گزارشات………..سفرنامہ جانان چینی۔۔۔۔۔ ایک جائزہ ۔۔۔۔۔۔۔ آصفی چترالی
جانان چینی معروف چترالی شاعر اور ادیب قاضی عنایت جلیل عنبر کا چین کا سفرنامہ ہے ۔ یہ کتاب آپ نے اپنے چین کے 14 روزہ دورے سے واپسی پر لکھی تھی جو چھپائی کے بعد پچھلے مہینے منظر عام پر آئی ہے ۔
سفرنامہ نامہ غیر افسانوی نثر میں شامل صنف ہے ۔
عموما یہ سفر کی نوعیت کے لحاظ سے تین طرح کا ہوتا ہے،
اندرون ملک سفرنامہ ، بیرون ملک سفرنامہ اور حج نامہ ۔
اردو زبان میں یوسف خان کمبل پوش کے عجائبات فرنگ سے اردو سفرنامہ شروع ہوا اور تاحال جاری ہے ۔ اپنے اس ارتقائی سفر کے دوراں دوسرے اصناف کی طرح سفرنامے نے بھی کئی کروٹیں بدلی ہیں ۔ ان کروٹوں نے اس کی تعریف ، مفہوم اور لوازماتِ فنی و فکری میں وسعتیں ڈالی ہیں ۔ موجودہ سفرنامہ محض ایک سفری روداد یا اپنے گردوپیش کا سرسری بیان نہیں ہوتا ہے بلکہ بقول ڈاکٹر انورسدید سفرنامہ مشاہدات کے ساتھ ساتھ سفرنامہ نگار کے تاثرات اور اکثر اوقات قلبی واردات کے جزئیات کو سمیٹ کر مرتب ہوتا ہے ۔ اس کے مندرجہ زیل لوزمات ہیں ۔
سفر : یہ بنیادی شرط ہے ۔
سیاحت: ایک بھرپور ادبی سفرنامے کے لئے سفرنامہ نگار کا سیاح ہونا ضروری ہے ۔ ایک مسافر شخص جو اپنے کام سے کام رکھتا ہے اور قدرے پابند ہوتا ہے وہ ایک کامیاب سفرنامہ لکھ نہیں پاتا ۔
معلومات کم تاثرات زیادہ : سفرنامہ نگار جو کچھ قاری تک پہنچاتا ہے وہ محض کتابی معلومات نہ ہوں بلکہ معلومات تک رسائی کر کے اس پر اپنے جامع تاثرات بیان کرے ۔
سیاح کا عصبیت سے پاک ہونا : سفرنامہ نگار خود کو تمام عصبیتوں سے پاک انسان ٹھہرائے کسی اور کلچر کو اس آبادی کی نظر سے دیکھے ۔ اس کی نظر کے ساتھ اس کی سوچ بہت وسیع ہو ۔
جامع النظری : سفرنامہ نگار صرف جامد اور ساکت فطرت کا عکاس نہ ہو بلکہ وہ دوران سفر اس کے حواس خمسہ کو چھونے والی ایک ایک دل چسپ حرکت پر نظر رکھے اور اسے اپنے تاثرات و قلبی واردات کے ساتھ پیش کرے ۔
افسانوی عنصر : سفرنامے میں کہانی پن پیدا کرنے کے لئے سفرنامہ نگار کو تخیل کی آمیزش شامل کرنی ہوتی ہے ۔ یہ موجودہ سفرنامے کا اہم جزو بن گیا ہے ۔ اس حوالے سے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں
” اچھا سفرنامہ وہ ہے جس میں داستان کی سی داستان طرازی ، ناول کی سی فسانہ سازی ، ڈرامے کی سی منظر کشی ، کچھ آب بیتی کا سا مزہ ، کچھ جگ بیتی کا سا لطف اور پھر سفرنامہ نگار کے تاثرات بمع معلومات قلم بند ہوں” ۔۔۔۔ ( انور سدید ڈاکٹر ۔۔۔۔ اردو ادب میں سفرنامہ )
جانان چینی :
جانان چینی ایک تازہ سفرنامہ ہے ۔ اس کے مصنف کا سفر ایک تربیتی مشن کا سفر ہے اس لئے وہ چین میں ایک ادارے کی پابندی میں گھوم رہا ہوتا ہے ۔ اس سے اس کا سفر سیاحت کم مسافری زیادہ معلوم ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود بھی مصنف نے سفرنامے کی تقریبا تمام تر دل کشی اس کتاب میں سموئی ہے ۔ یہ کتاب جدید سفرنامے کی تعریف پر اترنے میں ایک حد تک کامیاب رہی ہے ۔ اس کتاب کے مطالعے کی بنیاد پر چند ایک باتیں ذکر کرنا مناسب سمجھوں گا ۔
محاسن :
کتاب کی مجموعی خوبیوں میں کامیاب اور دل چسپ تمہید ، مصرعوں ،اشعار اور ضرب الامثال کا درست اور برجستہ استعمال ، رعایت لفظی اور صورت واقعہ سے ظرافت کے کامیاب پہلو ، بھرپور معلوماتی انداز ، لسانی و تاریخی تحقیق ، مختصر جملے ، لوک کہانیوں اور توہمات کا دلچسپ تذکرہ ، خوب صورت مماثلتیں ، قومی و ملی مسائل کے محرکات کا جائزہ اور ان کے حل کے تدابیر وغیرہ شامل ہیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ چند جملے جو مجھے بھاگئے ۔
- وقت پر کام نہ کرنا ہمارا قومی المیہ ہے ۔
*بیگم اور چائے ہمیشہ میٹھی ہونی چاہیے ۔ - احسان ہر جگہ احسان پر احسان کیے جاتا ہے ۔
- وہ سیلفی اور سگریٹ کا شوقین ہے ۔
- نون اور جنون میں زبردست لفظی جنگ رہی ۔
- پاکستان میں سیاح کو زندگی کی ضمانت کون دے گا ۔
یہ محض چند جملے نہیں بلکہ مصنف کے گہرے مشاہدات اور دل چسپ تاثرات ہیں جو اس کے معاشرے کے عمیق مطالعے کا نچوڑ ہیں ۔
مصنف نے کچھ روایتی محاورات جیسے تارے گننا ، گھوڑے بیچ کر سونا ، آنکھ لگنا ، آنکھ کھلنا ، خاک چھاننا ، جان میں جان آنا کے علاوہ کچھ نئے محاورے شامل کیے ہیں جیسے کلاس لینا ، مرمت کرنا کا مناسب استعمال مصنف کی طرف سے ایک اچھا اضافہ ہے ۔ محاورات کے ساتھ ساتھ مصنف نے فارسی اور اردو ضرب الامثال ( زبان یار ترکی و من ترکی نہ می دانم ، حکم بہ سر چشم ، پرائے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ وغیرہ) سے بھی استفادہ کیا ہے ۔
اس کے علاوہ مصنف نے اپنے پیشے سے متعلق مخصوص اصطلاحات کے ساتھ ساتھ کچھ نئے انگریزی الفاظ کو اردو عبارت میں متعارف کیا ہے جو اس سے پہلے صرف بول چال میں نظر آتے تھے جیسے ڈشز ، ڈریس اپ ، سلو موشن ، وراندہ ، سوٹڈبوٹڈ، انوسٹر وغیرہ ۔
“روک سکتے ہو تو روک لو” اور ” لبیک والے پھر سے اسلام آباد پہنچ گئے ہیں ” کے جملوں میں دو تحریکوں کا نقشہ کھینچ کے رکھ دیا ہے ۔ ایک سیاسی اور دوسری شدید مذہبی دونوں پچھلے چند سالوں سے پاکستانی سیاست اور معاشرے پر اثرانداز رہی ہیں ۔ ایک کامیاب ادیب اپنی ذات تک محدود نہیں رہتا بل کہ معاشرے اور قوم کو زندگی کے ہر شعبے اور حوالے سے پڑھتا ہے ۔ یہ جملے مصنف کی مذہبی اور سیاسی بصیرت کی اچھی عکاسی کرتے ہیں ۔ جانان چینی کا اسلوب :
کتاب کی زبان سادہ سلیس اور رواں ہے ۔ عبارت چھوٹے چھوٹے مربوط جملوں میں درج ہے ۔ بیان کا انداز بےتکلفانہ اور قدرے ظریفانہ ہے ۔ جگہ جگہ مختصر منظر نگاری اور ہلکی جزئیات نگاری کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں ۔ ایک دو جگہوں پر مکالمے کا انداز ملتا ہے ۔ مجموعی طور پر کتاب پر اختصار غالب ہے شاید اس کی وجہ مصنف کا مختصر اور پابند سفر ہو ۔
فکری حوالے سے یہ کتاب ایک مکمل سفرنامہ ہے کہ اس کے اندر سفر کے حالات ، مصنف کے مشاہدات ، اس ملک کی مختصر تاریخ ، مذہب ، سیاست ، حکومت ، تجارت ، معیشت اور معاشی منصوبہ بندی ، آفات ناگہانی کے نقصانات سے بچاو کے تدابیر کی جامع حکمت عملی منصوبہ بندی ، پالیسی اور کارکردگی، عام معاشرہ ، ماحول اور انسانی زندگی کے نجی خدوخال پر خوب تبصرہ ملتا ہے ۔
معائب :
اس کتاب کے معائب میں چند ایک چیزیں شامل ہیں جن میں کیشیپی نامی پرندے کے شکار کے حوالے سے تضاد بیانات (شکار کے لئے بندوق اٹھاتے ہی اس کے پیٹ میں درد شروع ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا شکار نہیں کرتے ) چین کے طوطوں کے ذکر میں سب طوطوں کا ہوا سے گرنا حالاں کہ کہانی کے مطابق صرف ایک طوطا گرا تھا ۔دنیا کے جنت نظیر مقامات کے تذکرے میں سوئٹزرلینڈ کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔ موسیقی کے حوالے سے مارکوپولو کی یادداشت کا تذکرہ کسی باقاعدہ حوالے کے بغیر کیا گیا ہے ۔ عمارات کے علاوہ دیگر مناظر کے بیان میں جزئیات نگاری سے گریز کیا گیا ہے ۔ سفرنامے کے فنی لوازمات میں یہ خاص عنصر ہے کہ سفر سے ہٹ کر کسی موضوع پر طویل گفتگو نہیں کریں گے جب کہ یہاں خالد مرحوم کی شہادت کو لے کر الگ عنوان کے ساتھ خالد کا پورا خاکہ پیش کیا گیا ہے جو کہ سفرنامے کی کمزوری میں آتی ہے ۔ ایک دو جگہوں پر بالکل نجی بلکہ ذاتی حوالے سے بات ہوئی ہے جو بےجا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ نون اور جنون کے درمیان ہوئی پست سیاسی بحث کو بھی شامل شامل کیا گیا ہے اس سے کتاب کی سنجیدگی متاثر ہوئی ہے ۔ کہیں کہیں قاری جزئیات اور تفصیل کی جستجو میں ہوتا ہے کہ اک دم بات سمٹ جاتی ہے ۔ایک ہی ہوٹل میں رہائش کے دوراں بار بار قیام و طعام کا تذکرہ بھی تکرار بنتا ہے اور قاری پر گران گزرتا ہے ۔ اس کے علاوہ اس میں تاثرات کم اور معلومات زیادہ ہیں ۔ جس سے اس کی ادبی حیثیت پر اثر پڑا ہے ۔
مجموعی جائزہ :
قاضی عنایت جلیل عنبر کا سفرنامہ جانان چینی جدید چین کا ایک عمدہ مرقع ہے اس میں آپ موجودہ چین اور چینی قوم کی معاشرتی اور معاشی سرگرمیوں اور حکمت عملیوں کو قریب سے دیکھ سکتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ یہ کتاب آپ کو چین کی تاریخی اور سیاحتی مقامات کی سیر بھی کراتی ہے ۔ مختصر یہ کہ جانان چینی موجودہ دور کے مصروف انسان کے لئے مطالعے کی بہترین کتاب ہے جو کہ مختصر بھی ہے اور جامع بھی ۔ میں اس کتاب کو اردو سفرنامے میں ایک مفید اضافہ سمجھتا ہوں ۔