبال نے کہا کہ ”گلگت بلتستان میں پاکستان کی سافٹ ویئر کمپنیوں کا مرکز بننے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔ تیز رفتار انٹرنیٹ، 24 گھنٹے بجلی کی فراہمی، کام کرنے کی جگہیں(co-working spaces) اور ایک پرکشش جغرافیائی محل وقوع تک رسائی کے ساتھ، یہ قومی اور بین الاقوامی ٹیکنالوجی کمپنیوں اور ڈیجیٹل سہولتوں کے متلاشیوں کو راغب کرے گا جو ملک کی معیشت پر اہم اورفائدہ مند اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔“

chitraltimes prince rahim aga khan inaugurated digital park in hunza

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستان
89909

نیشنل سیکیورٹی کی اہمیت اور ضرورت – خاطرات:امیرجان حقانی

Posted on

نیشنل سیکیورٹی کی اہمیت اور ضرورت – خاطرات:امیرجان حقانی

 

گلگت بلتستان کے کیپٹل ایریا گلگت میں حال ہی میں تین روزہ نیشنل سیکورٹی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں صوبائی وزراء، ممبران اسمبلی، یوتھ اسمبلی کے ممبران، KIU کے سٹوڈنٹس، صحافی حضرات، اہم شخصیات اور عسکری حکام نے شرکت کی۔ اس ورکشاپ کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے کمانڈر FCNA کا کردار نہایت اہم رہا۔ یہ انفارمیشن ہمیں اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذرائع سے معلوم ہوئی۔

 

نیشنل سیکورٹی، یا قومی سلامتی، کسی بھی ملک کی بقاء اور ترقی کے لیے نہایت اہم ہوتی ہے۔ یہ وہ نظام ہے جس کے ذریعے ایک ریاست اپنے داخلی اور خارجی خطرات سے نمٹنے کے قابل ہوتی ہے۔ نیشنل سیکورٹی کے بغیر کسی بھی ملک کی سالمیت اور خودمختاری برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے۔

میں امید کرتا ہوں کہ گلگت میں پہلی دفعہ منعقدہ نیشنل سیکورٹی ورکشاپ کا مقصد شرکاء کو قومی سلامتی کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ کرنا اور انہیں ان مسائل کی نوعیت اور اہمیت کا شعور دلانا ہوگا۔ اس ورکشاپ میں شرکت کرنے والے افراد کو اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کے بارے میں آگاہی ملی ہوگی اور انہیں یہ سمجھنے کا موقع ملا ہوگا کہ نیشنل سیکورٹی کے معاملات میں کس طرح کا کردار ادا کرنا ضروری ہے۔

 

نیشنل سیکورٹی کے حوالے سے ایک اور اہم ورکشاپ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (NDU) میں سالانہ منعقد ہوتی ہے، جو اپنی نوعیت کی ایک بہترین ورکشاپ ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے اس کی فیس زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم جیسے عام آدمی کے لیے اس میں حصہ لینا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم، ہم نے 2021 میں نیشنل میڈیا ورکشاپ میں شرکت کی، جو کہ ایک شاندار تجربہ تھا۔ اس ورکشاپ میں مختلف شعبوں کے ماہرین نے کھلے دل سے لیکچر دیے اور سوال جواب کی مکمل آزادی تھی۔ میں نے یونیورسٹی میں دوران ورکشاپ، جی ایچ کیو اور دیگر مقامات کے وزٹ پر سب سے کھلے کھلے سوالات کیے اور ان سوالات کے بہترین جوابات دیے گئے۔ ہمیں سولات کرنے پر شاباش بھی ملی۔ کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اس ورکشاپ میں چیتھم ہاؤس رولز لاگو تھا، چیتھم ہاؤس رولز کا مطلب ہے کہ کسی بھی ورکشاپ، سیمینار، میٹنگ یا مباحثے میں شریک افراد کو آزادی سے بولنے کی اجازت ہوتی ہے، لیکن اس میں ہونے والی معلومات کو باہر شیئر کرتے وقت کسی بھی بات کو کسی فرد یا تنظیم کے ساتھ منسوب نہیں کیا جائے گا۔ اس کا مقصد شرکاء کو کھل کر بات کرنے کا محفوظ ماحول فراہم کرنا ہے۔

 

نیشنل سیکورٹی کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا اور عوام کو اس کی اہمیت سے روشناس کرانا نہایت ضروری ہے۔ نیشنل سیکورٹی کا مفہوم صرف فوجی معاملات تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ اس میں اقتصادی، سیاسی، سماجی اور ماحولیاتی عوامل بھی شامل ہیں۔ کسی بھی ملک کی نیشنل سیکورٹی مضبوط تب ہوتی ہے جب اس کے شہری اپنے حقوق اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں اور ملکی سالمیت کے لیے ہر ممکنہ قربانی دینے کے لیے تیار ہوں۔
نیشنل سیکورٹی یا قومی سلامتی کا واضح اور آسان فہم مفہوم یہ ہوسکتا ہے۔

1.ریاست کی حفاظت:
نیشنل سیکورٹی کا مطلب ریاست کی سالمیت، خودمختاری اور استحکام کو یقینی بنانا ہے۔

2. شہریوں کی حفاظت:
ملک کے تمام شہریوں کی جان و مال، حقوق اور آزادیاں محفوظ رکھنا۔

3. اقتصادی و معاشی استحکام:
قومی معیشت کو داخلی و خارجی خطرات سے بچانا اور مستحکم رکھنا۔

4.دفاعی پالیسی:
ملک کی فوجی طاقت اور دفاعی حکمت عملی کی تشکیل اور ان پر عملدرآمد۔

5. انٹیلیجنس یا خفیہ نظم:
جاسوسی اور اطلاعاتی ایجنسیوں کے ذریعے ممکنہ خطرات کی پیش بندی اور ان کا تدارک۔

نیشنل سیکورٹی کی ضرورت و اہمیت پر چند اہم پوائنٹ احباب سے شئیر کرنا بھی اہم سمجھتا ہوں۔

 

1.علاقائی سالمیت کا تحفظ:
دشمن ممالک یا دہشت گرد گروہوں کے حملوں سے ملک کی حدود کی حفاظت۔

2. سوشیو-اکنامک استحکام:
ملکی معیشت کو بحرانوں سے بچانا اور عوام کو معاشی تحفظ فراہم کرنا۔

3.سیاسی استحکام:
داخلی سیاسی خطرات، جیسے کہ بغاوت یا داخلی کشمکش، سے ملک کی حکومت اور نظام کی حفاظت۔

4.سائبر سیکورٹی یا ڈیجیٹل دہشت گردی: م
ڈیجیٹل اور انٹرنیٹ پر مبنی حملوں سے ملک کے ڈیٹا اور معلومات کی حفاظت۔ آج کل ڈیجیٹل دہشت گردی بہت زیادہ ہورہی ہے.

5. بین الاقوامی تعلقات:
عالمی سطح پر ملک کی ساکھ اور مفادات کی حفاظت اور فروغ دینا۔

6. عوامی تحفظ:
قدرتی آفات، وبائیں، اور دیگر غیر روایتی خطرات سے عوام کی حفاظت۔

7. انرجی سیکورٹی:
توانائی کے وسائل کی دستیابی اور تحفظ کو یقینی بنانا۔

8. قانون اور نظم و ضبط: داخلی امن و امان کو برقرار رکھنا اور جرائم کے خلاف موثر کاروائی کرنا۔

 

نیشنل سیکورٹی ایک جامع تصور ہے جو ریاست اور اس کے عوام کی حفاظت اور خوشحالی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اور ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ یہ سب کچھ ملکی قوانین اور آئین پاکستان کی روشنی میں کیا جاسکتا۔

 

نیشنل سیکورٹی ورکشاپس اور سیمینارز کے انعقاد کا مقصد عوام میں اس شعور کو بیدار کرنا ہے کہ وہ اپنے ملک کی سلامتی کے حوالے سے حساس ہوں اور ہر ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں۔ اس طرح کی ورکشاپس نہ صرف علمی معلومات فراہم کرتی ہیں بلکہ لوگوں کو ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنے کا موقع بھی دیتی ہیں۔

 

نیشنل سیکورٹی کی ضرورت اور اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہمیں چاہیے کہ ہم اس طرح کے پروگرامز میں زیادہ سے زیادہ شرکت کریں اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بھی اس میں شامل ہونے کی ترغیب دیں۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم سب مل کر اپنے ملک کی قومی سلامتی کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

 

اس مختصر تحریر میں یہ عرض کرنا کرنا چاہوں گا کہ نیشنل سیکورٹی کی اہمیت کو سمجھنا اور اس کے لیے کوشش کرنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ملک کی حفاظت اور سلامتی کے لیے ہمیشہ تیار رہیں اور اس سلسلے میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ اس طرح ہم نہ صرف اپنے ملک کی بقاء کو یقینی بنا سکتے ہیں بلکہ اسے ایک محفوظ اور ترقی یافتہ ملک بنا سکتے ہیں۔ اور یہ بات فوجیوں سمیت ہر انسان کو دل سے نکالنا چاہیے کہ نیشنل سیکورٹی کا مطلب فوج اور فوجی ادارہ ہے۔ ایسا کچھ نہیں یہ ملک، قوم اور تمام شہریوں کا معاملہ ہے۔ اور یہ بات بھی خوش آیند ہے کہ گلگت بلتستان میں اس کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلسلے کو جاری و ساری رکھنا چاہیے اور مقاصد کو فوکس کرنا چاہیے۔ صرف مخصوص لوگوں کو بلاکر خانہ پوری کرنے سے اس کے مقاصد حاصل نہیں ہونگے۔ اور لیکچر دینے والے بھی اپنی فیلڈ کے ماہرین ہوں جیسے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ماہرین کو بلایا جاتا۔

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
89889

مجھے آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک، اپنے ساتھیوں، اپنے عملے اور دیگر بہت سے رضاکاروں کی جانب سے یہ اعزاز قبول کرنے پر بے حدفخر ہے۔ پرنس رحیم آغا خان

Posted on

مجھے آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک، اپنے ساتھیوں، اپنے عملے اور دیگر بہت سے رضاکاروں کی جانب سے یہ اعزاز قبول کرنے پر بے حدفخر ہے۔ پرنس رحیم آغا خان

 

پرنس رحیم آغا خان کو پاکستان کےسب سے بڑے سول اعزاز ’نشانِ پاکستان‘سے نوازا گیا

اسلام آباد،(چترال ٹائمزرپورٹ ) آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کےصدر ، آصف علی زرداری کی جانب سےپرنس رحیم آغا خان کو ملک کے سب سے بڑے سول ایوارڈ ’نشانِ پاکستان‘سے نواز اہے۔ ایوارڈ کی تقریب صدر کی سرکاری رہائش گاہ ایوان صدر،اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔یہ ایوارڈ ایسے افراد کو دیا جاتا ہے جنہوں نے پاکستان کے لیے اعلیٰ ترین خدمات انجام دی ہوں۔ پرنس رحیم آغا خان قابل تجدید توانائی، مائیکرو فنانس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں AKDNکے منصوبوں کا جائزہ لینے ،سرکاری حکام اورAKDNکے عہدیداروں کے علاوہ اسماعیلی برادری کے دیگر رہنماؤں سے ملاقاتوں کے لیے پاکستان کے دورے پرہیں۔

ایوارڈسے نوازنے کی تقریب میں آغا خان فنڈ فار اکنامک ڈیویلپمنٹ(AKFED) کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین اور آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کی ماحولیات اور موسمیاتی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے پرنس رحیم کے کردار کا ذکر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا :

”پرنس رحیم آغا خان نے آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک میں ، متعدد شعبوں، اپنی قیادت کے ذریعے ایک چوتھائی صدی سے بھی زائد عرصہ کے لیے اپنی انتھک کوششیں وقف کی ہیں جن کا مقصد ایشیا اور افریقہ کے وسائل سے محروم خطوں میں لوگوں کےمعیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ غریب اور پسماندہ طبقات کی معاشی، طبی، تعلیمی اور ثقافتی فلاح و بہبود پر اثر انداز ہونے والے اقدامات کو ترقی پذیر اور دور حاضر کی ضروریات کے مطابق بنانے میں اُن کی ذاتی مصروفیت ایک کثیر نسلی میراث کو برقرار رکھتا ہے جس کی ابتدا ،پاکستان کی تخلیق کے ساتھ ساتھ ہوئی ہے۔“

’نشانِ پاکستان‘ حاصل کرنے پر پرنس رحیم نے کہا کہ ”مجھے آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک، اپنے ساتھیوں، اپنے عملے اور دیگر بہت سے رضاکاروں کی جانب سے یہ اعزاز قبول کرنے پر بے حدفخر ہے جو پاکستان کے عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے انتھک محنت کررہے ہیں۔ میں صدر پاکستان اور حکومت پاکستان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے اس غیرمعمولی اعزاز سے نوازا۔“

آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کے بانی اور چیئرمین ،ہز ہائنس دی آغا خان کو بھی یہ ایوارڈ سنہ 1983 ء میں ،پاکستان اورمجموعی طور پر مسلم اُمّہ اور ترقی پذیر دنیا میں اپنی سماجی اور اقتصادی فلاحی سرگرمیوں کے اعتراف کے طور پر دیا جا چکا ہے۔ ماضی میں اس ایوارڈ کوحاصل کرنے والی شخصیات میں جنوبی افریقہ کے پہلے جمہوری منتخب صدر ،نیلسن منڈیلا اور ملکہ الزبتھ دوم جیسے دیگر عالمی رہنما بھی شامل ہیں۔

chitraltimes prince rahim aga khan received pakistan award 2 chitraltimes prince rahim aga khan received pakistan award 3

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستان
89874

سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کوعالمی یوم ماحولیات کے موقع پر نیشنل بائیو ڈائیورسٹی کنزرویشن ایوارڈ سے نوازا گیا 

سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کوعالمی یوم ماحولیات کے موقع پر نیشنل بائیو ڈائیورسٹی کنزرویشن ایوارڈ سے نوازا گیا

اسلام آباد( چترال ٹائمزرپورٹ ) عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کو نیشنل بائیو ڈائیورسٹی کنزرویشن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز ایس ایل ایف کی حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے کی جانی والی کوششوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے صوبہ خیر پختونخواہ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں جنگلی حیات کے تحفظ، مقامی لوگوں کے زندگیوں میں بہتری لانے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کا اعتراف بھی ہے. ایک سال کے دوران ایس ایل ایف کو ملنے والا یہ دوسرا ملکی سطح کا ایوارڈ ہے۔ اس سے قبل ایس ایل ایف کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر جعفر الدین کو 2023 میں ورلڈ ماؤنٹین ڈے کے موقع پر ایس ایل ایف ماؤنٹین کنزرویشن ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

ڈیولپمنٹ کمیونیکیشن نیٹ ورک (Devcom-Pakistan  )، پاکستان انوائرومنٹ پروٹیکشن ایجنسی اور دیگر اداروں نے بہترین ماحول دوست اقدامات کو اجاگر کرنے کے لیے پاکستان انوائرنمنٹل ایوارڈ متعارف کرائے ہیں۔ عالمی یوم ماحولیات کو دیا جانے والا یہ ایوارڈ کارپوریٹ سماجی ذمہ داری اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالوں سے ان تنظیموں کے زمہ دارانہ کردار کو تسلیم کرتا ہے۔

ایس ایل ایف سنو لیپرڈ پروگرام کے ذریعے ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے 50 وادیوں میں 40,000 گھرانوں کو سہولیات پہنچانے میں سرگرم عمل ہے۔ تقریباً 30,075 کلومیٹر رقبے پر محیط پروگرام ایریا میں جدید طریقوں کے ذریعے انسانی اور جنگلی حیات کے تنازعات کو مؤثر طریقے سے کم کیا گیا ہے۔ ان پروگرامز میں خاص طور پر ایکو سسٹم ہیلتھ پروگرام کے تحت سالانہ 400,000 مویشیوں کو ویکسنیشن کیا جاتا ہے۔ جس سے پہاڑی علاقوں میں رہائش پذیر کمیونٹیز کے مال مویشی مختلف بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں اور مویشیوں پر مبنی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

معاشی بہتری کے لئے زمہ دار سیاحت، متبادل توانائی کی فراہمی، اور پھلدار درختوں کی شجرکاری جیسے اقدامات بھی شروع کئے ہیں جس سے 20,000 سے زیادہ گھرانوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ 40,000 مربع کلومیٹر پر کی گئی وسیع تحقیق نے حیاتیاتی تنوع اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو سمجھنے اور حساس ماحولیاتی نظام میں بقائے باہمی کے لیے موثر حکمت عملی کے لئے کئی اہم تجاویز بھی سامنے لائے گئے ہیں۔ تعلیم اور صلاحیت کی تعمیر میں 900 سے زیادہ افراد کو جنگلی حیات کے سروے کی تکنیکوں میں تربیت اور اعلیٰ تعلیم کے لئے سپورٹ فراہم کی ہے، جس کے نتیجے میں 50 طلبہ نے ایم فل اور 6 نے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر لی ہیں۔

ملکی سطح پر اہم ایوارڈ سے نوازے جانے پر سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر علی نواز نے تمام زمہ دار اداروں کا شکریہ اداکیا۔ انہوں نے جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے پاکستان کے شمال میں پہاڑی علاقوں کے قدرتی رہائش گاہوں اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے SLF کے کی کوششوں کو مزید بہتر طریقے سے جاری رکھنے کے عزم کا اظہارکیا۔ ڈاکٹر نواز نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ فاؤنڈیشن “Engage, Education, and Conserve” کے رہنما اصولوں کے تحت متعدد اقدامات کو آگے بڑھا رہی ہے۔ ان کوششوں کا مقصد کمیونٹی کی شمولیت کو فروغ دینا، ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے آگہی اور مستقبل کی نسلوں کے لیے جنگلی حیات کے تحفظ کو یقینی بنانا شامل ہیں۔ ڈاکٹر نواز نے جنگلی حیات اور ماحولیاتی نظام کے تحفظ کے لیے SLF کی طرف سے اقدامات جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستان
89780

گلگت بلتستان میں منشیات کی وبا: مسائل اور حل – خاطرات :امیرجان حقانی

گلگت بلتستان میں منشیات کی وبا: مسائل اور حل – خاطرات :امیرجان حقانی

ہمارے دوست اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت کے پروفیسر برادر ضیاء اللہ شاہ نے راقم کو تجویز دی کی منشیات کی روک تھام اور یونیورسٹیوں میں منشیات کلچر پر ایک تحقیقاتی کالم لکھوں. یہ بات انہوں نے ایک کمنٹس کے جواب میں تحریر کی تھی. شاہ جی کی تجویز و مشورہ صائب اور بروقت ہے. تحقیقاتی کالم لکھنے کے لئے وقت اور ڈیٹا دونوں ضروری ہیں. اگر شاہ جی یا کوئی دوسرا فرد یا ادارہ درست معلومات مہیا کریں تو مفصل کالم لکھا جاسکتا ہے، تاہم سردست منشیات کی لعنت کو روکنے کے لیے چند تجاویز پیش خدمت ہیں جن کو اپنا کر کسی حد بہتری لائی جا سکتی ہے.

یاد رہے کہ گلگت بلتستان میں منشیات کی وبا ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے جس نے خاص طور پر نوجوان نسل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے.ہر طرف منشیات کا دور دورہ ہے۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی بیان کے مطابق، منشیات کی فراہمی کا سلسلہ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات تک پہنچ چکا ہے۔ اس خطرناک رجحان کو روکنے کے لیے حکومت، انتظامی ادارے، اساتذہ، اور دیگر متعلقہ فریقین کو فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے درج ذیل تجاویز پیش کی جا رہی ہیں:

1. سخت قوانین اور ان کا نفاذ
حکومت کو منشیات کی فروخت اور استعمال کے خلاف سخت قوانین بنانا اور ان کا مؤثر نفاذ کرنا ہوگا،. اگر قوانین موجود ہیں تو ان کا فوری اطلاق ضروری ہے۔ منشیات فروشوں کے خلاف سخت کاروائی اور سزاؤں کا تعین کیا جانا چاہیے۔ یہ ایک ایسی خطرناک لعنت ہے جو ہم سب کو برباد کرکے رکھ دے گی.

2. خصوصی فورسز کا قیام
منشیات کے خلاف لڑنے کے لیے خصوصی فورسز کا قیام ضروری ہے جو کہ منشیات فروشوں کے نیٹ ورک کو توڑ سکیں اور نوجوانوں کو منشیات سے دور رکھ سکیں۔گلگت بلتستان جیسے چھوٹے سے علاقے میں یہ کام آسانی سے کیا جاسکتا ہے.

3. آگاہی سیمینارز اور مہمیں
اساتذہ، طلبہ اور والدین کو منشیات کے نقصانات کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے باقاعدہ سیمینارز اور مہمات چلائی جائیں۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کے خلاف لیکچرز، ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کیا جائے۔ حکومتی ادارے اور این جی اوز اس مد میں تعلیمی اداروں کے ساتھ فوری طور پر کام شروع کرسکتے ہیں.

 4. کمیونٹی کا معاونتی سسٹم 
مقامی کمیونٹی کی مدد سے ایک سپورٹ سسٹم بنایا جائے جہاں نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں مشغول کیا جائے۔ کھیل، ثقافتی پروگرامز اور دیگر صحت مند سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔ جب تک ہر یونین اور علاقے میں کمیونٹی کو فعال نہیں بنایا جائے گا، منشیات فروشوں کو شکست دینا ممکن نہیں. سماج کی بہتری میں کمیونٹی کا کردار سب سے حاوی ہوتا ہے.

 5. کونسلنگ اور نفسیاتی مدد
منشیات کے عادی افراد کے لیے کونسلنگ اور نفسیاتی مدد کی فراہمی کی جائے تاکہ وہ اپنی زندگی کو دوبارہ صحیح راستے پر لا سکیں۔ یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں کونسلنگ سینٹرز قائم کیے جائیں۔ یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے.  بڑے شہروں میں کچھ اچھے سینٹر موجود ہیں. ان کو گلگت بلتستان میں لایا جاسکتا ہے.

 6. خفیہ اطلاعاتی نظام
منشیات فروشوں کے خلاف کاروائی کے لیے خفیہ اطلاعاتی نظام کو مضبوط کیا جائے۔ عوام کو بھی اس میں شامل کیا جائے تاکہ وہ بلا خوف و خطر منشیات فروشوں کی اطلاع دے سکیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اتنے “خفیہ” کے لوگ موجود ہیں جو منشیات فروشوں کا پتہ نہیں لگا پا رہے ہیں. خفیہ والو! تمہیں تھوڑی سی شرم آنی چاہیے. کہیں تم خود اس کالے دھندے میں ملوث تو نہیں؟ اگر نہیں تو ہر سطح پر ان کالی بھیڑیوں کی کمر کیوں نہیں توڑ دیتے؟ پلیز جاگ جاؤ میرے “خفیہ” کے بھائیو.

 7. تعلیمی اداروں اور مساجد کا کردار
تعلیمی ادارے منشیات کے خلاف پالیسیز اپنائیں اور طلبہ و طالبات کی نگرانی کریں۔ غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے تاکہ نوجوانوں کا وقت مثبت سرگرمیوں میں صرف ہو۔ اس حوالے سے تعلیمی اداروں کا کردار بھی زیرو فیصد ہی ہے. مساجد میں بھی اس حوالے سے تعلیمات اسلامی کو عام کرنا چاہیے. لگی بندھی تقاریر سے ایسے ہم سماجی موضوعات پر تقاریر اور خطبات دیے جانے چاہئیں. کاش علماء و خطباء حضرات بھی ایکٹیو ہوجائیں.!

 8. والدین اور سرپرستوں کی تربیت
والدین اور سرپرستوں کو اپنے بچوں کی نگرانی اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے بارے میں تربیت دی جائے۔ والدین کو آگاہ کیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کے دوستوں اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ اس کا ہمارے ہاں شدید فقدان ہے. تعلیمی ماہرین اس کا کوئی بہترین حل نکال لیں تو بہتر ہوگا.

 9. مقامی اور سوشل میڈیا کا کردار
میڈیا کو اس مسئلے پر روشنی ڈالنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ٹی وی، ریڈیو، اور اخبارات اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے منشیات کے نقصانات اور اس کے تدارک کے بارے میں آگاہی پھیلائی جائے۔ سوشل میڈیا کے جملہ ٹولز بھی خوب استعمال کیے جاسکتے ہیں. غیر ضروری سیاسی و مذہبی اور علاقائی منافرت پر مبنی بحثوں کی بجائے منشیات کے خلاف جنگ جیسے ضروری موضوعات پر مکالمہ کا رواج ڈالنا بہت اہم ہے. مقامی میڈیا کے احباب اور سوشل میڈیا کے صارفین اور انفلوئنزر کو بھی میدان میں آنا چاہیے.

 

 10. بین الاقوامی اداروں سے تعاون لینا
حکومت، سماجی ادارے منشیات کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کا تعاون حاصل کرسکتے ہیں۔ دیگر ممالک کی تجربات اور وسائل سے فائدہ اٹھایا جائے اور مشترکہ کاروائیاں کی جائیں۔
تلک عشرۃ کاملۃ یعنی سردست یہ دس تجاویز کافی ہیں.

 

گلگت بلتستان میں منشیات کی وبا کو روکنے کے لیے حکومت، انتظامی ادارے، اساتذہ، والدین اور کمیونٹی کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ مذکورہ بالا تجاویز پر عمل درآمد کرکے ہم نوجوان نسل کو اس خطرناک وبا سے بچا سکتے ہیں اور انہیں ایک محفوظ اور صحت مند مستقبل فراہم کر سکتے ہیں۔
احباب سے گزارش ہے کہ اس بحث کو طول دیں. اپنی تجاویز شئیر کریں. مکالمہ کا ماحول پیدا کریں. ہم اپنے حصے کا کام کریں. باقی اللہ مالک ہے. شاہ جی آپ کا بہت شکریہ، آپ نے ہمیں متوجہ کرکے اپنے مختصر خیالات شئیر کرنے کا موقع عنایت کیا.

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
89710

دنیا کی بلندترین پولوگراونڈ شندور میں 28جون سے منعقد ہونے والا فیسٹول کی انتظامات کو حتمی شکل دیدی گئی، شندورہٹ میں چترال اور گللگت انتظامیہ کا مشترکہ اجلاس 

Posted on

دنیا کی بلندترین پولوگراونڈ شندور میں 28جون سے منعقد ہونے والا فیسٹول کی انتظامات کو حتمی شکل دیدی گئی، شندورہٹ میں چترال اور گللگت انتظامیہ کا مشترکہ اجلاس

اپر چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) دنیا کی بلند ترین پولو گراونڈ میں شندورمیں منعقد ہونے والا شندور فیسٹول 2024 کو حتمی شکل دینے اور ہر سال کی طرح اس سال بھی شایان شان طریقے سے منانے کے سلسلے میں ضلعی انتظامیہ اپر/ لوئر چترال اور گلگت بلتستان انتظامیہ کے درمیان شندور میں ایک اہم میٹنگ منعقد ہوئی۔

اس میٹنگ میں شندور فیسٹول انتظامیہ چترال اپر/لوئر اور گلگت بلتستان کے ڈپٹی کمشنرز، ارمی کے افسران، ڈسٹرکٹ پولیس افسرز، اسسٹنٹ کمشنرز اور پولو ایسوسیشن کے زمہ دران نے شرکت کی۔
میٹنگ کا مقصد اس مہینے کی 28 تاریخ سے شروع ہونے والے بادشاہوں کا کھیل اور کھیلوں کا بادشاہ یعنی پولو فیسٹیول کو شایان شان طریقے سے منانے کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا اور انتظامات کو حتمی شکل دینا تھا۔

شندور پولو فیسٹیول نہ صرف دو ضلعوں کے درمیان ٹرافی کا حصول ہے بلکہ یہ صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے مابین امن وآشتی، پیار محبت، رواداری، بھائی چارہ، اپس کے روایات اور ثقافت میں ہم آہنگی کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

شندور پولو فیسٹیول کے انعقاد سے قومی اور بین الاقوامی سیاح چترال اور گلگت بلتستان کا رخ کرتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں صوبوں میں رہنے والے لوگوں کے eco system کو پروموٹ کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔

میٹنگ میں سیکورٹی سمیت پولو کھیلاڑیوں کے لئے انتظامات، شائقین پولو اور سیاح حضرات کے لئے رہنے سہنے کا انتظام اور پولوگرائونڈ میں شائقین کے لئے بیٹھنے کے لئے سیڑھیوں کی تعمیر جیسے اہم نکات پر گفتگو ہوئی۔ میٹنگ میں 28 تاریخ سے شروع ہونے والے جشن شندور 2024 کو حتمی شکل دیدی گئی۔

chitraltimes meeting on shandur festival between chtiral and gb administrations 4

chitraltimes meeting on shandur festival between chtiral and gb administrations 2 chitraltimes meeting on shandur festival between chtiral and gb administrations 1 chitraltimes meeting on shandur festival between chtiral and gb administrations 5 chitraltimes meeting on shandur festival between chtiral and gb administrations 6

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستان
89678

کیا صحافت ڈگری کی محتاج ہے؟ – خاطرات:امیرجان حقانی

کیا صحافت ڈگری کی محتاج ہے؟ – خاطرات:امیرجان حقانی

 

 

گلگت بلتستان میں صحافیوں کے حوالے سے دو باتیں زور و شور سے کہی جاتیں ہیں. ایک یہ کہ یہاں کے صحافیوں کے پاس صحافت کی ڈگری نہیں. دوسری بات اکثر صحافی مختلف اداروں اور شخصیات کے ترجمان ہیں اور پیڈ ہیں. دونوں باتوں میں بڑا وزن ہے اور کسی حد تک حقیقت بھی یہی ہے. ہم آج پہلی بات کو ڈسکس کریں گے کہ:

کیا واقعی صحافت کے لیے صحافتی ڈگری ہونا ضروری ہے؟

 

صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جو تجسس، تحقیقی صلاحیت، اور حقائق کی کھوج پر مبنی ہے۔ اس میدان میں کامیابی کے لیے محض کتابی علم یا ڈگری کافی نہیں ہوتی، بلکہ عملی تجربہ، مشاہدہ اور لکھنے کی صلاحیت اہمیت رکھتی ہیں۔ ایسے بہت سے معروف صحافی ہیں جنہوں نے بغیر کسی رسمی صحافتی ڈگری کے اپنی پہچان بنائی اور صحافت کی دنیا میں قابل قدر مقام حاصل کیا۔

 

باکمال صحافی جن کے پاس صحافتی ڈگری نہیں تھی، ان میں ابوالکلام آزاد، شورش کاشمیری، ظفرعلی خان، عبدالمجید سالک، غلام رسول مہر، ارشاد احمد حقانی اور الطاف حسن قریشی جیسے سینکڑوں نام نمایاں ہیں.

 

عارف نظامی: پاکستان کے مشہور صحافی اور نواے وقت گروپ کے بانی مجید نظامی کے بیٹے، جنہوں نے بغیر کسی رسمی صحافتی تعلیم کے نواے وقت میں اپنی خدمات انجام دیں اور پاکستانی صحافت میں اہم کردار ادا کیا۔

 

طلعت حسین: پاکستانی صحافی اور ٹی وی اینکر، جنہوں نے اپنی محنت اور لگن سے صحافت کے میدان میں اعلیٰ مقام حاصل کیا، حالانکہ ان کے پاس صحافت کی رسمی ڈگری نہیں ہے۔

 

مجید نظامی: نواے وقت گروپ کے بانی اور معروف صحافی، جنہوں نے بغیر کسی رسمی صحافتی ڈگری کے پاکستانی صحافت میں نمایاں کردار ادا کیا۔
ایسے بہت سے اور نام ہیں جن کے پاس باقاعدہ صحافتی ڈگری نہیں مگر صحافتی دنیا کے چمکتے ستارے ہیں.

 

ڈگری کے بغیر کامیاب صحافی کیسے؟

 

صحافت میں کامیابی کے لیے صرف کتابی علم کافی نہیں ہوتا۔ عملی تجربہ، مشاہدہ، اور لکھنے کی قدرتی صلاحیت زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ وہ لوگ جو خود کو مسلسل بہتر بناتے رہتے ہیں، میدان میں کام کرتے ہوئے نئے تجربات سیکھتے ہیں اور اپنی رپورٹنگ میں تحقیق اور تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہیں، وہ بغیر ڈگری کے بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ تاہم اگر باقاعدہ ڈگری کیساتھ یہ سب کچھ ہو تو نور علی نور ہے.

 

دوسری جانب بہت سے افراد ہیں جو اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں رکھتے ہیں لیکن عملی میدان میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحافت میں صرف نظریاتی علم کافی نہیں ہوتا بلکہ عملی تجربہ اور میدان میں کام کرنے کی صلاحیت بھی اہمیت رکھتی ہے۔

 

صحافت کے میدان میں ڈگری ضروری نہیں ہے، بلکہ صحافی کے اندر سچائی کی تلاش، مشاہدے کی طاقت، لکھنے کی مہارت اور رپورٹنگ کا جذبہ ہونا ضروری ہے۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جو کسی ڈگری سے نہیں، بلکہ عملی تجربے اور لگن سے آتی ہیں۔

 

گلگت بلتستان کے دسیوں ایسے عامل صحافیوں کو جانتا ہوں جن کے پاس صحافت تو کیا پراپر کسی مضمون میں ایم اے یا گریجویشن بھی نہیں،مگر عملی صحافت میں اپنے قدم جمائے ہوئے ہیں. فیلڈ رپورٹنگ سے لے کر نیوز ڈیسک اور ایڈیٹنگ و قلم کاری تک کرتے ہیں. اور ایسے کئی احباب کو بھی جانتا جن کے پاس صحافت کی ڈگری موجود ہے جو باقاعدہ بڑی یونیورسٹیوں سے لی ہوتی ہے مگر صحافت کے کسی بھی صنف میں ان کا کنٹریبیوشن نہ ہونے کے برابر ہے.

 

لہٰذا، اگر آپ صحافت میں قدم رکھنا چاہتے ہیں تو اپنی مہارتوں پر توجہ دیں، عملی تجربات حاصل کریں، اور مسلسل خود کو بہتر بنانے کی کوشش کریں، جملہ جدید سکلز سیکھیں اور بے تحاشا مطالعہ کریں. صحافت کا میدان آپ کے لیے کھلا ہے، چاہے آپ کے پاس ڈگری ہو یا نہ ہو۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
89626

امجد ندیم: امید کی کرن – خاطرات :امیرجان حقانی

امجد ندیم: امید کی کرن – خاطرات :امیرجان حقانی

خدمت خلق ایک ایسا عمل ہے جس کی جڑیں دل کی گہرائیوں میں پیوست ہوتی ہیں۔ یہ انسانیت کے جذبے کی عکاسی کرتی ہے اور سماج میں محبت، ہم آہنگی اور بھائی چارے کو فروغ دیتی ہے۔ جو لوگ خدمت خلق کے میدان میں قدم رکھتے ہیں، وہ دوسروں کی مشکلات کو اپنی مسرت میں بدلنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کی محنت، ایثار اور قربانی معاشرے کے پسے ہوئے طبقوں کے لیے ایک نیا اُجالا اور امید کی کرن ثابت ہوتی ہے۔ خدمت خلق کرنے والے افراد انسانیت کے حقیقی ہیرو ہیں، جو اپنی خودی کو بھلا کر دوسروں کی خدمت کو مقصدِ حیات بنا لیتے ہیں۔ ان کی بے لوث محبت اور انتھک محنت معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لانے کا باعث بنتی ہیں اور انہیں ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رکھتی ہیں۔

 

آج کی محفل میں ایسے ہی ایک شخص کی کہانی بیان کرنی ہے جس نے خدمت خلق کے ذریعے ہزاروں غریبوں، معذوروں اور کمزوروں کے دل جیتے ہیں. بلکہ مجھ جیسے ناقدین کو بھی اپنا گرویدہ بنایا ہے. اور اس نے خود بھی انتہائی کسمپرسی کے دن گزارے ہیں اور معذوری کی حالت میں معذوروں کا سہارا بنے ہیں.

 

میری ان سے صرف دو ملاقاتیں ہیں مگر میں ان کے کام کا کئی سالوں سے باریک بینی سے جائزہ لیتا آرہا ہوں.

آئیے! آج کالے کالے پہاڑوں، برف پوش چوٹیوں اور بہتے پانیوں کی سرزمین گلگت بلتستان کے ایک عظیم شخص امجد حسین عرف امجد ندیم کی داستان حیات سن لیں. شاید اس میں ہمارے لئے بہت کچھ کرنے کا راز پوشیدہ ہو.

 

امجد ندیم کا نام گلگت بلتستان کی سرزمین پر امید کی کرن کے طور پر جگمگاتا ہے۔ ان کا تعلق نپورہ گلگت سے ہے۔ وہ کبھی شاعری بھی کرتے اور شاعر کی حیثیت سے ندیم تخلص اختیار کیا، یوں امجد ندیم کے نام سے معروف ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پرائمری سکول نپورہ اور میٹرک سرسید احمد خان ہائی سکول گلگت المعروف ہائی سکول نمبر ایک سے حاصل کی۔ ان کے والد کا نام رجب علی تھا جو پی ڈبلیو ڈی میں ملازم تھے اور 9 جولائی 1997 کو دوران ڈیوٹی الیکٹرک شاک لگنے سے وفات پا گئے۔ تب امجد ندیم شاید آٹھویں کے طالب علم تھے. والد کی وفات کے بعد امجد ندیم اور اس کی فیملی کی مشکلات شروع ہوئیں. بطور بڑے بھائی امجد ندیم کے لیے یہ وقت انتہائی کٹھن تھا کیونکہ وہ ایک کم عمر طالب علم تھے اور نو چھوٹے بہن بھائیوں کے سربراہ بن گئے۔

 

دن گزرتے گئے اور امجد ندیم کی باہمت والدہ نے انہیں تعلیم کے لیے پشاور بھیجا، جہاں انہوں نے ایف ایس سی کی اور انجینئرنگ کالج میں داخلہ لیا۔ امجد ندیم نے تعلیم کے ساتھ ساتھ کالج کے کینٹین میں ملازمت بھی کی۔ لیکن ابھی تعلیم مکمل ہونے میں کچھ ہی وقت باقی تھا کہ کسی دہشت گرد کی گولی کا نشانہ بنے اور ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے۔

 

یہ شاید 2007 کا سال تھا، معذوری کے بعد امجد ندیم گلگت واپس آئے اور پھر کمر کی تکلیف کی وجہ سے کراچی شفٹ ہوئے۔ وہاں انہوں نے ریڑھی لگا کر اپنے خاندان کی کفالت کی اور اپنے بہن بھائیوں کو بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائی۔ انہی دنوں ہاشو گروپ میں بطور سب انجینئر ملازمت کی اور ساتھ شادی بھی کی، شادی کے بعد ان کی بیٹی کی پیدائش نے ان کی زندگی میں خوشیوں کی بہار بھر دی۔ بیٹی اللہ کی رحمت ہوتی ہے اور اس کی پیدائش کے بعد امجد ندیم کے دن بدل گئے اور ان کی زندگی میں شاندار تبدیلی آئی، بیٹی کی عظمت، رحمت اور برکت کا امجد ندیم کو شاندار تجربہ ہوا۔

 

2013 میں امجد ندیم نے معذوروں کی بحالی اور رفاہ کے لیے عبدالستار ایدھی اور رمضان چھیپا کے ساتھ کام شروع کیا اور بھرپور محنت کی۔ 2017 میں کچھ دنوں کے لئے اپنے آبائی شہر گلگت واپس آئے، کچھ دن رہ کر واپس کراچی جانا تھا مگر انہی دنوں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کے ساتھ ملاقات ہوئی اور حافظ حفیظ نے انہیں گلگت میں اپنا کام جاری رکھنے کی دعوت دی، یوں گلگت بلتستان میں ان کے تعاون سے معذوروں کی فلاح و بہبود کے کام شروع کیے۔ اور آگے بڑھتے گئے. وہ آج بھی حافظ حفیظ الرحمن کو اپنا محسن سمجھتے ہیں. بیٹی کی پیدائش اور حفیظ سے ملاقات، امجد ندیم کی زندگی کے ٹرننگ پوائنٹ تھے.

 

امجد ندیم نے گلگت بلتستان کے ہر ڈسٹرکٹ میں معذوروں کی تنظیمیں بنائیں اور انہیں ایک لڑی میں پرویا۔ ان کی کوششوں سے، حفیظ دور میں گلگت اسمبلی سے معذوروں کے لیے قانون سازی بھی ہوئی۔

 

2020 میں امجد ندیم فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی اور پورے گلگت بلتستان میں معذوروں اور یتیموں کی مدد کا سلسلہ شروع کیا۔ کرونا کے دنوں میں بہت سارے غریبوں اور مستحق لوگوں میں اشیائے خوردونوش تقسیم کیں۔ امجد ندیم فاؤنڈیشن کے ذریعے بہت سے پروجیکٹ متعارف کرائے گئے اور ایک انڈیپینڈنس لیونگ سینٹر قائم کیا گیا۔ اس سینٹر میں معذوروں اور خواتین کو کئی ہنر سکھائے جارہے ہیں۔ امجد ندیم کا یہ سینٹر اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن، ہینڈزپاکستان اور سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی معاونت اور اشتراک سے کام کرتا ہے. اس سینٹر میں300 سے زیادہ غریب بچوں کو کمپیوٹر سکلز، بیسک ایجوکیشن، فری لانسنگ، فیزیوتھراپی، سلائی کڑھائی اور دیگر ہنر سکھائے جارہے ہیں۔

 

امجد ندیم نے اپنی ویلفیئر فاؤنڈیشن کے ذریعے گلگت بلتستان کے علاقے تانگیر سے غذر تک لوگوں کی مدد کی، کاروبار کے لیے چھوٹے چھوٹے قرضے دیے اور ہزاروں بیساکھیاں اور ویل چیئرز تقسیم کیں۔ وہ نہ صرف معذوروں اور غریبوں کی رفاہ کے لیے کام کرتے ہیں بلکہ مسلکی ہم آہنگی اور سماجی رواداری کے فروغ کے لیے بھی سرگرم ہیں۔ وہ اہل تشیع ہیں لیکن اہل سنت کے تبلیغی اجتماعات میں شرکت کرکے محبت اور اتحاد کا پیغام دیتے ہیں۔ چلاس تبلیغی اجتماع سے واپسی پر چکر کوٹ میں ایک جنازے پر ان سے ملاقات ہوئی تھی. ان کا یہ عمل نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ پورے گلگت بلتستان میں مسلکی ہم آہنگی کے فروغ کا باعث بنا ہے، جب وہ تبلیغی اجتماع میں شرکت کے لئے چلاس گئے تو انتظامیہ اور اہلیان چلاس نے انہیں بہت عزت دی اور ان کی کاوشوں کو دل سے سراہا۔چلاس کے سفر میں ان کے یار غار عبدالرحمن بخاری بھی تھے. امجد ندیم کی کامیابی میں محسن گلگت بلتستان جنرل ڈاکٹر احسان محمود کا بھی بڑا ہاتھ ہے.

 

امجد ندیم نے معذوری کو بہانہ بناکر کمزوری دکھانے کی بجائے معذوری کو ایک موقع کے طور پر لیا اور معذوروں کی بحالی کے لیے عظیم الشان کام شروع کیے۔ وہ کمزوروں، بیماروں، معذوروں اور بے ہمت لوگوں کے لیے امید کی کرن ہیں۔ ان کی داستان ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ مشکلات کے باوجود عزم و حوصلے سے بھرپور زندگی گزارنا ممکن ہے۔ امجد ندیم کی زندگی کا ہر لمحہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ انسان اپنی محنت، لگن اور عزم سے کسی بھی چیلنج کو شکست دے سکتا ہے۔

 

امجد ندیم کی زندگی ان کے عظیم عزم، محبت، اور خدمت کی مثال ہے۔ وہ نہ صرف معذوروں کے لیے ایک رہنما ہیں بلکہ وہ معاشرتی ہم آہنگی اور بھائی چارے کے فروغ میں بھی پیش پیش ہیں۔ ان کی خدمات نہ صرف معذوروں بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک مثال ہیں۔ امجد ندیم کی کاوشیں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ حقیقی کامیابی اور خوشی دوسروں کی خدمت میں ہے۔ ان کا سفر ایک مشعل راہ ہے، جو ہمیں انسانیت کی خدمت کا درس دیتا ہے اور امید کی کرن بن کر ہمارے دلوں کو روشن کرتا ہے۔

 

امجد ندیم کی داستان ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ زندگی کی مشکلات اور مصائب کے باوجود، حوصلہ اور عزم کبھی کم نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو مثال بنا کر یہ ثابت کیا کہ اگر نیت صاف ہو اور مقصد بلند، تو کوئی بھی رکاوٹ آپ کے راستے کی دیوار نہیں بن سکتی۔ ان کی محنت، لگن اور انسانیت کی خدمت کے جذبے نے انہیں ایک حقیقی ہیرو بنا دیا ہے۔ امجد ندیم کی فاؤنڈیشن آج بھی معذوروں، غریبوں اور یتیموں کی خدمت میں مصروف عمل ہے۔ ان کی یہ کاوشیں ہمیں مسلسل یہ پیغام دیتی ہیں کہ ہم بھی اپنی زندگی میں کچھ ایسا کریں جو دوسروں کے لیے مفید ہو، ان کی مشکلات کم کرے اور ان کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرے۔

 

امجد ندیم کی زندگی ایک جیتی جاگتی مثال ہے کہ مشکلات میں گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ ان کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ ان کی محنت، عزم اور خدمت کے جذبے نے انہیں امید کی کرن بنا دیا ہے جو ہر دل میں روشنی بکھیرتی ہے اور ہمیں انسانیت کی خدمت کا درس دیتی ہے۔ ان کا سفر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حقیقی کامیابی دوسروں کے لیے جینے میں ہے، اور یہی وہ سبق ہے جو امجد ندیم کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے۔

 

امجد ندیم کی شخصیت خدمت خلق کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے۔ ان کی ہمت و عزم کی داستان ایک ایسے چراغ کی مانند ہے جو تاریک راتوں میں روشنی بکھیرتا ہے۔ ان کے دل میں انسانیت کے لیے محبت کا دریا موجزن ہے، جس کی موجیں ہر محتاج اور مجبور شخص کی تشنگی بجھاتی ہیں۔ ان کا عزم فولادی، ارادے بلند اور نیتیں پاکیزہ ہیں۔ وہ ایک ایسے مسیحا ہیں جو دوسروں کی مشکلات کو اپنی خوشی میں بدلنے کا فن جانتے ہیں۔ ان کی بے لوث خدمت، ایثار اور قربانی کے جذبے کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں، کیونکہ ان کی ہر مسکراہٹ، ہر قدم اور ہر لمحہ انسانیت کے نام وقف ہے۔ امجد ندیم کی خدمات ہمیشہ تاریخ کے سنہری اوراق پر جگمگاتی رہیں گی اور ان کا نام ہمیشہ خدمت خلق کی عظیم مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

انہیں خدمات کے عوض حکومت گلگت بلتستان و پاکستان نے انہیں 23 مارچ 2024 کو تمغہ امتیاز سے نوازا. پاکستان میں امجد ندیم پہلا شخص ہے جو خود معذور ہیں اور معذوروں کی رفاہ اور خدمت خلق کے عوض تمغہ امتیاز سے نوازا گیا. اسے پہلے کسی معذور شخص کو تمغہ امتیاز نہیں دیا گیا. یہ تمغہ امجد کو دے کر تمغہ کا وقار بڑھایا گیا ہے ورنہ تو ہمیشہ ایسے تمغوں کی بے توقیری کی گئی ہے.

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
89593

شندور فیسٹول میں چترال کی کھلاڑیوں کی الاونس میں موجودہ مہنگائی کے تناسب سے اضافہ نہ کیا گیا تو پولو ایسوسی ایشن اس ایونٹ کا مکمل بائیکاٹ کرنے پر مجبورہوگی۔ شہزادہ سکندر الملک

Posted on

شندور فیسٹول میں چترال کی کھلاڑیوں کی الاونس میں موجودہ مہنگائی کے تناسب سے اضافہ نہ کیا گیا تو پولو ایسوسی ایشن اس ایونٹ کا مکمل بائیکاٹ کرنے پر مجبورہوگی۔ شہزادہ سکندر الملک صدر پولو ایسوسی ایشن چترال

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) پولوایسوسی ایشن چترال کے صدر شہزادہ سکندر الملک نے حکومت کو خبر دار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا کلچر اینڈ ٹورزم اتھارٹی اور صوبائی فنانس ڈیپارٹمنٹ نے شندور فیسٹول میں چترال کی سائیڈ پر کھیلنے والے کھلاڑیوں کی الاونس میں اضافے کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے تو پولو ایسوسی ایشن اس ایونٹ کا مکمل بائیکاٹ کرنے پر مجبورہوگی کیونکہ موجودہ الاونس پر کوئی کھلاڑی گھوڑ الے کر شندور نہیں جاسکے گا۔ جمعہ کے روز چترال پریس کلب میں مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ شندور فیسٹول میں حصہ لینے والے کھلاڑی ایونٹ سے دس دن پہلے گھوڑا لے کر شندور پہنچ جاتے ہیں اور دو ہفتے تک اپنی جیب سے خرچ کرتے ہیں جس کی مالیت کا اندازہ مہنگائی وگرانی کے اس دورمیں ہر کوئی کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جب پولو ایسوسی ایشن نے یہ مسئلہ متعلقہ فورم پر اٹھایا توانہیں یقین دہائی کرائی گئی لیکن یہ سب سرخ فیتے کی نذر ہوتی ہوئی لگ رہی ہے اور ڈیمانڈ کے مطابق الاؤنس کو تین لاکھ روپے کرنے کی منظوری میں خیبر پختونخوا کلچر اینڈ ٹورزم اتھارٹی اور فنانس ڈیپارٹمنٹ لیت ولعل سے کام لیتے ہیں اور سنجیدگی کا مظاہر ہ بھی نہیں کررہے ہیں۔ شہزادہ سکندر الملک نے کہاکہ ساڑھے 10ہزار فٹ کی بلندی پر کھیلنے کے لئے کھلاڑی کو دس دن پہلے اس آب وہوا اور بلندی کے ساتھ اپنے آپ کو عادی بنانا ہوتا ہے اور شندور فیسٹول کی کھلاڑی کے لئے یہ محض تین دن کا فیسٹول نہیں بلکہ دو ہفتوں کا جان گسل کام ہے جس میں سویلین کھلاڑیوں کو بھاری اخراجات کا سامنا ہوتا ہے۔

shahzada sikandar

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
89583

پاکستان کا سب سے بڑا شندور پولو فیسٹیول کا آغاز28جون سے ہوگا،علی امین گنڈاپور

Posted on

پاکستان کا سب سے بڑا شندور پولو فیسٹیول کا آغاز28جون سے ہوگا،علی امین گنڈاپور
وزیراعلی خیبرپختونخوا نے شندور پولو فیسٹیول کی تاریخ کا اعلان کردیا، مشیر سیاحت زاہد چن زیب کی شندور پولو فیسٹیول کی تمام تیاریوں کو حتمی شکل دینے کی ہدایت

پشاور(چترال ٹائمزرپورٹ)وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے اپر چترال کی وادی میں منعقد ہونے والے سالانہ شندور پولو فیسٹیول کی تاریخ کا اعلان کرتے ہوئے 28 جون سے منعقد کرنے کی منظوری دیدی۔ وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ فیسٹیول کیلئے تمام تیاریوں کو فلفور حتمی شکل دی جائے۔ انہون نے کہا کہ فیسٹیول کا انعقاد بہترین طریقے سے کیا جائے اور سیاحوں کو ہر ممکن سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ مشیر سیاحت و ثقافت زاہد چن زیب نے وزیراعلی خیبرپختونخوا کی ہدایات کے مطابق تمام سٹیک ہولڈرز کو شندور پولو فیسٹیول کیلئے کی جانیوالی تیاریوں کو جلد مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ فیسٹیول کا کامیابی سے انعقاد اور آگاہی مہم ابھی سے چلائی جائے۔ انٹرنیشنل سطح پر مشہور اس فیسٹیول میں ہر سال کثیر تعداد میں سیاح شندور وادی کا رخ کرتے ہیں۔ لہذا اس کی ہر پلیٹ فارم پر مہم چلائی جائے تاکہ سیاح اپنے ٹوور انہی تاریخوں پر ترتیب دے سکیں۔

 

انہوں نے کہا کہ چترال اپر کی خوبصورت وادی شندور میں منعقد ہونے والا شندور پولو فیسٹیول اس سال 28 جون کو منعقد ہو گا جس میں چترال لوئر و چترال اپر کی ٹیمیں گلگت بلتستان کی ٹیموں سے مدمقابل ہونگی۔ خیبرپختونخوا کلچراینڈٹورازم اتھارٹی،پاک فوج، ضلعی انتظامیہ چترال لوئر وچترال اپراور چترال سکاؤٹس کے باہمی اشتراک سے منعقد ہونے والے شندور پولو فیسٹیول کی تیاریوں کو حتمی شکل دینے دینے کیلئے اقدامات شروع کر دیئے گئے ہیں۔ شندور پولو فیسٹیول امسال 28 جون سے 30 جون تک منعقد ہوگا۔ فیسٹیول میں ہر سال شرکت کیلئے کثیر تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح شندور اور چترال وادی کا رخ کرتے ہیں۔تین روزہ فیسٹیول میں خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کی روایتی موسیقی پر مشتمل محفل موسیقی کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔گزشتہ سال فیسٹیول میں چترال کی ٹیم فاتح قرار پائی تھی۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
89576