گلگت بلتستان انتخابات اور ان کی بین الاقوامی اہمیت ….محمد آمین
گلگت بلتستان زمین کے ایک ایسے خطے پر واقع ہے جو زمانہ قدیم سے انتہائی جیو پولیٹیکل اور اسٹریٹییجک اہمیت کا حامل رہا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ قدیم شاہراہ ریشم،انیسویں صدی کے گریٹ گیم (Great Game)سے لیکر دور حاضر میں مغرب کی چین کی روک تھام کی پالیسی تک یہ علاقہ دنیا کے طاقتوں کا محور رہا ہے جہان ان ممالک نے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوششوں میں مصروف عمل رہے۔زمانہ قدیم میں شاہراہ ریشم (silk route)سے ہوتے ہوئے مشرق اور مغرب کے تجارتی قافلے اپس میں لین دین کیا کرتے تھے،اور بہت سے حملہ اور بھی اس راستے سے گزرتے تھے۔مشہور انگریز موریخ جان کیے کے بقول،،گلگت بلتستان کا علاقہ اونچے پہاڑی چوٹیوں اور گلیشرز کے درمیاں واقع ہے جو دیوار کی طرح ہیں جہاں انڈیا،روس،چین،افغانستان اور پاکستان کی لمبی اور حاسد سرحدیں ملتے ہیں اور یہ علاقہ ایشیاء کی طاقت کامحورہے،،۔یہاں کے خدوخال نہایت پیچیدہ ہے کیونکہ یہاں مختلف نسل،مسالک،قبائل اور زبانین بولنے والے اباد ہیں
ثقافتی لحاظ سے ان کی جڑین منگول،ترک اور مشرقی یورپ کے باشندوں سے ملتے ہیں۔
جب انگریز ہندوستان میں اپنی قدم جمالیے اور یکہ بعد دیگرے صوبوں اور ریاستوں کو فتح کرکے برٹش انڈیا میں ضم کرنے لگے تو گلگت بلتستان کی جیو اسٹریٹجک اہمیت کو ان سے بہتر کون جانتے تھے۔انیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں اس وقت کی دو عالمی طاقتیں روس اور برطانیہ جی بی کے انتہائی شمالی علاقے ہنزہ اور نگر پر کنٹرول حاصل کرنے کے سلسلے میں سر توڑ کوشش کر رہے تھے اور اسے (Great Game) کا نام دیا گیا،برٹش انڈیا نے کشمیر کے فوجون کی مدد سے جی بی پر تسلط پانے میں کامیاب رہا۔چنانچہ 1877ء میں وائسرائے لارڈ لٹن نے جان بڈالف کو چین اور روس کا مقابلہ کرنے کے لیے وہاں روانہ کیا کہ وہاں جا کر حالات کا جائزہ لیں اور خاص کر مختلف دروں کی مانٹرنگ کر کے رپورٹ پیش کریں۔یہ وہ زمانہ تھا جب نگر ہنزہ میں سویئٹ یونین کی جانب سے کپتان گروم چوسکی بطور ایلچی وہاں تعیں تھا اور چین کے بھی ہنزہ کے حکمرانوں کے ساتھ بہت اچھے مراسم تھے یہان یہ بات بھی قابل توجہ ہوگا کہ اس وقت چین ہنزہ کو اپنی جاگیر تصور کرتی تھی۔تاہم جان بڈالف روس اور چین کی اثر و رسوخ کو کم کرنے میں ناکام ہوا۔بعد ازان یانگ ہاسبنڈ جو کہ برطانوی ملٹری ماہر تھا اس سے وہاں بیھجا گیا جس نے بڑی چالاکی سے وہاں کے حکمرانوں کے ساتھ ایک معاہدہ طے کیا جس کی رو سے ان دونوں ریاستوں نے پانچ سو روپے سالانہ وظیفے کے عوض برٹش انڈیا کے شرائظ مان لیے۔لیکن برٹش انڈیا کے بے جا مداخلت کے سامنے سر خم کرنے سے انکار کردیے جس کا نتیجہ 1888ء کا جنگ تھا جس میں نگر کے بہادر قبائل نے چیپروٹی (انڈیا کے سرحد سے ملتی ہے)کے قریب کشمیر گریسن کو مکمل گھیرے میں لیے اور قریب تھا کہ انگریز کمانڈر ڈیورنڈ قتل ہو جائے لیکن ا نگریزوں نے دھوکہ دہی سے یہ جنگ جیت لیا اور اس طرح پورا گلگت بلتستان کا علاقہ 1891ء میں برٹش انڈیا کے قبضے میں چلا گیا اور تقسیم ہند تک قابض رہے۔
جب 1947ء میں ہندوستان تقسیم ہوا اور پاکستان اور انڈیا دو الگ ریاستوں کی شکل میں وجود میں ائے تو قریب تھا کہ ہندوستاں اپنی مکاریوں کی بدولت مہاراجہ کشمیرسے ساز باز کرکے اس اہم علاقے پر بھی غاصبانہ قبضہ کرنا چاہتاتھا لیکں گلگت بلتستان کے بہادر اور مخلص لوگوں نے مقابلہ کرکے ڈوگرہ کے فوجوں سے چھڑا کر پاکستان کے ساتھ ضم کرانے میں اہم کردار اد ا کیے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دوسری جنگ عظیم کی اختتام کے بعد جی بی کی جیو اسٹرٹجیک اہمیت بھی تقریبا ختم ہوئی تھی،کیونکہ برطانیہ مزید یہاں نہیں رہا،روس اور امریکہ کے درمیاں سرد جنگ جاری تھی اور چین میں کمیونسٹوں اور قوم پرستوں کے درمیان رسہ کشی عروج پر تھا۔
1947ء سے لیکر 2009 ء تک گلگت بلتستان ناردرن ایریاز کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور اس کی کوئی قانونی اہمیت نہیں تھی۔لیکن 2009ء میں اس سے کچھ ائینی حثیت مل گئی اور ایک قانون ساز کونسل کا قیام وجود میں ایا جو اپنے لیے نمائیندوں کا چناوُکرتا ہے لیکن اصل اختیار ابھی فیڈرل گورنمنٹ کے پاس ہیں۔تاہم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے علاقے کی اہمیت اور پسماندگی کو مد نظر رکھ کر اسے باقاعدہ صوبے بنانے کا اعلان کردیا جو جی بی کی تاریخ کا اہم سنگ میل تھا جس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ حالیہ انتخابات میں وہاں کی عوام نے تحریک انصاف پر اعتماد کرکے پی ٹی آئی کے حق میں اپنے ووٹ ڈالے اور تبدیلی کی لہر وہاں بھی چل پڑی۔اور انشاء اللہ بہت جلد گلگت بلتستان ملک کے پانجوان صوبے کے طور پر دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوگا جس سے وہان کے لوگوں کی درینہ خواہش پورا ہوگا اور احساس محرومی بھی ختم ہوگی۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دور حاضر میں گلگت بلتستان ایک دفعہ پھر اپنے ماضی کے جیو اسٹریٹجک خاصیت کو نہ صرف پایا ہے بلکہ اس اہمیت میں مذید اضافہ ہوا ہے اور اس کا خطے میں دورس نتائیج مرتب ہونگے۔اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ سپر پاور نے جی بی کے ہمسائیوں کی طرف اپنا روخ کردیا ہے جس میں جمہوریہ چین کی بڑھتی طاقت اورصدر پوٹین کی دوبارہ اٹھنے والی روس خاص توجہ کا مرکز ہیں۔
مذید یہ علاقہ چار نیوکلر طاقتوں کے بالکل درمیان میں واقع ہے اور قدرتی وسائل سے مالامال واسطی اشیاء کی ریاستیں اس کے دروازے پر واقع ہیں۔پاکستان کے لیے گلگت بلتستان واحد علاقہ ہے جو اس سے چین سے ملاتی ہے اور یہ علاقہ سنٹرل ایشاء تک رسائی کے لیے ایک گیٹ وے ہے چنانچہ پاکستان اور تاجکستان کے درمیان ایک سڑک کی تعمیر کا عمل بھی زیر غور ہے کیونکہ سنٹرل ایشائی ممالک کے ساتھ پاکستان کا ایک تاریخی اتحاد اور رشتہ قائم ہے اور وہ ممالک پاکستان کے زریعے بحیرہ عرب تک رسائی کے خواں ہیں۔دوسری طرف جہاں روسی صدر ولادی میر پوٹین کی greater Eurasian partnershipکا تعلق ہے وہ بھی ون بلٹ ون روٹ چینی پالیسی کی حمایت کرتی ہے اس لیے گلگت بلتستان اور سی پیک روس کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے اور ساتھ ہی یہ سنٹرل ایشیائی ریاستون اور روس کو گوادر اور بحیرہ ہند تک رسائی کے لیے کڑی کا کردار ادا کرسکتی ہے۔ایک امریکی تھینک ٹینک کے مطابق چین کے لیے سی پیک اس کی ترقیاتی ماڈل کی برامد اور صدر زی کی عظیم پروجیکٹ کے لیے ایک سخت ٹیسٹ کیس بنی ہوئی ہے۔لہذا ایک طرف پاکستان چین اور ان کے اتحادی ہیں اور دوسری طرف انڈیا امریکہ اور ان کے اتحادی اس دوبارہ رو نما ہونے والے گریٹ گیم میں شامل ہیں لیکن فتح سی پیک کو ہی ہو نگے اگر چہ سفر کھٹاں ہے۔اور اس طرح جی بی کو باقاعدہ صوبہ کا درجہ دینا نہ صرف پاک چین دوستی کے لیے اہم ہو گا بلکہ ہندوستان کے ناپاک عزائم کو بھی خاک میں ملانے کے لیے سنگ میل ثابت ہوگی کیونکہ وہ اسے کشمیر کا حصہ مان کر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ یہ یو این او کی قراردادوں کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے۔