گلگت بلتستان؛ پچھتر سال کی ترقی دو سال میں -شاہ عالم علیمی
گلگت بلتستان؛ پچھتر سال کی ترقی دو سال میں . شاہ عالم علیمی
فرماتے ہیں کہ پچھتر سال میں جو ترقی ہوئی تھی وہ ہمارے دو سال میں ہوگئی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ بھوک سے مرنے لگے، گندم کے دانے دانے کو ترسنے لگے ہیں اور کسی اشیاء ضروریہ کا کیا مذکور۔
دوسری طرف ڈپارٹمنٹل ٹیسٹ کے نام پر نوکریوں کی بندر بانٹ چند بااثر لوگوں کی من مانی سے اسی طرح جاری ہے۔ آج کے ڈیجٹیل دور میں ہارڈ کاپی پر فارم جاری کیے جاتے ہیں، غریب نوجوانوں سے فیس کے نام پر پیسے لیے جاتے ہیں، پھر ان کو یا تو ٹیسٹ کے لیے سرے سے بلایا ہی نہیں جاتا یا ٹیسٹ کے بعد انٹرویوز میں ان کا حق مارا جاتا ہے اور حق دار کے کوٹے پر بھی رشوت خوروں اور سفارشی لوگوں کو لگوایا جاتا ہے۔
ان میں اور مہدی شاہ اور حفیظ الرحمان کے دور میں کیا فرق ہے؟ کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ سب لوگ اپنے غیرمقامی باسز کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کے اشارے پر چل رہے ہیں۔
ان کا ذہنی لیول سبھی کا ایک جیسا ہے۔ یہ لوگ ایشیاء کے سب سے غریب خطے کے انتہائی غریب ناچار اور بےدست لوگوں پر بوجھ ہیں۔ یہ ان کی رہنمائی کے قابل نہیں ہیں۔
ان کا بیوروکریسی پر کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔ بیوروکریسی جو چاییے کرتی ہے۔ نوکری بانٹے اور پیکیچ یا ٹینڈر اور ٹھیکہ۔ جبکہ یہ لوگ اپنے زاتی مفادات کے پیچھے ہیں، جہاں ان کا حصہ مل گیا تو ٹھیک بصورت ديگر ایک دوسرے پر الزام تراشی کرکے اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔
سیاست اصول اور زمینی حقائق پر ہوتی ہے ورنہ وہ سیاست نہیں بلکہ فاشزم کہلاتا ہے۔ فاشزم یہ ہے کہ چند لوگ اپنی ذہنی اختراعات عوام پر تھوپے اور ان کا حق مارے۔
اصول کیا ہے؟
بات جب گلگت بلتستان کی ہوتی ہے تو پھر اصول کو دیکھنے کے لئے زمینی حقائق کو دیکھنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔
زمینی حقائق کیا ہیں؟
زمینی حقائق یہ ہیں کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے۔ گلگت بلتستان ریاست کشمیر کے مسلے کا ایک فریق اور حصہ ہے۔ ریاست کے باشندوں کی مرضی کے بیغیر نہ تو کوئی گلگت بلتستان کو کسی ملک کا حصہ بنا سکتا ہے اور نہ ہی ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈال سکتا ہے۔ جب تک ریاست کا مسلہ حل نہیں ہوتا گلگت بلتستان اور اس کے شہریوں کے حقوق کی فراہمی اور ان کی حفاظت 1949ء کے کراچی میں ہوئے معاہدے کے تحت ریاست پاکستان کی زمہ داری ہے۔
آج حالت یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو انسانی اور سیاسی حقوق تو درکنار بنیادی اشیاء ضروریہ بمثل گندم وغیرہ کی فراہمی پاکستانی مقتدر حلقوں نے روک دی ہے۔ دوسری طرف موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اس سال پورے گلگت بلتستان میں چھ مہینہ کے لیے مقامی گندم کی پیداوار بارشوں کی نذر ہوکر تباہ ہوچکی ہے۔
منفی دس ڈگری سردی میں لوگ حسرت و یاس سے دیکھ رہے ہیں کہ کوئی ان کی مدد کو آئے۔ بھوک سے بچے اور بوڑھے نڈھال ہیں۔
جبکہ دوسری طرف غیرمقامی سیاسی جماعتوں کے لئے کام کرنے والے مقامی کارندوں کے تین گروپ سیاست سیاست کررہے ہیں اور بے پر کی اڑا رہے ہیں۔
ان کا پچھتر سال کی ترقی دو سال میں ہونے کا دعوی اسی طرح ہی مضحکہ خیز ہے جس طرح حفیظ الرحمان نے 2017ء میں کہا تھا کہ ہم گلگت کو دبئی بنا رہے ہیں۔
گلگت بلتستان کے سیاست دانوں میں تھوڑا سا بھی ایمان باقی ہے تو یکجا ہوکر گلگت بلتستان کے بنیادی انسانی اور سیاسی حقوق کا مطالبہ کریں۔ 1949ء کے معاہدوں کے تحت پاکستان کے مقتدر حلقوں سے بنیادی اشیاء ضروریہ کی فوراً فراہمی کا مطالبہ کریں۔
کشمیریوں پر جموں سے لیکر گلگت بلتستان تک ظلم ہورہا ہے۔ بحثیت انسان کشمیری شہری بھی اتنے ہی انسانی حقوق کے حق دار ہیں جتنے بھارتی اور پاکستانی ہیں۔
آج گلگت بلتستان میں جو کچھ ہورہا ہے انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ گلگت بلتستان کے لوگ بہت برے حالات سے گزر ہیں۔ بھوک افلاس نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے، اشیاء ضروریہ کی ترسیل سیاست کی نذر ہوگئی ہے نوجوان بسوں سے اتر کر خود کو دریا برد کررہے ہیں، دہشت گرد اسکولوں کو آگ لگا رہے ہیں انتہا پسند ہسپتال چلارہے ہیں جہاں فرقوں کی بنیاد پر سلوک کیا جارہا ہے۔ روزگار کے کوئی مواقع دستیاب نہیں ہیں۔ ذہنی اذیت میں اضافہ نے خودکشی کے رجحان میں بے تحاشا اضافہ کر دیا ہے۔ ایسے میں غیر منطقی باتیں خالی خولی دعوے عوام کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔