Chitral Times

کتابوں کی اشاعت، ایک فنی عمل ۔ خاطرات : امیرجان حقانی 

Posted on

کتابوں کی اشاعت، ایک فنی عمل ۔ خاطرات : امیرجان حقانی

کتابوں کی اشاعت ایک ایسا بہترین عمل ہے جو نہ صرف لکھاری کے خیالات کو دوام بخشتا ہے بلکہ اس کی محنت اور علم کو محفوظ کر کے آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ تاہم، یہ ایک سادہ عمل نہیں بلکہ ایک فن اور بڑی ذمہ داری ہے۔ ہر لکھاری کے لیے ضروری نہیں کہ وہ فوراً اپنی تحریروں کو کتابی شکل دے۔ تحریروں کو کتابی شکل دینا  ایک سنجیدہ اور منظم منصوبہ بندی کا تقاضا کرتی ہے، جو وقت، محنت، اور وسائل کے ساتھ ساتھ درست موقع اور ترتیب کا بھی محتاج ہے۔

 

میری ذاتی زندگی میں کئی ایسے لمحات آئے ہیں جب قریبی دوستوں اور ساتھیوں نے اپنی مخلصانہ آراء پیش کیں اور مشورہ دیا کہ میں اپنی تمام تحریروں کو کتابی صورت میں شائع کروں۔ کمپوزنگ کی شکل میں موجود مواد کا جائزہ لوں تو کم از کم پانچ چھ کتابیں آج ہی پبلش ہونگی۔ آج ہی میرے ایم فل کے کلاس فیلو اور پاکستان آرمی کے خطیب، برادم محترم مولانا حسین احمد تشریف لائے تھے۔ وہ پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ انہوں نے میرا ایم فل کا مقالہ نہایت توجہ سے دیکھا اور فوراً مشورہ دیا کہ اسے کتابی شکل میں شائع کر کے گلگت بلتستان اسمبلی سمیت تمام اہم اداروں تک پہنچایا جائے تاکہ یہ علمی تحقیق معاشرے کے وسیع تر حلقوں تک رسائی حاصل کرے۔ اور گلگت بلتستان میں قیام امن اور سماجی ہم آہنگی کے لئے اسمبلی سمیت دیگر اداروں کے کام آئے۔

 

اسی طرح، مختلف اہل قلم، پروفیسرز اور علمی دوستوں نے بھی مجھے اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً ترغیب دی ہے۔ یہ مشورے میرے لیے نہ صرف حوصلہ افزا ہیں بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہیں کہ میری تحریروں میں کچھ ایسا ہے جو قارئین کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ قارئین کی آراء اور ان کے مشوروں سے مجھے مزید تقویت ملتی ہے اور میں از سرنو اپنے کام اور تحریروں میں اور فکر و خیال میں بہتری لانے اور مزید امپرو کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے مسلسل لکھنے کا ایک سبب میرے قارئین بھی ہیں، جو کسی نہ کسی شکل میں مجھے لکھنے پر اکساتے ہیں۔

 

میری مستقبل کی منصوبہ بندی میں ایک خواب یہ بھی شامل ہے کہ میں ایک تحقیقی اکیڈمی قائم کروں، جو تحقیق و تالیف کے لیے مخصوص ہو۔ یہ ادارہ نہ صرف علمی کام کرے گا بلکہ تحقیقی مواد کو فوری طور پر شائع کرنے کا بندوبست بھی کرے گا۔ اس اکیڈمی کا مقصد علم کے ان ذخائر کو محفوظ کرنا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ضائع ہو جاتے ہیں۔اس کے لئے اپنی حد تک شاندار پلاننگ کی ہے۔ مشکل کے دو تین سال گزر جائیں گے تو اکیڈمی کا کام باقاعدہ شروع کیا جائے گا۔ اگر اللہ نے زندگی دی، تو یہ خواب ضرور پورا ہوگا، اور یہ اکیڈمی علمی دنیا میں ایک مثبت اضافہ ثابت ہوگی۔ اور میرے جیسے ان قلم کاروں کے لیے امید کی کرن بنے گی جو اپنی تحقیقات کو، اب تک کتابی شکل دینے سے قاصر ہیں۔

 

میرے لیے یہ بھی باعثِ اطمینان ہے کہ میری اکثر تحریریں مختلف اخبارات، ڈائجسٹوں، میگزین، ویب سائٹس، اور سوشل میڈیا پر شائع ہو چکی ہیں۔ یہ تحریریں کسی نہ کسی صورت میں محفوظ ہیں اور مستقبل میں اصحابِ تحقیق کے لیے ایک اہم ذریعہ بن سکتی ہیں۔ ان تحریروں کو جمع کرنا اور ان میں تسلسل پیدا کر کے جامع کتابی صورت دینا ایک اہم علمی خدمت ہوگی۔

 

یہ ہم سب جانتے ہیں کہ کتاب کی اشاعت صرف لکھاری کی محنت کا اعتراف نہیں بلکہ معاشرے کی فکری اور علمی ترقی میں ایک اہم کردار بھی ادا کرتی ہے۔ یہ قارئین کو نئے خیالات، نظریات، اور شعور کے دروازے کھولتی ہے۔ ہمیں یہ حقیقت سمجھنی ہوگی کہ کتابیں صرف کاغذ کے اوراق نہیں بلکہ علم و فکر کے چراغ ہیں، جو معاشرے کی راہوں کو روشن کرتے ہیں۔اور دلوں کو منور کرتے ہیں ۔

 

تحریروں کو شائع کرنا لکھاری کی عظمت اور قارئین کی ضرورت کا مشترکہ اظہار ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف لکھاری کو فخر دیتا ہے بلکہ اس کے الفاظ کو صدیوں تک زندہ رکھنے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم لکھنے، پڑھنے، اور اشاعت کے اس عمل کو فروغ دیں تاکہ علم و ادب کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری و ساری رہے۔

 

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
96168

پاک چین سرحد خنجراب کو 4 ماہ کیلئے عام آمدرفت کیلئے بند کردیا گیا – وفاقی سرکاری تعلیمی اداروں میں ہفتہ کی تعطیل ختم

پاک چین سرحد خنجراب کو 4 ماہ کیلئے عام آمدرفت کیلئے بند کردیا گیا

اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ)پاک چین سرحد خنجراب کو معاہدے کے تحت 4 ماہ کیلئے عام آمدرفت کیلئے بند کردیا گیا۔پاکستان اور چین کو زمینی آمدرفت کے ذریعے ملانے والی خنجراب سرحد کو دونوں جانب سے 30 مارچ تک بند کردیا گیا ہے۔ دو طرفہ معاہدے کے مطابق خنجراب سرحد کو تجارت سیاحت اور عام آمدرفت کیلئے ہر سال یکم اپریل سے 30 نومبر تک کھل دیا جاتا ہے۔اس سال ایک روز قبل اس لئے بند کیا گیا کہ ہفتہ اور اتوار کو معمول کی چھٹی ہوتی ہے۔ سطح سمندر سے تقریباً ساڑھے 15 ہزار فٹ بلند خنجراب سرحد پر ماہ نومبر سے مارچ تک زیادہ برف باری کیوجہ سے ٹریفک کیلئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 

 

 

وفاقی سرکاری تعلیمی اداروں میں ہفتہ کی تعطیل ختم

اسلام آباد(سی ایم لنکس  )وفاقی سرکاری تعلیمی اداروں میں ہفتے کی تعطیل ختم کردی گئی۔وفاقی سرکاری تعلیمی اداروں میں ہفتے کی چھٹی ختم کرنے کا نوٹفیکیشن جاری کردیا گیا۔ نوٹفیکیشن کے مطابق کئی روز سے تعلیمی ادارے بند رہنے کے باعث طلبا کی تعلیم کا حرج ہوا۔تعلیمی اداروں میں کل سے ہفتے کا دن ورکنگ ڈے ہو گا۔ چھٹی کے خاتمے سے متعلق فیصلے کا اطلاق 30 نومبر سے یکم فروری 2025 تک ہوگا۔ اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت دیگر علاقوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کے باعث تعلیمی ادارے بند کردئیے گئے تھے۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستان
96080

شمالی پاکستان میں لڑکیوں کی خودکشی، وجوہات اور حل پر تحقیق – تحریر: ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

شمالی پاکستان میں لڑکیوں کی خودکشی، وجوہات اور حل پر تحقیق – تحریر: ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

پرتگال کی یخ بستہ شام میں گرم کافی کے ساتھ ایک میل موصول ہوئی، جس میں چترال ٹائمز کے ایک محترم ایڈیٹر نے ایک حساس مسئلے پر توجہ دلائی۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں 15 سے 30 سال کی لڑکیوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ڈاکٹر شاکرہ نندنی یعنی مجھے، اس موضوع پر تحقیق کے لیے مجبور کر دیا۔

 

چترال اور شمالی پاکستان کے دیگر علاقوں میں لڑکیوں کی خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان نہایت تشویشناک ہے۔ میں، ڈاکٹر شاکرہ نندنی، اس موضوع پر بات کرنا چاہتی ہوں تاکہ اس کے پیچھے چھپی وجوہات کو سمجھا جا سکے اور ان کے حل تلاش کیے جا سکیں۔

 

وجوہات – میری تحقیق کی روشنی میں

ARY NEWS URDUNEWS TNN URDU گھریلو تشدد اور خاندانی تنازعات
میری تحقیق کے مطابق، گھریلو جھگڑے اور تشدد خواتین کے لیے سب سے بڑی پریشانیوں میں شامل ہیں۔ خاص طور پر کم عمری کی شادی اور حقوق کی پامالی جیسے مسائل ان کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔

 

URDU NEWS URDU NEWS تعلیمی ناکامیاں

وہ نوجوان لڑکیاں جو تعلیمی میدان میں ناکامی کا سامنا کرتی ہیں، خاص طور پر جہاں والدین یا معاشرے کی توقعات زیادہ ہوتی ہیں، خود کو تنہائی اور مایوسی کا شکار پاتی ہیں​۔

 

ARY NEWS ذہنی صحت کی سہولیات کا فقدان

چترال میں ماہر نفسیات کی غیر موجودگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ میری تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ ذہنی صحت پر گفتگو کو معیوب سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے خواتین کو مدد نہیں مل پاتی۔

 

ARY NEWS TNN URDU سماجی دباؤ اور ثقافتی روایات

 

روایتی رسوم و رواج، جیسے کم عمری میں شادی یا خواتین کو “بوجھ” سمجھنا، ان کی خودمختاری کو محدود کر دیتا ہے اور مایوسی بڑھتی ہے۔

 

ARY NEWS URDUNEWS موجودہ صورتحال اور اعداد و شمار

میری تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ پچھلے پانچ سالوں میں چترال میں خودکشی کے 63 کیسز میں سے 54 فیصد خواتین کی تھیں۔ زیادہ تر واقعات میں خواتین نے دریا میں چھلانگ لگائی یا خود کو پھانسی دی​۔

 

حل کے لیے میری تجاویز

ذہنی صحت کی سہولیات میں اضافہ

چترال جیسے علاقوں میں ماہر نفسیات کی تعیناتی اور کونسلنگ مراکز قائم کیے جائیں۔

تعلیمی اور روزگار کے مواقع

لڑکیوں کے لیے ہنر سکھانے اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ وہ خودمختار بن سکیں۔

سماجی رویوں میں تبدیلی
والدین اور کمیونٹی کے درمیان آگاہی مہم چلائی جائیں تاکہ خواتین کو درپیش دباؤ کم ہو اور وہ اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے گزار سکیں​۔

قانونی تحفظ اور خواتین کے لیے خصوصی پناہ گاہیں
دارالامان جیسے مراکز قائم کیے جائیں تاکہ گھریلو جھگڑوں سے متاثرہ خواتین کو محفوظ پناہ فراہم کی جا سکے​۔

آخرش میری تحقیق کے مطابق اس میں غیرت کے نام پر قتل کا عنصر بھی شامل ہو سکتا ہے جسے خودکشی کا رنگ دیا جا سکتا ہے اس پر میرا پورا ایک آرٹیکل بھی ہے، یہ ایک پیچیدہ اور حساس اور تحقیقاتی مسئلہ ہے، جس کا حل حکومت، معاشرتی تنظیموں اور کمیونٹی کے تعاون سے ممکن ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانا اور ان کی زندگیوں کو محفوظ بنانا ایک مضبوط اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد ہے۔ اس حوالے سے مزید تحقیق اور مداخلتیں اس مسئلے کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔

 

اعلامیہ
یہ مضمون مکمل طور پر میری ذاتی تحقیق اور خیالات پر مبنی ہے، جسے مختلف میڈیا رپورٹس، تحقیقی مضامین، اور معتبر خبروں کے ذرائع سے اخذ کیا گیا ہے۔ میں نے اس مسئلے پر اپنی فہم و دانش کے مطابق روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے، تاکہ اس کے سماجی، نفسیاتی اور ثقافتی پہلوؤں کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔

 

 

یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس مضمون کا کسی بھی نیوز چینل، میڈیا ادارے، یا خاص طور پر چترال ٹائمز سے کوئی تعلق یا وابستگی نہیں ہے۔ میں نے اس موضوع پر جو بھی لکھا ہے، وہ میری ذاتی رائے ہے اور اس کا مقصد صرف آگاہی اور مثبت مکالمے کو فروغ دینا ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, گلگت بلتستان, مضامینTagged
96061

بیچارہ مرد – خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on

بیچارہ مرد – خاطرات :امیرجان حقانی

 

یہ دنیا کے رنگ عجیب ہیں۔ ایک طرف عورت کو مظلومیت کا تاج پہنایا جاتا ہے، دوسری طرف مرد کو ظالم اور بے حس بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مگر حقیقت شاید ان کہانیوں سے کہیں مختلف ہے۔ اگر کسی نے کبھی غور کیا ہو، تو معلوم ہوگا کہ مرد ایک خاموش عاشق ہے، ایک محبت بھرا ہیرو، جو اپنی محبت، خاندان اور خوابوں کی تکمیل کے لیے ہر روز ایک نئی جنگ لڑتا ہے۔

 

یہ دور واقعی “خواتین کا میڈیائی دور” ہے۔ پوری دنیا کا پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا خواتین کے حقوق کا علمبردار نظر آرہا ہے۔ ہر طرف یہی شور ہے کہ عورت مظلوم ہے، اور اسے اس کے حقوق ملنے چاہئیں۔ یہ درست ہے کہ عورت کے مسائل کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، لیکن کیا کبھی کسی نے مرد کے دکھوں اور قربانیوں کی طرف بھی توجہ دی؟ شاید نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج مرد کی بیچارگی ایک خاموش حقیقت بن چکی ہے، جسے سننے والا کوئی نہیں۔ خود مرد بھی نہیں!

 

مسلم معاشروں میں جہاں عورت کو بہت سے حقوق دیے گئے ہیں، وہاں یہ کہنا کہ وہ “مظلوم” ہے، ایک پوسٹ ٹرتھ بیانیہ بن گیا ہے۔ یہ وہ تصور ہے جس میں حقائق کی جگہ جذبات نے لے لی ہے۔ اگر ہم مرد کی قربانیوں پر غور کریں، تو عورت مظلوم کم اور مرد بیچارہ زیادہ محسوس ہوگا۔

 

ذرا سوچیے، ایک مرد جب نکاح کے بندھن میں بندھتا ہے، تو اس کے لیے یہ صرف محبت کا ایک عہد نہیں ہوتا، بلکہ قربانیوں کا آغاز بھی ہوتا ہے۔ نکاح اور شادی کی رسومات پر خرچ ہونے والے لاکھوں روپے کہاں سے آتے ہیں؟ یہ ایک غریب مرد کے لیے کتنا مشکل ہوتا ہے، اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو اس آگ سے گزرے۔

 

شادی کے بعد ایک مرد پر صرف اپنی بیوی کو خوش رکھنے کی ذمہ داری نہیں ہوتی، بلکہ اس کے بچوں، خاندان اور ایک بہتر زندگی کے خوابوں کا بوجھ بھی آ جاتا ہے۔ وہ دن رات محنت کرتا ہے، اپنی خواہشات کو دباتا ہے، اور اپنے آرام کو قربان کر دیتا ہے، تاکہ اس کا خاندان خوش رہے۔

 

کبھی وہ پتھر توڑتا ہے، اور درجنوں، جسمانی و ذہنی مشقت پر مبنی کام کرتا ہے۔کبھی دفاتر کی ذلت سہتا ہے، اور کبھی اپنے دل کے ارمانوں کو دفن کر دیتا ہے، صرف اس لیے کہ اس کی بیوی اور بچے کسی چیز کی کمی محسوس نہ کریں۔ اور پھر بھی معاشرہ کہتا ہے کہ مرد ظالم ہے، عورت مظلوم ہے۔

 

اگر مرد کو صرف اپنی ذات کی فکر ہوتی، یا وہ صرف اپنی جنسی خواہشات پوری کرنا چاہتا، تو شاید وہ شادی جیسے مشکل عمل سے کبھی نہ گزرتا۔ وہ بہت آسان اور سستے راستے بھی اختیار کر سکتا تھا۔ مگر نہیں، مرد یہ سب کچھ محبت، خاندان بسانے، اور اولاد کی خوشیوں کے لیے کرتا ہے۔

 

یہ سچ ہے کہ مرد کے جذبات اتنے واضح نہیں ہوتے، لیکن اس کے عمل میں محبت جھلکتی ہے۔ وہ اپنی خوشیوں کو پس پشت ڈال کر اپنے خاندان کے لیے ایک مضبوط دیوار کی طرح کھڑا رہتا ہے۔ ایسی دیوار جو دیوار چین سے بھی مضبوط ہے۔

 

کیا ہم نہیں جانتے کہ بیچارہ مرد ایک پورے خاندان کے خوابوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا ہے۔ بچوں کی تعلیم، ان کی خوشیاں، گھر کی ضروریات، اور ایک بہتر زندگی کی جستجو… یہ سب وہ دن رات محنت کر کے پورا کرتا ہے۔

 

ہر بار وہ اپنی خواہشات، اپنی خوشیاں، اور اپنی راحتیں قربان کر دیتا ہے، مگر اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ رہتی ہے۔ اس کے دل میں ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا خاندان خوش اور سکھی رہے۔

 

یہ کہنا کہ عورت ہمیشہ مظلوم ہے اور مرد ہمیشہ ظالم، شاید انصاف نہیں۔ ہر رشتہ ذمہ داریوں، قربانیوں اور محبت کے توازن پر قائم ہوتا ہے۔ جہاں عورت کی قربانیوں کو سراہا جانا ضروری ہے، وہیں مرد کی قربانیوں کو نظرانداز کرنا زیادتی ہے۔

 

مرد کی یہ محبت شاید الفاظ میں کم اور عمل میں زیادہ جھلکتی ہے۔ وہ محبت، عزت اور خاندان کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ ہر قدم پر اپنی محبت کے لیے جیتا ہے، اپنی عزت کے لیے لڑتا ہے، اور اپنی اولاد کے لیے خواب دیکھتا ہے۔

 

کیا یہ انصاف ہے کہ مرد کی ان قربانیوں کو نظرانداز کر دیا جائے؟ کیا یہ صحیح ہے کہ عورت کو ہمیشہ مظلوم اور مرد کو ہمیشہ ظالم دکھایا جائے؟ شاید نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مرد ایک خاموش عاشق ہے، جو اپنے پیار کو خوش رکھنے کے لیے اپنی ہر خوشی قربان کر دیتا ہے۔

 

یہ وقت ہے کہ ہم اس خاموش محبت کو تسلیم کریں۔ مرد کا دل بھی محبت کرتا ہے، اور اس کی محبت بھی اتنی ہی گہری، سچی اور خالص ہے جتنی کسی عورت کی ہو سکتی ہے۔ وہ اپنے خاندان کے لیے ایک خاموش ہیرو ہے، جس کی قربانیاں شاید نظر نہ آئیں، مگر ان کی تاثیر ہمیشہ محسوس ہوتی ہے۔

 

یہ چند الفاظ، محبت کے اس ہیرو کو سلام پیش کرنے کے لیے لکھا ہے، جو ہر روز اپنی زندگی کی جنگ لڑتا ہے، اور پھر بھی مسکراتا رہتا ہے، صرف اس لیے کہ اس کی محبت کا جہان خوش رہے۔

 

یہ تحریر ان تمام خواتین کے نام بھی ہے جن کے مرد اپنی زندگی، محبت، خاندان اور رشتوں کے لیے وقف کر دیتے ہیں، اور پھر بھی “ظالم” کہلاتے ہیں۔ حقیقت میں، وہ اس دنیا کے سب سے بڑے مظلوم ہیں، مگر خاموش! کیا آپ اس ہیرو کو سیلوٹ کریں گی؟

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
96056

مرد کی محبت: شدت کی انتہا – خاطرات:امیرجان حقانی

Posted on

مرد کی محبت: شدت کی انتہا – خاطرات:امیرجان حقانی

 

 

محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کو اس کے اندر چھپی ہوئی گہرائیوں سے روشناس کراتا ہے۔ یہ مکمل فطری عمل ہے۔ کوئی اسے مستثنیٰ نہیں ہوسکتا۔ یہ جذبہ جب ایک مرد کے دل میں جاگتا ہے تو یہ کسی ہلکی سی سرگوشی کی طرح نہیں ہوتا بلکہ گرجتے ہوئے سمندر جیسا ہوتا ہے، جس کی لہریں ہر چیز کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ یعنی یوں کہا جاسکتا ہے کہ مرد کی محبت بھی سمندر کی طرح موجیں مار رہا ہوتا ہے۔

 

 

مرد کی محبت صرف ایک احساس، ایک جذبہ اور جنون نہیں بلکہ ایک سلطنت ہے، ایک خود مختار سلطنت۔ وہ اپنی محبت یعنی سلطنت میں اپنے محبوبہ کو ایک ملکہ معظمہ کے درجے پر بٹھاتا ہے لیکن اسی محبت کے نتیجے میں وہ اس پر اپنی حکمرانی کا خواہاں بھی ہوتا ہے۔ حکمرانی بھی ایسی کہ اس کی سلطنت پر کوئی پر نہ مار سکے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی محبوبہ صرف اسی کی ہو، مکمل طور پر اس کے اختیار میں ہو، اور اس کے جذبات اور خواہشات کے سوا کسی اور کے بارے میں نہ سوچے۔ یہ خواہش ایک طرف اس کی محبت کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے، تو دوسری طرف اس کے اندیشے اور حسد کو بھی آشکار کرتی ہے۔ لاریب! مرد کی محبت بہت زہریلی ہوتی ہے۔ اتنی زہریلی کی اپنی محبوبہ کو ہی مار ڈالے۔

 

 

مرد کی محبت میں شدت دراصل اس کی محبت کی انتہا ہے۔ جب وہ کسی عورت سے محبت کرتا ہے، تو وہ اپنے دل کی دنیا کو صرف اس کے لیے مخصوص کر دیتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا اس کی دنیا میں قدم رکھے، وہ مکمل اقتدار اعلیٰ کا مالک بننا چاہتا ہے اس محبت میں۔ یہ شدت اکثر عورت کے لیے غیر معقول یا جابرانہ لگتی ہے، مگر یہ محبت کی وہ انتہا ہے جہاں مرد اپنی ہر حد سے گزر جانے کو تیار ہوتا ہے۔ شاید مرد سے زیادہ محبت کوئی نہیں کرسکتا۔

 

 

یہ حقیقت ہے کہ عورت اپنی ذات میں ایک آزاد وجود کی حامل ہے۔ عورت فطرتاً آزاد منش ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کی محبت اسے جکڑے نہیں بلکہ اس کے لیے سکون اور اعتماد کا باعث بنے۔ مرد کی یہ خواہش کہ عورت اس کے تابع ہو اور اس کی مرضی کے مطابق چلے، اکثر عورت کے دل میں بغاوت یا کراہت پیدا کر سکتی ہے۔ محبت میں اگرچہ جنون ضروری ہے، لیکن اگر یہ جنون عورت کی خوشیوں اور آزادی کو چھین لے، تو یہ محبت کے بجائے قید بن جاتی ہے۔ اور مرد ہرحال میں عورت کو بری طرح کَسنا چاہتا ہے۔ قیدی بنانا چاہتا ہے، اتنی سخت جکڑ کا عادی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ اس جکڑ سے عورت کرچی کرچی ہوتی ہے مگر مرد اپنی محبت کی انتہا پر ہوتا ہے اس لئے عورت کی بکھری کرچیاں اس کو نظر نہیں آتیں۔

 

 

مرد کی محبت کو صرف شدت یا خودغرضی کا نام دینا درست نہیں۔ اس محبت میں وفاداری، تحفظ، اور بے پناہ قربانی کا جذبہ شامل ہوتا ہے اور اس جذبے میں مرد کے پاس کوئی قانون، اصول یا اقدار نہیں ہوتی۔ مرد جب محبت کرتا ہے، تو وہ اپنی محبوبہ کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کو تیار رہتا ہے۔ وہ اس کی زندگی کی ہر مشکل کو اپنے کندھوں پر لینے کی کوشش کرتا ہے اور اسے ہر خطرے سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنے دل و جان سے لڑتا ہے۔ وہ پھر دودھ کی نہریں بہانے پر تُلتا ہے۔ بس سمجھو! یہ ایک گورکھ دھندہ ہے جو کم لوگوں کو سمجھ آتا۔

 

 

مرد کی محبت کو اگر حقیقی معنوں میں کامیاب بنانا ہو تو ضروری ہے کہ وہ اپنی محبت میں اعتدال اور ہم آہنگی پیدا کرے۔ محبت صرف اپنے جذبات مسلط کرنے کا نام نہیں بلکہ ایک دوسرے کو سمجھنے اور آزادانہ طور پر اپنی ذات کو مکمل کرنے کا نام ہے۔ اگر مرد اپنی محبوبہ کی آزادی اور خوشیوں کا احترام کرے اور اپنی محبت میں اعتماد کا عنصر شامل کرے تو یہ محبت جبر کے بجائے سکون کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن شاید حقیقی محبت کرنے والے مرد کے لیے یہ اعتدال والی باتیں بے کار ہوں۔ کیونکہ وہ اس معاملے میں انتہا پسند ہوتا ہے۔ ایک ایسی انتہا پر ہوتا ہے جہاں سے اترنا اس کے لئے ناممکن ہے۔

 

 

شاید یہی خصوصیات ہیں جو مرد کو “مجازی خدا” کا درجہ دیتی ہیں۔ اللہ نے بھی مرد کو قوام یعنی نگہبان قرار دیا ہے۔ اس کا یہ درجہ صرف اس کی شدت یا حکمرانی کی خواہش کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس کی محبت کے اس گہرے جذبے کی وجہ سے ہے جو اسے اپنی محبوبہ کے لیے ہر حد سے گزرنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ اپنی محبت میں وفاداری، زمہ داری، قربانی، کفالت اور تحفظ کے وہ عناصر شامل کرتا ہے جو اسے ایک حقیقی محافظ اور چاہنے والا بناتے ہیں۔

 

 

مرد کی محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو شدت اور وفا کے امتزاج سے بنتا ہے۔ یہ محبت اگرچہ بعض اوقات غیر معقول یا جارحانہ لگ سکتی ہے، مگر اس میں ایک گہری حقیقت چھپی ہوتی ہے۔ یہ جذبہ مکمل طور پر اپنی محبوبہ کے لیے وقف ہوتا ہے۔ اگر مرد اپنی محبت میں توازن اور ہم آہنگی پیدا کرے، تو یہ محبت نہ صرف اس کے لیے بلکہ اس کی محبوبہ کے لیے بھی ایک ایسا سکون بن سکتی ہے جو دونوں کو زندگی کے ہر نشیب و فراز میں سہارا دے۔

 

 

ایک بات حتمی ہے کہ مرد اگر واقعی کسی عورت سے پیار کرتا ہے تو وہ حتمی اور کلی اختیار چاہتا ہے، ایسا اختیار جو اللہ کو اپنے بندوں پر ہوتا ہے۔ شاید یہ اس کی محبت کی انتہا ہے۔ وہ اس انتہا میں بھی شدت پسندی کا قائل ہے۔اگر کوئی مرد ان باتوں سے انکاری ہے تو وہ محبت نہیں کمپرومائز کررہا ہے۔ اور مرد کی محبت میں کمپرومائز کی گنجائش نہیں ہوتی۔

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
95957

معلومات اور علم – خاطرات: امیرجان حقانی

Posted on

معلومات اور علم – خاطرات: امیرجان حقانی

 

 

یہ طلبہ بھی بڑے کمال کے ہوتے ہیں! بعض دفعہ ایسے سوالات پوچھتے ہیں کہ آدمی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایک طالب علم نے سوال داغا کہ علم اور معلومات میں کیا فرق ہے؟ اور مثالوں سے وضاحت کرنے کا ڈیمانڈ بھی کرلیا۔

تو عرض کیا کہ دنیا معلومات اور حقائق سے بھری ہوئی ہے، لیکن وہ جو انہیں معنی و مفہوم، مقصد اور عمل کی شکل دیتا ہے، وہ علم ہے۔

 

معلومات محض اعداد و شمار ہیں۔کس نے کیا کہا، کہاں ہوا،، کب ہوا، یا کیا موجود ہے۔ لیکن علم وہ روشنی ہے جو ان معلومات کو ترتیب دے کر زندگی کا حصہ بناتی ہے۔ جیسے کسی بھی فن کی کتاب میں لکھے الفاظ کو جاننا معلومات ہے، مگر ان الفاظ کا مطلب سمجھنا، ان کا تجزیہ و تحلیل کرنا، ان سے سبق حاصل کرنا اور انہیں اپنی زندگی میں لاگو کرنا علم ہے۔ یہی سوال ہارٹ پشاور میں ٹریننگ کے دوران میں نے بھی کسی پروفیسر سے کیا تھا۔ انہوں نے سادگی کے ساتھ کہا تھا کہ کسی چیز کے بارے میں جاننا معلومات ہیں اور اس پر عمل کرنا یعنی عملی زندگی میں نافذ کرنا علم ہے۔

 

 

چونکہ میں کالجز میں علم سیاسیات پڑھتا ہوں اور مدرسہ میں دینی علوم۔ اس لئے علم اور معلومات کو سمجھنے کے لیے ایک مثال علم سیاسیات اور ایک دینیات سے پیش کروں گا تاکہ بات بہتر طریقے واضح ہوجائے۔

 

علم سیاسیات (Political Science) کے تناظر میں علم (Knowledge) اور معلومات (Information) کو یوں سمجھتے ہیں۔
آپ کو یہ معلوم ہے کہ پاکستان کا آئین 1973 میں منظور ہوا، اور اس میں پارلیمانی نظام حکومت شامل ہے۔ اللہ کی حاکمیت تسلیم کی گئی ہے۔یہ حقائق یا اعداد و شمار ہیں، جو معلومات (Information) کہلاتے ہیں۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ 1973 کے آئین کو کیوں اہمیت دی گئی، پارلیمانی نظام حکومت کے فوائد کیا ہیں، اور یہ نظام سیاسی استحکام اور عوامی نمائندگی کو کیسے یقینی بناتا ہے اور پاکستانی عوام کے لئے کیسے قابل قبول ہے اور اللہ کی حاکمیت تسلیم کرنے کی کیا وجہ ہے۔ یہ گہرائی اور تجزیہ علم (Knowledge) کہللاتا ہے۔ یعنی آئین 1973 میں بنایا گیا اور اس میں پارلیمانی نظام شامل ہے۔ یہ معلومات ہیں اور آئین کی تشکیل کے محرکات، اس کے سیاسی و سماجی اثرات، اور اس کے عملی نفاذ کے مسائل اور فوائد کیا ہیں یہ علم ہے۔ یہی فرق کسی بھی سیاسی مسئلے، جیسے جمہوریت یا آمریت، بادشاہت یا شورائیت کے تجزیے میں دیکھا جا سکتا ہے۔

 

 

اسی طرح ایک مثال دینی علوم سے عرض کر دیتے ہیں تاکہ سمجھنے میں مزہد آسانی ہو۔

آپ جانتے ہیں کہ زکوٰۃ دینا اسلام کا ایک اہم رکن ہے، اور اس کی شرح 2.5 فیصد ہے۔ یہ ایک حقیقت یا ڈیٹا ہے، جو معلومات کہلاتا ہے۔

آپ سمجھتے ہیں کہ زکوٰۃ کا مقصد غربت کا خاتمہ، دولت کی منصفانہ تقسیم، مال کی پاکی، اور معاشرتی مساوات قائم کرنا ہے۔ یہ زکوٰۃ کے پیچھے موجود حکمت اور فلسفہ ہے، جو علم کہلاتا ہے۔

 

 

زکوٰۃ فرض ہے اور اس کی شرح ڈھائی فیصد ہے۔ یہ معلومات ہیں جبکہ زکوٰۃ کے معاشرتی اور روحانی فوائد کیا ہیں اور اس کا اطلاق کیسے کیا جائے۔ یہ علم ہے۔ یہی فرق سماجی علوم میں بھی لاگو ہوتا ہے، جیسے کسی مسئلے کو سمجھنا اور اس کے حل کے طریقے پر غور کرنا۔

 

 

آج کے دور میں لوگ معلومات تو بہت جمع کر لیتے ہیں، مگر علم کی گہرائی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم اعداد و شمار کے ڈھیر کے محافظ تو بن چکے ہیں، کے ٹو اور ناننگا پربت سے بڑے پہاڑ، معلومات کے اکٹھا کرلیتے ہیں لیکن ایک علم و حکمت ایک معمولی چٹان کا بھی نہیں رکھتے۔ المیہ یہ ہے کہ ان معلومات کے معانی و مطالب اور مفاہیم و مقاصد اور اثرات پر غور کرنے والے کم ہی ہیں۔

 

 

یاد رکھیں، معلومات طاقت ہے، لیکن علم وہ حکمت ہے جو اس طاقت کو درست سمت میں استعمال کرنے کا شعور دیتی ہے۔ آئیے، معلومات کی سطحی دنیا سے نکل کر علم کی گہرائی میں جائیں اور شعور و حکمت کی روشنی سے اپنی اور دوسروں کی زندگیاں روشن کریں۔ یہی راستہ ہمیں بہترین انسان بننے کی طرف لے جاتا ہے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
95900

قراقرم یونیورسٹی: تنقید و تعریف – خاطرات: امیرجان حقانی

Posted on

قراقرم یونیورسٹی: تنقید و تعریف – خاطرات: امیرجان حقانی

 

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت بلتستان کی ایک ممتاز اور منفرد علمی درسگاہ ہے، جو اس خطے کے عوام کے لیے ایک قومی اثاثہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ادارہ ہزاروں طلبہ و طالبات کے لیے علم و تحقیق کے مواقع فراہم کر رہا ہے اور اپنی تمام تر کمیوں کے باوجود خطے کی علمی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

 

میں نے ماضی میں قراقرم یونیورسٹی پر کئی تنقیدی کالم لکھے ہیں، لیکن یہ تنقید کسی ذاتی عناد یا مخالفت پر مبنی نہیں تھی۔ ان تحریروں کا مقصد ہمیشہ اصولی بنیادوں پر ادارے کی بہتری اور اصلاح رہا ہے۔ آج بھی میرا یہ اصولی موقف برقرار ہے کہ اس ادارے کو مضبوط اور بہتر بنانے کے لیے اس کا تنقیدی جائزہ لیتے رہنا ضروری ہے اور یونیورسٹی کے فیصلوں اور شخصیات کے کردار کو بھی زیر بحث لانا وقت کی اہم ضرورت ہے، تاہم یہ عناد و بغض کی بجائے خلوص اور نیک نیتی پر مبنی ہو۔

 

قراقرم یونیورسٹی نے خطے کے مختلف اضلاع میں کیمپسز قائم کیے ہیں، جو ایک خوش آئند اقدام ہے اور عوام کے لیے علم تک رسائی کو آسان بناتا ہے۔ تاہم، یہ امر باعث افسوس ہے کہ ان کیمپسز کو مقامی کالجز کی عمارتوں پر قبضہ کر کے چلایا جا رہا ہے۔ یہ عمل تعلیمی نظام کے لیے نقصان دہ ہے اور یونیورسٹی کے وقار پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ کو چاہیے کہ اپنی ذاتی عمارتیں تعمیر کرنے کی فوری کوشش کرے اور کالجز کی عمارتیں ان کے اصل مقاصد کے لیے واپس کرے۔ یہ کالجز دراصل یونیورسٹی کے لئے فیڈنگ یونٹس ہیں، جن کو ڈسٹرب کرکے کسی صورت یونیورسٹی کامیاب نہیں ہوسکتی نہ کیمپس چل سکتے ہیں۔ کالجز میں انفراسٹرکچر کی کمی کو روزانہ کی بنیاد پر محسوس کیا جاتا ہے، اور اس کا سبب یونیورسٹی کیمپسز ہیں۔

 

قراقرم یونیورسٹی کا بورڈ (کے آئی یو بورڈ) بھی خطے کا ایک اہم ادارہ ہے، جو طلبہ کے تعلیمی معاملات کو بہتر بنانے میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ اگرچہ اس میں بعض کمزوریاں اور خامیاں موجود ہیں، لیکن یہ ادارہ گلگت بلتستان کا اپنا اکلوتا بورڈ ہے، اور اسے بہتر بنانے کے لیے مسلسل کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ تنقیدی عمل اس کی بہتری کے لیے نہایت ضروری ہے۔ تاہم بورڈ کیساتھ سوتیلا رویہ بھی اچھا نہیں ہے۔ انتہائی بدنیتی سے بورڈ کے ساتھ سرکاری تعلیمی اداروں کا الحاق ختم کردیا گیا ہے۔ اگر یونیورسٹی بورڈ مناسب نہیں تھا تو گلگت بلتستان کا الگ بورڈ کا قیام عمل میں لانا چاہیے تھا مگر بورڈ کچھ عناصر کی انا، مفاد اور ہٹ دھڑمی کا شکار ہوا۔

 

یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ بعض افراد ذاتی مفادات کی خاطر یونیورسٹی، بورڈ، یا اس کے ذیلی کیمپسز کی مخالفت کرتے ہیں، جو خطے کے عوام اور تعلیمی نظام کے لیے نقصان دہ ہے۔ کسی بھی ادارے کی مخالفت اصولوں اور بہتری کی بنیاد پر ہونی چاہیے، نہ کہ ذاتی فوائد کے لیے۔

 

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی، اس کا بورڈ، اور اس کے ذیلی کیمپسز گلگت بلتستان کے عوام کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔ لاکھوں طلبہ و طالبات کی مادر علمی ہے۔ اور ہزاروں افراد کے لئے روزگار کا سبب ہے۔ ان اداروں کی مخالفت کرنے کے بجائے ان کی بہتری اور ترقی کے لیے تعمیری تجاویز اور مثبت کوششیں کرنی چاہییں۔ میں روز اول سے یونیورسٹی، بورڈ اور کیمپسز کے حوالے سے ایک اصولی رائے رکھتا ہوں اور اس کا برملا اظہار بھی کرتا ہوں، تاہم اس یونیورسٹی اور اس کے ذیلی اداروں سے بغض و عناد ہے اور نہ ان اداروں سے میرے مفادات جڑے ہیں، اس لئے اپنی رائے کو بلاکم وکاست شئیر بھی کرتا ہوں۔ اور اصولوں پر تنقید و تعریف بھی کھل کرتا ہوں۔ میرا اختلاف، تنقید اور تعریف و حمایت بہر حال یونیورسٹی کی بہتری کے لئے ہے۔ سمجھ دار افراد اور قومیں، اپنے اداروں کی بہتری کی کوشش کرتی ہیں نہ کہ ان کے وجود کے درپے ہوتی ہیں۔

 

اگر ہم اخلاص کے ساتھ اس ادارے کی اصلاح اور ترقی کے لیے کام کریں، تو یہ نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک مثالی تعلیمی ادارہ بن سکتا ہے۔ یہی ہماری ذمہ داری ہے اور یہی خطے کی کامیابی کا راز ہے۔

 

 

Karakurom international university KIU GB 1

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
95833

گلگت بلتستان اور چترال میں خودکشیاں: اسباب، اثرات، اور روک تھام کے لیے تجاویز – خاطرات : امیرجان حقانی

Posted on

گلگت بلتستان اور چترال میں خودکشیاں: اسباب، اثرات، اور روک تھام کے لیے تجاویز – خاطرات : امیرجان حقانی

 

 

 

گلگت بلتستان اور چترال قدرت کے حسین شاہکار ہیں، جہاں کے بلند و بالا پہاڑ، سرسبز وادیاں، بہتے دریا، اور دلکش جھیلیں دیکھنے والوں کے دل موہ لیتے ہیں۔ یہ علاقے نہ صرف اپنی فطری خوبصورتی بلکہ اپنی ثقافتی اور سماجی ورثے کی وجہ سے بھی مشہور ہیں۔ یہاں کے لوگ محبت، مہمان نوازی، اور خلوص کے پیکر ہیں۔ لیکن اس جنت نظیر علاقے میں ایک تلخ حقیقت بھی چھپی ہوئی ہے، جو ان خوبصورت وادیوں کو دھندلا دیتی ہے۔ جب جب یہ تلخی اپنی کسی بھی شکل میں نمودار ہوتی ہے تو دل کرچی کرچی ہوجاتا ہے۔ اس تلخی نے اب پورے سماج کو گھیر رکھا ہے۔ یعنی گلگت بلتستان اور چترال میں بڑھتی ہوئی خودکشیاں۔

 

 

کچھ لوگ جسمانی طور پر پاکستان سے دور ہوتے ہیں، اپنے آبائی علاقوں سے ہزاروں میل کے فاصلے پر سکونت پزیر ہوتے ہیں اور اپنی فیملی کیساتھ ایک خوشگوار زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں ، لیکن ان کے دل ہمیشہ وطن کی محبت میں دھڑکتے ہیں۔ وہ کسبِ معاش کے لیے دنیا کے کسی اور کونے میں رہتے ہیں، مگر اپنے ملک اور علاقے کی فلاح و بہبود کے لیے مسلسل فکر مند رہتے ہیں اور اپنی استطاعت کے مطابق سماجی کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ہمدرد اور انسان دوست شخصیت ہیں، ہمارے گل جی بھائی، جن کا تعلق چترال سے ہے اور وہ ٹورانٹو، کینیڈا میں مقیم ہیں۔

 

 

اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ خوشحال زندگی بسر کرتے ہوئے بھی ان کا دل گلگت بلتستان اور چترال کی خوبصورت وادیوں میں بستے لوگوں کے مسائل پر مرکوز رہتا ہے۔ خاص طور پر خودکشی جیسے حساس اور المناک مسئلے کے بارے میں وہ گہری فکر رکھتے ہیں اور فکر مند بھی رہتے ہیں۔ وہ نہ صرف اس سنگین مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ہم جیسے قلم کاروں کو اس پر لکھنے اور آواز بلند کرنے کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ اس سماجی ناسور کو ختم کیا جا سکے۔ گلگت بلتستان اور چترال کے علاقے جتنے قدرتی طور پر دلکش ہیں، ان کے لوگ بھی ویسے ہی دلوں کی خوبصورتی اور خلوص کے پیکر ہیں، اور یہی چیز ان علاقوں کو، دنیا بھر میں ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔

 

 

گلگت بلتستان اور چترال کے خوبصورت پہاڑوں اور وادیوں میں چھپا یہ سماجی ناسور نے حساس دل رکھنے والوں کو اندر سے جلا کر راکھ کردیا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہاں خودکشیوں کے واقعات خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ کچھ سال پہلے کی ایک سروے رپورٹ دیکھی، جس کے مطابق صرف ضلع غذر اور چترال کے اعدادوشمار کے مطابق چند سالوں میں 500 سے زائد خودکشیاں رپورٹ ہوئی ہیں، جن میں زیادہ تعداد خواتین اور نوجوانوں کی ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں خواندگی کی شرح پاکستان کے دیگر حصوں سے زیادہ ہے، لیکن یہ تعلیم اور خوشحالی کے بظاہر روشن پہلو نوجوانوں کی زندگیوں کو تاریک کیوں بنا رہے ہیں؟۔اگر پورے گلگت بلتستان کی رپورٹس سامنے آجائیں تو مزید صورتحال گھمبیر نظر آئے گی۔

 

 

خودکشیوں کی وجوہات اور اسباب

سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کار لوگ خودکشیاں کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب تب سمجھ آئے گا جب ہم خودکشی کے اسباب و وجوہات پر سنجیدگی سے غور کریں۔ کچھ عمومی وجوہات ہم آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں، ان کے علاوہ بھی بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے خودکشیاں ہورہی ہوں۔

 

1. تعلیمی دباؤ اور مسابقت:

ہمارے ان علاقوں میں تعلیم کے میدان میں سخت مسابقت نوجوانوں کو شدید ذہنی دباؤ کا شکار کر رہی ہے۔ طلبہ و طالبات کی معمولی ناکامی بھی سماجی دباؤ اور نفسیاتی الجھنوں کا سبب بن جاتی ہے۔ کئی نوجوانوں کو جانتا ہوں جنہوں نے مسابقتی کلچر کے دباؤ میں آکر، کسی شکل میں اپنی جان لی ہے۔

 

2. بے روزگاری اور مواقع کی کمی:

گلگت بلتستان اور چترال کے لوگ غربت اور کسمپرسی کے باوجود اپنے بچوں کو مہنگے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلاتے ہیں۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود، گلگت بلتستان اور چترال میں انہیں ملازمت نہیں ملتی، کیونکہ یہاں ملازمت کے مواقع محدود ہیں۔ یہ صورتحال نوجوانوں میں مایوسی اور احساسِ کمتری کو بڑھا دیتی ہے۔ اور پھر نوجوان اپنی جان کے درپے بن جاتے ہیں۔

 

 

3. خواتین پر سماجی دباؤ:

گلگت بلتستان کے کچھ اضلاع اور چترال میں خواتین بہت ہی زیادہ تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ یہ پڑھی لکھی خواتین کو بھی اکثر روایتی سماجی نظام کے تحت فیصلے ماننے پڑتے ہیں۔ ناپسندیدہ شادیوں اور سماجی پابندیوں سے ان کی نفسیاتی حالت پر برا اثر پڑتا ہے۔ بہت دفعہ دیکھا گیا ہے کہ پڑھی لکھی خواتین نے اجڈ اور اپنے سے کم پڑھے لکھے شخص کے ساتھ جیون بتانے کی بجائے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کی ہیں۔ اب یہ روایات پورے گلگت بلتستان میں چل نکلی ہے۔ یہ خطرناک رجحان بری طرح پھیل رہا ہے ۔

 

 

4. غیرت کے نام پر قتل:

غیرت کے نام پر قتل گگلگت بلتستان اور چترال میں معمول کا حصہ ہے۔ ضلع دیامر میں تو اس پر فخر کیا جاتا ہے۔ تاہم آج کل قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے غیرت کے نام پر قتل کو بھی، اکثر خودکشی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ایک سنگین سماجی مسئلہ ہے، جس کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ خواتین کی خودکشی میں آدھی سے زیادہ قتل کی واردات ہوتیں ہیں تاہم انہیں خودکشی کا نام دیا جاتا ہے ۔

 

 

5. نفسیاتی مسائل اور تنہائی:

نفسیاتی مسائل جیسے ڈپریشن اور تنہائی کے رجحانات بڑھ رہے ہیں، اور ان کے علاج کی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ نوجوانوں کی ڈپریشن کی داستانیں بھی انتہائی ہولناک ہیں اور بدقسمتی سے نفسیاتی معالجین کا وجود ہی نہیں۔ اور حکومتی اور سماجی ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔

 

 

6. دین اسلام سے دوری:

دین اسلام کی اصل تعلیمات سے دوری بھی ایک سبب ہے۔ علماء کرام اور دیندار طبقے نے نوجوانوں بالخصوص نوجوان خواتین کو دین کا اصل مقصد سمجھانے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ہے۔ کوئی معقول پلان ہی ترتیب نہیں دیا ہے۔
یہاں مذہبی تنافرت اور بدمعاشیوں کو دین کا نام دیا جاتا ہے۔ اساسیات دین کی بجائے فروعات پر زور ہے، جس کی وجہ سے بالخصوص نوجوان طلبہ و طالبات دین کی روح سے ناواقف ہیں۔ اور اس کمزوری اور سستی پر کوئی دل دھڑک بھی نہیں رہا۔

 

 

7. اصلاح و تزکیہ کا عدم وجود:

اصل نفس و تزکیہ سماج کی بہتری کے لئے بہت زیادہ ضروری ہے۔ اول تو گلگت بلتستان اور چترال میں اس کے ادارے ہی نہیں، اگر اکا دکا کہیں خانقاہی نظام موجود بھی ہے تو اس کو چند وظائف تک محدود رکھا گیا ہے۔ فرد کی اصلاح و تزکیہ کا کوئی عمومی اور شاندار وجود نہیں ہے۔ اس سے بھی خودکشیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ خودکشی جیسے ناسور سے بچنے کے لئے تزکیہ و اصلاح کے مراکز بہت زیادہ ضروری ہیں۔

اسلام میں خودکشی کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

“اور اپنے ہاتھوں خود کو ہلاک نہ کرو، بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔” (سورۃ النساء: 29)

نبی کریم ﷺ بکا فرمان ہے:

“جس نے کسی چیز کے ذریعے خودکشی کی، وہ قیامت کے دن اسی چیز کے ذریعے عذاب دیا جائے گا۔” (صحیح بخاری)

یاد رہے کہ انسان کی روح، اس کے پاس امانت الہی ہے جس میں خیانت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس لئے اسلام میں خودکشی حرام اور گناہ عظیم ہے۔

حدیث کی مشہور کتاب مشکوٰۃ شریف میں خود کشی کی مختلف صورتوں کی تفصیلات موجود ہیں:

 

 

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمايا: جس نے اپنے آپ كو پہاڑ سے گرا كر قتل كيا تو وہ جہنم كى آگ ميں ہميشہ كے ليے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پي كر اپنے آپ كو قتل كيا تو جہنم كى آگ ميں زہر ہاتھ ميں پكڑ كر اسے ہميشہ پيتا رہے گا، اور جس نے كسى لوہے كے ہتھيار كے ساتھ اپنے آپ كو قتل كيا تو وہ ہتھيار اس كے ہاتھ ميں ہو گا اور ہميشہ وہ اسے جہنم كى آگ ميں اپنے پيٹ ميں مارتا رہے گا۔‘‘

لہذا اگر کوئی شخص خود کشی، جائز سمجھ کر کرتا ہے تب تو ہمیشہ وہ جہنم کی آگ میں جلتا رہے گا، اور اگر کوئی شخص جائز سمجھے بغیر یا نادانی اور ڈپریشن میں کرتا ہے تو امید ہے کہ اللہ رب العزت اس کو اپنے فضل کرم سے جب چاہیں معاف کرکے جنت میں داخل کردیں۔

 

 

خودکشی کے سماجی اثرات

1. خاندان کی تباہی:

خودکشی کرنے والے فرد کا خاندان معاشرتی طعنوں اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتا ہے۔ ہمیشہ خود کو مجرم قرار دیتا رہتا ہے۔

2. معاشرتی بداعتمادی:

یہ واقعات علاقے کے سماجی ڈھانچے کو کمزور کرتے ہیں اور عوام میں بداعتمادی پیدا کرتے ہیں۔ معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے۔

3. منفی رجحانات کا فروغ:

خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحانات نوجوانوں میں زندگی سے مایوسی کو عام کرتے ہیں۔ اور بہت سے نوجوان خود بخود اس طرف راغب ہوجاتے ہیں ۔

 

 

 

روک تھام کے لیے تجاویز

1. تعلیمی نظام میں اصلاحات:

تعلیمی دباؤ کو کم کرنے کے لیے نصاب میں آسانیاں پیدا کی جائیں اور طلبہ کو ذہنی سکون فراہم کرنے کے لیے کونسلنگ کا بندوبست کیا جائے۔ نصاب کو خالص فنی بنانے کی بجائے دینیات کو بھی درست طریقے سے شامل کیا جائے۔ نصاب ایسا ہو کہ اسے مشین بننے کے بجائے انسان بنے۔

 

2. روزگار کے مواقع:

گلگت بلتستان اوت چترال کی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں، تاکہ نوجوانوں کو معاشی مسائل سے نجات ملے۔ فقر، انسان کو کفر تک لے جاتا ہے۔ جب تک پڑھے لکھے نوجوان اور خواتین کو مناسب روزگار نہ ملے اور پھر میرٹ کے مطابق انہیں کسب معاش کی سہولتیں نہ دی جائیں تب تک یہ مسائل وقوع ہوتے رہیں گے۔ بڑے پیمانے پر اس کام کو کرنے کی ضرورت ہے۔

 

3. خواتین کے حقوق کا تحفظ:

خواتین کو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق دیا جائے۔ ناپسندیدہ شادیوں کے رجحان کو ختم کیا جائے۔ انہیں میراث میں برابر کا حصہ دیا جائے اور اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔ اور خواتین کو اپنی ساخت و طاقت کے مطابق تمام ضروری شعبوں میں آگے بڑھنے میں معاونت کی جائے۔ اور انہیں غیرت کے نام پر قتل کرنے سے روکا جائے۔

 

4. نفسیاتی سہولیات:

نفسیاتی مسائل کے علاج کے لیے ہسپتالوں میں ماہرینِ نفسیات کا انتظام کیا جائے۔ نفسیاتی معالجین اور اداروں کا وجود ہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ نفسیاتی مسائل کے تدارک کے لئے علمی ایکٹیوٹیز بھی بہت زیادہ ضروری ہیں۔ تعلیمی اداروں سمیت دیگر متعلقہ ادارے بھی کردار ادا کرسکتے ہیں۔

 

5. علماء اور اساتذہ کا کردار:

کسی بھی معاشرے میں علماء و اساتذہ کا کردار بہت مرکزی ہوتا ہے۔ علماء خودکشی کی حرمت پر وعظ دیں اور سماجی مسائل کے حل کے لیے عوام کو رہنمائی فراہم کریں۔ جمعتہ االمبارک کے خطبوں اور دیگر اہم مواقع پر خودکشی جیسے قبیح عمل مدلل گفتگو کریں۔ مجھے حیرت ہے کہ علماء ان اہم سماجی موضوعات کو کیوں نہیں بیان کرتے؟

علماء کی طرح اساتذہ بھی طلبہ کی ذہنی صحت پر توجہ دیں اور ان کی مشکلات سمجھنے کی کوشش کریں۔ انہیں بہت رہنمائی دیں۔ میری کلاس میں کچھ ایسے طلبہ ہیں جو نفسیاتی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں ۔ میں انہیں سبطسے زیادہ فوکس کرتا ہوں اور ان کی بات سننے کی کوشش کرتا ہوں اور انہیں فیسلیٹیٹ کرتا ہوں ۔

 

6. اہل قلم اور میڈیا کی ذمہ داری:

اہل قلم اور میڈیا مثبت رجحانات کو فروغ دیں اور خودکشی کی قباحتوں سے اپنے قلم اور زبان سے آگاہی دیں۔ اس طرح کے مسائل کو ریٹنگز کے لیے ببڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی بجائے ان مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کریں۔ اور ابلاغ کی ذمہ داری احسن طریقے سے انجام دیں ۔

 

 

7. سماجی و رفاہی ادارے:

سماجی و رفاہی ادارے آگاہی مہمات چلائیں اور متاثرہ افراد کی مدد کے لیے ہاٹ لائنز اور سپورٹ سینٹرز کا قیام عمل میں لائیں۔ اور اس کے لیے ماہرین کی خدمات بھی لیں اور علماء و اساتذہ کو بھی اپنے کام میں شامل کریں۔ خودکشی جیسے ناسور کا مقابلہ سب نے مل کر کرنا ہوگا۔

 

8. حکومتی اقدامات:

حکومت کو چاہیے کہ خودکشی کے روک تھام کے لئے وسیع بنیادوں پر ترجیحی کام کا آغاز کرے، بالخصوص غیرت کے نام پر قتل کے قوانین کو سختی سے نافذ کرے اور تعلیمی و معاشی مسائل کے حل کے لیے خصوصی پیکجز کا اعلان کرے۔ اور شاندار معاشی اصلاحات اور روزگار کے مواقع فراہم کرے ۔

 

 

9. دین اسلام کی طرف راغب کرنا:

دینی مدارس و جامعات اور مساجد، منصوبہ بندی کے ذریعے لوگوں کو دین اسلام کی طرف راغب کریں اور انہیں فروعات میں الجھانے کی بجائے قرآن کریم اور رسول اللہ کی زندگی کے طور طریقے سکھا دیں اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ دین اسلام اور اس کے روح کے قریب کریں ۔

 

10. تزکیہ و اصلاح کے اداروں کا قیام:

فرد کی اصلاح اوت تزکیہ کے بغیر یہ سارے کام مشکل ہیں، اگر فرد کی تزکیہ ہو تو خودکشی جیسے درجنوں ناسور خودبخود ختم ہوجائیں گے ۔ تزکیہ سے مراد قرآنی تزکیہ ہے۔

 

خلاصہ کلام:

گلگت بلتستان اور چترال میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحانات ہمارے سماج کے لیے ایک سنگین خطرہ ہیں۔ یہ ایک ایسا ناسور ہے جو روز بڑھتا جاتا ہے اور اس کا علاج کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔ لوگ ویسے ہی اپنی جان نہیں لیتے، کچھ تو ہے جس کی وجہ سے یہ سب ہورہا ہے۔

 

اس سماجی ناسور کے حل کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں زندگی کی قدر و قیمت کو اجاگر کیا جائے اور سماجی مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ اگر ہم آج اقدامات اٹھائیں تو یہ حسین وادیاں پھر سے امید اور خوشحالی کی علامت بن سکتی ہیں۔ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو اس ناسور سے بچا لیں۔ اگر بروقت اس ناسور کا تدارک نہ کیا گیا تو یہ ہمارے لہلہاتے کھیل و کھلیان سب جلا کر راکھ کر دے گا۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
95667

وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت گلگت بلتستان کابینہ کا خصوصی اجلاس، 100 میگاواٹ بجلی کی فراہمی اور بلتستان و قراقرم یونیورسٹی کے باصلاحیت طلباء کے لیے 1 ارب روپے کے انڈوومنٹ فنڈ کے قیام کا اعلان

وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت گلگت بلتستان کابینہ کا خصوصی اجلاس، 100 میگاواٹ بجلی کی فراہمی اور بلتستان و قراقرم یونیورسٹی کے باصلاحیت طلباء کے لیے 1 ارب روپے کے انڈوومنٹ فنڈ کے قیام کا اعلان

 

گلگت(چترال ٹائمزرپورٹ)وزیراعظم محمد شہباز شریف نے گلگت بلتستان کے لیے 100 میگاواٹ بجلی کی فی الفور فراہمی اور بلتستان یونیورسٹی اور قراقرم یونیورسٹی کے باصلاحیت طلباء  کے لیے میرٹ کی بنیاد پر 1 ارب روپے کے انڈوومنٹ فنڈ کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا بشمول سابق فاٹا کے ضم اضلاع اور بلوچستان کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود پر ہماری توجہ پوری طرح مرکوز ہے۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت گلگت بلتستان کی کابینہ کا خصوصی اجلاس بدھ کو یہاں منعقد ہوا۔ وزیراعظم نے ضلع غذر کے گاؤں بوبر میں 2022 کے سیلاب متاثرین کے لیے خصوصی طور پر تعمیر شدہ مکانوں کی بروقت تکمیل اور اس کے گھروں کے اعلیٰ معیار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بوبر گاؤں میں نئے تیار شدہ گھروں کو دیکھ بے حد خوشی ہوئی۔

 

وزیراعظم نے گلگت بلتستان کی انتظامیہ کو ضلع غذر میں تعلیمی اداروں، کھیل کے میدانوں، بجلی کی فراہمی اور دیگر سہولیات کی فراہمی کی ہدایت کی۔ انہوں نے گلگت بلتستان کے لیے 100 میگاواٹ بجلی کی فی الفور فراہمی اور بلتستان یونیورسٹی اور قراقرم یونیورسٹی کے باصلاحیت طلباء کے لیے میرٹ کی بنیاد پر 1 ارب روپے کے انڈوومنٹ فنڈ کے قیام کا اعلان کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پنجاب کی طرز پر گلگت بلتستان کے شعبہ تعلیم کی ترقی کے لیے دانش سکول متعارف کر رہے ہیں، وفاقی حکومت گلگت بلتستان کی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے دن رات سرگرم عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بطور وزیر اعلیٰ پنجاب گلگت بلتستان کے شعبہ تعلیم کو تحفتاً 1 ارب روپے دیئے تھے۔گلگت بلتستان کے تمام شعبوں کی ترقی ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔

 

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ حالیہ معاشی استحکام میں وفاقی حکومت کے ساتھ تمام صوبوں کا تعاون انتہائی اہم رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سٹاک ایکسچینج 92 ہزار کی تاریخی سطح عبور کر چکا ہے، ملکی ترسیلات زر، ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ اور مہنگائی میں کمی ملکی معیشت کے لیے خوش آئند ہے، ملکی ترقی کے سفر میں تمام صوبوں، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کا تعاون کلیدی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا سابق فاٹا کے ضم اضلاع اور بلوچستان کی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود پر ہماری توجہ پوری طرح مرکوز ہے، وفاقی حکومت گلگت بلتستان میں شعبہ سیاحت کے فروغ کیلئے اقدامات اٹھارہی ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے شعبہ سیاحت میں سرمایہ کاری کے لیے قطری سرمایہ کار دلچسپی کا اظہار کر چکے ہیں۔ اجلاس میں وزیراعظم کو گلگت بلتستان میں جاری ترقیاتی منصوبوں پر پیشرفت کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی ڈاکٹر احسن اقبال، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ، وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان امیر مقام، وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی، گلگت بلتستان کابینہ کے ارکان اور متعلقہ اداروں کے اعلیٰ افسران شریک تھے۔

chitraltimes pm shehbaz visited gilgit baltistan

 

وزیراعظم شہباز شریف نیوزیراعلیٰ سیکرٹریٹ گلگت بلتستان میں یادگار شہداپر حاضری دی، پھولوں کی چادر چڑھائی

گلگت(سی ایم لنکس)وزیراعظم محمد شہباز شریف نیوزیراعلیٰ سیکرٹریٹ گلگت بلتستان میں یادگار شہداپر حاضری دی اور پھولوں کی چادر چڑھائی۔ بدھ کو وزیراعظم محمد شہبازشریف گلگت بلتستان کے ایک روزہ دورے پر یہاں پہنچے، وزیر اعلیٰ سیکر ٹریٹ آمد پر وزیر اعظم کو روایتی لباس میں ملبوس بچوں نے پھول پیش کئے۔وزیراعظم محمد شہباز شریف کی آمد پر چیف منسٹر سیکریٹریٹ گلگت بلتستان میں ان کے اعزاز میں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ وزیراعظم نے چیف منسٹر سیکریٹریٹ گلگت بلتستان میں یادگار شہداء پر حاضری دی اور یادگار شہداء پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔ وزیراعظم نے گلگت بلتستان سکاؤٹس کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتیہوئے کہا کہ خطے میں امن کے قیام اور لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے گلگت بلتستان سکاؤٹس کے نڈر نوجوانوں کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں

 

گلگت بلتستان کے عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے حکومت سرگرم عمل ہے: وزیراعظم

گلگت بلتستان(سی ایم لنکس)وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کی ترقی و خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لیے وفاقی حکومت سرگرم عمل ہے۔گلگت بلتستان کے ایک روزہ دورے کے دوران سیکرٹریٹ آمد پر شہباز شریف کو روایتی لباس میں ملبوس بچوں نے پھول پیش کیے جبکہ چیف منسٹر سیکرٹریٹ گلگت بلتستان میں ان کے اعزاز میں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا، وزیراعظم نے چیف منسٹر سیکرٹریٹ گلگت بلتستان میں یادگار شہداء پر حاضری دی اور پھولوں کی چادر چڑھائی۔اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ خطے میں امن کے قیام اور لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے گلگت بلتستان اسکاؤٹس کے نڈر نوجوانوں کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔وزیراعظم کی گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان گلبر خان سے علیحدہ علیحدہ ملاقات ہوئی جس میں گلگت بلتستان کے امور کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔گورنر و وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے وزیراعظم کو ملک میں حالیہ معاشی استحکام پر خراج تحسین پیش کیا، دونوں رہنماؤں نے گلگت بلتستان میں متعدد ترقیاتی منصوبوں کے سنگ بنیاد و افتتاح کے لیے وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا۔وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان گلبر خان نے وزیر اعظم شہباز شریف کو روایتی چغہ اور ٹوپی کا تحفہ پیش کیا۔

 

chitraltimes pm shehbaz visited gilgit baltistan amir muqam

 

وزیراعظم نے غذر میں سیلاب متاثرین کیلئے بوبر ماڈل ویلج کا افتتاح کر دیا

غذر(چترال ٹائمزرپورٹ) وزیراعظم شہباز شریف نے غذر میں سیلاب متاثرین کے لیے بوبر ماڈل ویلج کا افتتاح کر دیا۔وزیراعظم محمد شہباز شریف ایک روزہ دورے پر گلگت بلتستان پہنچے، شہبازشریف نیغذر میں سیلاب متاثرین کے لیے بوبر ماڈل ولیج کا افتتاح کیا۔گلگت بلتستان کے ضلع غذر کے ببر گاؤں میں 2022 کے سیلاب متاثرین کے لیے تعمیر شدہ گھروں کے افتتاح کی تقریب منعقد ہوئی، اس موقع پر وزیراعظم نے 2022 کے سیلاب متاثرین میں گھروں کے ملکیتی کاغذات تقسیم کیے۔وزیراعظم کی ہدایت پر 62 گھروں کی تعمیر مکمل ہوئی، 110 کنال اراضی پر یہ ماڈل ویلج بنایا گیا ہے، صاف پانی اور سولر سے آراستہ ایک سٹور، ایک کچن، 2 باتھ روم اور 2 کمروں پر مشتمل خوبصورت گھر بنائے گئے ہیں۔گلگت بلتستان کے دورے کے دوران وزیراعظم کو تعمیر شدہ گھروں میں سہولیات کی فراہمی پر بریفنگ بھی دی گئی۔

 

دوران بریفنگ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ 216 کلومیٹر طویل گلگت شندور شاہراہ بھی تعمیر کی جا رہی ہے، گلگت سے گاگوچ، گاگوچ سے تندئی اور تندئی سے شندور تک روڈ شامل ہے، منصوبے پر تعمیراتی کام نومبر 2025 تک مکمل ہوجائے گا۔وزیراعظم شہباز شریف نے ماڈل ویلج کی تھرڈ پارٹی توثیق کے بغیر ادائیگی نہ کرنے کی ہدایت کر دی۔اس موقع پر وزیراعظم شہبازشریف نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگست 2022 میں یہاں آیا تو ہر طرف تباہی کا مں ظر تھا، غذر میں سیلاب سے بہت نقصان ہوا تھا۔انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پورا گاؤں متاثر ہوا، وہ دن تاریخ کا افسوسناک دن تھا، سب غمگین تھے، تاہم یہاں پر آج ایک نئی بستی تعمیر کی جا چکی ہے۔

 

شہباز شریف نے کہا کہ آج نئی بستی کی تعمیر سے یہاں پر خوشی کا سماں ہے، متاثرین میں گھروں کے ملکیتی کاغذات تقسیم کرکے بے حد خوشی ہوئی، معیاری گھروں کی تعمیر لائق تحسین ہے، متاثرہ بچی کے لیے 50 لاکھ روپے کے فنڈ کا اعلان کیا تھا جو اب 57 لاکھ روپے کر دیا ہے، قوم کی بیٹی قندیل کے گھر کے تمام افراد سیلاب میں جاں بحق ہوئے تھے۔وزیراعظم نے ہدایت کی کہ ماڈل ویلج میں سکول اور ڈسپنسری کی تعمیر فی الفورشروع کی جائے، ڈسپنسری میں جدید سہولیات ہنگامی بنیادوں فراہم کی جائیں۔

 

chitraltimes pm shehbaz ingurated atta abad lake hydro power project

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged
95212

ڈگری کالج چلاس میں تقریب جشن آزادی گلگت بلتستان کا انعقاد، طلبہ کی شاندار کارکردگی

ڈگری کالج چلاس میں تقریب جشن آزادی گلگت بلتستان کا انعقاد، طلبہ کی شاندار کارکردگی

“آزادی کو ثمربار بنانے کے لیے تعلیم کو اولین ترجیح بنائیں” ڈاکٹر طاہرممتاز

“پاکستان اور گلگت بلتستان کا رشتہ سر اور دھڑ کا ہے” پروفیسر عبداللہ خان

“گلگت بلتستان نے اپنی آزادی خود حاصل کر کے پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کیا” پروفیسر ارشاد احمد شاہ

چلاس ( امیرجان حقانی ) گورنمنٹ ڈگری کالج چلاس میں گلگت بلتستان کے یومِ آزادی کے موقع پر ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں طلبہ نے ملی نغمے، تقاریر، اور ڈرامے پیش کیے۔ اس تقریب نے قومی یکجہتی اور جذبے کو مزید تقویت بخشی۔

 

تقریب کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا، جس کی سعادت کالج کے طالب علم ثابت قدمی نے حاصل کی، جبکہ نعتِ رسول (ﷺ) کی خوش نصیبی محموداللہ کے حصے میں آئی۔ شرکاء تقریب سے ابتدائی کلمات کالج کے لیکچرار امیر جان حقانی نے ادا کیے، جس میں انہوں نے طلبہ کو آزادی کے اس دن پر محبت اور امن کا پیغام دینے کی تلقین کی۔

 

کالج کے طلبہ لیاقت حسین، معین الدین، محمد معاویہ اور سیف اللہ نے گلگت بلتستان کی آزادی کی اہمیت پر تقاریر کیں، جنہیں حاضرین نے بھرپور سراہا۔ مزید برآں، محمد قاسم، نظام الدین اور محمد دین نے ملی نغمے پیش کیے، جنہوں نے سامعین کے دل موہ لیے۔ ایک شاندار ڈرامہ بھی پیش کیا گیا جس کی قیادت طالب علم عامر نے کی، ڈرامہ میں دیامر کی روایتی صورتحال حال کی عکاسی کی گئی۔

 

پروگرام کے میر محفل پرنسپل پروفیسر عبداللہ خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “گلگت بلتستان کے مجاہدین آزادی ہمارے حقیقی ہیرو ہیں۔ ان کی قربانیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، اور پاکستان اور گلگت بلتستان کا تعلق سر اور دھڑ کے رشتے کی مانند ہے۔ ہم پاکستان کے بغیر نامکمل ہیں اور پاکستان ہمارے بغیر۔‘‘

 

تقریب کے مہمان خصوصی ڈاکٹر طاہر ممتاز، ڈائریکٹر کے آئی یو دیامر کیمپس، نے اپنے خطاب میں طلبہ کو تعلیم پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ’’ہمیں اپنی آزادی کو مؤثر بنانے کے لیے تعلیم کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ کلاس رومز میں سوال کرنے کی آزادی ہونا ضروری ہے تاکہ ہم اپنی سوچ کو آزادانہ طور پر پروان چڑھا سکیں۔‘‘

 

پروگرام کے آخر میں وائس پرنسپل پروفیسر ارشاد احمد شاہ نے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’گلگت بلتستان نے اپنی آزادی خود حاصل کی اور پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کیا، یہ ہماری تکمیل پاکستان کا حقیقی پیغام ہے۔‘‘

 

یہ تقریب جوش و خروش اور قومی جذبے سے بھرپور رہی، جس میں طلبہ اور اساتذہ نے گلگت بلتستان کے یومِ آزادی کے موقع پر اپنی محبت اور عزم کا بھرپور اظہار کیا۔ ڈگری کالج چلاس کے لیکچرار سلامت گل نے نظامت کے فرائض انجام دیے

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
95187

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس – خاطرات : امیر جان حقانی

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس – خاطرات : امیر جان حقانی

 

 

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ نصرۃ الاسلام میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ اس وقت میں ایک ایسے استاد کا خواب دیکھتا تھا جو مکمل طور پر تعلیم و تحقیق میں مگن ہو۔ میرا ماننا تھا کہ تدریسی ذمہ داریوں کے علاوہ کسی دوسرے کام میں پڑنا اساتذہ کی توہین ہے۔ اس کے متعلق میرے پاس خاصے دلائل بھی تھے۔

 

اسی دوران، میگزین “نصرۃ الاسلام” کی فارمیٹنگ اور ڈیزائننگ کے لیے ہنزہ پرنٹنگ پریس جانا ہوا، جہاں اکبر بھائی سے ملاقات ہوئی۔ ہماری یہ ملاقات دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ ایک دن انہوں نے تجویز دی کہ نوکری کے ساتھ ایک پارٹ ٹائم کاروبار بھی ہونا چاہیے۔ وہ اپنے دلائل دیتے رہے، جبکہ میں اس کی مخالفت میں اپنی بات رکھتا رہا۔ میرا خیال تھا کہ پارٹ ٹائم کسی بھی کام سے ایک استاد کی تدریس اور تحقیق میں خلل واقع ہوگا۔

 

لیکن پانچ سال بعد، مجھے اپنے خیالات سے رجوع کرنا پڑا۔ میں نے خود ایک پارٹنر کے ساتھ پارٹ ٹائم بزنس شروع کیا۔ اگرچہ یہ تجربہ بعد میں ختم ہوا، مگر اس سے میں نے ایک اہم سبق سیکھا: معاشرتی اور مالی استحکام کے لیے اساتذہ کو پارٹ ٹائم بزنس اختیار کرنا چاہیے۔ آج میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ چاہے استاد اسکول میں ہو یا مدرسے میں، اسے بہرحال پارٹ ٹائم کاروبار ضرور کرنا چاہیے، کیونکہ ایسا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔.

 

آج کل کے تیزی سے بدلتے ہوئے دور میں، صرف تدریسی ذمہ داریوں پر انحصار کر کے مالی استحکام حاصل کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ استاد ایک باوقار پیشہ ہے، لیکن معاشی مسائل بعض اوقات انہیں اپنی تدریسی ذمہ داریوں سے محروم کر سکتے ہیں۔ مالی آزادی، شخصیت کی مضبوطی، اور معاشرتی مقام کو برقرار رکھنے کے لیے پارٹ ٹائم بزنس ایک بہترین ذریعہ ہے۔ مہنگائی نے انسان کا کچومر نکال کر رکھ دیا ہے ۔ عام آدمی کا کچومر نکل گیا ہے، ایسے میں اساتذہ کی فلاح اور پرسکون زندگی گزارنے کے لئے پارٹ ٹائم کاروبار ضروری ہے۔ اس سے چند بڑے فوائد حاصل ہونگے:

مالی استحکام:
پارٹ ٹائم بزنس سے استاد کو ایک اضافی ذریعۂ آمدنی ملتا ہے جس سے نہ صرف ان کے معاشی مسائل کم ہوتے ہیں بلکہ انہیں مالی استحکام بھی حاصل ہوتا ہے۔ اس سے وہ خود کو مالی بوجھ سے آزاد محسوس کرتے ہیں اور زیادہ توجہ کے ساتھ تدریس میں مشغول رہتے ہیں۔

 

خود اعتمادی اور خوشحالی:
پارٹ ٹائم بزنس کرنے سے استاد میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ جب استاد مالی طور پر خودکفیل ہوتا ہے، تو وہ اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، اس سے زندگی میں خوشحالی اور ذہنی سکون بھی حاصل ہوتا ہے جو اس کی کارکردگی میں بہتری لاتا ہے۔

ہنر مندی اور عملی مہارت:
کاروبار کرنے سے ایک استاد میں کاروباری ہنر اور عملی مہارتیں پروان چڑھتی ہیں، جو نہ صرف ان کے کاروبار بلکہ تدریس میں بھی مفید ثابت ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، کسی کاروباری استاد کے پاس بہترین تنظیمی صلاحیتیں، وقت کا بہتر استعمال، اور تخلیقی سوچ کا حامل ہوتا ہے، جو طالب علموں کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔

سماجی تعلقات:
پارٹ ٹائم بزنس سے استاد کو مختلف طبقے کے لوگوں سے رابطے اور میل جول کا موقع ملتا ہے۔ یہ روابط انہیں معاشرتی طور پر مضبوط اور مؤثر بناتے ہیں، جو تدریسی اور تعلیمی ماحول کو بھی مثبت بناتے ہیں۔ یہ روابط ان کے تدریسی عمل میں تعاون فراہم کرتے ہیں اور ان کے طلباء کے لیے بھی نئے مواقع پیدا کرتے ہیں۔

 

خلاصہ کلام:
پارٹ ٹائم بزنس اختیار کرنے سے ایک استاد کی زندگی میں ایک نئی راہ کھلتی ہے جو نہ صرف اس کی مالی حالت کو بہتر کرتی ہے بلکہ اس کی خود اعتمادی، ہنر مندی، اور سماجی اثرات کو بھی تقویت دیتی ہے۔ ہمیں اس دور میں روایتی سوچ سے ہٹ کر اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ استاد کے لیے پارٹ ٹائم بزنس ایک مثبت قدم ہے۔ اس سے استاد معاشرتی، مالی، اور علمی اعتبار سے مضبوط ہوتے ہیں، اور یہ مضبوطی طلباء اور تعلیمی ادارے دونوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔لہذا، ہر استاد کو چاہیے کہ وہ پارٹ ٹائم بزنس پر غور کرے اور اپنے مالی استحکام اور شخصیت کو مزید بہتر بنانے کے لیے اس طرف قدم بڑھائے۔ اور ہاں جن اساتذۂ کے وسائل اتنے زیادہ ہوں کہ انہیں بزنس کی ضرورت نہیں ہے تو وہ اپنے آپ کو کل وقتی درس و تدریس اور تحقیق و تالیف میں مصروف رکھیں۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
95139

گلگت بلتستان سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پشاورنے جشن آزادی گلگت بلتستان منایا،تقریب میں گلگت بلتستان کو درپیش آئینی حقوق و گورننس مسائل بھی زیر بحث رہے 

گلگت بلتستان سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پشاورنے جشن آزادی گلگت بلتستان منایا،تقریب میں گلگت بلتستان کو درپیش آئینی حقوق و گورننس مسائل بھی زیر بحث رہے

 

پشاور( نمائندہ چترال ٹائمز )گلگت بلتستان سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پشاور کے زیر اہتمام جشن آزادی گلگت بلتستان کی مناسبت سے تقریب کا انعقاد کیا گیاجس میں گلگت بلتستان کی آزادی کے تاریخی لمحے کو یاد کرتے ہوئے اس خطے کی ترقی و موجودہ مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔پشاوریونیورسٹی روڈ میں منعقدہ تقریب سے خطاب میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہائیر ایجوکیشن کمیشن پشاورغلام نبی شیگری،پروفیسر قرطبہ یونیورسٹی لیاقت حسین اورسماجی کارکن غلام رضا شگری نے گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو علاقائی مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کرنےکی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے سے نہ صرف خود کو بلکہ اپنے علاقے کو بھی ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔

 

غلام نبی شیگری نے کہا کہ طلباءکو تعلیم مکمل کرنے کے بعد گلگت بلتستان کی بہتری کےلئے کام کرنا چاہیے کیونکہ تعلیم ہی اس خطے کی ترقی و خوشحالی کی ضمانت ہے۔ پروفیسر لیاقت حسین نے طلباءکو موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کےلئے اپنے علم و صلاحیتوں کو استعمال کرنےکی تلقین کی اور انہیں قوم کے روشن مستقبل کے معمار قرار دیا۔ مقررین نے گلگت بلتستان کو درپیش آئینی حقوق کا مسئلہ، بنیادی گورننس کے ڈھانچے کی کمی، تعلیم و صحت کی ناکافی سہولیات، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات جیسے چیلنجزپربھی روشنی ڈالی۔گلگت بلتستان کے طلباءنے روایتی ثقافتی رقص بھی پیش کیا جس سے حاضرین لطف اندوز ہوئے اور گلگت بلتستان کی ثقافتی ورثے کو خوب سراہا۔ تقریب میں پشاور کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم گلگت بلتستان کے طلباءنے بھی شرکت کی۔

 

 

gilgit 2

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged
95049

یکم نومبر یوم آزادی صوبہ گلگت بلتستان ۔ میر افسر امان

Posted on

بسم اللہ الرحمان الرحیم
یکم نومبر یوم آزادی صوبہ گلگت بلتستان ۔ میر افسر امان

 

یکم نومبر1947ء کو گلگت بلتستان نے جموں،کشمیر،گلگت بلتستان،ہنزہ اور نگر،ریاستوں کے ہندو ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ کی فوجوں سے لڑ کر آزادی حاصل کی تھی۔اصل آزادی تو 14/ اگست 1947ء ہے، جب ہندوستان دو ریاستوں پاکستان اور بھارت میں تقسیم ہوا تھا۔ ہر سال یکم نومبر کو گلگت بلتستان میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ پرچم کشائی میں حکومتی عہدے دار بیروکریسی، فوج کے نمایندے شامل ہوتے ہیں۔2020ء میں اُس وقت کے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے آئین پاکستان پر عمل کرتے ہوئے گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دیا تھا۔

 

1947ء میں میجر ولیم براؤن جو برٹش انتظامیہ کی طرف سے گلگت بلتستان میں اسکاؤٹ کے انچارج تھے۔ ان کی کمانڈ میں گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ مل کر نے ڈوگرہ مہارجہ ہری سنگھ کی طرف سے گلگت میں تعینات گلگت کے گورنر بریگیڈئیر گھندارا سنگھ کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے بعد یکم نومبر1947ء کو گلگت بلتستان کی آزادی کا اعلان کر دیا گیا۔راجہ شاہ رئیس کو گلگت کی نئی آزاد ریاست کا صدر بنا دیا گیا۔کیپٹن مرزا حسن خان کو آرمی کا انچارج بنا دیا گیا۔گلگت کے عوام نے آزدی کے پندرہ دن بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کی منظوری دے دی۔ پاکستان کی دیگر ریاستوں کی طرح ہنزہ اور نگر کی ریاستوں کے حکمرانوں نے بھی بانیِ پاکستان محمد علی جناحؒ کے ساتھ معاہدہ کر کے پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی۔دوگرہ راجہ ہری سنکھ کے وقت جموں کشمیر ریاست، کشمیر،جموں، لداغ، گلگت،بلستان، ہنزہ، نگر پر مشتمل تھی۔ تقسیم کے فارمولے کے تحت جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہ پاکستان میں اور جن صوبوں میں ہندوؤں کی اکثریت وہ بھارت میں شامل ہو گئے۔

 

ریاستوں کو بھی اسی فارمولے کے تحت پاکستان اور ہندوستان میں شامل ہونا تھا۔بھارت نے چانکیہ سازش کرتے ہوئے، کشمیر جس کی آبادی اکثریت مسلماں پر مشتمل تھی نے پاکستان میں شامل ہونا تھا۔ جیسا گلگت، بلتستان، ہنزہ اور نگر شامل ہوئیں تھیں۔ مگر بھارت نے 27/اکتوبر 1947 کو کشمیر کی دالخلافہ سری نگر میں ہوائی جہازوں سے فوجیں اُتار کر فوجی قوت سے قبضہ کر لیا۔ پونچھ کے سابق فوجیوں نے اس پربھارت کی فوجوں سے لڑائی شروع کی۔ پاکستان کی فوج اور پاکستان کے پٹھان قبائل نے میدان میں اُترے اور موجودہ تیس سو میل لمبا اور تیس میل چوڑا علاقہ کو آزدد جموں و کشمیر ہے کو بھارت سے آزاد کرا لیا۔ پاکستان سری نگر کے قریب پہنچ گیا تھا۔ پورا کشمیر فتح ہونے والا تھا۔ بھارت کا مکار وزیر اعظم جواہر لال نہرو اقوام متحدہ پہنچ گیا۔ اقوام متحدہ میں دنیا کے سامنے وعدہ کیا کہ جنگ بندی کے بعد امن قائم ہونے پر کشمیریوں کو حق دیا جائے گا۔ اس کے لیے کشمیر میں رائی شماری کرائی جائے گی۔ کشمیر کے لوگ جو بھی رائے دیں گے اس کا ا حترام کیا جائے گا۔ مگر بھارت کے حکمران اپنے وعدے سے مکر گئے۔مقبوضہ کشمیر میں جعلی انتخابات کروا کر کہنے لگے کشمیر نے بھارت کے ساتھ رہنے کی رائے دے دی ہے۔ اس سفید جھوٹ کو وہ بار بار دھراتے رہتے ہیں۔ کشمیریوں نے آزادی کی تحریک شروع کی جو اب تک جاری ہے۔

 

انگریزوں نے ہندوستان مسلمان مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر سے چھینا تھا۔ اس لیے شروع سے ہی حکمرانوں سے تعلق کی وجہ سے مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے تھے۔ ہندوؤں کو آگے آگے رکھتے۔ اس پالیسی سے جاتے جاتے تقسیم میں بے انصافی کرتے ہوئے کشمیر میں داخل ہونے کا واحد راستہ گرداس پور بھارت کو دے دیا۔ اس سے درہ دانیال جوپاکستان کے حصہ تھا سازش کرتے ہوئے بھارت کو دے دیا۔ تاکہ وہ کشمیر پر آسانی سے قابض ہو سکے۔وجہ اس کی یہ تھی کہ اس خطے کے سارے دریا کشمیر سے پاکستان کی سمت بہتے تھے۔ کسی طرح بھی پاکستان کو پانی دینے والی مکمل کشمیر دینا نہیں چاہتے تھے۔اس لیے پاکستان کے خلاف بھارت کو کھڑا کر کے گئے۔ کشمیرپر بھارت پاکستان کئی جنگیں ہو چکی ہیں۔ایسا ہے مسلمانوں کے خلاف فلسطین میں کیا گیا۔فلسطین یہودیوں کو دے کر تنازہ چھوڑ گئے۔ یہودی غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہے ہیں۔یہ عیسائیوں کی مسلمانوں سے صدیوں سے دشمنی کی وجہ ہے۔ مسلمانوں نے ان کی”روما“ سلطنت کو شکست دی تھی۔

 

گلگت بلتستان کے عوام ذہیں تھے۔ آزادی کے پندرا ہی دن بعد پاکستان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ بھارت نے گلگت بلتستان میں بھی سازشیں کرنا شروع کیں۔ وہاں بھی اپنے دہشتگردوں سے کاروائیاں کرائیں۔جب چین نے گلگت کے راستے سے گوادر تک رسائی کے لیے سڑک تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا یا تو بھارت نے اسے سبوثاز کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے لیے اپنے بجٹ میں فنڈ مختص کیے۔ کہا کہ یہ خطہ متنازہ ہے۔ اس لیے جہاں کسی دوسری قوت کو دخل دینے کا حق نہیں۔ چانکیہ سیاست اور سفید جھوٹ بولنے والا بھارت اس خطے کے ایک حصے کشمیر جو اقوام متحدہ میں بین الاقوامی طور پر منظور شدہ تنازہ ہے۔ جس کے لیے خود بھات اقوام متحدہ گیا تھا۔ دعدہ کیا تھا کہ کشمیریوں کو حق خود اداریت کے تحت

 

رائے شماری کا حق دے گا کہ آزاد رائے سے بھارت یا کشمیر میں شامل ہو جائیں۔ اپنے اس وعدے سے بھارت مکر گیا۔ کہتا ہے کہ کشمیر کے عوام نے ا لیکشن میں بھارت کے ساتھ رہنے کی رائے دے دی ہے۔ جبکہ گلگت بلتستان کو متنازہ علاقہ کہتا ہے۔ اس خطے میں دہشت گردی اور مداخلت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ دہشت گرد ہٹلر صفت وزیر اعظم بھارت مودی، بھارت کے یوم آزدی پر تقریر کرتے ہوئے گلگت بلتستان کانا م لے کر کہتا ہے کہ وہاں کی عوام کی طرف سے اُسے سے مدد کے لیے اُسے فون کالیں آرہی ہیں۔
یہ سب کچھ کیوں ہے۔ یہ ہماری بے ضمیر حکمرانوں کی وجہ سے ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم ؒکے دو قومی نظریہ کو نقصان پہنچا کر پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے بھارت کی ایماپر اسے سیکولر ملک بنانے پر عمل درا کرتے ہیں۔

 

پاکستان جسے بانی پاکستان نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ اس پربھارت پر دباؤ ڈالنے کے بھارت سے تجارت کو اوّلیت دیتے ہیں۔بھارت شملہ معاہدے کے باوجود جب کشمیر میں سیاہ چن پر قبضہ کرتا ہے تو اسے پر خاموش رہتے ہیں۔

 

ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے حکمرانوں کو ہدایات دے کہ وہ پاکستان کو اس کی اصل منزل پاکستان کا مطلب کیا”لا الہ الااللہ“ پر ڈالیں۔ ایک اسلامی پاکستان ہی بھارت سے ہمیں کشمیر دلاسکتا ہے۔ برا بری کی بنیاد پر اچھے پڑوسی بننے کی رائیں کھل سکتی ہیں۔تجارت ہو سکتی ہے۔ دوستی ہو سکتی ہے۔ خطہ پر امن رہ کر ترقی کی منازلیں طے کر سکتا ہے۔ہم پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کے عوام کو یکم نومبر کو یوم آزادی منانے پر مبارک باد دیتے ہیں۔ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان، مثل مدینہ ریاست جو ایک ایٹمی اور میزائل قوت ہے کی دن دگنی رات چگنی ترقی اور حفاظت کی دعا کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ سیاستدانوں سے ماضی میں کئی گئیں غلطیوں کی تلافی کی بھی درخواست کرتے ہیں۔اللہ کرے وہ اسلام کے سپاہی بن کر پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم کر دیں۔ جب وہ ایسا کریں گے تو عوام ان کے گیت گائیں گے۔ ان کے حق میں دعائیں کرے گے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ آمین۔

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
95029

جہنم جانا اتنا آسان نہیں – خاطرات: امیرجان حقانی

Posted on

جہنم جانا اتنا آسان نہیں – خاطرات: امیرجان حقانی

 

ہمارے معاشرے میں عام طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ انسان چھوٹی موٹی غلطیوں اور گناہوں کے نتیجے میں جہنم کا مستحق بن جاتا ہے۔ ہمارے بہت سارے مولوی، واعظ اور شیخ حضرات اور دیندار طبقے کا یہ باقاعدہ مشن ہوتا ہے کہ دھڑا دھڑ لوگوں کو جہنم دھکیل دیا جائے، لیکن اسلامی تعلیمات کو گہرائی سے دیکھیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جہنم میں جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ جہنم میں جانے کے لئے بہت تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔

 

اللہ تعالیٰ نہایت رحیم اور بخشنے والا ہے اور وہ آسانی سے اپنے بندے کو جہنم میں نہیں ڈالتا، یہ اللہ کی فطرت، خلاقیت اور معبودیت، الوہیت اور ربانیت کے بھی خلاف ہے۔ستر ماؤں سے زیادہ اپنے بندے کو چاہنے والے اللہ آخر کیوں معمولی باتوں پر اپنے بندوں کو جہنم دھکیل دے؟۔ اگر ہم غور کریں تو جہنم کی سزا پانے کے لیے انسان کو بہت بڑی نافرمانیاں کرنی پڑتی ہیں، اور مسلسل گناہوں اور کفر کا راستہ اپنانا پڑتا ہے۔ یہ وہی راستہ ہے جو فرعون، ہامان، نمرود، اور ابوجہل جیسے جدید و قدیم افراد نے اپنایا تھا۔ دراصل، ایک عام مسلمان جو توحید و رسالت پر ایمان و یقین رکھتا ہے اور اپنی زندگی میں کبھی کبھار غلطیاں کرتا ہے، وہ جہنم کا مستحق نہیں بنتا جب تک کہ وہ بڑے اور سنگین گناہوں اور جرائم اور کفر میں ملوث نہ ہو اور ان پر اصرار و دوام نہ رکھتا ہو۔

 

جہنم جانے کے لیے بہت سارے بنیادی پہلوؤں میں نافرمانی کو مسلسل اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے، جن میں چھ انتہائی اہم ہیں۔ ان میں عقائد، عبادات، اخلاقیات، معاملات، حقوقِ العباد اور معاشرتی برائیاں خاص ہیں۔ پھر ان چھ میں ہر ایک کی بہت سی تفصیلات اور جزئیات ہیں۔ ان تمام پہلوؤں میں کوتاہی اور انکار اور اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی انسان کو جہنم کی طرف لے جاتی ہے۔ ان کا یہاں مختصر ذکر کیا جاتا ہے۔

 

1: عقائد میں نافرمانی اور انکار

عقائد اسلام کی بنیاد ہیں، اور ان میں غلطیاں، انکار اور نافرمانی انسان کو جہنم کا مستحق بنا سکتی ہیں۔ اگر کسی کے عقائد میں کوئی کمی بیشی یا انحراف ہو، تو آخرت میں اس کا انجام جہنم ہو سکتا ہے۔ بنیادی عقائد میں اللہ پر ایمان لانا، تمام انبیاء پر ایمان لانا، تمام سابقہ کتب سماوی کے برحق ہونے پر ایمان لانا، یوم حساب پر ایمان لانا، تقدیر پر ایمان لانا، اور پھر محمد رسول اللہ کو آخری نبی ماننا اور قرآن کریم کو لاریب کتاب ماننا شامل ہے۔ ان سب کا انکار ہی جہنم کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح کچھ اہم عقائد جن میں شرک، کفر، نفاق، بدعت وغیرہ شامل ہیں۔

شرک:

اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا سب سے بڑا گناہ ہے جسے اللہ معاف نہیں کرے گا۔ شرک کی مختلف اقسام ہیں جیسے بت پرستی، غیر اللہ سے مدد طلب کرنا، یا اللہ کے علاوہ کسی اور سے دعا مانگنا۔

 

کفر:

اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا انکار یا دین اسلام کو رد کرنا کفر ہے اور قرآن کے مطابق یہ انسان کو ہمیشہ کے لیے جہنم میں لے جاتا ہے۔ اللہ کے وجود، آخرت یا نبوت کا انکار کرنا کفر کی مثالیں ہیں۔

 

نفاق:

نفاق، یعنی دل میں کفر چھپا کر ایمان کا اظہار کرنے والے منافقین، قرآن کی روشنی میں جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔\

 

بدعت:

بدعت کا مطلب ہے دین کے بنیادی اور اساسی عقائد میں نئے اصول یا اعمال کا اضافہ کرنا جو قرآن و سنت میں نہیں ہیں، اور یہ عمل انسان کو گمراہی کی طرف لے جا سکتا ہے۔

 

اب آدمی کو جہنمی بننے کے لئے عقائد میں ان سب کا نہ ماننا ضروری ہے۔

 

2: عبادات کا انکار اور کوتاہی

عبادات میں کوتاہی اور انکار بھی انسان کو جہنم کی طرف لے جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر عبادات فرض کی ہیں، اور ان میں کسی بھی قسم کی کوتاہی جہنم کا باعث بن سکتی ہے۔

 

نماز ترک کرنا:

نماز دین کا ستون ہے، اور اس کا ترک کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ حدیث میں نماز چھوڑنے والے کے لیے سخت عذاب کی وعید دی گئی ہے۔

 

روزے نہ رکھنا:

رمضان کے روزے ہر بالغ مسلمان پر فرض ہیں، اور ان کو بغیر کسی شرعی عذر کے چھوڑنا گناہ کبیرہ ہے۔

 

زکوٰۃ ادا نہ کرنا:

زکوٰۃ دینا ہر صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے، اور زکوٰۃ ادا نہ کرنا آخرت میں جہنم کا سبب بن سکتا ہے۔

 

حج ادا نہ کرنا:

حج صاحب استطاعت افراد پر فرض ہے، اور اسے بغیر کسی شرعی عذر کے ترک کرنا جہنم کی سزا کا باعث بن سکتا ہے۔

 

3. اخلاقیات کو چھوڑ دینا

اسلام میں اخلاقی کردار کی بڑی اہمیت ہے، اور برے اخلاقی رویے انسان کو جہنم کے قریب لے جاتے ہیں۔

 

جھوٹ بولنا:

جھوٹ کو حدیث میں نفاق کی علامت قرار دیا گیا ہے، اور جھوٹ بولنے والا شخص آخرت میں سخت عذاب کا مستحق ہو گا۔

 

غیبت کرنا:

غیبت، یعنی پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرنا، قرآن میں شدید گناہ قرار دیا گیا ہے اور یہ انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔

 

حسد کرنا:

حسد دل کی ایک بیماری ہے جو انسان کو دوسروں کی خوشیوں پر ناخوش کرتی ہے، اور یہ برائی آخرت میں عذاب کا سبب بن سکتی ہے۔

 

تکبر:

حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر رکھتا ہو، وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔

 

4. معاملات کا انکار اور کوتاہی

معاشرتی اور مالی معاملات میں انصاف اور دیانتداری کا ترک کرنا بھی انسان کو جہنم میں لے جاتا ہے۔

 

سود لینا یا دینا:

سود کو قرآن میں اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ قرار دیا گیا ہے، اور سود کا لینا دینا انسان کو جہنم کی طرف لے جا سکتا ہے۔

 

دھوکہ دینا:

کاروبار یا زندگی کے کسی بھی معاملے میں دھوکہ دینا اسلام میں ممنوع ہے، اور یہ عمل انسان کو جہنم کے قریب کر سکتا ہے۔

 

امانت میں خیانت کرنا:

امانت داری کا ترک کرنا اور دوسروں کی امانت میں خیانت کرنا اسلام میں ناقابل معافی گناہ شمار کیا جاتا ہے۔

 

5: حقوق العباد

اسلام میں حقوق العباد کی خلاف ورزی کو جہنم میں جانے کا سبب بتایا گیا ہے۔ والدین، یتیموں، اور عام لوگوں کے حقوق کی پامالی انسان کو آخرت میں سخت عذاب کا مستحق بنا سکتی ہے۔

 

والدین کی نافرمانی:

والدین کی نافرمانی اور ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے کے لیے قرآن میں جہنم کی وعید دی گئی ہے۔

 

یتیموں کا مال کھانا:

یتیموں کے مال کو ناجائز طریقے سے ہڑپ کرنے والوں کے بارے میں قرآن میں سخت وعید آئی ہے۔

 

6: معاشرتی برائیاں

معاشرت میں برے رویے جیسے فحاشی اور بے حیائی انسان کو جہنم کے قریب کر دیتے ہیں۔

 

فحاشی اور بے حیائی:

زنا، فحاشی، اور بے حیائی جیسے اعمال قرآن و سنت کی روشنی میں سختی سے ممنوع ہیں اور ان کی سزا جہنم ہے۔

 

شراب نوشی:

شراب نوشی کو حدیث میں “ام الخبائث” یعنی برائیوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے، اور یہ انسان کو جہنم کی طرف لے جاتی ہے۔

 

ظلم و ناانصافی :

ظلم اور ناانصافی بھی انسان کو آخرت میں جہنم کی طرف لے جاتے ہیں۔

 

عدالتی ناانصافی :

ظالم اور ناانصاف ججوں کے بارے میں حدیث میں سخت وعید آئی ہے کہ وہ قیامت کے دن جہنم میں ہوں گے۔

 

اسلامی تعلیمات کے مطابق جہنم کا راستہ صرف معمولی گناہوں کے نتیجے میں نہیں کھلتا، بلکہ یہ بڑے اور مسلسل نافرمانیوں کے نتیجے میں انسان کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نہایت غفور الرحیم ہے، اور وہ اپنے بندے کو بہت سے مواقع دیتا ہے کہ وہ توبہ کر کے اپنی اصلاح کرے۔ جہنم جانا آسان نہیں ہے، اس کے لیے مسلسل نافرمانی اور سنگین گناہوں کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اللہ کی رحمت ہمیشہ اس کے بندوں پر سایہ فگن رہتی ہے، اور توبہ کرنے والے کے لیے بخشش کے دروازے کھلے ہیں۔ اور اگر کوئی نافرمان ٹائپ مسلمان جہنم گیا بھی تو کچھ وقت کے بعد سیدھا جنت پہنچ جائے گا۔وہ صرف اس لیے کہ بنیادی طور پر جہنم مسلمان کے لئے بنا ہی نہیں جب بنا ہی نہیں تو مسلمان کیوں کر جہنمی ہوسکتا ہے؟۔

 

یہ وہ سارے امور ہیں جن کے انجام دہی کے لیے بندہ مومن کو بہت سی مشکلات پیش آتی ہے۔ سلیم الفطرت شخص یہ سب کچھ کرنے اور ان پر اصرار و دوام سے کتراتا ہے۔ بالفرض اگر ان میں کچھ امور میں کوتاہی ہو بھی جائے تو بندہ فوراً توبہ کرلیں تو اللہ راضی ہوجاتا ہے۔

 

میری ان حضرات سے خصوصی گزارش ہے کہ جلدی جلدی لوگوں کو جہنم کا حقدار نہ ٹھہراؤ، بندہ مومن کو جہنم کے بجائے جنت کا راستہ دکھاؤ اور ترغیب بھی دو۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
94812

لکھنے کا وقت، لمحہ یا کیفیت – خاطرات : امیرجان حقانی

Posted on

لکھنے کا وقت، لمحہ یا کیفیت – خاطرات : امیرجان حقانی

 

 

لکھنے کا فن بہت سے لوگوں کے لیے ایک مخصوص لمحے یا کیفیت سے جڑا ہوتا ہے۔ بہت سے لکھاری اور شاعر یہ مانتے ہیں کہ وہ ہر وقت نہیں لکھ سکتے، بلکہ ایک خاص وقت یا جذباتی کیفیت میں ہی لکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک وہ اس مخصوص حالت میں نہیں آتے، ان کے اندر سے کوئی تخلیقی تحریک نہیں ابھرتی۔ لیکن ہر لکھاری کا تجربہ مختلف ہوتا ہے۔

 

 

میرا تجربہ کچھ منفرد ہے۔ میں عموماً جب بھی لکھنا چاہتا ہوں، ایک کپ کڑک چائے کی مدد سے، خود کو لکھنے کے قابل پاتا ہوں۔ یکسوئی اور ذہنی سکون یقینی طور پر ضروری ہے، مگر میں کسی مخصوص وقت یا کیفیت کا انتظار نہیں کرتا۔ لکھنے کے عمل کو ایک طویل سفر سمجھتا ہوں، جس کے لیے بس یکسوئی اور عزم درکار ہے۔ آج عصر سے اب تک خود کو لکھنے پر آمادہ کرتا رہا مگر خود کو لکھنے کے لیے تیار نہ کرسکا اور پھر اسی موضوع پر لکھنا شروع کیا کہ کیا لکھنے کے لئے وقت، لحمہ اور کیفیت کا طاری ہونا ضروری ہے۔؟

 

میرے ساتھ کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ ایمرجنسی میں لکھنے کی نوبت آئی، لکھ لیا لیکن اس لکھے پر خود مطمئن نہیں ہوسکا۔کچھ دیر کے بعد جائزہ لیا تو عجیب سا لگا، یعنی اچھا نہیں لگا۔ اور پھر بعض دفعہ مجھے لکھنے میں بہت سرور محسوس ہوتا ہے، شاید وہ کوئی خاص لمحہ ہو یا پھر وہی کیفیت طاری ہوئی ہو جو لکھنے کے لئے ہوتی ہے۔؟

 

 

یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی لکھنے کا کوئی خاص لمحہ ہوتا ہے؟ شاید ہر لکھاری کا جواب اس کے اپنے تجربے پر منحصر ہو۔ کچھ لوگ سحر کے وقت تخلیقی توانائی محسوس کرتے ہیں۔ شاید مولانا ابوالکلام آزاد اسی وقت لکھا کرتے تھے۔ غبار خاطر کے مطالعہ سے تو یہی سمجھ آتا ہے۔ اور کچھ رات کی خاموشی میں، تو کچھ لوگوں پر ہجوم کے بیچ بھی خیالات کی بارش ہوتی ہے۔

 

 

لیکن ایک بات طے ہے کہ لکھنے کے لیے صرف وقت یا لمحہ نہیں، بلکہ ارادہ اور عزم ضروری ہے۔ چائے ہو یا نہ ہو، یکسوئی اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں پر یقین ہی وہ عناصر ہیں جو کسی کو بھی لکھنے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔ آپ بھی اپنا تجربہ شئیر کریں۔ آپ پر کیفیت طاری ہوتی ہے، کوئی خاص وقت ہے یا پھر جب چاہے قلم برداشتہ لکھ لیتے ہیں۔؟

 

یہ بھی اہم ہے کہ کبھی کبھار لکھنے کے عمل کو مجبور نہیں کرنا چاہیے ہعنی اپنے اوپر زبردستی کرکے لکھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اگر کوئی خاص خیال یا تحریک نہیں آ رہی تو ایک وقفہ لینا، کسی اور سرگرمی میں مشغول ہونا بھی ضروری ہے، تاکہ دماغ تازہ ہو سکے اور نیا زاویہ نظر آسکے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
94731

ہمارے سماج میں علم اور استاد کی عزت  – خاطرات: امیر جان حقانی

Posted on

ہمارے سماج میں علم اور استاد کی عزت  – خاطرات: امیر جان حقانی

 

یہ سوال شاید ہر باشعور انسان کے دل و دماغ میں کبھی نہ کبھی ضرور ابھرتا ہے کہ آج کے دور میں ہمارے معاشرے میں علم اور استاد دونوں کی عزت کیوں نہیں کی جاتی۔ وہ معاشرہ جو علم کی روشنی سے منور ہوتا تھا، آج اس اندھیرے میں گم ہو چکا ہے جہاں نہ علم کی کوئی قدر ہے اور نہ ہی اس کو پھیلانے والے استاد کی کوئی عزت۔

 

بدقسمتی سے ہمارے ہاں علم کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ دینی علوم اور عصری علوم۔ یہ تقسیم بظاہر معمولی لگتی ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک سنگین فکری اور نظریاتی مسئلہ ہے۔ میرے نزدیک علم کی کوئی تقسیم نہیں ہونی چاہیے، علم میں دوئی بالکل بھی نہیں، کیونکہ علم بذات خود ایک وحدت ہے، ایک روشنی ہے جو انسانی عقل و شعور کو منور کرتی ہے۔ مگر ہمارا معاشرہ اس تقسیم کو تسلیم کر چکا ہے، اور اسی بنا پر ہم نے علم کو دو خانوں میں بانٹ دیا ہے۔ ایک جو دینی ہے اور دوسرا جو عصری۔

 

دینی علوم کے اساتذہ ہوں یا عصری علوم کے، دونوں ہی کو معاشرتی سطح پر کم تر سمجھا جاتا ہے۔ ان کی قابلیت اور علم کی گہرائی کو نظرانداز کرتے ہوئے انہیں ایسے القاب سے نوازا جاتا ہے جو ان کی حیثیت کو مجروح کرتے ہیں۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ جس معاشرے میں علم کے چرچے ہونے چاہئیں، وہاں علم سے جڑے افراد کو حقیر اور کمتر سمجھا جاتا ہے۔

 

کچھ عرصہ پہلے ایک ایسے استاد سے اچانک ملاقات ہوئی جو خود کو بڑا وژنری استاد سمجھتے تھے اور اب وژنری شخص۔ وہ معلمی کے منصب سے علیحدہ ہو کر کسی بڑے عہدے پر فائز ہو چکے تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ہمارے سماج میں استاد کی ویلیو کیوں نہیں ہے؟ میں نے ان نے پوچھا کہ آپ بھی استاد رہے ہیں، آپ ہی بتلائیں کہ آخر ہمارے معاشرے میں استاد کی عزت کیوں نہیں ہوتی؟ تو انہوں نے نہایت تلخ لہجے میں اپنے ہی ساتھی اساتذہ کو کم ظرف اور بے حیثیت قرار دیا۔ وہ بھول گئے کہ کبھی وہ خود بھی اسی منصب پر فائز تھے اور اسی علم کے چراغ کی روشنی میں اپنی منزل کی جانب بڑھ رہے تھے۔

 

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اکثر اساتذہ خود اپنے پیشے اور اپنے ساتھیوں کی عزت نہیں کرتے۔ جب مدرسے کا مولوی مہتمم یا ناظم بنتا ہے تو وہ اپنے ہی مدرسین کی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے۔ اور اسی طرح سکول و کالج اور یونیورسٹی کا وہی استاد جو کبھی اپنے شاگردوں کے دلوں میں علم کی روشنی بھرتا تھا، جب عارضی طور پر ہی سہی کسی انتظامی عہدے پر پہنچتا ہے تو وہ اپنے ساتھیوں کے لیے فرعون بن جاتا ہے۔ وہ اپنی طاقت اور اختیار کے نشے میں اس قدر گم ہو جاتا ہے کہ اپنے ساتھی اساتذہ کو کمتر سمجھنے لگتا ہے اور ان کے ساتھ وہی رویہ اختیار کرتا ہے جو اکثر و بیشتر سرکاری دفاتر کے ریگولر بابو اساتذۂ کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ بہت سے واقعات ہیں جن میں اساتذہ نے ہی اپنے کولیگز اساتذہ کی بے عزتی کی ہیں۔ اگر کوئی استاد کسی دفتر میں براجمان سابق استاد کے پاس انتہائی معمولی اور جائز کام کو بھی لے کر جاتا ہے تو کچھ عرصے کے لیے سیٹ پر بیٹھا شخص فرعون بننے کی کوشش کررہا ہوتا ہے یا انتہائی غیر منطقی انداز میں افسرشاہی کی کوئی چال چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس ناپاک چال کو چلتے ہوئے وہ بھونڈا سا نظر آتا ہے، کیونکہ وہ تھا تو پہلے استاد ہی مگر اب مختلف ڈھکوسلوں کے ذریعے سیٹ پر بیٹھا ہوتا ہے۔ جب استاد، استاد کیساتھ ایسا کرے گا تو پھر کسی سے گلہ بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ایک بات ذہن میں رہے کہ کچھ اساتذہ اپنے ہم پیشہ اساتذہ کی انتہائی عزت اور احترام کرتے ہیں، جو بہرحال لائق تحسین ہیں۔

 

 

ہمارے تعلیمی ادارے بھی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ مدارس، اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں وہ مقدس جگہیں ہیں جہاں علم کی روشنی سے طلباء کے دل و دماغ منور ہوتے ہیں۔ مگر جب ان اداروں میں ہی اساتذہ کے ساتھ ذلت آمیز سلوک روا رکھا جائے گا، تو پھر ہم معاشرتی سطح پر کس اخلاقی معیار کی توقع کر سکتے ہیں؟ افسوس کہ ہمارے معاشرے نے اساتذہ کی اصل قدر و قیمت کو بھلا دیا ہے، اور انہیں ایک معمولی ملازم سمجھ کر نظرانداز کر دیا ہے۔

 

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اساتذہ کی اصل قدر کو پہچانیں اور انہیں وہ عزت و احترام دیں جس کے وہ مستحق ہیں۔ یہ اساتذہ ہی ہیں جو قوموں کی تقدیر بدلتے ہیں، جو ذہنوں کو جلا بخشتے ہیں، جو نسلوں کو علم کی روشنی سے منور کرتے ہیں۔ اگر ہم اساتذہ کی قدر نہیں کریں گے اور وہ اپنے پیشے اور شب و روز کے معمولات و معاملات سے مطمئن نہ ہوں تو وہ ہمارے مستقبل کو کیسے روشن بنا سکیں گے؟

 

ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ علم کو تقسیم کرنے کے بجائے اسے ایک وحدت کے طور پر قبول کریں۔ ہمیں اپنی اجتماعی سوچ اور رویے میں وہ تبدیلی لانی ہوگی جو علم کی حرمت اور اساتذہ کی عزت کو بحال کر سکے۔ علم کی شمع کو روشن رکھنے کے لیے ہمیں اس کے علمبرداروں کو عزت دینا ہوگی، ورنہ ہماری ترقی اور فلاح کے خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکیں گے۔

 

یہی وہ پیغام ہے جو ہمیں اپنی آئندہ نسلوں تک پہنچانا ہے کہ علم اور استاد کی عزت کے بغیر ترقی کی منزلیں طے نہیں ہو سکتیں۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
94601

سود کی حرمت اور اسلامی بینکاری کا نظام – خاطرات: امیرجان حقانی

Posted on

سود کی حرمت اور اسلامی بینکاری کا نظام – خاطرات: امیرجان حقانی

 

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں کے لئے اسلام مکمل رہنمائی اور گائیڈ لائنز عطا کرتا ہے۔اسلام نے معاشرتی اور اقتصادی انصاف کے قیام کے لیے سود کو سختی سے حرام قرار دیا ہے۔ سود ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف انفرادی سطح پر ظلم کا باعث بنتا ہے بلکہ پورے معاشرے میں معاشی ناہمواری،ناانصافی اور افراتفری کا سبب بن رہاہے ۔ اسی لیے اسلامی نظامِ معیشت میں سود کو ممنوع قرار دے کر ایک ایسا نظام متعارف کرایا گیا ہے جو انصاف، تعاون اور مساوات پر مبنی ہے۔ سب سے پہلے ہم سود کا معنی و مفہوم سمجھتے ہیں۔

 

سود کا لفظی معنی

سود کو عربی میں “الربا” کہا جاتا ہے، جس کا لغوی (لفظی) معنی ہے “بڑھوتری” یا “زیادتی”۔ یہ کسی چیز کے بڑھنے، زیادہ ہونے، یا کسی چیز کے اوپر اضافے کا مفہوم رکھتا ہے۔ الرِّبَا۔۔۔ راس المال پر جو بڑھوتری لی جائے وہ ربوٰ کہلاتی ہے۔

 

سود کا اصطلاحی معنی و مفہوم

اصطلاحی طور پر، سود سے مراد ایسی مالی زیادتی ہے جو بغیر کسی حقیقی محنت، کام، یا رسک کے ایک شخص دوسرے شخص سے وصول کرتا ہے۔ یہ وہ زیادتی ہے جو قرض یا مالی لین دین میں وقت کے بدلے وصول کی جاتی ہے۔ اسلامی شریعت میں، سود کو ناجائز اور حرام قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ کسی حقیقی معاشی سرگرمی یا خدمات کے بدلے میں نہیں لیا جاتا، بلکہ ایک شخص دوسرے کی ضرورت سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔

 

سود کی حرمت قرآن کی روشنی میں

قرآن مجید میں سود کے بارے میں کئی مقامات پر واضح طور پر سخت الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، جو اس کی حرمت اور سنگینی کو بیان کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت کے چند فرامین آپ کی خدمت میں اس امید کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ آپ ان کو سن کر اور سمجھ کر سود جیسے قبیح عمل سے اپنے آپ اور اپنی نسلوں کو بچا سکیں۔

 

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافاً مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُواْ اللّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ، وَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِیْ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ۔
ترجمہ:”اے ایمان والو!کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود مت کھاؤ اور الله سے ڈرو،تا کہ تمہیں فلاح حاصل ہو اور اس آگ سے ڈرو، جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔“(آل عمران:131-130)

یہاں أَضْعَافاً مُّضَاعَفَةً کے معنی ہیں کسی چیز کو دو چند کر دینا۔ کفار عرب اور زمانہ جاہلیت میں ڈبل سود یعنی سود مرکب یا سود درسود لینے کا رواج موجود تھا اور یہ سود کی بدترین صورت ہے۔۔ (معارف القرآن)

 

ایک اور ارشاد ملاحظہ کیجیے:
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ، ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ، وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا۔
ترجمہ: “جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر دیوانہ بنا دیا ہو، یہ اس لیے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت بھی تو سود جیسی ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔”( سورۃ البقرہ، آیت 275)
اسی طرح اللہ کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ، فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۔
ترجمہ: “اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔ اگر تم ایسا نہ کرو تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔” (سورۃ البقرہ، آیت 278-279)

سود کی حرمت حدیث کی روشنی میں

رسول اللہ ﷺ نے سود کی حرمت کے حوالے سے واضح ارشاد ات فرمائے ہیں۔ ہم یہاں چند احادیث نقل کرتے ہیں تاکہ ہمیں حرمت سو د ذہن نشین ہو۔

حضرت جابر بن عبد اللہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے:

“لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ” وَقَالَ “هُمْ سَوَاءٌ”
ترجمہ: “رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والوں پر لعنت بھیجی ہے اور فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔”(مسلم شریف)
ایک اور حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
“اَلدِّرْهَمُ الرِّبَا الَّذِيْ يَأْكُلُهُ الرَّجُلُ وَهُوَ يَعْلَمُ اَشَدُّ عِنْدَ اللهِ مِنْ سِتَّةٍ وَثَلَاثِيْنَ زِنْيَةً”
ترجمہ: “ایک درہم سود جو آدمی جان بوجھ کر کھائے، اللہ کے نزدیک چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ گناہ ہے۔”(ابن ماجہ)

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”سود خوری کے ستر حصے ہیں ان میں سے ادنیٰ او رمعمولی ایسا ہے جیسے اپنی ماں کے ساتھ زنا کرنا۔“
حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جس قوم میں زنا اور سو دکا ظہور ہوا اس قوم نے یقینا الله کا عذاب اپنی جانوں پر اتار لیا۔“ (مجمع الزوائد)
قرآن کریم کی ان آیات اور فرامین رسول ﷺ کی روشنی میں اہل ایمان کو درس ملتا ہے کہ ہرحال میں اپنے آپ کو سودی معاملات سے بچائے.

سودی نظام کی سماجی برائیاں اور تباہ کاریاں

سود ہر اعتبار سے قبیح اور مفسد ہے۔ یہ نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ اجتماعی اور سماجی طور پر بھی بہت ساری برائیوں اور مسائل کا باعث بنتا ہے۔ ان میں سے چند ایک برائیاں عرض کردیتے ہیں:

معاشرتی اور سماجی ناہمواریاں

سودی نظام میں امیر لوگ مزید امیر اور غریب لوگ مزید غریب ہوتے چلے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے معاشرتی ناہمواری اور عدم مساوات بڑھتی ہے۔سودی نظام کے رائج ہونے سے معاشرتی ور سماجی ناہمواریاں روز بڑھتی ہیں۔

غربت اور کسمپرسی میں اضافہ

سود کی وجہ سے غریب افراد پر قرضوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بجائے قرض کی ادائیگی میں مبتلا رہتے ہیں۔ اور پھر لاینحل مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں جن کا لازمی نتیجہ غربت اور کسمپرسی ہے۔

معاشرتی انصاف کا فقدان

سودی نظام کی وجہ سے سرمایہ دار طبقہ مزید فائدے میں رہتا ہے جبکہ غریب طبقہ استحصال کا شکار ہوتا ہے، جس کی وجہ سے معاشرتی انصاف قائم نہیں ہو پاتا۔اس وقت دنیا میں سودی نظام کی وجہ سے توازن نہیں ہے اور معاشرتی انصاف ناپید ہوکر رہ گیا ہے۔

معاشی بحران

سودی لین دین کی بنیاد پر بنائے گئے مالیاتی نظام دنیا کو بارہا معاشی بحرانوں کی طرف لے جاتے ہیں، جیسے کہ عالمی مالیاتی بحران جو اکثر سودی قرضوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔بالخصوص مسلم دنیا اس کا خمیازہ بھگتی رہتی ہے۔

موجودہ سودی نظام معیشت کی ہمہ گیری

ہم میں سے یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ موجودہ دور میں پوری دنیا سرمایہ دارانہ سودی نظام اور معیشت میں جھکڑا ہوا ہے۔ اس نظام کو یہودی ساہوکاروں نے ہاتھوں میں لیا ہوا ہے۔سود عالمی اقتصادی نظام میں خون کی طرح گردش کررہا ہے۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ بینک لوگوں کے روپیہ اور دولت جمع کرتے ہیں اور پھر بڑے بڑے سرمایہ داروں،اور سودی بزنس کرنے والوں کو قرضوں پر دیتے ہیں۔اسی طرح بالخصوص تیسری دنیا کے غریب ممالک ان بڑے مالیاتی اداروں اور بینکوں سے حکومتی اور عوامی فلاح و بہبود کے نام پر قرضیں لیتی ہیں اور پھر سود سمیت لوٹانا شروع کردیتی ہیں۔اور یہ سب کچھ ظالمانہ ٹیکسوں کے ذریعے عوام سے وصول کیا جاتا ہے۔ایسی ہی صورت حال کی وجہ سے ہم پاکستانی سودی قرضوں میں جھکڑے ہوئے ہیں۔ ہم موجودہ عالمی سودی نظام کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں وہ حدیث رسول ثابت ہوتی دکھائی دیتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے کہا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب عام امت اس میں ملوث ہو کر رہے گی۔

اسلامی بینکنگ کا نظام بطور متبادل

اسلامی بینکنگ ایک ایسا نظام ہے جو قرآن و سنت کی روشنی میں مالیاتی امور کو انجام دیتا ہے۔ اس کا مقصد سود سے پاک، حلال اور انصاف پر مبنی مالیاتی خدمات فراہم کرنا ہے۔ میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ اسلامی بینکنگ کا موجودہ نظام سوفیصد سود سے پاک ہے بلکہ یہ کہنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ عالمی مالیاتی سودی نظام کے اندر اپنی تمام ترکمزوریوں کے باجود اسلامی بینکنگ کا نظام مسلمانوں کے لئے نعمت سے کم نہیں۔ اور یہ سودی بینکاری کے متبادل کے طور پر دنیا بھر میں اپنی جگہ بناچکاہے۔
دنیا کے جید علماء کرام نے عمر بھر کی کاوشوں سے اس نظام کو ترتیب دیا ہے۔اور وہ خود بھی یہی فرماتے ہیں کہ یہ نظام سوفیصد سود سے پاک نہیں لیکن دیگر سودی بینکاریوں سے یہ اسلامی بینکاری کا نظام بدرجہا بہتر ہے۔ ان علماء کی شبانہ روز محنت اور قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کی روشنی میں جو بینک قائم ہوئے ہیں ان سے استفادہ کرنا مناسب ہے۔ان کے کاروبار وغیرہ کے چند اہم اصول ہیں۔

 

1۔ مشارکت:
دونوں فریقین منافع اور نقصان میں شریک ہوتے ہیں، جو اسلامی اصولوں کے مطابق ہے۔

2۔ مضاربہ:
ایک فریق سرمایہ فراہم کرتا ہے اور دوسرا فریق کاروبار کرتا ہے، اور منافع دونوں میں تقسیم ہوتا ہے۔

3۔ مرابحہ:
بینک اشیاء کو خرید کر صارف کو بیچتا ہے، جس میں بینک اپنے منافع کا اضافہ کرتا ہے، لیکن یہ منافع سود پر مبنی نہیں ہوتا۔
اب مشارکت، مضاربہ اور مرابحہ کی جدید شکلیں اور اسلامی بینکوں میں اس کی تفصیلات آپ کو یہ اسلامی بینکوں کے صاحبان اور بینکوں سے وابستہ علماء کرام اور محققین بہتر بتا سکتے ہیں۔

مسلمانوں کے لیے ترغیب

مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سود کے معاملات سے خود کو مکمل طور پر بچائیں اور اپنے مالیاتی امور کو اسلامی بینکوں کے ساتھ منسلک کریں۔ دنیا بھرکے اسلامی معیشت کے ماہر علماء کرام کی آراء اور تحقیقات کی روشنی میں اسلامی بینکنگ نہ صرف حلال ہے بلکہ اس سے معاشی اور سماجی انصاف کا قیام بھی ممکن ہوتا ہے۔پاکستان میں اسلامی بینکنگ کا ایک بڑا نام مفتی تقی عثمانی مدظلہ ہیں۔ جو میرے استاد بھی ہیں۔میں ان کی تحقیقات اور عالمانہ کاوشوں کی بنیاد پر آپ حضرات سے بھی گزارش کروں کہ آپ اپنے مالی معاملات کو اسلامی بینکوں سے وابستہ کریں۔انشا ء اللہ آپ عنداللہ و عندالناس ماخوذ نہیں ہونگے۔

خلاصہ کلام

اللہ تعالیٰ ہمیں سود کی لعنت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی ہدایت دے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی مالیاتی امور کو اسلامی بینکوں کے ذریعے انجام دیں تاکہ دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ آمین۔
نوٹ: یہ مقالہ بینک اسلامی گلگت کے17 اکتوبر 2024 کے سیمینار کے لیے لکھا گیا ہے اور سامعین و شرکاء کو پڑھ کر سنایا گیا ہے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
94474

دعوتی منہج پر تحقیقی کام کی ضرورت – خاطرات: امیرجان حقانی

دعوتی منہج پر تحقیقی کام کی ضرورت – خاطرات: امیرجان حقانی

 

مولانا ابراہیم خلیل ہمارے بزرگوں میں شامل ہیں۔ وہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل ہیں۔ اور حضرت یوسف بنوری رحمہ اللہ کے اولین تلامذہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ مولانا انجمن اہل سنت بلتستان کے صدر بھی ہیں۔ ان سے میری اچھی دعا سلام ہے، اور اکثر ان سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں اور اہم موضوعات پر گفت و شنید کا سلسلہ بھی چلتا رہتا ہے۔ گزشتہ سالوں کی کچھ ملاقاتوں میں حضرت نے بار بار اس بات پر اصرار کیا کہ گلگت بلتستان میں دعوتی منہج پر تحقیق و تالیف کا کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

 

ان کی رائے تھی کہ مناظرانہ و مجادلانہ اور مخاصمانہ طرزِ عمل نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے، خاص طور پر دینی موضوعات، اصحابِ رسول، اور اہلِ بیت کے حوالے سے۔ انہوں نے کہا کہ ان حساس موضوعات پر گفتگو اوت تبلیغ کے لیے ہمیں محبت، افہام و تفہیم اور حکمت پر مبنی دعوتی لٹریچر تیار کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ، دیگر دینی موضوعات کو بھی بیانیہ انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ دین کی حقیقی روح کو سمجھ سکیں۔

 

میں نے مولانا ابراہیم خلیل صاحب کو مشورہ دیا کہ چونکہ آپ انجمن اہل سنت بلتستان کے صدر ہیں اور آپ کے پاس ایک دینی ادارہ بھی موجود ہے، تو کیوں نہ اس ادارے کی مدد سے دعوتی منہج پر ایک جامع پروپوزل تیار کیا جائے؟ اللہ کے فضل سے، انجمن کو مالی آسودگی بھی حاصل ہے۔ چند ذمہ دار اور جید نوجوان علماء کو لے کر تحقیقی و تالیفی لٹریچر تیار کیا جا سکتا ہے، جو نہ صرف علمی سطح پر مضبوط ہو بلکہ دلوں کو جیتنے والا بھی ہو۔

 

مولانا ابراہیم خلیل صاحب اس بارے میں سنجیدہ دکھائی دیے، وہ چاہ رہے تھے کہ یہ کام انجمن اہلسنت بلتستان سے شروع کیا جائے، لیکن افسوس کہ اب تک اس حوالے سے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ میرے خیال میں، اس آئیڈیا پر کام کا آغاز کسی بھی معروف دینی ادارے سے کیا جا سکتا ہے، لازمی نہیں کہ مولانا ابراہیم خلیل صاحب ہی اسے شروع کریں۔ گلگت بلتستان میں کئی دینی ادارے ہیں جو آسانی سے یہ اہم کام انجام دے سکتے ہیں۔ اس کے لئے ذرا وژن کی ضرورت ہے اور بہترین نگرانی کی بھی، آئندہ کے سطور پر اس حوالے سے ایک مختصر پروپوزل پیش کیا جارہا ہے، اس امید سے کہ انجمن اہل سنت بلتستان نہ سہی کو اور دینی ادارہ یا شخص یہ خدمت سرانجام دے سکے۔

 

دعوتی منہج کے لیے ایک پروپوزل کے لیے چند تجاویز پیش خدمت ہیں، ان میں حسب ضرورت ترمیم اور کمی و بیشی کی جاسکتی ہیں۔ یہ بالکل ابتدائی خاکہ اور اور احباب کو توجہ دلانے کی ایک کوشش ہے۔

 

اسلامی دعوت ہمیشہ محبت، حکمت، اور نرمی کے ساتھ پیش کی گئی ہے، اور اس کا مقصد لوگوں کو اپنے اخلاق، کردار، اور دلائل کے ذریعے دین کی طرف راغب کرنا ہے۔ اس مقصد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، گلگت بلتستان جیسے علاقوں میں جہاں مختلف مسالک اور مذاہب کے لوگ رہتے ہیں، دعوتی منہج کو اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اور معتدل اور محقق لٹریچر تیار کرنا اہل علم و قلم کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

 

1. دینی ادارے کی تنظیم و ڈھانچہ سازی

کسی دینی ادارے کے اندر ایک باقاعدہ شعبہ “دعوت و تبلیغ” کے نام سے قائم کیا جائے، جو صرف دعوتی منہج پر تحقیقی و تالیفی کام کرے۔
اس شعبے کو بہترین وسائل اور تمام ضروری سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ تحقیقی کام کو منظم انداز میں آگے بڑھایا جا سکے۔

2. دعوتی لٹریچر کی تیاری کے لیے علماء کی ٹیم

دینی موضوعات پر تحقیقی لٹریچر تیار کرنے کے لیے علماء، محققین، اور مصنفین کی ایک ٹیم بنائی جائے، جو مواد کو عام فہم اور دلنشین انداز میں پیش کرے۔
اس مواد میں دین کے اصل اصولوں کی وضاحت محبت اور حکمت کے ساتھ کی جائے، تاکہ اختلافات کو کم کیا جا سکے اور لوگ اسلام کی اصل روح کو سمجھ سکیں۔

 

3. جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال

سوشل میڈیا، ویڈیوز، آڈیو پروگرامز اور ویب سائٹس کے ذریعے اس دعوتی مواد کو عام لوگوں تک پہنچایا جائے۔ اسی طرح پرنٹ میڈیا کا استعمال بھی بہت ضروری ہے تاکہ ہر طریقہ سے بات پہنچ جائے۔
مقامی زبانوں میں بھی مواد تیار کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پیغام کی رسائی ممکن ہو۔

 

4. مکالمہ اور مفاہمت کی حکمت عملی

دعوت و تبلیغ کی ٹیم کے علماء کے، مختلف مسالک کے علماء کے ساتھ مکالمے اور مفاہمت کے سیشنز منعقد کیے جائیں تاکہ انہیں دعوتی منہج کی ضرورت و اہمیت سمجھائی جا سکے۔
بات چیت میں محبت، اخوت، اور بردباری کو بنیاد بنا کر مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

 

5. دعوتی تربیتی پروگرامز

دینی ادارے میں تربیتی ورکشاپس، سیمینارز، اور تربیتی پروگرامز کا انعقاد کیا جائے تاکہ علماء، طلباء، اور نوجوانوں کو دعوتی منہج کے اصولوں پر تربیت دی جا سکے۔
تربیت میں حکمت عملی، افہام و تفہیم، اور دعوتی لٹریچر کی تیاری کے اصولوں پر خصوصی توجہ دی جائے۔

 

6. مالی وسائل کی مناسب تقسیم

ادارہ کے پاس موجود مالی وسائل کو مؤثر انداز میں استعمال کیا جائے تاکہ دعوتی منہج کے تحت تحقیقی و تالیفی کام کو فروغ دیا جا سکے۔
مخیر حضرات اور مالیاتی اداروں سے بھی مالی تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ اس کام کو تسلسل کے ساتھ آگے بڑھایا جا سکے۔

 

7. علاقے کی صورتحال کے مطابق حکمت عملی

ایک ایسی ٹیم تشکیل دی جائے جو گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں جا کر دعوتی منہج کے تحت ہونے والے کاموں کی نگرانی کرے اور ان کی رپورٹنگ کرے۔ اور انہیں درست منہج پربکام کرنے کی ترغیب دے اور ان کے کام میں بہتری اور تنوع پیدا کرے۔
اس ٹیم کو علاقے کی مقامی ضروریات کے مطابق حکمت عملی تیار کرنے کی صلاحیت دی جائے۔

 

خلاصہ کلام

گلگت بلتستان میں دعوتی منہج کو فروغ دینے کے لیے تحقیقی و تالیفی کام کی اشد ضرورت ہے۔ اس پروپوزل کا مقصد دین اسلام کا مثبت اور محبت بھرا پیغام عام کرنا ہے، تاکہ مختلف مسالک کے درمیان محبت، اخوت، اور بھائی چارے کو فروغ دیا جا سکے۔ ہمیں اپنی علمی اور تحقیقی کوششوں کو اس طرح منظم کرنا ہوگا کہ اسلام کا سوفٹ اور دلکش چہرہ دنیا کے سامنے آئے۔

 

مولانا ابراہیم خلیل صاحب کا یہ جذبہ اور آئیڈیا مجھے بہت پسند آیا تھا، میں نے انہیں اپنی خدمات پیش کی تھی اور عرض کیا تھا کہ اگر وہ چاہیے تو شعبہ کی تشکیل اور ٹیم سازی اور ٹیم ورک میں مکمل معاونت کرونگا، تاہم ان کی طرف سے کوئی خاص رسپانس نہیں ملا۔ اگر کوئی اور ادارہ یا شخص اس حوالے سے کام کا ادارہ رکھتا ہے تو میں اس موضوع پر مفصل خاکہ پیش کرنے کے لئے تیار ہوں، اس میں اہل علم بھی بیٹھیں، گفت و شنید اور ترمیم و تزین کے بعد ایک بہترین عملی خاکہ تیار ہو اور گلگت بلتستان میں ایک معیاری قسم کی تحقیقی و تالیفی سرگرمی شروع کیا جاسکے۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
94349

آغا خان سکولوں کے طلبہ کا سالانہ امتحانات 2023-24 میں نمایاں کارکردگی پر گلگت میں اعزازی تقریب

Posted on

آغا خان سکولوں کے طلبہ کا سالانہ امتحانات 2023-24 میں نمایاں کارکردگی پر گلگت میں اعزازی تقریب

گلگت (نمائندہ چترال ٹائمز) آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان، گلگت بلتستان نے آغا خان یونیورسٹی اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے سالانہ امتحانات میں صوبائی سطح پر کامیاب ہونے والے طلبہ کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا۔ اس تقریب میں اُن طلبہ کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا جنہوں نے اپنی محنت اور لگن سے نئے ریکارڈ قائم کیے اور اپنے والدین، اساتذہ اور ملک کا نام روشن کیا۔
آغا خان ایجوکیشن سروس نے ان طلبہ کی کامیابی پر اُنہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے انہیں تعریفی اسناد سے نوازا۔ ایک رنگارنگ تقریب میں طلبہ اور ان کے والدین نے اساتذہ کی محنت کو سراہا اور آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان، خاص طور پر گلگت بلتستان کے اساتذہ کا شکریہ ادا کیا۔
تقریف کا آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول ﷺ سے ہوا۔اس تقریب کے مہمان خصوصی اقبال رسول صدر ریجنل اسماعیلی کونسل گلگت تھے جبکہ صدارت وزیر فدا علی ایثار نے کی۔

آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان، گلگت بلتستان اور چترال کے جنرل منیجر، بریگیڈئیر (ریٹائرڈ) خوش محمد خان نے اپنے استقبالیہ خطبے میں اعزازی تقریب میں مدعو تمام طلباء، ان کے والدین اور اسکول کے فیکلٹی کو اس شاندار کامیابی پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ AKEE,P کی پاکستان میں معیاری تعلیم کو در در پہنچانے کی کاوش گزشتہ ایک صدی سے جاری ہے، جو 1905 میں گوادر، بلوچستان میں اپنے پہلے اسکول کی بنیاد پر کیا گیا تھا؛ اور GB میں تقریباً 80 سالوں سے علم کے نور کا یہ سفر جاری ہے۔ جب ہم تعلیمی قابلیت اور معیار کے بارے میں سوچتے ہیں تو دنیا سرعت کے ساتھ تبدیل ہوتی نظر آتی ہے اس روز افزوں تبدیلی کی وجہ سے ہمارے اساتذہ اور طلبہ کو وقت کے ساتھ چلنے میں کئی ایک چیلینجیز درپیش ہیں۔ ہز ہائینس نے اسی ضمن میں فرمایا ہے
“What students know is no longer the most important measure of an education. The true test is the ability of students and graduates to engage with what they do not know, and to work out a solution. They must also be able to reach conclusions that constitute the basis for informed judgements

ہز ہائینس کے اس قول کی روشنی میں آغا خان ایجوکیشن سروس نے ملک خصوصاً گلگت بلتستان اور چترال کے نونہالوں کو میعاری تعلیم سے آراستہ کرنے کی جدو جہد جاری رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اب تک 40 اسکولوں کو AKUE-EB کے ساتھ منسلک کر چکے ہیں. ان منسلک سکولوں کی اکیڈمک سپورٹ کے لیے AKES,P کی طرف سے تجربہ کار سبجکٹ کریکولم اسپیشیلیسٹ پیشہ ور افراد پر مشتمل ٹیمیں مصروف عمل ہیں۔ جہاں ہم نے اپنے اسکولوں میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے وہاں ہم اپنے طلبہ کی کثیر تعداد کی مالی اعانت بھی کرتے ہیں تاکہ ہمارا کوئی طالب علم مالی مشکلات کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہ رہ سکے ۔ فی الحالگلگت بلتستان میں P، AKESکی زیر نگرانی چلنے والے اسکولوں میں تقریباً 30،000 طلبہ ECD سے اعلیٰ ثانوی تک مختلف جماعتوں زیر تعلیم ہیں۔ جبکہ ہمارے فارغ التحصیل طلبہ پاکستان اور بیرون ملک اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ میں ایک بار پھر تمام انعام یافتہ، طلباء، اُن کے والدین، اساتذہ، اسکول کے رہنماؤں اور AKES, P، کے جملہ عملے کو طلبہ کی ثانوی اور اعلیٰ ثانوی امتحانات میں اعلیٰ تعلیمی کامیابی پر اپنی دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں تمام اساتذہ اور اسکول کے سربراہوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو اپنے اسکولوں میں سخت محنت سے کام کرے رہے ہیں۔ اُنہوں نے اساتذہ اور طلبہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کی محنت اور عزم نے آپ کو اس مقام تک پہنچایاہے۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ اسی جذبے اور محنت سے اپنا علمی سفر جاری رکھیں گے ۔ میں ایک بار پھر تمام انعام یافتہ، طلباء، والدین، اساتذہ، اسکول کے رہنماؤں اور تمام AKES,P عملے کو ثانوی اور اعلیٰ ثانوی امتحانات میں اعلیٰ تعلیمی کامیابی پر اپنی دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

 

جنرل منیجر، بریگیڈئیر (ریٹائرڈ) خوش محمد خان کے استقبالہ خطاب کے بعد تقریب کے مہمان خصوصی اسماعیلی ریجنل کونسل گلگت کے پریزیڈنٹ اقبال رسول نے طلبہ کی اس شاندار کامیابی پر انہیں مبارکباد پیش کی اور کہا کہ طلبہ کو اس مقام تک پہنچانے میں اساتذہ کا کلیدی کردار رہا ہے کیوں کہ کسی بھی ترقیافتہ قوم کے پیچھے اُان کی ترقی میں آپ جیسے اساتذہ کا ہاتھ کار فرما رہتا ہے۔ اُنہوں نے امتیازی پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کے والدین کو مبارکباد دینے کے ساتھ گھروں میں اپنے بچوں کی بہترین تربیت پر اُنہیں خراج تحسین بھی پیش کیا ۔اس موقع پر مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے سربراہان اور نمائندوں نے بھی شرکت کی۔

یہ تقریب دو حصوں پر مشتمل تھی۔ پہلے حصے میں مہمانوں نے طلبہ کی کامیابی پر انہیں مبارکباد دی اور دوسرے حصے میں طلبہ نے اپنے فن پاروں سے محفل کو مزین کیا۔

اے کے یو ای بی کے سالانہ امتحانات 2023-24 کے نتائج میں اعلیٰ ثانوی سطح پر صوبائی سطح پر امتیازی پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کی تفصیل درج ذیل ہے:

• آغا خان ہائر سیکنڈری سکول گاہکوچ کی طالبہ روزلین امان نے انجینئرنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
• آغا خان ہائر سیکنڈری سکول گلگت کے طلبہ علی زین اور فرحان اکبر نے بالترتیب پہلی اور دوسری پوزیشنیں حاصل کیں۔
• آغا خان ہائر سیکنڈری سکول گاہکوچ کی طالبہ نیلم بہار نے مجموعی نتائج میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔

سالانہ امتحانات 2023-24 کے نتائج میں ثانوی سطح پر جماعت نہم اور دہم میں صوبائی سطح پر امتیازی پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کی تفصیل درج ذیل ہے:
• مضامین کے نتائج کے اعتبار سے ہائر سیکنڈری سکول گاہکوچ کی طالبہ ثنا خان نے پہلی پوزیشن حاصل کی، جبکہ آئمہ نادر شاہ اور شائستہ صبا نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔
• مجموعی نتائج کے حساب سے آغا خان ہائر سیکنڈری سکول گاہکوچ کی طالبہ ثنا خان نے پہلی، انمول نے دوسری اور اہزام اعجاز نے صوبے بھر میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔
قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی امتحانی سیکشن کے امتحانات میں ثانوی سطح پر جماعت نہم و دہم میں صوبائی سطح پر امتیازی پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کی تفصیل درج ذیل ہے:
• ڈی جے ہائی اسکول ٹیرو کے طالب علم شیر رحیم ، ڈی جے ہائی اسکول پھنڈر کی طلبہ کریشمہ اور خوشبو نور نے صوبے بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کیں
• ڈی جے ہائی اسکول ٹیرو، ڈی جے ہائی اسکول سوست،کی طالبات ثمینہ پروین اور عدیانہ ظفر نے بالتریب میڈیکل اور انجنئرینگ میں دوسری پوزیشن حاصل کیں جبکہ ڈی ہائی اسکول سوست کے طالب علم حنیف محمد نے تیسری پوزیشن حاصل کی

 

اس محفل کی صدارت معروف دینی اسکالر، وزیر فدا علی ایثار نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے امتیازی نمبروں سے امتحان پاس کرنے والے طلبہ، ان کے اساتذہ اور والدین کو مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان، خاص طور پر گلگت بلتستان اور چترال میں، اپنے اساتذہ کی پیشہ ورانہ مہارتوں سے لیس کرکے علاقے کے نونہالوں کو دنیا کے نئے چیلنجوں کے لیے بہترین طور پر تیار کر رہی ہے۔ انہوں نے طلبہ کو ان کے روشن مستقبل کی نوید سناتے ہوئے اساتذہ کی محنت کو سراہا۔ اُنہوں نے والدین کے کردار کو بھی طلبہ کی کامیابی کی اہم وجہ قرار دی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ نتائج ثابت کرتے ہیں کہ اگر ہم تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہیں گے تو ہم دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ آئندہ بھی ہم اس طرح کے نتائج دیکھتے رہیں گے۔ انہوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کی بہترین تربیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تعلیم کے بغیر تربیت ایک ایسے کمپیوٹر کی مانند ہے جس میں دنیا کی تمام معلومات موجود ہوں لیکن تربیت کا فقدان ہو۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے بچے تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے اندر اعلیٰ اخلاقی اقدار بھی پیدا کریں۔ صدر محفل کے ان کلمات کے بعد، سینئر منیجر اسکول ڈویلپمنٹ، ابراہیم بیگ نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور یوں یہ پر وقار تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔

chitraltimes akesp schools gilgilt baltistan awards distribution ceremony 14

 

chitraltimes akesp schools gilgilt baltistan awards distribution ceremony 13 1

chitraltimes akesp schools gilgilt baltistan awards distribution ceremony 4 chitraltimes akesp schools gilgilt baltistan awards distribution ceremony 5 chitraltimes akesp schools gilgilt baltistan awards distribution ceremony 6 chitraltimes akesp schools gilgilt baltistan awards distribution ceremony 7 chitraltimes akesp schools gilgilt baltistan awards distribution ceremony 8 chitraltimes akesp schools gilgilt baltistan awards distribution ceremony 9 chitraltimes akesp schools gilgilt baltistan awards distribution ceremony 18 chitraltimes akesp schools gilgilt baltistan awards distribution ceremony 17 chitraltimes akesp schools gilgilt baltistan awards distribution ceremony 16 chitraltimes akesp schools gilgilt baltistan awards distribution ceremony 15 chitraltimes akesp schools gilgilt baltistan awards distribution ceremony 11 chitraltimes akesp schools gilgilt baltistan awards distribution ceremony 10 chitraltimes akesp schools gilgilt baltistan awards distribution ceremony 1

chitraltimes akesp schools gilgilt baltistan awards distribution ceremony 12

chitraltimes akesp schools gilgilt baltistan awards distribution ceremony 2

 

 

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
94151

سکھر آئی بی اے یونیورسٹی نے او جی ڈی سی ایل کے تعاون سے نیشنل ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام 2024 کے تحت دیامر کے طلبہ کے لئے معیاری اور مفت اعلی تعلیم فراہم کرنے کا اعلان

سکھر آئی بی اے یونیورسٹی نے او جی ڈی سی ایل کے تعاون سے نیشنل ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام 2024 کے تحت دیامر کے طلبہ کے لئے معیاری اور مفت اعلی تعلیم فراہم کرنے کا اعلان

سکھر آئی بی اے یونیورسٹی کا نیشنل ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام اور اسکالرشپ دیامر کے طلبہ کے لئے امید کی کرن ہے. پروفیسر عبداللہ خان

 

گلگت(امیرجان حقانی سے)  سکھر آئی بی اے یونیورسٹی نے او جی ڈی سی ایل کے تعاون سے نیشنل ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام 2024 کے تحت دیامر کے طلبہ کے لئے  معیاری اور مفت اعلی تعلیم فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت ملک بھر سے 340 ذہین اور مستحق طلبہ و طالبات کو منتخب کرکے تربیتی کورس کروایا جائے گا، جس میں ریاضی، انگلش، اور کمپیوٹر کی مہارتوں کو فروغ دیا جائے گا۔ اس پروگرام میں بہترین کارکردگی دکھانے والے 200 طلبہ کو چار سالہ فل اسکالرشپ کے ساتھ بیچلر ڈگری پروگرام میں داخلہ دیا جائے گا۔

 

*گورنمنٹ ڈگری کالج چلاس میں آگاہی سیشن کا انعقاد*

سکھر آئی بی اے یونیورسٹی کے نمائندہ وفد نے گورنمنٹ ڈگری کالج چلاس کا دورہ کیا، جہاں پرنسپل پروفیسر عبداللہ خان کی زیرِ صدارت ایک آگاہی سیشن منعقد کیا گیا۔ اس سیشن میں کالج کے تمام طلبہ اور فیکلٹی ممبران نے بھرپور شرکت کی۔ اس موقع پر سکھر آئی بی اے یونیورسٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اسکالرشپ، عطاء اللہ نے کہا کہ نیشنل ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام 2024 کا مقصد گلگت بلتستان سمیت پورے پاکستان کے ذہین و ضرورت مند طلبہ و طالبات کو مفت معیاری تعلیم فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں۔

 

کالج کے پرنسپل، پروفیسر عبداللہ خان نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سکھر آئی بی اے یونیورسٹی کی جانب سے دیامر کے طلبہ کو اس موقع کی فراہمی پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ “دیامر کے طلبہ کے لئے اعلی تعلیم کے مواقع کا نہ ملنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس پروگرام کے ذریعے طلبہ کو وہ مواقع میسر آئیں گے، جو انہیں معیاری تعلیمی اداروں تک رسائی فراہم کریں گے۔”

 

 

پروفیسر عبداللہ خان نے تعلیم کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ “تعلیم ہر معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد ہے، اور اسکالرشپ جیسے مواقع پسماندہ علاقوں کے طلبہ کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ دیامر کے زیادہ سے زیادہ طلبہ کو یہ اسکالرشپ حاصل ہو تاکہ وہ اپنے خوابوں کو پورا کر سکیں۔” انہوں نے سکھر آئی بی اے یونیورسٹی سے درخواست کی کہ وہ دیامر کے طلبہ کو مزید اسکالرشپ فراہم کریں تاکہ اس علاقے کے ہونہار طلبہ بھی اعلی تعلیم حاصل کر کے ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ اس پروگرام کا انعقاد گلگت بلتستان کے طلبہ کے لئے ایک بڑی امید کی کرن ہے۔ یہ پروگرام نہ صرف ان کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرے گا بلکہ انہیں مستقبل کے لئے تیار بھی کرے گا۔ او جی ڈی سی ایل اور سکھر آئی بی اے یونیورسٹی کے اس اقدام سے دیامر جیسے پسماندہ علاقوں کے طلبہ کو ترقی کے نئے مواقع ملیں گے، جو ان کے تعلیمی سفر میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔

 

او جی ڈی سی ایل نیشنل ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام 2024 کا آغاز ایک اہم اقدام ہے جو پاکستان کے مستحق طلبہ کو معیاری تعلیم کے مواقع فراہم کرے گا۔ ایسے اقدامات کی بدولت نہ صرف تعلیمی معیار میں بہتری آئے گی بلکہ پسماندہ علاقوں کے طلبہ بھی عالمی معیار کی تعلیم حاصل کرکے ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔

 

 

 

chitraltimes sakhar IBA university schlorship program GB 1

chitraltimes sakhar IBA university schlorship program GB 2

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
94109

برفانی چیتے کو موسمیاتی تبدیلی کی علامت کے طور پر عالمی سطح پر تسلیم کروانے کے لیے پاکستان کی سفارتی کوششیں تیز

Posted on

برفانی چیتے کو موسمیاتی تبدیلی کی علامت کے طور پر عالمی سطح پر تسلیم کروانے کے لیے پاکستان کی سفارتی کوششیں تیز

 

اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ ) موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا موثر انداز میں سدِ باب کرنے کے لئے وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی کوآرڈینیشن نے عالمی سنو لیپرڈ اور ایکو سسٹم پروٹیکشن پروگرام کے 12 رکن ممالک کے ساتھ مل کر برفانی چیتے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں موسمیاتی موافقت کی عالمی علامت کے طور پر تسلیم کروانے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کر دیا ہے۔

 

وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی کوآرڈینیشن میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیراعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی،رومینا خورشید عالم نے اس اقدام کے ابتدائی مراحل کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔منصوبے کے تحت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، برفانی چیتے کے مسکن والے ممالک اور بین الاقوامی تحفظِ حیاتیات کے اہم اداروں کو باضابطہ خطوط ارسال کیے جائیں گے۔ اس ضمن میں پاکستان کی وزارت خارجہ کو بھی اہم ذمہ داری دی جائے گی تاکہ قومی سطح پر مکمل ہم آہنگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ پاکستان رواں سال نومبر میں باکو، آذربائیجان میں ہونے والی کانفرنس آف پارٹیزمیں اس تجویز کو بھرپور طریقے سے پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

 

 

chitraltimes high level meeting held at the Ministry of Climate Change on leopard MoCC

 

 

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رومینا خورشید عالم نے پاکستان کی جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے دیرینہ عزم کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا، “برفانی چیتا صرف قدرتی خوبصورتی کی علامت نہیں، بلکہ موسمیاتی تبدیلی کا ایک اہم اشارہ ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات کا سامنا کر رہے ہیں، اور ہم اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کے لیے پرعزم ہیں۔”

 

پاکستان کے وائلڈ لائف کے سفیر سردار جمال احمد خان لغاری نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا، “پاکستان عالمی سطح پر برفانی چیتے کو موسمیاتی موافقت کی علامت کے طور پر تسلیم کروانے کے لیے گلوبل سنو لیپرڈ اینڈ ایکو سسٹم پروٹیکشن پروگرام کے رکن ممالک کے ساتھ مل کر بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہماری مشترکہ کوششیں اقوام متحدہ میں اس تجویز کی کامیاب منظوری کا سبب بنیں گی، اور پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے آواز عالمی سطح پر مزید مضبوط ہوگی۔”

 

سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر محمد علی نواز نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان برفانی چیتے کی ایک اہم آبادی کا مسکن ہے، جس میں سے کئی برفانی چیتوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ جب یہ قرارداد اقوام متحدہ میں پیش کی جائے گی، تو یہ نہ صرف عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے آگاہی میں اضافہ کرے گی بلکہ پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کو بھی بہتر بنائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اقدام سے ان تمام علاقوں میں بھی تحفظ کی کوششوں کو تقویت ملے گی جہاں برفانی چیتے پائے جاتے ہیں۔

 

گلوبل سنو لیپرڈ اینڈ ایکو سسٹم پروٹیکشن پروگرام کے نمائندے کوستب شرما نے پاکستان کی قیادت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس اہم اقدام سے برفانی چیتے کے تحفظ میں نمایاں بہتری آئے گی۔ انہوں نے مزید کہا، “آنے والی کانفرنس میں بہت سا کام باقی ہے، لیکن ہم پرعزم ہیں کہ اس مسئلے کی سنگینی کو اُجاگر کریں گے تاکہ کانفرنس آف پارٹیز میں شریک ممالک کے نمائندے اس پر مؤثر پیشرفت کو یقینی بنا سکیں۔”

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged ,
94101

جب ناچ اور گانا سرکاری سطح پر ترجیح بن جائے . خاطرات : امیرجان حقانی

Posted on

جب ناچ اور گانا سرکاری سطح پر ترجیح بن جائے . خاطرات : امیرجان حقانی

 

دنیا کی تاریخ میں قوموں کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار ہمیشہ ان کی فکری،معاشی، علمی، سائنسی، معاشرتی اور اخلاقی بنیادوں پر رہا ہے۔ وہ قومیں جنہوں نے علمی ترقی، معاشرتی استحکام اور انصاف کو اپنا مقصد بنایا، دنیا میں ہمیشہ کامیاب رہیں۔ لیکن جب قومیں اپنے اصل مقاصد سے ہٹ کر ناچ گانے اور عیش و عشرت میں مگن ہو گئیں، تو ان کا زوال یقینی ہوگیا۔ یہ حقیقت تاریخ کے صفحات میں بارہا دہرائی جا چکی ہے۔\

 

اسلام تفریح اور خوشی کے مواقع سے انکار نہیں کرتا۔ ناچنا اور گانا اپنی حدود میں جائز ہو سکتا ہے، بشرطیکہ یہ انسان کی روحانی اور فکری ترقی میں خلل نہ ڈالے۔ تاہم، جب یہ ایک قوم کا اجتماعی عمل بن جائے، خصوصاً سرکاری سطح پر، اور ہر سنجیدہ تقریب میں ناچ گانے کو لازمی سمجھا جانے لگے، تو یہ زوال کی طرف واضح قدم ہوتا ہے۔

 

عیش و عشرت سے زوال تک اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو کئی عظیم قومیں جنہوں نے دنیا میں اہم مقام حاصل کیا تھا، وہ اپنے زوال کی طرف اس وقت گئیں جب ان کے حکمران اور عوام دنیاوی عیش و عشرت اور تفریح میں محو ہوگئے۔ مسلم اندلس (اسپین) کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں ایک عظیم تہذیب کے زوال کی اہم وجہ وہاں کے حکمرانوں اور عوام کا تفریح، ناچ گانے اور عیش و عشرت کی طرف رجحان تھا۔ جب قومیں اپنی فکری اور علمی ترقی سے ہٹ کر محض تفریح اور بے مقصد مشاغل میں مگن ہوجاتی ہیں، تو وہ اپنی بنیادیں کھو دیتی ہیں۔ عظیم قومیں اپنے آپ کو ناچ گانوں اور کبوتر اڑانے تک محدود نہیں رکھتیں۔

 

گلگت بلتستان میں ناچ گانے کا فروغ بڑے پیمانے پر دیا جارہا ہے، یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ حالیہ سالوں میں گلگت بلتستان میں کئی سرکاری تقریبات اور سنجیدہ پروگراموں میں ناچ گانے کو لازمی جزو سمجھا جانے لگا ہے۔ سرکاری ملازمین اور وزراء کے لیے خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں کہ وہ عوامی یا سرکاری تقریبات میں شرکت کرتے ہوئے ناچیں اور خوشی منائیں۔ سرکاری عمال کے ناچ کی معیاری ویڈیو تیار کروائی جاتیں ہیں اور بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا کے مختلف فورمز پر، ان کو وائرل کروائی جاتیں ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ ان محفلوں میں بیٹھے بڑے بڑے اساتذہ، پروفیسر اور نونہالان قوم کو تعلیم و تربیت سے مزین کرنے والے بھی سرور و مستی میں رقصاں نظر آتے ہیں اور اکثر تعلیمی اداروں میں سماجی و سرکاری رہنماؤں کو بلاکر ناچ گانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ علمی و سماجی موضوعات پر ہونے والی تقریبات کی بھی وہ تقاریر اور مکالمے وائرل نہیں ہوتیں جن کے لئے یہ تقاریب منعقد کی گئی تھی، بلکہ ناچ گانے اور تھرکنے والی ویڈیوز منٹوں میں ہر جگہ پہنچ جاتی ہیں۔ آخر یہ سب کیا ہے؟ ۔

 

یہ رجحان نہ صرف معاشرتی بگاڑ کا باعث ہے بلکہ قوم کی فکری پستی کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ ایسے وقت میں جب ملک اور گلگت بلتستان کو فکری اور معاشی ترقی کی ضرورت ہے، حکومتی سطح پر ناچ گانے کا فروغ قوم کو ایک خطرناک سمت میں لے جا رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو قوم نے اسمبلیوں میں بھیجا ہے اور جن کو عوامی ٹیکس اور خزانہ سے بھاری بھرکم تنخواہیں اور مراعات دی جاتیں ہیں وہ قوم کی ڈوبی کشتی کو بچانے کی فکر کرنے کی بجائے ناچ گانوں کی محفلیں منعقد کرکے مختلف سروں پت تھرک رہے ہیں ۔

 

اسلام ہمیں کام اور ذمہ داری کے بارے میں بہت واضح ہدایات دیتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں کئی مواقع پر انسان کی ذمہ داری اور محنت کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے عظیم حکمران اپنے عہد کے دوران اپنی قوم کو فکری، معاشرتی اور علمی ترقی کی طرف لے گئے۔ اگر وہ بھی ناچ گانے کو اہمیت دیتے اور اپنی قوم کو تفریح کی طرف راغب کرتے تو اسلامی تاریخ کا رخ مختلف ہوتا۔

 

گلگت بلتستان کی سرکاری تقریبات میں سنجیدگی کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔گلگت بلتستان میں سرکاری تقریبات کا اصل مقصد قوم کی فکری اور معاشرتی ترقی ہونا چاہیے، لیکن جب ان تقریبات میں ناچ گانے کو سرکاری سطح پر رواج دیا جاتا ہے، تو یہ قوم کو ایک بے مقصد تفریح میں مشغول کرنے کے مترادف ہے۔ وزراء اور ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ اپنی توانائیاں قوم کی خدمت، تعلیم، اور معاشرتی فلاح و بہبود پر مرکوز کریں، نہ کہ عوامی تقریبات میں ناچنے پر۔

 

کامیاب قومیں وہ ہوتی ہیں جو اپنی ترجیحات کو درست رکھتی ہیں اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سخت محنت کرتی ہیں۔ قوموں کی ترقی کا راز ناچ گانے میں نہیں، بلکہ علم، فکر، انصاف اور ذمہ داری کے ساتھ کام کرنے میں ہے۔ اگر ہم اپنی قوم اور علاقے کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں تفریح کو محدود رکھنا ہوگا اور اپنی توجہ ان امور پر مرکوز کرنی ہوگی جو قوم کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہیں۔

 

ناچ گانے کو سرکاری تقریبات کا حصہ بنانا قوم کے زوال کی طرف قدم بڑھانے کے مترادف ہے۔ تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے، ہمیں اپنی ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا اور ان سرگرمیوں کو ترک کرنا ہوگا جو قوم کی فکری اور معاشرتی ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔

 

ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں ناچ گانے کو اکثر غذر اور ہنزہ کے لوگوں سے منسوب کیا جاتا ہے، اور بدقسمتی سے ہمارے ہنزائی اور غذری بھائی بھی کبھی کبھار سرکاری سطح پر منعقد ہونے والے غیر سنجیدہ اور بیہودہ ناچ گانے کو اپنے کلچر کا حصہ بتاتے ہوئے اس کا دفاع کرنے لگتے ہیں۔ یہ سوچ بنیادی طور پر غلط اور تاریخ سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔

 

یاد رہے کہ غذر اور ہنزہ کے لوگوں کی ثقافت اور روایات نہایت شاندار اور قابل فخر ہیں۔ ان کی مہمان نوازی، بہادری، اور تہذیب دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ ان علاقوں کا ثقافتی ورثہ عظیم اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے، جو کسی صورت میں محض ناچ گانے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ ناچ گانا ایک وقتی خوشی کا اظہار ہو سکتا ہے، لیکن اسے ان علاقوں کی تہذیب و تمدن کا نمائندہ قرار دینا ایک سطحی اور غیر معقول بات ہے۔

 

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خوشی کے مواقع پر گلگت بلتستان کے تمام علاقوں کے لوگ اپنی روایات کے مطابق خوشی مناتے ہیں، جس میں رقص و سرود بھی شامل ہوتا ہے۔ تاہم، اسے محض چند مخصوص علاقوں یا لوگوں سے جوڑنا اور ان کی ثقافت کو صرف اسی بنیاد پر محدود کرنا انصاف نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان علاقوں کے عظیم ثقافتی ورثے کو درست تناظر میں سمجھیں اور اسے محض سطحی تفریحات سے منسوب کرنے کی بجائے اس کی گہرائی اور عظمت کا احترام کریں۔ غذر اور ہنزہ کے لوگوں کا کلچر صرف رقص و موسیقی پر مبنی نہیں بلکہ اس میں علم، ادب، مہمان نوازی، اور اجتماعی بہبود جیسے اعلیٰ اقدار شامل ہیں۔ یہ لوگ اپنی تہذیبی روایات کے ساتھ ساتھ جدید تقاضوں کا بھی ادراک رکھتے ہیں اور اپنے علاقے کی تعمیر و ترقی میں ہمیشہ فعال کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

 

ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ ناچ گانا، جیسے بھی ہو، کسی علاقے کی مجموعی شناخت کو محدود نہیں کرسکتا۔ جب ہم کسی قوم یا علاقے کی بات کرتے ہیں، تو ہمیں ان کی پوری تاریخ، روایات، اور معاشرتی خدمات کا جائزہ لینا چاہیے، نہ کہ ان کی تفریحی سرگرمیوں کو ان کی پہچان بنانا چاہیے۔

 

یہ بہت اہم ہے کہ سرکاری سطح پر منعقد ہونے والی تقریبات میں بھی اسی سنجیدگی اور وقار کا مظاہرہ کیا جائے جو ان علاقوں کے لوگوں کی ثقافت کا حصہ ہے۔ ناچ گانے کو گلگت بلتستان یا کسی بھی علاقے کے عظیم کلچر کا نمائندہ قرار دینا انتہائی غلط فہمی ہے اور اس کو فروغ دینا ان علاقوں کی اصل ثقافت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔

 

غذر اور ہنزہ کے لوگ اپنی روایات، علم و دانش، اور فکری ترقی کی بدولت ہمیشہ قابل احترام رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان کی ثقافت کو اس انداز میں پیش کریں جس سے ان کی عظمت اور تاریخی ورثہ صحیح طور پر اجاگر ہو، اور اس میں وہ عناصر شامل ہوں جو ان کے وقار اور سماجی خدمات کو نمایاں کریں، نہ کہ محض ناچ گانے جیسی سطحی سرگرمیوں کو۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
94058

چترال سے گلگت ،ہنزہ ویلیزاورسکردو کا ایکسپوژر وزٹ  – تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر

چترال سے گلگت ،ہنزہ ویلیزاورسکردو کا ایکسپوژر وزٹ  – تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر

کوہ ہمالیہ، کوہ قراقرم اور کوہ ہندوکش کے دامن میں واقع گلگت بلتستان اورچترال کے فلک بوس پہاڑ،سرسبزوشاداب صحت افزامقامات،خوبصورت آبشاریں چشمے ،گھنے جنگلات،نیلے رنگ کے دلفریب جھیلیں،قدیم ثقافت اوریہاں کے مہمان نوازی پاکستان بلکہ دنیابھرسے سیاحوں کی توجہ کامرکزہے اسی لئے ہر سال ملکی و غیر ملکی سیاح قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے کےلئے یہاں کھنچے چلے آتے ہیں ۔

 

 

20ستمبر2024کوآغاخان ایجنسی فارہبیٹاٹ نے سرچ اینڈریسکیوٹیم (SART)،ریجنل اورلوکل ڈیزاسٹراسسمنٹ ٹیم (DART) کے میل اورفیملزرضاء کاروں کوسات روزہ معلوماتی دورے پربھیجنے کافیصلہ کیا۔جس میں مجھ ناچیز کانام بھی شامل تھا ۔اس 17رکنی ٹیم کی سربراہی آکاہ کی طرف سے ٹیم لیڈر عیسیٰ خان اس کے ساتھ سینئرجیالوجسٹ ضیاء الدین اورناصرالدین کررہے تھے۔

 

20ستمبرکے 8بجے آکاہ کے ہیڈآفس بلچ لوئرچترال سے کوسٹرگاڑی میں اپناسفربراستہ شندورآغازکیا راستے میں ہمارے گروپ کے کچھ دوست قافلے میں شامل ہوئے۔چترال سے گلگت تک خراب سڑکوں کی وجہ سے چلتی ہوئی گاڑی ہمیں رینگتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ٹوٹے پھوٹے راستوں میں گاڑی زور زور سے ہچکولے کھاتی تھی ہم اندر سیٹوں پہ بیٹھے اوپر اچھلتے تھے۔جگہ جگہ روڈکھولنے کاانتظارکرتے ہو ئے مس جنالی شندورسے آگے اندھیرا چھاگیا۔آس پاس کے خوب صورت مناظر کو بھی جی بھر کے دیکھنے کا موقع نہ ملا ۔ وہ کچی ٹوٹی پھوٹی سڑک کبھی کھیتوں کے بیچ سے ،کبھی ندی نالوں کے ساتھ ساتھ،کبھی خشک پہاڑوں کے دامن سےگزر کربہرحال رات کے ایک بجے ہم گوپس پہنچ گئے۔

 

chitraltimes akah Gilgilt baltistan visits GB 2

21ستمبرکوگوپس کے نواحی گاؤں ہوپرمیں آغاخان ایجنسی فارہبیٹاٹ نےگلگت بلتستان اورچترال کے رضاکاروں کامشترکہ سیمولیشن کاانعقاد کیاتھا ۔جس میں چترال اورگلگت بلتستان کے کمیونٹی ایمرجنسی رسپانس ٹیمزکے میل وفیمل رضاکاروں نے سیلاب،زلزلہ اوردیگرقدرتی آفات میں جدیدتقاضوں کے مطابق حکمت عملیاں اپناکرزیازہ سے زیادہ جان ومال کومحفوط کر نےکے حوالے سے تجرباتی مشق کئے جس میں آرسی سی ،کچےمکانوں ، پہاڑوں اورندی نالوں میں پھسے ہوئے متاثرین کوباحفاطت نکالنے کی پریکٹیکل پریکٹس کرکے حاضرین سے مزیدحوصلہ افزائی کے داد حاصل کئے۔حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ریجنل پروگرام منیجرآکاہ گلگت بلتستان ڈاکٹرنذیراحمد اوردوسروں نے بتایاکہ اکاہ نے چترال اورگلگت بلتستان میں ایک لاکھ سے زیادہ نوجوانوں کوتربیت دی ہے جو دورافتادہ علاقوں میں قداتی آفات کے موقع پرحکومت کے شانہ بشانہ کام کررہے ہیں۔سیمولیشن سے فارع ہوکرہم اپناسفرجاری رکھتے ہوئے جگہ جگہ پر کام ہورہاتھا روڈ کھولنے کاانتظارکرتے ہوئے آخرکار رات 12 بجے گلگت شہرپہنچ گئے ۔

 

 

chitraltimes akah Gilgilt baltistan visits GB 10

 

 

 

22ستمبرکوگلگت سے وادی ہنزہ کی طرف اپناسفرکاآغاکرتے ہوئے راستے میں رکاپوشی سمیت دوسرے خوبصور ت مناظراپنے کیمرے کے آنکھ میں بندکرتے ہوئے شام کے قریب ہنزہ پہنچ کروہاں رات گزارنے کااہتمام کیا ۔گروپ لیڈرعیسیٰ خان گروپ کے تمام ممبروں کاخیال رکھتے ہوئے اُن کے مرضی کے مطابق روزانہ کی بنیاد پرشیڈول بنایاکرتے تھے ۔گروپ کے اکثرممبروں کاان خوبصورت علاقوں کاپہلاسفرتھا ۔وہ ہرخوبصورت مقامات پرٹائم گزارناچاہتے تھے مگروقت کی پابندی کاخیال رکھتے ہوئے اپنے دوسرے منزل کی طر ف روانہ ہوتے تھے ۔

 

 

chitraltimes akah Gilgilt baltistan visits GB 11

 

23ستمبرکو بلتت فورٹ کودیکھنے کے بعدعطاء آباد ،گلمت ،حسینی پل ، سست اوردوسرے سیاحتی مقامات کی طرف اپنے قافلے کے ساتھ روانہ ہوا۔گاڑی میں بیٹھ کرگلمت میں ایک عزیزدوست بھائی کی یادآئی جیب سے موبائل نکال کرفون کیا۔میرے محترم دوست میربازخان پیشے کے لحاظ سے ایس ایس ٹی ٹیچرہے اورایک معروف کالم نگار اورخدمت خلق سے سرشارشخصیت ہیں ۔انہوں نے ہمیں گلمت میں چائے کی دعوت دی ۔جہاں انہوں نے وادی گلمت کی روایتی خوراک مولیدہ ہمیں پیش کئے جووادی گوجال کی خاص پکوان ہے ۔اس موقع پرآکاہ کے سابق سی ای اوسلمان الدین شاہ سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی۔سلمان الدین شاہ ،میربازخان اورعلی احمدنے ہماری مہمان نوازی میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔وادی گوجال کے روایتی کھانوں میں مولیدہ، چھپ شورو،غلمندی ،گرل چموس اوردوسرے خوش ذائقہ کھانے شامل ہیں ۔

 

chitraltimes akah Gilgilt baltistan visits GB 3

گلمت سے پھسو کونزکودیکھنے کے لئے چلے گئے۔پھسوکونز ایک ایسا پہاڑ ہے جہاں کوئی بھی سیاح ہنزہ آتا ہے تو وہ اس پہاڑ کے سامنے رک کر تصویر ضرور بناتا ہے۔ہمارے گروپ ممبرتصویرکھینچنے کے بڑے دلدادہ تھے خوب انجوائی کرنے کے بعدواپس دریائے ہنزہ کے اوپرتعمیرکردہ خطرناک حسینی پل کودیکھنے کے لئے وہاں پہنچ گئے۔

 

حسینی پل دنیاکے خطرناک ترین پلوں میں دوسرے نمبرپر ہے۔ دریائے ہنزہ پر قائم حسینی پل کو پاکستان کا خطرناک ترین پل تصور کیا جاتا ہے۔ ایک وقت میں صرف ایک فرد دریا کو عبور کرنے کیلئے اس کو استعمال کر سکتا ہے کیونکہ وزن زیادہ ہونے کے باعث اس کے گرنے کا خطرہ ہے۔660فٹ طویل یہ پیدل چلنے والوں کا پل حسینی نامی گاؤں کونوآباد گاؤں زراآباد سے ملاتاہے ۔ اس پل پر ایک سے دو فٹ کے فاصلے پر لکڑی کے تختوں کے علاوہ کچھ نہیں۔اس پل پرچلنے والوں کو بس احتیاط سے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے ان تختوں پر پیرجماکرچلناچاہیے ۔ ذرا سی غفلت سے نیچے دریائے ہنزہ میں گرنے کاخطرہ ہے ۔میں چنددوستوں کے ہمراہ اس پل کوعبورکرنے میں کامیاب ہوگیااورکچھ دوست پل کراس کرنے کی ہمت نہیں کی ۔یہاں سے واپسی میں عطاء آباد جھیل میں کشتی کی سواری کا مزہ اُٹھایا۔کشتی والوں نے حفاظتی جیکٹ کے بغیربیٹھنے نہیں دیتے ہیں ۔حفاظتی جیکٹس کی فراہمی سے انسانی جانوں اور جھیل کے سفر کو محفوظ بنایا جاتاہے۔

 

 

chitraltimes akah Gilgilt baltistan visits GB 5

 

عطاء آبادجھیل یو محسوس ہوتا ہے جیسے سر بفلک پہاڑوں کے دامن میں کسی نے صاف شفاف پانی کا تالاب بنا دیا ہو۔یہاں کے حسین خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے بعدرات کے دس بجے گلگت شہرپہنچ کرقیام کیا
24ستمبرکوگلگت سے سکرود کی طرف اپناسفرجاری رکھتے ہوئے شنگریلا جھیل کا صاف شفاف پانی، خوبصورت نظارے اور فرحت بخش موسم سے لطف اندوز ہوئے۔ قدرتی حسن سے مالا مال شنگریلا جھیل دنیا بھر میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے، شنگریلا جھیل کے اطراف ان دنوں قدرت کے شاہکار ایسے بکھرے پڑے ہیں کہ پورا علاقہ جنت کا نظارہ پیش کررہا ہے۔سکردواوراورہنزہ میں بے پناہ قدرتی خوبصورتی اوردلچسپ مقامات بے شمارہیں یہی وجہ ہے کہ ان دونوں وادیوں میں سیاحوں کارش بہت زیادہ رہتاہے یہاں سے فارع ہوکرسکردوبازارمیں خوب گھوم پھرنے کے بعدقیام کیا

 

chitraltimes akah Gilgilt baltistan visits GB 8

 

25ستمبرکوقلعہ شگرکودیکھنے کے لئے روانہ ہوگئے جہاں چارسوسال پرانے چھوٹاساقلعہ ہے پھونگ کھرکے نام سے پھونگ کھربلتی زبان میں گھرکوکہتے ہیں۔ اس قلعے کو آغا خان کلچرل سروس پاکستان نے 2004 کوبحال کیا۔ بحالی کے بعد قلعہ کو ایک میوزیم اور ہوٹل میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہاں سے ہمارے ٹیم کی واپسی کاسفرشروع ہوا دوپہرکاکھانا سکردوکے مقامی ہوٹل میں کھانے کے بعدہم اپناسفرجاری رکھتے ان مشکل ترین سڑکوں سے ہوتے ہوئے رات ایک بجے گوپس کے ایک مقامی ہوٹل میں پہنچ گئے جہاں پہلےسے ٹیلی فونگ کمرہ بک کروایاتھا۔

chitraltimes akah Gilgilt baltistan visits GB 4

26ستمبرکوگوپس سے براستہ شندور اپناسفرجاری رکھتے ہوئے ضلع غذرکے خوبصورت وادی سنگل،یانگل، پھنگل، پھنڈر، ٹیرواوردوسرے مقامات کے دلفریب مناظر سے لطف اندوز ہوئے ۔اس موقع پرخلتی پل میں تصویرکشی کے بعدخلتی گاؤں کی سیرکی یہاں کے باسیوں نے ہمیں چائےاور کھانے کی دعوت دی مگروقت کی کمی کی وجہ سے ٹھہرنہ سکے۔گوپس سے 22گھنٹے مسلسل سفرکے بعدواپس اللہ تعالیٰ کی وفضل کرم سے بخیرعافیت چترال پہنچ گئے ۔

 

اس گروپ میں ٹیم لیڈرعیسیٰ خان ،ڈپٹی ڈی ای اوفیمل لوئرچترال زبیدہ خانم ،شائستہ جہاں،شاکراللہ،شہزادہ احمدشہزادہ،امجدرحیم ،قربان خان،رب نواز،حسب اللہ،شاکرعلی تاج،رحمت نادر،سردارحسین ،حنیف احمد،ضیاء الدین ، مہناس اسماعیل ،ناصرالدین ،سیدنذیرحسین شاہ ،ڈرائیورتوصیف الرحمن اورشاگرداعجازاحمدشامل تھے

 

ان کھنڈرنمامشکل ترین سڑکوں سے ہوکرسیاحتی علاقوں میں پہنچ کر سفر کی تھکان کی وجہ سے سیر وتفریح کا وہ مزہ باقی نہیں رہتا جسے سوچ کرہم یہاں تک پہنچے تھے۔ ہرگاوں کے مقامی لوگوں کا حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ سیاحت کے شعبے کی ترقی کے لئے حکومت کو انفراسٹرکچر خصوصا سڑکوں کی تعمیر پر انتہائی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہر آنے والے شخص کی زبان پر سہولیات کی فقدان اور متعلقہ علاقوں تک رسائی کا شکوہ رہتا ہے۔

 

chitraltimes akah Gilgilt baltistan visits GB 7 chitraltimes akah Gilgilt baltistan visits GB 1

chitraltimes akah Gilgilt baltistan visits GB 6

chitraltimes akah Gilgilt baltistan visits GB 9

 

 

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
94020

ماحولیاتی تحفظ کے لیے گلوبل اسماعیلی سوک ڈے کے موقع پر گر م چشمہ لوئر چترال میں آگاہی واک اور صفا ئی مہم کا اہتمام

ماحولیاتی تحفظ کے لیے گلوبل اسماعیلی سوک ڈے کے موقع پر گر م چشمہ لوئر چترال میں آگاہی واک اور صفا ئی مہم کا اہتمام

 

چترال( نمائندہ چترال ٹائمز )گلوبل اسماعیلی مسلم کمیونٹی، 29 ستمب2024کو گلوبل اسماعیلی سوک ڈے مناتی ہے۔ گلوبل اسماعیلی سوک ڈے کے موقع پر، دنیا بھر میں مختلف قسم کی سرگرمیاں بیک وقت رونما ہوں گی۔ اس موقع پر اسماعیلی کونسل برائے لو ئر چترال نے ڈی جے ہال زیارت گر م چشمہ میں ایک پروگرام منعقد کیا۔جس میں گورنمنٹ اوراے کے ڈی این کے نمائندوں کے علاوہ اسماعیلی کونسل لوئرچترال کے ممبرز، والنئٹرز، سکاوٹ اور گر م چشمہ کے عوام نے شرکت کی۔

 

اس موقع پر ذیارت سے با زار گر م چشمہ ادے تک آگاہی واک منعقد کی گئی اور ساتھ ہی صفائی مہم کا اہتمام بھی ہوا۔ جس میں والنئٹرز، سکاوٹس کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی۔
تقریب سے خطا ب کرتے ہوئے اسکالر اطراب پاکستان جناب فدا احمدنے اسماعیلی سوک پروگرام کے مقصد کے با رے میں شراکا کو اگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں انفرادی سوچ کو بالاتر کر کے اجتما عی سوچ کے سا تھ مل کر صاف ماحول کو یقینی بنا نے میں ا پنا کردار ادا کر نا ہوگا۔

 

لفٹنٹ کرنل جناب وقاص نے اپنے تقرر میں اسماعیلی سوک پروگرام کے منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور AKDN کے Initiatives کو سراہا، ساتھ اس با ت پرزور دیا کہ اسلامی تعلیمات کے روشنی میں ہم سب کوصفائی کا خاص خیال رکھنا چایٗے تاکہ ایک صاف اور پرفضائما حول کے قا ٗیم ممکن بنا سکیں۔

اسماعیلی سوک ایک بین الااقوامی پروگرام ہے جس کے تحت دنیا بھر میں شیعہ اسماعیلی مسلم کمیونٹی متحد ہوکر انسانیت کی رضاکارانہ خدمت کی صدیوں پرانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ان کمیونٹیز کے معیار زندگی کو بہتر بناتی ہے جن میں وہ رہتے ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی عقیدے، جنس اور نسب سے ہو۔ یہ بین الاقوامی کاوش اسماعیلی مسلم کمیونٹی کی شہری مشغولیت اور ذمہ دار شہری کی اخلاقیات کی عکاسی کرتی ہے، جو اسلام کی بنیادی خدمت، امن، ہمدردی اور کمزوروں کی دیکھ بھال کے اقدار کی مثال ہیں۔

 

اس موقع پر کونسل برائے لوئر چترال کے صدر نے کہا کہ اسماعیلی سوک ایک بین الااقوامی پروگرام ہے جس کے تحت دنیا بھر میں شیعہ اسماعیلی مسلم کمیونٹی متحد ہوکر انسانیت کی رضاکارانہ خدمت کے لیے مل کر کام کرتے ہوئے ان کمیونٹیز کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے –

 

پاکستان میں اسماعیلی سوک کا باقاعدہ آغاز 2021 میں ہوا۔ اپنے قیام کے بعد سے اب تک ۰ ۳ لاکھ سے زائد درخت لگائے اور 120,000 رضاکاروں نے 200,000 سے زائد گھنٹو ں کی خدمات کا نظرانہ پیش کیا۔اس کے علاوہ 250 سے زائد عوامی مقامات پر صفائی مہم کے ذریعے 80,000 کلو گرام پلاسٹک، ردی، اور دیگر مواد جمع کیا۔ شجرکاری اور صفائی مہم کے علاوہ، پاکستان میں اسماعیلی کمیونٹی نوجوانوں میں آگہی پیدا کرنے کے لیے مختلف سرگومیوں کا انعقاد بھی کرتا ہے۔

 

 

chitraltimes ismaili civic day celebration garamchashma chitral lower itreb ak council 1

chitraltimes ismaili civic day celebration garamchashma chitral lower itreb ak council 3 chitraltimes ismaili civic day celebration garamchashma chitral lower itreb ak council 5 chitraltimes ismaili civic day celebration garamchashma chitral lower itreb ak council 6

chitraltimes ismaili civic day celebration garamchashma chitral lower itreb ak council 4 chitraltimes ismaili civic day celebration garamchashma chitral lower itreb ak council 7 chitraltimes ismaili civic day celebration garamchashma chitral lower itreb ak council 8 chitraltimes ismaili civic day celebration garamchashma chitral lower itreb ak council 9 chitraltimes ismaili civic day celebration garamchashma chitral lower itreb ak council 10 chitraltimes ismaili civic day celebration garamchashma chitral lower itreb ak council 11 chitraltimes ismaili civic day celebration garamchashma chitral lower itreb ak council 12 chitraltimes ismaili civic day celebration garamchashma chitral lower itreb ak council 13 chitraltimes ismaili civic day celebration garamchashma chitral lower itreb ak council 14 chitraltimes ismaili civic day celebration garamchashma chitral lower itreb ak council 15 1 chitraltimes ismaili civic day celebration garamchashma chitral lower itreb ak council 1 chitraltimes ismaili civic day celebration garamchashma chitral lower itreb ak council 2 chitraltimes ismaili civic day celebration garamchashma chitral lower itreb ak council 3

chitraltimes ismaili civic day celebration garamchashma chitral lower itreb ak council 2chitraltimes ismaili civic day celebration garamchashma chitral lower itreb ak council 4

 

 

 

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
93810

گلوبل اسماعیلی سویک ڈے کے موقع پر آغا خان ہائیرسیکنڈری سکول چترال میں تقریب اورآرٹ کی نمائش 

گلوبل اسماعیلی سویک ڈے کے موقع پر آغا خان ہائیرسیکنڈری سکول چترال میں تقریب اورآرٹ کی نمائش

 

چترال ( چترال ٹائمزرپورٹ ) 28 ستمبر 2024 کو آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول چترال میں گلوبل اسماعیلی سیوک ڈے “Spotlighting activities that will help safeguard and care for the environment.” کے تھیم کے تحت منایا گیا۔ اس دن کا مقصد نہ صرف ماحولیاتی تحفظ کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا تھابلکہ طلباء کو سماجی اور ماحولیاتی ذمہ داریوں کے حوالے سے احساس دلانا بھی تھا۔ سکول کے تمام اساتذہ اور طلباء اس ایونٹ میں شامل ہوئے. جب کہ سین لشٹ جماعت خانہ کے رضا کار بھی اس کا حصہ بنے۔ تقریب میں مہمان کی حیثیت سے  ظفر الدین، صدر ریجنل کونسل اور   عبدالمجید، فارسٹ آفیسر ضلع چترال لوئر نے بھی شرکت کی۔

 

سرگرمیوں کا آغاز طلباء کی جانب سے آرٹ ورک کی نمائش سے ہوا، جس میں طلباء نے اپنے فن پاروں کے ذریعے ماحولیاتی تحفظ سے متعلق حقائق کو حاضرین کے سامنے پیش کیا.

اس کے بعد سکول کی اسمبلی میں گلوبل اسماعیلی سیوک ڈے کی اہمیت پر پرنسپل نے خطاب کیا اور اس دن کی افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے ماحولیاتی تحفظ کی ضرورت پر زور دیا۔

بعدازاں دسویں جماعت کے طلباء اپنے اساتذہ کی قیادت میں سکول کے قرب و جوار میں صفائی مہم کا آغاز کیا. کمیونٹی سنٹر سین لشٹ کے رضا کار اور بوائے سکاؤٹس کے اہلکاروں نے بھی اس مہم میں طلباء کا ساتھ دیا. اس کے ساتھ ہی پلاسٹک بوتلوں کی تخلیقی نمائش بھی کی گئی، جس میں طلباء نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ کس طرح ہم روزمرہ کی اشیاء کو دوبارہ استعمال کے قابل بنا کر آلودگی کا باعث بننے والے فضلہ کو کم کر سکتے ہیں۔
آوٹ ڈور سرگرمیوں کا اختتام سکول کے احاطے میں پودے لگانے کے ساتھ ہوا، جس میں اساتذہ، طلباء، مہمانان اور رضا کاروں نے مل کر درخت لگائے، تاکہ ماحول کی بہتری کی کوششوں کو مزید تقویت دی جا سکے۔

9 بجتیہی سکول کے اٹریئم میں انڈور پروگرام کا آغاز ہوا، جہاں طلباء نے مختلف پرفارمنسز اور پریزنٹیشنز پیش کیں۔ پروگرام کی میزبانی دسویں جماعت کے طلباء جواد علی، آفاق احمد اور عماد الدین نے کی۔ قرآن مجید کی تلاوت کا شرف محمد سہراب الدین کو حاصل ہوا، جب کہ طالب علم سید افتخار حسین شاہ نے نعت شریف پیش کی، جس نے محفل کو روحانی رنگ دیا۔ اس کے بعد پرنسپل آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول چترال طفیل نواز صاحب نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور گلوبل اسماعیلی سویک ڈے کے مقاصد، اہمیت اور ضرورت پر ایک جامع اور پُرمعز گفتگو کی.

پروگرام میں ماحولیاتی مسائل پر طلباء کی پریزنٹیشنز نے سامعین کو سوچنے پر مجبور کیا۔ دسویں جماعت کے طلباء نے جانوروں کے حد سے زیادہ شکار، جنگلات کی بے دریغ کٹائی، اور چراگاہوں میں زیادہ چرائی جیسے اہم ماحولیاتی مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ بارہویں جماعت کے طلباء نے ماحولیاتی تبدیلی پر ایک ٹاک شو پیش کیا، جسے سامعین نے بے حد سراہا.

پروگرام میں تخلیقی مواد بھی شامل تھا، جس میں کرم علی کرم کی شاعری، عالمی حدت کے موضوع پر حسن مرتضیٰ کی اردو تقریر اور
A diary entry on the flora of AKHSS
کے موضوع پر گفتگو پیش ہوئی۔ اس کے علاوہ، دسویں جماعت کے طلباء کی طرف سے تیار کردہ ایک ویڈیو ڈرامہ “فطرت کا انتقام ” بھی چلایا گیا، جس میں ماحولیات سے متعلق برتی جانے والی بے حسی کے بھیانک انجام کو نہایت خوبی کے ساتھ دکھایا گیا.

 

آخر میں سکول کے میوزک کلب نے چترال کا ایک قدیم لوک گیت پیش کیا جس نے پروگرام میں دلکش رنگ بھرا. اس کے بعد مہمانان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مہمان خصوصی ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر جناب عبدالمجید نے ماحولیاتی تحفظ اور پائیداری پر گفتگو کی اور سکول کی اس کوشش کو سراہا کہ وہ نوجوانوں میں ماحولیاتی مسائل کے بارے میں آگاہی پیدا کر رہا ہے۔ اس کے بعد صدر ریجنل کونسل ظفر الدین صاحب نے دن کی اہمیت پر خطاب کیا
وائس پرنسپل نسرین نیت نے آخر میں مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

سکول کے دوسری شفٹ میں زیر تعلیم طالبات نے پروگرام کے اسی خاکے کی پیروی میں یہ دن منایا اور پورے جوش و خروش کے ساتھ اس میں شرکت کی.

 

chitraltimes akhss seenlasht chitral civic day celebration 8

chitraltimes akhss seenlasht chitral civic day celebration 7

chitraltimes akhss seenlasht chitral civic day celebration 1 chitraltimes akhss seenlasht chitral civic day celebration 3 chitraltimes akhss seenlasht chitral civic day celebration 4 chitraltimes akhss seenlasht chitral civic day celebration 6

chitraltimes akhss seenlasht chitral civic day celebration 5

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
93799

26ستمبر سے 01 اکتوبر تک چترال سمیت بالائی/وسطی علاقوں میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش کی پیشگوئی

26ستمبر سے 01 اکتوبر تک چترال سمیت بالائی/وسطی علاقوں میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش کی پیشگوئی

 

اسلام آباد ( چترال ٹائمز رپورٹ ) محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کے مطابق 25ستمبر سے مرطوب ہوائیں خلیج بنگال سے ملک کے بالائی علاقوں میں داخل ہونے کا امکان ہے۔جبکہ ایک مغربی لہر 26 ستمبر کو ملک کے بالائی حصوں میں داخل ہو رہی ہے۔جس کے باعث

 

خیبر پختونخوا: 26 ستمبر (شام/رات )سے01 اکتوبر کے دوران: چترال، دیر، سوات، کوہستان، شانگلہ، بٹگرام، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور ،بونیر ،مالاکنڈ، باجوڑ، مہمند، خیبر، پشاور، صوابی، نوشہرہ، مردان، چارسدہ، کرم، اورکزئی، کوہاٹ جبکہ 27ستمبر سے01 اکتوبر کے دوران ہنگو، بنوں، لکی مروت ،وزیرستان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں وقفے وقفے سے تیز ہواؤںاور گرج چمک کےساتھ بارش کا امکان ہے ۔ اس دوران چند مقامات پر موسلادھار بارش بھی متوقع ہے۔

 

پنجاب/اسلام آباد: 26 ستمبر (شام/رات )سے01 اکتوبر کے دوران: اسلام آباد/راولپنڈی، مری، گلیات، اٹک، چکوال، تلہ گنگ، جہلم، منڈی بہاؤالدین، گجرات، گوجرانوالہ، لاہور، شیخوپورہ، سیالکوٹ، نارووال، حافظ آباد، وزیر آباد، جبکہ27ستمبر(رات) سے01 اکتوبر کے دوران ساہیوال، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ننکانہ صاحب، خوشاب، سرگودھا، میانوالی ، چنیوٹ، فیصل آباد، اوکاڑہ، پاکپتن ،قصور اور بھکر میں تیز ہواؤں/آندھی چلنے اور گرج چمک کےساتھ بارش کا امکان۔ اس دوران چند مقامات پر موسلادھار بارش کی بھی توقع ہے۔

 

کشمیر: 26 ستمبر سے02 اکتوبر کے دوران: کشمیر (وادی نیلم، مظفر آباد،راولاکوٹ، پونچھ، ہٹیاں،باغ،حویلی،سدھنوتی، کوٹلی،بھمبر،میر پور) میں تیز ہواؤںاور گرج چمک کےساتھ بارش کا امکان۔ اس دوران چند مقا مات پر موسلادھار بارش کی بھی توقع ہے۔

 

گلگت بلتستان: 26 ستمبر سے02 اکتوبر کے دوران: گلگت بلتستان (دیامیر، استور، اسکردو، گلگت،ہنزہ، گھانچے اورشگر) میں تیز ہواؤںاور گرج چمک کےساتھ بارش کا امکان ہے،

 

بلوچستان: صوبہ کے بیشتر اضلاع میں موسم گرم اور خشک رہنے کا امکان ہے ۔

سندھ: 26 سے28 ستمبر کے دوران: صوبہ کے بیشتر اضلاع میں موسم گرم اور خشک رہنے کا امکان ہے۔تا ہم میرپورخاص، تھرپارکر، عمرکوٹ اور گردونواح میں تیز ہواؤںاور گرج چمک کےساتھ بارش کا امکان ہے،

ممکنہ اثرات اور احتیاطی تدابیر:
موسلادھار بارش کے باعث مری، گلیات، مانسہرہ، کوہستان، چترال، گلگت بلتستان، دیر، سوات، شانگلہ، نوشہرہ، صوابی، اسلام آباد/راولپنڈی، شمال مشرقی پنجاب اور کشمیر کے مقامی ندی نالوں میں پانی کے بہاؤ میں اضافے کا امکان ہے،

موسلادھار بارش کے باعث اسلام آباد/راولپنڈی، گوجرانوالہ، لاہور، شیخوپورہ، قصوراور سیالکوٹ کے نشیبی علاقوں میں اربن فلڈنگ ہو سکتی ہے۔
لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بالائی خیبرپختونخوا، مری، گلیات، کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں میں سڑکیں بند ہو سکتی ہیں ۔
آندھی/جھکڑ چلنے اورگرج چمک کے باعث روزمرہ کے معمولات متاثر ہونے ، کمزور انفرا سٹرکچر ( کچے گھر/دیواریں ،بجلی کے کھمبے،بل بورڈز،گاڑیوں اور سولر پینل وغیرہ)کو نقصان کا اندیشہ ہے،

کسان حضرات موسمیاتی پیش گوئی کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے معمولات ترتیب دیں۔
مسافروں اور سیاح حضرات سفر کے دوران زیادہ محتاط رہیں اور موسمی حالات کے مطابق اپنے سفر کا انتظام کریں اور بارشوں کے دوران کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لیے موسم کے بارے میں آگاہی حاصل کریں۔

دریں اثنا تمام متعلقہ اداروں کو ” الرٹ “رہنے اور کسی ناخشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

 

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
93628

پاکستان میں مذہبی جنونیت اور سدباب ۔ خاطرات: امیرجان حقانی

Posted on

پاکستان میں مذہبی جنونیت اور سدباب ۔ خاطرات: امیرجان حقانی

 

پاکستان میں مذہبی جنونیت ایک تشویشناک صورتِ حال اختیار کر چکی ہے، جس نے نہ صرف معاشرتی امن اور سماجی بہبود کو خطرے میں ڈال دیا ہے بلکہ اسلام کی بنیادی تعلیمات اور عدل و انصاف کے اصولوں کو بھی مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ اس جنونیت کی جڑیں مذہبی قیادت کی کمزوریاں، معاشرتی ناانصافیاں، سماجی ناہمواریاں، قانونی کا عدم نفاذ، عدالتی نظام کی کوتاہی، فورسز کی نااہلی، لاء اینڈ آرڈر کی ناکامی اور مذہب و قانون کی غلط اور من پسند تشریح میں پائی جاتی ہیں۔ ایسے واقعات عام ہو چکے ہیں جہاں ذاتی دشمنیوں اور اختلافات اور مذہبی چپقلش کی بنیاد پر کسی بھی عام فرد یا معروف شخص پر توہینِ مذہب یا توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت و اہل بیت اور صحابہ کا الزام لگا کر اسے عوام کے سامنے قتل کر دیا جاتا ہے، اور اس قتل کو ایک فخر کا عمل قرار دیا جاتا ہے۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف اسلامی تعلیمات، فقہی احکام اور سیرت النبی صل اللہ کے خلاف ہے، بلکہ ملک کو انارکی کی طرف لے جانے کے مترادف بھی ہے۔ یہ ملک مزید انتشار اور انارکی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

 

پاکستان میں مذہبی جنونیت کے پھیلاؤ کے کئی عوامل و اسباب اور وجوہات ہیں، جن میں سب سے اہم مذہبی زعماء کی غلط قیادت اور عوام میں شعور کی کمی ہے۔ بہت سی مذہبی جماعتیں اور افراد اپنے ذاتی مفادات کے لیے مذہب کا غلط استعمال کرتے ہیں، اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، عوام مذہب کو انتہا پسندی اور تشدد کے ذریعے نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

توہین مذہب کے قوانین کا غلط استعمال

توہینِ مذہب کے قوانین کا مقصد اسلام اور اس کی مقدسات کا تحفظ کرنا ہے، لیکن پاکستان میں ان قوانین کا غلط استعمال معاشرتی ظلم و جبر کا ذریعہ بن گیا ہے۔ بہت سے بے گناہ افراد ذاتی دشمنیوں کی بنیاد پر توہینِ مذہب کے جھوٹے الزامات کا شکار ہو چکے ہیں۔ قرآن و سنت میں کہیں بھی اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ افراد خود سے انصاف کریں یا قانون اپنے ہاتھ میں لیں۔ اسلامی قانون میں انصاف اور عدل کی بنیاد پر ہر فرد کے حقوق محفوظ ہیں۔

قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: “اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو، تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔” (النساء: 58)
اس آیتِ مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ فیصلہ کرنے کا اختیار صرف عدالتوں اور قانونی نظام کا ہے، نہ کہ عوام کا اور مذہبی جتھوں کا۔

 

فقہ اسلامی اور مذہبی جنونیت

فقہ اسلامی میں عدل و انصاف کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ توہینِ مذہب کے معاملے میں بھی فقہ اسلامی انتہائی محتاط انداز اختیار کرتی ہے۔ فقہاء کے نزدیک سزا کا تعین کسی فرد یا جماعت کا کام نہیں بلکہ یہ ریاست اور اس کے عدالتی نظام کا فرض ہے۔ امام شافعی، امام ابو حنیفہ، اور دیگر معتبر فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ توہینِ رسالت یا دیگر مقدسات کے مسائل میں فیصلہ کا اختیار صرف قاضی اور اسلامی عدالت کو ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اس کے پاس واضح قوانین موجود ہیں۔ اور ریاستی سٹرکچر بھی فعال ہے، ایسے میں کسی فرد، گروہ یا تنظیم کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے یا نافذ کرنے کا حق نہیں۔

حضرت محمد ﷺ کی سیرت سے بھی یہ سبق ملتا ہے کہ آپ ﷺ نے ہمیشہ معافی، برداشت، اور انصاف کا مظاہرہ کیا۔ طائف کا واقعہ اس کی بہترین مثال ہے، جب طائف کے لوگوں نے آپ ﷺ پر پتھر برسائے اور آپ ﷺ کو شدید زخمی کیا، اس کے باوجود آپ ﷺ نے بددعا کرنے کے بجائے ان کے لیے ہدایت کی دعا کی۔

 

مذہبی جنونیت اور اسلام کے اصولِ عدل

اسلامی قانون میں سزا کا تعین ایک منظم اور معیاری عدالتی نظام کے ذریعے کیا جاتا ہے، نہ کہ عوامی تشدد اور جنونیت کے ذریعے۔ قرآن مجید میں واضح حکم ہے: “اے ایمان والو! انصاف پر مضبوطی سے قائم رہو اور اللہ کے لیے گواہی دو، خواہ وہ تمہاری اپنی ذات کے خلاف ہو یا والدین اور رشتہ داروں کے خلاف۔” (النساء: 135)

یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ انصاف اور عدل ہر حال میں مقدم ہے اور اس کے لیے ذات یا کسی قسم کے تعلقات کو خاطر میں نہیں لایا جا سکتا۔ جنونیت اور ذاتی دشمنیوں اور فرق مذہب کی بنا پر کسی پر الزام لگانا اور اسے قتل کرنا اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

 

پاکستان میں مذہبی جنونیت کی چند مثالیں

پاکستان میں مذہبی جنونیت کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ یہاں مذہبی جنونیت اور توہین مذہب کے نام پر ہونے والی زیادتیوں کے ہزاروں واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں نہ صرف قانونی مسائل بلکہ معاشرتی رویے بھی شامل ہیں۔ یہاں چند اہم واقعات کا ذکر کیا جا رہا ہے جن میں، سلمان تاثیر کا قتل (2011)، آسیہ بی بی کیس(2009-2018)، مشال خان کا قتل (2017)، جوگندر ناتھ منڈل کیس (1949)، پروفیسر خالد حمید کا قتل (2019)، جوزف کالونی کا واقعہ (2013)، سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کا قتل(2021)، یہ انتہائی معروف کیسز ہیں ورنا تو اس طرح کے سینکڑوں واقعات ہیں اور پھر توہین مذہب کے نام پر روزنامہ کی بنیاد پر مسلمان ایک دوسروں کے خلاف احتجاج، ایف آئی آرز اور مقدمات درج کرتے اور کراتے رہتے ہیں، اور اسی طرح پاکستان میں کئی واقعات میں ذاتی دشمنیاں، زمین کے جھگڑے، یا سماجی تنازعات کو توہینِ مذہب کے الزامات میں بدل دیا جاتا ہے، جس سے کئی بے گناہ افراد متاثر ہوتے ہیں۔

ہمارے گلگت بلتستان میں بھی سینکڑوں واقعات ہیں جو توہینِ مذہب کے نام پر رجسٹر ہوئے اور پھر احتجاجات اور دھرنوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے وجود میں آئے اور ایک دوسروں پر مقدمات اور ایف آئی آرز تو معمول کا حصہ ہے۔ ہر فریق اسے متاثر ہوا ہے۔

آج کل تو پاکستان میں عشروں درس دین دینے والے معتبر علماء بھی توہین مذہب کے نام پر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ کونسا مسلک ہے جس کے نامور اور جید علماء کو توہین مذہب کے نام پر رسوا نہ کیا گیا ہو؟۔ علماء اور دیندار طبقات کا توہینِ مذہب کے نام پر ایک دوسروں کو رسوا کرنے کا شغل سالوں سے جاری و ساری ہے۔

 

 

اسلامی تعلیمات کے مطابق انصاف کا قیام

اسلامی تاریخ میں انصاف کے اصولوں کی پاسداری کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ حضرت عمر بن خطابؓ کے دورِ خلافت میں ایک غیر مسلم نے ان کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔ حضرت عمرؓ نے بغیر کسی امتیاز کے اس مقدمے کا فیصلہ کیا اور غیر مسلم کو حق دیا۔ یہ واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اسلام میں انصاف کا قیام کس قدر اہم ہے، اور یہ کسی بھی قسم کے ذاتی جذبات یا جنونیت کے تابع نہیں ہونا چاہیے۔

مذہبی جنونیت کا سدباب

مذہبی جنونیت کا خاتمہ ایک منظم اور مربوط حکمتِ عملی کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:

1. مذہبی تعلیمات کی درست تشریح:

مذہبی زعماء اور علماء کو عوام میں دین کی صحیح تشریح کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں لوگوں کو یہ بتانا ہوگا کہ اسلام امن، محبت، اور انصاف کا دین ہے اور جنونیت کی کوئی گنجائش نہیں۔

2. قانون کی بالادستی کا قیام:

ریاست کو ایسے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرنا ہوگا جو توہینِ مذہب کے معاملات میں عوامی تشدد کو روک سکیں اور مجرموں کو قانونی طریقے سے سزائیں دی جا سکیں۔ یہاں مجرموں کو معاف کرنا بھی جنونیت کا وجہ بنتا ہے۔ اس باب میں قانون کی بالادستی اور حکمرانی بہرحال سب سے اہم ہے
۔
3. عوام میں شعور بیدار کرنا:

میڈیا اور تعلیمی اداروں کو عوام میں مذہبی جنونیت کے نقصانات اور اسلام کے عدل و انصاف کے اصولوں کی وضاحت کرنی چاہیے۔ عوام کو بتایا جائے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں میڈیا مذہبی منافرت و جنونیت پھیلانے کا سب سے بڑا اور آسان ٹول ہے۔

4. تعلیم و آگاہی کی فراہمی:

مذہبی تعلیم کو معتدل، علمی، اور وسیع تناظر میں پیش کیا جائے تاکہ انتہا پسندی کی سوچ کی روک تھام ہو۔

5. برداشت اور رواداری کی ترویج:

معاشرے میں مختلف مذاہب اور مکاتب فکر کے درمیان باہمی احترام اور رواداری کو فروغ دیا جائے۔ جب تک برداشت اور رواداری کا عملی مظاہرہ نہ کیا جائے، اس مذہبی جنونیت سے چھٹکارا پانا مشکل ہے۔

6. مذہبی علماء کی تربیت:

علماء اور خطباء کو مذہبی تعلیمات کی اصل روح سے روشناس کرایا جائے اور ان کی تربیت انتہا پسندانہ سوچ کے خاتمے کے لیے کی جائے۔ منبر اور اسٹیج ہر ایک کے حوالہ نہ کیا جائے بلکہ اس کے لئے حکومت پاکستان مکمل ترتیب کے بعد باقاعدہ تصدیق نامہ اور سرٹیفکیٹ جاری کرے، بغیر اس سرٹیفکیٹ کے کوئی مولوی، شیخ یا الواعط، مسجد، امام بارگاہ اور جماعت خانے کے منبر یا کسی بھی مذہبی و عوامی پروگرام میں تقریر نہ کرسکے۔

7. مکالمے اور بین المذاہب بات چیت:

مختلف مذاہب اور مکاتب فکر کے مابین مکالمے کو فروغ دے کر باہمی افہام و تفہیم پیدا کی جائے۔ اس کام کو گاؤں اور ٹاون سطح تک وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ صرف بڑے شہروں کے اعلی شان ہوٹلوں میں مکالمے اور بین المذاہب بات چیت سے کام نہیں بنے گا۔

8. نوجوانوں کو مصروف رکھنا:

نوجوان نسل کو صحت مند تفریح، کھیلوں، اور تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے تاکہ وہ انتہا پسندی کی طرف راغب نہ ہوں۔ مذہبی جنونیت کا سب سے بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس لئے سب سے زیادہ نوجوانوں کو مثبت کاموں میں انگیج رکھنے کی ضرورت ہے۔

9. معتدل مذہبی مواد کی فراہمی:

میڈیا، سوشل میڈیا، اور تعلیمی نصاب میں معتدل اور امن پسند مذہبی مواد کو شامل کیا جائے۔ اعتدال پر مبنی مواد اور کنٹینٹ کریٹ کرکے سوشل میڈیا میں وسیع پیمانے پھیلانے کی ضرورت ہے۔کیونکہ سوشل میڈیا موثر ترین اور سستا فورم ہے۔ ہر فرد کو رسائی حاصل ہے۔

10. قانونی سختی:

مذہبی بنیاد پر تشدد یا اشتعال انگیزی کی سخت قانونی کارروائی کی جائے تاکہ شدت پسندی کے عناصر کی حوصلہ شکنی ہو۔ سائبرکرائمز کو مکمل فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ یہاں تو صورت حال یہاں تک پہنچی ہے کہ قانون کے رکھوالے ہی قانونی شکنی کے مرتکب ہورہے ہیں اور وردی میں جنونیت کا مظاہرہ کرکے ملزم کو قتل کر دیتے ہیں اور ہیرو بن جاتے ہیں۔ جب تک قانونی سختی نہ ہوگی، انتہاپسند تو چھوڑیں، پولیس والے ہی قتل کا ارتکاب کرکے غازی بنتے پھریں گے۔

11. سماجی و اقتصادی اصلاحات:

غربت اور بے روزگاری جیسے مسائل کو حل کرکے لوگوں کو انتہا پسند گروہوں میں شامل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ بہت دفعہ غربت بھی مذہبی جنونیت کا سبب بنتی ہے۔

12. خواتین کا کردار:

خواتین کو تعلیم اور آگاہی دے کر انہیں مذہبی انتہا پسندی کی روک تھام میں فعال کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جائے۔ خواتین اس باب میں فعال اور موثر کردار ادا کرسکتی ہیں۔

13. دعا و تربیت کے پروگرام:

مساجد، مدارس، اور دیگر مذہبی اور تعلیمی اداروں میں دعا اور تربیت کے ایسے پروگرام ترتیب دیے جائیں جو امن، محبت، اور بھائی چارے کا درس دیں۔ مساجد اس باب میں سب سے بنیادی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ سرکاری سطح پر، مساجد کو مذہبی جنونیت کے خاتمے اور امن و امان اور سماجی ہم آہنگی اور معاشرتی روادی کا “کمیونٹی سینٹرز” کا درجہ دینا چاہیے اور اس کے لیے بہترین پالیسی وضع کرکے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

مذہبی جنونیت ایک ایسے معاشرتی بگاڑ کا نام ہے جس کا کوئی تعلق اسلام کی اصل تعلیمات سے نہیں۔ پاکستان میں اس جنونیت کا بڑھتا ہوا رجحان ہمارے عدالتی اور معاشرتی نظام کے لیے خطرہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کے اصولِ عدل و انصاف کو فروغ دیا جائے اور لوگوں کو مذہب اسلام کی حقیقی روح سے روشناس کرایا جائے تاکہ مذہب کو نفرت اور انتہا پسندی کے بجائے امن، محبت، اور بھائی چارے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ جنونیت کا مقابلہ علم، شعور، اور انصاف کے ذریعے کیا جا سکتا ہے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب علماء اور زعماء مذہب کی درست ترجمانی کریں اور ریاست قانون کی بالا دستی کو یقینی بنائے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
93490

برطانیہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے 7 منصوبوں میں پاکستان کی مدد کریگا: برطانوی ہائی کمشنر

Posted on

برطانیہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے 7 منصوبوں میں پاکستان کی مدد کریگا: برطانوی ہائی کمشنر

اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ) برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ نے خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ برطانیہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے 7 منصوبوں میں پاکستان کی مدد کریگا۔تفصیلات کے مطابق برطانوی ہائی کمشنر نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے،برطانیہ پاکستان کو مالی معاونت کیساتھ تکنیکی معاونت بھی فراہم کرے گا، پاکستان کلائمیٹ چینج کے معاملے پر بہترین کام کر رہا ہے، مقامی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے وسائل میں مدد دیں گے،برطانیہ کی نجھرجھیل پر500میگا واٹ فلوٹنگ سولر پراجیکٹ بنانے میں مدد دیگا،ماحول دوست صحت منصوبہ اور کاربن ناپنے کے اے آئی منصوبے میں تعاون کریں گے،بائیوماس کے تحت ایگری کلچرویسٹ کو کھاد بنانے اور وی الیکٹرا منصوبہ بھی شامل ہے،پلاسٹک کے استعمال اور کاربن پروڈکشن میں کمی کے منصوبوں میں تعاون کریں گے۔

 

حکومت سندھ کا ملازمین کو پینشن سے محروم رکھنے کیلئے سول سروس ایکٹ میں ترمیم کا فیصلہ

کراچی(سی ایم لنکس)سندھ حکومت نے صوبے کے سرکاری ملازمین کو پینشن کے حق سے محروم رکھنے کے لیے سول سروس ایکٹ 1973 میں ترمیم صوبائی اسمبلی میں لانے کا فیصلہ کرلیا۔ حکومت سندھ کے ترمیمی مسودہ کے مطابق ترمیم منظور ہونے کے بعد یکم جولائی 2024 کے بعد بھرتی سرکاری ملازمین ماہانہ پینشن کے حقدار نہیں ہوں گے۔رپورٹ کے مطابق سندھ امپلائی بینیفٹ اسکیم میں سرکاری ملازم اور حکومت ماہانہ اپنے حصے کی رقم ڈالیگی، ملازم کو ریٹائرمنٹ کے وقت گولڈن چیک گریجوئٹی اور پینشن کی مد میں دیا جائے گا۔حکومت سندھ کے مطابق صوبائی بجٹ کا ایک بڑا حصہ پینشن پر ختم ہوجاتا تھا، اسی لیے یہ اصلاحات ضروری ہیں۔

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
93463

گلگت بلتستان میں حفاظتی ٹیکوں، غذائیت، ماں اوربچے کی صحت سے متعلق مشاورتی اجلاس کا انعقاد

گلگت بلتستان میں حفاظتی ٹیکوں، غذائیت، ماں اوربچے کی صحت سے متعلق مشاورتی اجلاس کا انعقاد

گلگت(چترال ٹائمزرپورٹ ) آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان نے غذائیت میں بہتری، حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام اور ماں اور بچے کی صحت کے لیے استور، گلگت بلتستان میں سرکاری اور نجی شراکت داروں کے لیے ایک مشاورتی اجلاس منعقد کیا۔

ڈاکٹر سلیم الدین ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ گلگت بلتستان تقریب میں مہمان خصوصی تھے۔ اجلاس میں ڈاکٹر شکیل احمد ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز دیامر استور، ضلع گلگت، استور اور دیامر کے ڈی ایچ اوز اور پرائیویٹ اداروں بشمول ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، ورلڈ فوڈ پروگرام، آغا خان فاؤنڈیشن اور آغا خان رورل سپورٹ پروگرام پاکستان کے نمائندوں نے شرکت کی۔

آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان ماؤں اور بچوں کی صحت، حفاظتی ٹیکوں اور غذائیت کو بہتر بنانے کے لئے گلگت بلتستان اور سندھ کے اہم علاقوں سمیت قومی سطح پر اس مربوط حفاظتی ٹیکوں اور غذائیت میں بہتری کے پروگرام پر عمل درآمد کر رہی ہے۔
منتخب اضلاع میں دیامر، استور اور گلگت گلگت بلتستان میں اور سندھ میں ٹھٹھہ اور سجاول شامل ہیں۔ اس پروگرام پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں، آغا خان فاؤنڈیشن اور آغاخان یونیورسٹی کے درمیان قریبی شراکت داری میں عملدرامد کروایا جا رہا ہے۔اس پروگرام کو گاوی – دی ویکسین الائنس، دی پاور آف نیوٹریشن، اور آغا خان فاؤنڈیشن پاکستان کے ذریعے مالی اعانت فراہم کی جا رہی ہے۔

 

ڈی جی ہیلتھ گلگت بلتستان نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا، گلگت بلتستان کے دشوار گزار علاقوں میں غذائی محرومی سے متاثر بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ، ان دور دراز علاقوں میں حفاظتی ٹیکوں، زچگی سے پہلے، پیدائش کے بعد اور غذائیت سے متعلق ت خدمات کی عدم دستیابی کی وجہ سے حفاظتی ٹیکوں کی فراہمی بھی کم ہے۔ ایک مربوط لائحہ عمل اپنانے سے ہمیں گلگت بلتستان کے پسماندہ اضلاع میں صحت کے ان چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔

پروگرام پر تبصرہ کرتے ہوئے، آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر،   ندیم عباس، نے کہا”ا س پروجیکٹ کا مقصد باہمی تعاون کے ذریعے، پاکستان میں صحت کے نظام کومضبوط بنانا اور کمیونٹیز کو تیار کرنا ہے، تا کہ بچوں کی اموات کو کم کیا جا سکے اور ماوں اور بچوں کی صحت کو بہتر بنایا جاسکے۔“

 

پاکستان کو بچوں کی صحت، غذائیت اور حفاظتی ٹیکوں کے حوالے سے سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان بچوں کی سب سیزیادہ اموات کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک اور دنیا بھر میں سب سے کم حفاظتی ٹیکوں والے بچوں (تقریبا 1.2 ملین) کے لحاظ سے بھی تیسرے نمبر پر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گلگت بلتستان میں تولیدی عمر کی ایک لاکھ سے زائد خواتین اور پانچ سال سے کم عمر کے 80 ہزار بچے اس پروگرام سے مستفید ہوں گے۔

 

 

chitraltimes gb workshop on vaccination organized by akhsp 2

 

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged
93457

خوشامد اور علاقائی وقار کا زوال ۔ خاطرات:امیرجان حقانی

خوشامد اور علاقائی وقار کا زوال ۔ خاطرات:امیرجان حقانی

 

گلگت بلتستان کے لوگوں میں خوشامد پسندی، چاپلوسی اور چمچہ گیری ایک ایسی خطرناک بیماری بن چکی ہے جس نے ہمارے معاشرتی، سماجی اور علاقائی وقار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہ بدترین رویہ اب اس قدر عام ہو چکا ہے کہ ہر سطح پر نظر آتا ہے۔ ایک وقت تھا جب چاپلوسی محض حکومتی اراکین، وزراء، چیف سیکرٹری، آئی جی، فورس کمانڈر، وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان، سیکرٹری امور کشمیر و گلگت بلتستان، گورنر، وزیر اعلیٰ اور اعلیٰ عہدے داروں تک محدود تھی، مگر اب یہ وبا ضلع کے ڈی سی، اے سی، تحصیلدار، ڈائریکٹرز، ایس پی اور یہاں تک کہ ہر چھوٹے بڑے افسر تک پھیل چکی ہے۔ ہم نے ہر چھوٹے عہدے دار کو دیوتا بنا رکھا ہے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کیے جا رہے ہیں۔ جب جب یہ عہدہ دار کسی علاقہ یا ضلع جائیں یا ان کی پوسٹنگ ہو تو وہاں گروہ در گروہ، ادارہ در ادارہ، جماعت در جماعت ان کو ویلکم، خوشامد اور ہار پہنانے میں مصروف رہتے ہیں اور یہ کام اتنا فخریہ کیا جاتا ہے کہ اس کے لیے باقاعدہ سوشل میڈیا میں بازار گرم کیا جاتا ہے۔اسٹیٹس لگائے جاتے ہیں اور تصاویر وائرل کی جاتیں ہیں بلکہ یہ سب ایک طے شدہ پلان کے مطابق کروایا جاتا ہے۔

 

 

مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ یہ لوگ عوام کے ملازم ہیں؟۔ ان کو “پبلک سرونٹس” کہا جاتا ہے۔ کیا ہم نے اپنی عزت نفس کا سودا کر لیا ہے؟ ہم ان لوگوں کے سامنے جھکتے ہیں، جنہیں ہم اپنے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ دیتے ہیں۔ یہ لوگ جو سرکاری ملازمت کے حلف کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھانے آتے ہیں، وہ دراصل عوام کے خادم ہیں۔ ان کا کام ہماری خدمت کرنا ہے، نہ کہ ہم پر حکمرانی کرنا اور ہم سے تعظیم لینا۔ بہت سارے عہدہ داران باقاعدہ تعظیم لینے اور استقبال کروانے کی ہدایات جاری کرتے ہیں اور انہوں نے مختلف اضلاع میں صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور مخصوص گروہ پالے ہوتے ہیں جو بخوبی ان کے استقبال کے لئے راہیں ہموار کرتے ہیں اور عوام و نوجوان ان کے نرغے میں آ جاتے ہیں۔

 

 

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جب یہ لوگ عوامی ٹیکس سے ملی ہوئی ایک لگژری گاڑی میں کسی علاقہ یا ضلع میں قدرم رکھتے ہیں، تو ہم قدم بوسی پر لگ جاتے ہیں، سرخ قالین بچھائے جاتے اور ہم ان کا استقبال ایسے کرتے ہیں جیسے انہوں نے کوئی عظیم کارنامہ انجام دیا ہو۔ ہار پہنائے جاتے ہیں، سوشل میڈیا پر تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں، جیسے یہ خدا کے خاص نمائندے ہوں۔ کیا ہم اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ اپنی خودداری کو بھی بھول گئے؟ یہ عہدیدار عوام کے ٹیکس سے تنخواہ لیتے ہیں، عوام کے پیسوں سے مراعات حاصل کرتے ہیں، اور پھر عوام کی ہی جیبوں سے رشوت اور کمیشن کی شکل میں مزید مال بٹورتے ہیں۔ مگر ہم پھر بھی ان کی تعظیم کرتے ہیں، جیسے کہ وہ کوئی مقدس ہستیاں ہوں اور خدا کی طرف سے مبعوث ہوئے ہوں۔

 

 

سوال یہ نہیں کہ یہ لوگ ایمانداری سے اپنا کام کر رہے ہیں یا نہیں، سوال یہ ہے کہ ہم اپنی قوم کی خودداری کو کیوں فروخت کر رہے ہیں؟ اگر یہ لوگ ایمانداری سے بھی اپنا کام کریں، تب بھی یہ ان کا فرض ہے، کوئی احسان نہیں۔ اگر یہ لوگ عوام کی خدمت کرتے ہیں تو انہیں اس کا اجر ان کی تنخواہ کی صورت میں ملتا ہے۔ مگر ہم ان کی چاپلوسی کر کے انہیں یہ باور کراتے ہیں کہ وہ کوئی عام لوگ نہیں، بلکہ خدا کے نمائندے ہیں۔

 

 

اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اس قومی بیماری سے باہر نکلیں۔ یہ ایک ناسور ہے جو ہماری رگوں تک سرایت کر گیا ہے۔ ہمیں اپنے نوجوان اور عوام کو شعور دینا ہوگا کہ یہ عہدیدار، جنہیں وہ تعظیم دیتے ہیں، دراصل عوام کے ملازم ہیں۔ ہمیں اس غلط رویے سے باہر نکلنا ہوگا اور اپنے حقوق کی پاسداری کرنی ہوگی۔ ہمیں ان سے ان کا حق لینا ہوگا، اور جہاں کہیں یہ لوگ غلطی کریں، وہاں ان کا احتساب کرنا ہوگا۔

 

یہی وہ وقت ہے جب ہمیں اپنی قوم کو بیدار کرنا ہوگا۔یم میں سے اہل علم و قلم، اساتذہ، پروفیسرز اور سیاسی و سماجی رہنماؤں اور علماء کرام و مذہبی قیادت کو آگے آنا ہوگا، اور عوام کو یہ شعور دینا ہوگا کہ وہ اپنے ملازموں کی تعظیم نہ کریں، بلکہ ان سے ان کا فرض پورا کروائیں۔ عوام کی طاقت ہی ان کی حقیقی طاقت ہے۔ جب تک عوام اپنے حقوق کا دفاع نہیں کریں گے، تب تک وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہیں گے۔

 

 

آئیے، ہم سب مل کر اس خوشامد اور چاپلوسی کے نظام کو ختم کریں۔ اپنی قوم کو بیدار کریں، انہیں ان کے حق کا شعور دلائیں اور انہیں ان کا وقار سمجھائیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہو کر اس ظالمانہ نظام اور چاپلوسانہ روش کے خلاف آواز بلند کریں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی قوم کی خودداری کو بحال کریں اور اپنی نسلوں کو عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا حق دلائیں۔

 

قومیں اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتیں جب تک وہ اپنی عزت نفس اور خودداری کو بحال نہ کریں۔ خوشامد پسندی ہمیں کہیں نہیں لے جا رہی، بلکہ ہمیں مزید پستی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنی قوم کو اس زوال سے نکال کر عزت، وقار اور خودمختاری کی روشنی میں لے آئیں۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
93421

درہ شندور کھوکوش لانگر تک لاسپور چترال کا اٹوٹ انگ ہے خودساختہ نمائندگان متنازعہ بنانے سے گریز کریں، سابق امیدوار برائے صوبائی اسمبلی چترال ون سراج علی خان ایڈوکیٹ

Posted on

درہ شندور کھوکوش لانگر تک لاسپور چترال کا اٹوٹ انگ ہے خودساختہ نمائندگان متنازعہ بنانے سے گریز کریں، سابق امیدوار برائے صوبائی اسمبلی چترال ون سراج علی خان ایڈوکیٹ

 

اپر چترال  (چترال ٹائمزرپورٹ ) رہنما پاکستان پیپلز پارٹی اپر چترال و سابق امیدوار صوبائی اسمبلی سراج علی خان ایڈوکیٹ نے گزشتہ روز گلوغ مولی کے مقام پر منعقد ہونے والے شندور کے حوالے سے جرگہ اور جاری شدہ پریس ریلیز میں غیر متنازعہ درہ شندور کو مشترکہ چراگاہ قرار دینے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے،سراج علی خان کے مطابق کسی بھی فرد کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ عوام لاسپور کے بلاشرکت غیر مقبوضہ اراضیات جوکہ قدیم الایام سے لاسپور کے عوام کا غیر متنازعہ علاقے ہیں کو مشترکہ چراگاہ قرار دے ،حقیقت میں لنگر کے علاقے میں غذر کے عوام کو محدود جگہ کھوکوش لنگر میں لاسپور کے ساتھ مشترکہ طور پر بطور چراگاہ استفادہ کرنے کا حق ہے جسکو ہم دل بخوشی تسلیم کرتے آئے ہیں، گزشتہ دنوں غذر کے انتطامیہ نے لاسپور چترال کے بندوبستی علاقے میں غیر قانونی طور پر مداخلت کی جو کہ قانونی طور پر قابل سزا جرم ہے۔ چترال کے جرگہ ممبران بجائے غذر انتظامیہ کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے گلوغ مولی میں کھڑا ہو کر اپنے غیر متنازعہ شندور کے میدانی علاقے کو بھی تنازعہ کا حصہ بنا رہے ہیں جو کہ انتہائی افسوس ناک آمر ہے جس سے لاسپور کے بنیادی اصولی موقف کو قومی سطح پر نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ لہزا آئندہ کے لیے اس قسم کے جرگوں میں شرکت سے پہلے اپنے اصولی موقف کو تاریخی تناظر میں ثبوتوں کے ساتھ پیش کرکے غیر سنجیدہ قسم کے بیانات سے گریز کیا جائے۔

 

 

\

 

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
93367

جمیعت علماء اسلام گلگت بلتستان . خاطرات :امیرجان حقانی

جمیعت علماء اسلام گلگت بلتستان . خاطرات :امیرجان حقانی

 

گلگت بلتستان میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کی حالیہ اندرون جماعت انتخابی سرگرمیوں نے ایک بار پھر اس جماعت کو مقامی سیاسی منظرنامے میں مرکزی حیثیت دلانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ سندھ میں مولانا راشد محمود سومرو اور پنجاب میں حافظ نصیر احمد احرار کی قیادت میں نوجوان طبقے کی شرکت سے جمعیت کو ایک نئی روح ملی، جس نے اسے زندہ و جاوید بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دونوں ذمہ داران اور ان کے کارکنوں کی حکمت عملی اور ورک پلان نے تحریکی اور عوامی سیاست کے ذریعے جماعت کو مین آسٹریم پر لایا ۔ یہی ماڈل اور حکمت عملی اب گلگت بلتستان میں بھی دہرائے جانے کی ضرورت ہے تاکہ یہاں بھی جمعیت علمائے اسلام کو مضبوط اور متحرک کیا جا سکے۔

juif flag

گلگت بلتستان میں حالیہ جے یو آئی انتخابات میں مفتی ولی الرحمان اور بشیر احمد قریشی کو قیادت کی ذمہ داری ملی ہے۔ یہ قیادت اس وقت ایک فیصلہ کن موڑ پر ہے جہاں اخباری بیانات سے آگے بڑھ کر عملی سیاست کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک تحریکی اور عوامی سیاست میں قدم نہیں رکھا جاتا، عوام کو اس جماعت کی سچی جدوجہد اور مقاصد کا ادراک نہیں ہوگا۔

 

جے یو آئی کے لیے گلگت بلتستان میں ایک جامع اور مربوط پلان کی اشد ضرورت ہے۔ اگلے پانچ سالوں کے لیے ایک ورک پلان اور ایکشن پلان ترتیب دیا جانا چاہیے، جس میں واضح ہدایات ہوں کہ پارٹی کس طرح علاقے میں ترقیاتی منصوبوں، سماجی مسائل اور نوجوانوں کے مستقبل کے حوالے سے عملی کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس میں عوامی اجتماعات، سیمینارز، تربیتی ورکشاپس اور عوامی مسائل کے حل کے لیے جاری منصوبوں کا اعلان شامل ہونا چاہیے۔

 

جمعیت علمائے اسلام گلگت بلتستان کے لیے پانچ سالہ جامع تجاویز ذہن میں آرہی ہیں۔جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) گلگت بلتستان کو ایک منظم، فعال، اور مؤثر سیاسی و سماجی قوت بنانے کے لیے درج ذیل تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔ ان تجاویز کا مقصد جماعت کی تنظیمی، سیاسی، اور سماجی حیثیت کو مضبوط کرنا اور عوامی مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔

 

رکن سازی مہم کو منظم اور وسیع بنانا

جے یو آئی کی موجودگی کو گراس روٹ سطح پر مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک منظم اور وسیع رکن سازی مہم شروع کی جائے۔ اس مہم میں ہر ضلع، تحصیل، اور گاؤں تک جماعت کو پہنچایا جائے اور خصوصی طور پر نوجوانوں، طلباء، اور خواتین کو شامل کیا جائے۔ اس سے جماعت کی تنظیمی بنیادیں مزید مضبوط ہوں گی اور نئی قیادت ابھرنے کے مواقع پیدا ہوں گے۔ خواتین کی رکن سازی اور انہیں تنظیمی امور شامل کرنا گلگت بلتستان جیسے قبائلی معاشرے میں مشکل ضرور ہوگا مگر یہ کام بہرحال آج نہیں تو کل کرنا ہوگا تو ابھی سی ہی اس کا آغاز کیا جائے ۔

 

عوامی رابطہ مہم کا آغاز کرنا

عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے جماعت کو زیادہ فعال ہونا چاہیے۔ ہر علاقے میں عوامی مسائل کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو مقامی مسائل سننے اور ان کے حل کے لیے فوری اقدامات تجویز کریں۔ اس طرح جے یو آئی گلگت بلتستان کو عوام کی نظر میں ایک خدمتگار جماعت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جو اخباری بیانات تک محدود نہیں، بلکہ عملی طور پر بھی عوام کے مسائل حل کرنے میں کردار ادا کرتی ہے۔

 

سماجی فلاح و بہبود کے منصوبے شروع کریں

جے یو آئی کو سماجی فلاح و بہبود کے میدان میں بھی متحرک ہونا چاہیے۔ اس میدان میں جماعت کا گلگت بلتستان میں وجود ہی نہیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں فلاحی منصوبے شروع کیے جائیں، جیسے کہ مدارس اور سکولوں میں تعلیمی معیار کی بہتری کے لیے تعاون، یتیم بچوں کی مالی مدد، اور دیہی علاقوں میں صحت کی سہولتوں کا قیام۔ یہ اقدامات عوامی بھلائی کے ساتھ ساتھ جماعت کی مثبت ساکھ بنانے میں بھی مددگار ہوں گے۔ ان کاموں کے لیے بڑے پیمانے پر ہوم ورک اور اس پر عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ ماہرین کیساتھ مشاورت بھی کی جاسکتی ہے اور جماعت اسلامی کے احباب سے بھی طریقہ سیکھا جاسکتا ہے۔

 

نوجوانوں اور خواتین کو جماعت میں فعال بنانا

نوجوان جماعت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں، اس لیے ان کی سیاسی و نظریاتی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ تربیتی ورکشاپس اور پروگرامز کے ذریعے نوجوانوں کو قیادت کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کیا جائے تاکہ وہ جماعت میں فعال کردار ادا کرسکیں۔ اسی طرح خواتین کے لیے بھی خصوصی پروگرامز ترتیب دیے جائیں تاکہ وہ جماعت کی فلاحی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔ خواتین کے پروگرامز اور ورکشاپس کی ترتیب میں علاقائی روایات کو ملحوظ خاطر رکھنا بہت اہم ہے۔

 

عملی سیاست میں مؤثر کردار ادا کرنا

تحریکی سیاست کو مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے ضروری ہے کہ عوامی احتجاج، مظاہرے، اور جلسے منظم انداز میں کیے جائیں، تاکہ عوامی مسائل کے حل کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔ عوامی رابطہ مہم کے ذریعے جماعت کی پالیسیوں اور نطریہ و منشور کو عام عوام تک پہنچایا جائے اور انہیں جماعت کے ساتھ جوڑا جائے۔ اس سے جماعت کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہوگا اور عوامی حمایت میں بھی بہتری آئے گی۔ عوامی رابطے کی اس مہم کو تانگیر سے شندور تک، استور سے خپلو تک مربوط طریقے سے پھیلانے کی ضرورت ہے ۔

 

مستقبل کے لیے واضح حکمت عملی تیار کرنا

آئندہ کچھ وقت میں گلگت بلتستان میں انتخابات ہونگے، ان کی ابھی سے مکمل تیاری اور تمام امیدواروں کی کمپین کا جامع اور مربوط پلان تشکیل دے کر ایکشن پلان کے لئے قیادت اور کارکنان کو منتخب کرنا چاہیے تاکہ بہترین نتائج سامنے آئیں۔ انتخابات کے بعد جماعت کی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے مستقبل کی حکمت عملی تیار کی جائے تاکہ جماعت اپنے اہداف کے مطابق مزید آگے بڑھ سکے۔ جماعت کی پالیسیوں پر عملدرآمد اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کو یقینی بنایا جائے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو۔

 

یہ تجاویز اور ان جیسے دیگر چیزیں جمعیت علمائے اسلام گلگت بلتستان کو نہ صرف تنظیمی طور پر مضبوط کریں گی بلکہ جماعت کو عوامی خدمت کے میدان میں بھی نمایاں مقام دلانے میں مدد دیں گی۔ اس طرح جے یو آئی گلگت بلتستان عملی سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی اور علاقے کی ترقی و خوشحالی کے لیے مؤثر قدم اٹھائے گی۔

 

سندھ اور پنجاب کی طرح، گلگت بلتستان میں بھی تحریکی سیاست کی بحالی کے لیے بنیادی عناصر پر کام کرنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جے یو آئی کو عوام کے درمیان جانا ہوگا، ان کے مسائل کو سننا ہوگا، اور ان کے لیے حل تلاش کرنا ہوگا۔ جے یو آئی کو صرف اخبارات اور میڈیا تک محدود رہنے کے بجائے، عوامی سطح پر عملی جدوجہد میں شامل ہونا ہوگا تاکہ عوام کو یہ محسوس ہو کہ جے یو آئی صرف نعرے بازی نہیں بلکہ حقیقی عوامی خدمت پر یقین رکھتی ہے۔

 

یہی وہ وقت ہے کہ مفتی ولی الرحمان اور بشیر احمد قریشی ایک شاندار انٹری دیں اور عوام کو یہ باور کرائیں کہ گلگت بلتستان میں جے یو آئی ایک زندہ و جاوید جماعت ہے۔ مرکز کو بھی اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ گلگت بلتستان کے عوام کو یہ پیغام ملے کہ ان کے مسائل کو قومی سطح پر سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔

 

اس سلسلے میں رکن سازی کو بھی بڑے پیمانے پر فروغ دینا ہوگا تاکہ جماعت میں نئے اور نوجوان خون کا اضافہ ہو اور یہ جماعت مزید طاقتور اور فعال ہو۔ یہ وقت ہے کہ جے یو آئی اپنی سیاسی تحریک کو ایک نئی بلند سطح پر لے جائے اور عوام کو اس کا حقیقی چہرہ دکھائے جو ان کی بھلائی اور فلاح کے لیے کام کرنے پر یقین رکھتا ہے۔

آپ حضرات سے گزارش ہے۔ ابھی سے کام شروع کریں اور کچھ نیا اور اچھا کرکے دکھائیں، کل پھر ہم جیسے لوگ تنقید کریں گے تو منہ اٹھا کر کہوگے کہ ہماری مخالفت کی جاری ہے اور ہماری مخالفت دین کی مخالفت ہے۔ دین کمزوری اور سستی نہیں سکھاتا، اس لیے آج سے اٹھ کھڑے ہو جاؤ اور گلگت بلتستان میں راشد سرومرو اور نصیر احرار کی یاد تازہ کرا دیجئے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
93285

 -مواخات اور بھائی چارہ سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں – خاطرات: امیرجان حقانی

Posted on

 -مواخات اور بھائی چارہ سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں – خاطرات: امیرجان حقانی

اسٹنٹ پروفیسر:  پوسٹ گریجویٹ کالج مناور گلگت

رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم  کو اللہ رب العزت نے نسل انسانی کے لیے ایک کامل نمونہ اور اسوہ حسنہ بنا کر دنیا میں مبعوث فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کو قیامت کی صبح تک کے لیے معیار بنادیا۔سیرت طبیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر گوشہ تابناک اور ہر پہلو روشن ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے لے کر رحلت تک کا ہر ہر لمحہ اللہ تعالی کی منشاء سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشینوں نے محفوظ کیا۔
حضور  نبی اکرم ﷺ نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ پوری انسانیت اور جملہ مخلوقات الہیہ کے لیے رحمت بن کر دنیا میں تشریف لائے۔ آپ ﷺ کی سیرت پاک میں وہ جملہ  اخلاقی، سماجی اور روحانی  اوصاف موجود ہیں جن کو اپنا کر  انسانیت  اپنے اصل مقام تک پہنچ سکتی ہے اور دنیا کے جملہ انسان دو جہانوں میں کامیابی پاسکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ظلم و جبر اور بربریت کے گھٹا ٹوپ  اندھیروں میں عدل و انصاف اور محبت و ہمدردی کے چراغ روشن کیے اور انسانوں کو ایک دوسرے  کے حقوق کا محافظ بنا کر ایک ایسا بہترین اور آئیڈیل معاشرہ قائم کیا جہاں ہر فرد کو  عزت و احترام،محبت و مودت اور مساوات کا حق حاصل تھا۔ آپ ﷺ کی تعلیمات کا محور  صرف ایک قوم، ایک علاقہ، ایک زمانہ یا صرف  ایک مذہب  تک محدود نہیں تھا ، بلکہ آپ ﷺ نے تمام بنی نوع انسانیت کو اپنے خُلق اعلی اور کردار کی قوت و عظمت سے   اس حقیقت سے آشنا  کیا کہ انسانیت کی  اصل خدمت  اس میں ہے کہ  ہر شخص دوسرے کے لئے رحمت اور محبت کا پیکر بنے۔آپ ﷺ کی عظیم اور مثالی شخصیت میں مہر و وفا کا دریا موجزن تھا جس نے دلوں کے قفل کھول دیے  اور انسانیت کو اس کےا علی ترین مقام و مرتبہ پر فائز کیا۔
مواخات اور بھائی چارہ: سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں
اسلام میں بھائی چارہ  اور مواخات کا تصور مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کو مضبوط کرنے کے لئے ایک اہم اصول کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت میں اس تصور کا عملی مظاہرہ پہلے پہل مکہ معظمہ میں ہوا، مکہ میں مسلمانوں کے درمیان مواخات کی چھوٹی چھوٹی مثالیں قائم کی گئی تاہم  مدینہ منورہ میں مہاجرین اور انصار کے درمیان قائم ہونے والی مواخات کی شاندار روایت قائم ہوئی۔ اس مواخات نے نہ صرف مہاجرین کی مشکلات کو کم کیا بلکہ ایک مضبوط معاشرتی نظام کی بنیاد بھی رکھی۔
اسلام کا نظم اجتماعی، اخوت اور بھائی چارہ کی اساس پر قائم و دائم ہے۔اس عظیم الشان اخوت اسلامی میں میں انسانی رنگ و نسل، برادری و قومیت، حسب و نسب، ملک و وطن اورقبیلہ و ریاست جیسی  کوئی تفریق رکاوٹ نہیں۔ ذات پات، قومیت ، رنگ، زبان، نسل، علاقائیت، صوبائیت  اور اس جیسی دیگر چیزیں اخوت اسلامی اور بھائی چارہ کے تصور کے واضح طور پر منافی ہیں۔ اخوت ایک روحانی اور ایمانی قوت کا نام ہے جس کی بنیاد رحم و کرم،ایثار و تعاون،صبر ، عفو و درگزر اور عزت و اکرام جیسے جذبات اور اس کے عملی اطلاق و اقدام پر منتج ہے۔
مواخات کی تعریف اور اس کی اسلامی اہمیت
لفظ “مواخات” عربی زبان کے لفظ “اخوۃ” سے نکلا ہے، جس کا مطلب بھائی چارگی یا بھائی بھائی کا رشتہ ہے۔ اسلام میں اخوت اور بھائی چارگی کے تصور کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، اور قرآن و حدیث میں اس کا بارہا ذکر کیا گیا ہے۔
قرآن میں اخوت کا تصور
اللہ  رب العزت کا ارشاد ہے۔
“إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ” (1)
ترجمہ: “بیشک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔”
قرآن کریم کی یہ آیت اسلامی اخوت کی بنیاد ہے، جس میں مومنوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کی تاکید کی گئی ہے۔اور دینی و ملی بھائی چارہ کی بنیاد ہے یہ آیت۔
ایک اور جگہ میں اللہ کا ارشاد ہے۔
”فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ  فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا”۔(2)
ترجمہ: ” تو اللہ نے تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دی اور اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے۔”
قرآن کریم کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی مواخاۃ اسلامی کے متعلق کئی ایک فرامین موجود ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا:
“المُسْلِمُ أخُو المُسْلِمِ، لا يَظْلِمُهُ ولا يُسْلِمُهُ، ومَن كانَ في حاجَةِ أخِيهِ كانَ اللَّهُ في حاجَتِهِ” (3)
ترجمہ: “مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے۔ جو اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے، اللہ اس کی مدد کرتا ہے۔”
ایک اور حدیث مبارکہ میں ارشاد نبوی ﷺ ہے:
“مثلُ المؤمنين في تَوادِّهم ، وتَرَاحُمِهِم ، وتعاطُفِهِمْ ، مثلُ الجسَدِ إذا اشتكَى منْهُ عضوٌ تدَاعَى لَهُ سائِرُ الجسَدِ بالسَّهَرِ والْحُمَّ”(4)
ترجمہ: “مومنوں کی مثال آپس کی محبت، رحم دلی اور ہمدردی میں ایک جسم کی طرح ہے، اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم اس کی تکلیف میں شریک ہوتا ہے۔”
سیرت النبی ﷺ میں مواخات کا عملی مظاہرہ
رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں مواخات کا سب سے نمایاں مظاہرہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ہوا۔ جب مکہ مکرمہ کے مسلمانوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرنی پڑی، تو مدینہ کے انصار نے ان کے ساتھ اخوت و بھائی چارگی کا وہ عملی مظاہرہ کیا جو تاریخ میں بے مثال ہے۔مواخات مدینہ سے قبل  مکہ معظمہ میں بھی مواخات کا عملی مظاہرہ کیا گیا تھا۔
مواخات مکہ  مکرمہ
رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں بھی مسلمانوں کے درمیان مواخات کروائی تھی۔اس دور میں مسلمان سماجی، معاشی اور دیگر مشکلات و مسائل کا شکار تھے۔رسول اللہﷺ نے ان مسائل کو حل کرنے کے لئے اسلام قبول کرنیو الے بھائیوں کے درمیان مواخات کرائی۔
محمد بن حبیب (م ٢٤٥ھ) نے  مکہ مکرمہ کی مواخات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”رسول اللہﷺ نے باہمی ہمدردی و تعاون کی بنیاد پر مواخات کرائی اور یہ مکہ مکرمہ میں وقوع پذیر ہوئی تھی”۔(5)
علامہ بلازری نے انساب الاشراف میں لکھا ہے کہ یہ مواخات مندرجہ ذیل افراد کے درمیان کرائی گئی۔
سیدناحمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ او زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (رسول اللہﷺ کے آزاد کردہ غلام) کے درمیان۔
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اورسیدناعمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے مابین۔
سیدناعثمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کے درمیان۔
سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان۔
سیدنا عبیدہ بن الحارث رضی اللہ عنہ اورسیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کے مابین۔
سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے مابین۔
سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور سیدنا سالم الموالی ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان۔
سیدناسعید بن زیدرضی اللہ عنہ اور سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے مابین  (6)
سیرت مصطفی  اور وفاء الوفاء میں مذکور ہے کہ : اس موقع پر سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! آپ نے ان لوگوں کے درمیان تو مواخات کرادی، میں رہ گیا ہوں، میرا بھائی کون ہوگا؟ اس پر آپ ﷺنے فرمایا کہ میں تمہارا بھائی ہوں۔ (7)
سیدناعلی رضی اللہ عنہ تو پہلے ہی سے رسول اللہﷺ کے ساتھ رہتے تھے اور آپﷺ ہی ان کی کفالت فرمایا کرتے تھے اس لیے شاید آپﷺ نے ان کے لیے یہ ضرورت محسوس نہ کی ہو، بہر حال یہ فرما کر کہ میں تمہارا بھائی ہوں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی دلجوئی فرمائی۔
مواخات مدینہ منورہ
محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں: مدینہ منور ہ میں پہنچ کر رسول اللہ ﷺ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے گھر سب سے پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ اپنا مواخاۃ کا رشتہ قائم کیا اور پھردوسرے صحابہ یعنی کچھ مہاجر کا مہاجر صحابہ اور کچھ انصار و مہاجر صحابہ کرام کا  رشتہ مواخات قائم کیا۔(8)
رسول اللہ ﷺ نے مواخات کا یہ سلسلہ جاری رکھا۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر میں رسول اللہ مہاجر اور انصار کے درمیان مواخات فرمایا کرتے تھے۔ اصحاب رسول مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے رہتے اور رسول اللہ مدینہ کے کسی صحابی سے ان کی مواخات کراتے رہتے۔سیرت نگاروں نے  ان کی تعداد پچاس کے قریب بتائی ہے۔ اس طرح تقریبا پچاس مہاجر خاندان پچاس انصار خاندانوں کے ساتھ رشتہ مواخات میں منسلک ہو گئے۔ سیرت کی مختلف کتب کا مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک سو تیس انصار و مہاجرین کے ناموں کا ذکر ملتا ہے جن کے درمیان مواخات کرائی گئی۔ ااس مواخات کا مقصد مہاجرین کی ضروریات کو پورا کرنا ،ایثار و تعاون کا معامہ فرمانااور انہیں مدینہ کے معاشرتی نظام اور سماجی زندگی میں ضم کرنا تھا۔بظاہر ان مقاصد کے لئے یہ رشتہ قائم کیا گیا تاہم مواخات کا یہ رشتہ اسلامی نظم کے قیام اور اس کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے تھا۔
آپ  کی دلچسپی کے لئے کچھ مشہور صحابہ کرام کے اسمائے گرامی دیے جارہے ہیں۔
١: سیدنا ابو بکر صدیق ۔۔۔ سیدنا خارجہ بن زید بن ابی زہیر
٢: سیدنا عمر فاروق ۔۔۔ سیدنا عتبان بن مالک
٣: سیدنا عبدالرحمن بن عوف۔۔۔یدنا سعد بن الربیع
٤: سیدنا عثمان بن عفان۔۔۔سیدنا اوس بن ثابت
٥: سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح ۔۔۔سیدنا سعد بن معاذ
٦: سیدنا زبیر بن العوام  ۔۔۔سیدنا سلمہ بن سلامہ
٧: سیدنا مصعب بن عمیر ۔۔۔ سیدنا ابو ایوب خالد بن زید
٨: سیدنا عمار بن یاسر ۔۔۔ سیدنا حذیفہ بن الیمان
٩: سیدنا ابو حذیفہ بن عتبہ ۔۔۔ سیدنا عباد بن بشر
١٠: سیدنا بلال بن رباح ۔۔۔سیدنا ابو رویحہ عبداللہ بن عبدالرحمن الخشعمی
١١: سیدنا عبیدہ بن الحارث بن المطلب ۔۔۔سیدنا عمیر بن الحمام اسلمی
١٢: سیدنا سلمان الفارسی ۔۔۔سیدنا ابو الدرداء
١٣: سیدنا سعد بن ابی وقاص ۔۔۔سیدنا سعد بن معاذ
١٤: سیدنا عثمان بن مظعون ۔۔۔ سیدنا ابو الہیثم بن التہان
١٥: سیدنا ارقم بن الارقم ۔۔۔سیدنا طلحہ بن زید بن سہل
١٦: سیدنا علی بن ابی طالب۔۔۔سیدنا سہل بن حنیف
١٧: سیدنا زید بن الخطاب۔۔۔سیدنا معن بن عدی
١٨: سیدنا عمر و بن سراقہ۔۔۔ سیدنا سعد بن زید
١٩: سیدنا عبداللہ بن مظعون۔۔۔ سیدنا قطبہ بن عامر
٢٠: سیدنا شماع بن وھب ۔۔۔سیدنا اوس بن خوالی
٢١: سیدنا عبداللہ بن جحش  ۔۔۔ سیدنا عاصم بن ثابت بن ابی افلح
٢٢: سیدنا ابو سلمہ بن عبدالاسد ۔۔۔ سیدنا سعد بن خیشمہ
٢٣: سیدنا طفیل بن الحارث  ۔۔۔سیدنا مقدر بن محمد
٢٤: سیدنا سالم مولی ابی حذیفہ ۔۔۔سیدنا معاذ بن ماعص
٢٥: سیدنا خباب بن الارت۔۔۔سیدنا جبار بن صحر
٢٦: سیدنا صہیب بن سنان۔۔۔ سیدنا حارث بن الصمہ
٢٧: سیدنا عامر بن ربیعہ الغزی۔۔۔سیدنا یزید بن المقدر
٢٨: سیدنا سعید بن زید بن عمرو۔۔۔ سیدنا رافع بن مالک
٢٩: سیدنا وھب بن سرخ ۔۔۔سیدنا سوید بن عمرو
٣٠: سیدنا معمر بن الحارث۔۔۔سیدنا معاذ بن عفراء
٣١: سیدنا عمیر بن ابی وقاص۔۔۔ سیدنا عمر بن معاذ
٣٢: سیدنا زید بن حارثہ۔۔۔سیدنا اسید بن حضیر ، رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ (9)
انصارکا جذبہ ایثار
مواخات مدینہ کے بعد انصار نے بالخصوص اپنے مواخاتی بھائیوں اور بالعموم تمام مہاجر صحابہ کا جو اکرام، ہمدردی اور خدمت کی اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
بخاری شریف میں ہے:
”جب مہاجر لوگ مدینہ میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں انصار میں سب سے زیادہ دولت مند ہوں اس لیے آپ میرا آدھا مال لے لیں اور میری دو بیویاں ہیں آپ انہیں دیکھ لیں جو آپ کو پسند ہو اس کے متعلق مجھے بتائیں میں اسے طلاق دے دوں گا۔ عدت گزرنے کے بعد آپ اس سے نکاح کر لیں”۔ (10)
ایثار کا ایک اور واقعہ بھی سنیں:
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلایا تاکہ بحرین کا ملک بطور جاگیر انہیں عطا فرما دیں۔ انصار نے کہا جب تک آپ ہمارے بھائی مہاجرین کو بھی اسی جیسی جاگیر نہ عطا فرمائیں ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔”۔ (11)
ان ہی لوگوں کے بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں فرمایا:
یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ” (12)
ترجمہ: وہ اپنی طرف ہجرت کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور وہ اپنے دلوں میں اس کے متعلق کوئی حسد نہیں پاتے جو ان کو دیا گیا اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو۔
مواخات کا عمل آج بھی دہرایا جاسکتا ہے۔آج بھی دنیا بھر میں مسلمان مظلوم و مقہور ہیں۔افغانستان، بوسنیا، کوسوو، کشمیر، افغانستان، عراق، فلسطین، برما اور بہت سے شورش زدہ علاقوں کے مسلمان معاشی، معاشرتی، تہذیبی اور جنگی مسائل کا شکار ہیں۔ برما، فلپائن اور بعض دیگر علاقوں میں بھی مسلمان پر عرصہ حیات تنگ ہے۔ بعض علاقوں میں مسلمان بچوں کے لیے تعلیم و تربیت کے مسائل ہیں۔ان کے علاوہ دنیا بھر میں  مسلمان سیاسی و معاشی ابتری کی وجہ سے تہذیبی و اقتصادی  مشکلات کا شکار ہیں۔کہیں علم و سائنس  میں پسماندگی کا شکار ہیں۔ آج کی مسلم امہ  کو ان مشکلات سے چھٹکارا دلانے کے لئے ہم میں سے ہر ایک نے  اپنی ذمہ داریوں اور اپنے فرائض کا احساس کرنا چاہیے اور مواخات کے ادارے کا احیاء کرنا چاہیے۔ رسول اللہﷺ کا اسوہ حسنہ ہر دور اور ہر زمانہ میں واجب العمل ہے۔مواخات کے ادارے کا قیام انفرادی، اجتماعی اور ریاستی و عالمی سطح پر مسلمانوں کو کرنا چاہیے۔رسول اللہ کی سیرت کی  پیروی ہی میں ہماری نجات و کامیابی کا راز مضمر ہے۔
اخوت اسلامی کے قیام کے لئے چند شرائط
اخوت اسلامی کے قیام کے لئے چند اہم شرائط ہیں جن کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
اخوت صرف رضا الہی کے لئے ہو۔
اخوت ایمان و تقویٰ کی بنیاد پر ہو۔
اخوت اسلامی اصولوں اور احکام کی روشنی میں ہو۔
اخوت خیر خواہی اور بھلائی کے لئے ہو۔
اخوت کا اظہار  مشکلات و تکالیف اور خوشی و آرام ہو۔(13)
دور حاضر میں مواخات کا اطلاق
موجودہ دور میں جہاں معاشرتی ناہمواریاں، اقتصادی مشکلات اور طبقاتی تفریق عروج پر ہیں، اسلامی اخوت اور بھائی چارگی کے اصولوں کو اپنانا مسلمانوں کے لئے نہایت ضروری ہوگیا ہے۔ اس کی چند ایک عملی صورتیں بیان کی جاتیں ہیں تاکہ سیرت البنی ﷺ کی روشنی میں یہ کام آسانی سے کیا جاسکے۔مواخات اسلامی کی ملکی اور بین الاقوامی صورتیں آسانی سے قائم کی جاسکتیں ہیں۔ ہم اس مختصر مقالے میں سیرت البنی ﷺ کی روشنی میں ملکی و بین الاقوامی سطح پر مواخات اور بھائی چارہ کی چند ایک صورتیں سامعین و قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
1۔ سوشل ویلفیئر تنظیمیں
 سوشل ویلفیئر تنظیموں کے ذریعے اسلامی اخوت کو فروغ دیا جا سکتا ہے جو لوگوں کی معاشی، تعلیمی اور سماجی مسائل میں مدد کر سکیں۔یہ کام دنیا بھر میں بھی آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔اور کسی حد تک ہوبھی رہا ہے مگر اس میں شفافیت اور وسعت کی ضرورت ہے۔
2۔مساجد کمیٹیاں
دنیا بھر میں مسلمانوں کی بڑی اور چھوٹی لاکھوں مساجد موجود ہیں۔مساجد کو اخوت اور بھائی چارگی کا مرکز بنایا جا سکتا ہے جہاں نمازیوں کے درمیان تعاون اور مدد کا نظام قائم کیا جا سکے۔اور مساجد ویسے بھی بہترین کمیونٹی سینٹر کا درجہ رکھتی ہیں۔رسول اللہ ﷺ اخوت ، ایثار اور تعاون کے کئی سلسلے مسجد نبوی سے چلایا کرتے تھے۔آج بھی مسلمان انتہائی آسانی سے کرسکتے ہیں۔ بس درد دل کی ضرورت ہے۔
3۔تعلیمی اور پیشہ ورانہ تربیتی مراکز
مواخات کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مفت تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیتی مراکز کا قیام ضروری ہے تاکہ ہر فرد اپنے معاشی مسائل کا حل خود نکال سکے۔دینی مدارس کسی حد تک یہ کام کرتی ہیں تاہم اس کو بھی ریاستی اور بین الاقومی سطح پر وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
4۔فوڈ بینکس اور صحت کے مراکز
معاشرتی ناہمواریوں کو دور کرنے کے لئے فوڈ بینکس اور صحت کے مراکز کا قیام بھی اسلامی اخوت کا بہترین عملی مظہر ہو سکتا ہے۔اس کی بھی کچھ مثالیں ملک عزیز میں ملتی ہیں تاہم اس کام کو بھی انتہائی منظم اور وسیع پیمانے میں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی انسان بھوکا نہ رہے اور نہ ہی  بے
علاج۔
5۔کمیونٹی سروسز
 اخوت اسلامی کے اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کمیونٹی سروسز جیسے کہ صحت کے مراکز، یتیم خانوں، بیوہوں کی مدد اور بے روزگاروں کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کیے جا سکتے ہیں۔
6۔پناہ گزینوں اور بے گھر افراد کی مدد
 آج کے دور میں پناہ گزینوں اور بے گھر افراد کی مدد کرنا اسلامی اخوت اور بھائی چارگی کا عملی مظاہرہ ہو سکتا ہے۔ ان کے لئے عارضی رہائش اور بنیادی ضروریات کی فراہمی ایک اہم قدم ہے۔سیلاب اور قدرتی آفات سے متاثر لوگوں کو بھی اسی اخوت کے جذبے کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے ملک میں کچھ سال پہلے سیلاب نے تباہی مچادی تھی۔ اخوت فاؤنڈیشن نے اخوت اسلامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بساط سے زیادہ ان متاثرین کو گھر بنانے اور بسانے میں معاونت کی جو انتہائی  مستحسن ہے۔
7۔انسانی حقوق اور انصاف کے لئے کوششیں
 مواخات کا ایک اور عملی اطلاق یہ ہے کہ ہم انسانی حقوق اور انصاف کے قیام کے لئے بھرپور کوششیں کریں، اور مظلوموں کی مدد کریں تاکہ وہ معاشرے میں اپنے حقوق حاصل کر سکیں۔اس کام کو  بھی مختلف شکلوں میں کیا جاسکتا ہے۔
8۔ ملاقات، مصافحہ اور خبرگیری
یہ بھی اخوت کے اظہار کی ایک شکل ہے کہ اپنے مسلمان بھائی سے ملاقاتیں کریں، سلام کریں اوروقتا فوقتا  خبرگیری کرتے رہے۔
9۔عیادت، جنازہ اور دعوت
اخوت اسلامی کے لئے اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کریں، ان کے جنازوں میں شریک ہوجائیں اور دعوتوں کا اہتمام کریں۔
10۔تکالیف دینے سے بچنا،خطاؤں کو معاف کرنا
اخوت کی بہترین شکل یہ بھی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی سے حسد ،کینہ اور ضد نہ کریں اور نہ کسی قسم کا ظلم، استہزا، تحقیر و اہانت کریں۔اسی طرح اپنے مسلمان بھائی کی خطاؤں کو معاف کریں، عیوب چھپائیں اور غیبت سے پرہیز کریں۔
غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں کیساتھ مواخات اور بھائی چارگی کا تصور
آج کی اس خوبصورت محفل میں ہم آپ سے غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں کے لئے مواخات اور بھائی چارہ کی عملی صورتوں پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ دنیا کیسے مواخات اور بھائی چارگی قائم کرسکتی ہے؟
غزہ اور فلسطین کے مسلمان ایک طویل عرصے سے ظلم و ستم اور جنگی حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان اور انسانیت دوست افراد غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی اور بھائی چارگی کے جذبات رکھتے ہیں، لیکن ان جذبات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مخصوص اقدامات کی ضرورت ہے۔
اسلام میں مواخات اور بھائی چارگی کا تصور ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے دکھ درد کو اپنا سمجھیں اور ان کی مدد کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں۔ فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ مواخات قائم کرنے کے لئے دنیا بھر کے مسلمانوں اور انسانیت دوست افراد کو قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں۔
قرآن مجید میں امداد و تعاون کی تعلیم
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ” (14)
ترجمہ: “اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی میں مدد نہ کرو ۔”
حدیث میں مدد اور حمایت کی اہمیت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“مثل المؤمنين في توادهم وتراحمهم وتعاطفهم مثل الجسد الواحد، إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى” (15)
ترجمہ: “مومنوں کی مثال آپس کی محبت، رحم دلی اور ہمدردی میں ایک جسم کی طرح ہے، اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم اس کی تکلیف میں شریک ہوتا ہے۔”
دنیا کے مسلمانوں اور انسانیت دوست افراد کے لئے عملی اقدامات
فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ مواخات اور بھائی چارگی قائم کرنے کے لئے دنیا بھر کے مسلمانوں اور انسانیت دوست افراد کو مندرجہ ذیل عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
1۔ مالی امداد اور انسانی ہمدردی کی خدمات
فنڈز کا قیام
دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنی مالی استطاعت کے مطابق فلسطین کے مسلمانوں کے لئے فنڈز جمع کرنے چاہئیں، تاکہ انہیں کھانے پینے، صحت کی سہولیات اور دیگر ضروریات زندگی فراہم کی جا سکیں۔
امدادی تنظیموں کی مدد
فلسطینی مظلوم بھائیوں سے اخوت قائم کرنے کے لئےایسی تنظیموں کی مدد کریں جو غزہ اور فلسطین میں انسانی ہمدردی کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔امداد کرتے وقت نقالوں سے ہوشیار رہ کر ان تنظیموں کی مدد کی جائے جو حقیقی معنوں میں فلسطین کے مظلوں کے لئے کام کررہی ہیں۔
2۔سیاسی حمایت اور بین الاقوامی سطح پر آواز اٹھانا
سیاسی دباؤ
 دنیا کے مسلمان حکومتوں پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ فلسطین کے مسئلے کو اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر اٹھائیں۔ریاستی سطح پر موثر  آواز بلند کرنے کی اشد ضرورت ہے۔مسلم ریاستوں اور  اثر رسوخ رکھنے والے عالمی شخصیات کو اس حوالے سے مربوط پالیسی اور موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔یہ بین الاقوامی سطح پر مواخات کی ایک بارآور کوشش ہوسکتی ہے۔
مظاہرے اور احتجاج
 دنیا بھر میں فلسطین کے حق میں مظاہرے اور احتجاج کریں، تاکہ عالمی برادری اس مسئلے پر توجہ دے اور اسرائیل پر دباؤ ڈالے۔ اور بالخصوص اسرائیل سے ہمدردی رکھنے والے ممالک کے سفارت خانوں تک اس احتجاج کو موثر انداز میں پہنچائے۔
3۔تعلیمی و تربیتی مدد
فلسطینی طلباء کے لئے تعلیمی وظائف
 دنیا بھر کے مسلمانوں کو فلسطینی طلباء کے لئے تعلیمی وظائف فراہم کرنے چاہئیں تاکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کر سکیں اور مستقبل میں اپنے ملک کی خدمت کر سکیں۔اخوت کا یہ رشتہ بہت دیر پا ثابت ہوسکتا ہے۔
آن لائن تعلیمی مواد
 آن لائن تعلیمی مواد فراہم کیا جائے تاکہ فلسطینی طلباء اور نوجوان اپنی تعلیمی اور پیشہ ورانہ تربیت حاصل کر سکیں۔اور انہیں جدید دور کی آن لائن تعلیم  کی جو شکلیں ہیں ان کو اپنا کر انہیں اپنی مدد اور تعاون پہنچانا چاہیے۔
4۔سوشل میڈیا اور میڈیا کی حمایت
سوشل میڈیا مہمات
 سوشل میڈیا پر فلسطین کے مسئلے کو اجاگر کریں، اور دنیا بھر کے لوگوں کو اس بات سے آگاہ کریں کہ فلسطینی مسلمان کس طرح کے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا کے دسویں موثر فورم ہیں ان کو ہر سطح میں استعمال کرنا چاہیے۔
میڈیا ہاؤسز کی حمایت
ایسے میڈیا ہاؤسز کی حمایت کریں جو فلسطین کے مسئلے کو حقائق کے ساتھ دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔یہ ہاوسز نیشنل اور انٹرنیشنل دونوں سطح پر موجود ہیں۔ان کے ہمنوا بننے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مزید بہتر طریقے سے اس مسئلے کو مسلسل اٹھائیں۔
5۔انسانی حقوق کی تنظیموں کی حمایت
انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ تعاون
 انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ تعاون کریں جو فلسطین کے مسلمانوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں بلارنگ و نسل اور علاقہ کام کررہی ہیں۔ ان کو متوجہ کرکے مزید ان کی ایکٹویٹیز کو فعال بنایا جاسکتا ہے۔
عالمی عدالت انصاف میں مقدمات
ایسے مقدمات کا حصہ بنیں یا سپورٹ کریں جو عالمی عدالت انصاف میں فلسطینی مسلمانوں کے حقوق کی بحالی کے لئے چلائے جا رہے ہیں۔عالمی عدالت انصاف کو اگر مسلم امہ اور مسلم ریاستیں مجبور کریں تو شاید بہت بہتری ہوسکتی ہے۔
6۔بائیکاٹ کی مہمات
بائیکاٹ اسرائیلی مصنوعات
 اسرائیلی مصنوعات اور کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں جو فلسطین میں ظلم و ستم میں ملوث ہیں۔اس حوالے سے موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
بائیکاٹ مہمات کی حمایت
بائیکاٹ مہمات کو عالمی سطح پر سپورٹ کریں تاکہ ان کی مؤثر رسائی ہو۔
7۔دعاؤں اور روحانی حمایت
مساجد میں دعائیں
 مساجد میں فلسطینی مسلمانوں کے لئے خصوصی دعائیں کی جائیں۔ الحمد للہ! ہمارے ملک میں مدارس و مساجد اور دینی اجتماعات میں فلسطینی بھائیوں کے حق میں مسلسل دعاؤں کا اہتمام جاری ہے ۔یہ بھی اعانت اور اخوت و ہمدردی کی شاندار روایت ہے۔
عبادات اور صدقات
 اپنی عبادات اور صدقات کا اجر فلسطینی مسلمانوں کے نام کر کے ان کے لئے دعائیں کریں اور اللہ تعالیٰ سے ان کی مدد کی دعا کریں۔
فلسطین اور غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ مواخات اور بھائی چارگی کا تقاضا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اور انسانیت دوست افراد اپنے اخلاقی، مالی، اور سیاسی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ان کی مدد کریں۔ یہ نہ صرف اسلامی اخوت کا تقاضا ہے بلکہ انسانی ہمدردی کی ایک اعلیٰ مثال بھی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ہم اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی مدد کر کے اللہ کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں اور ان کے دکھ درد میں شریک ہو سکتے ہیں۔آج نبی رحمت ﷺ کی سیرت کا یہی بین الاقوامی اخوت اسلامی کا تقاضہ ہے۔
حوالہ جات:
1 : القرآن، سورۃ الحجرات،آیت،10۔
2: القرآن، سورۃ آل عمران،آیت، 103۔
3: بخاری، صحیح بخاری،حدیث نمبر 6951۔
4: بخاری، صحیح بخاری، حدیث نمبر 6011۔
5:  ابن حبیب،المحبر (المکتب التجاری، بیروت)، ص 70۔
6:  البلاذری، احمد بن یحییٰ ، انساب الاشراف (تحقیق محمد حمید اللہ (دارالمعارف مصر ١٩٥٩)، ج١، ص ٢٧٠، ابن حبیب المحبر، ٧٠، ٧١،
7: المہودی ، وفاء الوفاء (بیروت ١٣٩٣ھ ج ١، ص ٢٦٦، ہاشم معروف حسنی، سیرت مصطفی،مترجم، سید علی رضا، ج اول، ص 231،جامعہ تعلیمات اسلامی
کراچی پاکستان۔
8: ہیکل، محمد حسین  ،حیات محمد ،مترجم ابو یحیٰ،ص 389،طبع اول،علم و عرفان پبلشر۔
9: شبلی نعمانی، سیرۃ البنی،  ص  178، ج اول۔
10: بخاری، صحیح بخاری،ح ،3780 ۔
11: بخاری ، بخاری حدیث نمبر 3794۔
12: القرآن، سورہ حشر، آیت 9۔
13: عبداللہ ناصح علوان، اسلامی اخوت، ص 22 ، الدارالسلفیہ ممبئی انڈیا، 2001۔
14: القرآن،سورۃ المائدہ، 5:2۔
15: بخاری، صحیح بخاری، ح 6011۔
نوٹ: یہ مق
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
93248

اسکردو: کے ٹو پہاڑ کی پرمٹ فیس میں اضافہ، غیر ملکیوں کے لیے موسم خزاں میں کے ٹو پہاڑ کی پرمٹ فیس 25 سو ڈالرز

اسکردو: کے ٹو پہاڑ کی پرمٹ فیس میں اضافہ، غیر ملکیوں کے لیے موسم خزاں میں کے ٹو پہاڑ کی پرمٹ فیس 25 سو ڈالرز

اسکردو(چترال ٹائمزرپورٹ)کے ٹو پہاڑ کی پرمٹ فیس میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔نوٹیفکیشن کے مطابق غیر ملکیوں کے لیے موسم خزاں میں کے ٹو پہاڑ کی پرمٹ فیس 25 سو ڈالرز اور موسم سرما میں 1500 ڈالرز مقرر کر دی گئی ہے۔پاکستانی کوہ پیماؤں کے لیے کے ٹو کی پرمٹ فیس 30 ہزار سے بڑھا کر 1 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق غیر ملکیوں کے لیے ٹریکنگ فیس 100 ڈالرز سے بڑھا کر 3 سو ڈالرز مقرر کی گئی ہے۔نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ کوہ پیما ایک پرمٹ پر صرف ایک ہی پہاڑ کی مہم جوئی کر سکے گا، ایک سے زائد پہاڑوں کی مہم جوئی کے لیے الگ الگ پرمٹ لینا ہو گا۔نوٹیفکیشن کے مطابق گروپ ممبران کی تعداد 20 سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے، ہائی ایلٹیٹیوڈ پورٹرز کے لیے انشورنس کی رقم 20 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔

 

مجوزہ آئینی ترامیم سامنے آگئیں، چیف جسٹس کی تقرری کا اختیار حکومت کو دینے کی تجویز

اسلام آباد(سی ایم لنکس)حکومت کی جانب سے کی جانے والی مجوزہ آئینی ترامیم سامنے آگئیں جن میں 20سے زائد شقیں شامل ہیں۔ذرائع کے مطابق آئین کی شقیں 51،63، 175، 187 میں ترمیم شامل ہے۔ بلوچستان اسمبلی کی نمائندگی میں اضافے، بلوچستان اسمبلی کی سیٹیں 65 سیبڑھا کر81 کرنے اور آئین کے آرٹیکل 63 میں ترامیم شامل ہیں۔منحرف اراکین کا ووٹ،آرٹیکل 63 میں ترمیم، آئین کیآرٹیکل 181میں بھی ترمیم کئے جانے کا امکان ہے۔ آئینی عدالت کے فیصلے پر اپیل آئینی عدالت میں سنی جائے گی۔ آئینی عدالت میں آرٹیکل 184، 185، 186 سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوگی۔ہائیکورٹ کے ججزکودوسرے صوبوں کی ہائیکورٹس میں ٹرانسفر کرنے کی تجویز ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری سپریم کورٹ کے 5 سینئرججزکے پینل سے ہوگی۔حکومت سپریم کورٹ کے 5سینئرججز میں سیچیف جسٹس لگائے گی۔ آئینی عدالت کے باقی 4 ججز بھی حکومت تعینات کریگی۔ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججز کی تعیناتی کیلئے جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کواکٹھا کیا جائے گا۔

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged
93246

یو این ڈی پی کے پراجیکٹ گلاف ٹو کے زیر اہتمام موسمیاتی تبدیلیوں کیساتھ بہتر انداز میں نمٹنے کیلۓ اسٹیک ہولڈرز کے لۓ سوات کے مختلف وادیوں میں ورکشاپس کا انعقاد

Posted on

یو این ڈی پی کے پراجیکٹ گلاف ٹو کے زیر اہتمام موسمیاتی تبدیلیوں کیساتھ بہتر انداز میں نمٹنے کیلۓ اسٹیک ہولڈرز کے لۓ سوات کے مختلف وادیوں میں ورکشاپس کا انعقاد

پشاور (چترال ٹائمزرپورٹ) اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے پراجیکٹ گلاف ٹو کے زیر اہتمام موسیماتی تبدیلیوں کیساتھ بہتر انداز میں نمٹنے کیلۓ تمام اسٹیک ہولڈرز کے لۓ سوات کے مختلف وادیوں اتروڑ، مٹلتان اور مانکیال میں ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا تاکہ ممکنہ موسمیات تبدیلی کی صورت میں تمام سٹیک ہولڈرز آپس میں رابطہ میں رہیں۔اور یہ کمیونیکیشن اینڈ کوآرڈینیشن ورکشاپس کی ایک کڑی ہے۔

ان ورکشاپس میں کمیونٹی ممبران اور مختلف سرکاری محکموں PDMA، OFWM، Forest، SWC سمیت ضلع و تحصیل کی سطح پر دیگر متعلقہ حکام کے نمائندوں نے حصہ لیا۔گلاف ٹو پراجیکٹ نے تین روزہ ورکشاپس کا انعقاد ضلع سوات کی اترور، مٹلتان اور مانکیال وادیوں میں کیا۔
تاکہ ان علاقوں میں پراجیکٹ کے نفاذ کے دوران پیدا ہونے والے ممکنہ مواصلاتی اور رابطہ کاری کے چیلنجوں کی نشاندہی اور ان سے نمٹنے کے لیے ایک لائحہ عمل طے کیاجاسکے۔

 

جبکہ ان ورکشاپس کا بنیادی مقصد پراجیکٹ میں شامل تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان واضح اور موثر ہم آہنگی کو مستحکم کرنا اور اس بات کو یقینی بناناتھا کہ کمیونٹی ممبران پراجیکٹ کی پوری مدت میں اچھی طرح سے باخبر اور فعال رہیں۔ ورکشاپ کے انعقاد کے بعد وادی مٹلتان کے رہائشی محمود خان نے کہاکہ اس ورکشاپ نے ہمیں اپنے خدشات کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کیا یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ تمام سٹیک ہولڈرز نے ہماری باتوں کو سنا اور ہمیں یقین دلایا کہ پراجیکٹ کی سرگرمیاں ہمارے نقطہ نظر کی مکمل عکاسی کریں گی۔

 

واضح رہے کہ گلاف ٹو پراجیکٹ گلگت بلتستان کی 16 وادیوں اورچترال سمیت خیبر پختونخواہ کی 8 وادیوں میں کام کر رہا ہے۔ یہ کمیونٹیز کو گلاف اور موسمیاتی تبدیلی کے متعلقہ اثرات سے وابستہ خطرات کی شناخت اور ان کا انتظام کرنے کا اختیار دیتی ہیں، گلاف سے متعلق آفات کے خطرے کو کم کرنے کے لیے عوامی خدمات کو مضبوط کرتا ہے اور کمیونٹی کی تیاری اور تباہی کے ردعمل کو بہتر بناتا ہے۔

یہ منصوبہ پراجیکٹ کے علاقوں میں روزی روٹی کو یقینی بنانے میں خواتین کی شرکت پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ خوراک کی حفاظت کو بھی یقینی بناتا ہے

 

chitraltimes undp glof II project workshops swat 1 chitraltimes undp glof II project workshops swat 4 chitraltimes undp glof II project workshops swat 2

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
93004

شنـــــــــدور اور طاقتور نمبــــــردار – تحریر۔ شمس الحق نوازش غذری

Posted on

شنـــــــــدور اور طاقتور نمبــــــردار – تحریر۔ شمس الحق نوازش غذری

بیلوں کی لڑائی سے آنکھ کھلی تو گاؤں کی مشہور خبرنگار خاتون طلوعِ سحر کے فوراً بعد گھر آکر بیٹھی تھی۔ وجہ آمد معلوم کیا تو مصنوعی انداز میں گہری سانس لی اور چہرے میں سنجیدگی کی چادر چڑھا کر گویا ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ یہ دنیا بالکل عجیب شے ہے عجیب ہی نہیں بلکہ عجوبہ ھے دیکھیے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کہتی ہوئی انکھیں جھکائی اور بالکل خاموش ہوگئ۔ جب ان کی خاموشی غیر معمولی طوالت اختیار کر گئی تو مخاطب سے بھی رہا نہ گیا۔ انہوں نے کہا جی ہاں! یہ دنیا بالکل عجیب چیز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مخاطب کے زبان سے سکوت ٹوٹنے پر انھوں نے سر اٹھائی تو ان کے آنکھوں سے آنسوؤں کے گولے ٹپک رہے تھے مخاطب حیرت سے انھیں تکتا رہا اور پریشانی کی وجہ دریافت کرنے کی غرض سے جونہی لبوں کو حرکت دی۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یہ دیکھتے ہی انہوں نے مخاطب کو کچھ بولنے کے لیے زحمت دئے بغیر دوبارہ گویا ہوئی۔۔۔۔۔۔۔دیکھئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا کی بے رغبتی کو، اور اسکی بیحسی اور اس کی زندگی کو اج لنگرخان کو بھی جینے نہیں دیا۔۔۔۔ یہ سنتے ہی مخاطب نے افسوس بھی کرلیا اور ان کی تشریف آوری کا مدعا بھی سمجھ لیا۔ اصل میں یہی خبر اج ان کی خاص بولٹن کا حصہ تھی کہ لنگرخان کی موت واقع ہوئی ھے گاؤں میں کسی کی موت کی خبر کو لاؤڈ اسپیکر میں اعلان کرنا ضروری نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ شہر کی طرح گاؤں میں گنجان آبادی نہیں۔۔۔۔۔۔۔ خبر اچھی ہو یا بری سیکیڈوں میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ھے۔ اس خبر کو خبرنگار خاتون نے پھلائی یا خود پھیلی۔ اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں البتہ گاؤں میں جس نے جس وقت اور جس کام کے دوران یہ خبر سنی ۔ اس نے اسی وقت وہ کام وہی چھوڑ دی۔ مستری نے ہتھوڑا نیچے رکھا، مالی نے کھرپہ، کسان نے درانتی پھینک دیا اور مزدور نے گھنٹی۔۔۔۔۔۔۔۔ موت کی خبر سن کر گاؤں میں کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ مرنے والا امیر تھا یا غریب،حاکم تھا یا محکوم۔۔۔۔۔۔

 

اگرچہ لنگرخان بھی بذات خود کوئی بڑے امیر، حاکم یا مخدوم نہیں تھے لیکن اج گاؤں میں ان کی اہمیت کی کوئی وجہ تھی تو وہ صرف یہ کہ موت ان کی زندگی سے روح چھین لی تھی اور ہمارے معاشرے میں روح سے محروم بدن کی اہمیّت بھی ہوتی ھے اور عزت بھی۔۔۔۔۔۔ چاہے مرنے والا لنگرخان ہو ہلاکوخان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں آج لنگرخان کے گھر کی طرف مردوں اور عورتوں،جوانوں اور بوڑھوں کی لائنیں لگی تھی۔ گاؤں کی روایت یہ ہے کہ کسی گھر میں موت واقع ہونے پر خواتین ورثاءِ میت کیساتھ ہمدردی کے لئے گریہ وزاری کرتی ہیں اور مرحوم کی جسد خاکی کو اخری آرام گاہ کی طرف رخصت کرنے سے قبل گھروں کی طرف واپس لوٹنے کو معیوب سمجھتی ہیں اور اس دن سوگوار خاندان کے خواتین اپنی سوگ میں شامل شرکاء کی آنسوؤں سے ان کی ہمدردی اور خلوص کے پیمانے کا لیول طے کرتی ہیں۔۔۔۔۔ جبکہ مرد حضرات مختصر تعزیت کے بعد قبر کشائی کے لۓ قبرستان کا رُخ کرتے ہیں۔ گاؤں والے صرف ایسے مواقع میں اپنے حصّے سے بڑھ کر کام کرنے کو باعث ثواب بھی سمجھتے ہیں اور باعث فخر بھی۔۔۔۔۔۔۔ گاؤں کے اجتماعی کاموں میں اس دن نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی نمبرداران کی۔۔۔ کوئی کسی کے حکم کا منتظر ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کو حکم دینے کی نوبت آتی ہے میرے گاؤں میں جنوری کی یخ بستہ اور ہڈیوں کا گودہ منجمد کرنے والی طوفانی ہواؤں میں بھی چند گھنٹوں میں قبر تیار کرنے کا ریکارڈ موجود ہے۔

 

گاؤں کے لوگ روایتی انداز میں لنگرخان کی قبر کشائی میں مصروف تھے کسی کو کسی پر توجہ دینے کیلئے وقت ہی میسر نہیں تھا ہر شخص پوری دیانت داری اور یکسوئی کے ساتھ اپنے کام میں محو تھا اتنے میں چلی خان بابا کی قیادت میں چند نوجوانوں کا ٹولہ لنگرخان کی جسد خاکی کیلئے ان کے گھر کی طرف چل پڑا۔ ان کی اس حرکت سے مجمع میں موجود ایک پولیٹیکل ورکر آگاہ ہوا یہ دیکھتے ہی وہ اگے بڑھا اور انتہائی سختی سے انہیں منع کیا۔ چلی خان اور اس کے ٹولے کو ہدایت کی جب تک ارام گاہ تیار نہیں ہوتا اس وقت تک کوئی یہاں سے ہلنے کی حماقت نہ کرے۔ یہ کہتے ہی نوجوان اپنے کام میں میں محو رہا اور دوبارہ چلی خان بابا کی سرگرمیوں کا نوٹس لینے کا انہیں خیال تک نہیں ایا۔ چلی خان بابا اور ان کا ٹولہ نوجوان پولیٹیکل ورکر کے نظروں سے خود کو بچاکر وہاں سے رفو چکر ہونے میں کامیاب ہوگۓ اور قبر تیار ہونے سے قبل ہی لنگرخان کا جسدخاکی قبرستان پہنچا دیا یہ دیکھتے ہی پولیٹیکل ورکر غصے سے کانپ اٹھا لیکن موقع غصے کو پینے اور جذبات کو ضبط کرنیکا تھا۔ یوں وہ اور اس طرح کے دیگر رضاکار خاموشی سے غصہ پیتے رہے اور دل ہی دل میں چلی خان بابا کو کوستے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔

 

سب کی آنکھوں میں ایک ہی سوال تھا کہ قبر تیار ہونے سے پہلے میت قبرستان پہنچانے کا کیامطلب۔۔۔۔۔۔؟ یہ سوال ہر کسی کے دل ودماغ میں کانٹے کی طرح چھب رہا تھا۔ قصہ مختصر۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑی رسوائی اور بے حرمتی کے بعد بالآخر لنگر خان کی جسد خاکی زمین کی گود میں اتارا گیا۔۔۔۔ واپسی پر گاؤں والے ایک دوسرے کو اس قسم کی غلطی نہ دہرانے کا درس دے رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ گاؤں کے ان سیدھے سادے اور بھولے بھالے انسانوں میں سے کسی کی بھی دل و دماغ میں یہ سوال دستک ہی نہیں دی کہ گاؤں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی کی میت کا تقدس پامال کیوں ہوا۔۔۔۔۔؟ گاؤں والے مجموعی طور پر ایک انجانی سی کیفیت میں خود کو اس کا مورد الزام ٹھہرارہے تھے۔ یہ تو ان کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں تھا۔۔کہ اس مکروہ دھندہ کے پس منظر میں بھی کوئی نہ کوئی راز پوشیدہ ہے۔ اس قبیح عمل کے انجام دہی میں کچھ سرغنوں کا کردار ہے اس کے پس منظر میں بھی کوئی نہ کوئی سازش پنہاں ہے۔

 

وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہ واقعہ بھی ماضی کا قصہ اور حصہ بن گیا۔ دنیا کے دیگر اہم واقعات اور حالات کی طرح گاؤں کے لوگوں نے بھی اس واقعے کو فراموش کردیا بلکہ یہ واقعہ تو لنگرخان کے جسدِ خاکی کی طرح منوں مٹی تلے دفن ہوکر گل گیا۔۔۔۔۔۔

 

کئی برس بعد نمبردار کی اہلیہ کا نمبردار کے قریبی عزیزہ کیساتھ جگھڑا ہوا۔۔۔ نمبردار کی اہلیہ نے انہیں سرعام نہ صرف برا بھلا کہا بلکہ ہاتھ اٹھانے میں بھی دیر نہیں کی۔ اس تضحیک کے رد عمل میں مخالف خاتون صرف اتنا کہہ گئ۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ اپنی خواہشات کی تسکین کیلئے مردوں کو رسوا کرنے سے دریغ نہ کی ہوں انکے نزدیک زندوں کی اہمیت چہ معنی۔۔۔۔۔۔؟ نمبردار کی اہلیہ اور ان کی عزیزہ کے مابین چھڑی جنگ سرد پڑھتے ہی پاس کھڑی خاتون نے نمبردار کی عزیزہ سے مردوں کی رسوائی کی وضاحت چاہی تو نمبردار کی اہلیہ کی نئ نویلی دشمن گویا ہوئی۔۔

 

آج سے کئ برس قبل اسی گاؤں میں لنگر خان نامی شخص کا انتقال ہوا اس وقت ان کا آخری آرام گاہ تیار ہونے سے کئی گھنٹے قبل ان کی میت قبرستان پہنچادی گئی تھی۔۔۔۔۔۔ یہ افسوسناک حرکت نمبردار نے اپنی اہلیہ کی ایماء پر انجام دیا تھا جس کے بارے میں آج تک گاؤں کے فرشتے بھی لاعلم ہیں
سامنے کھڑی خاتون تعجب اور حیرت کی گہرائیوں میں ڈوب کر پوچھنے لگی۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں۔۔۔۔۔۔۔؟ نمبردار کی عزیزہ اپنے غصے پر قابو پاتے ہوۓ گویا ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی روز یہی ملکہ محترمہ بن سنور کے یہاں سے کئ دور کسی اور گاؤں میں اہم تقریب میں شرکت کرنے جارہی تھی۔ علاقے کی روایات اور رسم دنیا کے مطابق پہلے لنگر خان کے ماتم سراۓ میں تعزیت ضروری تھی۔ اس وقت گاؤں کی خاتون اول کے پاس صرف دو ہی آپشنز تھے۔ یا تو ہمسائیگی میں واقعہ فوتگی کے گھر ماتم پرسی چھوڑ کر تقریب میں شرکت کے لیے چلی جاتی یا ہنگامی طور پر لنگرخان کی میت کو کسی نہ کسی طرح گھر سے رخصت کروادیتی پہلی صورت پر عمل درآمد کرنے سے نمبردار کی نمبرداری کو خطرہ لاحق تھاپس انہوں نے دوسری آپشن پر عمل درآمد شروع کی اور کامیاب رہی جس کے بارے میں گاؤں والوں کو اج تک کوئی علم ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جب بھی شندور ایشو کا پتنگ سادہ لوح عوام کو آوارہ ہواؤں کی منشاء کے مطابق اڑتا ہوا نظر آتا ہے تو مُجھے ان کی ڈوری کسی نہ کسی طاقتور نمبــــــردار اور ان کے اہلیہ کے ہاتھ میں نظر آتی ہے لیکن میرے گاؤں کے بھولے بھالے عوام صرف اور صرف پتنگ کو ہی تکتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈورے ڈالنے والوں کی ڈوری کی طرف کسی کا خیال ہی نہیں جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ خیال اس وقت تک نہیں جاۓگا جب تک نمبرداران کی بیگمات کسی روز آپس میں دست و گریباں ہو کر ایک دوسرے کی راز فاش نہیں کریں گی۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس وقت تک لنگر خان کی ہڈیاں راکھ کا ڈھیر بن چکی ہوں گی اور ورثاء قبر کا راستہ ہی بھول چکے ہوں گے

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
92996

اغا خان یونیورسٹی ایگزامنیشن بورڈ 2023-24 کے تحت ہونے والے امتحانات میں آغا خان ہایئرسیکنڈری سکول کوراغ کے اعزازات

اغا خان یونیورسٹی ایگزامنیشن بورڈ 2023-24 کے تحت ہونے والے امتحانات میں آغا خان ہایئرسیکنڈری سکول کوراغ کے اعزازات

 

آغا خان ہایئر سیکنڈری سکول کوراغ نہ صرف چترال کا بلکہ خیبرپختونخوا کا اعلیٰ اور معیاری تعلیمی ادارہ ہے جو 2007 سے جدید علمی تقاضوں کے تحت چترال جیسی دور افتادہ علاقے میں طالبات کو معیاری تعلیم فراہم کر رہا ہے اور آغا خان یونیورسٹی ایگزامنیشن بورڈ کے تحت ہونے والے امتحانات میں قومی اور صوبائی سطح پر ہر سال بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے آیا ہے ۔ امسال آغا خان یونیورسٹی ایگزامنیشن بورڈ 2023-24 کے تحت ہونے والی امتحانات میں آغا خان ہایئر سیکنڈری سکول کوراغ کی کارکردگی صوبائی سطح پر انتہائی تسلی بخش اور سب سے بہترین رہی ۔ حالیہ امتحان میں سکول ہذا کے کل 256 طالبات نے امتحان میں شریک ہوئے جن میں سے 219 طالبات A+ ، جبکہ 34 طالبات A اور 4 طالبات B گریڈ میں نمایاں کامیابی حاصل کر لیں ۔ جو کہ سکول کی مجموعی کارکردگی 97.28 فیصد کے تناسب کے ساتھ نتیجہ 💯 فیصد رہیں ۔ جبکہ W A.P کے حساب سے گریڈ 9th کا مجموعی نتیجہ 99.2 فیصد، گریڈ 10th کا 98.41 فیصد، گریڈ 11th کا 97.83 فیصد اور گریڈ 12th کا 94.64 فیصد رہا ۔ کلاس وائز امتیازی اعزازی نمبروں کے حوالے سے گریڈ 9th کے طالبہ افروزہ سردار 97.06 فیصد، گریڈ 10th کے عفیفہ عامر 95 فیصد ، گریڈ 11th کے حبہ حسن 93فیصد اور گریڈ 12th کے عائلہ اسد 95 فیصد کے ساتھ نمایاں کامیابی حاصل کر لیں۔

 

اسی طرح آغا خان ہایئر سیکنڈری سکول کوراغ سیکنڈری سطح پر 2023-24 کے سالانہ امتحان میں صوبائی سطح پر 2 نمایاں اعزاز ، گروپ وائز 1 اعزاز جبکہ ہائیر سیکنڈری سطح پر 2 نمایاں اعزاز اور گروپ وائز انجینئرنگ کے شعبے میں 1 اور پری میڈیکل کے شعبے میں 3 اعزازات آپنے نام کر لیے ۔ اور دوسری طرف مخصوص مضامین میں اعزازی نمبروں کے حوالے سے سیکنڈری لیول پر 13 اور ہائیر سیکنڈری لیول پر 21 اعزازات آغا خان ہایئر سیکنڈری سکول کوراغ کے حصے میں آئیں ۔

 

اسی طرح آغا خان ہایئر سیکنڈری سکول کوراغ 97.28 فیصد مجموعی رزلٹ کے ساتھ آغا خان یونیورسٹی ایگزامنیشن بورڈ کے تحت ہونے والے 2023-24 کے امتحانات میں صوبائی سطح پر خیبرپختونخوا سے بہترین کارکردگی پیش کی ۔ یقیناً یہ کامیابی سکول پرنسپل سلطانہ برہان الدین کی انتھک کوششوں اور فیکلٹی ممبران کی شبانہ روز محنت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے ۔ اس لئے سکول منیجمنٹ خراج تحسین اور مبارک باد کے مستحق ہیں ۔

 

فضل احمد اپر چترال

 

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
92922

چترال اور گلگت(غذر) کے مابین مثالی محبت اور رشتے کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کو دونوں علاقوں کے سنجیدہ قیادت کو ناکام بنانا ہوگا۔ بونی میں اجلاس کے بعد متفقہ قرار داد

Posted on

چترال اور گلگت(غذر) کے مابین مثالی محبت اور رشتے کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کو دونوں علاقوں کے سنجیدہ قیادت کو ناکام بنانا ہوگا۔ بونی میں اجلاس کے بعد متفقہ قرار داد

 

اپر چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) آج تحریک حقوق عوام اپر کی کال پر بونی میں آل پارٹیز اور سول سوسائٹیز کے نمائندہ گاں کا ایک مشترکہ اجلاس زیر صدارت سابق تحصیل ناظم شمس الرحمٰن لال منعقد ہوا ۔ابتدا کرتے ہوئے بونی کے ممتاز سیاسی و سماجی شخصیت پرویز لال میٹنگ کے لیے یک نکاتی ایجنڈا پیش کی ۔میٹنگ کا مقصد شندور کو لیکر حالیہ پیدا شدہ صورت حال کا جائزہ لینا اور مسلے کی نوعیت پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔تلاوت کلام پاک سے تقریب کا آغاز ہوا۔میٹنگ میں تقریباً تمام سیاسی پارٹیز اور سول سوسائٹی کے نمائندہ گاں موجود تھے۔

میٹنگ میں تشویش کا اظہار کیا گیا کہ دو قریبی ہمسایوں کے درمیان مثالی تعلقات اور رشتہ داریوں میں دراڑ ڈالنے کی غیر سنجیدہ کوشش جاری ہے ۔چترال اور گلگت کے تعلقات ہمیشہ سے مثالی رہے ہیں۔تہذیب و تمدن،ثقافت روایات سب مشترک ہیں اور دل جان سے ایک دوسرے کے قدر و عزت کرتے ہیں ساتھ ایک بھائی غذر گلگت میں بستا ہے تو دوسرا چترال میں رہائش پذیر ہے۔گز شتہ چند دنوں سے چند ناعاقبت اندیش حضرات سوشل میڈیا کے ذریعے شندور کو لیکر حالات کو بگاڑنے کی کوشش میں مصروف ہیں جو کہ قابل مزمت ہے شندور قدیم الایام سے ایک مسلمہ حقیقت ہے اور قدیم تاریخ سے اس کے حدودات متعین ہیں۔

ان سے وابستہ رسم رواج ہیں ان کی پاسداری کرتے ہوئے قریب کے دو علاقے کے لوگ خوشگوار تعلقات کے ساتھ زندگی گزارتے ائیے ہیں شندور اب وجود میں نہیں آئی ہے جب سے چترال اور گلگت کی وجود ہے تب سے شندور ہے اس لیے کسی کی ایماء پر اسے مسلہ بنا کر اچھالنا ہر دو طرف کے عوام کے حق میں نہیں۔لہذا ایک قرار داد کے ذریعے عوام اپر چترال مطالبہ کرتا ہے۔ کہ اب بھی اس مسلے کو قریبی علاقے کے معتبرات مل بیٹھ کر حل کریں۔ اگر یہ ناممکن ہے تو پھر قانوں کو ہاتھ میں لینے کے بجائے قانون کا سہارا لیا جائے۔یہ مفت کا انتشار پیدا کرنا کسی مسلے کا حل نہیں۔قرار داد میں کہا گیا کہ اس وقت غذر کے عوام اور چترال کے عوام انتشار پیدا کرنے کے خواہاں نہیں بلکہ سرکاری آفیسر اپنے چند ملازمین کو لیکر شندور میں بد امنی پھیلانے کی کوشش کی ہے جو قابل مزمت ہے اس سرکاری آفیسر سے باز پرس ہونا چاہیے کہ کیوں پر امن ماحول کو داغدار کرنے میں کردار ادا کی۔ضلعی انتظامیہ اپر چترال اور منتخب نمائندہ گاں علاقہ پر زور دیا گیا کہ عوام کواعتماد میں لیکر سنجیدہ ماحول پیدا کرکے مسلہ کو افہام و تفہیم سے حل کرنے میں کردار ادا کریں ۔قرار داد میں عوام لاسپور کے ساتھ بھر پور ہمدردی کا اظہار کیاجا کر خراج تحسین پیش کی گئی کہ وہ ہمیشہ چترال کی عزت ،ننگ و ناموس کے محافظ رہے ہیں آپ ہمیشہ چترال کی عزت کے خاطر صف اؤل پر ہوتے ہیں۔اپر چترال کے عوام لاسپور کے عوام کو تنہا چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا اس لیے خود کو تنہا محسوس کرکے احساس محرومی کا شکار نہ ہو۔

 

chitraltimes booni all parties meeting 1

 

 

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
92913

چترال کی تاریخ میں پہلی بار کم عمر نوجوانوں پرمشتمل ٹیم قاشقار ٹریکر نے تین دروں کو عبور کیا

Posted on

چترال کی تاریخ میں پہلی بار کم عمر نوجوانوں پرمشتمل ٹیم قاشقار ٹریکر نے تین دروں کو عبور کیا

چترال ( چترال ٹائمزرپورٹ ) چترال کی تاریخ میں پہلی بار سب سے کم عمر نو نوجوانوں پرمشتمل ٹیم قاشقار ٹریکر نے تین دروں کو عبور کیا۔ یہ تین درے دارکھوت پاس (4703 میٹر) دروازہ پاس (4238 میٹر) اور چیلینگی پاس (5291 میٹر) پر مشتمل تھے۔ اس مہم کو مکمل کرنے میں گیارہ دنیا لگے۔ یہ ٹیم چترال سے روانہ ہو کر گیارہ دنوں میں بابا گنڈی مزار پہنچی۔ یہ ٹیم چیلینگی پاس سے ہوتے ہوئے بابا گنڈی چیپورسان، ہنزہ، گلگت پہنچی۔

اس دوران قاشقار ٹریکر کے کم عمر نوجوانوں نے چترال اور گلگت کے خوبصورت علاقوں کو نہ صرف تسخیر کیا بلکہ اعلی فوٹو گرافی کے ذریعے اپنے ساتھ محفوظ بھی کیا جو کہ آنے والے دنوں میں ناظرین کے لئے پیش کی جائیں گی۔ یہ تصاویر اور ویڈیوز لوگوں کے لئے نہ صرف تفریح کا سامان میسر کریں گے بلکہ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی توجہ ان علاقوں کی طرف مبذول کرانے میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔ ان سیاحوں کی آمد سے چترال میں معاشی بہتری بھی آئے گی اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر چترال کا ایک اچھا امیج بھی اجاگر ہوگا۔

 

chitraltimes young trakers of chitral sumit 1 chitraltimes young trakers of chitral sumit 4 chitraltimes young trakers of chitral sumit 3

 

 

chitraltimes young trakers of chitral sumit 2

 

 

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
92860

گلگت بلتستان کے شرپسندوں کی طرف سے شندور میں چترالی عوام کے گھروں پر حملے اور مویشیوں کی چوری پرشدید غم وغصے کا اظہار

Posted on

گلگت بلتستان کے شرپسندوں کی طرف سے شندور میں چترالی عوام کے گھروں پر حملے اور مویشیوں کی چوری پرشدید غم وغصے کا اظہار

چترال (چترال ٹائمز رپورٹ)چترال لوئر اور اپر کی سیاسی وسماجی شخصیات نے گلگت بلتستان کے شرپسندوں کی طرف سے شندور میں چترالی عوام کے گھروں پر حملے اور مویشیوں کی چوری پرشدید غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی اور دونوں صوبائی حکومتوں سے گلگت میں مقیم کچے کے ڈاکووں کولگام دینے اور انتظامیہ کے اندر گھسے ہوئے کالی بھیڑوں کے خلاف قانونی کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔اوریاد دلایا ہے کہ بلوچستان کی طرح گلگت میں بھی بھارتی ایجنسی را(RAW)کے تنخواہ دار کارندے موجود ہیں جو دوصوبوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرکے امن وامان کا مسئلہ پیدا کرنا چاہتے ہیں،قومی سلامتی کی ایجنسیوں کے ریکارڈ میں اس بات کے متعدد ثبوت موجود ہیں،ایک اخباری بیان میں شہاب الدین ایڈوکیٹ ،محمد وزیر خان ناظم،لفٹننٹ شیراعظم خان،صوبیدار میجر قلندر شاہ(ر) اور ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے وزیراعظم شہباز شریف،آرمی چیف جنرل عاصم منیر،وزیراعلیٰ گلگت بلتستان اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ سے فوری ایکشن لینےکا مطالبہ کیا ہے۔یاد رہے شندور کے جس مقام پر حملہ ہوا ہے وہاں بالیم اور بروک لاسپور چترال کے باشندوں کے800سال پرانےمکانات اور عبادت خانے ہیں۔۔

یادرہے کہ گلگت کے باروردی افراد کی طرف سے لاسپور کے عوام کی مکانات کو مسمار کرنے کے بعد لاسپورکے عوام نے اپنے مکانات دوبارہ تعمیر کرلئے ہیں۔

 

 

 

chitraltimes lasprik rebuild buildings in shandur teritory 1 1 chitraltimes lasprik rebuild buildings in shandur teritory 3 1 chitraltimes lasprik rebuild buildings in shandur teritory 2 1

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
92844