
کہوار شاعری و موسیقی پر ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب کے نظرئیے کا منفی اثر- اسد الرحمن
کہوار شاعری و موسیقی پر ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب کے نظرئیے کا منفی اثر- اسد الرحمن
میری اس گفتگو کا پہلا عنوان یہی تھا کہ “کہوار شاعری و موسیقی پر فیضی صاحب کے نظرئیے کا منفی اثر ” اس کے بعد تنقید کا آغاز کچھ اس طرح تھا۔
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب ایک مقبول و معروف ادبی شخصیت ہیں ۔ وہ عرصے سے نہ صرف مختلف اخباروں پہ کالم لکھتے ہیں بلکہ کئ معلوماتی کتابوں اور رسالوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر اعلیٰ علمی شعبوں میں قلم کشائی کر رہے ہیں ۔ چترالی ثقافت ، ادب، مغاشرت اور تہذیب کے حوالے سے مغلومات کے خزانے کا فیض جو ڈاکٹر صاحب نے پہنچایا ہے وہ ہر حاضر اور انے والے طالب کے لیے مشغل راہ کا درجہ رکھتا ہے ۔ لیکن اسے بدلنا پڑا
اور نیا عنوان رکھنا پڑا
“کہوار اکابر علماء ادب کے نظرئیے کا کہوار شاعری و موسیقی پر منفی اثر ۔
لیکن جس طرح میں نے اوپر فیضی صاحب کے حوالے سے موضوع کو برقرار رکھا ہے اسکا مطلب کلک بیٹ یعنی توجہ کھینچنے والی عمل مراد لیا جا سکتا ہے ۔ اور اصل عنوان
“کہوار اکابر علماء ادب کے نظرئیے کا کہوار ادب پر منفی اثر”۔ ہی ہے
اب اس ساری تنقیدی گفتگو میں “فیضی صاحب اور اسکے ہم سخن” اڈیٹ کر کے اس کی جگہ اکابر علماء ادب یاکہوار شعراے ادب لکھا جاے گا ۔ اسکی بنیادی وجہ یہ بن گئی کہ میں نے براہ راست فیضی صاحب کا کالم پڑھ نہ سکا کہ جس میں وہ جدید سٹوڈیو اور جدید انسٹرومنٹ کے اضافے کی مخالفت کی ہے۔ ہو سکتا ہے فیصی صاحب کے اس نظریے پہ میری تحقیق درست نہ ہو ۔ لیکن یہ مسلم حقیقت ہے کہ جدید سٹوڈیو کے ساتھ ہی کئ استاد علمائے ادب نے اس ٹکنالوجی اور جدید موسیقی کی شدید مخالفت کی اور دلائل پیش کیں کہ اس فروغ سے کہوار ثقافت کے روایات اور شناخت کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ اس بیانیے اور نظریے کا کہوار موسیقی پر کیا اثر پڑا آئیے دیکھتے ہیں ۔
اس سارے تنقیدی جائزے کو پڑھتے ہوے ایک بات ہمشہ زیر غور رہے کہ یہ مزاکرہ یا مباحثہ چار بنیادی موضوع یعنی ٹکنالوجی ، تغیّر، آ ئڈیا اور تشہیر کے منتقی ربط سے نتیجے کو پہنچتا ہے۔ کیونکہ یہ گفت وشنید کچھہ قسطوں میں میسر آئے گا ۔ لہزا اس بحث یا گفتگو کو پوری طرح پڑھے بغیر آپ کوئی خاص رائے قائم نہیں کر سکتے ۔میں اپنے تنقیدی تحریروں میں امین الرحمن چغتائی ، نقیب اللہ رازی ، عرفان اور ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب وغیرہ تک کے کہوار ادباء شعراء کے ادبی خدمات کی اعتراف و تحسین کے علاوہ ان کے ساتھ نطریاتی اختلافات پہ بھی جامع اور استدلال کے ساتھ بحث کی کوشش کی ہے ۔
آج ہم سوشل پلیٹ فارم اور دوسرے سماجی میڈیا پر کہوار ادباء کے اس علمی اور فکری غلطی پر بحث کریں گے کہ جس نے کہوار موسیقی اور شاعری پر گہرا منفی اثر مرتب کیا ۔
کچھ سال پہلے جب دنیائے موسیقی جدید ڈیجیٹل سے اور بھی فروغ پاکر انالوگ رجحان اور جدید وینائل ریکارڈنگ میں بدل رہا تھا تو کہوار اکابر ادباء کا ایک بیانیہ اور نظریہ سامنے آیا کہ جس میں انہوں نے کہوار شعراء وگلوکاروں کو جدید سٹوڈیو سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ کہوار فنکاروں کی ایک لازمی طبقے نے مرید کی حیثیت سے اتباع میں اپنی آزادی اظہار اور ذوق و مزاق پر پابندی کے مہر ثبت کیے ۔ کہوار ادباء اس عالمگیر سچائی اور نقط نظر سے اختلاف رکھتے ہیں کہ جس سے نہ صرف ادب بلکہ ہر ہر شعبے میں بدیہی اتفاق پایا جاتا ہے ۔ کہ جب ہوا کا رخ بدل جاتا ہے تو اسے روکنے کی کوشش حماقت ہے ۔ جدید ریکارڈنگ سٹوڈیو آوازوں کے خوشگوار امتزاج میں اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس انقلاب نے پوری موسیقی کی بساط الٹ دی، اور سُروں کی ایک ایسے ہم آہنگی کو جنم دیا جس سے نا صرف معاشرتی رجحانات اور تاریخی عوامل بدل گئے۔ بلکہ فن نے بھی خود کو بدلنا پڑا ۔ بالغ طبقہ فکر کو اس بید کا بخوبی شعور ہےکہ سستہ و بلند محرکات میں تصور کا ہی کردار رہا ہے ۔ یہ تصور یا نظریہ جو مغربی زبان میں آ ئیڈیا کہلاتا ہے ۔ وہ قیمتی دماغ جو جدید سٹوڈیو ، ایفکٹس ، کیمرہ وغیرہ میں اپنے تصور کا اعلیٰ رنگ بکھرتے ہیں دانشوروں کے طبقاتی پوزشن میں چوٹی کا حصہ بن جاتے ہیں۔
21ویں صدی کے آغاز میں جب شوبز سے مطالق جدید ٹیکنالوجی ہر طرف رونما ہونا شروع ہو گیا تو لوگوں نے سمجھا کہ اب ہر کوئی آرام سے فلم ، موسیقی ، ڈاکومنٹری وغیرہ ان کے اعلی اصولوں کے مطابق بنا پائے گا۔ لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا قابل اور اعلی صلاحیتوں کے حامل طبقہ پہلے سے زیادہ محفوظ اور مشتہر ہو کر سامنے آگیا ۔ اور یہ بات واضح ہوکر سامنے آگیا کہ ٹکنالوجی چاہے جتنی ترقی کرے فائدہ ٹیلنٹ والوں ہی کےحصے میں اتا ہے۔ اور انہی کو سنہرے مواقع میسر اتے ہیں ۔ اچھے اور قیمتی فکر و خیال یقیناً ہونہار اور نابغہ لوگ رکھتے ہیں۔ اور دنیا کی یہ حیرت انگیز ارتقائی صورتیں ایک اعلی فہم و تصّور اور نظریات کی کوکھ ہی میں پلتے ہیں ۔ ایک بہت ہی جدید ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے شوبز سے مطالق کسی پروجیکٹ پہ اگر آپ کوئی معقول نظریہ نہیں رکھ سکتے تو ہائی سے ہائی ریزولوشن کیمرہ، بہترین کاسٹیوم، شاندار پروپس وغیرہ سب آپ کے لیے بے معنی ثابت ہوجاتے ہیں۔ ایسے بیسیوں فلمیں ائے دن پاکستان کے ناٹک گھروں میں بنتے رہتے ہیں ۔ لیکن وہ اپنے محدود خطے اور ثقافت سے باہر نہیں جاسکتے۔ جس طرح جو مقام ہالی ووڈ اور ہندوستان کی فیلمیں حاصل کرتے ہیں۔ بڑے پردوں میں جو کہانی اور آواز آفاقی پزیرائی حاصل کرتے ہیں ۔ اس کے پیچھے بڑے آئڈیاز ہی کارفرما ہوتے ہیں۔ اور کسی نغمہ و موسیقی کی معیاری پستی اور عامیانہ پن کا قصور وار بھی ٹکنالوجی نہیں اچھے نظریات سے محرومی ہے۔
یہ ایک صریح اور اشکار حقیقت ہے کہ جس طرح دریا کے تندو تیز رو اپنے جوبن میں کسی کے اختیار میں نہیں ہوتے اسی طرح زمانے کی تغیر و تبدل بھی ایسے کئی آزمائشوں کو روندتا ہوا اپنے منزل کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔ پھر تاریخ ، سماج، فکر، مغاشرہ اور ثقافت پر اپنے مرضی سے اثرانداز ہوتا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے کلچر بدلتا ہے پرانا نظام خیال کمزور ہوتا ہے اور ٹوٹتا پھوٹتا رہتا ہے۔
کہتے ہیں تنقید کا کام یہ ہے کہ وہ اس نظام خیال کو نئے سرے سے مرتب کرتی ہے۔ تاکہ ایک طرف تغیر میں تسلسل باقی رہے اور دوسری طرف زندگی کے شغبے میں تخلیق کا عمل جاری رہے۔ اور اگر تنقید یہ کام بند کردے تو نظام خیال کے دوران خون میں خلل واقع ہوجاتا ہے چیزوں کے رشتے ٹوٹنے لگتے ہیں۔ الفاظ اپنے معنی کھو دیتے ہیں۔ اقدار جن پر وہ معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ ایک دوسرے سے متصادم ہونے لگتی ہے۔ زندگی نئے تقاضے کرتی ہے اور یہ اقدار انہیں پورا کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ اسی لیے ایسے معاشرے کا انسان جس میں تخلیقی و فکری انسان بھی شامل ہے۔ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے اور وہ ضرورت اور تقاضوں کے مطابق تخلیق پیش کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ جس طرح اوپر بیان ہوا کہ جب وقت اور زمانے کا دھارا بدل جاتا ہے تو اسے نا صرف پورا نظام خیال پلٹہ کھاتا ہے بلکہ اواز بھی نئے انداز میں ڈھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہمارا فنکار ابھی اس سیڑی پہ قدم نہیں رکھا ہے اور موسیقی کے زمانی نشونما کو زبردستی اپنے ناقص سمجھ بوجھ کے سانچوں میں ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ لیکن اسکی نمو ہر بار اسے توڑ کر باہر اجاتا ہے۔ کیونکہ ان کے اس حکمت عملی میں کوئی فنی ،علمی یا فلسفیانہ فکر وخیال شامل نہیں ہے۔ لہزا جہاں میں تغیر سے ایک انہیں انکار ہے۔
آئیے ادب و موسیقی میں تغیر کی تاریخ پر ایک بہت ہی مختصر بلکہ دو ٹوک ضروری گفتگو کرتے ہیں ۔ ہورس ” فن شاعری” میں ایک جگہ لکھتے ہیں۔ ” مجھے کچھ الفاظ کا اضافہ کرنے کا حق کیوں نہ دیا جائے جبکہ کیسٹو اور انی الیس کی زبان ہماری مادری بولی کو نئے رجحانات سے وسیع کیا ہے ” یہ بات ہمشہ مسلم رہی ہے اور مسلم رہے گی کہ عصر حاضر کی کسوٹی پر کسے ہوے رجحانات رائج کیے جائیں ۔ جیسے جنگل سال کے اخر میں اپنی پتیان بدلتے ہیں اور پہلے کی پتّیاں گر جاتے ہیں ۔ اسی طرح رجحانات بھی بوڑھے ہو کر مر جاتے ہیں۔
اب رجحانات اگر بدل جاتے ہیں تو ٹکنالوجی آے دن بدلنے والی عمل ہے۔ لہزا آپ خود فیصلہ کرلیں کہ ہمارے بحث کا بنیادی نقط بھی ٹکنالوجی ہی سے جڑی ہے۔
ہورس پھر لکھتے ہیں کہ اس کے بعد ایس کیلس ایا جس نے چہرہ لگانے اور ٹریجیدی میں شاندار لباس کے استعمال کو رواج دیا۔ اور مناسب سائز کے تختوں کی مدد سے سٹیج بنایا ٹریجیدی میں پر شکوہ طرز ادا کو داخل دیا۔ اور لکڑی کے جوتے پہنا کر ایکٹروں کی قد بلند کیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تبدیلی و تحول اور ارتقاء کا یہ سلسلہ کب سے شروع ہے۔ اور ختم نہیں ہو رہا نا ہی کھبی ختم ہو گا۔ تغیر و تبدل ارتقاء کی ایک صورت ہے ۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ تبدیلی کو پسند کرتا ہے اور یکسانیت سے دلچسپی اٹھتا رہتا ہے۔ پھر پرفکشن کی تلاش میں رہتا ہے یہی تلاش اسے ترقی کی راہوں پر ہمہ وقت رواں دواں راکھتا ہے۔ جدید دور میں یہ تغیر نہ صرف ادب کے فکری حوالے سے ہوا بلکہ ادب و شاعری سے جڑی جدید موسیقی ، انسٹرومنٹ پھر لطیف افزار ہارڈ ویئر دونوں میں داخل ہوا ۔ اگر چہ جدید سٹوڈیو ایک دم غیر معمولی صورت میں موسیقی میں داخل ہوا لیکن پھر بھی ہم اسے اچانک نہیں کہ سکتے۔
یہی جدید موسیقی ، ڈرمہ، فلم وغیرہ جس حالت میں آج ہمیں نظر ارہے ہیں۔ یہ سفر ہزاروں سال پہلے ہومر، اکلس اور سفو کلنز سے شروع ہوا تھا۔ شاید اسے بھی پہلے کیونکہ دنیا کا پہلا معلوم شاعر ہومر ہے۔ لہزا کہتے ہیں کہ وقت تغیر پذیر بھی ہے تغیر آفرین بھی یہ پرانے کو ریزہ ریزہ کرکے بکھیر دیتا ہے اور نئے کو اسکی جگہ متمکن، مقیم اور صاحب اختیار کرتا ہے۔ وقت کی تغیر افرینی کے ساتھ ساتھ انسانی فکر بھی تغیر پذیر رہی ہے۔ اور اس نے خط مستقیم کی بجائے ہمشہ پیچ در پیچ خطوط پر ترقی کی ہے۔ انہی پیچ در پیچ خطوط پر ترقی کر کے آج کہوار موسیقی بھی سٹوڈیو تک رسائی حاصل کی ہے۔ یہ اسی سفر کا حصہ تھا اور آج بھی جاری ہے اور جاری رہے گا ۔ کہوار ادباء کا زمانے کے تبدیلی کو روکنے کی مداخلت اور اس نئے نظام فکر سے دنیاے علم وفکر کو ایک انوکھے تجربے کا موقع مل چکا ہے۔ کہ کہیں اگر ایسی قوتوں کے منفی افکار ادبی سفر کے راستے حائل ہو جائیں تو یہ دھارا ایسے راہوں پہ بہنے لگتا ہے جو اسکے بہاؤ کا راستہ نہیں ہوتا۔ تو ایسا بہاؤ نقصان کا سبسب بن جاتا ہے۔
ادارے کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں !