
کیا علم سے ڈر لگتا ہے؟ – تحریر: کریم علی شاہ
کیا علم سے ڈر لگتا ہے؟ – تحریر: کریم علی شاہ
علم ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے بڑھتی جاتی ہے۔ کتابیں انسان کی بہترین دوست ہوتی ہیں جو ہمیں سوچنے، سمجھنے اور دنیا کو بہتر طور پر پرکھنے کا سلیقہ سکھاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ قوموں نے تعلیم اور مطالعے کو اولین ترجیح دی ہے۔ آج کے جدید دور میں جہاں دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے، علم تک رسائی پہلے کی نسبت بہت آسان ہو چکی ہے، مگر ہمارے کچھ علاقے ابھی تک اس فکری روشنی سے محروم ہیں اور محرومی کی سب سے بڑی وجہ قدامت پسندی اور لاعلمی ہے۔
حال ہی میں چترال کی ایک بیٹی لکشن بی بی نے امریکہ سے چترال اور گلگت بلتستان کے لیے کتابیں بھیجی ہیں۔ یہ کتابیں مختلف موضوعات پر تھیں جن میں ادب، تاریخ، سائنس، عالمی معلومات، بچوں کے لیے کہانیاں، خواتین کے لیے ہنر سیکھنے کی رہنمائی اور دیگر مفید موضوعات پر کتابیں شامل ہیں۔ کتابوں کے اس تحفے کا واحد مقصد مطالعے کی روایت کو فروغ دینا، نوجوانوں میں علم کی جستجو بیدار کرنا، اور علاقے میں تعلیمی ماحول کو بہتر بنانا ہے
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ںعض لوگوں نے ان کتابوں پر اعتراضات شروع کر دیئے ہیں۔ ان کا موقف تھا کہ “یہ باہر کی کتابیں ہیں، ہمارے کلچر سے میل نہیں کھاتیں، ہمیں ان کی ضرورت نہیں”۔
کتابوں سے بیر رکھنے کی سوچ تکلیف دہ اور خطرناک بھی ہے۔ اگر کسی کو کتاب کا موضوع پسند نہیں آتا تو وہ اس سے صرفِ نظر کر سکتا ہے، لیکن اسے روکنے یا دوسروں کو پڑھنے سے منع کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ یہ رویہ علم دشمنی کے زمرے میں آتا ہے۔
اگر چترال میں بعض لوگ ان قیمتی کتابوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، تو میری پرخلوص گزارش ہے کہ ان کتابوں کو گلگت بلتستان بھیج دیا جائے۔جہاں علم دوست نوجوان، طلبا اور ساتذہ ان سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں کتابوں کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے، اور وہاں کے تعلیمی ادارے اور لائبریریاں ان کتابوں کو خوش دلی سے قبول کریں گی۔
دنیا کے شانہ بشانہ چلنے کے لئے ہمیں من حیث القوم یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم لاعلمی کی تاریکیوں میں رہنا چاہتے ہیں یا ترقی کی راہوں پر گامزن ہونا چاہتے ہیں۔ علم کے خلاف کھڑے ہونے کا مطلب ہے اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل اندھیرے میں دھکیلنا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مطالعے کو فروغ دیں، نئی سوچ کا خیر مقدم کریں اور اپنے بچوں کو وہ مہارتیں دیں جن کی انہیں آج کی دنیا میں اشد ضرورت ہے۔
کتابیں نہ صرف علم کا ذریعہ ہیں بلکہ یہ معاشرتی ہم آہنگی، وسیع سوچ اور بہتر مستقبل کی ضمانت بھی ہیں۔ ہمیں لکشن بی بی جیسے نوجوانوں کی کاوشوں کو سراہنا چاہیے، جو اپنے علاقے میں علم کو فروغ دینا چاہتے ہیں اگر ہم نے اب بھی اپنی سوچ کو نہ بدلا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔کتابوں کو رد نہ کریں، انہیں گلے لگائیں کیونکہ یہی ہمارا اصل سرمایہ ہیں۔