کیا نیٹکو بس حادثے کا ذمہ دار ڈرائیور تھا؟ – شاہ عالم علیمی
کیا نیٹکو بس حادثے کا ذمہ دار ڈرائیور تھا؟ – شاہ عالم علیمی
14 فروری 2023ء کو میری ایک تحقیقاتی رپورٹ اخباروں میں چھپی جو کہ ایک پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کمپنی کی گاڑیوں کے حوالے سے تھی۔ اس رپورٹ میں تفصیل سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ کس طرح اس مخصوص کمپنی کی ناکارہ گاڑیاں پچھلے دس پندرہ سال کے اندر متعدد حادثات میں سینکڑوں گلگت بلتستانیوں کی جان لے چکی ہیں۔ فروری 2023ء کو بھی اس کمپنی کی گاڑی کا قراقرم ہائی وے پر حادثہ ہوا تھا جس میں دو درجن سے زیادہ قیمتی جانوں کا ضیائع ہوا۔
انھی دنوں میں نے اس کمپنی کے دفتر واقع راولپنڈی جنرل بس اسٹینڈ کا چکر لگایا۔ انھوں نے ایک بینر آفس ھذا میں آویزاں کیا ہوا ہے جس میں لکھا ہے کہ ہمارے ساتھ سفر کرنے والے ہر مسافر اگر ایک مخصوص رقم کرایے کے ساتھ اضافی ادا کرے تو حادثے میں موت کی صورت میں اس کو اتنی رقم ملے گی۔
گویا کہ انھوں نے اپنے ماضی سے یہی سیکھا ہے کہ حادثہ تو ہونا ہی ہونا ہے، اس میں ہمارا کیا قصور!
پچھلے چند سالوں میں گلگت بلتستان میں روڑ حادثات کے حوالے سے راقم کی متعدد رپورٹیں اخباروں چھپی۔ جن میں اس بات کی خصوصیت کے ساتھ نشاندھی کی گئی تھی کہ ان سڑکوں پر، اور خصوصی طور پر قراقرم ہائی وے پر، چلنے والی گاڑیاں سیفٹی اسٹینڈرڈ پر نہیں اترتی، یہی وجہ کہ ان کے حادثات پیش آتے ہیں۔
میں جب بھی اسلام آباد سے غذر سفر کرتا ہوں ہمیشہ نیٹکو کے ساتھ سفر کرتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پپلک پراپرٹی ہے۔ یہ ترقی کریں اس کا فائدہ عوام ہی کو ہوگا۔ مگر اب نیٹکو کے اندر بھی مس منیجمنٹ اور اقرباء پروری کی بو آرہی ہے۔
گزشتہ دنوں میں نیٹکو کے ساتھ سفر کررہا تھا۔ ان کی جو بسیں اسلام آباد سے غذر چلتی ہیں وہ قراقرم ہائی وے پر چلنے کے قابل بالکل بھی نہیں ہیں۔ ایسی ہی ایک گاڑی میں سفر سے پہلے ہی میں نے یہ سوال کیا کہ کیا یہ بس اپنا سفر مکمل کرسکے گی؟ ہوا یوں کہ حویلیاں سے تھوڑا سا آگے پہنچتے ہی اس کے پچھلے دو ٹائیر پھٹ گئے۔ خوش قسمتی سے چڑائی کی وجہ سے رفتہ آہستہ تھا سو کسی بڑے حادثے سے بال بال بچ گئے۔ چلتے چلتے تین چار گھنٹے بعد اس گاڑی کا آگے والا ٹائیر پھٹ گیا، یہاں بھی چالیس سے زیادہ مسافروں پر خدا کا کرم ہوا۔
اس معاملے کو ہم نے سوشیل میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے رکھا۔ اور اس بات کی نشاندھی کی کہ ان گاڑیوں کو اس روٹ پر چلانے کا مطلب عوام کی زندگیوں سے کھیلنا ہے۔ اگلے ہی دن غذر سے راولپنڈی جانے والی نیٹکو بس کا ہزارہ موٹر وے پر حادثہ ہوا۔ گاڑی جل کر خاکستر ہوگئی۔ خوش قسمتی سے تیس سے زیادہ مسافر معجزاتی طور پر بچ گئے۔
اگلے ایک ہفتے میں اس حادثے کے حوالے سے ان کی رپورٹ سامنے آئی، جس میں ڈرائیور کو قصوروار ٹھہرایا گیا ہے اور سارا ملبہ اس بیچارے کے سر ڈال کر معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر اس ڈرائیور کی غلطی تھی تو مذکورہ بالا بس کی خرابی کا ذمہ دار بھی اس کا ڈرائیور ہی ہوگا۔ تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ نیٹکو نے سارے غیر تربیت یافتہ اور ناتجربہ کار ڈرائیور رکھا ہوا ہے؟
میں سمجھتا ہوں کہ یہ رپورٹ صیح نہیں ہے۔ ادارہ اور متعلقہ زمہ داران اپنی ذمہ دای سے چشم پوشی نہیں کرسکتے۔ ان کو حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ غیر حقیقت پسندانہ رویے سے کل کلاں پھر حادثہ ہوگا۔ لہذا حادثات کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ان کا تدارک اشد ضروری ہے۔
اس ساری کہانی سے آپ عوام کی بے بسی سرکار کی بے حسی اور اداروں کی نااہلی کا آسانی کے ساتھ اندازہ لگا سکتے ہیں۔
عوام کے نمائندوں سے عوام کا مطالبہ ہے کہ وہ حرکت میں آجائیں اور اپنی زمہ داریاں نبھائیں۔ کم از کم نیٹکو جیسے ادارے کو ٹھیک سے چلائیں۔
گلگت بلتستان میں روڑ حادثات روکنے کے لیے گاڑیوں کی سیفٹی اسٹینڈرڈ اور ڈرائیوروں کی، قراقرم ہائی وے جیسے شاہراہ کو سامنے رکھ کر، خصوصی مہارت پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ نیٹکو کی گاڑیاں، خاص کر، غذر سے اسلام آباد اور گلگت سے چترال چلنے والی گاڑیاں سیفٹی اسٹینڈرڈ پر نہیں اترتی۔ مگر ٹرانسپورٹ کے ادارے سے منسلک ماہرین کو نجانے یہ کیوں نظر نہیں آتا خدا ہی جانے!