Chitral Times

Apr 24, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کھوٹے سکے-  تحریر: شہزادہ مبشرالملک

Posted on
شیئر کریں:

کھوٹے سکے-  تحریر: شہزادہ مبشرالملک

سیانے لوگ کہتے آے ہیں۔ کہ انسان کا امتحان لینا ہو تو غریب و لاچار کو دولت۔ناتواں کمزور کو طاقت اور کم ظرف کو اقتدار دیے کر دیکھ لو کہ اسے کیسے نبھاتا ہے۔ میں ایک طویل عرصے سے مغریبی جمہوریت کا سخت ناقد رہا ہوں کیوں کے اسلام اور کلمے کے نام پر وجود میں آنے والے ملک میں یورپ کا سیاسی نظام جو جمہوریت پسندوں کے لگایے گیے۔۔۔ نیم اسلامی۔۔۔ لیبل کے باوجود ہمیشہ مجھے۔۔۔۔ شرعی نظام۔۔۔۔ کا حریف ہی نظر آیا ہے۔اس کے علاوہ۔۔۔ جمہوری حکمرانوں۔۔۔۔ نے اس۔۔۔۔جمہوری بت۔۔۔ کے آگے۔۔۔ سجدہ ریز۔۔۔۔ ہوکر قوم اور ریاست کو جتنا نقصان پہنچایا ہے وہ بیاں سے باہر ہے۔میرے بہت سارے دوست بشمول ڈاکٹر فاروق کے میری اس سوچ سے سخت اختلاف رکھتے ہیں۔ ان ہی آیام کے دوران۔۔۔ مرشد ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی دام براکات۔۔۔ نے ایک کتاب۔۔۔ ایوان صدر میں سولہ سال۔م ب خالد کی عنایت کی تو جمہوریت سے اور بھی گن آنے لگی۔ حضرت قاید نے ایک انٹرویو میں فرمایا تھا۔میں جس جیب میں بھی ہاتھ ڈالتا ہوں۔۔۔ کھوٹے سکے۔۔۔ ہی نکل آتے ہیں۔

 

آج کل عمران خان کے ساتھ جو کھوٹے سیکوں کی سونامی نکل آئی حضرت قاید کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔مفاد پرست۔ خود غرض۔بے ضمیر ٹولہ جو ہر وقت حکمرانوں کو گھیرے میں ہی لیتے آیا ہے۔اسی طرح قاید کو بھی حصار میں لیے رکھا۔ حضرت قاید اور لیاقت علی خان کے مرحوم ہونے کے بعد۔۔۔ پاکستان سے۔۔۔ عشق۔۔۔ رکھنے والوں کا۔۔۔ اختیتام۔۔۔ ہوچکا تھا کچھ حضرات شرافت۔واضع داری کے طفیل گوشہ نیشینی کی دنیا میں چلے گیے۔کچھ بیروکرسی کے مکارانا چالوں سے سایڈ لاین کر دیے گیے ۔ قاید کیمخلص ساتھیوں اور سیاست دانوں میں پنجاب سے۔۔۔ سردار غضنفرعلی۔۔۔۔سرحد سے۔۔۔ سردار عبدرب نشتر۔۔۔۔ موجود تھے لیکن انہیں قایدین کی جانیشنی کے لیے آگے لانے کی بجائے کمزور۔ مصلحت پسند اور ہوس پرست افراد کو اس نازک دور میں اقتدار کی مسند پر جمہوریت کے نام پر بیٹھا کر ملک کو سات سال تک۔۔۔ بے آئین۔۔۔رکھ کر پوری دنیا کو یہ باور کردی گی کہ یہ نالایق۔مفاد پرست اور بے اتفاق لوگ اس قابل نہیں کہ ملک چلاسکیں۔ 54ء میں انہی جمہوریت پسندوں کی فرمایش اور ذاتی خواہش کی تکمیل کے لیے لاہور میں پہلا مارشل لاء لگا دیا گیا۔اور 56ء تک کیء جمہوری حکومتیں آنکھ مچولی کھیلتیں رہیں۔۔۔

 

وزیر اعظم۔۔۔ آئے۔ اور گیے اور اپنی نالایقی کا اعتراف کر کے ائین بنانے کی۔۔۔ فرمایش اور زمہ داری۔۔۔جنرل ایوب خان۔۔۔ پر ڈال دی حالانکہ۔۔۔بھارت۔۔۔ دو سالوں کے اندر ہی اپنا آیین بناکے برطانیہ کی غلامی سے آزادی حاصل کر چکا تھا۔ جمہوری رہنما منت وسماجت کر کے جنرل ایوب خان کے ذریعے مارشل لاء لگا کر۔۔۔۔ جمہوریت۔۔۔ کے۔۔۔ بار گران۔۔۔ سے آزاد ی حاصل کرنے میں کامیاب ہوے اور بعد میں جمہوری گالیاں ایوب کو دینے لگے۔ صدر پاکستان میجر جنرل سکندر میرزا نے بیوی کی فرمایش پر کہ کم بخت خود مارشل لاء ایڈمنسٹرٹر بننے کی بجاے ایوب خان کو کیوں سیاہ وسفد کا مالک بنایا۔اس ایرانی۔۔ خانم۔۔۔ کی زنانی۔۔۔ کے حکم کی تکمیل کے لیے۔۔۔ مارشل ایوب سے ٹکرانے کی ۔۔۔ نواز شریفانہ۔۔۔ کوشش کی۔ صدر سکندر میرزا نے کراچی ایر پورٹ پر نیوی ایرفورس کے ذریعے بنگال سے واپسی پر جنرل ایوب خان کو گرفتار کرنے کا پروگرام بنا کر۔۔۔صدارت۔۔۔۔ سے بھی ہاتھ دھو کر۔۔۔ فرانس۔۔۔ میں جلاوطن ہوے۔شاید اس کامیاب اقدام سے متاثر ہوکے۔۔۔نواز شریف۔۔۔ نے بھی۔۔۔جنرل مشرف۔۔۔ کو اتارتے اتارے۔۔۔ حاجی صاحب۔۔۔ ہوگیے تھے۔

 

جنرل ایوب خان صدارت کے ایوان میں ڈھیرا ڈالنے کے بعد لندن کا سرکاری دورا کیا اور۔۔۔۔ سر آغا خان۔۔۔ جو دل برداشتہ ہوکر پاکستان سے۔۔۔ فرانس۔۔۔ میں مقیم ہوگیے تھے کی فرمایش پر فرانس میں ان سے ملاقات کی۔۔۔۔ سرآغا خان۔۔۔ مرحوم جس نے آپنی دولت پاکستان کے لیے وقف کر رکھی تھی اور ان کی خدمات بھی شاید پاکستان کے لیے سب سے زیادہ تھے مگر۔۔۔۔۔۔مسلکی تعصف۔۔۔۔سیاسی انتشار اور ہوس پرستوں کے ارادوں کو بھاپ کر وہ مایوس ہوکر یہاں سے نکل چکے تھے۔۔۔سر آغا خان۔۔۔ مرحوم پاکستان کی صورت حال اور سیاست دانوں کی کارکردگی پر بہت مغموم تھے۔انہوں نے جنرل ایوب کو دو۔۔۔زرین۔۔۔ مشورے دیے۔کاش ایوب خان ان پر عمل پیرا ہوتے تو پاکستان آج ان حالات سے دوچار نہ ہوتا۔۔سر آغا خان مرحوم نے پہلا مشورہ ایوب خان کو یہ دیا کہ ملک میں۔۔۔۔۔۔صدارتی نظام۔۔۔ ہو کیونکہ یہی۔۔۔قاید اعظم۔۔۔چاہتے تھے اور۔۔۔ اسلامی خلافت۔۔۔ کے یہی نظام قریب ہے۔مغربی جمہوریت سے کبھی بھی اسلام کی جڑھیں مضبوط نہیں ہوسکیں گی۔اس لیے صدارتی نظام لاگو کرو۔ دوسری۔۔۔ قومی زبان۔۔۔ کے طور پر۔۔۔ عربی۔۔۔ کو قومی زبان قرار دو تاکہ اسلامی وحدت قایم ہوسکے اور دین مصطفٶی سے ہم آہنگی اور عرب دنیا سے قربت میں اضافہ ہو ملک میں سندھی۔بلوچی۔پنجابی۔بنگالی۔پٹھان جیسے تعصبات کا خاتمے کا یہی زریعہ ہے۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ۔۔۔ بنگال۔۔۔کو متحط رکھ سکو۔۔ ایوب خان نے وعدہ کیا مگر عمل نہ کر سکے آلبتہ جب۔۔۔ ہوس اقتدار۔۔۔ کا مرض اسے بھی لاحق ہوا تو اپنے لیے۔۔۔صدارتی نظام۔۔۔ لانے کی کوششں کیں مگر اس کے ہاتھ سے وقت نکل چکا تھا۔۔ (جاری ہے)


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
79690