Chitral Times

Dec 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کیا صحافت ڈگری کی محتاج ہے؟ – خاطرات:امیرجان حقانی

شیئر کریں:

کیا صحافت ڈگری کی محتاج ہے؟ – خاطرات:امیرجان حقانی

 

 

گلگت بلتستان میں صحافیوں کے حوالے سے دو باتیں زور و شور سے کہی جاتیں ہیں. ایک یہ کہ یہاں کے صحافیوں کے پاس صحافت کی ڈگری نہیں. دوسری بات اکثر صحافی مختلف اداروں اور شخصیات کے ترجمان ہیں اور پیڈ ہیں. دونوں باتوں میں بڑا وزن ہے اور کسی حد تک حقیقت بھی یہی ہے. ہم آج پہلی بات کو ڈسکس کریں گے کہ:

کیا واقعی صحافت کے لیے صحافتی ڈگری ہونا ضروری ہے؟

 

صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جو تجسس، تحقیقی صلاحیت، اور حقائق کی کھوج پر مبنی ہے۔ اس میدان میں کامیابی کے لیے محض کتابی علم یا ڈگری کافی نہیں ہوتی، بلکہ عملی تجربہ، مشاہدہ اور لکھنے کی صلاحیت اہمیت رکھتی ہیں۔ ایسے بہت سے معروف صحافی ہیں جنہوں نے بغیر کسی رسمی صحافتی ڈگری کے اپنی پہچان بنائی اور صحافت کی دنیا میں قابل قدر مقام حاصل کیا۔

 

باکمال صحافی جن کے پاس صحافتی ڈگری نہیں تھی، ان میں ابوالکلام آزاد، شورش کاشمیری، ظفرعلی خان، عبدالمجید سالک، غلام رسول مہر، ارشاد احمد حقانی اور الطاف حسن قریشی جیسے سینکڑوں نام نمایاں ہیں.

 

عارف نظامی: پاکستان کے مشہور صحافی اور نواے وقت گروپ کے بانی مجید نظامی کے بیٹے، جنہوں نے بغیر کسی رسمی صحافتی تعلیم کے نواے وقت میں اپنی خدمات انجام دیں اور پاکستانی صحافت میں اہم کردار ادا کیا۔

 

طلعت حسین: پاکستانی صحافی اور ٹی وی اینکر، جنہوں نے اپنی محنت اور لگن سے صحافت کے میدان میں اعلیٰ مقام حاصل کیا، حالانکہ ان کے پاس صحافت کی رسمی ڈگری نہیں ہے۔

 

مجید نظامی: نواے وقت گروپ کے بانی اور معروف صحافی، جنہوں نے بغیر کسی رسمی صحافتی ڈگری کے پاکستانی صحافت میں نمایاں کردار ادا کیا۔
ایسے بہت سے اور نام ہیں جن کے پاس باقاعدہ صحافتی ڈگری نہیں مگر صحافتی دنیا کے چمکتے ستارے ہیں.

 

ڈگری کے بغیر کامیاب صحافی کیسے؟

 

صحافت میں کامیابی کے لیے صرف کتابی علم کافی نہیں ہوتا۔ عملی تجربہ، مشاہدہ، اور لکھنے کی قدرتی صلاحیت زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ وہ لوگ جو خود کو مسلسل بہتر بناتے رہتے ہیں، میدان میں کام کرتے ہوئے نئے تجربات سیکھتے ہیں اور اپنی رپورٹنگ میں تحقیق اور تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہیں، وہ بغیر ڈگری کے بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ تاہم اگر باقاعدہ ڈگری کیساتھ یہ سب کچھ ہو تو نور علی نور ہے.

 

دوسری جانب بہت سے افراد ہیں جو اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں رکھتے ہیں لیکن عملی میدان میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحافت میں صرف نظریاتی علم کافی نہیں ہوتا بلکہ عملی تجربہ اور میدان میں کام کرنے کی صلاحیت بھی اہمیت رکھتی ہے۔

 

صحافت کے میدان میں ڈگری ضروری نہیں ہے، بلکہ صحافی کے اندر سچائی کی تلاش، مشاہدے کی طاقت، لکھنے کی مہارت اور رپورٹنگ کا جذبہ ہونا ضروری ہے۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جو کسی ڈگری سے نہیں، بلکہ عملی تجربے اور لگن سے آتی ہیں۔

 

گلگت بلتستان کے دسیوں ایسے عامل صحافیوں کو جانتا ہوں جن کے پاس صحافت تو کیا پراپر کسی مضمون میں ایم اے یا گریجویشن بھی نہیں،مگر عملی صحافت میں اپنے قدم جمائے ہوئے ہیں. فیلڈ رپورٹنگ سے لے کر نیوز ڈیسک اور ایڈیٹنگ و قلم کاری تک کرتے ہیں. اور ایسے کئی احباب کو بھی جانتا جن کے پاس صحافت کی ڈگری موجود ہے جو باقاعدہ بڑی یونیورسٹیوں سے لی ہوتی ہے مگر صحافت کے کسی بھی صنف میں ان کا کنٹریبیوشن نہ ہونے کے برابر ہے.

 

لہٰذا، اگر آپ صحافت میں قدم رکھنا چاہتے ہیں تو اپنی مہارتوں پر توجہ دیں، عملی تجربات حاصل کریں، اور مسلسل خود کو بہتر بنانے کی کوشش کریں، جملہ جدید سکلز سیکھیں اور بے تحاشا مطالعہ کریں. صحافت کا میدان آپ کے لیے کھلا ہے، چاہے آپ کے پاس ڈگری ہو یا نہ ہو۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
89626