Chitral Times

Feb 9, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

گلگت بلتستان میں قیامِ امن کے لئے فکری و تحقیقی کام کی ضرورت ۔ خاطرات: امیرجان حقانی

Posted on
شیئر کریں:

گلگت بلتستان میں قیامِ امن کے لئے فکری و تحقیقی کام کی ضرورت ۔ خاطرات: امیرجان حقانی

 

یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ گلگت بلتستان تاریخی طور پر ایک پرامن خطہ رہا ہے، جہاں مختلف مذاہب، مسالک اور ثقافتوں کے لوگ مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ تاہم، گزشتہ پچاس سال سے وقتاً فوقتاً یہاں ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہے جو اس امن کو چیلنج کرتی ہے۔ خاص طور پر 1985 سے 2024 تک، اس خطے میں بارہا مذہبی و سماجی بدامنی دیکھی گئی، جس کے سدباب کے لیے پورے گلگت بلتستان میں کئی امن معاہدات بھی کیے گئے، ان میں 2005 اور 2014 کے امن معاہدات کو گلگت بلتستان اسمبلی، فوج اور انتظامیہ کی سرپرستی بھی رہی، مگر یہ عارضی ثابت ہوئے۔ یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ جب گلگت بلتستان کے عوام فطری طور پر پُرامن ہیں تو پھر اچانک ایسے واقعات کیوں جنم لیتے ہیں جو سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں؟ اور پھر یکایک مذہبی تعصب اور فرقہ واریت کی فضا پورے گلگت بلتستان کو مکدر کر دیتی ہے اور اس میں بالخصوص اہل سنت و اہل تشیع کی مرکزی قیادت بھی میدان میں آجاتی ہے؟ اور پھر پوری قوم کو ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 

گلگت بلتستان میں امن و ہم آہنگی کے لیے علمی و فکری اقدامات کی ضرورت کی سخت ضرورت ہے۔ ایسی ہی ایک کوشش 2017 میں ہم نے کی تھی۔ راقم اور برادرم ڈاکٹر انصار مدنی کی کوآرڈینیشن اور دعوت پر قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں سماجی ہم آہنگی پر ایک تین روزہ ورکشاپ منعقد ہوئی، جس میں پاکستان بھر کے ممتاز دانشور، علماء اور محققین شریک ہوئے۔ موجودہ آرمی چیف تب فورس کمانڈر گلگت بلتستان تھے اور حافظ حفیظ الرحمان وزیراعلیٰ گلگت بلتستان تھے، دونوں نے آخری سیشن میں شرکت کی تھی اور خطابات بھی ارشاد کیے تھے۔

 

ورکشاپ کے آخری دن معروف ماہرِ تعلیم ڈاکٹر پروفیسر سراج الاسلام نے کہا:
“پورے پاکستان کی جامعات میں ہم نے پروگرام کیے، مگر قراقرم یونیورسٹی کے طلبہ جیسے ذہین، باادب، جستجو رکھنے والے اور متحرک طلبہ کہیں نہیں دیکھے۔”

 

اس پر راقم نے عرض کیا کہ “یہ بات درست ہے، لیکن یہی طلبہ کبھی کبھار یونیورسٹی کے باہر سے، کسی کے اُکسانے پر اچانک یونیورسٹی بند کرنے اور تالہ بندی پر بھی اُتر آتے ہیں۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک طرف علمی و فکری سطح پر بے پناہ صلاحیت موجود ہے، مگر دوسری طرف شعوری تربیت اور فکری استحکام کی کمی بھی دکھائی دیتی ہے”۔

 

یہی صورتحال عمومی طور پر گلگت بلتستان کے سماج میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ امن پسند، مہمان نواز، صلح جو، ملنسار اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حامل ہیں، مگر بعض اوقات چند مخصوص واقعات کے باعث غیر متوقع کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے، جو پورے خطے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ عوام تو کالانعام ہیں مگر اہل سنت و اہل تشیع کی مرکزی مذہبی قیادت بھی اس کشیدگی اور فرقہ واریت میں شامل ہوجاتی ہے اور پھر ایک اضطراب کی کیفیت پورے خطے میں شروع ہوجاتی ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ امن کے قیام کو محض وقتی تدابیر سے نہ جوڑا جائے، بلکہ اس کے لیے ایک طویل مدتی فکری، علمی اور سماجی حکمتِ عملی اپنائی جائے۔

 

اس میں دو رائے نہیں کہ اسلام اور دیگر تمام مذاہب کا بنیادی ورلڈ ویوو اخلاقی اور انسانی بنیادوں پر قائم ہے۔ کوئی بھی مذہب معاشرتی بدامنی، فرقہ واریت اور فسادات کی اجازت نہیں دیتا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

“وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِہَا”
” اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد برپا نہ کرو۔” (الاعراف: 56)

 

یہی پیغام احادیثِ نبویہ میں بھی موجود ہے، جہاں نبی اکرمﷺ نے سماجی ہم آہنگی، رواداری اور امن کو دین کی اصل روح قرار دیا ہے۔ لہٰذا، گلگت بلتستان میں امن و استحکام کے لیے مذہبی تعلیمات کو مثبت اور تعمیری انداز میں عام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہر شہری شعوری طور پر خود کو امن کا داعی سمجھے۔

 

گلگت بلتستان میں پائیدار قیامِ امن کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسا فکری و تحقیقی فورم تشکیل دیا جائے جو علمی بنیادوں پر تحقیق کو فروغ دے۔ اس فورم کے تحت دعوت عام دی جائے اور اس میں علما کرام، سماجی مفکرین، اساتذہ، محققین اور دانشوروں کو دعوت دی جائے کہ وہ قیامِ امن اور سماجی ہم آہنگی پر تحقیقی مقالے لکھیں۔مختلف اہلِ علم میں متنوع موضوعات تقسیم کیے جائیں، تاکہ قیامِ امن کے مختلف پہلوؤں پر علمی کام ہو سکے۔ ان تحقیقی کاموں کی روشنی میں پالیسی ساز اداروں کو سفارشات دی جائیں اور عملی اقدامات تجویز کیے جائیں۔ اور اسی طرح جامعات اور علمی ادارے قیامِ امن کے لیے سیمینارز، مکالمے اور ورکشاپس کا انعقاد کریں۔ اور خصوصی طور پر گلگت بلتستان میں ایک “ریسرچ انسٹی ٹیوٹ برائے قیامِ امن و سماجی ہم آہنگی” قائم کیا جائے، جہاں سماجی اور مذہبی رواداری پر تحقیقی کام کیا جا سکے۔
اس فورم کے تحت تحقیقی کام کے ممکنہ موضوعات میں کچھ موضوعات یہاں درج کیے دیتا ہوں تاکہ گلگت بلتستان میں قیامِ امن اور سماجی ہم آہنگی کے لیے اہلِ علم درج ذیل اہم موضوعات پر دادِ تحقیق دے سکیں:

 

1. دینی و فکری موضوعات

١. اسلام میں قیامِ امن کی تعلیمات: قرآن و حدیث کی روشنی میں

٢. اسلامی تاریخ میں بین المذاہب رواداری کی مثالیں

٣. فقہ اسلامی میں معاشرتی امن و استحکام کی بنیادیں

٤. صوفیائے کرام اور اولیاء اللہ کے ہاں قیامِ امن کے اصول

٥. فرقہ واریت کے اسباب اور اس کا اسلامی حل

 

2. سماجی و نفسیاتی موضوعات

١. گلگت بلتستان سماجی ہم آہنگی اور امن: ایک نفسیاتی تجزیہ

٢. گلگت بلتستان کے نوجوان اور قیامِ امن کی ذمہ داری

٣. معاشرتی نظام اور اس کے استحکام کا قیامِ امن پر اثر

٤. تعلیمی اداروں میں طلبہ کی فکری تربیت اور سماجی استحکام

٥. جدید سوشل میڈیا اور اس کا سماجی امن پر اثر

 

3. تاریخی و علاقائی موضوعات

١. گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ تنازعات: اسباب اور حل

٢. 1985 سے 2024 تک کے تمام امن معاہدات: تجزیہ اور نتائج (اس عنوان پر راقم نے پانچ سو صفحات کا ایم فل مقالہ بھی لکھا ہے)

٣. گلگت بلتستان میں سماجی تحریکیں اور قیامِ امن

٤. گلگت بلتستان کا روایتی جرگہ سسٹم اور اس کا قیامِ امن میں کردار

٥. گلگت بلتستان میں مساجد، مدارس اور خانقاہوں کا سماجی استحکام میں کردار

 

4. سیاسی و قانونی موضوعات

١.قیامِ امن میں حکومت اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری

٢. قانون کی بالادستی اور انصاف: پائیدار قیامِ امن کی کنجی

٣.گلگت بلتستان میں انتظامی ڈھانچہ اور سماجی استحکام

٤. پولیس، بیورو کریسی اور عدالتی نظام میں اصلاحات اور امن کے امکانات

٥. گلگت بلتستان کی سیاسی جماعتیں اور ان کا قیامِ امن میں کردار

 

5. عملی و پالیسی ساز اقدامات

١. گلگت بلتستان کی جامعات میں قیامِ امن کے لیے نصاب سازی کی تجاویز (یعنی قیام امن ڈیپارٹمنٹ کا قیام)

٢. سماجی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے جدید میڈیا کا مؤثر استعمال

٣. گلگت بلتستان کے نوجوانوں کے لیے قیامِ امن کے عملی منصوبے

٤. گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے مشترکہ علمی و فکری پلیٹ فارمز

٥. گلگت بلتستان کے مدارس اور یونیورسٹیوں اور کالجز کے درمیان مکالمے کے ذریعے ہم آہنگی کا فروغ

٦. گلگت بلتستان کے جدید اور روایتی تعلیمی اداروں میں امن و رواداری کے موضوع پر کورسز کا اجرا

٧. گلگت بلتستان میں قیامِ امن کے لیے مساجد، مدارس اور خانقاہوں کے علماء کا متفقہ اعلامیہ

٨. گلگت بلتستان میں صحافت اور سوشل میڈیا کا قیامِ امن میں مثبت کردار

٩. سول سوسائٹی اور کمیونٹی لیڈرز کا قیامِ امن میں عملی حصہ

١٠. گلگت بلتستان میں قیامِ امن کے لیے قومی اور بین الاقوامی اداروں کا تعاون

 

گلگت بلتستان چھوٹا سا علاقہ ہے۔ بیس لاکھ سے کم آبادی ہے اور ایک درجن سے کم اضلاع، اس میں قیامِ امن کوئی ناممکن ہدف نہیں، بلکہ ایک منظم فکری، تعلیمی اور سماجی حکمتِ عملی کے ذریعے اسے مستقل بنیادوں پر قائم رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے محض وقتی اقدامات کافی نہیں، بلکہ ایک مربوط علمی و تحقیقی تحریک کی ضرورت ہے جو معاشرتی استحکام، بین المسالک رواداری اور نوجوان نسل کی فکری تربیت پر کام کرے۔ اگر اہلِ علم، علماء، دانشور، اساتذہ اور پالیسی ساز مشترکہ کاوشوں کے ذریعے قیامِ امن کے ان نکات پر عملی تحقیق کریں، تو بلا شبہ گلگت بلتستان کو ہمیشہ کے لیے ایک پُرامن اور مستحکم خطہ بنایا جا سکتا ہے۔ ان تیس موضوعات کو مزید بڑھایا جاسکتا ہے اور مکمل یکجہتی و یکسوئی سے کام کی ضرورت ہے۔

 

Gilgit city GB

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
98627