Chitral Times

Dec 5, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کیا اسرائیل ناقابل شکست ہے؟…..غزالی فاروق

شیئر کریں:


عربوں کے خلاف1948،  1967 اور 1973 کی جنگوں میں اسرائیل کی کارکردگی کو  ایک طویل عرصے سے اسرائیل کی فوجی  برتری کے طور پر  پیش کیا جاتا ہے۔ اسرائیل کی ان بظاہر کامیابیوں اور مسلمانوں کے علاقوں  کو  لڑ کر حاصل کر لینے  کی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل ایک ناقابل شکست ریاست ہے اور اس  کے ساتھ براہ راست جنگی تنازعہ کوئی مناسب حل نہیں ۔اور پھر اسی مفروضے کو پیش کر کے  دو ریاستی حل کے لیے جواز فراہم کیا جاتا ہے کہ چونکہ اسرائیل  کے وجود سے تو انکار ممکن نہیں   تو کم سے کم  غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں موجود فلسطینی  مسلمانوں  کی آزادی  اور خود مختاری کی ہی بات  کی جائے   ۔     لیکن اگر ان جنگوں کا  گہرا ئی میں جائزہ  لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ مسلم ممالک نے  اسرائیل کی ریاست کو  ختم کرنے کے لیے تو  یہ جنگیں لڑی ہی نہیں۔  بلکہ ان کے پیچھے مقاصد کچھ اور تھے۔

1948ء کی جنگ میں   فلسطین   کے مسلمانوں کی جانب سے نمائندگی    شرق الاردن (Transjordan) کے شاہ عبداللہ   اور   مصر   کے وزیر اعظم   نقراشی پاشا نے کی  ۔ یہ  شاہ عبد اللہ  وہ تھا جس کے والد شریف حسین نے جنگ عظیم اول میں  برطانیہ کے کہنے پر   خلافت عثمانیہ  کے خلاف بغاوت کی تھی ۔اور پھر    شاہ عبد اللہ  نے برطانیہ کے کرنل لارنس کے ساتھ مل کر عثمانی  افواج کے خلاف باقاعدہ  جنگ لڑی تھی۔  امت کے ساتھ اس غداری اور    برطانیہ کے ساتھ  اس وفاداری کے نتیجہ میں برطانیہ نے انعام کے طور پر 1921ء میں عبد اللہ    کو شرق الاردن (Transjordan)  کا بادشاہ مقرر کیا۔ شاہ عبدللہ 1951ء تک اردن کے بادشاہ کے طورپر اپنے  تخت پر موجود رہا اوراس نے   1948ء کی عرب-اسرائیل جنگ میں اسرائیل کے ایک ریاست کے طور پر کامیابی کے ساتھ  ابھرنےمیں اہم کردار ادا کیا۔

10 مئی 1948  کو  یعنی  اسرائیل کی جانب سے ریاست کے اعلان سے  صرف چار روز قبل صیہونی راہنما اور اسرائیل کی مستقبل کی  وریز اعظم   گولڈا مئیر (Golda Meir)   ایک عرب عورت کے  روپ میں اردن پہنچی اور اس نے شاہ عبد اللہ سے خفیہ ملاقات کے دوران شاہ عبد اللہ کو اس کا وعدہ یاد دلایا   کہ وہ اسرائیل کی ریاست کے  قیام کے نتیجہ میں   یہودیوں کے خلاف ممکنہ  جنگ میں  باقی عرب  ممالک کا ساتھ نہیں دے گا۔ شاہ عبد اللہ نے یہ وعدہ مغربی کنارے (West Bank) کو اردن کا حصہ بنائے جانے کے بدلے میں  کیا تھا ۔اور یہ وہ علاقہ تھا جو  اقوام متحدہ کی جانب سے  1947 میں جاری کیے گئے تقسیم کے منصوبے کے مطابق ویسے بھی اسرائیل کی ریاست کا حصہ نہ تھا۔ لہٰذا  شاہ عبد اللہ کا یہ وعدہ اردن کے وقتی  فائدے لیکن امت کے مستقل  نقصان پر مبنی تھا جسے آج تک یہ  امت بھگت رہی تھی۔ 

1948ء کی اس جنگ میں شاہ عبد اللہ کا جو اپنا لشکر تھا اس کی قیادت ایک انگریز جنرل جان گلب (Gen. John Glubb) کے ہاتھ میں تھی۔ وہ اپنی یادگار  میں لکھتا ہے کہ اسے  برطانیہ کی جانب سے سخت احکامات تھے کہ اس کی فوج یہودیوں کے علاقوں میں داخل نہیں ہو گی۔  پھر اردن نے اپنی سرزمین سے گزرنے والی عراقی فوج  کو بر  وقت  راستہ فراہم نہ کیا جس وجہ سے وہ جنگ میں صحیح وقت پر نہ پہنچ سکی۔ اسی طرح  مصر کے وزیر اعظم  نقراشی پاشا نے  اس جنگ میں اپنی  باقاعدہ فوج بھیجنے کی بجائے رضاکارانہ فوجیوں پر مبنی دستہ  بھیجا  جسے صرف چند ماہ قبل ہی تیار کیا گیا تھا۔ یوں   اسرائیلی فوج کی کامیابی کی وجہ مسلم حکمرانوں کی  غداری بنی جنہوں  نے  دانستہ طور پر ایسی قابل فوج کھڑی نہ کی جو اسرائیلی فوج کا مقابلہ کر سکتی۔ اس جنگ کے نتیجہ میں مغربی کنارہ (West Bank) اردن  کی خواہش   اور اس کے  اسرائیل کے ساتھ کیے  گئے   وعدےکے  عین مطابق  ارددن  کے قبضے میں ہی  آیا جبکہ  غزہ کی پٹی پر مصر کی خواہش کے مطابق  مصر کا ہی  قبضہ ہوا ۔ لیکن اس کے برعکس   اسرائیل نے    باقی ماندہ تمام علاقے پر اپنی خواہش کے مطابق قبضہ جما لیا۔ یوں اس جنگ میں  اسرائیل کو واضح طور پر فتح حاصل ہوئی۔

1967ء کی  چھ روزہ جنگ دراصل خطے میں امریکہ اور برطانیہ کے اثر و رسوخ کی جنگ تھی۔ برطانیہ خطے سے  مصر میں قائم جمال عبد الناصر کی  امریکہ نواز حکومت کا اثر و رسوخ کم کرنا چاہتا تھا اور ایسا اس نے خطے میں  اسرائیل کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے ذریعے سے کیا۔ چونکہ اردن اور شام میں برطانیہ نواز حکومتیں قائم تھیں ، اس لیے انہوں نے اس جنگ میں اسرائیل  کے سامنے صرف بظاہر مزاحمت دکھائی۔ اس وجہ سے اس جنگ کے نتیجہ میں اسرائیل نے مسلمانوں کے  چار علاقوں پر قبضہ حاصل کیا: مغربی کنارہ (West Bank)، گولان کی پہاڑیاں، جزیرہ نما سینا اور غزہ کی پٹی جن میں سے پہلے دو علاقوں پر آج کی تاریخ تک اسرائیلی افواج  کا قبضہ برقرار ہے۔

اس جنگ میں  اردن  میں موجود     شاہ عبد اللہ کے پوتے شاہ حسین نے   اپنی افواج  کو  جنگ سے قبل ہی ایسے علاقوں میں تعینات کر دیا جہاں جنگ نہ ہونا تھی۔  مزید یہ کہ اردن کی افواج    دریائے اردن سے آگے نہ بڑھیں اور وہیں رک کر  اسرائیلی افواج پر بظاہر  گولہ باری کرتی رہیں جس سے اسرائیل کی افواج کو مغربی کنارے(West Bank) سے ہوتے ہوئے دریائے اردن تک  مارچ کرنے کا موقع فراہم ہوا۔ یوں اسرائیل نے مغربی کنارے(West Bank)   پر قبضہ کر لیا ۔   جہاں تک گولان کی پہاڑیوں کی بات ہے تو اس وقت جبکہ یہ  شامی افواج کے قبضے میں  تھیں اور شامی افواج  ان پر براجمان تھیں ، شام کے سرکاری ریڈیو اسٹیشن سے یہ اعلان کیا گیا کہ اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس اعلان کے بعد  شام کی افواج کو  حکومت کے حکم پر نیچے بلوا لیا گیا  جس کے نتیجے میں  دوسری جانب سے اسرائیل کی افواج نے آ کر  نہایت کلیدی اہمیت کی حامل   گولان کی   ان پہاڑیوں پر قبضہ جما لیا  ۔

  اس جنگ میں اسرائیل نے مصر کے جزیرہ نما سینا(Sinai Peninsula)  اور غزہ کی پٹی پر بھی  قبضہ حاصل  کیا۔ جزیرہ نما سینا پر  اسرائیل کا  قبضہ 1979 میں  اسرائیل   اور مصر کے درمیان  طے پائے جانے والے  کیمپ ڈیوڈ امن معاہدے تک برقرار رہا۔ اس معاہدے میں جزیرہ نما سینا پر اپنا  قبضہ چھوڑنے کے لیے   اسرائیل  نے شرط کے طور پر  مصر سے اپنے آپ کو ایک ریاست   کی حیثیت سے  تسلیم کروایا اور مصر  اور غزہ کی سرحد کے درمیان بفر زون (buffer zone) کے طور پر ایک   مستقل   راہداری تعمیر کروائی  جس پر اب مصر کی فوج پہرا دیتی ہے۔  جبکہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کا قبضہ  پی ایل او کی جانب سے اسرائیل کو باقاعدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم کیے جانے    کے نتیجہ میں 1994ء میں ختم ہوا۔  

 لہٰذا 1967ء کی اس جنگ میں    برطانیہ نے  خطے میں امریکہ کے اثر و رسوخ کو کم کرنے  اور اس کی جگہ پر  خطے میں  اسرائیل  کے ذریعے اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے میں واضح  کامیابی حاصل کی۔ آج  جب مسلم حکمرانوں کی جانب سے  اسرائیل کو 1967ء کی جنگ سے پہلے کی سرحدوں پر واپس جانے کو کہا جاتا ہے اور اسے فلسطین  کے لیے  امن سے  تعبیر کیا جا تا ہے  تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ   اسرائیل بقیہ دو علاقوں میں سے   گولان کی پہاڑیوں کا قبضہ شام  کی حکومت کے اور مغربی کنارے (West Bank) کا  قبضہ فلسطینی اتھارٹی کے حوالے  کر  دے  جبکہ  1948 کی جنگ کے نتیجہ میں حاصل کیے گئے باقی تمام علاقے پر وہ  اپنا قبضہ ایک اسرائیل کی ریاست کی حیثیت کے طور پر بدستور برقرار رکھے!

اکتوبر 1973 کی “یوم کپور جنگ ” کا مقصد بھی  اسرائیل کا خاتمہ ہر گز نہ تھا۔ یہاں تک کہ  اس جنگ کا مقصد 1967ء کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل کے ہاتھ میں چلے جانے والے  چار علاقوں کو دوبارہ سے فتح کرنا بھی نہ تھا۔  اس کا مقصد مصر اور شام میں نئے منتخب شدہ صدر یعنی انور سادات اور حافظ الاسد کی حکومتوں کو  ان کی عوام کی نظر میں  مستحکم  کرنا اور اسلام  دوست ثابت کرنا تھا۔ تبھی مصر اور شام نے  اسرائیل کے  خلاف اس جنگ کا آغاز کیا۔ جنگ کے آغاز کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر  مصر کی افواج نے کامیابی کے ساتھ مقبوضہ جزیرہ نما سینا میں داخلہ حاصل کر لیا تھا۔ دوسری جانب شام کی افواج نے مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں کا  بھی کچھ علاقہ  واپس حاصل کر لیا۔ لیکن چونکہ ارادہ  صرف جنگ کرنا تھا نہ کہ کچھ فتح کرنا ، اس لیے ہمیں نظر آتا ہے کہ مصر اور شام جنگ  کو ان مقامات  پر روک کر مذاکرات میں داخل ہو گئے ، جن مقامات   سے آگے بڑھ کر وہ ناصرف اپنے علاقے واپس لے سکتے تھے بلکہ    اسرائیل کا صفایا  بھی کر سکتے تھے، اگر وہ  ایسا چاہتے تو ۔لیکن ظاہر ہے  ایسا  نہ کیا گیا ۔

ان تمام  تاریخی حقائق سے یہ بات نہایت واضح ہو جاتی ہے کہ  مسلم ممالک نے اسرائیل کے خاتمے کے لیے ابھی تک کوئی جنگ لڑی ہی نہیں کہ جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا کہ اسرائیل ناقابل شکست ہے۔ یہ جنگیں مسلم حکمرانوں کی جانب سے مغربی طاقتوں کی خواہشات کے مطابق  لڑی گئیں   نہ کہ امت کی خاطر۔ لہٰذا ان کا نتیجہ بھی   ویسا ہی نکلا جیسا مغربی طاقتیں چاہتی تھیں۔  


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
48633