گلگت بلتستان اور حکومتی آرڈرز……..؟……… تحریر محمد شراف الدین فریاد
معلوم ہوا ہے کہ وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کے لئے گورننس ریفارمز ایکٹ2019دینے کا فیصلہ کرلیا ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کو بجا لاتے ہوئے جی بی گورننس ریفارمز آرڈر2019ء میں ترامیم کی جائیں گی۔مجوزہ ایکٹ کے ابتدائی ڈرافٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس ایکٹ کے ذریعے مزید سیاسی و انتظامی اختیارات تفویض کئے جائیں گے اور گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی حقوق فراہم کرتے ہوئے ملک کے دیگر صوبوں کے برابر لایا جائے گا۔گلگت بلتستان گورننس ریفارمز ایکٹ2019کے ذریعے قانون سازی، انتظامی اور عدالتی اصلاحات لائی جائیں گی اور یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے مجوزہ ڈرافٹ میں سے کئی شقوں کو ختم کردیا گیا ہے اور ایکٹ کے لئے ڈرافٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ گلگت بلتستان میں سپریم اپلیٹ کورٹ کا چیف جج مذکورہ عدالت کا ہی سینئر ترین جج ہوگا اور مذکورہ کورٹ کے دیگر جج صاحبان کی تعداد3ہوگی اور یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ گلگت بلتستان میں اسامیوں کی تقسیم کا فارمولا بھی طے کرلیا گیا ہے جس کے مطابق گریڈ17میں وفاقی آفیسران کی تقرری کا کوٹہ کم کرکے18فیصد، گریڈ18میں 30فیصد، گریڈ19میں 40فیصد، گریڈ20میں 50فیصد جبکہ گریڈ21میں وفاقی آفیسران کی تقرری کا کوٹہ60فیصد مقرر کردیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے گلگت بلتستان میں وفاقی ملازمین کا کوٹہ اس سے کئی گنا زیادہ تھا۔
قبل ازیں وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی کا ایک اہم اجلاس بھی اسلام آباد میں ہوا تھا جس میں بری و بحری افواج پاکستان کے سربراہان سمیت وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن صاحب و دیگر متعلقہ اداروں کے سربراہان نے شرکت کیں اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے مطابق گلگت بلتستان کو بااختیار بنانے کے حوالے سے ایک کمیٹی بھی قائم کی گئی جس میں وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم، وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور اور متعلقہ وزارتوں کے حکام کو شامل کیا گیا۔مذکورہ اجلاس میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرھمن صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل کرنا اور قومی اسمبلی و سینٹ میں نمائندگی دینا وقت کی اہم ضرورت ہے اور اسی اہم خطے کو مختلف آرڈرز کے ذریعے چلانے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔گلگت بلتستان سے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرنا ہو تو وہاں کے عوام کو اعتماد میں لینا بھی ضروری ہے۔جس کے لئے گلگت بلتستان کے منتخب ممبران اسمبلی سے رائے لی جاسکتی ہے۔جو براہ راست عوام کی ہی نمائندگی کرتے ہیں۔گلگت بلتستان کے عوام چاہتے ہیں کہ انہیں پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی ملے۔اگر اس میں ریاست کی مجبوریاں ہیں تو پھر گلگت بلتستان اسمبلی اور گلگت بلتستان کونسل کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے وہاں سے انتظامی نظام کو آئینی اور اصلاحات کو ایکٹ کی شکل دی جائے تاکہ آئے روز تبدیل ہوتے ہوئے آرڈر سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال اور بے چینی کا خاتمہ ہوسکے۔وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ گلگت بلتستان کو مزید معاشی و سیاسی طور پر بااختیار بنانے کے لئے قومی مالیاتی اور انتظامی اداروں میں مکمل نمائندگی دی جائے جن میں قومی مالیاتی کونسل، مشترکہ مفادات کونسل، نیشنل اکنامک کونسل، نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اور ارسا شامل ہیں۔بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے گلگت بلتستان کو بااختیار بنانے کے حکم کے مطابق تشکیل پانے والی سفارشات کی کمیٹی ممبران کا بھی اجلاس ہوا جس میں سب سے پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے گلگت بلتستان کے حوالے سے دیئے جانے والے فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق گفتگو ہوئی۔اس حوالے سے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے اجلاس کو بتایا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے پر سو فیصد عملدرآمد ہونا چاہئے اور یہ بھی ضروری ہے کہ جن شقوں پر گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت نے اعتراضات اٹھائے ہیں ان پر بھی نظر ثانی ہونی چاہئے۔وزیر قانون کی وساطت سے ہم نے نظرثانی کی درخواست بھی دائر کی ہے۔اس پر جلد فیصلہ کرانے کے لئے وفاق کو صوبائی حکومت کی مدد کرنا ہوگی تاکہ عوامی امنگوں کے مطابق اس اہم مسلے کا حل نکالا جاسکے۔یہاں گلگت بلتستان کے عوام اپنے وزیر اعلیٰ کی ان تمام باتوں سے اتفاق کرتے ہیں۔بالخصوص اس بات پر کہ اس بے آئین خطے کو مزید آرڈرز کے ذریعے چلانے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔اگر وفاق گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق دے کر پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی دینے میں مخلص ہے تو سرتاج عزیز صاحب کی جائزہ کمیٹی رپورٹ کی سفارشات پر من و عن عملدرآمد کرکے اس اہم مسلے کا حل نکال سکتی ہے۔کیونکہ یہ خطہ کسی بھی لحاظ سے کشمیر کا حصہ نہیں ہے اور اس خطے کی اپنی الگ تاریخ، جغرافیہ اور تہذیب ہے۔جن کی کشمیری کلچر سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے بلکہ اس خطے کے بعض علاقوں چترال، کوہستان، ملازئی اور سوات کے شمالی علاقوں کو پاکستان میں شامل کرکے قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی دی جاچکی ہے جو کہ داردستانی علاقے کہلاتے ہیں۔
مہاراجہ کشمیر نے1846ء میں خطہ داردستان کے بعض علاقوں گلگت، گوہر آباد، پونیال اور یاسین پر حملہ ہوکر کچھ عرصے کے لئے قبضہ کیا تھا اور بعد میں برٹش حکومت کو یہ علاقے فروخت کیا تھا۔اب اس کو بنیاد بناکر اس پورے خطے کو کشمیر کا حصہ قرار دیکر جان بوجھ کر متنازعہ بنایا جارہا ہے ورنہ16نومبر1947ء کا الحاق پاکستان ہی کافی ہے اس خطے کے عوام کو پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی دینے کے لئے۔بہر حال ہمارے محترم وزیر اعلیٰ صاحب نے گلگت بلتستان سے متعلق جو آواز اٹھائی وہ قابل دید ہے۔بقول وزیر اعلیٰ اگر ریاست کو اس خطے کے عوام کو قومی اسمبلی یا سینٹ میں نمائندگی دینے میں کوئی مجبوری ہے تو پھر یہ تجویز بھی بہتر ہے کہ بار بار کے نئے آرڈرز جاری کرکے اس خطے کے عوام کے ساتھ مذاق کرنے کے بجائے گلگت بلتستان کی اسمبلی اور گلگت بلتستان کونسل (جس میں وفاق کے نمائندے بھی شامل ہیں)کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے ایک حتمی قانون مرتب کیا جائے تاکہ بار بار کے آرڈرز جاری کرنے کی نوبت نہ آسکے اور گلگت بلتستان سیاسی، انتظامی، معاشی و اقتصادی طور پر مستحکم ہو۔