Chitral Times

Feb 9, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کہوار شاعری و موسیقی پر ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی صاحب کے نظرئیے کا منفی اثر۔ (آخری قسط) ۔ تحریر: اسدالرحمن بیگ

شیئر کریں:

کہوار شاعری و موسیقی پر ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی صاحب کے نظرئیے کا منفی اثر۔ (آخری قسط) ۔ تحریر: اسدالرحمن بیگ

 

 

فنکار کا ہمیشہ سے یہ خواہش اور ضرورت رہا ہے اور یہی فن کا روح اور وجود کا ضمن ہے کہ فن کی تشہیر ہو جائے۔ کیونکہ فن اور تشہیر کا علت و معلول جیسا رشتہ ہے۔ فن داد کا بھوکا ہوتا ہے۔ فن کی تشہیر کے لیے انسان نے قدیم سے متعدد تشہیری ذرائع کو وسیلہ بناتا آیا ہے ۔ ان میں تھیٹر سے لیکر موسیقی ، مشاعرہ ، کتابیں ، رسالے، اخبارات اور جدید دور میں ٹیلی ویژن ، فلم، ڈرامے ، الیکٹرونک میڈیا ، سوشل میڈیا جیسے اہم انقلابی ذرائع شامل ہیں ۔

 

جس طرح ادب کے مضامین زمانے کے ساتھ ساتھ تبدیلی و نمو کے راہوں سے ہو گزرتے ہیں بلکل اسی طرح تشہیری عمل میں بھی ان کے شانہ بہ شانہ تکامل و ترقی جاری رہتا ہے۔فن کے عدم ریاکاری کی وجہ سے موسیقی اور اچھے شاعری سے عوامی دوری زبان کی اصل صورت بدل کر رکھ دیتا ہے۔ وہ الفاظ اور جملے فروغ پاتے ہیں جو بگڑیں ہوئی ہوتی ہیں اور شاعری میں روزمرہ اصطلاحات و محاورات ، تشبیہات و علامات اور اشارے کنائے کے مخالف زبان فروغ پانا شروع ہوتا ہے۔
” بو تکلیفا اسوم ” فصاحت میں
” شمشوئ کوراوا” تشبیہ میں
” ما ای پھولوک” روزمرہ میں
اس سے جڑی بگاڑ اور اہل زبان کے مخالف مثالیں ہیں

 

حالیہ دور نمائشوں کا دور زرین ہے۔ کوئ بھی فنکار اسانی سے اعلیٰ سطح پر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا پر چار کر سکتا ہے ۔ نہ صرف ادبی اور دوسرے لطیف شعبوں میں بلکہ سیاسی، سائنسی اور مزہبی حلقوں میں بھی جدید ٹیکنالوجی بہترین اور سہل رسا پلیٹ فارم مہیا کر رکھا ہے۔ ایک سکالر یا مزہبی رہنما کی تبلیغ سے دنیا جہاں کے گھر گھر مزہبی تعلیمات بڑے اسانی سے پہنچ جاتے ہیں۔ پہلے علم و فن کتابوں ، رسالوں یا براہ راست تقاریر و خطبوں تک محدود ہوتا تھا۔ لیکن آج کل جدید ٹیکنالوجی و نظریات کی بدولت سوشل میڈیا اور دوسرے جدید ذرائع نے یہ فاصلہ مٹا کر رکھ دیا ہے۔

 

 

ایک اچھا فنکار اسی زبان ہی کی قدروں کی پاسداری کرتے ہوئے زبان کے خدو خال اور بھی گہرے اور دلنشین بنا کر نئے نسل کو متاثر کر سکتا ہے ۔ ورنہ زبان کی باگ حقیر افہام کے ہاتھ لگے تو زبان کا بنیادی ڈھانچہ اور تصویر بگڑی صورت میں بدل جاتا ہے ۔ زبان و ثقافت کی پرورش اور مثبت تبدیلیاں ادباء شعراء کا نہ صرف کام ہے بلکہ ذمہ ذمہ داری ہے ۔اس حفاظت اور تحفظ میں ادباو شعراء کو اپنا جادو جگانا ہوتا ہے۔ تاکہ انے والا نسل غیر شعوری طور پر ان فنی تبدیلیوں کو قبول کرے۔

 

لہزا مزکورہ تشہیر اور پرچار کی مناسبت سے ایک شاعر کے فن کی ریا کے لیے سب سے اہم اور موثر ذریعہ موسیقی ہے۔ اور موسیقی کے لوازمات جتنے جاندار اور صحت مند ہوں اتنا ہی فنکار کو اپنے فن کی تشہیر میں آسانی میسر آسکتی ہے۔ اس طرح موسیقی کی تکاملی عمل پر روک بے پرواہی کا مظہر ہے۔ استاد ادباء کو مخالفت میں دلائیل ڈھونڈنے کے بجائے وہ زنجیر توڑ دینی چاہئے کہ جن سے نہ صرف وہ خود متاثر ہیں بلکہ دوسرے ان شعرا پر بھی چڑھا رکھے ہیں جن سے کہوار زبان وادب کی ارتقاء و نشونما کی امیدیں وابستہ ہیں۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ اس منفی اصول کے کہوار شاعری و موسیقی پر کیا منفی نتائج برآمد ہوئے ۔ یہ کہ کوچہ بازاری اور عامیانہ شاعری کے جتھے نے کہوار موسیقی کے میدان پر قبضہ جمالیا کہ جس پر کہوار معقول شعراء کے ارتقائی دور نشوونما پانے کے امکانات واضح ہو چکے تھے۔

 

 

نوبل کا دور عوام کو غزل دوست بنایا تھا ۔ غزل دوستی کا معاشرے میں مثبت اثرات ہوتے ہیں۔ جس سے نہ صرف عوام میں فلسفیانہ و علمانہ سوچ پنبتا بلکہ کئ علمی و ادبی نظام میں دلچسپی کی راہیں ہموار ہو جاتے ہیں۔ چونکہ غزل میں علمی بصیرت اور گہرائی ہوتی ہے۔ جس کا اثر اسکے چاہنے والے سماج پر بھی براہِ راست پڑ سکتا ہے ۔ لیکن سٹوڈیو کے حوالے سے شعراء پر پابندی کے منفی اثرات یہ نکلے کہ کہوار غزل کی شمع کے اردگرد جو عوامی پروانے جمع ہو چکے تھے۔ وہ شمع اچانک بج گیا اور ان پروانوں کو جدید سٹوڈیو کی جادو اڑا کر لے گیا۔ لیکن سٹوڈیو کے اندر جس نا پختہ ، سوقیانہ اور غیر مہذب شاعری سے پالا پڑا اسی شاعری کی غیر فنکارانہ اور عامیانہ پن کا نہ صرف عوام کو احساس نہیں ہوا بلکہ عوام کہ جن میں پروفیسر ، ڈاکٹر ، انجینئر سب شامل تھے بازاری شاعری سے مانوس ہوگئے ۔ اور جدید سٹوڈیو کی جادو نے انہیں احساس بھی ہونے نہیں دیا کہ وہ ایک نا شائستہ ، نا پختہ غیر فنکارانہ شاعری کے رنگ میں رنگ رہے ہیں۔ جو انہیں ترقی یافتہ دور کے ساتھ اضافی علم و فہم مہیا کرنے کے بجائے مزید علمی پستی کی طرف لےکر جا رہا ہے ۔
اس کے بر عکس اگر سٹوڈیو کے ساتھ نوبل کا تانا بانا چلتا رہتا تو آج غزل ہی کا سلسلہ نہ صحیح دوسرے اصناف میں بھی مہزب اور معیاری شاعری کی لے سے عوام بہ تدریج آشنا ہوتے۔ اور کہوار کا ادبی فضا یکسر مختلف ہوتا۔ بحثیت مجموعی عوامی طبیعت اس شاعری کو جو لاسپور، یرخون ، غزر اور لوٹ کوہ سے لیکر چترال کے دوسرے سرحدی خطوں میں گائی جاتی تھی کی عامیانہ پن سے ایک دم نا مانوسیت و نا آشنائی کو محسوس کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رکارڈنگ کا معیار ایک جیسا تھا لیکن شاعری کا معیار مختلف تھا اور پرانی قدیم شاعری اپنی معیار خود منوا لیتی تھی ۔ حالیہ تبدیلی کے لحاظ سے ہم دورِ نوبل کے شاعری کو فی الحال قدیم کہیں گے۔ کونکہ درمیان میں جدید سٹوڈیو حائل نہ تھا۔ ورنہ نوبل کے دور کی شاعری کو ہم معقول کا نام دیا ہے۔ جو قدیم شاعری سے بلکل الگ معیار میں ہے۔ یوں ہم نے کہوار شاعری کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔

 

ہو سکتا ہے ادوار کی تقسیم درست نہ ہو لیکن یہ بھی ایک الگ موضوع ہے۔ اب اگر رکارڈنگ کا معیار اچھا نہ تھا تو سوقیانہ اور غیر فنکارانہ شاعری کی عامیانہ پن فوراً محسوس ہو جاتا تھا۔ لیکن جدید سٹوڈیو کی اہم معیار اور جدیدیت کے نیچے غیر فنکارانہ شاعری کا سوقیانہ پن آسانی سے چھپ گیا ۔ یوں چترالی عوام پر شاعری کا کم سٹوڈیو کا جادو زیادہ چل گیا ۔ ظاہری بات ہے رکارڈنگ کے حوالے سے جو جدید ٹیکنالوجی ریحانہ اور شاکیرہ کو میسر تھی ایک عام لوک فنکار کو میسر آجاے تو متاثر ہونا غیر فطری بات نہیں ۔ یوں کئ الفاظ اور جملے نا پختہ اور غیر فنکارانہ شاعری کی وجہ سے افلاس کا شکار ہو گئیں ۔

 

لہذا اس قسم کی نا مناسب تنقید غلط رجحانات کو پروان چڑھاتے ہیں۔ اور زبان کو سخت نقصان پہنچاتا ہے۔ تنقید کے لیے منظم گہری شغور اور گہری بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ انیسویں صدی کے اصول حاضر صدی میں چل نہیں سکتے۔ جدید شعراء کی عاقبت اندیشی یہ ہوگی کہ وہ ایسے منفی بیانات کے اثر سے بغاوت کریں ۔اور ذہنی نجات و آزادی حاصل کرنے کا ذریعہ ڈھونڈیں ۔ اس طرح مثبت خیالات کو ابھارا جائے اور منفی سوچوں کو دبا دیا جائے ۔ اکابر شعراء و ادباء کو جو تحفظات نظر ارہے ہیں اس کی علت دراصل یہ نہیں ہے۔ یہ ان کی فکری غلطی ہے۔ اس نظریاتی مداخلت سے نوبل کے شعراء کا وہ مثبت توازن قائم نہ رہ سکا۔ جو ایک ادبی ارتقاء کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔ یہ شعراء ایک لمبے سنہرے دور میں دیر تک خاموش ہیں۔ اور جدید سٹوڈیو میں ترنگیں اور موجیں کرنے والے فنکاروں کا منہ تک رہے ہیں۔ جب یہ جدید ٹیکنالوجی سے منہ موڑے تو ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا ۔ کہ وہ کس موڑ پہ کھڑے ہیں اور کیا کرنا چاہتے ہیں۔

 

کہوار ادب پہ یہ احسان نوبل کا دین تھا کہ اس میں مبازرت کے مواقع میسر تھے۔ کسی زبان وادب پر اس سے بڑا احسان اور کیا ہوگا کہ کوئی تحریک اس کے لیے مبازرت طلبی کے راستے ہموار کر دے۔ نوبل نے شاعری کے جس دلچسپی کو جنم دیا تھا وہ تحریک اگرچکہ پہلے ہی تحلیل ہوچکا تھا۔ لیکن اس کے مثبت اثرات کی بیلیں مظبوطی سے اگے بڑھ رہے تھے۔ لیکن ایسے نظریات و مباحثات نے اس کی جڑیں کاٹ دیں اور جنگلی جھاڑیوں کو بڑھنے کا موقع فراہم کیا ۔

ادارے یا ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں !

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
98307